خالہ کی عمر پچاس سال تھی، شادی شدہ اور بچوں والی لیکن فٹ بہت ہیں بڑی بڑی چھاتیاں لیکن پتلی سی کمر۔ ان کے دونوں بیٹوں کی شادی بھی ہو چکی تھی ایک بیٹی کی شادی ہونا باقی تھی۔ مجھے انہوں نے کہیں لوڑا ہاتھ میں پکڑے مٹھ مارتے ہوئے دیکھ لیا پھر رات جب سب سو رہا تھا تو میرے روم میں آگئیں اورمیرے ساتھ لیٹ گئیں۔ پہلے بھی کئی بار وہ میرے پاس لیٹ جایا کرتی تھیں۔
لیکن آج اچانک میرے لن پر ہاتھ رکھ دیا وہ شیر جوان کھڑا ہو گیا۔ انہوں نے آؤ دیکھا نہ تاؤ میرا لن ٹراؤزر سے نکال کر چوپا لگانا شروع کر دیا۔ میں بھی تیار ہو گیا اور جنگ چھڑ گئی۔ پہلی بار انہوں نے مجھے سوتے میں اپنی مرضی سے کیا اور میں سونے کی ایکٹنگ کرتا رہا اور انہیں کرنے دیا بعد میں کھل کے سب ہوا۔پھر کام شروع۔ میں نے جب غور کیا تو وہ میری خالہ نجمہ تھیں جبکہ پہلے میں نے پہچانا نہ تھا۔رات بھر کام فل گرم رہا اور انہوں نے مجھے بہت مزا کرایا۔
تقریباً ایک سال یہ سلسلہ جاری رہا۔ پھر ایک دن ان کی چھوٹی بہو نے ہمیں چدائی کا یہ مزے دار کھیل کھیلتے دیکھ لیا۔ ان کی شادی کو تقریباً دو سال ہو گئے تھے اور ابھی بچہ کوئی نہ تھا۔ اگلے دن میری خالہ بہت پریشان تھی کہ سعدیہ کو معلوم ہو گیا ہے کہ ہم دونوں زنا کرتے ہیں میں نے ڈرنے کی بجائے کہا کہ پھر میں کیا کروں؟ آپ کی بہو ہے آپ کے بیٹے کو بتا دے گی۔
لیکن سعدیہ بھی ایک زانی ماں کی بیٹی تھی جس نے سات بچے ہونے کے بعد اپنے یار کی خاطر اپنے شریف خاوند کو چھوڑ دیا تھا وہ بھی مجھے ایسے چھوڑنے والی نہیں تھی۔
خیرباجی سعدیہ نے اپنی ساس سے کہا کہ خود یہاں مزے لے رہی ہیں جبکہ آپ کا بیٹا افتی کسی کام کا نہیں۔ چھوٹا سا اوزار ہے اس کا اور پانی بھی کسی کام کا نہیں کہ مجھے پریگننٹ کر سکے۔ اور آپ کے بھانجے کا لن دیکھیں کتنا بڑا اور موٹا تازہ اور ٹائم لگانے والا ہے۔ مجھے تو نہ مزا آرہا ہے نہ کام ہو رہا ہے کہ ماں بن سکوں اگر یہی صورت حال رہی تو میں طلاق لے کر چلی جاؤں گی اور کسی اچھے تگڑے مرد سے شادی کر لوں گی جو میری تسلی بھی کروائے اور بچے بھی پیدا کر سکے۔
خالہ نے اسے تسلی دی کہ کچھ کرتے ہیں۔ پھر خالہ نجمہ نے سعدی سے کہا کہ ایک کام کرتے ہیں میں اپنے بھانجے کو تمہارے ساتھ سیٹ کر دیتی ہوں کہ وہ تمہیں مزا بھی دے اور پریگننٹ بھی کر دے گاکیونکہ وہ میرے اندر منی نہیں نکالتا لیکن اس کی منی گاڑھی اور بہت زیادہ مقدار میں نکلتی ہے۔ سعدی نے کہا کہ کہیں کوئی گڑبڑ نہ ہو جائے؟ نجمہ خالہ نے کہا کہ میں تمہارے ساتھ ہوں مل بانٹ کے لیتی ہیں نا پھر ایک رات جب خالہ کو چود رہا تھا تو سکیم کے مطابق سعدی باجی آ گئی اور میری موجیں لگ گئیں۔ سعدی کو ڈالا تو ایسا لگا جیسے سہاگ رات ہو ساری رات کبھی خالہ کبھی ان کی بہو یعنی میری چھوٹی بھابھی سعدی۔ اور پھر تقریباً صبح کے وقت سعدی کے اندر سب کچھ انڈیل دیا۔ تین ماہ تک یہ سلسلہ چلتا رہا اور تین ماہ کے بعد سعدی کی رپورٹ مثبت آ گئی۔ وہ ماں بننے والی تھی۔ جب چھوٹی بھابھی پریگننٹ ہو گئی تو وہ بہت خوش تھیں اور میرا منہ چومتے نہیں تھکتی تھیں۔ تو بڑی بھابھی جو اُن کی سگی بہن تھیں عارفہ انہوں نے سعدی سے پریگننسی کا راز پوچھا۔جس پر سعدی نے کہا کہ ساسو ماں سے پوچھوانہوں نے میرا اور افتی کا علاج کروایا ہے۔جہاں سے میرا کروایا ہے وہیں سے تمہارا بھی کروا دیں۔
سعدی کی پریگننسی کے باوجود ہمارا کام چلتا رہا اور ہم تینوں مزا لیتے رہے۔ اب سعدی کی وجینا گیلی رہنا شروع ہوگئی تھی جس کی وجہ سے مزا کم ہو گیا تھا لیکن نجمہ خالہ تو بہت زبردست ساتھ دیتی تھیں۔
کچھ دن گزرنے کے بعد نجمہ خالہ نے عارفی بھابھی کے متعلق میرے ساتھ بات کی کہ دونوں بہنوں کی اکٹھے شادی کی تھی لیکن لگتا ہے میرے دونو بیٹے ہی ناکارہ ہیں۔ عارفی کے متعلق بھی وہ پریشان تھیں کہ اگر سعدی کو بچہ ہو جاتا ہے تو عارفی کو خوشی کے ساتھ ساتھ دکھ تو ہو گا کہ وہ بڑی ہے لیکن اس کی گود ابھی تک خالی ہے۔
میں نے خالہ کو چھیڑتے ہوئے کہا کہ پھر کیا خیال ہے آپ کو عارفی سے بھی دادی بنانے کی کوشش کروں؟میری بات سن کر خالہ کی آنکھوں میں ایک چمک آئی۔
اگلے دن میں نے محسوس کیا کہ عارفہ بھابھی ضرورت سے زیادہ مجھ پر مہربان ہیں اور میرے لیے دودھ کا گلاس رات کو لے کر آئیں اور پکڑاتے ہوئے کہنے لگیں یہ لیں ڈاکٹر صاحب!میں نے سب کچھ سمجھتے ہوئے ان سے دودھ کا گلاس لیا اور کہا کہ آپ نے بھی علاج کروانا ہے کیا؟
یہاں پرانے امراض کا کامیاب علاج کیا جاتاہے۔
تو بھابھی نے کہا آج رات چیک اپ کے لیے ایک مریض آئے گا تو ڈاکٹر صاحب اچھی طرح چیک اپ کرنا ہے۔ میں نے کہا جی بھابھی جان۔
اب رات کا مجھے بھی بے صبری سے انتظار تھا۔ کوئی گیارہ بجے کا وقت ہو گا کہ عارفی بھابھی اپنے خاوند کے ساتھ میرے کمرے میں آ گئے اور میں دونو کو ساتھ ساتھ دیکھ کر ہکا بکا رہ گیا۔
آتے ہی بھائی جان نے کہا ڈاکٹر صاحب بڑی مشہوری ہے آپ کی تو!میں نے نہیں بھائی جان ایسی بھی کوی بات نہیں۔ تو بھائی بولے مجھے بھی باپ بنا دو۔ افتی کو تو بنا دیا اور کیسے گوارا کرو گے کہ چھوٹی بھابھی پہلے ماں بن جائے اور بڑی بھابھی کی گود خالی ہو؟ میں نے کیا کہ بھائی جان یہ تو آپ کا کام ہے؟اس کے بعد بھائی جان نے کہا کہ پہلے دونو بھائی تسلی کرتے ہیں پھر علاج۔ چنانچہ ہم نے پھر عارفی بھابھی کو پکڑ لیا اور دونو بھائیوں نے چومنا چاٹنا شروع کر دیا۔ بھائی جان نے اپنا لن نکالا جو میرے ہتھیار سے آدھا تھا۔ میں دیکھ کے حیران ہوا۔ جب میں نے نکالا تو بھائی بھابھی کی آنکھیں پھٹنے کو آ گئیں۔ بھائی نے میرا پکڑ کر بھابھی کے منہ میں ڈالنے کی کوشش کی جسے بھابھی نے خوش آمدید کہا۔ چوپا چوپا چوپا۔ اور بھائی جان نے بھابھی کو ٹھوکنا شروع کر دیا وہ اچھی ٹھکائی کر رہے تھے لیکن بھابھی کو جو مزا مجھ سے آنے والا تھا وہ سوچ سوچ کربھابھی پاگل ہو رہی تھی۔
پھر میں نے پکڑ لیا کیونکہ بھائی جان تو دس منٹ میں ہی چھوٹ چکے تھے۔
میں نے دیکھا کہ سعدی بھابھی کی نسبت عارفی بھابھی فربہی مائل تھی لیکن ان کا بدن بہت مزےدار تھا اور وہ بار بار نیچے سے نکال کر چوپا لگاتی تھیں جس سے مزا دوبالا ہو جاتا تھا۔
قمر بھائی جان اب ایک طرف پڑے ہمیں دیکھ رہے تھے اور بھابھی نے کہا کہ دیکھ لیں آپ کا چھوٹا بھائی کتنا تگڑا ہے۔اپنی بھابھی کو مزا دے رہا ہے۔ کوئی ایک گھنٹے کے بعد بھائی جان پھر تیار ہو گئے اور وہ بھی میدان میں آگئے۔ اس بار انہوں نے کوئی آدھاگھنٹہ لگایا اور اس بار ہم دونو بھائیوں نے مل کر بھابھی کی پھدی میں ڈالا اور دونوں نے بھابھی کو خوب چودا۔
اب میں تیار تھا کہ بھابھی کو تحفہ دیا جائے۔سو میں نے اپنا سارا مال بھابھی کی یوٹرس کا نشانہ لے کر اندر لن ڈال کر فوارہ چھوڑ دیا۔
خالہ اپنے روم میں تھیں اور انہوں نے یہ سارا پروگرام بنایا تھا۔
اس کے بعد عارفی بھابھی کو ایک بار ماہواری آئی لیکن اگلے ماہ وہ بھی پریگننٹ ہو گئیں۔
پھر تو مزے ہی مزے کیے۔ خالہ نجمہ بھی ساتھ مل گئی اورخالہ اور ان کی دونوں بہوئیں ہم تینوں بھائیوں کو موجیں کرواتی رہیں خالہ صرف مجھ سے کرواتی ہیں۔
بھابھیوں کو بھی کسی اور کے پاس جانے ضرورت نہیں پڑی۔ہر دو سال کے بعد دونوں پریگننٹ ہوتی رہیں اور یوں دونوں نے چھ بچے پیدا کیے۔ اب تو ماشاءاللہ دونوں بھائیوں کے تین تین بچے ہیں۔ دودو بیٹے اور ایک ایک بیٹی۔
