جنس کا کوئی مذہب نہیں ہوتا یہ ننھے عمران کو عمر کے چوتھے سال میں ہی سمجھ آ گئی تھی جب اس کی پچیس سالہ آٹھ ماہ کی حاملہ ماں اس
کو سلاتے سلاتے اپنے خاوند کے لن کو بھی ساتھ ساتھ کھڑا کر رہی ہوتی تھی
عاصمہ اور ہارون کی یہ پسند کی شادی تھی اور دونوں خوبصورتی کی انتہا تھے،اگر چاند سورج کی جوڑی کہا جائے تو بے جا نہ ہو گا
جہاں عاصہ رومان بھری لڑکی تھی وہیں ہارون کو بھی نئے نئے طریقوں سے چدائی کا شوق تھا
ہارون اور عاصمہ دونوں کا تعلق انتہائی کٹر مذہبی گھرانے سے تھا لیکن گھٹے اور تنگ نظر مذہبی گھریلو ماحول نے دونو ں کو بے باک بنا دیا تھا
اسی لئیے شادی کی پہلی رات ہی ہارون نے کمرے میں آتے ہی عاصمہ کو دس منٹ کے اندر ننگا کر کے بٹھا دیا تھا اور خود بھی ننگا ہو کر اس سے جہاں باتیں کر رہا تھا وہیں اپنی زندگی کی پہلی پھدی ،گانڈ اور مموں کو بار بار حیرت سے دیکھ اور چھو رہا تھا
ادھر عاصمہ بھی اپنے پہلے لوڑے کو شرم و حیا کو پیچھے چھوڑتے ہوئے ہاتھ میں تھامے بیٹھی تھی اور اس کا بس نہیں چل رہا تھا کہ فورا چدنا شروع کر دے
ہارون مدرسے کے ماحول کا پڑھا ہوا لڑکوں کی گانڈ لیتا دیتا یہاں تک آیا تھا اس لئیے اس کے لنڈ میں کافی نرمی آ چکی تھی
عاصمہ کی موٹی موٹی آنکھیں خمار سے بھر چکی تھیں اور ہارون اب اسں کے بتیس سائز کے تنے ہوئے سخت ممے چوس رہا تھا دبا رہا تھا اس کی پھدی پر باقاعدہ انگلی پھیرنے کے ساتھ ساتھ اس کی گانڈ کو بھی سہلا رہا تھا
سی سی سی آہ آہ یہ آوازیں ہارون کے لئیے نئی تھیں ادھر عاصمہ نے اس کے لن کو ہلانا شروع کیا تو 5 انچ کا نارمل سا لن کھڑا ہو چکا تھا،
ہارون نے بلاتاخیر ،اناڑی کا چودنا چوت کا ستیاناس،کرتے ہوئے ایک ہی جھٹکے میں عاصمہ کی چوت میں گھسا دیا اور پھر چیخوں اور کراہوں کا نہ رکنے والا سلسلہ تھا جو کمرے میں گونج رہا تھا
ایک منٹ کے اندر ہارون،عاصمہ کے ارمانوں اور پھدی کا خون کرتے ہوئے چھوٹ چکا تھا اب اس کے لئیے بڑا مسئلہ اسے چپ کروانا اور مطمئن کرنا تھا لیکن یہ لڑکے کی گانڈ تھوڑی تھی کہ اگر درد ہو بھی گیا تو ڈرا دھمکا کر چپ کروا لیا ،یہاں معاملہ الٹ تھا،عاصمہ درد کے ساتھ ساتھ
سخت غصے میں تھی لیکن سہاگ رات کی وجہ چپ تھی
پہلی رات کے تجربے نے عاصمہ کے اندر سیکس کی بھوک کم کی تھی لیکن ڈر بھی بڑھا دیا ادھر ہارون اپنے قاری صاحب سے مشورہ کے بعد ایک حکیم صاحب کی خدمات حاصل کر چکا تھا اور
ولیمہ کے بعد اس نے مطلوبہ پڑی ۔
کھائی اور پر اعتماد طریقے سے کمرے کی طرف بڑھ گیا
عاصمہ ولیمے سے تھکی ہوئی آئی تھی اور ابھی کل کی چدائی سے اس کے اندر رومانس کی حس کہیں سو گئی تھی لیکن ہارون نے آتے ہی اسے بھرپور قسم کی جپھی ڈالی تو وہ نا چاہتے ہوئے بھی اس کے سینے سے چمٹ گئی۔۔۔
کل کی ادھوری چدائی کا غم تھا یا حکیم صاحب کی جادوئی پڑیا کا کمال ہارون کا لن عاصمہ کے جسم کو محسوس کرتے ہی تن گیا اور عاصمہ کی رانوں میں ٹچ ہوتے ہوئے اس کی چوت کو اپنے ہونے کا احساس دلا کر گیلا کر رہا تھا کہ ہارون نے عاصمہ اور اپنے کپڑے اتارنے کا عمل شروع کر دیا
اس سے پہلے کہ عاصمہ کا خوف جاگتا ہارون
اسے ننگا کر کے بیڈ پر لٹا کر اس کی پھدی پر لن رگڑنا شروع کر چکا تھا
لن کو محسوس کرتے ہی پھدی نے اپنے ہونٹ کھولنا شروع کئیے اور مادہ_محبت نکالنا شروع کیا،ہارون عاصمہ کے ہونٹوں کو چوستے چوستے آہستہ آہستہ لن پھدی میں داخل کر رہا تھا کہ عاصمہ ایک تیز سسکی لے کر نیچے سے ہلی اور روتے ہوئے کہنے لگی کہ آج پھر تم نے درد کر دیا ابھی کل کی کاروائی سے مجھ سے بیٹھا نہیں جا رہا تھا اور باجی بھی ہنستے ہوئے کہہ رہی تھی کہ تمہارے جیسی حالت تو میری بھی نہیں
ہوئی تھی حالانکہ کہ احمد نے ساری رات مجھے سونے نہیں دیا تھا
ہارون یہ سن کر ہنس پڑا اور بولا جانو احمد کو
کوئی تجربہ ہو گا ہمیں تو کوئی تجربہ نہیں تھا اور یہ کہتے ہی اس نے دائیں نپل کو چوسٹا شروع کر دیا
ہارون کی زبان نے جنسی لذت کو بڑھا دیا تھا اور عاصمہ بار بار اسے کہہ رہی تھی ساری زندگی
پہلے ممے چوسو گے دباو گے تو چودنے دوں گی ورنہ نہیں
اففف بہت مزا آ رہا ہے جان اففف کھا جاو میرے ممے،،،انہی سسکیوں کے دوران ہی ہارون لن اندر باہر کر کے چدائی شروع کر چکا تھا اور پھر لذت کا نہ رکنے والا سلسلہ تھا جس نے عاصمہ کو باجی کی چدائی بھلا کر
اپنی پھدی کی قسمت پہ رشک کرنے پہ مجبور کر دیا
دن رات میں صبح شام میں تیزی سے بدلنے کے ساتھ ساتھ ہارون اور عاصمہ کی چدائیاں بڑھتی جا رہیں تھیں،اب تو ہارون اور وہ کمرے میں ننگے ہی پھرتے تھے اور کبھی کبھار سیکسی فلمیں دیکھ کر ایک دوسرے کی پھدی اور لن بھی چوس چاٹ لیتے تھے کہ عاصمہ پہلی بار حاملہ ہوئی اور اس خوشی کو منانے کے لئیے ہارون نے ویاگرا کھا کر چار مرتبہ پھدی کا پھدا بنایا تھا
حمل کے نو ماہ میں تمام احتیاط بالائے طاق
رکھتے ہوئے عاصمہ ہر روز دومرتبہ لازمی چدواتی تھی
جس دن ہارون تھکا بھی ہوتا وہ لن منہ میں کر کھڑا کرتی اور اوپر آ کر مزا لیتی ایسی ہی ایک رات کو مزا لیتے اسے درد شروع ہوا اور ٹھیک چار سے پانچ گھنٹے کے بعد اس نے عمران کو جنم دیا
عمران کو پیدا ہوتے ہی ہلکا سا یرقان تھا جس کی وجہ سے وہ ماں کا دودھ زیادہ نہیں پی سکتا تھا اور دودھ نہ نکلنے کی وجہ سے عاصمہ کے ممے ایک دن میں ہی سوج گئے تھے اور ڈاکٹرز نے اسے ہاتھ سے دودھ نکالنے کا کہا مگر نپل ہاتھ لگانے سے درد کرتے تھے
اس مسئلے کو اس نے ڈرت ڈرتے نرس صائمہ کو بتایا تو اس نے مسکراتے ہوئے کہا کہ وارڈ کا چکر مکمل کر لوں پھر آپ کو بھی سکون دیتی ہوں
صائمہ نے وارڈ کا چکر مکمل کیا اور نرسنگ کاوئنٹر پر یہ کہتے ہوئے عاصمہ کو نرسنگ چینجنگ روم میں لے گئی کہ یہ میری کلاس فیلو ہے ہم ذرا گپ شپ کر لیں
کمرے میں داخل ہوتے ہی اس نے دروازہ لاک کیا اور عاصمہ کی قمیض اتار دی
عاصمہ کے دودھ سے بھرے تنے ہوئے ممے جو اب چھتیس سائز کے ہو چکے تھے کو دیکھ کر صائمہ کی لسیبین چوت نے پانی کی پھوار ماری اور وہ بے اختیار بایاں نپل چوسنا شروع ہو گئی
عاصمہ تو جیسے درد کو بھول ہی گئی اور اگلے ہی لمحے میں اس کی لہولہان چوت میں کرنٹ لگنا شروع ہوا تو اس کے منہ سے اس کی روایتی سیییییییییییی نکلی جو ہارون کے لن کو مزید وحشی کر دیتی تھی لیکن صائمہ نے اس کو
خاموش رہنے کا اشارہ کیا اور تیزی سے بایاں مما دودھ سے خالی کرنا شروع ہو گئی
بایاں ممے سے فارغ ہوتے ہوتے صائمہ کی شلوار مکمل بھر چکی تھی
یہاں میں قارئین کو یہ بتاتا چلوں کہ مجھے زندگی میں تقریبا 936 عورتوں کی پھدی لینے کا موقع ملا جس میں ہر عمر اور مزاج کی عورت تھی لیکن میری شہرت کی وجہ سے ایک لیسبین کوئی 2 سال پہلے میری دوست بنی اور وہ اپنے پارٹنر کے ساتھ میرے فلیٹ پر آتی تھی پہلے وہ دونوں سیکس کرتی تھیں پھر ہم دونوں لہذا میں یہ بات پورے وثوق سے کہہ رہا ہوں کہ لیسبین پھدیاں بہت گرم،بہت پانی چھوڑتی ہیں عام پھدی کے مقابلے میں اور ان پھدیوں کو چودنے اور مطمئن کرنے کے لئیے خصوصی سٹیمنا چاہئیے ہوتا ہےخیر صائمہ کی زبان نے عاصمہ کو ہارون کے
ساتھ سیکس بھلا دیا تھا 10 منٹ سے کم وقت میں صائمہ نے اس کی مشکل حل کر دی تھی
اس سے پہلے کہ وہ اس کا شکریہ ادا کرتی صائمہ نے شلوار اتاری اور عاصمہ کا ہاتھ اپنی چوت پر رکھ دیا
عاصمہ پہلی بار کسی لڑکی کی چوت کو یوں دیکھ رہی تھی سیاہ رنگ کی موٹے چھولے کے ساتھ چدائی اور چاٹے کی منتظر چوت
اس کو یوں دیکھتا دیکھ کر صائمہ نے سر گوشی کی میں نے تمہیں سکون دیا اب تم مجھے سکون دو۔۔میں کیسے سکون دوں؟ عاصمہ
صائمہ ہنستے ہوئے۔۔اس کو چاٹو اور انگلی ڈالو۔۔اخ تھو۔میں نہیں چاٹوں گی ۔۔عاصمہ نے غصے سے کہا۔۔
نہیں چاٹو گی تو اس کمرے سے باہر نہیں جا سکو گی اور نہ ہی قمیض ملے گی۔۔صائمہ نے
دھمکانے والے انداز میں کہا تو عاصمہ ڈر گئی اور بولی یہ گندی ہے میں کیسے کروں
نہیں ہے گندی۔۔تم ایسا کرو پہلے میرے ممے چوسو یہ کہہ کر صائمہ نے قمیض اور برا اوپر کی تو اس کے چونتیس سائز کے بروان ممے جن پر سیاہ نپل اندھیرے میں سیکس کرنے والوں کے پنک نپل بن جاتے ہیں اس وقت لوڑے کے ٹوپے کی طرح سخت ہو چکے تھے
عاصمہ نے اپنی زندگی کا پہلا مما منہ میں بھرا اور چوسنا شرور کیا تو اسے محسوس ہوا کہ لہولہان چوت اور ایک دن قبل بچہ پیدا کرنے کے باوجود
بھی وہ فارغ ہونے والی ہے
