ظلم کی داستان






 بڑی سخت سردی تھی اور چوہدری اکبر کے ڈیرے پر چار عورتیں پورا گلا پھاڑ کر چیخ رہی تھیں۔وجہ ہی ایسی تھی ان چار عورتوں کی شلواریں اتاری ہوئی تھیں۔چمڑے کے بڑے لتر سے چاروں کی بنڈوں پر زور زور سے ٹھکائی جاری تھی۔ہر لتر پر عورتیں چلاتیں اور رحم کی بھیک مانگتیں۔ ان کی بنڈیں سوج کر اور موٹی ہوتی جا رہی تھیں۔

دیکھنے والوں کو بھی اب تو ترس آ رہا تھا مگر چوہدری بڑا فرعون بنا بیٹھا تھا۔ پھر ایک عورت اٹھی اور لتر والے کے سامنے ہتھ جوڑ کر بولی؛ وے کریمیا میری تیری ماں ورگی ہوں کج تے رحم کر۔

 اس بات پر چوہدری ہنسا اور بولا؛ رکنا نہیں کریمیا۔لتر جاری رکھ۔

عورت چوہدری سے بولی؛ رحم کر چوہدری۔تیرے بچے جئیں تو رحم کر مجھ بیوہ پر۔میری کڑیوں پر۔

چوہدری بولا؛ کس گل دا رحم تو نے چوری کی ہے میری فصل سے۔لتر تو پڑیں گے نئیں تے دس کتھے اے میری کپاہ۔

عورت بولی؛ چوہدری کنی واری دساں میرے کول نئیں ہے۔

چوہدری بولا؛ کریمیا لتر پولا فیر کر۔

کریمیا نے دوبارہ جاری کر دیا تو عورت بولی؛ کہ بس کر اب رب دا واسطہ اے چوہدری۔

 چوہدری بولا؛ اک شرط تے۔

عورت ڈر کر بولی؛ کیڑی شرط چوہدری بولا؛ اندر آ جا میرے کول،

عورت شلوار اوپر کر کے پہنچ گئی اور بولی؛ دس مینوں چوہدری۔

 چوہدری بولا؛ تو میرا نقصان بھر دے۔عورت بول کیسے میں تے بیوہ ہوں۔

چوہدری نے خبیث شکل بنا کر کہا پیسہ نہ دے رانو کو اک رات واسطے بھیج دے۔

عورت تڑپ کر بولی؛ نہ نہ چوہدری وہ تو وچاری بچی اے۔

چوہدری مکاری میں بولا؛ بریزر پہنتی ہے اب بچی نئیں اے۔تو اس کو بھیجتی ہے یا ساری کڑیوں کو ایسے ہی لتر پولا کر کے پاڑ دوں۔ عورت روتے ہوئے بولی؛ اچھا بھیج دوں گی۔

چوہدری ہنسا کیونکہ تازہ جوان ہوئی رانو پہ جب سے اس کی نظر پڑی تھی اس نے سارا پلان بنایا تھا اور خود کپاہ چوری کی اور الزام ڈال دیا۔اس کا مقصد پورا ہو گیا تھا اور اب نقصان کی بھرپائی میں اس کو رانو کی سیل پھدی ملنی تھی۔

رانو میٹرک میں پڑھتی تھی۔وہ سکول سے گھر آئی تو اس کی پڑوسن نے اس کو بتایا کہ تمہاری ماں کو چوری کے الزام میں چوہدری کے بندے کھیتوں سے اس کی حویلی لے گئے ہیں۔ساتھ ہی ساتھ کپاہ چننے والی اور کڑیوں کو بھی لے گئے ہیں۔اس نے یہ بھی کہا کہ میں نے سنا ہے کہ چوہدری نے تمہاری ماں کی شلوار اتار کر لتر لگوائے ہیں۔رانو اس بات پر رونے لگی کہ اس کی ماں پر اتنا ظلم ہو رہا تھا۔جس طرح ماں کو دکھ ہوتا اگر اس کی بیٹی کے ساتھ کوئی ظلم ہوتا اسی طرح ماں کے ساتھ ظلم دیکھ کر کر اس کو بھی بڑی تکلیف ہوئی تھی۔

چوہدری کے خاندان سے ویسے ہی سارا گاؤں تنگ تھا۔وہ سارے بڑے کمینے اور بد ذات لوگ تھے۔انہوں نے بد معاش اور غنڈے بھی پالے ہوئے تھے۔

رانو جلدی جلدی گھر سے نکلی کہ وہ اپنے منگیتر انور کے پاس جا کر اس کے ساتھ اپنی ماں کا پتہ کرے۔مگر اس سے پہلے ہی اس کی ماں وہاں آ گئی۔

وہ بڑی مشکل سے چل رہی تھی اور رو رہی تھی۔ماں کو تکلیف میں دیکھ کر بیٹی دوبارہ سے رو پڑی۔ماسی رضیہ یعنی رانو کی ماں بیچاری سے تو بیٹھا بھی نہیں جا رہا تھا۔چوہدری کے کے ڈیرے پر مردوں کے سامنے اس کی شلوار بھی اتار لی گئی تھی۔جس کی وجہ سے وہ اور بھی زیادہ رو رہی تھی۔اردگرد بہت سارے لوگ تھے مگر کسی نے بھی اس کی مدد نہیں کی۔سب چودھری سے بہت ڈرتے تھے۔کسی نے ہمت نہیں کی کہ چوہدری کو کہتے کہ عورتوں کو ننگا نہ کرو۔مگر چوہدری نے اس کے ساتھ ساتھ اور بھی لڑکیاں جو تھی ان سب کو ننگا کرکے کے جوتے مروائے۔دونوں رو رو کر جھولیاں اٹھا کر چوہدری کو بد دعائیں دے رہی تھی۔

رانو ماں سے بولی؛ اماں چل ہم تھانے جا کر چوہدری کے خلاف پرچہ درج کراتے ہیں۔

ماسی رضیہ بولی؛ پتر وہ ابھی چودھری کے بندے موجود ہیں۔کوئی فائدہ نہیں ہونا۔

رانو بولی؛ مگر اماں چوہدری کسی عورت کی شلوار کیسے اتار سکتا ہے۔وہ بھی سب کے سامنے۔

ماسی رضیہ بولی؛ وہ وہ بڑا بندہ ہے وہ کچھ بھی کر سکتا ہے۔یہ بھی شکر ہے کہ اس نے صرف شلوار اتاری ہے۔مجھے اور باقیوں کو پورا ننگا کر دیتا تو بھی کسی نے مدد نہیں کرنی تھی۔

رانو بولی؛ پھر اب کیا کریں۔

اس کی ماں پھر سے رونے لگی اور بولی؛ آج کی رات چوہدری کے ساتھ۔۔

رانو گلا پھاڑ کر چیخی اور بولی؛ نہیں یہ نہیں ہو سکتا۔ میں خود کشی کر لوں گی مگر ایسا نہیں ہونے دوں گی۔

اس کی ماں روتے ہوئے بولی؛ اگر تو نے خودکشی کرلی تو کل وہ ساری کڑیوں کو دوبارہ سے ننگا کرے گا۔ تو صرف اپنا نہیں بانو کا بھی تو سوچ۔ اس کو صرف اور صرف صرف تیرا کنواراپن چاہیے۔

اپنی ماں کی بے بسی اور مجبوری پر رانو رونے لگی مگر اس کے پاس کوئی اور آپشن نہیں تھا۔اچانک اس کو خیال آیا کہ اگر وہ کسی وجہ سے چودھری کی بجاۓ اپنے منگیتر کو انور کو اپنا کنواراپن دے تو۔چودھری حرامی اس کو چودکر بھی اپنا مقصد حاصل نہیں کر سکے گا۔وہ انور کے ساتھ جو کام شادی کے بعد کرنا چاہتی ہے وہ پہلے کرلے گی۔