جب دونو بھابھیوں کا پہلا پہلا بیٹا ہوا تو دونوں بہت خوش ہوئیں۔ بھائی بھی دونو بہت خوش تھے۔ چھوٹے بھائی افتی کو معلوم نہ تھا کہ یہ نطفہ کس کا ہے؟ لیکن بڑے بھائی جان کو علم تھا کہ مجھے چھوٹے بھائی نے باپ بنایا ہے۔ ایک دن جب چھوٹی بھابھی میرے پاس بیٹھی تھی اور میں نے ان کے بیٹے زاوی کو گود میں اٹھایا ہوا تھا تو بھائی جان بھابھی کو چھیڑنے لگے کہ دیور کے ساتھ بہت پیار کرتی ہو تو بھابھی نے کہا کیوں نہ کروں اس کی وجہ سے تو آج میں ماں اور آپ باپ ہیں۔ اس پر بھائی جان نے طوفان کھڑا کرنے کی کوشش کی لیکن بھابھی اور خالہ دونو نے مل کر ان کو ٹھنڈا کیا کہ تمہارے پاس ہے کیا؟ تین انچ کا پتلا سوکھا ہوا لن؟ اور دو منٹ میں فارغ جس سے پھدی کی داڑھ بھی گیلی نہ ہو!! یہ تو یہی تمہارا چھوٹا بھائی نہ ہوتا تو میں تم سے کب سے طلاق لے چکی ہوتی۔ تب افتی بھائی کو سکون ہوا اور انہوں نے حالات سے بہت اچھی طرح سمجھوتا کر لیا۔ بھائی افتی بھی میری خدمت کرنے لگ گئے یعنی میرا، میری ضروریات کا ہر طرح کا خیال رکھنا کپڑا جوتا اور دیگر سہولتیں کیونکہ میں ان کی بیگمات کا خیال رکھتا تھا اور انہیں ابا بنایا تھا۔ میرے والدین چونکہ وفات پا چکے تھےاکلوتا بھی تھا اس لیے خالہ کے پاس ہی رہتا تھا اب تو میں خالہ بھائیوں اور بھابھیوں کا لاڈلا بھی تھا اور خالہ کی ایک بیٹی جو سب سے چھوٹی لیکن مجھ سے بڑی تھی وہ مجھے سگے بھائیوں سے بھی زیادہ چاہتی تھی اور مجھے اپنی جان کہتی تھی اس کی شادی ہونے والی تھی۔ سب لوگوں نے کہا کہ ان دونوں کی آپس میں شادی کر دیں لیکن میں اور وہ نہیں مان رہے تھے کہ ہم تو بہن بھائی ہیں پھر ایک اچھا گھرانہ اور لڑکا دیکھ کے بہن کی شادی کر دی گئی۔
اب میری شادی کی باری تھی تو سعدی اور عارفہ بھابھی نے کہا کہ اس کی شادی ہم ایسی جگہ کروائیں گی جہاں سے ہمیں بھی سکون رہے۔ چنانچہ انہوں نے اپنی پھوپھو کی بیٹی سحر سے میرا رشتہ طے کر دیا۔
ابھی ہماری شادی نہیں ہوئی تھی کہ بھابھیوں نے ہماری ملاقاتوں کا بندوبست بھی کر دیا۔اور پھر ٹھکا ٹھک سٹارٹ۔سحر کو بھابھی سعدی نے میرے متعلق بتایا کہ ہمارا بھائی بہت اچھا ہے بہت پیار کرنے والا ہے۔
سحر کو بڑا شوق پیدا ہوا مجھ سے ملنے کا تو اس نے حامی بھر لی سعدی بھابھی نے سحر کو بتایا کہ حامی تمہیں بہت پیار کرتا ہے۔
ایک دن سعدی بھابھی نے اپنے بیڈروم میں اپنے پاس سحر کو سلا لیا اور اوپر سے مجھے بلا لیا۔ ہم تینوں باتیں کرنے لگے اتنے میں سعدی نے سحر سے کہا کہ میں ابھی آتی ہوں یہ کہہ کر وہ اپنے بچوں کے روم میں چلی گئیں اور دروازہ بند کر دیا۔ ادھر جا کر سحر کو میسج کیا کہ میں رات بھر نہیں آنے والی تم آج سہاگ رات منا لو میں نے اسی لیے بیڈ پر سفید چادر بچھا دی ہے تاکہ خون خرابہ نظر آئے۔
میسج پڑھ کرسحر کی آنکھوں میں چمک آگئی کہ اب لمبے اور موٹے کا دیدار ہو گا۔
پھر میں سحر کے قریب ہوا تو سحر میرے ساتھ چپک گئی۔
کہنے لگی کی بھابھی نہ آ جائے جلدی کریں۔ میں سمجھ گیا کہ دل اس کا بھی ہے لیکن پکڑے جانے سے ڈرتی ہے۔
پھر جب میں نے اس چھتیس کے بوبے نکال کر چوسنے شروع کیے تو اس کی سسکیاں نکلنا شروع ہو گئیں۔ اس رات بھابھی سعدی کے بیڈ پر بچھی سفید چادر پر بہت خون خرابہ ہوا اپنی منگیتر کی چھوٹی سی پھدی کی سیل توڑ دی میں نے اور خوب چدائی لگائی۔
صبح جب سعدی بھابھی آئیں تو اپنی کزن سحر کی حالت دیکھ کر مجھ سے پیار کرنےلگیں اور سحر کو حوصلہ دیا۔ اس کے بعد وہیں سعدی بھابھی کے ساتھ ایک سیشن لگایا۔ رات بھر میں بے چاری سحر کی ایسی چدائی لگی کہ صبح کو اسے چکر آ رہے تھے اور بھابھی سعدی نے اسے دودھ پلایا اور اپنے بیڈ کر سلا دیا اور میں سعدی بھابھی سے فارغ ہو کر اپنے روم میں آ گیا۔
مجھے بھی بہت تھکاوٹ محسوس ہو رہی تھی میں بیڈ پر لیٹتے ہی سو گیا۔ دوپہر کو میری آنکھ کھلی تو سعدی بھابھی سر ہر کھڑی کہہ رہی تھیں کہ بھائی اٹھو سحر کی امی اور دونو بہنیں آئی ہیں۔
جب میں منہ ہاتھ دھو سحر کی امی نگہت آنٹی اور اس کی دونو بہنوں عافیہ اور عارفین سے ملنے گیا تو تینوں کو دیکھ کر دنگ رہ گیا کہ سحر کی والدہ یعنی نگو آنٹی سحر کی بڑی بہن لگ رہی تھیں۔ بالکل جوان اور چاک و چوبند۔ اور چھوٹی بہنیں بھی جوان ہو چکی تھیں۔ خیرنگو آنٹی اور عافیہ و عارفین تینوں کو دیکھ کر دیکھتا ہی رہ گیا۔ سعدی بھابھی مجھے نوٹ کر رہی تھی اور مسکرا رہی تھی شاید یہ سوچ رہی ہوں کہ موجیں اس کی لگی ہیں یا سحر کی والدہ اور بہنوں کی؟
میں نے بھی سعدی بھابھی کی آنکھوں میں دیکھ کر اشارہ کیا کہ چار چار مزے سسٹر!
نگو آنٹی نے آنکھیں گھماتے ہوئے میرے معصوم چہرے کی طرف دیکھتے ہوئے کہا ارے بیٹا! آؤ میرے پاس بیٹھو نا۔ اب اندھا کیا چاہیے دو آنکھیں! جھٹ سے آنٹی نگو کی گرم گرم ٹانگ سے ٹانگ لگا کر بیٹھ گیا۔ سحر کے ابا تو یوکے ہوتے تھے اور کوئی بھائی بھی نہیں تھا بس تین بہنیں تھیں۔ سحر اُنیس۔ عافیہ اٹھارہ اور عارفین سولہ سال کی۔
آنٹی نگو اور عارفہ بھابھی کی دوستی تھی اور عارفہ بھابھی انہیں سب بتا سکتی تھیں اور یہ انتظام اب عارفہ بھابھی کے ذمہ تھا۔
عارفی بھابھی سے جب نگو آنٹی نے کہا کہ میری زندگی تو بغیر مزے لیے گزر گئی۔ جب بھی میرے شوہر مسعود یوکے سے آتے تھے تو پریگننٹ کر کے چلے جاتے اور میں بعد میں بچے پیدا کرتی اور اب کئی سال سے وہ آ نہیں سکے۔ اور طبیعت مکدر رہتی ہے۔ تو عارفی بھابھی نے انہیں مبارک باد دیتے ہوئے کہا کہ داماد ہے نا اب اپنے شوہر کو بھول کر اس پر توجہ دیں۔ آپ کو بہت مزا دے گا۔ پھر راز رکھنے کا وعدہ لے کر ساری بات بتا دی۔ نگو آنٹی تو بھڑک اٹھیں کہ تم نے پہلے مجھے کیوں نہ بتایا میں ایسے ہی ہجرزدہ سیکس کی آگ میں پھنک رہی ہوں۔ پھر ایک دن نگو آنٹی نے مجھے بلایا کہ بیٹا کبھی ہماری طرف بھی چکر لگا لیا کرو۔
اگلے ہی دن عارفی بھابھی نے سحر۔ عافیہ اور عارفین کو کہلا بھیجا اور اپنے گھر بلا لیا مجھے پتہ نہیں تھا کہ نگو آنٹی گھر پر اکیلی ہیں۔ میں جاب پر تھا تو نگو آنٹی کی کال آ گئی کہ بیٹا آج ہماری طرف شام کا کھانا کھا لو۔ میں نے بھی یہ سوچ کر ہاں کر دی کہ آج سحر کو اس کے والدین کے گھر چودوں گا۔
شام کو میں جاب سے سیدھا سسرال پہنچا اور انتظامات دیکھ کر دنگ رہ گیا لیکن لڑکیوں میں سے گھر میں کوئی بھی دکھائی نہ دے رہی تھی۔
آنٹی نگو تو دلہن کی طرح سجی سنوری ہوئی تھیں اور گھر میں اکیلی تھیں اور کھانے طرح طرح کے بنائے ہوئے اور ٹیبل سجی ہوئی تھی۔ میں نے پوچھا کہ سحر اور دوسری بہنیں کہاں ہیں تو ظالمانہ مسکراہٹ کے ساتھ کہنے لگیں کہ عارفی نے بلایا ہے۔ ان کے اس جواب سے میں سمجھ گیا کہ کیا چکر ہے اور مطمئن ہو کر کھجور کا ملک شیک پیا جو نگو آنٹی نے میرے لیے کھویا ڈال کر بنایا تھا۔ نگو آنٹی بار بار میرا ہاتھ پکڑ کر میرے آنے کا شکریہ ادا کر رہی تھیں۔پھر میرا ہاتھ پکڑ کر اپنی آنکھوں کو لگایا۔ میں نے پیچھے ہٹنے کی کوشش کی تو مجھے اپنی طرف کھینچا۔میں بولا کہ آنٹی بس کریں۔ تو کہنے لگیں کہ عارفی نے مجھے سب بتا دیا ہے اس لیے گھبرانے اور پیچھے ہٹنے کا ناٹک کرنے کی ضرورت نہیں۔ کیا تم اپنی ساس کی ضرورت پوری نہیں کرو گے؟ اور آنکھ مار کر بولیں ایک کے ساتھ ایک فری!!میں نے من ہی من میں سوچا کہ ایک کے ساتھ ایک نہیں تین فری۔ لیکن تھوڑا مصنوعی غصہ دکھاتے ہوئے کہا کہ نہیں آپ میری ماں کی طرح ہیں۔ تو تنک کر بولیں: نجمہ کے بارے کیا کہتے ہو داماد جی؟ اس نے تو تمہیں باقاعدہ ماں بن کر پالا جب تمہارے والدین تمہیں اس دنیا میں اکیلا چھوڑ ایکسیڈنٹ میں فوت ہو گئے تھے؟تو نجو آنٹی نے کیا کیا تمہارے ساتھ؟ اپنی خواہش پوری کی نا تو مجھے کیوں محروم کر رہے ہو؟ میں نے پوچھا کہ آپ کو کس نے بتایا نجمہ آنٹی کا؟ کہنے لگیں عارفی نے جس کو تین بچے دیئے تم نے۔