اس نے صائمہ کے ہونٹوں میں ہونٹ ڈال کر ایک
ہاتھ سے مما دبانا شروع کر دیا اور دوسرا ہاتھ اس کی سیاہ چوت پر پھیرنا شروع کر دیا
لذت کا یہ کھیل شاید مزید چلتا لیکن دروازے پر ہونے والی دستک نے دونوں کو جلدی سے سیٹ ہونے پر مجبور کر دیا
کھیل تو ادھورا رہا لیکن اب دونوں لیسبین پارٹنر بن چکی تھیں
عاصمہ اگلے دن ہسپتال سے ڈسچارج ہو کر گھر آ گئی اور صائمہ سے گھر آنے کا وعدہ لے کر آئی
دن گزرتے رہے عمران بڑا ہونا شروع ہوا۔۔
حیرت انگیز طور پر عاصمہ کے ممے ڈھیلے نہیں ہوئے تھے اور اس کی جنسی طلب کو دیکھتے ہوئے ہارون نے اپنا مکمل علاج اس کے چھلے کے دوران کروا لیا تھا اور جیسے ہی ڈاکٹر نے چدائی کی اجازت دی ہارون نے عاصمہ کو اتنی بری طرح چودا کہ اس کی چوت پھوڑا بن گئی
لیکن اس چدائی اور عاصمہ کی لذت بھری
سسکیاں سن کر اس کا دیور قاسم دروازہ کے باہر کھڑا ہو کر
تین بار مٹھ لگا چکا تھا
قاسم اٹھارہ سال کا ایک خوبصورت نوجوان تھا اور اس کا لن قریبا سات انچ کا تھا اور وہ اسی کوشش میں لگا رہتا تھا کہ کسی طرح اپنی بھابھی کو چود سکے لیکن عاصمہ اسے ممے دکھانے اور گرم کرنے تک ہی رکھتی تھی مذہب کا ڈر ابھی جنسی طلب پر غالب تھا اور ویسے بھی ہارون کا لن اس کی ٹھکائی فی الحال صحیح طریقے سے کر رہا تھا لہذا اسے کوئی مسئلہ نہیں تھا کہ وہ مفت میں کسی اور لوڑے سے چداتی پھرے
عاصمہ کا جسم اب پہلے کی نسبت بھرنے سے اس کی جنسی کشش میں اضافہ ہو گیا تھا
وقت گزرتا گیا عمران 3 سال کا ہونے والا تھا کہ وہ ایک بار پھر پریگنٹ ہو گئی اور اب کی بار پھر بیٹا ہوا
قارئین میں کہانی کو دس سال کا جمپ لگا کر
سیدھا عمران پر لا رہا ہو کیوں کہ اصل کہانی یہیں سے شروع ہوتی ہے
عمران اب آٹھویں جماعت کا طالبعلم تھا،اچھی خوراک نے اس کا قد بھی خوب نکالا تھا اور اس کا لوڑا بھی کافی موٹا اور قریبا ساڑھے چھ انچ لمبا تھا
عاصمہ اس عرصے میں 7 بچوں کی ماں بننے کے باوجود خالی خوبصورت نہیں سیکسی خوبصورت چداکڑ گشتی ٹائپ عورت بن چکی تھی
ہارون اپنی جنسی وقت کھو چکا تھا اور عاصمہ کے پاس اگر مہینے میں ایک آدھ بار آتا بھی تو اندر ڈالتے ہی فارغ ہو جاتا جس کے بعد پورا مہینہ
عاصمہ اسے کوسنے دیتی
ہمارے ذہنی بیمار معاشرے میں عورت کی طلب پورا نہ کرنے والے مرد اسے بار بار پریگنٹ کرتے رہتے ہیں تا کہ وہ بچوں اور حمل میں الجھی رہے اور لن کا تقاضا نہ کرے
جب تک یہ سوچ نہیں بدلے گی طلاق کی شرح اور گھریلو ناچاقیوں میں کمی نہیں آئی گی
عمران کی جوانی کا اندازہ دو سال قبل اس کے کھڑے لن سے عاصمہ کو اس وقت ہوا جب وہ ہارون سے ناممکل چدائی کے بعد لڑ رہی تھی اور اسے یوں لگا کہ ہارون جاگ رہا ہے اور جب وہ اس کے پاس گئی تو اس کے ٹروائزر سے باہر نکلے ہوئے للے نے اس کی بات کی تصدیق کرنے کے ساتھ ساتھ اسے شرمانے پر مجبور کر دیا کہ وہ اپنے فرزند کا لوڑا دیکھ رہی ہے
مڈل کلاس گھروں کا المیہ یہ ہوتا ہے کہ ان کے رہائشی مذہب پرست،جنس پرست ہوتے ہیں اور یہ دونوں چیزیں مل۔کر انسانی کو جنونی یا سائیکو بنا دیتی ہیں اور شک وہی مرد کرتا ہے جو جنسی
طور پر کمزور ہو
یہی صورتحال اس وقت ہارون کی بھی تھی لیکن عمران جوان ہو چکا تھا باقی بچے بھی بچپنے سے نکل رہے تھے اس لئیے وہ ایسے باتوں کو دماغ میں ہی رکھتا تھا
عمران ماں کے جسمانی نشیب و فراز کئی بار دیکھ چکا تھا اور پچھلے ہفتے عاصمہ نے بدن ٹوٹنے پر عمران سے جب مالش کروانا شروع کی تو عمران کا لن اسے اپنی گانڈ پر حرکت کرتا محسوس ہوا ایک بار تو اسے شدید گناہ کا احساس ہوا لیکن دوسری
عورت جب گناہ و ثواب کے چکر سے نکل جاتی ہے تو وہ بہت خطرناک ہو جاتی ہے اس وقت اس کے سامنے صرف اس کی ذات ہوتی ہے اور اس سے جڑی سکون آمیز چیزیں اور یہی حال عاصمہ کا تھا جسے
چوت کے چٹخارے نے سب کچھ بھلا دیا اور وہ آہ ہائے اوہ کرتے ہوئے عمران سے مالش
کروانے لگ گئی کمر کی مالش اب چوتڑوں تک آ رہی تھی اور نرم گانڈ پر تیل لگا کر مالش کرتے عمران کا للا مسلسل قطرے گرا رہا تھا اس نے ماں کو سیدھا کیا اور مموں پر تیل ڈال کر مالش کرنا شروع کر دی
بیالیس سائز کے انتہائی ٹائٹ ممے عمران کا ہوش اڑانے کو کافی تھے لیکن ماں کا غصہ اسے کچھ بھی کرنے سے باز رکھ رہا تھا اس لئیے اس نے خاموشی سے تیل میں چپڑے ہوئے ممے مسلنے اور دبابے میں عافیت جانی
دوسری جانب عاصمہ چھوٹنے کے قریب پہنچ گئی تھی اور عجب بے بسی تھی کہ نہ وہ پھدی میں انگلی کر سکتی تھی اور نہ ہی عمران کا للا لے سکتی تھی
عورت تیس سال سے لے کر پینتالیس سال کی عمر تک اگر اچھا کھائے پہنے تو یہ زمانہ اس کی چدائی کے عروج کا زمانہ ہوتا ہے کیوں کہ چدوا چدوا کر وہ لذت حاصل کرنے اور مزا دینے کے تمام طریقوں سے واقف ہو چکی ہوتی ہے اسی طرح مرد اگر اپنی صحت کا خیال رکھے زیتون ،یخنی اور گوشت کا برابر استعمال رکھے روزانہ واک کرے تو اسے کسی ویاگرا کی ضرورت نہیں پڑتی یہ میرا ذاتی تجربہ ہے
خیر۔۔عمران بڑا ہونے کے ناطے عاصمہ کا لاڈلا بلکہ یوں کہئیے عاصمہ کی سہیلی بھی تھی پچھلی دو بار تو یوں ہوا کہ پریگنٹ ہونے کے بعد عاصمہ نے پہلے عمران کو ہی بتایا کہ میں
پریگنٹ ہو گئی ہوں اب عمران کا چھوٹا سا ذہن اس بات کو کیسے قبول کرتا اس وقت اسے ان معاملات کی سمجھ نہ تھی۔۔ستم بالائے ستم ایک دن عاصمہ نے غصہ میں ناشتہ کے وقت بچوں کے سامنے کہہ دیا کہ تمہارا باپ ختم ہو چکا ہے اب یہ کچھ نہیں کر سکتا۔
باقی بچوں کی تو سمجھ میں نہ آیا لیکن عمران کی سوئی اڑ گئی کہ یہ کیا معاملہ ہے
ماں کی مالش کے دوران اس نے یکدم پوچھ لیا کہ امی یہ اس دن آپ نے ابو کے ختم ہونے کی کیا بات کی تھی؟
عاصمہ! بیٹا جو مرد اپنی جوانی میں غلط کام
کرتے ہیں وہ بڑے ہو کر اپنی بیوی کو خوش نہیں رکھ سکتے
عمران!بیوی کو کیسے خوش رکھتے ہیں
یہ وہ سوال تھا جس نے عاصمہ کی چوت میں وہ
کرنٹ گھسا دیا جو جوانی کی چدائیوں میں اسے آتا تھا اور وہ سوچ میں پڑ گئی
اس سے پہلے کہ وہ کوئی جواب دیتی عمران نے اس کے نپلز رگڑنا شروع کئیے تو رکا ہوا طوفان بہہ نکلا اور اس نے ٹانگیں جوڑ لییں
ابھی عاصمہ سوال کا جواب ڈھونڈ ہی رہی تھی کہ دروازے پر بچوں کے سکول سے واپس آنے کا شور ہوا تو اس نے جلدی سے عمران کو پیچھے ہٹایا اور کمبل اپنے اوپر کر کے بیٹے کو کہا جاو
بہن بھائیوں کو دیکھو میں آتی ہوں تھوڑی دیر میں ہم کل اس موضوع پر بات کریں گے
عاصمہ عمران کو باہر تو بھیج چکی تھی لیکن جو آگ اس کی ٹانگوں بیچ بھڑک اٹھی تھی اسے ایک جاندار لوڑا ہی ٹھنڈا کر سکتا تھا
وہ ریشمی شلوار کے اوپر سے ہی چوت رگڑ رہی تھی کہ بچے اس سے آ کر لپٹ گیے اور وہ سوچنے پر مجبور ہو گئی کہ اس معاشرے میں عورت ماں بننے کے بعد اپنی جنسی، معاشرتی ،روحانی لذتوں سے محروم ہو جاتی ہے جبکہ یورپین معاشرے میں ایسا نہیں ہے اور اس سوال
کا جواب دینے کے لئے اس کے اردگرد کوئ نہیں تھا
یہی وجہ تھی کہ اس نے اپنی اولاد کو جدید تعلیم دینے کا فیصلہ کیا تھا عمران سے چھوٹی ماریہ کو بھی ماہواری آنا شروع ہو گئی تھی اور اسے اب ڈر لگتا تھا کہ کہیں ماریہ کی چوت بھی اس کی چوت کی طرح ساری زندگی پیاسی نہ رہے
دو کمروں کے گھر میں ایک ڈراینگ روم تھا اور ایک سونے والا کمرہ. آج ہارون شاید پھر کوئی پڑیا کھا آیا تھا اور رات کو سونے سے پہلے اسے فجر کے وقت ڈرائنگ روم میں آنے کا کہہ رہا تھا اور وہ بار بار منع کر رہی تھی
اسے معلوم تھا کہ آج بھی وہ پیاسی رہ جاءے گی لیکن عمران کے ہاتھوں کے گرمی سے آنے والا
طوفان ابھی تک جاری تھا سو چار و ناچار اس نے نیم دلی سے حامی بھر ہی لی تھی
سسسس پہلے ممے دبا گرم کر مجھے پھر ادھر جاوں گی اور لن دکھا پہلے مجھے
یہ سرگوشیاں نوخیز ماریہ کو جگانے کے لئے کافی تھیں جو ماں کے پہلو میں سو رہی تھی ایک پل تو اسے کچھ سمجھ نہ آئ لیکن اگلے پل میں کمرے میں جلتے زیرو کے بلب کی روشنی نے اسے ساری کہانی سمجھا دی تھی
ادھر چل آج تجھے بہت مزا دوں گا تو بس چدوانے والی بن ادھر بچے جاگ جائیں گے ہارون نے اس کے ممے دباتے ہوئے کہا تو عاصمہ نے گیلی چوت سے اٹھتی بھاپ کو آگ میں بدلنے سے پہلے ہارون کے اکڑے لنڈ کو چیک کر کے اطمینان کیا کہ آج لن بابے رحمتے کے کھسی لن کی بجائے چیف کے ہارڈ لوڑے جیسا ہے
وہ دونوں تو چلے گئے لیکن ماریہ نے لیٹے لیٹے دروازے کی جانب جست لگائ اور دیکھا کہ اماں .