انور اس کا منگیتر تھا۔دونوں بچپن کے ساتھی بھی تھے اور دونوں میں پیار بھی تھا۔ایک دن وہ کسی شادی پر گئے ہوئے تھے تو واپسی پہ اندھیرا ہوگیا اور وہ اپنی بہن کے ساتھ گھر پر واپس آ رہی تھی تو انور بولا؛ میں تم دونوں کو چھوڑ دیتا ہوں۔

دونوں ساتھ ساتھ چلنے لگے تو کئی بار رانو کو محسوس ہوا کہ انور کا ہاتھ اس کے جسم کو ٹچ ہو رہا ہے۔میں تو اس کو لگا کے ویسے ہی ٹچ ہورہا ہے مگر جب ایک بار انور نے باقاعدہ اس کی ران کو ہاتھ میں پکڑ لیا تو اس کا شکریہ یقین میں بدل گیا کہ انور جان بوجھ کے اس کو ہاتھ لگا رہا ہے۔اگر ان کے ساتھ بانو نہ ہوتی تو رانو اسی وقت انور سے پوچھتی۔مگر اس نے انور کا ہاتھ اپنی ٹانگ سے ہٹا دیا۔انور کو بھی پتہ لگ گیا کہ رانو سمجھ گئی ہے۔

دو چار دن بعد جب جب اس کو انور ملا تو اس نے انور سے پوچھا؛ اچھا تو اس دن مجھے کیوں ہاتھ لگا رہا تھا۔

وہ بولا؛ مجھ سے غلطی سے لگ رہا تھا۔

رانو نے کہا؛ تو مجھے بے وقوف بنا رہا ہے۔

انور ہنسنے لگا؛میری ہونے والی بیوی ہے۔میں تجھے جہاں مرضی ہاتھ لگاؤں تو انکار نہیں کر سکتی۔

انور نے اس کا مما پکڑ لیا تو رونے لگی۔انور ڈر گیا اور اس نے چھوڑ دیا۔

رانو لگی رونے ؛انور زندگی موت کا کچھ پتہ نہیں ہوتا۔نصیب کا بھی کچھ پتہ نہیں ہوتا۔اباجی نے مرنے سے پہلے کہا تھا کہ میرا ویا تیرے سے ہوگا۔ساری بات زبانی کلامی ہے۔جب ہوجائے گا تو تو پھر جو مرضی کرنا۔

انور پریشان ہو گیا اور بولا؛ تو میری نیت پر شک نہ کر۔سب لڑکے لڑکیاں جن کا آپس میں میں زبانی تے ہو جاتا ہے وہ پھر یہ کام کرتے ہیں۔میرے سارے کزن اپنی اپنی اپنی منگیتر کے ساتھ کرتے ہیں۔

وہ بولی؛ مجھے پتہ ہے کہ لڑکیاں بھی کرتی ہے۔مگر میرے سے نہیں ہوگا۔انور بولا؛ اچھا چل اتنا کہہ دے کے مجھے چمی دے دے۔

پہلے تو اس نے سوچا کہ منع کردے پھر اس نے سوچا کہ کہیں شادی کے بعد یہ مجھے اس بات کا طعنہ نہ دے۔

اس نے انور کو کہا؛ اچھا ٹھیک ہے لے لے۔انور نے اس کو کہا اچھا تو چارپائی پر لیٹ جا۔

وہ کہنے لگی؛ نہیں میں نیچے نہیں لیٹنا۔

انور بولا؛ یار اتنا تو مان لے۔

اس کا خراب موڈ دیکھ کر وہ لیٹ گئی۔اوپر لیٹ گیا اور اس کو چوما چاٹی کرنے لگا۔ساتھ ہی اس کی پھدی پہ گھسے لگانے لگی۔

جب انور حد سے زیادہ بڑھ گیا تو رانو رونے لگی اور بولی؛ بس کر نئیں تے شور مچا دوں گی۔

انور تب اترا مگر اس نے ناڑا کھول کر رانو کو اپنا لنڈ باہر نکال کر دکھایا تو دیکھ لے کڑیے تیری سیل اسی سے کھلنی ہے خبردار اگر مجھے معلوم ہوا کہ ایسا نہیں ہے تو تو خود کو قتل سمجھ۔

رانو اس کا دیکھ کر ڈر گئی۔انور اکثر اس کو لٹا کر چڑھنے لگا مگر رانو نے ڈلوانے سے صاف جواب دے دیا تھا ہالاکہ انور کا پورا موڈ ہوتا تھا۔اب جب چوہدری نے شرط رکھی تھی اور رانو کے پاس کوئی راستہ نہیں تھا تو اس کو خیال آیا کہ کیوں نہ انور کو اپنا کنواراپن ضائع کرنے دوں۔یہ سوچ کر وہ ماسی رضیہ سے بولی؛ اماں میں جاتی ہوں تھوڑی دیر بعد آؤں گی۔ماسی رضیہ بولی؛ نہیں تو کہیں مت جانا اگر تو واپس نہ آئی تو چوہدری ہمیں قتل کر دیے گا۔ رانو بولی؛ قسم کھاتی ہوں واپس آ جاؤں گی ابھی جانے دے۔

رانو انور سے ملنے کے لیے گئی مگر اس کو پتہ چلا کہ وہ تو شہر کسی کام سے گیا ہے۔کیا عجیب سی بات تھی پہلے وہ رانو کے پیچھے پڑا رہتا تھا کہ مجھے دو مجھے دو۔اب جبکہ رانو خود چاہتی تھی کہ وہ اس کے ساتھ کر لے وہ شہر گیا ہوا تھا۔ وہ بڑی دیر انتظار کرتی رہی مگر وہ نہ آیا۔شام ہونے والی تھی وہ واپس آ گئی۔

اس کی ماں ماسی رضیہ بستر پہ لیٹی ہوئی تھی اور محلے کی ایک عورت اس کی بنڈ پہ ٹکور کر رہی تھی۔ماسی رضیہ اچھی عورت تھی اور محلے کی عورتیں اس کا بیوہ ہونے کے بعد خیال رکھتی تھی ثواب کا سوچ کر اور سلوک کی وجہ سے بھی۔

بانو بھی پاس بیٹھ کر رو رہی تھی اور وہ لڑکیاں بھی تھیں جو ماسی رضیہ کے ساتھ چنائی کرتی تھیں۔وہ بھی تکلیف میں تھیں۔ماسی رضیہ بولی؛ تو آگئی۔

رانو بولی؛ ہاں جی میں آ گئی۔

ماسی بولی؛ بس تو سب بھول جا اور بانو کو لے کر اپنے کمرے میں جا۔

رات کو جب سب عورتیں چلی گئی تو ماسی رضیہ کمرے میں آ کر بولی؛ بہت بری بات ہے مگر رانو تجھے یہ دکھ سہنا ہو گا ورنہ بانو اور باقی لڑکیوں کی جان کا معاملہ ہے۔

رانو رو کر بولی؛ میرا کیا قصور ہے۔

ماسی دکھ سے بولی؛ تو یتیم ہے اور یہی قصور ہے تیرا۔

رانو اٹھی اور کپڑے بدلنے لگی۔جب فل اندھیرا ہو گیا تو چوہدری کا غنڈا کریمیا آ گیا اور رانو کا ہاتھ پکڑ کر اس کو چادر اوڑھ کر حویلی کے ڈیرے میں لے گیا۔چوہدری کی ایک ملام عورت نے رانو کو روکا اور بولی؛ کپڑے اتار پورے۔