میں سمجھ گیا کہ اب فرار ممکن نہیں اور فرار چاہتا بھی کون تھا میں تو ذرا بس یقین کر لینا چاہتا تھا کہ سب ٹھیک ہے۔نگو آنٹی نے جب اتنی بڑی بات کھلے بندوں کہہ دی تو میرے لیے صرف ایک ہی راستہ بچا تھا یعنی وہی جس کا دروازہ ان کی شلوار میں دونوں رانوں کے بیچ تھا۔
میں اپنی جگہ سے اٹھا اور نگو آنٹی کے پاس کھڑا ہو کر ان کے ہونٹوں پر ہونٹ جما دیئے اور چوسا لگانا شروع کر دیا۔ میں نے کہا کہ میری ساسو جان میں آپ کے ہر کام آؤں گا فکر نہ کریں۔
میں نے کہا کہ آپ کودلہن بنا دیکھ کر ہی میں سمجھ گیا تھا کہ آج آپ کے ساتھ سہاگ رات ہے۔
چلیں کھانا کھانے سے پہلے ایک سیشن ہو جائے اور ان کا بازو پکڑ کر کھینچا اور انہیں ان کے سجے ہوئے بیڈ روم میں لے گہا جہاں آج چدائی کا کھیل ہونا تھا۔
بیڈ پر جاتے ہی ہم گتھم گتھا ہو گئے
پھر تو پتہ بھی نہ چلا کہ کس وقت ہم دونو کپڑوں کی الجھن اور قید سے آزاد ہو گئے۔ جب میری ہونے والی ساس نگو آنٹی نے میرا ہتھیار دیکھا تو ان کے منہ سے رال ٹپکنے لگی اور میں نے جلدی سے اپنا لمبا موٹا لن ان کے منہ میں دے دیا اور وہ بڑی محبت سے اس کا چوپا لگانے لگیں۔
وہ ساری رات میں نے اپنی ساس کو ٹھنڈا کرنے میں گزاری لیکن ترسی ہوئی عورت کی آگ کوئی دم ٹھنڈی نہیں کر سکتا۔
نگو آنٹی کے بوبز 44+ کے تھے اور ٹائٹ۔ بہت چوسے اور ان کے درمیان میں لن بہت رگڑا تھوک لگا کے پھر میرے لن سے نکلنے والا پانی مکس ہو گیا اور نگو آنٹی نے اپنے بوبز جوڑ لیے اور میں نے تیزی کے ساتھ اندر باہر کرنا شروع کر دیا پھر کبھی وہ میرا لوڑا منہ میں ڈالتی کبھی اپنے مموں کے درمیان اور کہتی کہ تمہارے انکل کا تو تم سے آدھا بھی نہیں اور وہ اتنی دیر میں ڈسچارج ہو چکے ہوتے لیکن تم کس مٹی کے بنے ہو؟ تم پر نہ میرے منہ کا اثر نہ مموں کا۔ تم تو میری پیاری بیٹی سحر کو بہت خوش رکھو گے۔مجھے اپنے داماد پر فخر ہے۔
میں نے کہا کہ میں تو آپ چاروں کو بہت خوش رکھوں گا کیونکہ اس سے پہلے میں نے نجمی آنٹی اور ان کی دونو بہوؤں کو بھی خوش رکھا ہوا ہے اب چار آپ لوگ تو یہ کل ملا کے سات ہوگئیں۔
کہنے لگیں کہ اوئے کمینے بڑے لوڑے والے! تم نے میری دونو چھوٹی بیٹیوں پر بھی نظر رکھ لی؟ میں نے کہا کہ مجھے نظر رکھنے کی کیا ضرورت ہے؟ وہ ہیں ہی سکسی اب سحر کے ساتھ شادی کی شرط یہی ہو گی کہ عافیہ اور عارفین کی چدائی آپ خود مجھ سے کروائیں ورنہ یہ شادی نہ ہو گی۔ آنٹی تڑپ اٹھی کہ یہ کیا؟ میں نے کہا کہ اگر آپ ، بھابھیوں اور سحر کو بڑے اور موٹے لوڑے کی ضرورت ہے تو سحر کی چھوٹی بہنوں کو کیوں نہیں؟ اور باہر کے مرد کیوں چودیں میری سالیوں کو جبکہ گھر میں تگڑا لن موجود ہے؟ آنٹی کہنے لگی کہ یہ بھی ٹھیک ہے۔ جیسے تم کہتے ہو ویسے ہی ہو گا لیکن ابھی نہیں۔ مناسب وقت پر میں نے کہا بالکل ٹھیک اور پھر ٹانگیں اٹھا کر ایک ہی جھٹکے میں نگو آنٹی کی تنگ چوت میں موٹا لمبا لوڑا ڈال دیا۔ آنٹی بلبلا اٹھی۔ ارے کیا سحر کو بھی اس طرح ڈالا تھا؟ میں نے کیا نہیں اسے تو بہت پیار سے ڈالا تھا آپ تو بے شمار مرتبہ چُدی ہوئی ہو اس لیے ڈائریکٹ ڈال دیا۔ کہنے لگیں کہ بے شک بے شمار بار چُدی ہوں لیکن ایسے تگڑے موڑے اور لمبے لوڑے سے تو پہلی بار چُد رہی ہوں پھر میں نے آہستہ آہستہ چدائی کی سپیڈ بڑھا دی۔ ٹاپ گیئر میں چدائی جاری تھی کہ باہر بیل ہوئی۔
آنٹی نے ڈرے بنا کہا کہ یہ مادر چود اس وقت پتہ نہیں کون آ گیا ہے رنگ میں بھنگ ڈالنے۔ آنٹی بڑبڑاتی ہوئی اُٹھیں اور کپڑے پہن لیے پھر میں نے بھی کپڑے پہن لیے اور ہم باہر آ گئے۔ میں ڈائننگ ٹیبل پر بیٹھ گیا اور آنٹی دروازے کی طرف بڑھ گئیں۔ تھوڑی دیر میں ہی وہ اپنے سے کچھ چھوٹی عمر کی، اپنی ہم شکل ایک انتہائی سمارٹ عورت کے ساتھ اندر واپس آئیں اور میرا تعارف اس سے کروایا۔ حامی! یہ میری چھوٹی بہن ہے تمہاری آنٹی جُگنی۔ یہ میاں بیوی اسی محلے میں رہتے ہیں اور جُگنی یہ میرا داماد ہے حامی۔ آج ہم نے کھانا کیا ہے۔
آو بیٹھو یہ کہہ کر آنٹی نگو نے ان کے ہاتھ سے ڈبہ پکڑا اور کچن میں چلی گئیں اور جُگنی آنٹی میرے ساتھ والی کرسی پر بیٹھ کر مجھ سے مخاطب ہوئیں۔ کیسے ہو حامی؟ بڑی تعریف سنی ہے تمہاری۔ میں شرمانے کی ایکٹنگ کرتے ہوئے بولا بس آنٹی میں کیا ہوں ایک عاجز سا انسان۔
پھر آنٹی نے میرے ہاتھ پر ہاتھ رکھا اور کہا کہ جیتے رہو۔ مجھے ان کی آنکھوں میں درد دکھائی دیا۔ اب اس درد کی کھوج کا حق تو بنتا تھا نا!
اصل میں جگنی آنٹی کی شادی کو چار سال ہونے کو آئے تھے اور ابھی تک کنواری تھیں یہ بات انہوں نے بتائی کہ ان کے شوہر کا بچپن میں ایکسیڈنٹ ہو گیا تھا جس کی وجہ سے کوئی ایسی چوٹ آئی کہ وہ کسی عورت کے قابل نہ رہے لیکن ہمارے معاشرے کی بے ثباتی کی وجہ سے وہ نہ تو کسی کو کچھ بتا پائے نہ ہی جھجک کی وجہ سے علاج کروا پائے۔ اب جگنی ان کی بیوی تو تھی لیکن ان ٹچ تھی۔ میں نے سوچا کہ کمال ہو گیا ایک اور ٹارگٹ ملنے والا ہے لیکن عجیب بات یہ ہوئی کہ جگنی کی آنکھوں میں ایسا کوئی جذبہ نہ دیکھا جو عموماً سیکس کی پیاسی لڑکیوں یا عورتوں میں نظر آتا ہے۔ وہ ایک نیک نظر بی بی دکھائی دے رہی تھی لیکن میں نے سوچا کہ نگو آنٹی بھی بڑی شریف لگتی تھی لیکن آج میری ساس ہونے کے باوجود میرے نیچے ہے اس لیے یہ بھی ایسی ہی ہو گی۔
کچھ دیر میں نگو آنٹی آ گئیں اور برتن میں کچھ ڈال کر لائی تھیں اور شکریہ ادا کرنے لگیں اور کہنے لگیں کہ جگنی تم بھی ہمارے ساتھ کھانا کھا لو۔ تو جگنی کہنے لگی کہ نہیں زاہد گھر آگئے ہیں میں ان کے ساتھ ہی کھاؤں گی تو نگو آنٹی نے کہا کہ اسے بھی یہیں بلا لیتے ہیں اور ساتھ ہی انہیں کال کر دی کہ زاہد ادھر ہی آ جاؤ۔ تھوڑی ہی دیر میں ایک بہت ہی ہینڈ سم اور خوب صورت انسان ہمارے ساتھ ٹیبل پر بیٹھا تھا۔ مجھے دیکھ کر انتہائی دکھ ہوا کہ اس قدر سجیلا نوجوان اور عورت کے قابل نہیں پھر میں دل ہی دل میں اللہ کا شکر ادا کر رہا تھا کہ اس نے مجھے ہر طرح سے مکمل بنایا تھا۔
مجھے زاہد انکل سے مل کر بہت خوشی ہوئی اور اب میں نے سچے دل سے عہد کر لیا کہ انہیں بھی ابا بنا دوں گا۔ چنانچہ میں نے ان کے ساتھ بہت محبت اور احترام ظاہر کیا تا کہ انہیں مجھ پر مکمل اعتماد ہو جائے۔ اس کے بعد ان کے ساتھ رابطہ دوستی میں تبدیل ہو گیا۔
ایک دن میں جگنی سے ملنے ان کے گھر گیا تو دونوں بہت اپ سیٹ نظر آئے۔ میں نے پوچھا کیا بات ہے؟ زاہد نے کہا کہ میں جگنی سے کہہ رہا ہوں کہ تم مجھ سے طلاق لے لو اور کہیں اور شادی کر لو تا کہ تمہارے ارمان پورے ہوں اور بچے بھی ہو جائیں لیکن یہ نہیں مان رہی اور کہتی ہے کہ میں تم سے پیار کرتی ہوں اور تمہارے ساتھ ہی رہوں گی۔ میں نے کہا کہ یہ بھی ہو سکتا ہے کہ آپ بچے گود لے لیں؟ کہنے لگے کہ بچہ تو گود لے لیں لیکن اس کی جسمانی خواہش کا کیا کریں گے؟ وہ تو پوری نہیں ہو سکتی نا؟ میں نے ہنکارہ بھرا اور کہا کہ میں آپ کو اس کا حل بھی بتا سکتا ہوں لیکن اگر آپ دونوں غصہ نہ کریں۔ تو زاہد نے کہا کہ ہاں بولو یار! میں نے جگنی سے کہا کہ تم بھی میری دوست ہو اس لیے میری بات کا برا مت ماننا۔ مجھے تم دونوں کی بہتری عزیز ہے۔ جب دونوں نے مجھے یقین دلایا تو میں نے بلاجھجک کہہ دیا کہ آپ کے یہ دونوں کام میں مکمل رازداری کے ساتھ کر سکتا ہوں۔ انہوں نے کہا کہ کیسے؟ میں نے کہا کہ آپ کی سیکس کی خواہش بھی پوری کرتا رہوں گا اور پریگننٹ بھی کر دوں گا تا کہ آپ دونوں کا بچہ ہو جائے اور میں اس بات کو مکمل راز رکھوں گا اور زندگی بھر نہیں نکالوں گا۔ ابھی میں بات کر ہی رہا تھا کہ ایک زناٹے دار تھپڑ میرے گال پر پڑا۔ میں نے دیکھا کہ جگنی نے مجھے اپنی پوری جان لگا کر تھپڑ رسید کیا تھا اور مجھے دھکے دینے لگی کہ تم اسی وقت ہمارے گھر سے نکل جاؤ اور آئندہ کبھی ہمارے گھر نہ آنا۔ کیا تم مجھے حرام کاری اور زنا کی ترغیب دلا رہے ہو اور اس سے بڑا گناہ یہ کہ میں تمہارے نطفے سے بچہ پیدا کروں؟ چلو نکلو یہاں سے۔ اور زاہد چپ چاپ بیٹھا تھا۔ میں فوراً ہی گھر سے نکل گیا۔ میں بہت پریشان تھا کہ کہیں یہ بات بگڑ ہی نہ جائے۔ لیکن دو تین دن کے بعد مجھے زاہد کی کال آئی اور اس نے کہا کہ میں نے بہت غور کیا ہے اور اس نتیجہ پر پہنچا ہوں کہ یا تو جگنی تم سے سیکس کرنا شروع کر دے یا پھر میں اسے طلاق دے دوں۔ چنانچہ جگنی کو میں نے آج رات تک کا وقت دیا ہے اگر وہ مان گئی تو تم تیار رہنا وگرنہ کل صبح وہ مجھ سے طلاق لے کر نگو کے گھر چلی جائے گی۔ میں نے کہا کہ زاہد یار ایسا نہ کرو۔ لیکن زاہد نے کہا کہ یہی میرا فیصلہ ہے اور تمہیں اس لئے بتایا کہ تم ذہنی طورپر تیار رہو مجھے یقین ہے کہ وہ مان جائے گی کیوں کہ وہ مجھے کسی قیمت پر نہیں چھوڑ سکتی۔ میں نے کہا کہ چلیں دیکھتے ہیں۔
لیکن زاہد کا اندازہ غلط نکلا اور جگنی زاہد کا گھر چھوڑ کر نگو آنٹی کے گھر شفٹ ہو گئی اور زاہد نے جگنی کوطلاق دے دی۔
آنٹی نگو کو بڑی حیرت تھی کہ یہ سب کیوں ہوا؟ جگنی نے میرے ساتھ دوستی کر لی تھی لیکن وہ زنا کرنے اور میری منی سے بچہ پیدا کرنے کے حق میں نہیں تھی۔ میں بہت حیران تھا کہ یہ کیسی لڑکی ہے؟
آنٹی نگو کو جگنی نے ساری بات بتا دی تھی جس پر نگو آنٹی مجھ سے کچھ ناراض ہوئی لیکن وہ مجھے ہاتھ سے گنوانا نہیں چاہتی تھیں اس لیے انہوں نے کہا کہ تم جگنی کو مزید مجبور نہ کرو۔ میں نے کہا کہ میں نے تو مجبور نہیں کیا میں نے تو صرف ایک تجویز دی تھی کہ اگر جگنی زاہد کو چھوڑنا بھی نہیں چاہتی اور بچہ بھی اپنے پیٹ سے پیدا کرنا چاہتی ہے تو میں حاضر ہوں۔ جس پر نگو آنٹی کو تسلی ہوئی۔ جگنی نے بھی نگو آنٹی کو بتایا کہ اس کا قصور نہیں ہے اس نے ہماری ہمدردی میں یہ سب کہا تھا۔ اب تو روزانہ جگنی کے ساتھ بات و ملاقات ہونے لگی۔ میری دلچسپی جگنی میں اس لیے بڑھ چکی تھی کہ وہ زنا کرنا تو دور کی بات ہاتھ بھی لگانے نہیں دیتی تھی۔ عدت کے دن گزرتے گئے زاہد نے صلح کی ایک ہی شرط رکھی ہوئی تھی۔ نگو آنٹی بھی سمجھا رہی تھی اور سحر نے بھی جگنی کو سمجھایا کہ ایسا کرنے میں کوئی حرج نہیں لیکن جگنی نہیں مان رہی تھی۔
جگنی اور میری دوستی بہت پکی ہو چکی تھی اور میں حقیقی معنوں میں جگنی سے مرعوب بھی تھا اور اس کا احترام بھی کرتا تھا۔ جگنی کو معلوم ہو چکا تھا کہ نگو آنٹی مجھ سے چُدواتی ہیں اور سحر کو بھی چود چکا ہوں۔ انہیں نگو آنٹی نے بتایا بھی تھا کہ حامی سب کو ہی مطمئن کر رہا ہے۔
کافی دن گزر گئے۔ زاہد بھی پریشان تھا کہ عدت کی مدت گزر رہی ہے۔ ایک دن جگنی نے مجھ سے کہا کی زاہد سے کہو طلاق واپس لے کر مجھ سے صلح کر لے میں اس کی تجویز پر غور کروں گی ورنہ اگر عدت گزر گئی تو صلح ممکن نہیں رہے گی اور میں ساری زندگی کبھی شادی نہ کروں گی کیوں کہ میں زاہد کے علاوہ کسی کو اپنا خاوند نہیں مان سکتی میں اس سے عشق کرتی ہوں۔
میں نے فورا ًزاہد سے کہا کہ برف پگھل رہی ہے۔بات بنتی دکھائی دے رہی ہےتم صلح کر لو۔ یوں دونو کی صلح ہو گئی اور جگنی زاہد کے گھر واپس جانے کی تیاری کرنے لگی ۔
اسی رات دونو کی صلح ہو گئی اور طلاق والا معاملہ ختم ہو گیا۔ اس رات کو ڈنر زاہد اور جگنی کی طرف سے تھا جو ایک بڑے ریسٹورنٹ میں دیا گیا جس میں سبھی شامل ہوئے اور اس کے بعد جگنی کی دوبارہ رخصتی ہوئی۔ میں اپنی کار میں دونو کو بٹھا کر ان کے گھر لے آیا۔ رات کو گپیں لگاتے گزارا۔ اگلے دن طے پایا کہ آج زاہد کی موجودگی میں جگنی کے منہ بولے خاوند یعنی میرے ساتھ جگنی کی سہاگ رات ہو گی۔
میں بھی خوشی خوشی گھر لوٹا تیاری کی اور جاب پر چلا گیا۔ واپسی پر میں نے اپنا نیا سوٹ نکالا۔ بھابھیاں مجھے رشک کی نظروں سے دیکھ رہی تھیں اور بھائی میری خوش قسمتی پر ناز کر رہے تھے۔ جیسے سب لوگ میری بارات کےساتھ جا رہے ہوں۔ سعدی باجی نے مجھے چھیڑتے ہوئے کہا کہ تین سے زیادہ بچے نہیں ہونے چاہئیں ورنہ میں تمہیں مار ڈالوں گی۔ میں نے ہنستے ہوئے کہا کہ مجھے لگتا ہے کہ میں بس مزے ہی کروں گا بچوں والی کوئی بات نہیں ہو گی۔ خیر ہم سب تیار ہو کر جگنی اور زاہد کے گھر سات بجے شام پہنچ گئے۔ وہ بھی سجی سنوری بیٹھی تھی۔ نگو آنٹی اور ان کی تینوں بیٹیاں بھی موجود تھیں۔ آج مجھے سحر کی بہن عافیہ کی آنکھوں میں بہت پیاس نظر آئی۔ میں بھی اس کی طرف ایسی ہی نظروں سے دیکھ رہا تھا جیسے ابھی اس کی ٹانگیں اٹھا کر گھسیڑ دوں گا۔ دل تو میرا یہی تھا لیکن میں جانتا تھا کہ آج کی رات عافی کی خالہ جگنی کی باری ہے۔ اسی اثنا میں عافی اٹھی اور مجھے آنکھوں سے اشارہ کر کے واش روم کی طرف چلی گئی۔ کوئی دو منٹ بعد میں بھی اٹھا اور واش روم کی طرف ٹہل گیا۔ واش روم کا دروازہ کھلا تھا جیسے ہی میں دروازے کے سامنے پہنچا تو دروازہ کھول کے عافی نے مجھے اندر کھینچ لیا اور سیدھا میرے ہونٹوں پر ہونٹ رکھ دیئے اور کہنے لگی کہ آج میرا دل کر رہا ہے آپ کو کھا جاؤں۔ میں نے سنبھلتے ہوئے کہا کہ دو چار دن صبر کر لو لیکن میں بھی اس کے ساتھ چمٹا ہوا تھا اور کسنگ کر رہا تھا۔ عافی کے منہ سے آنے والی سیکس کی باس نے مجھے ٹُن کر دیا تھا۔ عجیب سی شہوت انگیز بو اس کے بدن سے اٹھ رہی تھی جو اس سے پہلے مجھے کسی سے کبھی نہیں آئی تھی۔ دل کر رہا تھا کہ ابھی اسے ڈھیر کر دوں لیکن جگنی کا خیال آتے ہی میں نے اسے چھوڑ دیا۔ کوئی پانچ منٹ اسی حالت میں گزار کر میں نے عافی کو تسلی دی اور منہ دھویا۔ اسے کہا کہ اپنی لپ سٹک ٹھیک کر کے بعد میں آ جانا۔ اور میں واپس وہاں آ گیا جہاں سب لوگ بیٹھے تھے۔ ایک ہنگامہ سا تھا۔ خوشی کا چھوٹا سا طوفان آیا ہوا تھا سامنے زاہد اور جگنی دلہا دلہن بنے صوفہ پر اکٹھے بیٹھے تھے اور سبھی ان کی تصویریں بنا رہے تھے۔ بالکل شادی والا سماں تھا۔ مجھے بھی تصویر کے لیے بلایا گیا اور میں جگنی کے دائیں طرف جا بیٹھا تو تصویر مکمل ہو گئی۔
اس کے بعد سب نےکھانا کھایا اور اجازت لی۔ نگو آنٹی اپنی تینوں بیٹیوں کو لے کر اپنے گھر چلی گئیں اور میں نجمہ خالہ اور سعدی اور عارفی بھابھی کو لے کر اپنے گھر آ گیا۔ انہیں گھر چھوڑ کر میں نے میڈیکل سٹور کا رخ کیا۔ گو مجھے کسی دوا کی ضرورت نہیں تھی پھر بھی میں چاہتا تھا کہ جگنی کے مارے ہوئے تھپڑ کا بدلہ ایسے لوں کہ وہ ساری زندگی کے لیے میری غلام ہو کر رہ جائے۔ چنانچہ میں نے ایک گولی ویاگرا کی خرید کے ایک کپ دودھ کے ساتھ کھا لی اور ایک خرید کر جیب میں رکھی اور زاہد کے گھر کا رخ کیا جہاں دو خاوندوں والی جگنی اپنے ٹھوکو خاوند کا انتظار کر رہی تھی۔
میں جب زاہد کے گھر پہنچا تو رات کے گیارہ بج رہے تھے۔ دونوں میاں بیوی میرا بے چینی سے انتظار کر رہے تھے۔ میں جب پہنچا تو زاہد نے بڑی گرم جوشی سے میرا استقبال کیا لیکن جگنی کہیں نظر نہ آئی میں نے آنکھوں آنکھوں میں پوچھا تو زاہد نے مجھے اندر کا اشارہ کیا۔ میں نے کہا ٹھیک۔
اندر جا کر میں نے جگنی کو سلام کیا اور ہاتھ بڑھایا اس نے میرا ہاتھ تھاما اورسلام کا جواب دیا۔ وہ شرما رہی تھی۔ وہ اس قدر خوب صورت تھی کہ میں تصور ہی کر سکتاتھا۔ گولی نے اثر دکھا دیا اور اوپر سے جگنی کی خوب صورتی غضب ڈھا رہی تھی۔