بابا کے لنڈ کو چوپا لگا رہی ہے اور باپ سرگوشی کر رہا ہے
ہارون.آج تو کھا جا للے کو آج تجھے بہت چودنا ہے.. کھا اسے کھا اسے اففففففف
ٹوپے پر زبان پھیر
اور یہ سن کر عاصمہ نے لمبا چوسا لگایا اور ٹوپے پر زبان پھیری تو مزے کی شدت سے ہارون کے جسم کو جھٹکے لگنا شروع ہو گئے
اس نے فورا عاصمہ کو ننگا کیا تو ماریہ ماں کے بیالس سائز کے تنے ہوئے ممے دیکھ کر ہاتھ اپنے سینے پر لے کر گئی جہاں چھوٹے چھوٹے تنے ہوئے نپلز نے اس کا استقبال کیا
باپ کی دیکھا دیکھا جو اس کی ماں کا دایا نپل چوس اور بایاں نپل رگڑ رہا تھا اور ماں کی سسکیاں پورے گھر میں گونج رہی تھیں
اس نے اپنے چھوٹے نپل پر انگلی پھیری تو اک کرنٹ اس کی ریڑھ کی ہڈی سے ہوتا ہوا اس کی چوت میں بھر گیا
ادھر اس کی ماں ہارون کو اور گرم کر رہی تھی
عاصمہ.. شبانہ کا میاں اس کے مموں کا عاشق ہے ڈھیلے لٹکے ہوئے ممے ساری ساری رات چوستا ہے اور ایک تو ہے کہ اتنے شاندار ممے تجھے بھاتے نہیں روز اس انتظار میں صبح ہو جاتی ہے کہ اب ہارون چودے گا لیکن تو ہے کہ
ہارون.. اچھا چھوڑ اب گلے شکوے اور یہ کہہ کر اس کے کالے پھدے پر جھک گیا جہاں منی کا سیلاب آیا ہوا تھا
اس کی زبان ٹچ ہوتے ہی عاصمہ کی سسکیاں آہ آہ اففف اندر زبان ڈالللللللل کے ساتھ وہ فارغ ہو گئی اور اس نے ہارون کو چودنے کا بولا
ادھر ماریہ اپنی چھوٹی پھدی پر ہاتھ پھیرتے پھیرتے مزے میں انگلی اندر ڈال چکی تھی ادھر اس کی انگلی اندر گئی ادھر ہارون کا لوڑا عاصمہ کی چوت میں داخل ہو گیا تھا
عمران کے لئے یہ منظر نئے نہیں تھے لیکن آج چھوٹی کو مزہ لیتا دیکھ کر اس نے وہیں لیٹے لیٹے ہی مٹھ لگا لی تھی لیکن چھوٹی کا ہاتھ مسلسل اسے ہلتا ہوا دکھائی دے رہاتھا اور ساتھ والے کمرے سے آنے والی آوازیں
آج تجھے اتنا چودوں گا کہ محلہ کی کسی عورت کی پھدی میں اتنا لن نہیں گیا ہو گا آج تک.. لے یہ لےاور یہ کہتے ہی ہارون نے موٹر وے پر دو سو کی سپیڈ سے ڈائوو بس چلا دی تھی
عاصمہ کی تو جیسے لاٹری نکل آئ تھی سالوں بعد ایسے چدائی نے اسے نہال اور نڈھال کر دیا تھا
ہارون اب گھوڑی بن کر اس پر چڑھا ہوا تھا اور ہر جھٹکے کے ساتھ اس کے ہلتے ہوئے موٹے
مموں نے ماریہ کی چھوٹی پھدی کو دس منٹ میں بڑا کر دیا تھا
مزے کا یہ سلسلہ اس وقت ختم ہوا جب ہارون عاصمہ کی گانڈ پر فارغ ہوا
ماریہ واپس بستر پر پلٹی تو لیٹتے ساتھ ہی اسے کمر پر کچھ چبھتا ہوا محسوس ہوا
اس سے پہلے کہ وہ مڑ کر دیکھتی عمران کا ہاتھ اس کی شلوار کے اندر جا چکا تھا
عمران نے ماریہ کی چھوٹی پھدی پر انگلی پھیرنا شروع کی تو گیلے پن کے احساس نے اسے ہاتھ تیز چلانے پر مجبور کر دیا ساتھ ہی ساتھ میں ماریہ کا ہاتھ اس نے اپنے ننگے لن پر رکھا تو
ملائم لمس پاتے ہی لن نے پچکاری مار دی جس نے پستر گندا کر دیا
فارغ ہونے کا لمحہ تو مسرت کن تھا لیکن ماں باپ کی کمرے میں واپس آنے کی آوازوں نے دونوں کو پریشان کر دیا
عمران نے جلدی سے ہاتھ ماریہ کی شلوار سے
باہر نکالا اور اپنا ناڑا باندھا لیکن ماریہ نے اپنے دوپٹے سے عمران کی منی کو صاف کیا اور تہہ لگا کر گیلی جگہ پر بچھایا اور اس پر سو گئ
اگلی صبح جہاں عاصمہ کے لئے زندگی سے
بھری ہوئ تھی وہیں عمران اور ماریہ بھی خوش تھے
دوستو! پیٹ کی بھوک تو پانی پی کر بھی برداشت کی جا سکتی ہے لیکن جنس کی بھوک جب تک سیکس نہ کر لیا جائے ختم نہیں ہوتی اور اگر
انسان کو سیکس کرنے کا موقع نہ ملے تو برداشت کی حد کے بعد نفسیاتی مسائل شروع ہو جاتے ہیں
مجھے یہاں سعادت حسن منٹو یاد آ رہے ہیں. زمانہ انہیں فحش نگار کہتا رہا لیکن وہ اس بیمار معاشرے کا اصل نباض تھا
آج ہمارے نوے فیصد گھرانوں میں ناچاقیوں اور
لڑائیوں کی اصل وجہ جنسی معاملات کا درست نہ ہونا ہے
ہم یہاں کہانیاں پڑھ کر لذت لیتے ہیں اور مٹھ یا فنگر بھی کر لیتے ہیں لیکن یہ بھول جاتے ہیں کہ کل شادی کے بعد جب چوت کے منہ پر فارغ ہو جائیں گے اور بیوی لڑے گی تو ہم اسے جاہل و گالیاں دے کر لڑ جھگڑ کر پرے کریں گے
نہیں ایسے نہیں کرنا.. سب سے زیادہ خیال براہ کرم اپنی جنسی صحت کا رکھیں ورنہ کل کو آپ ہارون اور عاصمہ جیسے کردار بن جائیں گے
ماریہ اور عمران کو ماں کی خوشی کا سبب معلوم تھا لیکن آپس میں بات کرنے کا موقع نہیں مل رہا تھا
رات حسب معمول کھانا کھا کر پورے گھرانے
میرا سائیں ڈرامہ دیکھا اور پھر سونے کی تیاری کرنے لگے
عاصمہ کا آج بھی موڈ تھا چدائی کا اس نے ہارون کی جانب دیکھا تو وہاں نیند اور تھکن کے آثار جلوہ گر تھے
ماں باپ کے اور بہن بھائیوں کےسوتے ہیں عمران نے ماریہ کی کمر پر ہاتھ رکھا تو اس نے عمران کی طرف کروٹ بدل لی
یہاں یہ بات بتاتا چلوں کہ ہارون عاصمہ ننھی بیڈ
پر جبکہ باقی بچے زمین پر تلائیاں بچھا کر سوتے تھے
عمران نے ماریہ کے قریب ہوتے ہوئے اسے لیٹے لیٹے جپھی ڈالی اور اس کے ہونٹوں پر ہونٹ رکھے تو گرمی سے دنوں کے دل پگھل گئے
ماریہ نے عمران کے لن کو زور سے دبایا تو اس کی چیخ نکلتے نکلتے رہ گئی
عمران نے ماریہ کی قمیض اوپر کی اور اس کے سیب جتنے سخت ہوتے ممے چوسنا شروع کر
دئیے ماریہ نے سسکی بھری تو ہارون نے کروٹ لی جس کی وجہ سے دونوں کو رکنا پڑا
عمران نے غصے سے چھوٹی بہن کو سرگوشی میں ڈانٹا کہ مزا لینا ہے تو چپ کر لے لو ورنہ مرواو مت
یہ سن کر ماریہ نے اور زور سے کا لن دبایا تو عمران نے چڑتے ہوئے اس کی گانڈ پر چٹکی کاٹ لی
مستیاں بڑھنا شروع ہوئیں اب لن پھدی کے ملاپ کا وقت تھا لیکن جگہ نہ ہونے کے سبب خوف کا عنصر زیادہ ہو چکا تھا
ماریہ کی شلوار نیچے کرنے کے لئے عمران نے ہاتھ بڑھایا تو ماریہ نے اسے روک دیا لیکن لن کو جب گرمی چڑھی ہو تو وہ کوہ ہمالیہ میں سوراخ کر دیتا ہے یہ تو ماریہ کی شلوار تھی
عمران نے اس کے ہونٹوں کو ہونٹ میں لیا اور پھدی پر انگلنا پھیرنا شروع کی مزے کی لہر ماریہ کو مدہوش کر چکی تھی عمران نے اپنا ناڑہ کھول کر گیلا لن جو اس کی مزی سے بھرا ہوا تھا ماریہ کے ہاتھ میں تھمایا اور جلدی سے اس کی شلوار نیچے کر کے اس کے ایک ٹانگ اپنے اوپر رکھ کر اسے سمجھایا کہ کیسے ایک سائیڈ پر لیٹ کر لن پھدی کے چھولے اور ہونٹوں پر رگڑنا ہے
نے لن پھدی پر پھیرا تو اس کے لمس نے
اسے ایک لمحہ میں تیرہ سال کی بجائے تیس سالہ چدکڑ عورت بنا دیا
بہن بھائی کا رشتہ کہیں گم ہو گیا تھا اور لن پھدی کا چسکہ اولین ترجیحات میں آ گیا تھا
ماریہ کو عمران کا سخت لنڈ بے پناہ مزہ دے رہا تھا ہونٹوں میں ہونٹ تھے ایک ہاتھ نپلز کو مسل
کرہا تھا اور ماریہ لن کو پھدی پر رگڑتی جا رہی تھی
تیز ہوتی سانسوں کے ساتھ ماریہ چھولا ٹوپہ پر رگڑتی ہوئی فارغ ہوئی تو اس کی گرفت لنڈ پر ڈھیلی پڑی تو عمران نے اس کے کان میں آہستگی سے کہا خود تو مزہ لے لیا ہے اب مجھے بھی فارغ کرواو
.. تم مجھے گندا کر دو گے
عمران.. منی تم پر گرے گی تو تمہیں جان لیوا مزا آیے گا
ماریہ.. نہیں
عمران.. میں ناراض ہو جاوں گا اور آیندہ مزہ نہیں دوں گا
ماریہ.. پھر کیا کروں میں
عمران.. لن رگڑو
ماریہ نے چار و ناچار جیسے ہی دوبارہ لنڈ رگڑنا شروع کیا اس کی پھدی نے دوبارہ پانی چھوڑنا شروع کر دیا
کی سمجھ سے بالاتر تھا کہ یہ کیسا مزا ہے جو ختم ہونے کا نام نہیں لے رہا
رگڑتے رگڑتے یکدم عمران کے لنڈ نے ماریہ کی پھدی اور تھائیز کو بھر دیا اور وہ غصہ سے اٹھ کر باتھ روم چلی گئی
اگلی صبح ماریہ کا منہ پھولا ہوا تھا عمران نے ناشتے کے بعد اسے چھت پر بلایا
عمران.. رات کو مزا آیا تھا
ماریہ.. نہیں
عمران.. کیوں
ماریہ.. تم گندے بھائی ہو
عمران. اوہ.. اب بتاو میں کیا کرتا وہاں
ماریہ.. واش روم میں جا کر فارغ ہو جاتے
عمران.. اتنا ٹائم نہیں ہوتا... اب تم کیوں نہیں ہوئیں جا کر فارغ باتھ روم میں
ماریہ.. ہاں یہ تو میں نے سوچا نہیں
عمران.. آج رات کو ایک کپڑا پاس رکھ لینا جسے بعد میں دھو لیں گے
ابھی گفتگو جاری ہی تھی کہ ماریہ کو ماں کی آواز آئی نیچے آؤ دونوں
ماریہ تم ایسا کرو خالہ کے گھر جاو اور پوچھو کہ کمیٹی کب آنی ہے.. عاصمہ نے ماریہ کو بھیج کر عمران کو کہا کہ تیل کی شیشی اٹھا کر اس کی مالش کرے
یہ سنتے ہی عمران نے تہیہ کر لیا کہ آج ماں کو چود کرچھوڑے گا ادھرعاصمہ سوچ رہی تھی کہ آج زیادہ سے زیادہ مزہ لے گی عمران سے اور
ممکن ہوا تو پھدی پر تیل لگوا کر مٹھ بھی مروائے گی
میں امی ابو اور بہن حصہ پنجم
عاصمہ الٹی لیٹی ہوئی تھی اور اس کی قمیض کندھوں تک جبکہ شلوار گانڈ کے سوراخ تک اس نے ڈھیلی کر دی تھی
عمران پہلی بار ماں کی گانڈ دیکھ کر اسے گانڈو
کرنے کا سوچ رہا تھا کہ ماں کی آواز نے اس کی توجہ ہٹائی
عاصمہ... تیل لگا کر خواب مالش کرو بدن میں سخت درد ہے
عمران.. جی امی آج آپ کو مکمل سکون دوں گا
عاصمہ.. ہونہہہ
عمران نے اپنی شلوار پر سے قمیض ہٹائی اور تنے ہوئے لن کو گانڈ کے سوراخ پر رکھ کر ٹانگیں دونوں جانب کر کے بیٹھا اور ماں کی برا کے ہک کھول کر تیل کی بوندیں کمر پر ملنا شروع ہو گیا
اب کمرے کی صورتحال یہ تھی کہ عمران مالش کے لیے آگے تو لن آگے جاتا پیچھے آتا تو پیچھے