رانو ڈر گئی؛ کیوں چاچی۔

وہ بولی؛ بک بک نہ کر اتار دے۔

رانو پوری ننگی ہو گئی تو وہ بولی؛ تیرے بال صاف کرنے پڑیں گے چوہدری کو بالکل صاف پھدی اور بغلیں پسند ہیں۔بالوں والی بری لگتی ہیں۔اس نے بالصفا پوڈر سے رانو کے سارے بال صاف کیے پھر گلاب کے عرق کے پانی سے رانو کا جسم دھویا اور رانو کو سفید چادر باندھ کر بستر پر بٹھا کر نکل گئی۔

اس وقت چوہدری اکبر آیا۔رانو ننگی بیٹھی ہوئی تھی اور بس سفید چادر سے جسم ڈھکا ہوا تھا۔اس کو بال صاف کرنے والی عورت نے بتا دیا تھا کہ رانو سیل ہے۔چوہدری بڑا خوش تھا اور رانو کے پاس آ کر بیٹھ گیا اور رانو کے گال پر انگلی پھیر کر بولنے لگا؛ تو بالکل رضیہ جیسی لگتی ہے جب وہ سولہ کی تھی تیرے جیسی تھی بس تھوڑا سا فرق ہے تو ذرا زیادہ سوہنی ہے۔

رانو کو بڑا ڈر لگ رہا تھا۔چوہدری نے چادر ہٹا کر رانو کو الف ننگا کر دیا اور بولا؛ تیری ماں نے تجھے کبھی بتایا کہ اس کی سیل میں نے کھولی تھی۔

رانو پہ بم گرا۔چوہدری اکبر نے ماسی رضیہ کی پھدی بھی ماری ہوئی تھی۔

چوہدری بولا؛ میں تب جوان ہوا تھا اور تیری ماں کی بنڈ بڑی پسند آ گئی۔ایک دن اس کو کھیتوں میں روک کر میں نے کہا کہ میرے سے دوستی کر لے فائدہ ہے تیرا۔تو اس نے کہا کہ مر جاؤ گی مگر غلط کام نہیں کروں گی۔میں نے اگلے دن اپنے دو دوستوں کی مدد سے اس کو اٹھا لیا اور بھینسوں کے باڑے میں اس کے ساتھ زیادتی کی۔میرے دوستوں نے اس کے ہتھ اور پیر پکڑے اور میں نے رج رج اس کی پھدی ماری۔وہ میری پہلی کنواری پھدی تھی اور خون نکالنے کا مزا آ گیا۔اس کے بعد میں نے دو چار بار دوبارہ کھیتوں میں اس کے ساتھ چدائی کی۔مگر اس نے ویاہ کر کے کہا کہ اب تو مجھے کچھ نہیں کہہ سکتا۔میں نے اس کو کہا اب تیرے اندر کوئی اور مرد گند ڈالتا ہے مجھے تجھ میں دلچسپی نہیں ہے۔تیری بیٹی ہو گی تو اس کو چودوں گا۔اور دے لے اٹھارہ سال بعد تو ننگی میرے سامنے بیٹھی ہے۔تیرے بعد میں نے دو چار سال بعد تیری بہن بانو کی بھی پھدی چودنی ہے۔

چوہدری نے لن نکال کر رانو کے سامنے کیا تو اس کا سانس خشک ہو گیا۔اس کا انور سے لمبا اور بہت موٹا تھا۔چوہدری نے رانو کو لٹا دیا اور اوپر چڑھ گیا۔وہ رانو کے منہ کو چومنے لگا اور رانو ہلکا ہلکا رونے لگی۔

رانو کا دل دھک دھک کرنے لگا کیونکہ چوہدری اکبر اس کے اوپر چڑھا ہوا تھا اور اس کی پھدی میں لن ڈالنے والا تھا۔رانو نے خوف سے آنکھیں بند کر لی۔کیونکہ وہ چوہدری کا منہ نہیں دیکھنا چاہتی تھی۔اس کو چوہدری سے غلاظت محسوس ہو رہی تھی جس نے اس کی ماں کا کنواراپن ضائع کیا تھا اور اس کی معصوم بہن کا بھی ضائع کرنا چاہتا تھا۔اچانک دروازہ بجنے لگا۔

چوہدری کا لنڈ اس کی پھدی کے منہ پر رکھا ہوا تھا وہ رک گیا۔اس نے سر اٹھا کر دیکھا اور غصے سے بولا مادر چود پتا بھی ہے کہ میں کام میں مصروف ہو کیوں کھٹکا رہے ہو۔

باہر سے کریمیا بولا چوہدری جی زمینوں پر رولا ہو گیا ہے۔دس بارہ بندوں کے سر پھٹ گئی ہیں اور لڑائی ہو گئی ہے۔جلدی چلو جی۔

چوہدری بولا اچھا ایک منٹ بس ایک منٹ۔

اس نے لنڈ رانو کی پھدی پر سیٹ کیا اور گھسانے کی کوشش کی مگر لنڈ اس کی ٹائیٹ پھدی میں نہ گھس سکا۔چوہدری رانو کو بولا ٹانگوں کو کھول۔

رانو نے کھول دیا تو چوہدری نے دوبارہ کوشش کی مگر لنڈ نہ گھسا۔چوہدری کا لن موٹا تھا اور پھدی کا سوراخ ابھی تنگ تھا اور سیل بھی سلامت تھی۔چوہدری کو بڑا غصہ آیا وہ اٹھ گیا اور کریمیا کو بولا اندر آ جا۔

وہ اندر آ گیا تو چوہدری بولا تو اس کڑی کو واپس لے جا اور اس پہ پہرا دے کہ اس کی سیل نہ خراب ہو۔

رانو کو بڑی شرم آئی کیونکہ وہ پوری ننگا بستر پر پڑی تھی اور کریمیا اندر آ گیا تھا۔مگر اس نے رانو کو دیکھا نہیں تھا۔وہ بس زمین کو دیکھ رہا تھا۔اس کی جرات نہیں تھی کہ چوہدری کی عورت کو دیکھ سکے۔اس کا کام چوہدری کے لیے لائی گئی پھدی کی حفاظت کرنا تھا۔چوہدری نے کپڑے پہنے اور چلا گیا۔رانو بولی میرے کپڑے کہاں ہیں؟

کریمیا بولا مینوں کی پتا۔کہاں اتارے تھے تو نے؟

رانو بولی اندر والے کوٹھے میں۔

کریمیا بولا جا وہیں پہ لبھ۔

رانو کو کپڑے مل گئے تو کریمیا اس کو گھر تک چھوڑ آیا۔اس کی ماں صحن میں رو رہی تھی۔رانو آئی تو دونوں رونے لگی۔رضیہ بولی مجھے معاف کر دے۔

رانو بولی اماں اوپر والے نے بچا لیا۔میری عزت بچ گئی۔چوہدری و عین وقت پر کسی جھگڑے کی وجہ سے زمین پر جانا پڑا۔

رضیہ رو رو جھولی اٹھا کر شکر ادا کرنے لگی تو رانو بولی اماں تو نے یہ نہیں بتایا کہ چوہدری نے تیرے ساتھ بھی زیادتی کی تھی۔

ماسی رضیہ کا سانس خشک ہو گیا۔وہ بولی یہ کس نے کہا۔

رانو بولی چوہدری اکبر نے کہا۔

رضیہ رونے لگی کہ چوہدری نے میری عزت میری بیٹی کے سامنے اتار دی۔

رانو بولی وہ کہتا ہے کہ وہ بانو کے جوان ہوتے ہی اس کی عزت بھی لوٹ لے گا۔

رضیہ رونے لگی اور بددعائیں دینے لگی۔ دروازہ کھلا اور انور آ گیا۔ رانو کی جان میں جان آ گئی اور وہ انور کے پاس گئی مگر اس نے رانو کے منہ پر تھپڑ مار دیا اور بولا حرامزادی کتی لٹا دی عزت تھوڑے سے پیسے کے لئے۔

