یہ 1998 کی بات ہے جب ایک کام کے سلسلے میں مجھے اپنے آبائی شہر لاہور جانا ہوا۔ اگر کوئی مجھ سے پوچھے کہ کون سے دو شہروں تک جانا چاہتے ہو تو میں پورے پاکستان میں لاہور اور پشاور کو ترجیح دوں گا۔ سرحد میں اگر سفر کروں تو بنوں اور مردان جانا چاہتا ہوں کیونکہ جہاں سے پیار ملے وہی جانا بھی انسان کی فطرت ہے۔ لاہور میں ریلوے اسٹیشن کو کون نہیں جانتا۔ اس سے سیدھے اسلامیہ کالج روڈ کی طرف چلیں تو تقریباً 80 فت پہلے ایک پتلی سی گلی آتی ہے جس میں میر اسکول ہے جہاں سے میں نے لوکل درجے کا میٹرک کیا۔ یعنی وطن اسلامیہ ہائی سکول ۔ یہیں سے پتا جی نے میٹرک کیا اور یہی سے دادا جی نے بھی میٹرک کیا۔ ہو سکتا ہے کہ میرے سارے پر کھوں نے ہی یہیں سے میٹرک کیا ہو لیکن بات کو بتانے کا کارن ہے کہ یہ سکول بہت پرانا ہے۔ اس میٹرک نے مجھے بہت کچھ سکھایا۔ سب سے زیادہ Sex کی تعلیم اسی سکول سے ملی۔ یہ نہیں کہ وہاں سر عام sex ہوتا ہے بلکہ سچ تو یہ ہے کہ جتنے sexy واقعات اور لطیفے یہاں جنم لیتے ہیں، شاید ہی کہیں اور جنم لیتے ہوں۔ وہ سارے لطیفے جن میں مردانہ بنڈ سے لے کر زنانہ گانڈ کا ذکر ہو یا مموں سے لے کر بھوسڑے اور لے کا ذکر آئے ، بس سمجھو کہ وطن اسلامیہ ہائی سکول یہی کچھ اندرون خانہ produce کر رہا ہے اور نا جانے کیوں ہمارے بزرگوں نے اسے ایک الہامی سکول سمجھ رکھا ہے تو میں بھی پیپو زمانے میں اسی غیر الہامی ماحول کا حصہ بن گیا اور اپنے پر کھوں کو یہاں آن کر سب سے پہلے 50 من کی گالی بکی اور جب یہ میٹرک ہو چکا تو دوبارہ O level اور پھر A level کیاتا کہ یہ غلاظت کا بھاڑ میرے وجود سے دور ہو جائے لیکن آج بھی وہ دور یاد آتا ہے تو رونگٹے کھڑے ہو جاتے ہیں۔ سچ تو یہ ہے کہ وہاں تعلیم کے نام پر ایک مذاق کیا جاتا ہے۔ بھگوان سب کو بچائے۔ تو شہر لاہور کی بات کرتے ہیں۔ لاہوریئے بھی بڑے دل پشوریئے ہوتے ہیں۔ کھاو، پیو، بگو، موتو اور سو جاو۔ یاد اور شور مچاوان کا دل پسند مشغلہ ہے۔ کھابے کھاو اور چد و چد او۔ آج کل اس کا سیزن شروع ہے۔لاہور ایک پر شور اور زندگی والا علاقہ ہے جہاں بھگوان کی مخلوق بستی ہے۔ کیا مرد و عور تیں اور کیا کھسرے اور کھریاں۔ سب ہی وہاں پر ہیں۔ بہت بڑی ورائٹی لاہور میں ہے۔ اور لوگ واقعی زندہ دل ہیں۔ میں اس گلی میں داخل ہوا جو اب رحمن گلی اور پہلے رام گلی کہلاتی تھی اور آج بھی پرانے لوگوں کے منہ میں اس گلی کا نام رام گلی ہی ہے۔ قیام پاکستان سے پہلے یہاں ہندو اور سکھ آباد تھے اور ان کی ساری قدیم جائدادیں ابھی بھی یہیں پر ہیں جو بعد میں جب ملک کا بٹوارہ ہوا تو بحق سرکار ضبط ہو گئیں اور آنے والے نئے مہاجرین کو دے دی گئیں۔ یہاں کے وہاں چلے گئے اور وہاں کے لوگ وہاں سے یہاں آگئے۔ لیکن میرے دادا تو پہلے سے یہیں آباد تھے اور انہوں نے موت سے نہ ڈرتے ہوئے یہیں رہنا مناسب جانا۔ ان کا نام ساون کمار چندرا تھا۔ آج بھی کسی بڑھے کو شاید یہ نام یاد ہو تو وہ اس کی تصدیق کر سکتا ہے۔ میں اپنے ایک دوست کے پاس یہاں آیا تھا کیونکہ میں نے بتایا ہے کہ اگر انسان کو دل بہلانا ہے اور آبادی میں جانا ہے تو لاہور اور پشاور جیسی کہیں کوئی آبادی نہیں۔ یہاں کے لوگ پیارے ہیں اور من کے اچھے ہیں۔ اسی لئے مجھے یہیں آنا پسند لگتا ہے۔ من کو ایک شانتی ملتی ہے اور یہاں مندر ہیں اور اگر مندر نہیں تو داتا صاحب کے ہاں جا کر مندر کا ہی سکون ملتا ہے اور میں تو اسی میں شانتی تلاش کر لیتا ہوں۔ سلیم میرا یونیورسٹی کے زمانے کا دوست تھا کیونکہ اس کے پتا جی اور میرے پتا جی ایک ہی دفتر میں کام بھی کرتے تھے اور وہ ہر گرمیوں کی چھٹیوں پر سویڈن آتا تو ہم دونوں اکٹھے وہاں کی سیر کرتے۔ شکنتلا آنٹی کو سلیم بھی جانتا تھا ، جب ان کا دیہانت ہوا تو وہ بھی میرے غم میں شامل ہو گیا تھا۔ تو۔۔۔ میں بتارہا تھا کہ جب میں سلیم کے گھر پہنچا تو اندرون لاہور کے ہر گھر کی طرح وہاں بھی رسوئی گھر سے مہکتے ہوئے کھانے کی خوشبو آرہی تھی۔ میں نے گھر داخل ہوتے ہی آنٹی کو پر نام کیا جو رسوئی گھر میں مصروف تھیں، انہوں نے جواب میں سر ہلا دیا اور مسکراہٹ سے میر اسوا گرت کیا۔ پھر میں اور سلیم۔۔۔ سلیم کے کمرے میں چلے گئے۔ وہاں پہنچ کر میں نے اپنا سفری بیگ کمر سے اتارا اور غسل کرنے کے لئے واش روم میں داخل ہو گیا۔ غسل سے فارغ ہو کر جب میں باہر نکلا تو وہاں سلیم کی جگہ ایک اور صاحب تشریف رکھتے تھے۔ میں نے انہیں " ہائے " کہا تو انہوں نے جواباً ایسے جواب دیا جیسے میں مریخ سے اترا ہوں۔ پھر سلیم بھی میرا من پسند مشروب لئے کمرے میں داخل ہو گیا۔ "کیا بات ہے جانی ؟ کیا پہلے کبھی ہندو نہیں دیکھا ؟؟؟ " سلیم کی اس بات پر میں سر جھکا کر مسکرانے لگا اور اپنا ٹو ول سوکھنے ڈالنے کے لئے بالکونی تک جانے کو تھا کہ سلیم نے مجھ سے ٹوول اچکتے ہوئے کہا: "لا یار میں صاف جگہ پر ڈالوں گا " میں جانی صاحب کے پاس بیٹھ گیا اور سوچا کہ اس شرمیلے ن کو اپنا تعارف کروادوں۔ " مجھے کرشنا کہتے ہیں۔۔۔ کرشنا چند را " وہ ہاتھ آگے بڑھا کر بولا " کر شنا بھائی ! میرا نام رحمن ہے۔ عبدالرحمٰن جان لیکن سب لوگ پیار سے مجھے جانی کہتے ہیں، عبد الرحمن کوئی نہیں کہتا۔ جوانآپ بھی مجھے جانی ہی کہہ سکتے ہیں۔ " گڈ ! فائن then you may just call me Krishna " میں نے اس سے ہاتھملاتے ہوئے کہا۔پیتے ہو ؟" میں نے پوچھا۔ " جی اس لئے آیا تھا " اس نے وضاحت کر دی اور میرے سارے اندازے غلط ثابت ہوئے کہ وہ ایک معصوم بھولا بھالا یا شر میلا جوان ہے۔ " تم سے مل کر مجھے بہت خوشی ہوئی " اور پھر ہم نے کچھ شراب پی اور ساتھ میں سلیم جو روسٹ کر کے گوشت لایا تھا، وہ بھی انجوائے کیا۔ لیکن اس دوران جانی کچھ زیادہ بات نہیں کر رہا تھا ، وہ میری اور سلیم کی دوستانہ گپیں ہی سنتا رہا۔ میرا خیال تھا کہ جانی ایک خاموش جوان ہے لیکن انسان کے خیالات کے برعکس ایسا ہوتا ہے کہ جو آپ سوچتے ہیں ویسا کبھی نہیں ہوتا لیکن جس بات کا آپ کے دل و دماغ میں خیال بھی نہیں ہوتا، بالکل ویسا ہی ہو جاتا ہے۔مجھے لاہور آئے دو دن ہی ہوئے تھے اور میں نے ان دودنوں میں لاہور میں قیام کے دوران ایک پل مجھے لاہور آئے دو دن ہی ہوئے تھے اور میں نے ان دودنوں میں لاہور میں قیام کے دوران ایک پل بھی ضائع نہیں کیا۔ کبھی یہاں تو کبھی وہاں جاتا اور جتنا ہو سکتا تھا اندرون لاہور کی گلیوں میں پھرتا رہا کیونکہ اندرون لاہور میں ایک خاصیت یہ ہے کہ آپ ماڈرن سے ماڈرن کلچر میں بھی جا سکتے ہیں تو ایک ہزار سال پرانے کلچر کو بھی ادھر ہی پائیں گے۔ دونوں تہذیبوں کا ملاپ یہیں پر نظر آتا ہے۔ پھر زیادہ تر میر اوقت جانی کے ساتھ گزرتا تھا کیونکہ وہ سلیم کا بھی دوست تھا اور اب میری بھی اس سے دوستی ہو چکی تھی۔ باتوں ہی باتوں میں اس نے مجھے بتایا کہ اس کو اپنے سے بڑی عورتیں پسند ہیں لیکن ہر عورت پسند نہیں تو میرے بھیکان کھڑے ہو گئے۔ میں نے آپ کو اوپر بتایا ہے کہ انسان کبھی کبھی دوسروں کے متعلق غلط رائے قائم کر لیتا ہے لیکن ہوتا اس کے بالکل الٹ ہے۔ بس جانی کے متعلق بھی میں اپنی رائے بدلنے پر مجبور ہو گیا۔بڑی عورتوں میں تمہیں کیا پسند ہے ؟" میں نے جانی سے پوچھا۔ تو اس نے بتایا کہ : " اسے ان کا Sexually mature ہونا بہت پسند ہے۔ وہ بڑی روانی سے بتارہا تھا اور میں بہت دلچسپی سے اسے سن رہا تھا۔ "کر شنا بھائی جان! آپ کو کیا بتاؤں؟ یہ بڑی عمر کی عورتیں بندے کو خوار نہیں کرواتیں بلکہ اپنے ساتھ ساتھ اس کے مزے کا بھی خیال کرتیں ہیں۔ "