عاصمہ کی رسیلی گرم پیاسی چوت نے لن سے
دوری کا شکوہ ایسے شروع کیا جیسا عمران خان نے چار حلقوں میں دھاندلی کا کیا تھا
قریبا 5 منٹ کی مالش کے دوران ہی عمران کو لگا کہ وہ فارغ ہونے لگا ہے تو اس نے کچھ کہے بنا باتھ روم کی طرف دوڑ لگائی تو عاصمہ زیر لب ہنس دی
اس کے باتھ روم جاتے ہی عاصمہ نے سیدھے ہو کر قمیض اوپر کی اور پھدی پر ہاتھ پھیرا تو گیلاہٹ سے اس کی مزیدار سسکیاں نکل گئیں جنہیں سن کر مٹھ لگاتا عمران زور دار طریقے ...سے فارغ ہو گیا
واپسی پر عمران کا استقبال عاصمہ کے عظیم الشان ممے کر رہے تھے جو اس وقت مزے کی وجہ سے مزید سخت اور نپلز اکڑ چکے تھے
عمران نے جانے کس جذبے کے تحت ماں کا موٹا گہرا براون نپل منہ میں لیا اور بایاں مما دبانا شروع کر دیا
عاصمہ.. چل شاباش اچھی طرح سے دودھ پی لے
عمران.. امی آپ کے دودھ بہت سیکسی ہیں
عاصمہ.. وہ کیسے
عمران.. وہ ایسے کہ انہیں دیکھ کر کوئی نہیں یقین کرتا کہ اتنے بچے ہیں آپ کے
عاصمہ.. اب باتیں نہ بنا دودھ پینا ہے تو پی ورنہ مالش کر
عمران نے بایاں ممہ منہ میں ڈالا تو دایاں ہاتھ ایک جھٹکے سے ماں کی چوت پر رکھا تو سسسسسسییییییییی
کی زوردار آواز اور منی کے سیلاب نے اس کا استقبال کیا
عاصمہ کی چوت نے عمران کے ہلکے سے لمس پر ہی آنسو بہا دئیے تھے اسے ساری عمر کی
چدائی میں اتنا مزہ نہیں آیا تھا جتنا اس ایک لمس میں آیا تھا
عمران نے پیش قدمی کرتی ہوئے ماں کے پھدے میں دو انگلیاں ڈالیں اور انگلی چود کام شروع کر
...دیا
عاصمہ نے بھی کھلی ٹانگوں سے اس چدائی کا استقبال کیا اور ساتھ میں عمران کے لن کو شلوار سے باہر نکالنے لگی
عاصمہ اور ہارون کی یہ پسند کی شادی تھی اور دونوں خوبصورتی کی انتہا تھے،اگر چاند سورج کی جوڑی کہا جائے تو بے جا نہ ہو گا
جہاں عاصہ رومان بھری لڑکی تھی وہیں ہارون کو بھی نئے نئے طریقوں سے چدائی کا شوق تھا
ہارون اور عاصمہ دونوں کا تعلق انتہائی کٹر مذہبی گھرانے سے تھا لیکن گھٹے اور تنگ نظر مذہبی گھریلو ماحول نے دونو ں کو بے باک بنا دیا تھا
اسی لئیے شادی کی پہلی رات ہی ہارون نے کمرے میں آتے ہی عاصمہ کو دس منٹ کے اندر ننگا کر کے بٹھا دیا تھا اور خود بھی ننگا ہو کر اس سے جہاں باتیں کر رہا تھا وہیں اپنی زندگی کی پہلی پھدی ،گانڈ اور مموں کو بار بار حیرت سے دیکھ اور چھو رہا تھا
ادھر عاصمہ بھی اپنے پہلے لوڑے کو شرم و حیا کو پیچھے چھوڑتے ہوئے ہاتھ میں تھامے بیٹھی تھی اور اس کا بس نہیں چل رہا تھا کہ فورا چدنا شروع کر دے
ہارون مدرسے کے ماحول کا پڑھا ہوا لڑکوں کی گانڈ لیتا دیتا یہاں تک آیا تھا اس لئیے اس کے لنڈ میں کافی نرمی آ چکی تھی
عاصمہ کی موٹی موٹی آنکھیں خمار سے بھر چکی تھیں اور ہارون اب اسں کے بتیس سائز کے تنے ہوئے سخت ممے چوس رہا تھا دبا رہا تھا اس کی پھدی پر باقاعدہ انگلی پھیرنے کے ساتھ ساتھ اس کی گانڈ کو بھی سہلا رہا تھا
سی سی سی آہ آہ یہ آوازیں ہارون کے لئیے نئی تھیں ادھر عاصمہ نے اس کے لن کو ہلانا شروع کیا تو 5 انچ کا نارمل سا لن کھڑا ہو چکا تھا،
ہارون نے بلاتاخیر ،اناڑی کا چودنا چوت کا ستیاناس،کرتے ہوئے ایک ہی جھٹکے میں عاصمہ کی چوت میں گھسا دیا اور پھر چیخوں اور کراہوں کا نہ رکنے والا سلسلہ تھا جو کمرے میں گونج رہا تھا
ایک منٹ کے اندر ہارون،عاصمہ کے ارمانوں اور پھدی کا خون کرتے ہوئے چھوٹ چکا تھا اب اس کے لئیے بڑا مسئلہ اسے چپ کروانا اور مطمئن کرنا تھا لیکن یہ لڑکے کی گانڈ تھوڑی تھی کہ اگر درد ہو بھی گیا تو ڈرا دھمکا کر چپ کروا لیا ،یہاں معاملہ الٹ تھا،عاصمہ درد کے ساتھ ساتھ
سخت غصے میں تھی لیکن سہاگ رات کی وجہ چپ تھی
پہلی رات کے تجربے نے عاصمہ کے اندر سیکس کی بھوک کم کی تھی لیکن ڈر بھی بڑھا دیا ادھر ہارون اپنے قاری صاحب سے مشورہ کے بعد ایک حکیم صاحب کی خدمات حاصل کر چکا تھا اور
ولیمہ کے بعد اس نے مطلوبہ پڑی ۔
کھائی اور پر اعتماد طریقے سے کمرے کی طرف بڑھ گیا
عاصمہ ولیمے سے تھکی ہوئی آئی تھی اور ابھی کل کی چدائی سے اس کے اندر رومانس کی حس کہیں سو گئی تھی لیکن ہارون نے آتے ہی اسے بھرپور قسم کی جپھی ڈالی تو وہ نا چاہتے ہوئے بھی اس کے سینے سے چمٹ گئی۔۔۔
کل کی ادھوری چدائی کا غم تھا یا حکیم صاحب کی جادوئی پڑیا کا کمال ہارون کا لن عاصمہ کے جسم کو محسوس کرتے ہی تن گیا اور عاصمہ کی رانوں میں ٹچ ہوتے ہوئے اس کی چوت کو اپنے ہونے کا احساس دلا کر گیلا کر رہا تھا کہ ہارون نے عاصمہ اور اپنے کپڑے اتارنے کا عمل شروع کر دیا
اس سے پہلے کہ عاصمہ کا خوف جاگتا ہارون
اسے ننگا کر کے بیڈ پر لٹا کر اس کی پھدی پر لن رگڑنا شروع کر چکا تھا
لن کو محسوس کرتے ہی پھدی نے اپنے ہونٹ کھولنا شروع کئیے اور مادہ_محبت نکالنا شروع کیا،ہارون عاصمہ کے ہونٹوں کو چوستے چوستے آہستہ آہستہ لن پھدی میں داخل کر رہا تھا کہ عاصمہ ایک تیز سسکی لے کر نیچے سے ہلی اور روتے ہوئے کہنے لگی کہ آج پھر تم نے درد کر دیا ابھی کل کی کاروائی سے مجھ سے بیٹھا نہیں جا رہا تھا اور باجی بھی ہنستے ہوئے کہہ رہی تھی کہ تمہارے جیسی حالت تو میری بھی نہیں
ہوئی تھی حالانکہ کہ احمد نے ساری رات مجھے سونے نہیں دیا تھا
ہارون یہ سن کر ہنس پڑا اور بولا جانو احمد کو
کوئی تجربہ ہو گا ہمیں تو کوئی تجربہ نہیں تھا اور یہ کہتے ہی اس نے دائیں نپل کو چوسٹا شروع کر دیا
ہارون کی زبان نے جنسی لذت کو بڑھا دیا تھا اور عاصمہ بار بار اسے کہہ رہی تھی ساری زندگی
پہلے ممے چوسو گے دباو گے تو چودنے دوں گی ورنہ نہیں
اففف بہت مزا آ رہا ہے جان اففف کھا جاو میرے ممے،،،انہی سسکیوں کے دوران ہی ہارون لن اندر باہر کر کے چدائی شروع کر چکا تھا اور پھر لذت کا نہ رکنے والا سلسلہ تھا جس نے عاصمہ کو باجی کی چدائی بھلا کر
اپنی پھدی کی قسمت پہ رشک کرنے پہ مجبور کر دیا
دن رات میں صبح شام میں تیزی سے بدلنے کے ساتھ ساتھ ہارون اور عاصمہ کی چدائیاں بڑھتی جا رہیں تھیں،اب تو ہارون اور وہ کمرے میں ننگے ہی پھرتے تھے اور کبھی کبھار سیکسی فلمیں دیکھ کر ایک دوسرے کی پھدی اور لن بھی چوس چاٹ لیتے تھے کہ عاصمہ پہلی بار حاملہ ہوئی اور اس خوشی کو منانے کے لئیے ہارون نے ویاگرا کھا کر چار مرتبہ پھدی کا پھدا بنایا تھا
حمل کے نو ماہ میں تمام احتیاط بالائے طاق
رکھتے ہوئے عاصمہ ہر روز دومرتبہ لازمی چدواتی تھی
جس دن ہارون تھکا بھی ہوتا وہ لن منہ میں کر کھڑا کرتی اور اوپر آ کر مزا لیتی ایسی ہی ایک رات کو مزا لیتے اسے درد شروع ہوا اور ٹھیک چار سے پانچ گھنٹے کے بعد اس نے عمران کو جنم دیا
عمران کو پیدا ہوتے ہی ہلکا سا یرقان تھا جس کی وجہ سے وہ ماں کا دودھ زیادہ نہیں پی سکتا تھا اور دودھ نہ نکلنے کی وجہ سے عاصمہ کے ممے ایک دن میں ہی سوج گئے تھے اور ڈاکٹرز نے اسے ہاتھ سے دودھ نکالنے کا کہا مگر نپل ہاتھ لگانے سے درد کرتے تھے
اس مسئلے کو اس نے ڈرت ڈرتے نرس صائمہ کو بتایا تو اس نے مسکراتے ہوئے کہا کہ وارڈ کا چکر مکمل کر لوں پھر آپ کو بھی سکون دیتی ہوں
صائمہ نے وارڈ کا چکر مکمل کیا اور نرسنگ کاوئنٹر پر یہ کہتے ہوئے عاصمہ کو نرسنگ چینجنگ روم میں لے گئی کہ یہ میری کلاس فیلو ہے ہم ذرا گپ شپ کر لیں
کمرے میں داخل ہوتے ہی اس نے دروازہ لاک کیا اور عاصمہ کی قمیض اتار دی
عاصمہ کے دودھ سے بھرے تنے ہوئے ممے جو اب چھتیس سائز کے ہو چکے تھے کو دیکھ کر صائمہ کی لسیبین چوت نے پانی کی پھوار ماری اور وہ بے اختیار بایاں نپل چوسنا شروع ہو گئی
عاصمہ تو جیسے درد کو بھول ہی گئی اور اگلے ہی لمحے میں اس کی لہولہان چوت میں کرنٹ لگنا شروع ہوا تو اس کے منہ سے اس کی روایتی سیییییییییییی نکلی جو ہارون کے لن کو مزید وحشی کر دیتی تھی لیکن صائمہ نے اس کو
خاموش رہنے کا اشارہ کیا اور تیزی سے بایاں مما دودھ سے خالی کرنا شروع ہو گئی
بایاں ممے سے فارغ ہوتے ہوتے صائمہ کی شلوار مکمل بھر چکی تھی
یہاں میں قارئین کو یہ بتاتا چلوں کہ مجھے زندگی میں تقریبا 936 عورتوں کی پھدی لینے کا موقع ملا جس میں ہر عمر اور مزاج کی عورت تھی لیکن میری شہرت کی وجہ سے ایک لیسبین کوئی 2 سال پہلے میری دوست بنی اور وہ اپنے پارٹنر کے ساتھ میرے فلیٹ پر آتی تھی پہلے وہ دونوں سیکس کرتی تھیں پھر ہم دونوں لہذا میں یہ بات پورے وثوق سے کہہ رہا ہوں کہ لیسبین پھدیاں بہت گرم،بہت پانی چھوڑتی ہیں عام پھدی کے مقابلے میں اور ان پھدیوں کو چودنے اور مطمئن کرنے کے لئیے خصوصی سٹیمنا چاہئیے ہوتا ہےخیر صائمہ کی زبان نے عاصمہ کو ہارون کے
ساتھ سیکس بھلا دیا تھا 10 منٹ سے کم وقت میں صائمہ نے اس کی مشکل حل کر دی تھی
اس سے پہلے کہ وہ اس کا شکریہ ادا کرتی صائمہ نے شلوار اتاری اور عاصمہ کا ہاتھ اپنی چوت پر رکھ دیا
عاصمہ پہلی بار کسی لڑکی کی چوت کو یوں دیکھ رہی تھی سیاہ رنگ کی موٹے چھولے کے ساتھ چدائی اور چاٹے کی منتظر چوت
اس کو یوں دیکھتا دیکھ کر صائمہ نے سر گوشی کی میں نے تمہیں سکون دیا اب تم مجھے سکون دو۔۔میں کیسے سکون دوں؟ عاصمہ
صائمہ ہنستے ہوئے۔۔اس کو چاٹو اور انگلی ڈالو۔۔اخ تھو۔میں نہیں چاٹوں گی ۔۔عاصمہ نے غصے سے کہا۔۔