اچانک وہ ہاتھ چھوڑ کر رونے لگی۔ زاہد نے اسے تھام لیا اور چومنا شروع کیا۔ میں کمرے سے باہر چلا گیا۔ میں کچن میں آیا اور ایک گلاس دودھ لیا اس میں دو چمچ شہد ڈالا اور ویاگرا کی جو دوسری گولی خریدی تھی اسے اچھی طرح پیس کر دودھ میں حل کر دیا۔
میں دودھ کا گلاس لیے کھڑا تھا کہ زاہد پیچھے سے آیا اور مجھ سے کہنے لگا کہ تم کیوں باہر آ گئے؟ آ جاؤ وہ سنبھل چکی ہے۔ میں نے زاہد سے کہا کہ مجھ سے نہیں ہو گا۔ وہ کہنے لگا کہ نہیں یار! اس سب کی خاطر تو ہم نے صلح کی ہے کہ ہمیں بچہ چاہیے۔ میں نے دودھ کا گلاس اسے دیتے ہوئے کہا کہ یہ سارا گلاس ختم کرو پھر چلتے ہیں۔ اور زاہد نے سانس بھر میں سارا گلاس حلق میں انڈیل لیا۔
میں نے زاہد سے کہا کہ آپ جاؤ اور جگنی کو تیار کرو۔ کسنگ کرو اور اس کے کپڑے اتارو۔ چنانچہ زاہد اندر چلا گیا اور جا کر جگنی کو پیار کرنے لگا۔ میں کوئی دس منٹ کے بعد حجلۂ عروسی میں گیا اور دیکھا کہ دونوں ننگے ہو کر بھرپور پیار کر رہے ہیں اور میں نے دیکھا کہ میری دی ہوئی گولی نے زاہد پر اثر دکھایا تھا اور ہلکی ہلکی اریکشن اس کے پانچ انچ کے لن میں محسوس ہو رہی تھی۔ مجھے خوشی ہوئی اور میں نے فوراً اپنے کپڑے اتارے اور بیڈ پر جگنی کی دوسری طرف چڑھ گیا۔ میں نے صرف انڈر ویئر پہنا ہوا تھا جس میں سے میرانو انچ لمبا اور ساڑھے پانچ انچ موٹا کالا لوڑا پھنکار رہا تھا۔ زاہد کی آنکھوں کی چمک مجھ سے چھپی نہ رہ سکتی تھی کیوں کہ آج وہ اپنی پیاری بیوی کو اس کی بھانجی کے خاوند کے ساتھ سہاگ رات مناتے دیکھنے والا تھا۔
بس پھر کیا تھا میں نے آؤ دیکھا نہ تاؤ اور جگنی پر سوار ہو گیا۔ کسنگ کی انتہا ہو رہی تھی ہم تینوں ایک دوسرے سے گتھم گتھا تھے اور جگنی مدہوش ہوئے جا رہی تھی۔اچانک زاہد نے میرے لوڑے پر ہاتھ رکھا اور انڈرویئر نیچے کر کے میرا لوڑا اپنے ہاتھ میں لے کر سہلانا شروع کر دیا کچھ ویسے ہی میرا لوڑا بہت ٹائٹ تھا کچھ گولی نے کام دوآتشہ کر دیا تھا۔
زاہد میرا لوڑا پکڑے پکڑے جگنی کی پھدی کے دانے پر چلا گیا اور زبان سے اسے چھیڑنے لگا۔ کبھی وہ زبان پھدی کے اندر کر دیتا اور کبھی دانے پر لگا رہتا۔ جگنی بھی حیران تھی کہ زاہد کو آج کیا ہو گیا ہے پہلے تو کبھی کسنگ سے آگے نہیں گیا تھا۔ لیکن اس بے چاری کو کیا معلوم کی زاہد پر بھی گولی اثر دکھا رہی تھی۔
زاہد نے میرا لوڑا کھینچ کر جگنی کی چوت کے قریب کیا اورمیرے لن کا موٹا ٹوپا اس کے دانے پر گھسانے لگا اور اب اس کی زبان میرے لن پر بھی پھرنے لگی پھر اس نے میرا لوڑا اپنے منہ میں لینے کی کوشش کی تو میں نے بھی کچھ نہیں کہا۔ پھر زاہد نے میرا لن جگنی کی پھدی پر گھساتے گھساتے اس کی کنواری موری پر رکھ دیا اور آگے کو زور لگانا شروع کر دیا میں سمجھ چکا تھا کہ اب زاہد چاہتا ہے کہ میں اپنے نو انچ لمبے اور ساڑھے پانچ انچ موٹے لوڑے سے اس کی پیاری چہیتی بیوی کی چوت پھاڑ دوں۔ میں اس کا اشارہ پا کر سیدھا ہوا اور زاہد سے کہا کہ جگنی کے ہونٹوں پر ہونٹ رکھ کر کسنگ کرے اور اسے اچھی طرح مضبوطی سے پکڑ لے۔ میرے ذہن میں وہ طمانچہ گونج رہا تھا جو جگنی نے مجھے مارا تھا لیکن آج میں اس کا بدلہ لینے والا تھا۔ جیسے ہی زاہد نے جگنی کا اوپر والا دھڑ اپنے قابو میں کر لیا تو میں نے زاہد اور جگنی کے منہ سے تھوک لے کر اپنے لوڑے پر ملا اور باقی جگنی کی پھدی پر مل دیا جس سے مزید گیلا پن پیدا ہو گیا اب میں نے لوڑے کو موری کے منہ پر رکھا اور پوری طاقت کے ساتھ بغیر جھٹکا
گائے اس کی پھدی میں دھکیل دیا۔
اندر سے بھی مکمل گیلی پھدی اور میرا لوڑا دونوں میاں بیوی کے تھوک سے لتھڑا ہونے کی وجہ سے چکنا ہو چکا تھا لیکن پہلے بار اتنا موٹا اور لمبا لوڑا تنگ اور کنواری پھدی میں اچانک سارے کا سارا چلا جانا کسی تکلیف دہ مرحلہ سے کم نہ تھا۔ جگنی ماہئ بے آب کی طرح تڑپ اٹھی اور اس کی آنکھوں میں آنسو آ گئے لیکن زاہد نے اسے چھوڑا نہیں۔ ادھر میں نے تھپڑ کے بدلے پوری زور سے اپنا لن اس کی چوت کے اندر باہر کرنا شروع کر دیا میں سار الن باہر نکالتا اور پھر ایک دھکے کے ساتھ واپس اندر ڈال دیتا۔ کوئی پانچ منٹ کی ریاضت کے بعد جب ہم تینوں نے دیکھا تو سفید بیڈ شیٹ لال ہو چکی تھی اور جگنی بے حال ہو چکی تھی۔ میں نے زاہد کو پیچھے ہٹایا اور جگنی کے اوپر لیٹ کر اس کو کسنگ کرتے ہوئے لوڑا اندر ہی رکھا اور اس کے کان کی لو چوستے ہوئے پوچھا: کیسا لگا تھپڑ کا بدلہ؟
وہ مجھے بے تحاشا چومنے لگی اور کہنے لگی کہ اگر اتنا مزا آنا تھا تو میں پاگل تھی کہ تمہیں انکار کر دیا آج سے تم میرے بھی خاوند ہو۔ میں نے کہا زہے نصیب!اتنے میں زاہد کی آواز آئی کہ یار جگنی یہ دیکھو میرا لن بھی کھڑا ہو رہا ہے۔ شاید تم لوگوں کو اندھا دھند چدائی کرتے دیکھ کر کھڑا ہو گیا ہے۔ میں نے کہا کہ زاہد بھائی آجاؤ میدان میں اور اپنی پیاری بیوی جگنی کو چودو۔ اتنا کہہ کر میں جگنی کے اوپر سے اترا اور زاہد کو موقع دیا۔ زاہد نے آؤ دیکھا نہ تاؤ جگنی پر چڑھ دوڑا۔ میں نے اپنا تھوک زاہد کے لن پر لگایا اور زاہد نے ایک ہی جھٹکے میں اندر کر دیا اور لگا اندر باہر کرنے۔ گھسے پہ گھسا مارنے لگا۔ میں نے زاہد سے کہا کہ آرام سے بھائی جگنی کی یوٹرس کو ٹھوکریں نہ مارو ورنی اس کی پوزیشن تبدیل ہو جائے گی اور پریگننٹ کرنا مشکل ہو جائے گا۔تو زاہد نے آرام آرام سے دھکے لگانا شروع کر دیئے۔
کوئی دس منٹ بعد میں نے دونوں سے کہا کہ اب ایک اور کھیل کھیلتے ہیں۔ جگنی بری طرح تھک چکی تھی اور اس کا علاج تھا میرے پاس میں نے اپنے کوٹ کی جیب سے ایک ہومیوپیتھک دوا سٹیفی سیگریا نکالی اور ایک گھونٹ پانی میں پانچ قطرے ڈال کر اسے پلا دی اور کہا کہ پانچ منٹ کا وقفہ۔
دس منٹ بعد پھر پانچ قطرے دوا پانی میں ڈال کے پلائی جس سے جگنی کی چوت کے زخم ٹھیک ہو گئے اور وہ اس قابل ہو گئی کہ اگلا سیشن لگایا جا سکے۔ میں ابھی تک ڈسچارج نہیں ہوا تھا۔ زاہد اور جگنی بوس و کنار کر رہے تھے مسلسل۔ میں بھی اب شامل ہو گیا اور ہم تینوں کی زبانیں آپس میں گھلنے ملنے لگیں۔
میں نے اب ڈوگی سٹائل میں جگنی کو چودنے کا فیصلہ کیا اور زاہد کو نیچے لٹا کر جگنی کو اس کے اوپر کتیا بنا کر اوندھا کیا اور تینوں کا تھوک لگا کر اپنے موٹے اکڑے ہوئے لوڑے پر لگایا اور جگنی کی چوت میں آرام کے ساتھ اندر کر دیا۔ اب میں تھپڑ کا بدلہ لے چکا تھا اس لیے بڑے آرام سے جگنی کے اندر باہر کر رہا تھا جگنی کے منہ میں منہ ڈالے زاہد اس کو قابو کیے ہوئے تھا۔ اس سارے عرصہ میں میری توجہ ایک بار بھی جگنی کے چھتیس سائز کے مموں کی طرف نہیں گئی تھی کیونکہ زاہد مسلسل کسنگ اور ممے چوسنے میں مصروف تھا۔
اب میں نے جگنی کے ممےپکڑ لیے اور پیچھے سے اس کا کتا بن کر چودنے لگا۔ کوئی پندرہ منٹ بعد مجھے زاہد کا لن ٹکراتا ہوا محسوس ہوا۔ میں نے اپنا نکال کر زاہد کے لن ہر تھوک لگائی اور جگنی کے اندر ڈال دیا۔ وہ دونوں حیران تھے کہ زاہد کا کیسے کھڑا ہوا اور کیسے وہ چودنےکی پوزیشن میں آ گیا؟ بہرحال یہ تو میں ہی جانتا تھا۔
زاہد کا لن جگنی کی چوت میں ڈال کر میں نے اپنا لن بھی جگنی کی چکنی چوت میں ڈالنے کی کوشش کی جو تھوڑی تگ و دو کے بعد اندر جانا شروع ہو گیا۔ اب تو جگنی مزے سے چیخ ہی پڑی۔ وہ اُونچی آواز میں چلا رہی تھی۔