" آہاں۔۔۔۔" میں انجان ہو کر بولا ، ورنہ آپ سب کو تو معلوم ہے کہ مجھ سے زیادہ بڑی عمر کی عورت کا تجربہ کس کو ہو سکتا ہے۔ " یار جانی! یہ تو بہت interesting بات بتارہے ہو یار۔" پھر میں نے اس سے پوچھا" تمہارا کسی سے practical sex کا experience ہوا ہے یا ویسے ہی بتارہے ہو۔" تو اس نے کہا: " ہوا ہے کہ شنا بھائی جان ! کیوں نہیں ہوا۔ اسی لئے تو بتارہا ہوں۔ بلکہ اس سے آپ کو بھی ملا سکتا ہوں۔ میں نے اس سے آپ کے آنے کا تذکرہ کیا تھا۔ اسے یہ بھی بتایا کہ آپ ہندو ہیں تو اس نے کہا کہ آپ سے ملنا بھی چاہتی ہیں۔ " میں نے مسکراتے ہوئے کہا: "کیوں نہیں ! میں ان سے ضرور ملاقات کروں گا"۔ جانی نے فوراً کہا : " وہ میری ممانی ہیں " میں یہ سن کر حیرت سے جانی کی طرف دیکھنے لگا۔ تو اس نے میری حیرت کو بھانپتے ہوئے کہا: " آپ حیران کیوں ہیں؟" تو میں ایک دم شرمندہ سا ہو گیا کیونکہ اندرون خانہ اس دیش میں جو کچھ بھی ہو رہا تھا، مجھے اس کا کوئی خاص تجربہ تو نہیں تھا لیکن یہ تو مجھے Incest sex کی ایک قسم لگ رہی تھی۔ یہاں اس دیش میں بھی ہوتا ہے ، کبھی نہ سنا تھا اور دیکھنا تو بہت دور کی بات تھی۔ لیکن سجنو اور سجنیوا میں پھر سے وہی بات دہراتا ہوں کہ انسان کے خیالات کے بر عکس ایسا ہوتا ہے کہ جو آپ سوچتے ہیں ویسا کبھی نہیں ہوتا لیکن جس بات کا آپ کے دل و دماغ میں خیال بھی نہیں ہوتا، بالکل ویسا ہی ہو رہا ہوتا ہے۔سلیم کے ساتھ رات کو coffee کا ایک دور چلتا تھا۔ سردیوں میں یہ مشروب بہت لذیذ لگتا ہے اور اس کی بھینی بھینی مہک انسان کے دل و دماغ کو تازہ کئے دیتی ہے۔ میں نے دن میں جانی کے ساتھ کی ہو ئیں باتوں کا تذکرہ کیا تو سلیم نے بھی اس کی تصدیق کر دی۔ "ہاں یار کرشنا ! یہ جتنا سامنے سے پیو دکھتا ہے اتنا ہی اندر سے پورا ہے۔ لیکن یہ بھی بتادوں کہ اس کی ممانی چالو عورتوں کی طرح کی نہیں ہے۔ اس بات کا صرف مجھے پتہ ہے یا پھر اس خچر نے تجھ سے اس کا ذکر کر دیا ہے۔ ورنہ ایسی بات تو اس کے اور میرے سائے کو بھی نہیں پتہ۔ دنیا کے سامنے وہ ایک بہت شریف عور رکسی مرد سے زیادہ بات نہیں کرتی " میں نے اس میں مزید دلچسپی لیتے ہوئے کہا: "کیا اس کے پتی کو شک نہیں گزرا؟" تو سلیم نے بتایا: " یار کرشنا ! اس کا پتی تو چار سال سے ایک کار ایکسیڈینٹ میں مر گیا تھا۔ بنک میں ملازم تھا۔ اس وقت اس عورت کے دو بچے تھے۔ ایک لڑکا اور ایک لڑکی ، جواب بھی اس کے ساتھ ہیں۔ اور یہ جانی اپنے نانا اور نانی کے پاس ہی رہتا ہے کیونکہ ان کے گھر میں اب اس کے نانا اور اس کے سوا اور کوئی مرد نہیں ہے اور نانا بھی اب بوڑھے ہونے کو آرہے ہیں۔ سنا ہے کہ تین چار سال بعد ریٹائیر ڈ ہو جائیں گے۔ اس عورت کی بچی ابھی ساتویں میں ہے اور بچہ چھٹی کلاس میں ہے۔ اور جانی کی نانی اپنے کام میں مصروف رہتی ہے اور لوگوں کے کپڑے سیتی ہے۔ اس کی ممانی بھی اس کام میں اُن کا ہاتھ بٹا دیتی ہے۔ جانی کی دو پھپھیاں ہیں دوبئی میں۔ تھوڑا سا وہاں سے بھیج دیتی ہیں اور خود اس کی ماں اور باپ انگلینڈ میں ہوتے ہیں جہاں کے خراب ماحول کی وجہ سے اس کے ابے نے اسے یہاں کے اچھے ماحول میں پاکستان واپس بھیج دیا ہے، یہ سوچ کر کہ یہاں پر اُن کا بیٹا خراب نہیں ہو گا۔ " میں نے شرارت بھری نظروں سے سلیم کی طرف دیکھا۔ وہ جٹ بولا: " تو دیکھو ! کتنا اچھا ماحول مل گیا ہے ۔ نہ کو۔ "میں نے اسے منع کیا کہ گالی نہ دے۔ یہ سب مشرقی ماں باپ ایسا ہی سوچتے ہیں جبکہ اصل حقیقت کچھ اور ہی ہوتی ہے۔ میں نے سلیم کو یہ بھی بتایا کہ انسان بھگوان کی تقدیر کے آگے بے بس ہے اور جس دانے پر کھانے والے کا نام لکھا ہوتا ہے، بس وہی دانہ انسان کا مقدر ہوتا ہے۔ میری یہ بات سن کر سلیم نے کہا: واہ کرشنا واہ ! دانے اور کھانے والے کا نام والا محاورہ بھی تو نے کہاں لگا دیا۔ تیری عقل کی داد دینا پڑتی ہے یار۔ " تو میں نے مسکراتے ہوئے سلیم کو جواب دیا: " میں ویسے ہی مذاق کر رہا تھا یار " ۔ ابھی اتنی ہی بات ہوئی تھی کہ سلیم کی ماں کی آواز آئی " سلیم بیٹا! تیرا ٹیلی فون ہے ، آکر سُن لے " سلیم نے مجھ سے معذرت کی اور فون سننے چلا گیا۔ پھر جب واپس لوٹا تو اس کے چہرے پر ایک مسکراہٹ تھی جو اُس وقت اس کے چہرے پر کھلتی تھی جب اندر ہی اندر وہ بہت خوش ہو اور اس کی خوشی کسی مضحکہ خیز بات پر ہو۔ میں نے اس کی مسکراہٹ دیکھ کر کہا: "خیرتو ہے ؟" وہ بولا : " کرشنا جی! کل جانی کی ممانی جان آپ کا دو پہر کے کھانے پر بہت بے صبری سے انتظار کریں گی۔ " میں حیرت سے سلیم کی بات سن کر اس کا مطلب سمجھنے کی کوشش کرنے لگا تو سلیم نے فوراً وضاحت کر دی: " جناب ! گھبرانے کی ضرورت نہیں ہے۔ جانی صاحب کا ٹیلی فون تھا اور وہ بتارہے تھے کہ چونکہ انہوں نے آپ کا تذکرہ اپنی ممانی سے کیا تھا اس لئے انہوں نے کل دوپہر کے کھانے پر آپ کی دعوت کی ہے اور مجھے بھی ساتھ میں invite کیا ہے۔ لہٰذا آج تو آرام فرمائیے اور کل کی دعوت کا اہتمام بندہ ناچیز کے ہمسایوں کی جانب سے ہو چکا ہے۔" اسے سلگا لیا۔ اب مجھے ایک سکون کا احساس نصیب ہوا اور میرے اوسان بحال ہونے شروع ہو گئے۔ وہ دوبارہ مجھ سے مخاطب ہوئیں : " آپ کہہ رہے تھے کہ خدا کے پاس صفحات ختم ہو گئے تھے لیکن میرا خیال ہے کہ شادی کرنا یا نہ کرنا تو انسان کی اپنی مرضی ہے۔ اگر آپ کو ضرورت ہے تو شادی کر لیں ورنہ نہ کریں۔ ویسے بھی شادی کے لئے آپ کو ایک لڑکی کی ہی تو ضرورت ہے " میں نے ایک نظر ان کی طرف دیکھا اور پھر وہ نظر ہٹائی اور سر جھکا کر کہا:۔ "فردوس دیوی جی ! شادی دو شریروں کے ملن کا نام ہی نہیں بلکہ یہ تو جنم جنم کا بندھن ہے۔ دو آتماوں کا سکھم ہے۔ یہ بندھن تو پریم کی مالا میں پر دیا جاتا ہے اور پھر کہیں وہ مالا مکمل جیون داس دیتی ہے۔ " یہ کہتے ہوئے جب میں نے اُن کی جانب دیکھا تو مجھے ایسا محسوس ہوا کہ میری یہ بات سن کر ان کی آنکھوں میں مجھے اپنے لئے ایک پریم کی کشش محسوس ہونے لگی تھی۔ نا جانے کیوں اُن کے سامنے مجھے اپنے آپ سے بار بار جھینپ سی محسوس ہو رہی تھی۔ وہ ایک بہت سندر ناری تھی اور بہت Decent عورت تھی۔ ایسی عورتیں میں نے اپنے جیون میں بہت کم دیکھیں تھیں۔ ان سے پہلے مجھے اس طرح کی شکنتلا آنٹی کا تجربہ ہوا تھا۔ مجھے شکنتلا آنٹی کی یاد آگئی۔ میر اول کیا کہ اڑ کر ان کے پاس پہنچ جاوں لیکن وہ تو اس وقت ہزاروں میل دور سویڈن میں تھیں۔ جانی کی ممانی بھی ایسی ہی ایک رس بھری عورت تھی۔ لیکن ایک انتہائی ضرورت نے اس رس بھری کو مانی کی آغوش میں ڈال دیا تھا۔ مجھے مانی کی قسمت پر رشک آنے لگا۔ لیکن مانی اس عورت کی صرف ایک انسانی فطری ضرورت پوری کر رہا تھا۔ اُسے اس عورت سے پریم تو تھا نہیں۔ جب اس کے والدین کہیں گے تو وہ وہیں پر شادی کر کے اس عورت کو چھوڑ کر اپنی نئی بلیل کے پاس چلا جائے گا اور اسی کا ہو رہے گا۔ سماج کے نیم بھی عجیب ہیں۔ پاکستان کے مسلم معاشرے میں بھی ودھوا کی دوبارہ شادی کو معیوب سمجھا جاتا ہے حالانکہ اُن کا دھرم اس بات کی اجازت دیتا ہے اور اسی طرح بر حماد ھرم میں بھی ودھوا کی دوسرے دواہ کو مانتے ہیں لیکن موٹی موٹی توندوں والے یہ پنڈت اور اوٹ پٹانگ قسم کی مائی بڑھیاں طرح طرح کی بکواس کر کے یہ ہونے نہیں دیتیں۔ اسی لئے میں نے دھرم سے مکتی لے کر انسان بن کر جینے کا فیصلہ کیا تھا جبکہ میری ماں تو دھرمی ناری تھیں۔ فردوس جہان آراء میرے من کو بھا گئیں تھیں اور ان کا احترام میرے دل کے گہرے خانوں میں کہیں پر Stamp ہو گیا تھا۔ پھر ہم نے کچھ رسمی ادھر اُدھر کی باتیں کیں، وہ میرے جیون کی اور باتیں پوچھتیں رہیں اور میں انہیں اپنے جیون میں گزارے ودیس کے دنوں کی کہانیاں سناتا رہا۔ وہ میری personal life کی باتیں اور پسند و نا پسند کو بھی پوچھتیں رہیں اور میں جواب دیتا رہا۔ میں اُن کے اتنیت کے بارے میں اُن سے کچھ نہیں پوچھ سکتا تھا کیونکہ اس طرح انہیں اپنا اتیت ٹٹول کر دُکھ ہوتا۔ اور پھر اُنہوں نے انتہائی پریم سے خود اپنے ہاتھوں سے گرم گرم قہوہ بنایا جو ہم سب نے پیا اور پھر میں اور سلیم دونوں واپس سلیم کے گھر آگئے جہاں سلیم کی ماں نے مجھے گھیر لیا اور پوری رویدادا نہیں بھی مجھے سنانا پڑی۔ یہ لاہوری عورتوں کا تجسس بھی کیا کہوں کیسا ہوتا ہے ؟ جس طرح ائیر پورٹ پر کسٹم والے نہیں چھوڑتے ، بس اسی طرح لاہور نہیں بھی پکڑ کر پورا کسٹم چیک کرتی ہیں۔ یہی کسٹم چیکنگ سلیم کی ماں کو مجھے کروانا پڑ گئی تھی۔ اور مجھے اُنہیں ساری دعوت کی داستان حرف بہ حرف سنانا پڑی۔ اُس رات میں اور سلیم ، دونوں دوست مل کر جاگتے ہی رہے۔ ہم آپس میں جانی کی ممانی فردوس جہان آراء کے متعلق باتیں کرتے رہے۔ سلیم نے باتوں ہی باتوں میں کہا : " یار کرشنا ! تجھے شاید اس بات کا علم نہیں ہے لیکن ۔۔۔۔۔ فردوس جہان آراء تجھ پر فدا ہو گئی ہے میرے یار ۔ " میں یہ سن کر چونکا۔ یہ عورت کا کون سا روپ تھا۔ عیاشی اپنے رشتے کے بھانجے کے ساتھ کر رہی تھی اور جب فدا ہونے کی باری آئی تو مجھ پر نظریں آنکھیں۔ میں نے پھر یہ سوچا کہ جنسی ناآسودگی انسان کے جیون میں اندھیرا بھر دیتی ہے اور اگر کوئی آپ کے جیون میں ایک آس کی شمع روشن کر دیتا ہے تو گویا وہ آپ کا محسن ہی ہوتا ہے۔ شدید گرمی میں اگر ایک مہکتا ہوا، ہوا کا جھونکا آجائے تو انسان کے شریر کو کتنی شانتی ملتی ہے ، اس حقیقت کا حقیقی گیان صرف اس کو ہو سکتا ہے جس نے جیون میں اس کا تجربہ کیا ہو۔ انسان کو پریم کے راستے پر چلتے چلتے اگر دو زخم لگ جائیں تو انسان اندر سے بھی زخمی ہو جاتا ہے ۔ ایک زخم محبوب کی بے وفائی کا اور دو سر از خم اُس کی ہمیشہ کی جدائی کا۔ بے وفائی کا زخم تو پھر پریمی سمہ جاتا ہے لیکن ہمیشہ کی جدائی یعنی پریمی کی موت کا زخم انسان کو عشق لا حاصل کے اندھے کنوئیں میں دھکیل دیتا ہے۔ ایک ایسے کنوئیں میں جس کی کوئی تبہ نہیں ہوتی۔ میں بھی ایسے ہی کنوئیں میں گر گیا تھا اور فردوس بھی ایسے ہی کنوئیں میں جا گری تھی۔ مجھ میں اور فردوس میں صرف یہ فرق تھا کہ میں ابھی بھی کرتا ہی جارہا تھا لیکن فردوس نے کرتے کرتے ایک لٹکتے ہوئے ڈول کی رسی کو پکڑ لیا تھا۔ لیکن یہ سہارا بھی عارضی تھا اور وہ کسی مستقل سہارے کی متلاشی تھی۔ لیکن وہ شاید یہ بھول رہی تھی کہ ایک بار جب انسان کسی اندھے کنوئیں میں جا گرے تو پھر واپس اوپر کو آنا سدا کے لئے ناممکن ہو جاتا ہے۔ سلیم نے مجھے یوں گم سم دیکھا تو کہا کہ : " پورے تین بجے جانی آئے گا تو ہم چھت سے پھلانگ کر جانی کے کوٹھے پر جائیں گے اور پھر ساتھ والے کمرے کی الماری میں ہمیں وہ چھپا دے گا جہاں سے ہمیں ان دونوں کی رامائین نظر آجائے گی۔ " میں نے سلیم سے کہا: " دیکھو سلیم ! میں تو یہ کشت نہیں اُٹھاوں گا۔ تمہیں جانا ہو تو بھلے جاو۔ میں یہیں پر رپ کر ڈرنک کرتا کرتا ہو جاوں گا۔ " سلیم جھلملا کر بولا : " یار کرشنا ! ہیں تیس منٹ کی تو بات ہے ساری۔ تم شغل دیکھو۔۔۔ یہاں لاہورنوں کی حرکتیں دیکھو۔۔۔ اب تم سوامی کر شنا چند رامت بنو ، ہاں ! " سلیم کی یہ بات سن کر میں مسکرا دیا۔ " سلیم جی ! بات سوامی اور پنڈت بننے کی نہیں ہے۔۔۔ بس میرا من نہیں کر رہا تو میں جا نہیں رہا ور نہ ضرور جاتا۔ " سلیم نہایت جذباتیہ انداز میں بولا: " بس پھر اگر تم نہیں جاو گے تو میں بھی نہیں جاوں گا۔ " میں نے اس پر چہک کر کہا : " واہ رے واہ میرے وفادار سپاہی !۔۔۔ چل ہٹ۔۔۔ اپنا پرو گرام میرے لئے کینسل کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔ تم جاو نہ گے اور میں یہاں آرام کروں گا۔ میٹھی یاد کو میٹھا ہی رہنے دو۔۔۔ کڑو امت بناو۔۔۔ لاہور سے مجھے کچھ اچھی یادیں بھی سمیٹنے دویار" میں دیکھ رہا تھا کہ سلیم کا منہ بن گیا ہے۔ پھر وہ ایک چیتے کی سی پھرتی سے یہ کہتا ہوا کمرے سے باہر نکل گیا۔ "تورک ذرا! میں ابھی آیا۔ " میں حیرت سے اُسے دیکھ رہا تھا لیکن وہ فوراً دروازے سے باہر نکل گیا۔ تقریباً بیس منٹ کے بعد دوبارہ جب وہ واپس آیا تو میں نے اُس سے پوچھا: " ایسا کیا یاد آگیا تھا جو تمہیں کرنٹ لگ گیا تھا وہ مسکرایا اور مجھ سے مخاطب ہوا " ارے میرے پنڈت جی ! جب ہم لوگ جانی کے بتائے ہوئے وقت پر وہاں نہیں پہنچتے تو وہ ناراض ہو جاتا ، اِس لئے اُسے بتانے گیا تھا۔ گلی کے کونے میں ہی مل گیا۔ اب پرو گرام بدل دیا ہے لیکن ہم نے۔۔۔ جانی اور اُس کی ممانی کا پرو گرام نہیں بدلا۔" یہ کہہ کر سلیم نے ایک سگریٹ سلایا اور اُس کا ایک طویل کش لے کر دھنواں ہوا میں ضائع کر دیا۔ اس کے چہرے پر ایک شیطانی مسکراہٹ تھی جسے میں ابھی سمجھ نہیں سکا تھا۔اگلے روز دو پہر کو جانی ہمارے ساتھ تھا۔وہ بہت جوش میں نظر آ رہا تھا۔ سلیم بھی بہت خوش دکھائی دے رہا تھا لیکن مجھے ان دونوں کی یہ جوش اور خوشی سمجھ میں نہیں آرہی تھی۔ بالآخر میں نے پوچھ ہی لیا: "آخر ایسا کون سا تیر مار بیٹھے ہو تم لوگ کہ اتنی Excitement محسوس کر رہے ہو ؟" تو سلیم نے جھٹ جواب دیا: " یار کرشنا ! یہ ایک سرپرائز گفٹ لایا ہے تمہارے لئے۔۔۔ بس اُس کی خوشی ہے۔ " میں مسکرادیا اور کہا: " اچھا۔۔۔ لاو دو پھر وہ گفٹ مجھے ! " تو جانی نے اپنے بیگ سے ایک ویڈیو ٹیپ نکالی اور سلیم کے کمرے میں رکھے وی سی آر کی جانب بڑھ کر لگادی۔ میں بغور اسے دیکھنے لگا۔ تو پھر جب اُس فلم کا آغاز ہوا تو میرا منہ کھلا کا کھلا رہ گیا۔ یہ خبیث اپنی اور فردوس جہان آراء جی کی فلم بنا کر مجھے دکھانے کو لایا تھا۔