نہیں چاٹو گی تو اس کمرے سے باہر نہیں جا سکو گی اور نہ ہی قمیض ملے گی۔۔صائمہ نے
دھمکانے والے انداز میں کہا تو عاصمہ ڈر گئی اور بولی یہ گندی ہے میں کیسے کروں
نہیں ہے گندی۔۔تم ایسا کرو پہلے میرے ممے چوسو یہ کہہ کر صائمہ نے قمیض اور برا اوپر کی تو اس کے چونتیس سائز کے بروان ممے جن پر سیاہ نپل اندھیرے میں سیکس کرنے والوں کے پنک نپل بن جاتے ہیں اس وقت لوڑے کے ٹوپے کی طرح سخت ہو چکے تھے
عاصمہ نے اپنی زندگی کا پہلا مما منہ میں بھرا اور چوسنا شرور کیا تو اسے محسوس ہوا کہ لہولہان چوت اور ایک دن قبل بچہ پیدا کرنے کے باوجود
بھی وہ فارغ ہونے والی ہے
اس نے صائمہ کے ہونٹوں میں ہونٹ ڈال کر ایک
ہاتھ سے مما دبانا شروع کر دیا اور دوسرا ہاتھ اس کی سیاہ چوت پر پھیرنا شروع کر دیا
لذت کا یہ کھیل شاید مزید چلتا لیکن دروازے پر ہونے والی دستک نے دونوں کو جلدی سے سیٹ ہونے پر مجبور کر دیا
کھیل تو ادھورا رہا لیکن اب دونوں لیسبین پارٹنر بن چکی تھیں
عاصمہ اگلے دن ہسپتال سے ڈسچارج ہو کر گھر آ گئی اور صائمہ سے گھر آنے کا وعدہ لے کر آئی
دن گزرتے رہے عمران بڑا ہونا شروع ہوا۔۔
حیرت انگیز طور پر عاصمہ کے ممے ڈھیلے نہیں ہوئے تھے اور اس کی جنسی طلب کو دیکھتے ہوئے ہارون نے اپنا مکمل علاج اس کے چھلے کے دوران کروا لیا تھا اور جیسے ہی ڈاکٹر نے چدائی کی اجازت دی ہارون نے عاصمہ کو اتنی بری طرح چودا کہ اس کی چوت پھوڑا بن گئی
لیکن اس چدائی اور عاصمہ کی لذت بھری
سسکیاں سن کر اس کا دیور قاسم دروازہ کے باہر کھڑا ہو کر
تین بار مٹھ لگا چکا تھا
قاسم اٹھارہ سال کا ایک خوبصورت نوجوان تھا اور اس کا لن قریبا سات انچ کا تھا اور وہ اسی کوشش میں لگا رہتا تھا کہ کسی طرح اپنی بھابھی کو چود سکے لیکن عاصمہ اسے ممے دکھانے اور گرم کرنے تک ہی رکھتی تھی مذہب کا ڈر ابھی جنسی طلب پر غالب تھا اور ویسے بھی ہارون کا لن اس کی ٹھکائی فی الحال صحیح طریقے سے کر رہا تھا لہذا اسے کوئی مسئلہ نہیں تھا کہ وہ مفت میں کسی اور لوڑے سے چداتی پھرے
عاصمہ کا جسم اب پہلے کی نسبت بھرنے سے اس کی جنسی کشش میں اضافہ ہو گیا تھا
وقت گزرتا گیا عمران 3 سال کا ہونے والا تھا کہ وہ ایک بار پھر پریگنٹ ہو گئی اور اب کی بار پھر بیٹا ہوا
قارئین میں کہانی کو دس سال کا جمپ لگا کر
سیدھا عمران پر لا رہا ہو کیوں کہ اصل کہانی یہیں سے شروع ہوتی ہے
عمران اب آٹھویں جماعت کا طالبعلم تھا،اچھی خوراک نے اس کا قد بھی خوب نکالا تھا اور اس کا لوڑا بھی کافی موٹا اور قریبا ساڑھے چھ انچ لمبا تھا
عاصمہ اس عرصے میں 7 بچوں کی ماں بننے کے باوجود خالی خوبصورت نہیں سیکسی خوبصورت چداکڑ گشتی ٹائپ عورت بن چکی تھی
ہارون اپنی جنسی وقت کھو چکا تھا اور عاصمہ کے پاس اگر مہینے میں ایک آدھ بار آتا بھی تو اندر ڈالتے ہی فارغ ہو جاتا جس کے بعد پورا مہینہ
عاصمہ اسے کوسنے دیتی
ہمارے ذہنی بیمار معاشرے میں عورت کی طلب پورا نہ کرنے والے مرد اسے بار بار پریگنٹ کرتے رہتے ہیں تا کہ وہ بچوں اور حمل میں الجھی رہے اور لن کا تقاضا نہ کرے
جب تک یہ سوچ نہیں بدلے گی طلاق کی شرح اور گھریلو ناچاقیوں میں کمی نہیں آئی گی
عمران کی جوانی کا اندازہ دو سال قبل اس کے کھڑے لن سے عاصمہ کو اس وقت ہوا جب وہ ہارون سے ناممکل چدائی کے بعد لڑ رہی تھی اور اسے یوں لگا کہ ہارون جاگ رہا ہے اور جب وہ اس کے پاس گئی تو اس کے ٹروائزر سے باہر نکلے ہوئے للے نے اس کی بات کی تصدیق کرنے کے ساتھ ساتھ اسے شرمانے پر مجبور کر دیا کہ وہ اپنے فرزند کا لوڑا دیکھ رہی ہے
مڈل کلاس گھروں کا المیہ یہ ہوتا ہے کہ ان کے رہائشی مذہب پرست،جنس پرست ہوتے ہیں اور یہ دونوں چیزیں مل۔کر انسانی کو جنونی یا سائیکو بنا دیتی ہیں اور شک وہی مرد کرتا ہے جو جنسی
طور پر کمزور ہو
یہی صورتحال اس وقت ہارون کی بھی تھی لیکن عمران جوان ہو چکا تھا باقی بچے بھی بچپنے سے نکل رہے تھے اس لئیے وہ ایسے باتوں کو دماغ میں ہی رکھتا تھا
عمران ماں کے جسمانی نشیب و فراز کئی بار دیکھ چکا تھا اور پچھلے ہفتے عاصمہ نے بدن ٹوٹنے پر عمران سے جب مالش کروانا شروع کی تو عمران کا لن اسے اپنی گانڈ پر حرکت کرتا محسوس ہوا ایک بار تو اسے شدید گناہ کا احساس ہوا لیکن دوسری
عورت جب گناہ و ثواب کے چکر سے نکل جاتی ہے تو وہ بہت خطرناک ہو جاتی ہے اس وقت اس کے سامنے صرف اس کی ذات ہوتی ہے اور اس سے جڑی سکون آمیز چیزیں اور یہی حال عاصمہ کا تھا جسے
چوت کے چٹخارے نے سب کچھ بھلا دیا اور وہ آہ ہائے اوہ کرتے ہوئے عمران سے مالش
کروانے لگ گئی کمر کی مالش اب چوتڑوں تک آ رہی تھی اور نرم گانڈ پر تیل لگا کر مالش کرتے عمران کا للا مسلسل قطرے گرا رہا تھا اس نے ماں کو سیدھا کیا اور مموں پر تیل ڈال کر مالش کرنا شروع کر دی
بیالیس سائز کے انتہائی ٹائٹ ممے عمران کا ہوش اڑانے کو کافی تھے لیکن ماں کا غصہ اسے کچھ بھی کرنے سے باز رکھ رہا تھا اس لئیے اس نے خاموشی سے تیل میں چپڑے ہوئے ممے مسلنے اور دبابے میں عافیت جانی
دوسری جانب عاصمہ چھوٹنے کے قریب پہنچ گئی تھی اور عجب بے بسی تھی کہ نہ وہ پھدی میں انگلی کر سکتی تھی اور نہ ہی عمران کا للا لے سکتی تھی
عورت تیس سال سے لے کر پینتالیس سال کی عمر تک اگر اچھا کھائے پہنے تو یہ زمانہ اس کی چدائی کے عروج کا زمانہ ہوتا ہے کیوں کہ چدوا چدوا کر وہ لذت حاصل کرنے اور مزا دینے کے تمام طریقوں سے واقف ہو چکی ہوتی ہے اسی طرح مرد اگر اپنی صحت کا خیال رکھے زیتون ،یخنی اور گوشت کا برابر استعمال رکھے روزانہ واک کرے تو اسے کسی ویاگرا کی ضرورت نہیں پڑتی یہ میرا ذاتی تجربہ ہے
خیر۔۔عمران بڑا ہونے کے ناطے عاصمہ کا لاڈلا بلکہ یوں کہئیے عاصمہ کی سہیلی بھی تھی پچھلی دو بار تو یوں ہوا کہ پریگنٹ ہونے کے بعد عاصمہ نے پہلے عمران کو ہی بتایا کہ میں
پریگنٹ ہو گئی ہوں اب عمران کا چھوٹا سا ذہن اس بات کو کیسے قبول کرتا اس وقت اسے ان معاملات کی سمجھ نہ تھی۔۔ستم بالائے ستم ایک دن عاصمہ نے غصہ میں ناشتہ کے وقت بچوں کے سامنے کہہ دیا کہ تمہارا باپ ختم ہو چکا ہے اب یہ کچھ نہیں کر سکتا۔
باقی بچوں کی تو سمجھ میں نہ آیا لیکن عمران کی سوئی اڑ گئی کہ یہ کیا معاملہ ہے
ماں کی مالش کے دوران اس نے یکدم پوچھ لیا کہ امی یہ اس دن آپ نے ابو کے ختم ہونے کی کیا بات کی تھی؟
عاصمہ! بیٹا جو مرد اپنی جوانی میں غلط کام
کرتے ہیں وہ بڑے ہو کر اپنی بیوی کو خوش نہیں رکھ سکتے
عمران!بیوی کو کیسے خوش رکھتے ہیں
یہ وہ سوال تھا جس نے عاصمہ کی چوت میں وہ
کرنٹ گھسا دیا جو جوانی کی چدائیوں میں اسے آتا تھا اور وہ سوچ میں پڑ گئی
اس سے پہلے کہ وہ کوئی جواب دیتی عمران نے اس کے نپلز رگڑنا شروع کئیے تو رکا ہوا طوفان بہہ نکلا اور اس نے ٹانگیں جوڑ لییں
ابھی عاصمہ سوال کا جواب ڈھونڈ ہی رہی تھی کہ دروازے پر بچوں کے سکول سے واپس آنے کا شور ہوا تو اس نے جلدی سے عمران کو پیچھے ہٹایا اور کمبل اپنے اوپر کر کے بیٹے کو کہا جاو
بہن بھائیوں کو دیکھو میں آتی ہوں تھوڑی دیر میں ہم کل اس موضوع پر بات کریں گے
عاصمہ عمران کو باہر تو بھیج چکی تھی لیکن جو آگ اس کی ٹانگوں بیچ بھڑک اٹھی تھی اسے ایک جاندار لوڑا ہی ٹھنڈا کر سکتا تھا
وہ ریشمی شلوار کے اوپر سے ہی چوت رگڑ رہی تھی کہ بچے اس سے آ کر لپٹ گیے اور وہ سوچنے پر مجبور ہو گئی کہ اس معاشرے میں عورت ماں بننے کے بعد اپنی جنسی، معاشرتی ،روحانی لذتوں سے محروم ہو جاتی ہے جبکہ یورپین معاشرے میں ایسا نہیں ہے اور اس سوال
کا جواب دینے کے لئے اس کے اردگرد کوئ نہیں تھا
یہی وجہ تھی کہ اس نے اپنی اولاد کو جدید تعلیم دینے کا فیصلہ کیا تھا عمران سے چھوٹی ماریہ کو بھی ماہواری آنا شروع ہو گئی تھی اور اسے اب ڈر لگتا تھا کہ کہیں ماریہ کی چوت بھی اس کی چوت کی طرح ساری زندگی پیاسی نہ رہے
دو کمروں کے گھر میں ایک ڈراینگ روم تھا اور ایک سونے والا کمرہ. آج ہارون شاید پھر کوئی پڑیا کھا آیا تھا اور رات کو سونے سے پہلے اسے فجر کے وقت ڈرائنگ روم میں آنے کا کہہ رہا تھا اور وہ بار بار منع کر رہی تھی
اسے معلوم تھا کہ آج بھی وہ پیاسی رہ جاءے گی لیکن عمران کے ہاتھوں کے گرمی سے آنے والا
طوفان ابھی تک جاری تھا سو چار و ناچار اس نے نیم دلی سے حامی بھر ہی لی تھی
سسسس پہلے ممے دبا گرم کر مجھے پھر ادھر جاوں گی اور لن دکھا پہلے مجھے
یہ سرگوشیاں نوخیز ماریہ کو جگانے کے لئے کافی تھیں جو ماں کے پہلو میں سو رہی تھی ایک پل تو اسے کچھ سمجھ نہ آئ لیکن اگلے پل میں کمرے میں جلتے زیرو کے بلب کی روشنی نے اسے ساری کہانی سمجھا دی تھی
ادھر چل آج تجھے بہت مزا دوں گا تو بس چدوانے والی بن ادھر بچے جاگ جائیں گے ہارون نے اس کے ممے دباتے ہوئے کہا تو عاصمہ نے گیلی چوت سے اٹھتی بھاپ کو آگ میں بدلنے سے پہلے ہارون کے اکڑے لنڈ کو چیک کر کے اطمینان کیا کہ آج لن بابے رحمتے کے کھسی لن کی بجائے چیف کے ہارڈ لوڑے جیسا ہے
وہ دونوں تو چلے گئے لیکن ماریہ نے لیٹے لیٹے دروازے کی جانب جست لگائ اور دیکھا کہ اماں .