رانو منہ پر ہاتھ رکھ کر اس کو دیکھ رہی تھی۔اسکو یقین نہیں آ رہا تھا کہ انور اس کو تھپڑ مار سکتا ہے اور کس بات پر وہ تو پتا ہی نہیں تھا۔وہ حیرانی سے انور کو تک رہی تھی۔ماسی رضیہ بھی بولی وے انور تو نے میری دھی کو کیوں ماریا۔

انور بولا بند کر بکواس لالچی بڑھیا۔
اپنے تھپڑ پہ رانو چپ ہو گئی تھی ہالاکہ اس کو بہت ذلت اور تکلیف ہوئی تھی مگر انور نے جب ماں سے بدتمیزی کی تو رانو کو بھی غصہ آیا۔وہ بولی اوئے انور تمیز سے بات کر۔میری ماں سے بدتمیزی نہ کرنا سمجھا۔
انور بولا تو اور کیا کروں۔تیری ماں نائیکہ ہے جس نے تجھے چوہدری اکبر سے یہوا دیا ہے اور پیسے کھرے کر لیے ہیں۔
رانو غصے سے بولی بکواس نہ کر انور۔ایسی کوئی بات نہیں ہے۔
انور بولا مجھے سب معلوم ہو گیا ہے۔میں نے خود اپنی آنکھوں سے تجھے کریمیا کے ساتھ حویلی جاتے اور پھر واپس آتے دیکھا ہے۔
رانو بولی چوہدری اکبر نے ماں پہ ظلم کیا تھا اور مجبور کیا تھا کہ مجھے حویلی بھیجے مگر میرے ساتھ کچھ غلط نہیں ہوا۔قسم لے لے۔
انور بولا بکواس نہ کر چوہدری اکبر جب کسی عورت کو حویلی میں بلاتا ہے تو اس کی پھدی مارے بغیر نہیں بھیجتا۔تجھے بھی چودے بغیر نہیں بھیجا ہو گا۔
رانو روتے ہوئے بولی نہیں انور یقین کر ایسی بات نہیں ہے۔
انور بولا سب سچ ہے تو کتنا جھوٹ بولے گی۔
ماسی رضیہ بھی بولی واقعی پتر یہ سچ بول رہی ہے۔
انور بولا اس چوہدری کے پاس جا کر کوئی کڑی ایسے واپس نہیں آئی۔میں پنڈ کی کئی کڑیوں کو جانتا ہوں جن کو چوہدری نے چودا ہوا ہے۔
دونوں ماں بیٹی کو بڑی شرم آ رہی تھی کہ انور ان کے سامنے پھدی اور چودنے کی بات کر رہا تھا اور کہہ رہا تھا کہ رانو نے پھدی مروا لی ہے۔جبکہ رانو کی عزت ابھی سلامت تھی۔
انور بولا میں تم دونوں سے نفرت کرتا ہوں اور سارے پنڈ کو بتاؤنگا کہ دونوں ماں بیٹی رنڈیاں ہیں۔
وہ جانے لگی تو رانو بولی رک جا انور۔تجھے ثبوت چاہیئے نا۔ادھر آ۔
اس نے انور کو بلایا اور شلوار اتار کر بولی لے دیکھ لے۔میں ابھی تک کنواری ہوں۔
ماسی رضیہ کے بھاگ کر اس کی شلوار اوپر کرنے کی کوشش کی مگر رانو بولی رک جا اماں۔دیکھ لے انور۔تو خود بھی اس کو دیکھنا چاہتا تھا نا۔تو نے ایک دو واری اس کے اوپر گھسے بھی لگائے تھے۔مجھ سے ناراض بھی ہوا تھا کہ میں دیتی نہیں تھی۔اب دیکھ لے،میں ماں کے سامنے تجھے دکھا رہی ہوں۔تو بےشک اپنی ماں کو ساتھ لے آ وہ گواہی دے گی کہ میں نے یہ کام نہیں کیا۔
انور سخت شرمندگی سے بولا تو پھر کریمیا کیوں آیا تھا؟
رانو بولی چوہدری اکبر نے مجھے حویلی میں اپنی بیٹی کو ریاضی پڑھانے کا بولا تھا۔آج میں اماں سے چوری والے مسلئے کی سفارش کے لیے گئی تھی۔
انور شرم سے بولا شلوار اوپر کر لے مجھے شرمندہ نہ کر۔مجھے معاف کر دے ماسی۔
اس کو یہ بھی شرم تھی کہ ماسی کو اس کی رانو سے پھدی دینے والی بات کا بھی پتا چل گیا ہے۔رانو ابھی بھی نہ بتاتی اگر وہ کمینگی نہ کرتا۔انور بولا میں جلد ویاہ کا کہتا ہوں ماسی۔
ماسی رضیہ بولی اچھا تو جا۔
اس کے جانے کے بعد بولی تو نے انور والی بات مجھے پہلے کیوں نہیں بتائی کہ وہ تجھ سے مانگتا تھا؟
رانو بولی ہر انسان کی کچھ ذاتی باتیں ہوتی ہیں۔تو نے بھی چوہدری والی بات نہیں بتائی تھی۔
ماسی رضیہ بولی وہ تو پرانی بات ہے اور دوسرا وہ کونسا اچھی بات تھی اور تجھے بتانا ضروری نہیں تھا۔مگر ایک منڈا تجھ سے مانگے۔۔تو اس کی شکایت نہ لگائے یہ تو غلط بات ہے۔اگر وہ سچ مچ کر دیتا تو پھر تو کیا کرتی؟وہ تو اس کو داؤ نہیں ملا مگر وہ کسی دن موقع پا کر کر دیتا۔تو کونسا طاقت میں اس کا مقابلہ کر لیتی۔تو بس رو پیٹ کر چپ کر لیتی۔اور ہو سکتا ہے کہ بچہ بھی ہو جاتا۔
رانو بولی میں نے اس کی ضد کے باوجود اس کو ہان نہیں کی تھی مگر تیری وجہ سے چوہدری کو ہاں کہنا پڑ گئی۔
ماسی بولی تو فکر نہ کر۔چوہدری نے ایک رات کا کہا تھا،رات گزر گئی ہے۔اب اگلا دن نکل آیا۔اس کے ساتھ کی گئی بات مکمل۔اس نے نہیں کچھ کیا تو یہ اس کا فعل۔میں نے تو اپنی بیٹی بھیج دی تھی۔

رانو سے اس کی ماں رضیہ ناراض ہو گئی۔کیوں کہ اس نے اس سے انور والی بات چھپا لی تھی۔اس کو غصہ تھا کہ اگر انور نے اس سے اس قسم کی گندی بات کی تھی یا گندی حرکت کی تھی تو وہ اس کو ضرور بتاتی۔اس سے زیادہ غصہ اس بات کا بھی تھا کہ رانو انور کے اوپر لٹاتی تھی اور انور اس کو گھسے لگاتا تھا۔

صبح ناشتے کے وقت اس نے رانو سے پوچھا تو مجھے سچ سچ بتا دے تیرے اور انور کے درمیان اور کیا کیا ہوا ہے؟

رانو بولی اماں جو ہوا تھا وہ بتا دیا میں نے۔

ماسی رضیہ بولی تو نے اس کے سامنے شلوار اتار دی۔مجھے تو بڑی شرم آئی اس کا مطلب تیرے اور اس کے بیچ معاملہ بہت آگے کا تھا۔

رانو بولی وہ مجھ سے ضد کرتا تھا کہ میں اس کو دے دوں۔مگر میں نے اس کی بات کبھی نہیں مانی۔ایک دو بار ضد کرنے پر میں اس کے ساتھ لیٹ گئی تھی۔میں نے کبھی اس کو اپنے کپڑے اتارنے نہیں دیے۔چاہے وہ اس پر ناراض ہی کیوں نہ ہو جائے۔ہاں مگر وہ میرے سامنے نکال لیتا تھا۔