میں یہ دیکھ کر حیران رہ گیا کہ اس سنجیدہ، خوش شکل بیوہ کا ابھی بھی Sex کا انتہائی جذبہ تھا۔ جانی ٹھیک تو کہتا تھا کہ بڑی عمر کی عورت اپنے ساتھ ساتھ اپنے Sex partner کے مزے کا بھی اتناہی خیال کرتی ہے جتنا اسے اپنی جنسی لذت کی تسکین کی پرواہ ہو ۔ فردوس جہان آراء اپنے خوبصورت نارنگی لباس میں پہلے تو خاموشی سے کمرے میں داخل ہوئی اور دروازے کو بند کر کے پھر وہاں ایک چار پائی پر لیٹ گئی۔ ساتھ ہی جانی ان کے نزدیک پہنچا جو پہلے سے ہی وہاں پر آکر ویڈیو کیمرہ ایک جگہ چھپا کر فٹ کر چکا تھا۔ میں نے دیکھا کہ جانی کسی ماہر مساجر کی طرح فردوس کے کاندھوں کو دبانے لگا اور پھر فردوس نے اسے کہا کہ : " اب میں الٹا ہو کر لیٹتی ہوں تو تم تیل سے میری کمر پر Massage کر دو۔" جانی نے چار پائی کے نیچے سے ٹٹول کر ایک شیشی تیل کی نکال لی اور ہاتھوں پر تھوڑا سا انڈھیل کر انہیں آپس میں Rub کیا۔ پھر اپنی انگلیوں سے فردوس کو اشارہ کیا کہ قمیض اتار لے۔ فردوس نے قمیض اتار دی اور شمیض پہنے رکھی (شمیض عورتوں کی زیر قمیض ملکی ایک قمیض ہوتی ہے) جانی نے شمیض میں انگلیاں ڈال دیں اور انتی نرمی سے فردوس کو مساج کیا کہ اُس کی صورت بتارہی تھی کہ وہ اس مساج سے لذت حاصل کر رہی ہے۔ پھر فردوس نے جانی کو اُٹھ کر گالوں پر پہلے چوما اور بعد میں ہونٹوں سے اپنے ہونٹ ملالئے۔ تھوڑی دیر بعد وہ French kiss کے مرحلے تک پہنچ چکے تھے۔ وہ دونوں ایسے ایک دوسرے کو Kiss کر رہے تھے کہ جیسے ابھی ایک دوسرے کو کاٹ کھائیں گے۔ فردوس کی آنکھیں Kissing کے دوران بند تھیں لیکن جب کھلتی تھیں تو بوسے کی لذت کی انتہاء کی بناء پر اوپر کو چڑھ جاتیں تھیں۔ اسی اثناء میں فردوس نے اپنے ایک ہاتھ سے جانی کی شلوار میں اُس کے لنگ کو پکڑ کر مسلنا شروع کر دیا۔ جانی نے اپنے پاس رکھی تیل کی شیشی فردوس کے ہاتھ میں تھمادی۔ وہ نہایت خاموشی اور understanding سے یہ سب کر رہے تھے۔ یوں محسوس ہوتا تھا کہ سارے مراحل پہلے سے طے شدہ ہیں۔ ہاں ! کیوں نہیں؟ اگر Sex Partner اچھا اور مخلص ہو تو صرف پہلی مرتبہ ہی تو انسان کو سیکھنا ہوتا ہے۔ آگے کی باریوں میں تو وہ اپنے ساتھی کے مزاج کو سمجھ ہی جاتا ہے۔ شرط صرف مخلص Sex Partner کے ہونے کی ہے۔ ورنہ تو ایسے بھی پرش ہیں کہ ساری عمر Real Sex کی لذت کو ترستے رہتے ہیں۔ میں دلچسپی سے یہ سارے مناظر دیکھ رہا تھا۔ پھر فردوس نے اپنے منہ کو جانی کے ہونٹوں سے جدا کیا اور شیشی میں سے تھوڑا سا تیل نکال کر اپنے داہنے ہاتھ میں مسل لیا۔ اس دوران جانی فردوس کی گردن کے دھیمے دھیمے بوسے لے رہا تھا اور وہ بار بار شیشی کے ڈھکنے کو بند کرتے کرتے لذت جذبات کی وجہ سے چہرہ اوپر اُٹھا دیتی اور اس کی آنکھیں اوپر کو چڑھ جاتی تھیں۔ پھر جب وہ شیشی کا ڈھکنا بند کرنے میں کامیاب ہو گئی تو اس نے جانی کی شلوار میں ہاتھ دوبارہ ڈال لیا۔ جانی نے اب ناڑا کھولنا شروع کر دیا۔ اور ناڑا کھلتے ہی شلوار کو ڈھیلا کر دیا۔ فردوس نے جانی کے لنگ کے تنے ہوئے Top portion کو مساج دینا شروع کر دیا۔ وہ ایک مخصوص آہستہ رفتار سے جانی کے گول گول لنگ کے حصے کو دائرے میں اپنی پہلی انگلی کے ساتھ مسل رہی تھی۔ اور جانی نے فردوس کے پستان ہولے سے مسلئے شروع کر دیئے تھے۔ میں ویڈیو میں دیکھ رہا تھا کہ جانی کے ایسا کرنے سے فردوس کے پستانوں کے نپل بہت اکڑ چکے تھے اور وہ اس سے بہت زیادہ محضوض ہو رہی تھی۔ جانی نے آگے بڑھ کر فردوس جہان آراء کی شمیض کو بازو سے نکال دیا اور اب اُس کا ایک پستان برہنہ ہو چکا تھا۔ جانی نے اُس پستان پر اپنی زبان سے مساج شروع کر دیا جس سے فردوس اور زیادہ بھڑک اُٹھی اور بار بار اپنے سر کو مکمل اوپر کی جانب لے جاتی جیسے اُسے مدہوشی کا دور اپڑ گیا ہو۔ اُس کی آنکھیں کبھی کھلتیں تو یوں محسوس ہوتا جیسے اُس کی آنکھوں کا کا جل ابھی کے ابھی ڈھل جائے گا۔ وہ سرخ ہونٹوں والی ایک کا جول حسینہ تھی۔ پھر یک دم جانی نے فردوس کی ٹانگیں کھول دیں اور خود چار پائی سے اتر آیا۔ ان ٹانگوں کے درمیان میں فردوس کی خوبصورت شرمگاہ تھی جس پر جانی نے اپنی نوک دار زبان ہوئے ہولے سے چلانا شروع کر دی۔ اور فردوس اب کی دفعہ بحر پور مستی کے عالم میں جھول گئی۔ اس کا بس نہ چلتا تھا کہ وہ چلائے لیکن وہ ایک ایسے حسین لطف ومزے کی قیدی تھی کہ ساری چینیں اُسے اس لطف کے لئے اندر ہی دبانا تھیں۔ اور وہ اپنی بھر پور کوششوں سے اپنے اندر کے جذبات کو دبارہی تھی۔ جانی اپنا کام کئے جارہا تھا۔ یوں محسوس ہوتا تھا جیسے اُس نے اس کام کی کوئی سند لے رکھی ہے۔ فردوس نے جانی کے سر پر اپنے ہاتھ سے اس طرح دستک دی جیسے دروازے پر کھٹکھٹایا جاتا ہے اور جانی نے فردوس کے کپڑے اُتارے شروع کر دیئے۔ اب فردوس چار پائی پر چت لیٹ گئی اور جانی نے نیم کھڑے ہوئے ہی اپنا لمبا بڑا سالنگ اس کی اندام نہانی میں ڈال دیا۔ جانی گہرے گہرے جھٹکے لگاتا رہا۔ ان جھٹکوں میں بھی ایک ردھم تھا۔ وہ اپنا پورا لن ہونے سے چلانا شروع کردی۔ اور فردوس اب کی دفعہ بحر پور سستی کے عالم میں جھول گئی۔ اس کا بس نہ چلتا تھا کہ وہ چلائے لیکن وہ ایک ایسے حسین لطف ومزے کی قیدی تھی کہ ساری چینیں اُسے اس لطف کے لئے اندر ہی دبانا تھیں۔ اور وہ اپنی بھر پور کوششوں سے اپنے اندر کے جذبات کو دبارہی تھی۔ جانی اپنا کام کئے جارہا تھا۔ یوں محسوس ہوتا تھا جیسے اُس نے اس کام کی کوئی سند لے رکھی ہے۔ فردوس نے جانی کے سر پر اپنے ہاتھ سے اس طرح دستک دی جیسے دروازے پر کھٹکھٹایا جاتا ہے اور جانی نے فردوس کے کپڑے اُتارے شروع کر دیئے۔ اب فردوس چار پائی پر چت لیٹ گئی اور جانی نے نیم کھڑے ہوئے ہی اپنا لمبا بڑا سالنگ اُس کی اندام نہانی میں ڈال دیا۔ جانی گہرے گہرے جھٹکے لگاتا رہا۔ ان جھٹکوں میں بھی ایک ردھم تھا۔ وہ اپنا پورا لن فردوس کی خوبصورت اندام نہانی میں ڈالتا اور باہر نکال کر دو سرا جھٹکا لگا دیتا۔ فردوس آنکھیں بند کئے جانی کے لنگ کے مزے ایسے لے رہی تھی جیسے کوئی بھو کا سالوں بعد اپنا شکم بھرتا ہے اور پیاسا سالوں بعد سیراب ہوتا ہے۔ وہ خود بھی آگے پیچھے کو ہوتی تھی اور جانی کو بھی مدد دے رہی تھی کہ کون سی سمت میں جھٹکالگا کے ڈالے تا کہ وہاں فردوس کو لذت حاصل ہو سکے۔ جانی اس کے خاموش اشاروں کو سمجھتے ہوئے خاموش حکم کی تعمیل کر رہا تھا اور پھر تھوڑی دیر بعد جانی کو فردوس نے ہاتھ پر تھپکی ماری اور جانی فور آفردوس پر لیٹ گیا۔ جانی نے فردوس کے ہونٹوں کو اب اپنے ہونٹوں پر دبا لیا تھا اور فرنچ کس شروع کر دی تھی۔ پھر دونوں نے ایک دوسرے کو زور سے دبوچ لیا اور دونوں کے جسم پھڑکنے لگے۔ میں سمجھ سکتا تھا کہ جانی اور فردوس ایک ساتھ خارج ہو چکے ہیں۔ وہ بہت دیر تک یونہی پھڑک پھڑک کر ہلتے رہے اور پھر فردوس نے جانی کا سر اپنے پستان پر رکھ کر اپنے ساتھ لیٹا لیا اور اُس کے بالوں پر ہاتھوں سے کنگھی کرنے لگی۔ جانی اُس کے پستانوں کو کبھی چومتااور کبھی اپنی زبان سے اُنہیں لذت دیتا۔ پھر جانی نے آگے بڑھ کر ٹیپ نکال لی۔میں نے کہا: " جانی ! یہ ٹیپ مجھے دین ذرا " جانی نے وہ ویڈیو کیسٹ مجھے پکڑا دی اور میں نے ساری ریل باہر نکال کر خراب کر دی۔ سلیم نے یہ دیکھا تو کہا: " یہ کیا کیا یار کرشنا چند را؟" میں نے سلیم کی بات کو ان سناکرتے ہوئے جانی سے کہا:جانی میری ایک بات ہمیشہ یادرکھنا۔ پیار کرنے والے اس دنیا میں بہت ہوں گے، مگر پریم لٹانے والے کوئی کوئی ہیں۔ جو تم پر سب کچھ لٹا دے، تم اس کی عزت کرو خوش نصیب ہو کہ جیون میں تمہیں پر یم ملا۔ پر یم کرنے والے کو کبھی رسوا نہ کرنا ورنہ ذلیل و خوار ہو جاو گے