بابا کے لنڈ کو چوپا لگا رہی ہے اور باپ سرگوشی کر رہا ہے
ہارون.آج تو کھا جا للے کو آج تجھے بہت چودنا ہے.. کھا اسے کھا اسے اففففففف
ٹوپے پر زبان پھیر
اور یہ سن کر عاصمہ نے لمبا چوسا لگایا اور ٹوپے پر زبان پھیری تو مزے کی شدت سے ہارون کے جسم کو جھٹکے لگنا شروع ہو گئے
اس نے فورا عاصمہ کو ننگا کیا تو ماریہ ماں کے بیالس سائز کے تنے ہوئے ممے دیکھ کر ہاتھ اپنے سینے پر لے کر گئی جہاں چھوٹے چھوٹے تنے ہوئے نپلز نے اس کا استقبال کیا
باپ کی دیکھا دیکھا جو اس کی ماں کا دایا نپل چوس اور بایاں نپل رگڑ رہا تھا اور ماں کی سسکیاں پورے گھر میں گونج رہی تھیں
اس نے اپنے چھوٹے نپل پر انگلی پھیری تو اک کرنٹ اس کی ریڑھ کی ہڈی سے ہوتا ہوا اس کی چوت میں بھر گیا
ادھر اس کی ماں ہارون کو اور گرم کر رہی تھی
عاصمہ.. شبانہ کا میاں اس کے مموں کا عاشق ہے ڈھیلے لٹکے ہوئے ممے ساری ساری رات چوستا ہے اور ایک تو ہے کہ اتنے شاندار ممے تجھے بھاتے نہیں روز اس انتظار میں صبح ہو جاتی ہے کہ اب ہارون چودے گا لیکن تو ہے کہ
ہارون.. اچھا چھوڑ اب گلے شکوے اور یہ کہہ کر اس کے کالے پھدے پر جھک گیا جہاں منی کا سیلاب آیا ہوا تھا
اس کی زبان ٹچ ہوتے ہی عاصمہ کی سسکیاں آہ آہ اففف اندر زبان ڈالللللللل کے ساتھ وہ فارغ ہو گئی اور اس نے ہارون کو چودنے کا بولا
ادھر ماریہ اپنی چھوٹی پھدی پر ہاتھ پھیرتے پھیرتے مزے میں انگلی اندر ڈال چکی تھی ادھر اس کی انگلی اندر گئی ادھر ہارون کا لوڑا عاصمہ کی چوت میں داخل ہو گیا تھا
عمران کے لئے یہ منظر نئے نہیں تھے لیکن آج چھوٹی کو مزہ لیتا دیکھ کر اس نے وہیں لیٹے لیٹے ہی مٹھ لگا لی تھی لیکن چھوٹی کا ہاتھ مسلسل اسے ہلتا ہوا دکھائی دے رہاتھا اور ساتھ والے کمرے سے آنے والی آوازیں
آج تجھے اتنا چودوں گا کہ محلہ کی کسی عورت کی پھدی میں اتنا لن نہیں گیا ہو گا آج تک.. لے یہ لےاور یہ کہتے ہی ہارون نے موٹر وے پر دو سو کی سپیڈ سے ڈائوو بس چلا دی تھی
عاصمہ کی تو جیسے لاٹری نکل آئ تھی سالوں بعد ایسے چدائی نے اسے نہال اور نڈھال کر دیا تھا
ہارون اب گھوڑی بن کر اس پر چڑھا ہوا تھا اور ہر جھٹکے کے ساتھ اس کے ہلتے ہوئے موٹے
مموں نے ماریہ کی چھوٹی پھدی کو دس منٹ میں بڑا کر دیا تھا
مزے کا یہ سلسلہ اس وقت ختم ہوا جب ہارون عاصمہ کی گانڈ پر فارغ ہوا
ماریہ واپس بستر پر پلٹی تو لیٹتے ساتھ ہی اسے کمر پر کچھ چبھتا ہوا محسوس ہوا
اس سے پہلے کہ وہ مڑ کر دیکھتی عمران کا ہاتھ اس کی شلوار کے اندر جا چکا تھا
عمران نے ماریہ کی چھوٹی پھدی پر انگلی پھیرنا شروع کی تو گیلے پن کے احساس نے اسے ہاتھ تیز چلانے پر مجبور کر دیا ساتھ ہی ساتھ میں ماریہ کا ہاتھ اس نے اپنے ننگے لن پر رکھا تو
ملائم لمس پاتے ہی لن نے پچکاری مار دی جس نے پستر گندا کر دیا
فارغ ہونے کا لمحہ تو مسرت کن تھا لیکن ماں باپ کی کمرے میں واپس آنے کی آوازوں نے دونوں کو پریشان کر دیا
عمران نے جلدی سے ہاتھ ماریہ کی شلوار سے
باہر نکالا اور اپنا ناڑا باندھا لیکن ماریہ نے اپنے دوپٹے سے عمران کی منی کو صاف کیا اور تہہ لگا کر گیلی جگہ پر بچھایا اور اس پر سو گئ
اگلی صبح جہاں عاصمہ کے لئے زندگی سے
بھری ہوئ تھی وہیں عمران اور ماریہ بھی خوش تھے
دوستو! پیٹ کی بھوک تو پانی پی کر بھی برداشت کی جا سکتی ہے لیکن جنس کی بھوک جب تک سیکس نہ کر لیا جائے ختم نہیں ہوتی اور اگر
انسان کو سیکس کرنے کا موقع نہ ملے تو برداشت کی حد کے بعد نفسیاتی مسائل شروع ہو جاتے ہیں
مجھے یہاں سعادت حسن منٹو یاد آ رہے ہیں. زمانہ انہیں فحش نگار کہتا رہا لیکن وہ اس بیمار معاشرے کا اصل نباض تھا
آج ہمارے نوے فیصد گھرانوں میں ناچاقیوں اور
لڑائیوں کی اصل وجہ جنسی معاملات کا درست نہ ہونا ہے
ہم یہاں کہانیاں پڑھ کر لذت لیتے ہیں اور مٹھ یا فنگر بھی کر لیتے ہیں لیکن یہ بھول جاتے ہیں کہ کل شادی کے بعد جب چوت کے منہ پر فارغ ہو جائیں گے اور بیوی لڑے گی تو ہم اسے جاہل و گالیاں دے کر لڑ جھگڑ کر پرے کریں گے
نہیں ایسے نہیں کرنا.. سب سے زیادہ خیال براہ کرم اپنی جنسی صحت کا رکھیں ورنہ کل کو آپ ہارون اور عاصمہ جیسے کردار بن جائیں گے
ماریہ اور عمران کو ماں کی خوشی کا سبب معلوم تھا لیکن آپس میں بات کرنے کا موقع نہیں مل رہا تھا
رات حسب معمول کھانا کھا کر پورے گھرانے
میرا سائیں ڈرامہ دیکھا اور پھر سونے کی تیاری کرنے لگے
عاصمہ کا آج بھی موڈ تھا چدائی کا اس نے ہارون کی جانب دیکھا تو وہاں نیند اور تھکن کے آثار جلوہ گر تھے
ماں باپ کے اور بہن بھائیوں کےسوتے ہیں عمران نے ماریہ کی کمر پر ہاتھ رکھا تو اس نے عمران کی طرف کروٹ بدل لی
یہاں یہ بات بتاتا چلوں کہ ہارون عاصمہ ننھی بیڈ
پر جبکہ باقی بچے زمین پر تلائیاں بچھا کر سوتے تھے
عمران نے ماریہ کے قریب ہوتے ہوئے اسے لیٹے لیٹے جپھی ڈالی اور اس کے ہونٹوں پر ہونٹ رکھے تو گرمی سے دنوں کے دل پگھل گئے
ماریہ نے عمران کے لن کو زور سے دبایا تو اس کی چیخ نکلتے نکلتے رہ گئی
عمران نے ماریہ کی قمیض اوپر کی اور اس کے سیب جتنے سخت ہوتے ممے چوسنا شروع کر
دئیے ماریہ نے سسکی بھری تو ہارون نے کروٹ لی جس کی وجہ سے دونوں کو رکنا پڑا
عمران نے غصے سے چھوٹی بہن کو سرگوشی میں ڈانٹا کہ مزا لینا ہے تو چپ کر لے لو ورنہ مرواو مت
یہ سن کر ماریہ نے اور زور سے کا لن دبایا تو عمران نے چڑتے ہوئے اس کی گانڈ پر چٹکی کاٹ لی
مستیاں بڑھنا شروع ہوئیں اب لن پھدی کے ملاپ کا وقت تھا لیکن جگہ نہ ہونے کے سبب خوف کا عنصر زیادہ ہو چکا تھا
ماریہ کی شلوار نیچے کرنے کے لئے عمران نے ہاتھ بڑھایا تو ماریہ نے اسے روک دیا لیکن لن کو جب گرمی چڑھی ہو تو وہ کوہ ہمالیہ میں سوراخ کر دیتا ہے یہ تو ماریہ کی شلوار تھی
عمران نے اس کے ہونٹوں کو ہونٹ میں لیا اور پھدی پر انگلنا پھیرنا شروع کی مزے کی لہر ماریہ کو مدہوش کر چکی تھی عمران نے اپنا ناڑہ کھول کر گیلا لن جو اس کی مزی سے بھرا ہوا تھا ماریہ کے ہاتھ میں تھمایا اور جلدی سے اس کی شلوار نیچے کر کے اس کے ایک ٹانگ اپنے اوپر رکھ کر اسے سمجھایا کہ کیسے ایک سائیڈ پر لیٹ کر لن پھدی کے چھولے اور ہونٹوں پر رگڑنا ہے
نے لن پھدی پر پھیرا تو اس کے لمس نے
اسے ایک لمحہ میں تیرہ سال کی بجائے تیس سالہ چدکڑ عورت بنا دیا
بہن بھائی کا رشتہ کہیں گم ہو گیا تھا اور لن پھدی کا چسکہ اولین ترجیحات میں آ گیا تھا
ماریہ کو عمران کا سخت لنڈ بے پناہ مزہ دے رہا تھا ہونٹوں میں ہونٹ تھے ایک ہاتھ نپلز کو مسل
کرہا تھا اور ماریہ لن کو پھدی پر رگڑتی جا رہی تھی
تیز ہوتی سانسوں کے ساتھ ماریہ چھولا ٹوپہ پر رگڑتی ہوئی فارغ ہوئی تو اس کی گرفت لنڈ پر ڈھیلی پڑی تو عمران نے اس کے کان میں آہستگی سے کہا خود تو مزہ لے لیا ہے اب مجھے بھی فارغ کرواو
.. تم مجھے گندا کر دو گے
عمران.. منی تم پر گرے گی تو تمہیں جان لیوا مزا آیے گا
ماریہ.. نہیں
عمران.. میں ناراض ہو جاوں گا اور آیندہ مزہ نہیں دوں گا
ماریہ.. پھر کیا کروں میں
عمران.. لن رگڑو
ماریہ نے چار و ناچار جیسے ہی دوبارہ لنڈ رگڑنا شروع کیا اس کی پھدی نے دوبارہ پانی چھوڑنا شروع کر دیا
کی سمجھ سے بالاتر تھا کہ یہ کیسا مزا ہے جو ختم ہونے کا نام نہیں لے رہا
رگڑتے رگڑتے یکدم عمران کے لنڈ نے ماریہ کی پھدی اور تھائیز کو بھر دیا اور وہ غصہ سے اٹھ کر باتھ روم چلی گئی
اگلی صبح ماریہ کا منہ پھولا ہوا تھا عمران نے ناشتے کے بعد اسے چھت پر بلایا
عمران.. رات کو مزا آیا تھا
ماریہ.. نہیں
عمران.. کیوں
ماریہ.. تم گندے بھائی ہو
عمران. اوہ.. اب بتاو میں کیا کرتا وہاں
ماریہ.. واش روم میں جا کر فارغ ہو جاتے
عمران.. اتنا ٹائم نہیں ہوتا... اب تم کیوں نہیں ہوئیں جا کر فارغ باتھ روم میں
ماریہ.. ہاں یہ تو میں نے سوچا نہیں
عمران.. آج رات کو ایک کپڑا پاس رکھ لینا جسے بعد میں دھو لیں گے
ابھی گفتگو جاری ہی تھی کہ ماریہ کو ماں کی آواز آئی نیچے آؤ دونوں
ماریہ تم ایسا کرو خالہ کے گھر جاو اور پوچھو کہ کمیٹی کب آنی ہے.. عاصمہ نے ماریہ کو بھیج کر عمران کو کہا کہ تیل کی شیشی اٹھا کر اس کی مالش کرے
یہ سنتے ہی عمران نے تہیہ کر لیا کہ آج ماں کو چود کرچھوڑے گا ادھرعاصمہ سوچ رہی تھی کہ آج زیادہ سے زیادہ مزہ لے گی عمران سے اور
ممکن ہوا تو پھدی پر تیل لگوا کر مٹھ بھی مروائے گی
میں امی ابو اور بہن حصہ پنجم
عاصمہ الٹی لیٹی ہوئی تھی اور اس کی قمیض کندھوں تک جبکہ شلوار گانڈ کے سوراخ تک اس نے ڈھیلی کر دی تھی
عمران پہلی بار ماں کی گانڈ دیکھ کر اسے گانڈو
کرنے کا سوچ رہا تھا کہ ماں کی آواز نے اس کی توجہ ہٹائی
عاصمہ... تیل لگا کر خواب مالش کرو بدن میں سخت درد ہے
عمران.. جی امی آج آپ کو مکمل سکون دوں گا
عاصمہ.. ہونہہہ
عمران نے اپنی شلوار پر سے قمیض ہٹائی اور تنے ہوئے لن کو گانڈ کے سوراخ پر رکھ کر ٹانگیں دونوں جانب کر کے بیٹھا اور ماں کی برا کے ہک کھول کر تیل کی بوندیں کمر پر ملنا شروع ہو گیا
اب کمرے کی صورتحال یہ تھی کہ عمران مالش کے لیے آگے تو لن آگے جاتا پیچھے آتا تو پیچھے
عاصمہ کی رسیلی گرم پیاسی چوت نے لن سے
دوری کا شکوہ ایسے شروع کیا جیسا عمران خان نے چار حلقوں میں دھاندلی کا کیا تھا
قریبا 5 منٹ کی مالش کے دوران ہی عمران کو لگا کہ وہ فارغ ہونے لگا ہے تو اس نے کچھ کہے بنا باتھ روم کی طرف دوڑ لگائی تو عاصمہ زیر لب ہنس دی
اس کے باتھ روم جاتے ہی عاصمہ نے سیدھے ہو کر قمیض اوپر کی اور پھدی پر ہاتھ پھیرا تو گیلاہٹ سے اس کی مزیدار سسکیاں نکل گئیں جنہیں سن کر مٹھ لگاتا عمران زور دار طریقے ...سے فارغ ہو گیا
واپسی پر عمران کا استقبال عاصمہ کے عظیم الشان ممے کر رہے تھے جو اس وقت مزے کی وجہ سے مزید سخت اور نپلز اکڑ چکے تھے
عمران نے جانے کس جذبے کے تحت ماں کا موٹا گہرا براون نپل منہ میں لیا اور بایاں مما دبانا شروع کر دیا
عاصمہ.. چل شاباش اچھی طرح سے دودھ پی لے
عمران.. امی آپ کے دودھ بہت سیکسی ہیں
عاصمہ.. وہ کیسے
عمران.. وہ ایسے کہ انہیں دیکھ کر کوئی نہیں یقین کرتا کہ اتنے بچے ہیں آپ کے
عاصمہ.. اب باتیں نہ بنا دودھ پینا ہے تو پی ورنہ مالش کر
عمران نے بایاں ممہ منہ میں ڈالا تو دایاں ہاتھ ایک جھٹکے سے ماں کی چوت پر رکھا تو سسسسسسییییییییی
کی زوردار آواز اور منی کے سیلاب نے اس کا استقبال کیا
عاصمہ کی چوت نے عمران کے ہلکے سے لمس پر ہی آنسو بہا دئیے تھے اسے ساری عمر کی
چدائی میں اتنا مزہ نہیں آیا تھا جتنا اس ایک لمس میں آیا تھا
عمران نے پیش قدمی کرتی ہوئے ماں کے پھدے میں دو انگلیاں ڈالیں اور انگلی چود کام شروع کر
...دیا
عاصمہ نے بھی کھلی ٹانگوں سے اس چدائی کا استقبال کیا اور ساتھ میں عمران کے لن کو شلوار سے باہر نکالنے لگی
عمران کا لن بھی کوٹھے پہ چڑھے ککڑ کی طرح بانگ دینے کو مر رہا تھا
عمران اور عاصمہ کے درمیان اس وقت صرف
لذت کا رشتہ جاگ رہا تھا باقی سب وہ بھول چکے تھے
عمران نے ماں کی شلوار اور اپنی شلوار یوں اتار کر پھینکی کہ جیسے صدیوں سے وہ یہ کپڑے پہنے ہوئے تھے
ماں کی پھدی کے لٹگے ہوئے گیلے ہونٹوں پر اس نے لن رگڑنا شروع کیا تو اک بے خودی کے عالم میں ماں کی سسکیاں نکل رہیں تھیںاففففف سیییییی آہہہہہ اویےےےےےے ہایییییتےےےےےے
انہیں آوازوں کے درمیان ہی اس کا لن ماں کی پھدی چودنا شروع ہو گیا
چوت کی گرمی اور ناتجربہ کاری کے باوجود دو منٹ کی دھواں دار چدائی نے ماں کے کس بل
نکال ایسے نکالے تھے جیسے کتیا پھدی میں کتے کا لن گھنٹوں دبانے کے بعد نکالتی ہے
عمران فارغ ہو کر ایک سائیڈ پر لیٹا تو عاصمہ کو بھی خیال آیا کہ یہ اس نے کیا کر دیا.. اس حد تک تونہیں جانا چاہئے تھے
عمران.. مجھے پتہ ہے آپ کیا سوچ رہی ہیں لیکن یہ آپ کے میرے بیچ رہے گا
عاصمہ..یہ بہت غلط ہو گیا ہے
...عمران.. کیا غلط ہوا ہے
عاصمہ.. تم میرے بیٹے ہو
عمران.. مجھے پتہ ہے آپ کی چدائی نہین ہوتی اب.. اور میں نہیں چاہتا آپ کسی اور سے چدوائیں
عاصمہ.. ہاں ٹھیک کہتے ہو.. تمہارا باپ اب اس قابل نہیں رہا کہ وہ مجھے سکون دے
قارئین! مرد کو باہر کا چسکا لگ جائے تو وہ زندگی میں کہیں نہ کہیں ختم یا کم ہو جاتا ہے لیکن اگر عورت کو غیر لنوں سے چدوانے کا شوق پڑ جایے تو وہ مرتے دم تک نہین جاتا اس لیے اپنے لن مضبوط رکھیں اور زیادہ سے زیادہ اپنی
...عورتوں کی بجائیں
پرائی اور بنجر زمینوں پر ہم نے بھی بڑا ہل چلایا انہیں پانی دیا لیکن شادی کے بعد پرہیز کیا لیکن اب طلاق کے بعد دوست بنانے کی کوشش کر رہا ہوں لیکن کامیابی نہیں مل رہی آپ دوست بھی مدد کریں
عمران نے عاصمہ کو دو ٹوک انداز میں کہہ دیا تھا کہ باپ کے بعد اس کی پھدی وہی لے گا ورنہ جان سے مار دے گا یہ سن کر وہ چپ ہو کر کچھ سوچنے لگ گئی
دن گزرتے گئے عمران نے ماریہ کے ممے چوس چوس کر چھتیس اور ماں کو چود چود کر اس کی حسرت پوری کر دی تھی اور اب اس کا دل بھی ماں سے بھرنا شروع ہو گیا تھا اس کی بنیادی وجہ چھ سال کی مسلسل چدائی کے بعد زندگی میں
ہونے والا پہلا عشق تھا
ماریہ اور اس کے درمیان خاموش تعلق چل رہا تھا ماریہ اسے کئی بار اندر ڈالنے کا کہہ چکی تھی لیکن عمران اس کی سہاگ رات کے بعد اسے چودنا چاہتا تھا
ایک بھائی کی حیثیت سے اس کی یہ سوچ دیکھ کر ماریہ نے بھی اپنی چوت کو رگڑ کا عادی بنا لیا تھا
اس کے رشتہ کی بات ایک ڈاکٹر سے چل رہی تھی اس کی جوانی و حسن کا دیوانہ اس کا خاندان ،اس کا محلہ الغرض لوڑے تو لوڑے پھدیاں بھی تھیں
عمران ندا کے ساتھ اپنا عشق کا احوال مادیہ کو سنا چکا تھا اور آج تو جس جوش سے اس نے دوپہر کو ماریہ کی پھدی پر للا رگڑا تھا اس سے ماریہ تو مزے سے مری ہی مری عمران خود یہی سمجھا کہ اس نے ندا کی پھدی لے لی ہے
ندا اس کی خالہ زاد تھی رکاوٹ اس کا غریب ہونا تھا
ماریہ نے مدد کرنے سے انکار کر دیا تھا اور ندا سے اس کی بچپن کی دوستی تو تھی مگر وہ رعب حسن کے سبب کچھ کہنے سے ڈرتا تھا
قدرت کے کام نرالے.. عمران سفید کاٹن کی شلوار قمیص اود سیاہ واسکٹ میں کسی منسٹر سے کم نہیں لگ رہا تھا اس کا رخ خالہ کے گھر کی
طرف جہاں دیدار_یار تو مقصود تھا ہی ساتھ میں بیمار خالہ کی عیادت بھی کرنا تھا
عمران کی خالہ ریشم کی عمر کوئی باون سال ہو گی اور ان کے مموں کا سایز بھی باون تھا لیکن اچھی صحت اور خوبصورتی کی وجہ سے وہ چالیس کی لگتی تھی
اس کی سیل اس کے فوجی مامے نے کھولی تھی ..