ماسی بولی تو پیچھے رہ کیا گیا؟ ویاہ سے پہلے ہی سب ہو تو گیا۔بس اندر ڈالنا بچ گیا تھا وہ کسی بھی کسی دن ہو جاتا۔تو جیسے اس کے نیچے لیٹنے اور اس کا دیکھنے پر راضی ہو گئی کب تک منع کرتی۔جس نے منع کرنا ہوتا ہے وہ سیدھا اپنے گھر جا کر شکایت لگاتی ہے۔مجھے تیرے سے یہ امید نہیں تھی۔

رانو بولی اماں امید کی بات نہ کر۔مجھے امید تھی کہ تو مجھے چوہدری کے ساتھ سونے کا کہے گی۔تو نے کوئی اور راستہ نہیں نکالا اور چپ چاپ راضی ہو گی۔جیسے تو مجبور تھی میں بھی مجبور ہوگئی تھی۔

ماسی بولی کس بات کی مجبوری تو کونسا اس کی منگ ہے۔بس بچپن میں زبانی بات چیت ہوئی تھی۔وہ کھسم تو نہیں ہے تیرا۔

رانو بولی جب چوہدری نے تیری کی تھی تو نے گھر اپنی ماں کو بتایا تھا؟

ماسی رضیہ بولی بکواس نہ کر۔میں تیرے جیسی نہیں تھی کہ بندوں کے نیچے لیٹنے کو مان جاتی۔چوہدری نے عزت لوٹی تھی میری دو بندوں کی مدد سے۔میں نے ماں کو بتایا تھا اور وہ بہت روئی تھی اور اس نے فوراً میرے ویاہ کا انتظام شروع کر دیا۔کہیں چوہدری کی حرامزدگی کے بعد مجھے بچہ نہ ہو جائے۔مگر اچھا ہوا کہ میں بچی رہی۔
چوہدری بھی اس وقت سولہ سال کا تھا اور ابھی پورا مرد نہیں بنا تھا تو اس لیے مجھے ماں نہ بنا سکا۔

رانو بولی اماں ہمیں کچھ نہ کچھ کرنا چاہیے۔اتنی آسانی سے چوہدری کے سامنے ہتھیار نہیں ڈالنے چاہیے۔

ماسی رضیہ بولی تو یہ بتا کہ تو کل کہان گئی تھی؟

رانو بولی میں انور سے مدد کے لیے گئی تھی مگر وہ گھر پہ نہیں تھا۔

ماسی رضیہ بولی اگر تو اس کو بولتی تو بھی وہ مدد نہ کرتا۔الٹا تو نے دیکھ لیا اس نے رات کو کیا کیا۔میں نے کتنی لڑکیوں کو دیکھا ہے کہ جنہوں نے منگ یا کزن کو دی اور امید رکھی کہ وہ ساتھ نبھائیں گے۔مگر وہ بچہ ہو جانے کے بعد مکر جاتے ہیں۔اگر چوہدری کا پتا چلے تو پھر تو اس نے خود تجھے چھوڑ کر آنا ہے کہ یہ لو چوہدری صاحب کر لو میری منگ یا عورت کے ساتھ۔

رانو دکھ سے بولی انور ایسا نہیں ہے۔

ماسی رضیہ بولی تو دنیا اور مردوں کو نہیں جانتی۔سب ایسا کرتے ہیں۔اب میں چوہدری سے بات کروں گی اور اس کو ٹالنے کی کوشش کروں گی۔شاید کوئی راستہ نکل آئے۔

شام کو چوہدری کا بندہ آیا تو رانو کی بجائے ماسی رضیہ خود اس کے ساتھ حویلی چلی گئی۔چوہدری اس کو دیکھ کر بولا تو کیوں آ گیا۔تیری بیٹی کہاں ہے؟

ماسی رضیہ بولی وہ تو کل رات آئی تھی۔میں نے زبان پوری کی۔تو بھی اپنی بات سے نہ پھر۔

چوہدری ہنسا اور بولا واہ رضیہ تو جوانی کی طرح بڑی اتھری ہے۔تیری بیٹی بھی ننگی ہو کر تیری ہی جیسی ہے۔بس اس کا قد لمبا ہے اور ممے تجھ سے تھوڑے کم ہیں۔

چوہدری نے اپنا لن نکالا اور رضیہ کو دکھا کر بولا یہ یاد ہے یا بھول گیا؟

رضیہ بولی یاد ہے عورت پہلا کبھی نہیں بھولتی۔اسی سے تو نے میری عزت لوٹی تھی۔

چوہدری ہنسا اور بولا تو پیار سے مان جاتی تو میں زبردستی نہ کرتا۔پر تو نے مجھے طیش دلایا۔دیکھ اٹھارہ سال بعد تو نے خود اپنی بیٹی میرے پاس بھیجی۔

ماسی رضیہ بولی تو میرے ساتھ ضد کیوں کر رہا ہے۔

چوہدری ہنس کر بولا ضد نہیں ہے جیسے تو پسند آ گئی تھی تیری بیٹی بھی پسند آ گئی ہے۔مجھے پتا ہے کہ تو نے دو سال بعد اس کا ویاہ کرنا ہے مگر یاد رکھنا۔اس کی سیل میں کھولوں گا۔چاہے مجھے پھر سے کوئی چال چلنی پڑے۔میں چاہوں تو ابھی زبردستی اٹھا لوں تو کوئی میری جوئں نہ پٹ سکتا۔مگر مزا آتا ہے کہ ماں اپنی بیٹی کو خود بھیجے کہ جا چوہدری سے کھلوا کر آ۔

اسی وقت وہاں ایک اور لڑکی آ گئی۔رضیہ حیران رہ گئی۔چوہدری بولا یہ دیکھ تو نے اپنی بیٹی نہیں بھیجی میں نے آج رات دوسری کڑی منگوا لی ہے۔

وہ کڑی انور کی بہن نوری تھی۔وہ ویاہی ہوئی تھی اور اس کے پیٹ میں تین مہینے کا بچہ بھی تھا۔چوہدری بولا یہ آج رات میرے نیچے ہو گی۔

رضیہ رو کر بولی چوہدری اکبر بس کر رحم کر۔یہ تو گھر والی ہے اور پیٹ سے ہے۔

چوہدری بولا اس کو پیٹ سے میں نے کیا ہے۔تجھے بھی تیری اس چالبازی کا مزا چکھاؤں گا۔تیری بیٹی کو میں نہ صرف چودوں گا بلکہ پیٹ سے کر کے ناجائز بچے پیدا کراؤں گا۔انتظار کر تو نے بےایمانی کر کے مجھے مجبور کر دیا ہے کہ تیری دونوں بیٹیوں کو میں رنڈیوں کی طرح رکھوں۔

ماسی رضیہ واپس آ گئی اور اپنی چالاکی پہ اس کو مزید مشکل نظر آ رہی تھی۔

ماسی جب گھر پر آئیں تو دونوں بہنیں ساتھ بیٹھی ہوئی تھی۔ماں کی اتری ہوئی شکل دیکھ کر حیران و پریشان ہوگی۔اس نے اپنی چھوٹی بہن کو کہا تم اندر چلی جاؤ میں نے ماں سے بات کرنی ہے۔

بانو اٹھ کر کمرے میں چلی گئی۔رانو اپنی ماما سی رضیہ سے بولی کیا ہوا اماں تو اتنی پریشان کیوں ہے۔چودھری نے کیا کہا۔اس سے کوئی اچھی امید تو ہرگز نہیں ہے۔اس میں کوئی گندی اور غلیظ بات ہی کی ہوگی۔