رات تین چار گھنٹے مسلسل چود چود کر میں بھی تھک چکا تھا اور زاہد تو نڈھال یو چکا تھا۔ چنانچہ میں نے جگنی سے کہا کہ تیار ہو؟ منی تمہاری یوٹرس میں ڈال دوں؟ وہ کہنے لگی جی۔ تو میں نے اسے سیدھا لٹایا۔ ہاتھ اس کے پیٹ پر رکھا اور کولہوں کے نیچے سرہانا رکھا اور لن کو سیدھا کر کے آہستہ آہستہ اندر لے جا کر یوٹرس کے منہ پر سیٹ کیا اور ہلکا سا دھکا لگا کر اندر کر دیا اور دو منٹ ہلکے ہلکے جھٹکے مارے تاکہ ڈسچارج ہو جاؤں۔ اس طرح ایک فوارہ جگنی کی یوٹرس میں چھوڑ دیا۔ اسے بہت سکون ملا شادی سے اب تک اس کی یوٹرس میں منی کا فوارہ پہلی بار چھوٹا تھا۔
جب میں نے جگنی کی یوٹرس میں فوارہ چلایا تو جگنی کو اتنا سکون ملا کی وہاں سے ہلے بنا ہی سو گئی اور زاہد میرا شکریہ ادا کرتا رہ گیا ہم تینوں ننگے اسی بیڈ ہر سو گئے اور صبح تقریبا آٹھ بجے میں جاگا تو جلدی جلدی تیار ہو کر آفس کے لیے نکل گیا۔ کوئی دو گھنٹے بعد زاہد کی کال آئی کہ اپنی نئی نویلی دلہن کو چھوڑ کر کوئی آفس جاتا ہے بھلا؟ میں نے کہا یار دو خاوندوں والی دلہن کے پاس اگر ایک موجود ہو تو ایک کام پر جا سکتا ہے۔ ہم ہنستے اور باتیں کرتے رہے کہ اچانک زاہد نے مجھ سے پوچھا کہ یار تم نے دودھ میں کیا ملایا تھا کہ میں بھی جگنی کو چودنے کے قابل ہو گیا؟ میں نے اسے بتا دیا کہ گولی ملائی تھی۔ اس نے کہا کہ آج کے لیے بھی گولی لے آنا۔ میں نے کہا کہ روز روز نہیں استعمال کرنی چاہیے اور پھر آج جو کچھ ہم نے جگنی کے ساتھ کیا ہے اسے کم از کم اڑتالیس گھنٹے آرام کی ضرورت ہے۔ وہ کوئی بے جان مورت نہیں عورت ہے اور اس کو ساری رات میں نے اپنے موٹے لمبے لن سے اور آپ نے بھی کم نہیں چودا۔ ابھی اسے آرام کرنے دیں ہاں جب یہ خود کہے تو چودنا ہے اور ویسے بھی اس کے اندر میں نے منی ڈالی ہے اسے بھی اپنا کام کرنے کے لیے اڑتالیس گھنٹے کم از کم دینے چاہئیں ہو سکتا اسی سے جگنی پریگننٹ ہو جائے۔ زاہد نے ہاں میں سر ہلا دیا اور میں نے کہا کہ تم اس کے ساتھ کسنگ وغیرہ ضرور کرنا اگر تیار ہو جائے تو منہ سے یا زبان سے چاٹ کر اسے فارغ کر دینا لن نہ ڈالنا میں چاہتا تھا کہ جگنی پریگننٹ ہو
جائے۔
تیسری رات جب میں نے زاہد کو کال کی کہ کیا صورت ہے؟ تو کہنے لگا کہ جگنی تمہیں یاد کر رہی تھی۔ میں نے کہا کہ میں اب اس وقت تک نہیں آؤں گا جب تک جگنی خود مجھے میسج یا کال کر کے نہ بلائے۔
تھوڑی دیر کے بعد جگنی کے نمبر سے میسج آیا کہ کیا حال ہے؟ کیسے ہو؟ بھول ہی گئے تم تو؟ کیا مجھ سے دل بھر گیا؟ کیا صلح کروانے کے بعد یہی کرنا تھا؟
میں اس کے میسج پڑھ کر خوش ہوا اور کہا کہ جگنی میں ساری زندگی تمہیں چھوڑنے والا نہیں ہوں۔ کہو آج اچھا سا ڈنر کریں؟
کہیں باہر چلتےہیں۔ جگنی نے کہا کہ ہاں ٹھیک ہے۔
زاہد اور جگنی تیار تھے تو میں آٹھ بجے گھر پہنچا دونوں نے میرا والہانہ استقبال کیا۔ ہم تینوں باہم لپٹ گئے اور ایک دوسرے کو کس کیا۔ پھر میں نے جگنی کا ہاتھ پکڑ کر اس پر کس کیا اور جگنی سے کہا کہ جگنی میرا مقصد ہر گز تمہیں سیکس کے لیے استعمال کرنا نہیں بلکہ میرا دل کرتا ہے کہ تمہارا دامن خوشیوں سے بھر جائے اور اس میں میرا بھی کچھ حصہ ہو۔ جگنی نے مجھے اپنے سینے سے لگاتےہوئے کہا کہ میں تم سے بہت خوش ہوں تم ہوس پرست نہیں ہو بلکہ ہمدرد انسان ہو۔ میں نے دل میں کہا کہ میری ہوس پوری کرنے والی کتنی ہی بھابھیاں اور سالیاں ہیں جناب۔
ہم ڈنر کے لیے نکل ہی رہے تھے کہ جگنی کی بھانجی اور میری سالی عافیہ وارد ہوئی۔ جگنی کہنے لگی لو جی یہ بھی اچھا ہو گیا کہ عافی آ گئی ہے اب ہم چار ہو گئے ہیں۔ میں نے کچھ کہنے کے لیے منہ کھولا ہی تھا کہ عافی بولی زہے نصیب! لگتا ہے کہ کہیں گھومنے جا رہے ہیں۔میں چپ رہا تو زاہد بولا ہاں بیٹا ہم ڈنر پر جا رہے ہیں تم بھی چلوگی؟عافی بولی اگر خالہ اور بہنوئی صاحب کی اجازت ہو تو بندی حاضر ہے۔۔۔۔۔ میں نے کہا کہ تمہاری خالہ نے تو تمہیں کہہ دیا آتے ہی اور رہا میں تو مجھے کیا اعتراض ہے تم میری سالی ہو میں کیوں تمہیں منع کروں گا؟ عافی میری گردن میں باہیں ڈال کر ہگ کرتے ہوئے بولی میرے اچھے بھیا! میں نے بھی اسے گال پر تھپکی دی ورنہ دل تو کر رہا تھا کہ اس کے منہ کی مدہوش باس لوں۔
اب عافی میرے اور جگنی زاہد کے پہلو بہ پہلو چل رہے تھے۔ جگنی نے کہا کہ حامی آپ ہوٹل کا سویٹ بک کروا لو وہیں لنچ کریں گے کیونکہ سردی کافی ہو رہی ہےاور ہماری پرائیویسی بھی رہے گی۔ میں نے عافی طرف دیکھا تو وہ معنی خیر مسکراہٹ اپنے کنوارے اور خوبصورت سیکسی لبوں پر سجائے ہوئے تھی۔
مجھے کافی کچھ سمجھ آ چکا تھا۔ خیر میں نے اسی وقت ہوٹل کال کی اور ایک سویٹ بک کروا لیا اور ڈنر کا آرڈر بھی فون پر ہی دے دیا تاکہ وقت ضائع نہ ہو کیونکہ سردیوں کی رات بہت لمبی ضرور ہوتی ہے لیکن پیار کرنے والوں کے لیے چھوٹی سی۔ کوئی پندرہ منٹ کی ڈرائیو کے بعد ہم ہوٹل پہنچے اور پارکنگ پر ہی میں نے کال کر کے سویٹ کا نمبر پوچھا اور کہا کہ اوپننگ کوڈ کارڈ سویٹ کے پاس ہی بھیج دیں۔ ہم سیدھے سویٹ پر پہنچے تو ویٹر کو منتظر پایا۔ دروازہ کھول کر اندر گئے تو ہمارا آرڈر بھی ریڈی تھا ہم سب بیٹھ کے کھانا کھانے لگے۔ کھانے کے دوران سبھی بہت خوش تھے اور آپس میں خوش گپیاں لگا رہے تھے۔ میرے ساتھ میری سالی عافی بیٹھی تھی اور سامنے جگنی اور زاہد۔ کھانے کے دوران عافی نے اپنا بایاںمیرے ہاتھ ہر رکھا اور ٹیبل کے نیچے کھینچ لیااور دبانےلگی۔ میں نے تھوڑی دیر صبر کرنے کے بعد اس کا ہاتھ اپنی ران پر رکھ دیا۔جگنی میرے چہرے کی طرف دیکھے جا رہی تھی۔
عافی نے کہا کہ خالہ آپ تو ڈنر کو فل انجوائے کر رہی ہیں۔ بہت مزے کا کھانا ہے۔ یہ کہتے ہوئے عافی نے ہاتھ میرے لوڑے والی جگہ پر رکھ کر دبایا۔ میرا تو ٹنا ٹن بجنے لگا۔ میں نے بھی کہا کہ زاہد اور جگنی بہت شکریہ آپ لوگوں کو دوبارہ ایک ساتھ دیکھ کر بہت خوشی ہو رہی ہے۔ زاہد کی آنکھوں میں آنسو آگئے اور بولا کہ حامی بھائی اگر آپ نہ ہوتے تو یہ مسئلہ حل نہ ہوتا آپ کا شکریہ۔ میں نے کہا زیادہ جذباتی ہونے کی ضرورت نہیں اپنے ہی اپنوں کے کام آتے ہیں۔
عافی کا ہاتھ اب مٹھی میں تبدیل ہونا شروع ہو گیا تھا لیکن پینٹ کے اوپر سے وہ ٹھیک طرح میرا موٹا تنا ہوا لن پکڑ نہیں پا رہی تھی۔ سو میں نے کرسی پر پیچھے کو ٹیک لگائی اور ایزی ہونے کی ایکٹنگ کرتے ہوئے ہاتھ اپنی گردن کے پیچھے لے گیا جس سے عافی کو میری پینٹ کی زپ کھولنے میں آسانی ہو گئی اور آن واحد میں اس نے زپ کھول دی اور انڈر ویئر میں میں ہاتھ ڈال کر لوڑا پکڑ لیا۔ اسی اثنا میں میں نے اپنے ہاتھ میں پکڑا چمچ طریقے کے ساتھ نیچے پھینک کر کہا اوہو۔ چمچ نیچے گر گیا عافی بولی بھیا میں اٹھا دیتی ہوں۔ میں بولا نہیں رہنے دو میں دوسرا لے لیتا ہوں۔ لیکن اتنے میں عافی نیچے جھک چکی تھی اور ٹیبل کے نیچے گھس کر اس نے میرا انڈر ویئر کھنچا اور لن کو آزاد کر دیا۔ میرے لوڑے نے بھی آزادی کا سانس لیا۔
دوسرے ہی لمحے وہ عافی کے منہ میں قید ہو گیا لیکن یہ قید بہت مزے کی تھی۔ تھوڑی دیر بعد اس نے چھوڑا اور ٹھیک ہو کر بیٹھ گئی۔ کھانا جب ختم ہوا تو ہم سب چہل قدمی کے لیے نکلے۔ آئس کریم کھائی اور واپس سویٹ میں آگئے۔زاہد جگنی کو لے کر ساتھ والی پارٹیشن میں جانے لگا تو میں نے کہا کہ آپ لوگ آرام کریں میں عافی کو گھر لے جاتا ہوں تو جگنی بولی کہ نہیں تھوڑا آرام کر لیں پھر اکٹھے نکلتے ہیں۔ میں نے کہا ٹھیک ہے تو وہ الگ پارٹیشن میں چلے گئے اور میں اور عافی دوسری پارٹیشن والے بیڈ روم میں۔ تھوڑی دیر صبر کرنے کے بعد ہمیں پارٹیشن کے دوسری طرف سے شدید کسنگ اور ہاؤ ہو کی آوازیں آنے لگیں۔ ادھر عافی مجھ پر چڑھ دوڑی۔