پاکستانی فوجی جہاں بھی پھدی اور بھارتی فوجی
دیکھتے ہیں دیکھے سنے سوچے سمجھے بنا فورا مار دیتے ہیں
شادی کے بعد ریشم کی پھدی اس کے چاچے سسر، اس کے دیور اور اس کے شوہر نے خوب
بجائی تھی اس کی بنیادی وجہ اس کا بے انتہا حسن اور سیکسی ہونا تھا
گزشتہ ہفتے اپنے باورچی سے چداتے ہویے وہ باتھ روم میں سلپ ہو کر گر گیی تھی اور اب کمر کے درد کی وجہ سے الٹی لیٹی ہائے ہائے کر رہی تھی کہ عمران جا پہنچا
کیا دیکھتا ہے کہ ندا ماں کی کمر کی مالش کررہے ہے اور خالہ درد سے کراہ رہی ہے
عمران.. سلام خالہ.. زیادہ درد ہے کیا
ریشم ..
********************************و مر گئی میں . .**** ************
..عمران.. ندا ہٹو تم میں مساج کرتا ہوں
ندا.. نہیں میں کر رہی ہوں
عمران.. ایسے نہین ہوتا مساج.. ٹیشوز کو خاص انداز میں سکون پہنچانا ہوتا ہے
ندا.. تمہیں بڑا تجربہ ہے
عمران.. ابھی امی کا کر کے آ رہا ہوں
ریشم.. اچھا لڑو مت.. عمران تم کرو جلدی مجھے درد ہے
عمران. تیل کی شیشی لیتا ہے اور خالہ کی قمیص اوپر کر کے برا کھولتا ہے تو گانڈ کی پھولاہٹ
دیکھ کر اس کا لوڑا گانڈ گانڈ پکارنا شروع ہو گیا تھا
ادھر اس نے مساج کرنا شروع کیا ادھر اس کے لن نے خالہ کی عظیم الشان گانڈ پہ دستک دینا شروع کر دی تھی
عمران کے ہاتھوں کا لمس پاتے ہی ریشم کو
سکون ملنا شروع ہوا تھوڑے حواس بحال ہوئے تو گانڈ سے مزا آنا شروع ہو گیا
اس سے پہلے وہ کچھ سمجھتی عمران دس منٹ کر مالش میں اس کی گانڈ منی سے گیلی کر کے نیچے اترا اور شرمندہ سا منہ بنا کر بیٹھ گیا
ریشم.. عمران مجھے اٹھاو واش روم لے چلو
عمران.. نے اسے سہارا دے کر اٹھایا تو ریشم نے برا سے نکلے ممے عمران کے منہ پر رگڑ دیے
ریشم واش روم میں گئی تو عمران نے ندا کے کمرے کا رخ کیا جہاں وہ اکیلی بیٹھی گانے سن رہی تھی.. سانولی سلونی سی ندا چوتیس سایز کے مموں کے ساتھ بے حدحسین لڑکی تھی
عمران اس کے سامنے جا کر بولنا بھول جاتا تھا
اور آج تو اس نے بنا برا کے شرٹ اور شارٹ پہنا ہوا تھا یہ نظارہ دیکھ کر اس کا لن پھر کھڑا ہونا شروع ہو گیا ت
میں امی ابو اور بہن حصہ ششم
اس سے پہلے عمران ندا کی پھدی لینے کا منصوبہ ترتیب دیتا باتھ روم سے خالہ نے اسے پکارا تو وہ دل ہی دل میں اسے کوستا ہوا واش روم کی جانب بڑھا جہاں ایک سیکسی نظارہ اس کا منتظر تھا
خالہ..آ کر استنجا ہی کرا دو
عمران.. میں... ندا کو بلاتا ہو
خالہ.. نہیں وہ نہیں کروا سکتی کام والی آئی نہیں لہذا تم ہی کروا دو
عمران نے یہ سنتے ہی دروازہ لگایا اور خالہ کی ٹانگوں میں جا کر بیٹھ گیا
سفید بالوں سے خالی برائلر مرغی کی طرح موٹی چکنی رانیں دیکھ کر اس کے لوڑے نے پانی چھوڑنا شروع کر دیا تھا سو اس نے استنجا شاور پکڑا اور پانی کی ہلکی ہلکی پھوار سے خالہ کی گانڈ کو صاف کیا اور آگے آیا
سیاہ بالوں سے ڈھکی چوت نے اس کے دل خراب تو کیا لیکن اس نے پانی مارتے مارتے خالہ سے کہا کہ یہ جنگل کس خوشی میں اگایا ہے تو خالہ روہانسی ہو کر بولی ایک ماہ سے تو بستر پر ہوں اور اسے ویسے کس نے دیکھنا ہو جو صاف کرو ں
اس جملے میں خالہ کا کرب عیاں تھا عموماً
ہمارے معاشرے میں پچاس سال کے بعد عورت کی نہیں لی جاتی اگر دیکھا جائے تو بیشتر عورتیں ایسی بھی ہوتی ہیں کہ انہوں نے خود کو سنبھالا ہوا ہوتا ہے اور وہی عورت خود کو سنبھالتی ہے جس کا مرد اس کی چوت کو تسلسل
..سے چودتا ہو
خالہ اس عمر میں بھی بے پناہ جنسی کشش کی
حامل تھی یہی وجہ تھی کہ عمران کا لن اس کے قابو سے باہر ہوتا جا رہا تھا
اس نے چوت پر ہاتھ پھیرتے ہوئے انگلی داخل کی تو ایک کی بجائے دو انگلیوں کا خلا محسوس اور چپچپاہٹ اتنی تھی کہ خود بخود انگلیاں اندر باہر ہونا شروع ہو گئیں
یہ کہا جا سکتا ہے کہ خالہ مالش کے دوران بھرپور گرم ہوئی تھی اور اب عمران کے ہاتھوں ہی فارغ ہونا چاہتی تھی
عمران نے انگلیوں سے چوت چودائی جاری
رکھتے ہوئے خالہ کے ہونٹوں میں ہونٹ ڈالے تو ایک جھکٹے میں ہی وہ چھوٹ گئی
عمران نے صاف کر کے شلوار پہنا کر خالہ کو بستر پر لٹایا اور ساتھ ہی ساتھ وہ سوچ رہا تھا کہ خالہ کو خوش کر کے وہ ندا کی جانب بڑھ سکتا ہے لیکن وقت کے کھیل نرالے ہوتے ہیں
اس نے خالہ سے اجازت چاہی تو خالہ نے کہا یہیں رک جاو میں تمہاری ماں کو کہہ دیتی ہوں کہ تم آج یہیں رہو گے.. اندھا کیا چاہے دو آنکھیں اس نے فورا حامی بھری اور باہر ٹی وی لاونج میں چلا گیا
خالہ کے جسم کی گرمی نے اس کے لوڑے کو
پریشان کر دیا تھا اگر خالہ کی کمر کا مسئلہ نہ ہوتا تو وہ اس موٹے چوٹر والی خالہ کی ایسی
چدائی کرتا کہ وہ اپنی زندگی کے سارے للے بھول جاتی مگر وہ کیا ہے چراغ تلے اندھیرا
شام کو اس کی بڑی خالہ زاد صائمہ ماں کے پاس رہنے کے لیے آگئی تھی
صائمہ عمران سے دو سال بڑی، گوری چٹی ،اڑتیس کے ممے اور چھتیس کی گانڈ کی مالکہ سیکس بم. تھی جسے اس کا کاروباری شوہر اس وقت ہی چودتا تھا جب اسے حاملہ کرنا ہو یا جب اسے باہر پھدی نہ ملے لہذا سیکس کی طلب نے
اس کے جسم سے جو لہریں نکالنا شروع کیں تھیں وہ کھسی لنوں کو بھی جگا دیتی تھیں
Kids video leak data available 45gb
03355094312 what's app
صایمہ ماں کا حال احوال، بہن سے مل. کر اور گھر کی صورتحال دیکھ کر لاونج میں عمران کے پاس آ کر بیٹھ گئی تھی
اس کا چھوٹا بیٹا چھ ماہ کا تھا اس لیے وہ دودھ پلانے کی وجہ سے بریزئیر نہیں پہنتی تھی ادھر عمران صاحب نے بغیر برئیزیر کے مموں کو جب تاڑی لگانا شروع کی تو اس کی نگاہوں کی گرمی کی تاب نہ لاتے ہوئے ان کی نپل اکڑ گئے جس پر صائمہ نے غور کیا تو معلوم ہوا کزن موصوف مما بھونڈی میں مصروف ہیں
نپل سخت ہوئے تو چوت نے بھی انگڑائی لی
بیچاری پچھلے دس دن سے لوڑے کی راہ تک تک مرنے والی ہو چکی تھی
صایمہ.. ایسے کیا دیکھ رہے ہو
عمران.. وہ آپ کی شرٹ پر
صائمہ..کیا میرے شرٹ پر
عمران.. شرٹ پر یا شاید اندر
صائمہ.. گھبراتے ہوئے.. کیا ہے جلدی بولو
عمران.. ایک منٹ میں دیکھتا ہوں اور یہ کہہ کر اس کے قریب آ گیا
صایمہ اس سے قبل کہ کچھ سوچتی عمران نے اس کی قمیض اوپر اٹھا کر بایاں نپل منہ میں لے کر زبان پھیر دی
صائمہ کے لیے جہاں یہ عمل جان لیوا تھا وہیں اس نے فورا دائیں بائیں دیکھا اور عمران کو پیچھے ہٹانا چاہا لیکن اس سب کے دوران وہ اس کا دودھ اے بھرا دایاں مما ہاتھ میں لے کر اس کا نپل رب کر دہا تھا
چند سیکنڈز میں اس کی چوت پانی پانی ہو گئی اور اس نے بڑی مشکل سے عمران کو پیچھے ہٹایا اور اندر کمرے میں چلی گئی
عمران نے سوچا خالہ کو شکایت لگایے گی بے شک لگائے خالہ اپنی کانی ہے سو کوئی ٹینشن نہیں.. یہ سوچ کر اس نے لن کو دلاسا دیا اور دوبارہ ٹی وی دیکھنے میں مگن ہو گیا
رات کا کھانا کھانے کے دوران بھی عمران کی نظر صایمہ کے مموں پر ہی رہی اور اس بات کو محسوس کر کے جہاں صایمہ کو شرم آ رہی تھی وہیں اس کی چوت نے لوڑا لوڑا لوڑا کی آوازیں لگانا شروع کر دیں تھیں
کھانے کے بعد گپ شپ کا ایک دور چلا اور اس کے بعد سب اپنے اپنے کمروں کی طرف سونے کے لیے چلے گئے
عمران کو ڈراینگ رام میں میٹرس ڈال دیا گیا تا کہ وہ سکون سے سو سکے
ادھر صائمہ ماں کے کمرے میں بچوں کو سلاتے ہوئے یہ سوچ رہی تھی کہ ڈیلیوری کو چھ ماہ ہو چکی ہیں لیکن اس کے کاروباری خاوند کا لن ایک بار ہی کھڑا ہوا اور اس کی چوت کو ٹھنڈا کیے بنا ہی چلتا بنا
دوستو! یہ جو شادی شدہ خواتین ہوتی ہیں ان کا حساب کتاب ہر شے کا بہت پختہ ہوتا ہے.. کھانے سے لے کر چدانے تک ایک ایک لقمے اور گھسے ان کو یاد ہوتے ہیں اور خاوند کے لن کی ہر رگ اور ٹٹوں کے بال ان کی پھدیوں کے
حافظے میں ہوتے ہیں اسی لیے میں بار بار کہتا ہوں کہ اپنے لنوں کی حفاظت کریں.. عورت مانگے نہ تاج نہ تخت بس مانگے لوڑا سخت
صایمہ نے بچے سلانے کے بعد ماں کو دیکھا تو وہ بھی گہری نیند میں جا چکی تھیں سو خاموشی سے وہ اٹھی اور ندا کے کمرے میں جھانکا تو وہ بھی سو رہی تھی لہذا اس نے عمران کے کمرے کا رخ کیا اور جاتے ہی دروازہ لاک کر کے