ماسی رضیا اس سے بولی انور کل جو بات کر رہا تھا تم سمجھی۔وہ جو اتنے یقین سے کہہ رہا تھا کہ چوہدری کے گھر جانے والی لڑکی کے ساتھ کیا ہوتا ہے۔وہ اس لیے کہہ رہا تھا کہ اس کی اپنی بہن کو چوہد ری اپنے پاس بلا لیتا ہے۔اس نے اس کو کو پیٹ سے بھی کر دیا ہے۔وہ کمینہ تیرے اوپر تو رعب جمانے آگیا۔اپنی بہن کی باری اس کی غیرت کہاں گئی۔اگر کل تو اس کے پاس جاتی اور مدد مانگتی تو وہ خود تجھے چوہدری کے پاس چھوڑ دیتا۔

رانو حیرت سے پریشان ہو کر بولی مگر وہ تو شادی شدہ ہے۔

ماسی رضیہ بولی وہ شادی چودھری کا گناہ چھپانے کے لئے کی ہوئی ہے۔حقیقت میں وہ بھی چوہدری کے نیچے ہی رہتی ہے۔جب اس کے ماں باپ کو پتا چلا ہو گا کہ چوہدری نے اس کو پیٹ سے کر دیا ہے تو انھوں نے اس کا ویاہ کر دیا ہو گا۔

رانو بولی اب کیا کریں یہ تو مسئلہ اور بھی خراب ہے۔

ماسی رضیہ بولی ایک بات تو طے ہے کہ ہم لوگ چودھری سے لڑ نہیں سکتے۔اگر چوہدری کا ارادہ ہے کہ کہ کسی لڑکی کی عزت لوٹ لے تو اس کے پاس کئی طریقے ہیں کہ لڑکی خود چل کر اس کے پاس چلی جاتی ہے۔چوہدری کسی لڑکی کو اغوا کرکے اس کے ساتھ زیادتی کرنے کی بجائے اس کو خود اپنے پاس بلا لیتا ہے۔بالکل ویسے ہی جیسے تجھے بلایا تھا۔

رانو نے کہا کیا ہم گاؤں چھوڑ کر نہیں جا سکتے۔

ماسی رضیہ بولی نہیں ہم گاؤں چھوڑ کر نہیں جا سکتے ہمارے پاس بس یہ ایک مکان اور تھوڑی سی زمین ہے۔یہ چوری چھپے تو بک نہیں سکتے۔چوہدری کو پتہ چل جائے گا۔

ماسی زمین پر بیٹھ کر رونے لگی اور بولی سچ بات یہ ہے کہ چوہدری سے میں تیری اور بانو کی عزت نہیں بچا سکتی۔

رانو بولی اماں کوئی تو راستہ ہو گا تو سوچ تو سہی۔

ماسی رضیہ بولی کوئی راستہ نہیں ہے۔چوہدریوں سے عزت بچانا مشکل کا م ہے اور تو تو پھر بھی یتیم ہے،نوری کا تو بھائی اور باپ زندہ ہے، وہ بھی چوہدری کے نیچے پڑی رہتی ہے۔

رانو بولی کیا چوہدری نے مجھ کو آج رات بلایا ہے۔

ماسی بولی نہیں اس کو اس بات کا رنج ہے کہ میں نے تجھے اس کے پاس کیوں نہیں بھیجا اور یہ چکر کیوں دیا کہ اس نے ایک رات کا کہا تھا اور وہ رات گزر گئی۔اب وہ کہتا ہے کہ وہ اس کا بدلہ خود لے گا۔

ماسی روتے ہوئے بولی اس کمینے کی نظر تیرے ساتھ ساتب بانو پہ بھی ہے وہ تو ابھی بچی ہے۔مجھے سمجھ نہیں آتی وہ غرق کیوں نہیں ہو جاتا۔

رانو بھی پریشان ہو گئی اور ماں سے بولی اماں بس ایک بات بتا دے کہ جب وہ اندر کرے گا تو درد ہو گا۔

ماسی آنسو صاف کرتے ہوئے بولی ہاں درد ہو گا اور بہت درد ہو گا۔مگر تو حوصلہ کرنا،اگر تو چوہدری کے چنگل میں پھنس جائے تو اس کا مقابلہ نہ کرنا۔چپ چاپ اس کو اپنی ہوس مٹانے دینا۔وہ اگر بگڑ گیا تو ۔۔۔پتا نہیں کیا کرے تیرے ساتھ۔

رانو اور بھی ڈر گئی۔وہ شام کو گھر سے نکلی تو اس کو نوری مل گئی۔نوری کی شادی کو دو مہینے ہوئے تھے اور جس سے شادی ہوئی تھی وہ بھی حویلی میں تھا۔رانو اس سے بولی اماں نے مجھے بتایا کہ تو چوہدری کے پاس جاتی ہے۔

نوری نے اس کا ہاتھ پکڑا اور بولی رب دا واسطہ کسی کو بتانا نہ۔تیری ماں کو پتا چل گیا ہے اور اس نے تجھے بتا دیا۔اب تو کسی کو نہ بتانا۔

رانو بولی یہ کب سے چل رہا ہے۔

نوری رونے لگی اور بولی جب میں تیری عمر کی تھی۔چار سال ہو گئے ہیں۔

رانو حیران ہوئی اور بولی مگر یہ ہوا کیسے؟

وہ بولی میں گھر جا رہی تھی کہ چوہدری ملا۔اس نے مجھ سے کہا کہ تو کس کی بیٹی ہے۔میں نے نام بتایا تو بولا اس نے میرا پچاس ہزار دینا ہے۔اس کو کہنا رات سے پہلے دے دے،ورنہ صبح اس کی کھال اتار دوں گا۔میں نے کہا کہ ابے کے پاس ابھی پیسے نہیں ہیں۔فصل کے بعد دے گا۔وہ ہنسا اور بولا تو باپ کی سفارش کر رہی ہے چل مان لیتا ہوں تیری۔کل حویلی آنا۔

اگلی دن میں حویلی گئی تو اس نے مجھے بٹھا لیا اور بولا تو نے پھدی مروائی ہوئی ہے یا نہیں؟ میں نے کہا نہیں۔اس ن کہا کہ کبھی مرد کا لنڈ دیکھا ہے؟میں نے کہا ہاں دیکھا ہے،گاؤں کے ایک لڑکے نے دکھایا تھا اور مجھے تنگ بھی کیا تھا۔وہ بولا اس کا نام بتا،اب سے وہ تنگ نہیں کرے گا۔میں نے اس کا نام بتا دیا۔چوہدری بولا تو مجھ سے دوستی کر لے تجھے نئی سونے کی بالیاں دوں گا۔میں بولی نہیں چوہدری صاحب مجھے ڈر لگتا ہے توڈا بہت بڑا ہو گا۔وہ ہنس کر بولا نہیں اتنا بڑا نہیں ہے۔اس نے نکال کر مجھے دکھایا اور بولا اپنی شلوار اتار کر دکھاؤ۔ میں اس سے بہت ڈرتی تھی،میں نے شلوار اتار دی۔اس نے لنڈ میری پھدی پہ رکھ کر رگڑا۔میں رونے لگ گئی تو اس نے لن ہٹا لیا۔

وہ بولا ابھی نہیں جب تو کہے گی تب ڈالو گا۔وہ روز مجھے بلاتا،میری شلوار اتارتا پھدی پہ لن رکھتا اور مجھے چمیاں کرتا۔میں دھیرے دھیرے گرم ہونے لگی اور چوہدری مجھے اچھا لگنے لگا،میں یہ خواب دیکھنے لگی کہ میں چوہدری کی بیوی بن سکتی ہوں۔وہ مجھ سے دس پندرہ سال بڑا تھا اور شادی شدہ تھا مگر مجھے کوئی مسلئہ نہیں تھا۔پہلے وہ مجھے سامنے بٹھا کر پھدی اور لن جوڑتا تھا،ایک دن میں نے اس کو کہا کہ تسی میرے اوپر چڑھ جاؤ۔جس لڑکے کی میں نے شکایت لگائی تھی۔وہ بھی دو چار بار میرے اوپر چڑھا تھا۔اس نے زبردستی کرنے کی کوشش کی تھی کھیتوں میں۔اس لیے مجےمعلوم تھا کہ لڑکی کو مزا نیچے لیٹ کر آتا ہے۔ 