میرے اوپر سوار ہو کر منہ میں منہ ڈال لیا اور چوسنےلگی میں بھی تیار تھا۔ دو منٹ بھی نہیں گزرے ہوں گے ہم دونو کپڑوں کی قید سے آزاد ہو چکے تھے۔
69کی پوزیشن میں چلے گئے اور میں نے ایک اور کنواری پھدی کو چاٹنا شروع کیا۔ کیا خوشبو تھی جو عافی کے سارے بدن سے اٹھ رہی تھی اور دھیمی دھیمی مہک پھدی کی پری کم سے اٹھ کر پاگل کر رہی تھی۔ یہ پہلی پھدی تھی جسے چاٹنے کا مزا لوڑا ڈالنے سے بھی زیادہ آ رہا تھا۔ ادھر میرا پانی بھی نکل رہا تھا جو عافی پیتی جا رہی تھی۔ مدہوش ہونے والی اور کر دینے والی 69 پوزیشن نے مجھے بےحال کر دیا۔میرا تو یہی دل تھا کہ اس چوت کو چاٹتا جاؤں لیکن آدھا گھنٹہ چوپا لگانے کے بعد میری سالی صاحبہ کا دل کر رہا تھا کہ اب میں اپنے لمبے موٹے لوڑے سے اس کی گانڈ اور چوت پھاڑ دوں۔
پس میں نے اس کے مجبور کرنے پر لوڑا چوت میں ڈالنے کے لیے پوزیشن سنبھال لی۔ ٹانگیں اٹھائیں اور گیلے لن پر مزید تھوک لگایا اور ٹوپا عافی کی کنواری اور تنگ چوت پر رکھا اور ہونٹ اس کے ہونٹوں پر رکھ دیئے اور چوسنا شروع کر دیا لن کو عافی نے کس کر اپنے ہاتھوں میں پکڑا ہوا تھا۔ میں کہا کہ اسے چھوڑ دو اب یہ تمہارے پھدی کے علاوہ کہیں نہیں جائے گا۔
بس پھر کیا تھا عافی نے اپنے چوتڑ اٹھائے اور میرے لن کا ٹوپا اندر لینے کے لیے تڑپ اٹھی اور میں نے مزید دیر کرنا مناسب نہ سمجھتے ہوئے اپنے لن کا ہلکا سا دباؤ عافی کی پھدی پر بڑھا دیا اور اس کے منہ سے نکلا بھیا! رکنا نہیں۔ میں نے اس کے بالوں میں ہاتھ پھیرتے ہوئے اس کے منہ میں منہ ڈالا اور لوڑے کو پھدی کے اندر دباتا چلا گیا۔ جب میرا لوڑا اس کے پردۂ بکارت کو جا کر لگ گیا تو میں کچھ دیر کے لیے رک گیا کیونکہ اب سخت اور اہم فیصلہ لینے کا وقت تھا تو میں نے عافی سے پوچھا کہ عافی میری بہن: بتاؤ خون خرابہ کر دوں؟ تو عافی نے دونوں ہاتھوں سے میرا سر دباتے ہوئے اپنی زبان میرے منہ میں گھسیڑ دی اور آنکھوں سے اشارہ کیا کہ ہاں۔ میں نے بڑے پیار سے محبت سے لن اندر کر دیا۔ عافی کو درد ہو رہا تھا لیکن حیرت تھی کہ وہ تڑپی نہیں۔ جب میں نےلوڑا یوٹرس کےمنہ تک پہنچا دیا تو رک گیا یوٹرس کو ٹچ ہونے کے بعد لوڑا پھڑ پھڑا رہا تھا عافی کہنے لگی کہ درویش کو حجرۂ خاص میں جانے دیں بھیا! میں نے ہلکا سا پش کیا اور لوڑا اس کی یوٹرس میں گھسا دیا وہ اب تک ان گنت بار ڈسچارج ہو چکی تھی یوٹرس تک لوڑا پہنچا تو اس کی پھدی نے اپنے گرم پانی سے ایک بار پھر میرے لوڑے کو غسل دے دیا۔ بڑے آرام کے ساتھ میری ایک سالی کی سیل ٹوٹ چکی تھی۔ ہوٹل کے سویٹ کی سفید چادر اس جنگ میں رنگین ہو چکی تھی لیکن میں مطمئن تھا کہ ہوٹل والوں کو علم ہوتا ہے کہ یہ سب کچھ ہوتا رہتا ہے۔
کوئی آدھا گھنٹہ ہو گیا تھا ہماری دھواں دار چدائی کوکہ اچانک مجھے محسوس ہوا کہ کوئی آیا ہے۔ میں نے دیکھا تو وہ زاہد تھا جو پھٹی پھٹی نگاہوں سے مجھے اور عافی کو اس حالت میں دیکھ رہا تھا۔ میں نے کام جاری رکھتے ہوئے پوچھا: خیریت ہے؟ وہ گنگ رہا اور اس کی آنکھوں سے آنسو جاری تھے۔ پھر کہنے لگا کہ جگنی بلا رہی ہے۔ میں نے کہا چلو۔ اور عافی کے اندر سے لن نکالا اور اسی حالت میں جگنی کے پاس پہنچ گیا۔ جگنی بھی سمجھ چکی تھی کہ اس کی دوسری بھانجی کی سیل بھی ٹوٹ چکی ہے لیکن اس نے کچھ نہ کہا بلکہ مجھے اپنے اوپر کھینچ لیا۔ زاہد کی آنکھوں کے آنسو مجھے پریشان کیے ہوئے تھے لیکن اب کیا ہو سکتا تھا؟ اب سیل واپس تو نہیں لگ سکتی تھی نا۔
میں نے بھانجی کو چودنے والا لوڑا بنا صاف کیے خالہ جگنی کے اندر گھسیڑ دیا اور فورا ہی ٹاپ گیئر پر چودنا شروع کر دیا۔ تھوڑی ہی دیر میں زاہد اور عافی ننگے ہی ادھر آ کر بیڈ پر بیٹھ گئے دونوں کسنگ کر رہے تھے۔ میں مطمئن ہو گیا کہ دونو نے حالات سے سمجھوتہ کر لیا تھا۔ اب میں تسلی کے ساتھ عافی کے منہ میں منہ ڈالے جگنی کو اور زاہد جگنی کے منہ میں منہ ڈالے عافی کو چود رہا تھا۔ تھوڑی دیر بعد ہم چاروں کھل گئے اور کھل کے زور شور سے چدائی اور شور ہونے لگا۔ مجھے بہت مزا آ رہا تھا۔ اچانک زاہد نے جگنی کو میرے نیچے سے نکال کر لوڑا ڈال دیا اور میں نے عافی کو کتیا بنا کر چودنا شروع کیا پھر زاہد عافی کے نیچے آیا اور میں نے تھوک لگا کر اس کا لن عافی کی پھدی میں ڈال دیا اور خود بھی اس کوشش میں لگ گیا کہ عافی کی پھدی میں اپنا موٹا لوڑا ڈال دوں کافی تگ و دو کے بعد بالآخر میں کامیاب ہو گیا۔ عافی کو درد ہو رہا تھا لیکن مزا اس سے بھی زیادہ آ رہا تھا وہ خالہ خالہ خالہ !پکارے جا رہی تھی اور اس کی خالہ نے اس کو کس کے پکڑا ہوا تھا۔ میں اب مکمل ہونے والا تھا لیکن زاہد ابھی تک دھؤاں دار چدائی میں مصروف تھا میں بڑا حیران ہوا کہ کیا ہو گیا ہے زاہد کو؟ تو زاہد نے میرے کان میں بتایا کہ آج اس نے دو گولیاں کھائی ہوئی ہیں۔ میں نے جگنی سے کہا کہ آ جاؤ تمہارے اندر اپنا نطفہ ڈال دوں تو وہ سیدھی لیٹ گئی۔ میں نے بڑے پیار سے اس کی چوت میں آہستہ اور سیدھا رکھ کر لوڑا یوٹرس تک پہنچایا اور پھر ہلکا سا دبا کے یوٹرس کے اندر کر دیا۔ دو چار بار اندر ہی ہلانے سے میرا فوارہ چھوٹ گیا۔ اور جگنی کو میری منی کا نشہ چڑھ گیا کیونکہ اس کی یوٹرس کو میں نے ہی دوسری بار سیراب کیا تھا۔وہ تو وہیں ڈھیر ہو کر سو گئی۔ عافی کو زاہد نے گود میں اٹھایا اور دوسرے بیڈ پر لے گیا۔ میں کچھ دیر تو جگنی کے ساتھ پڑا رہا پھر اٹھ کر ساتھ والی پارٹیشن میں چلا گیا جہاں زاہد اپنی بیوی کی بھانجی کو اندھا دھند چود رہا تھا۔
زاہد بڑی بے دردی سے خون آلود بیڈ پر عافی کو چود رہا تھا کہ میں نے اپنا لن عافی کے منہ میں دے دیا اور عافی اسے لولی پوپ کی طرح چوسنے لگی۔ لگ ہی نہیں رہا تھا کہ عافی پہلی بار چد رہی ہے حالانکہ اس کی سیل میں نے توڑی تھی اور اس کی گواہ بیڈ شیٹ بھی تھی اور زاہد اور جگنی بھی۔ خیر زاہد تو پاگل ہوا ہوا تھا۔ کیا عجیب منظر تھا کہ ایک جانب ایک بیڈ پر خالہ اور ایک بیڈ پر بھانجی چُد رہی تھی اور اب ایک بہنوئی اور ایک خالو مل کے بھانجی کو چود رہے تھے۔ وااااہ کیا سین ہے۔
زاہد تو رکنے کا نام ہی نہیں لے رہا تھا اور اب مجھے لگا کہ اگر عافی کو مزید چودا گیا تو وہ گھر جانے کے قابل نہیں رہے گی۔ اس لیے میں نے زاہد سے کہا کہ بس کرو یار پھر بھی چودنا ہے اسے۔ زاہد بولا کہ اس رنڈی کو آج تو جی بھر کے چودنے دو نا یار!کل کی کل دیکھی جائے گی۔
مزید آدھا گھنٹہ لگانے کے بعد زاہد بہت تھک چکا تھا اس لیے اس نے پانی نکال دیااور لیٹ گیا۔ میں نے ہومیودوا سٹیفی سیگریا کے چند قطرے پانی میں ڈال کر عافی کو پلا دیئے۔ اور عافی سو گئی۔ وہ تو ہل بھی نہیں رہی تھی نہ کروٹ لے رہی تھی۔ عافی اور جگنی مسلسل آٹھ گھنٹے سوتی رہیں اور میں اور زاہد کچھ دیر باتیں کرتے رہے اور پھر سو گئے۔ میں صبح آٹھ بجے وہیں سے تیار ہو کر آفس چلا گیا۔ تقریباً ساڑھے بارہ بجے مجھے عافی کا میسج ملا کہ بھیا کہاں ہیں؟ دیدار کروا دیں۔ میں نے کہا کہ آفس میں ہوں دو بجے آؤں گا۔ تو عافی کا میسج آیا کہ زاہد خالو کو پتہ نہیں کیا ہو گیا ہے کہ کبھی مجھے اور کبھی خالہ کو چود رہے ہیں اور مسلسل چودتے جا رہے ہیں۔ مجھے تو اب ایسی کمزوری ہو رہی ہے کہ بیان سے باہر ہے۔ مجھے لگتا ہے کہ ابھی بے ہوش ہو جاؤں گی۔ مجھے فکر لگ گئی کہ زاہد کہیں کوئی گڑ بڑ ہی نہ کر بیٹھے۔
میں نے فورًا آفس سے نکلنے کی پرمیشن لی اور ہوٹل پہنچا تو زاہد ابھی بھی دونو کو چود رہا تھامیں نے زاہد کو سمجھابجھا کر اتارا۔