کپڑے اتار کر ایک سائیڈ پر رکھے اور عمران کے پاس جا کر بیٹھ گئی
عمران پہلے تو سمجھا کہ اسے خواب میں لن سہلانے کا مزا آ رہا ہے لیکن اس نے آنکھ کی جھری سے دیکھا تو صائمہ لن پر ہاتھ پھیرتی ہوئی دکھائی دی
اس سے پہلے کہ وہ اس کی شلوار میں ہاتھ ڈالتی اس نے ایک جھٹکے سے اسے اپنی جانب کھینچا
اور کروٹ بدل کر اٹھ گیا... برہنہ بدن لیے صائمہ میٹرس پر لیٹ چکی تھی اور اس کی گیلی چوت کی مہک پورے کمرہ میں پھیل چکی تھی
عمران نے آو دیکھا نہ تاو کپڑے اتارے اور اس کی اوپر آنے والا کام کیا
لبوں سے لب مل چکے تھے،،، آہ آہ چس چس چس ہون ہون ہون کی آوازیں عمران کو اور وحشی کر رہیں تھیں
اس نے صایمہ کی گردن پر زبان کی نوک رکھی تو یکدم جھٹکا کھا کر اس کی پھدی فارغ ہو گئی
گردن پر زبان پھیرتے پھیرتے اب وہ اس کے سینے پر زبان پھیر رہا تھا.. صائمہ کے وہم و گمان میں بھی ایسا مزہ نہیں تھا.. تین سالہ شادی شدہ زندگی میں اور تو آسانیاں تو بہت تھیں لیکن لوڑے کی سہولت نایاب تھی
س س س س آہ ہ م م م م م م م یہ وہ آوازیں تھیں
جو عمران کے ممے جوڑ کر دونوں نپلز پر زبان پھیرنے کے نتیجے میں نکل رہیں تھیں
ممے دبانا ایک خاصا آرٹ کا کام ہے اناڑی تو گونگلو مالٹے سمجھ کر دبانا شروع کر دیتے ہیں لیکن سیکس ورک جاننے والے پہلے نپلز سے کھیلتے ہیں جب کھال میں سختی آتی ہے تو اس کے سینے پر ممے گول گول گھماتے ہوئے دباتے ہیں اس سے ایک تو مما ڈھیلا ہو لٹکا ہو یا ٹائٹ ہو اس کے باوجود بھی ممے کا مزہ لن کو آتا ہے دوسرا عورت جنسی لذت کی انتہاوں کو چھو لیتی
ہے تیسرا کنوارا یا نوبیاہتا مما ایک شکل میں آ جاتا ہے
دس منٹ کی چوسائی بڑھتے بڑھتے اب بیس منٹ تک پہنچ گئی تھی دودھ پی کر خالی کرنے کی وجہ سے ممے اب پچک پچک پھٹے غبارے کی طرح لگ رہے تھے لیکن عمران نے کچھ بھی محسوس کروائے بنا صائمہ کی دونوں ٹانگیں کاندھے پر رکھیں تو اسے محسوس ہوا کہ پھدی کو صاف کر لینا چاہیے یہ سوچتے ہی اس نے اپنی بنیان سے پھدی کو خشک کیا اور لن پھدی کے ابھرے ہونٹوں پر رگڑنا شروع کر دیا.. یہ عمران کا پسندیدہ فعل تو تھا ہی لیکن صائمہ کے لیے یہ بالکل نئی چیز تھی اب وہ اس مزے سے نکلی نہ تھی کہ غڑپ سے عمران نے لن پھدی میں ڈال دیا
دھپ دھپ دھپ دھپ دھپ حسب عادت اس نے لن پورا باہر نکال کر پانچ کس کر گھسے لگایے جس سے صائمہ کا انجر پنجر ہل گیا لیکن وہ بولی نہیں.. ان پانچ جھٹکوں نے اس کی پھدی کا حق ادا کر دیا تھا اور زندگی میں پہلی بار اسے اپنی چوت پر پیار آ رہا تھا
ان پانچ جھٹکوں کے بعد عمران نے ٹانگیں سینے کے ساتھ جوڑیں اپنی دونوں ہاتھ گدے پر رکھے اور تیزی سے مشین چلا دی اب نیچے سے صایمہ کی مونڈی گانڈ اس کی تھایز پر ہر جھٹکے کے
ساتھ رگڑ کھا کر اور اوپر سے ہلتے ممے بے پناہ مزہ دینے کے ساتھ جوش بھی بڑھا رہے تھے
جیسے ایک ماہر توپچی جنگ میں درست نشانے لگا کر دشمن کا نقصان کرتا ہے اسی طرح عمران کا ٹوپا جب ایک جھٹکے کے ساتھ رحم کے ساتھ ٹکراتا تو لذت کی نہ سمجھ آنے والی سسکیاں کمرے میں گونجتیں
نومبر میں بھی عمران پسینہ پسینہ ہو چکا تھا لہذا اسں نے دس منٹ کے بعد سٹایل بدلا اور اب وہ نیچے اور صائمہ اوپر تھی
اس نے صائمہ کو سارا اپنے اوپر کیا اور اندر ڈال کر اس نے اسے صرف گانڈ ہلانے کا کہا
شروع میں تو اسے سمجھ نہ آئی لیکن یہ پھدی چدائی کی بڑی شوقین ہوتی ہے لہذا اس نے اپنی کمر روک کر گانڈ ہلانا شروع کی اور پھر یوں لگ رہا تھا کہ لن کے اوپر گیلا ریشمی کپڑا پھر رہا ہے
عمران کے لیے خود کو کنٹرول کرنا مشکل ہو گیا تھا اور صائمہ بہت تیزی سے گانڈ ہلا ہلا کر للا اندر باہر کر رہی تھی بس ابھی گیا کہ ابھی گیا آہ آہ آہ اوراس کے لن نے رونا شروع کردیا تھا ....
صائمہ اتنی مست ہو چکی تھی کہ اس کو فارغ ہونے کا اس وقت پتہ چلا جب لن بیٹھ چکا تھاپندرہ منٹ کی دھواں دھار چدائی نے دونوں کو نڈھال کر دیا تھا... عمران کو خبر بھی نہ ہوئی اور اس کی آنکھ لگ گئی
صبح اس کی آنکھ خالہ کے کاندھا ہلانے پر کھلی کپڑے اتار کر کون ..جو اس کو یہ کہہ ررہی تھیسوتا ہے.. یہ تو شکر یہ ابھی سب سو رہے ہیں ..
میں تو کمر درد کے مارے نہ سو سکی ادھر آئی تو حلیہ ہی بگڑا پڑا ہے
عمران نے سیاہ نائتی میں سے بڑے بڑے تھن جھانکتے دیکھے تو وہ خالہ کو بھول کر انہیں دیکھنے لگ گیا
بڑے یا موٹے مموں کی خاصیت یہ ہوتی ہے کہ یہ چاہے جتنے مرضی بڑے ہو جائیں ان میں ایک خاص قسم کی سختی ہوتی ہے اور وہی سختی عمران کو اپنی جانب کھینچ رہی تھی
خالہ بنیادی طور پر چدوانے کے موڈ سے ہی آئی تھی، چدوا تو اس نے رات کو ہی لینا تھا لیکن صایمہ کی آمد نے اس کے ارمانوں پر پانی پھیر دیا تھا اس لیے اس نے صبح ہوتے ہی چوت دھوئی اور سیدھا عمران کے پاس
ادھر عمران کا لوڑا بھی انگڑائی لے کر اٹھ چکا
تھا اور خالہ کے پھدے کو لال سلام پیش کرنے کو تیار تھا
اس نے کمبل ہٹایا تو خالہ کی نظر سیدھی لن پر پڑی جو ایفل ٹاور کی طرح تنا کھڑا تھا اس کی توجہ لن کی طرف دیکھ کر عمران بولا" خالہ ..
سیدھا اس پر بیٹھ جائیں
خالہ... چل ہٹ بے شرم یہ کیسی باتیں کر رہا
عران... کیسی مطلب کیا.. چدوانے آیئ ہو چلو شاباش بیٹھو ورنہ میں اوپر آیا تو جو آرام آیا ہے کمر کو وہ بھی جائے گا
خالہ... تو بہت شیطان ہو گیا ہے ٹھہر کرتی ہو تیرا علاج
یہ کہہ کر خالہ نے لن پکڑا تو اس کے جسم کے تار بجنا شروع ہو گیے
خالہ کا خاوند ملک سے باہر ہوتا تھا اور چوت انگلیوں کی محتاج ہو چکی تھی آج پلا پلایا للا دیکھ کر اسے اپنی قسمت پر یقین نہیں آ رہا تھا
خالہ اس وقت عمرن کے سینے پر ہاتھ اور زور رکھ کر لن پھدی میں اندر باہر کر رہی تھی اور عمران پھدی کی ٹایٹتس پر حیران ہو رہا تھا
اس کی ماں اور خالہ کی عمروں میں دس سال کا فرق تھا لیکن اس کی ماں کی چوت بہت کھل چکی تھی شاید اس کی وجہ ایک وقت میں عمران اور
...چھوٹے بھائی کے سسر سے بھی چدوانا تھا
خالہ ماہر چداکڑ خاتون کی طرح گھوٹ مار مار کر لن اندر لے رہیں تھیں اور کمرہ سخت سردی میں بھی گرم ہو چکا تھا
دو منٹ کے بعد خالہ ہانپنا شروع ہو گئی تو اس نے خالہ کو گھوڑی بنا کر اندد ڈالا تو بے انتہا موٹی گانڈ نے اس کا رستہ روکا جس پر اس نے گانڈ اونچی کر کے پھدا باہر نکالا اور پھر سے چودنا شروع کر دیا
عمران کو چدائی میں مزہ نہیں آ رہا تھا لیکن ندا کے حصول کے لیے یہ چدائی ضروری تھی لہذا اس نے دل پر پتھر کر آوازیں نکالنا شروع کیں آہ آہ خالہ جان دنیا کی سب سے مزے کی پھدی ہے آپ کی اف ف ف م میں تو مر گیامزے سے امی جی ہائے اففف
ادھر خالہ بچے کی باتیں اور آوازیں سن کر جھڑ چکی تھی اور اب سے گھٹتوں کے بل بھی کھڑا
نہیں ہوا جا رہا تھا لہذا اس نے عمران کو لیٹ کر چودنے کو کہا
عمران.. خالہ چوت کا مزہ لے لیا.. اب گانڈ کا دے دو
خالہ.. توبہ کرو گناہ ہے یہ
عمران.. واہ پہلے کون سے ثواب کما رہی ہو حد ہے
خالہ جو کہ سعودیہ میں اپنے خاوند کے عربی
دوست کے موٹے لنڈ سے گانڈ پھڑوا چکی تھی اور اب تک وہ درد نہ بھولی تھی اصل میں خوفزدہ تھی
لیکن عمران اس کی روئی کی طرح نرم پھولی گانڈ لینے پر تل چکا تھا لہذااس نے چوتڑون پر خاص تھوک پھینا اور لن اوپر رگڑنا شروع کیا
عورت کے چوتڑوں پر لن رگڑنے کا اپنا مزہ ہے وہیں عورت کو بھی بے پناہ مزہ آتا ہے
لنڈ رگڑتے رگڑتے اس نے سوراخ کے کھلے
ہونے سے اندازہ لگا لیا تھا کہ خالہ تمام سوراخوں کی تیراک ہے لہذا اس نے لوڑا تھوڑا اور چکنا کر کے سوراخ پر زور دینا شروع کیا اور آہستہ آہستہ آدھا لن اندر کر دیا
گانڈ کی دیواریں اونچی ہونے کے سبب جہاں درد نہ ہوا وہیں عمران کو شروع میں ٹایٹنس نے مزہ دیا اور وہ لن اندر ڈالتے ڈالتے چھوٹنے پر آ گیا
اس نے بھی مزے کی انتہا روکنے کا فیصلہ نہ کیا اور مزید دو جھٹکے لگائے اور فارغ ہو گیا
خالہ سیراب ہو کر جا چکی تھی لیکن اس کا لوڑا بار بار چٹکیاں لے رہا تھا کہ اسے چدائی چاہیے لہذا اس نے گھر جا کر ماں کو چودنے کا پروگرام بنایا یا آج ماریہ کو رگڑنے کا چانس