چوہدری نےمیرے سارے کپڑے اتارے اور میرے ساتھ وہی کام کرنے لگا تو میں نے کہہ دیا۔چوہدری صاحب آج اندر ڈال دو۔چوہدری نے لن پہ تیل لگایا اور میری ٹانگیں کھلوا کر جب جھٹکا دیا تو میری چیخ نکل گئی۔وہ پہلے آرام آرام سے کرتا رہا پھر جب لن رواں ہو گیا تو اس نے اپنی سپیڈ تیز کر دی۔کچھ دیر تو میں درد محسوس کرتی رہی پھر چوہدری کے پیار کرنے اور مجھے بہلانے سے میں بہتر ہو گئی۔چوہدری اندر فارغ ہو گیا۔

مجھے رونا آ رہا تھا مگر سونے کی بالیاں دیکھ کر رونا بند ہو گیا۔بس اس دن کے بعد میں ہر روز چوہدری کے پاس پہنچ جاتی اور وہ مجھے لٹا کر پھدی مارنے لگا۔دھیرے دھیرے مجھے معلوم ہونے لگا کہ میں اکیلی نہیں ہوں۔گاؤں کی ہر اچھی شکل والی کڑی چوہدری سے ہی سیل کھلواتی ہے۔اگر انکار کر دے تو چوہدری بدمعاشی پہ اتر آتا ہے۔

میرے باپ کو پتا چل گیا،اس نے مجھے مارا تو چوہدری نے اپنے بندوں سے میرے باپ کو اٹھوا لیا اور دھمکی دی کہ اگر مجھے بھیجوانے میں اڑی بازی کی تو میرے بھائی اور باپ کو قتل کرا دے گا۔اس کے بعد میرا بھائی خود مجھے حویلی چھوڑ کر جاتا ہے جب جب چوہدری کا حکم ہوتا ہے۔میرے پیٹ میں اسی کا بچہ ہے اور میرا کھسم بھی اس کا نوکر ہے۔چوہدری کے حکم پہ میں اس کی نام کی ووہٹی ہوں اور اصل میں اب کھسم میرا چوہدری کے پاس لے جاتا ہے۔مجھے دیکھنے کی بھی اجازت نہیں ہے میرے کھسم کو۔میرے جسم پہ بس چوہدری کا حق ہے۔

رانو کا دل دھک دھک کر رہا تھا۔نوری بولی یہ سب تو چھوڑ تو اپنے گھر کی فکر کر۔

رانو بولی کیا مطلب

نوری بولی تو اپنی بہن سے پوچھ کیا مطلب۔

رانو کا رنگ زرد ہو گیا۔اس پہ آسمان گر پڑا۔وہ بولی کیا مطلب تو بتا۔

وہ بولی تو خود پوچھ لے تو بہتر ہے۔

نوری چلی گئی اور رانو اپنے گھر کی طرف گئے تو راستے میں اس کا راستہ انور نے روک لیا۔اس نے رانو کا ہاتھ پکڑا اور کھیتوں مین لے گیا۔اس نے رانو کو فصل میں گرایا اور بولا تو میری منگ ہے تیری پھدی پہ میرا حق ہے۔

یہ کہہ کر اس نے شلوار اتار کر لن نکال لیا اور رانو پہ چڑھ گیا۔رانو زور لگانے لگی اور خود کو چھڑانے کی کوشش کرنے لگی۔انور نے اس کی شلوار نوچ کر پھینک دی اور پھدی پہ لنڈ رکھ کے بولا تو میری ہے رانو۔

رانو چلائی خبردار تجھے رب دا واسطہ انور،اندر نہ ڈالنا۔میں مر جاؤں گی۔

مگر انور نے جھٹکا مارا اور رانو کی چیخ نکل گئی۔

اس لڑکے کا نام اشفاق تھا اور اس کی ایک سہیلی تھی جس کا نام سلمیٰ تھا۔اشفاق سلمہ کی لینے کی کوشش میں تھا مگر اس نے اشفاق کو ہمیشہ اوپر سے رکھنے دیا تھا اندر نہیں ڈالنے دیا تھا۔پھر ایک بار اس کی بانو سے دوستی ہوئی تو بانو نے اسے شہر سے باہر ایک گنے کے کھیت میں پھدی مارنے دی تھی۔اس کے بعد بانو کو خود بھی مزہ نہیں آیا تو اس نے اشفاق سے ملنا ملانا چھوڑ دیا۔اس طرح وہ معاملہ شروع ہو کر ختم ہو گیا۔دونوں کی ملاقات بھی نہیں ہوئی تھی تو وہ بات وہیں پہ رہ گئی۔اشفاق اس کو بہت خوشی سے دیکھ کر بولا بہت دنوں بعد تمہیں دیکھا ہے۔تم سے ملاقات ہی نہیں ہوئی۔
بانو بولی میں تو شہر آتی جاتی رہتی ہوں۔بس میں اب اس پارک میں دوبارہ نہیں جاتی وہاں آوارہ اور اوباش لوگ ہوتے ہیں جو اکیلی لڑکی کو تنگ کرتے ہیں۔
اشفاق بولا میں تمہیں ڈھونڈنے کے لیے کئی بار وہاں گیا تھا مگر تم دوبارہ ملی ہی نہیں۔میرے پاس تم سے رابطہ کرنے کا کوئی طریقہ بھی نہیں تھا۔نہ کوئی پتہ معلوم تھا۔
بانو بولی چلو خیر کیا کام تھا؟
بانو کو خود بھی معلوم تھا کہ کیا کام ہو سکتا ہے۔نادر کی طرح اس کو بھی ایک ہی کام ہو گا۔اشفاق نے اس سے کہا وہ میں نے سوچا کسی دن دوبارہ ملتے ہیں، کھیتوں میں چل کر بات چیت کریں گے۔
بانو کو معلوم کھا کے اس میں یہی بات کرنی ہے۔کی نظریں اس کی چھاتی اور پھدی کی طرف بار بار اٹھ رہی تھی۔وہ بار بار اپنی شلوار میں لوڑے کو دبا بھی رہا تھا۔بانو جب سے اس عورت کے پاس آ رہی تھی اس نے پھدی نہیں مروائی تھی۔اس کا بھی دل چاہنے لگا،مگر پھر اس عورت کی بات یاد آ گئی کہ مفت میں یوانے والیوں کی کوئی قدر نہیں ہوتی۔ وہ اشفاق سے بولی نہیں مجھے کام پہ جانا ہوتا ہے۔کام پہ نہ گئی تو پیسوں کا حرج ہو گا۔
اتنی بات کر کے وہ جانے لگی تو اشفاق بےتابی سے بولا اچھا سنو تو۔۔۔کام پہ جانے کا جو حرج ہو گا وہ مجھ سے لے لینا۔
بانو بولی نہیں نہیں تم سے کیا لینا۔بس میں اپنے کام پہ جاتی ہوں۔
وہ منت کرتے ہوئے بولا چلو نا یار کتنی مہینے ہو گئے ہیں اور مجھے ایسی طلب ہو رہی ہے کہ نہ پوچھو۔روز تمہیں سوچ کر مٹھ لگاتا ہوں۔اس سلمیٰ کو بھی چودا ہے میں نے مگر تمہاری والی چس نہیں آئی۔
بانو اس سے منتیں کرانے لگی،وہ ہاتھ جوڑ کر منتیں کرنے لگا تو بانو بولی اچھا دو سو روپے ہیں تو میں کام پہ نہیں جاتی۔
اشفاق ہکا بکا رہ گیا۔اس کے پورے مہینے کی تنخواہ سولہ سو تھی اور بانو دو سو مانگ رہی تھی۔وہ بولا یہ تو بہت زیادہ ہیں۔
بانو نخرے سے بولی تو پھر جاؤ کام کرو۔
وہ بولا اچھا اچھا ابھی میرے پاس ایک سو ستر ہیں۔
بانو بولی تو جاؤ جب دو سو ہو جائیں تو مجھے اسی جگہ ملنا۔
وہ رونے والا ہو گیا اور بولا اچھا اچھا رکو۔۔میں دس منٹ میں مالک سے ادھار مانگ کر لایا۔
بانو بولی چل ٹھیک ہے۔
دو سو روپے اس دور میں مزدور کی پانچ دن کی دیہاڑی تھی۔بانو نے ایک بار میں اتنے پیسے اکٹھے مانگ لیے تھے اور اشفاق نے ایک منٹ بھی نہیں لگایا تھا دینے میں۔
اشفاق سائیکل کو تیزی سے بھگاتا ہوا چلا گیا۔بانو ایک درخت کے نیچے انتظار کرنے لگی۔وہ دس منٹ سے بھی کم وقت میں ا گیا۔اس نے آتے ہی بانو کو پیسے دیے اور بولا کہاں چلیں؟
بانو بولی اسی طرح بس میں میرے پیچھے چلتے چلتے آ جاؤ۔
پچھلی بار کی طرح بانو بس میں سوار ہو گئی اور دو تین سٹاپ کے بعد ایک سٹاپ پر اتر گئی۔تو چلتے ہوئے کھیتوں میں پہنچ گئی اور اس سے کچھ فاصلہ رکھ کر اشفاق بھی وہیں پہنچ گیا۔ دونوں مکئی کی فصل میں داخل ہو گئے اور پہلے کی طرح ایک کھیت سے دوسرے کھیت میں داخل ہوتے ہوئے بڑی دور تک اندر چلے گئے تاکہ کسی کو کچھ پتا نہ چلے۔جب اس جگہ پہنچ گئے کہ بانو کو تسلی ہو گئی کہ یہ محفوظ ہے تو بانو اس سے بولی یہ جگہ سہی ہے۔
اشفاق بے تابی سے اس کو گلے لگا کر اس کے منہ کو چومتے ہوئے اس کے مموں کو دباتے ہوئے بولا میری جان ترس گیا تھا میں تمہارے لیے۔اب جلدی سے پہلے شلوار اتارو۔
بانو اسے بولی صبر کرو۔
اس نے سب سے پہلے چادر اتار دی اور زمین پہ بچھا دی۔اس کے بعد قمیض کے بٹن کھول کر بولی میری گردن اور چھاتیاں چاٹو۔
اشفاق نے پاگلوں کی طرح اس کو بانہوں میں بھر لیا اور زمین پر گرا کر اس کے گلے گریبان سے اس کے مموں کو چاٹنے لگا اور چوسنے لگا۔اس نے چوس چوس کر سارا سینہ گیلا کر دیا۔اس کے بعد بانو نے اسے کہا میری قمیض اتار لو۔
اشفاق نے جلدی سے اپنی اور پھر بانو کی قمیض اتار دی۔وہ بانو کے نپلوں کو چوسنے لگا اور بولا مزا آ گیا۔قسم سے مزا آ گیا۔ جو مزا تمہارے نوخیز جسم میں ہے وہ سلمیٰ میں بھی نہیں ہے۔کمسنی کا اپنا ہی مزا ہے۔
اشفاق بار بار سلمیٰ کو یاد کر رہا تھا۔بانو نے اس کو مموں کے بعد ناف تک چومنے کو کہا۔اشفاق نے اس کے کہنے سے پہلے ہی اس کا جسم ناف تک چوم اور چاٹ لیا۔پھر جا کر بانو نے شلوار اتارنے دی۔بانو کو خود بھی محسوس ہوا کہ اس کو بہت مزا آ رہا ہے۔ پھدی مروانے سے پہلے دیر تک جسم کو چومنے اور چسوانے کی اپنی ہی چس آ رہی تھی۔اشفاق اس کی پھدی دیکھ کر پاگل ہو گیا۔اس نے اپنا لؤڑا نکالا اور پھدی پہ رکھا۔وہ پھدی کی لیس سے لوڑے کو چکنا کرتے ہوئے بولا تمہاری پھدی کا جو مزا آیا تھا وہ اب تک لوڑے کو یاد ہے۔
اس نے پھدی کا منہ کھولا اور لوڑا اندر گھسا دیا۔بانو کی پھدی فل چکنی ہو گئی تھی اور جیسے جیسے اشفاق کی رفتار تیز ہوئی بانو کو زیادہ مزا اور پھدی میں اور زیادہ چکنائی محسوس ہونے لگی۔اشفاق پہلے سے بہتر ہو گیا تھا اور اس کو زور زور سے جھٹکے لگا رہا تھا۔بانو کو بھی مزا آ رہا تھا اور اشفاق کی رفتار سے اس کو معلوم تھا کہ اشفاق جلدی جلدی فارغ ہو جائے گا۔یہی ہوا اشفاق دو تین منٹ میں ہی اس کی پھدی میں پچکاری چھوڑ کر ڈھے گیا۔
وہ گہری سانس لے کر بولا تم کہاں تھیں اب تک نتاشا؟
بانو نے اس کو اپنا یہی نام جھوٹ بتایا تھا۔بانو پھدی سے پانی صاف کرنے کے بعد بولی بس میں نے دینی چھوڑ دی تھی۔
اشفاق بولا اس وقت مجھے لگتا تھا کہ سلمیٰ جس کو میں پیار کرتا ہوں وہ اگر ڈلوا لے تو مزا آ جائے گا۔مگر وہ سالی بالکل فارغ نکلی۔چار پانچ دفعہ سالی کو چودا ہے مگر مزا ایک آنے کا نہیں۔اوپر سے نخرے الگ کہ درد ہوتا ہے۔سالی لوڑا ہے راڈ تو نہیں ہے۔
بانو کو پتا تھا کہ لوڑے سے درد ہوتا ہے۔وہ تو کب سے یوا رہی ہے اور پہلے اپنی عمر کے لڑکوں سے یوایا تھا ورنہ اس کو بھی اگر پہلی بار میں اشفاق چودتا تو شاید اس سے بھی برداشت نہ ہوتا۔وہ تو بانو نے پنڈ میں اتنی پھدی مروا لی تھی کہ اس کو اب محسوس ہی نہیں ہوتا تھا۔اشفاق بہت خوش تھا اور سلمی سے دکھی تھا۔شاید جس پھدی کو چودنے کی خواہش تھی اس کو چود کے وہ مزا نہیں آیا تھا جو سوچا تھا۔اسی لیے دکھی ہو رہا تھا۔
بانو کپڑے پہننے لگی تو اشفاق بولا سنو ابھی تو ایک باری ہوئی ہے۔
بانو شلوار پہنتے ہوئے بولی بس اور نہیں کروانا میں نے۔میں جا رہی ہوں گھر۔اگلی بار ملنا ہو تو بتا دینا۔کام کی چھٹی کر کے آؤں گی تو پیسے لگیں گے۔سمجھے۔
اشفاق اس کو روکتا رہ گیا اور بانو کپڑے پہن کر واپس سڑک پر آ گئی اور اپنے پنڈ کی طرف چل پڑی۔ دن ڈھل چکا تھا اور اندھیرا ہو رہا تھا۔ بانو کو ڈر نہیں لگ رہا تھا کیونکہ وہ کچے راستوں کی عادی تھی۔مگر پنڈ کے منڈے بڑے حرامی ہوتے ہیں اور رات کو اکیلی عورت کا نکلنا اچھا نہیں ہوتا۔


ایک تبصرہ شائع کریں (0)
جدید تر اس سے پرانی

Featured Post