پھر میں نے سب کو بتایا کہ جس شخص کی منی گاڑھی یا پھر ٹھیک نہ ہو تو اس کی ٹائمنگ بڑھ جاتی ہے۔ زاہد جو پہلے چود ہی نہیں سکتا تھا اب گولی کھانے کے بعد اس کو خشکی زیادہ ہو گئی اور ٹائمنگ مزید بڑھ گئی لیکن پھدیوں کا احساس بھی بہت ضروری ہے۔ زاہد کو سمجھ آ گئی اور احساس ہو گیا کہ وہ کیا غلطی کر رہا ہے لہٰذا اس نے دونو کو چھوڑ دیا۔
میں زاہد سے کہا کہ اب چار پانچ دن دونوں میں کسی کو بھی بالکل ہاتھ نہیں لگانا ۔ زاہد نے کہا کہ ٹھیک ہے۔ میری یہ بات سن کر جگنی مجھے ہگ کر کے بولی کہ حامی تم بہت اچھے ہو۔ تمہیں ہر چیز کا سلیقہ ہے۔ میری بھانجی سحر بہت خوش رہے گی تمہارے ساتھ۔میں بولا تو کیا آپ، نگو آنٹی، عافی اور عارفین؟ جگنی تنک کر بولی عارفین بھی؟؟؟؟؟ میں نے کہا کہ جلد ہی اس کا بھی ٹین کھڑکا دوں گا میں سب کو خوش رکھوں گا۔
عافی کو تو بخار ہو گیا اور دو تین میں بے چاری کُملا کر رہ گئی اس دوران وہ اپنی خالہ جگنی کے گھر پر ہی رہی اور میں، جگنی اور زاہد اس کی دیکھ بھال کرتے رہے۔ دوا لا کر دی ڈاکٹر کو چیک اپ کروایا۔ اسے آرام کی سخت ضرورت تھی لیکن میں تو جب اس کے پاس جاتا اس حالت میں بھی وہ مجھ سے کسنگ کرنے لگ جاتی۔ اس کی آنکھوں میں آنسو آ جاتے اور وہ کہتی کہ زاہد خالو نے بہت زیادتی کی۔ اب دوبارہ انہیں قریب بھی نہیں آنے دوں گی۔ میں کہتا کہ چھوڑو اب کیونکہ تمہیں ان کی موجودگی میں میرے ساتھ بھی ایسا نہیں کرنا چاہیے تھا اس میں تمہاری ہی غلطی سمجھتا ہوں لیکن اب تو جو ہونا تھا ہو گیا۔
تین دن کے بعد جب عافی ٹھیک ہو کر اپنے گھر چلی گئی تو وہ اپنے گھر میں میری پہلی رات تھی اس رات خالہ نجمہ۔ عارفہ اور سعدی تینوں نے مجھ پر یلغار کر دی۔ خالہ بوڑھی تو ہو گئیں تھیں لیکن ابھی تک سیکس کی شوقین تھیں۔ عارفہ بھابھی سینتیس اور سعدی پینتیس کی ہونے والی تھیں اور یہ عمر بڑی خطرناک ہوتی ہے۔
عورت جلدی مطمئن نہیں ہوتی بے شک کئی بار ڈسچارج ہو جائے ۔اس کا دل یہی ہوتا ہے کہ دن رات چدتی رہے۔خیر ساری رات میں اپنے یہ فرائض ادا کرتا رہا۔ آخر پر سعدی بھابھی کی باری تھی تو اسے خوب چودا۔
جگنی کو مینسز آ گئے تو وہ پریشان ہوگئی۔ میں نے اسے کہا کہ پریشانی والی بات نہیں کیونکہ زاہد نے میری منی اندر ٹکنے ہی نہیں دی۔مسلسل اور بار بار چدنے سے بھی پریگننسی نہیں ہو پاتی۔ ابھی تم نہاؤ گی تو وہ تین چار دن بہت اہم ہوں گے۔ ان میں کوشش کریں گے کہ تم پریگننٹ ہو جاؤ۔ جگنی بولی تو زاہد کا کیا کریں گے؟ میں نے کہا کہ اس کے لیے کسی رنڈی کا انتظام کر لیں گے یا بھابیوں میں سے کسی کی منت کر لیں گے لیکن عافی کو نہ چدنے دوں گا اب کیوں کہ عافی ابھی چھوٹی ہے تو رف سیکس سے اسے دور رکھنا ضروری ہے ورنہ وہ تو ہر ایک سے چُدے گی اور پھر بھی اس کی آگ ٹھنڈی نہ ہو سکے گی۔
جب جگنی کے مینسز کو پانچ دن ہو گئے تو میں نے زاہد سے کہا کہ اگر جگنی کو پریگننٹ کرنا ہے تو اس مہینے اسے ہاتھ نہ لگانا ورنہ پھر اگلے مہینہ پر بات جا پڑے گی۔ زاہد کہنے لگا کہ پھر میں کیاکروں گا؟ مجھے تو سیکس کی عادت ہو چکی ہے۔ پھر خود ہی کہنے لگا کہ چلو عافی تو ہے نا۔ میں نے اسے کہا کہ نہیں اس پورے مہینے تمہیں مختلف مزے آنے والے ہیں۔ ان پانچ دن کے دوران میں نگو اور سعدی اور عارفی بھابھی سے بات کر چکا تھا اور وہ ہماری مدد کے لیے تیار تھے۔ طے یہ پایا تھا کہ نگو جگنی کے گھر رہیں گی جبکہ ایک دن عارفی بھابھی اور ایک دن سعدی بھابھی رات رہا کریں گی۔
میں نے ایک بڑے چمچ شہد میں دس قطرے ادرک کے عرق اور ایک چٹکی کالی مرچ ڈال کر استعمال کرنا شروع کر دیا کیوں کہ اس سے پریگننٹ کرنے والے موٹائل سپرم کی تعداد بڑ ھ جاتی ہے۔ پانچ دن میں نے استعمال کیا کیونکہ اگلے تین دن جگنی کو حاملہ کرنے کے لیے بہت اہم تھے۔ جگنی کو میں نے کال کر کے کہا کہ میری جان! ذہنی طور پر سیکس کے لیے نہیں بلکہ پریگننٹ ہونے اور ماں بننے کے لیے خود کو تیار کرو۔ جگنی بولی کہ تم بہت اچھے ہو۔ مجھے صرف استعمال نہیں کر رہے بلکہ میرا مسئلہ حل کرنا چاہتے ہو۔ میں نے کہا جگنی مجھے تم سے بہت پیار ہے چلو ایسے ہی سہی کہ کم از کم میرے بچے تو تم پیدا کرو گی نا۔ جگنی نے بھی کہا کہ مجھے بھی تم سے عقیدت والا پیار ہو گیا ہے اب اگر پریگننسی نہ بھی ہوئی تو میری قسمت! میں نے کہا کہ کیوں نہ ہو گی؟ تم ٹینشن سے آزاد رہو تاکہ ریلیکس ہو کر یہ کام کر سکیں اور اپنا ٹارگٹ حاصل کر سکیں۔ اس نے کہا جی میرے اصل خاوند صاحب!
نگو کو اس لیے جگنی کی طرف پورا مہینہ چھوڑنا تھا کہ بیچ میں اگر زاہد کو ہشیاری آ جائے کسی وقت تو اس کے لیے ایک تجربہ کار لیکن رف سیکس کے لیے پھدی موجود ہو اور وہ جگنی اور میری محنت پر پانی نہ پھر سکے۔ دوسرے میری نظر اب عارفین پر تھی کہ اس ایک مہینہ میں میں سحر۔ عافی اور عارفین کو تسلی سے چود پاؤں گا کیونکہ ابھی عارفین کا کھاتہ کھولنا تھا۔
مجھے کوئی جلدی نہیں تھی لیکن اب دیر بھی نہیں کرنی چاہیے تھی کیونکہ نگو آنٹی اب سحر کو رخصت کر دینا چاہتی تھیں۔ سو طے یہی پایا کہ چار دن میں جگنی کو پریگننٹ کرنے کی کوشش کروں گا اور اس کے بعد نگو آنٹی اگلے ماہ کی مینسز کی تاریخ تک جگنی کے گھر پر رُکیں گی۔ آج جگنی نے نہا لیا تھا اس لیے آج کی رات بہت اہم تھی اور اب میں اور جگنی اکیلے چار راتیں گزانے والے تھے جن میں زاہد شامل نہیں ہو گا لیکن زاہد کے لیے آج کی رات عارفی بھابھی اور دوسری رات سعدی بھابھی آیا کریں گی رات بھر کے لیے۔ سو آج رات عارفی بھابھی کی باری تھی اس لیے زاہد نے خوب تیاری کی۔ دن گزرا شام ڈھلی تو رات ڈنر عارفی بھابھی نے جگنی کے گھر پر تیار کیا۔ ڈنر کے بعد کے ہم چاروں چہل قدمی کے لیے باہر نکل گئے۔ واک کے ساتھ آئس کریم بھی کھائی اور جب ایک لمبی واک کر کے تھک گئے تو واپس گھر کا راستہ ناپا۔ گھر آ کر میں نے اور جگنی نے جگنی کے باتھ روم میں باتھ لیا اور دوسرے باتھ روم میں عارفی بھابھی اور زاہد نے باتھ لیا۔ زاہد تو نئی پھدی کے لیے تڑپ رہا تھا سو اس نے عارفی کو وہیں ڈھیر کر لیا اور خوب آوازیں نکالیں کہ عارفی کو تو زاہد بھائی کا نشہ ہو گیا۔ پھر بیڈ روم میں آ کر بھی دونوں نے خوب اودھم مچایا۔ میں اور جگنی ذہنی طور پر تیار تھے اور پیار کر رہے تھے۔ نہانے کے بعد ہم ننگے ہی بیڈ پر آن بیٹھے۔ کمرے کا دروازہ کھلا تھا نہ بند کرنے کی ضرورت تھی نہ لاک کرنے کی اس لیے عارفی بھابھی اور زاہد کی چدائی کی آوازیں دل و دماغ اور لن پھدی میں ہل چل پیدا کر رہی تھی اور ہم ذہنی اور جسمانی طور پر مکمل تیار ہو چکے تھے کہ میں نے جگنی سے کہا دیکھو جگنی! تمہارا پیارا شوہر تمہارے ہی گھر میں ایک دوسری عورت کو چود رہا ہے اور اس کی بیوی یعنی تم ایک اور غیرمرد سے چدنے اور حاملہ ہونے والی ہو اور مزے کی بات یہ کہ سب کو معلوم ہے کہ کیا ہو رہا ہے اور کون کس کو چود رہا ہے۔ دیکھو تمہارا شوہر روزانہ نئی غیرمحرم عورت کو چودے گا لیکن میں صرف تمہیں۔ میری اس بات نے جگنی کے تن بدن میں آگ لگا دی اور اس نے بے ساختہ و بے تحاشا مجھے چومنا شروع کر دیا اور ہوتے ہوتے میرے لن کا چوپا لگانے لگی۔ میں بھی اس کی پیاری پھدی چاٹنے لگا کیونکہ میں نے ہی اس کی سیل توڑی تھی۔
جگنی کی پھدی اور میرا موٹا کالا لمبا ناگ پانی پانی ہو رہے تھے۔ پھر جگنی سیدھی لیٹی اور میں اس کی دونو ٹانگوں کے درمیان آ گیا۔ اور بڑی محبت کے ساتھ ہم ایک دوسرے سے چمٹ کر کسنگ کرنے لگے۔ اس نے اپنی پھدی کی پری کم میرے ہونٹوں سے چکھی اور میں نے اس کے ہونٹوں سے اپنے لوڑے سے نکلنے والی پری کم چاٹ لی۔ اب پھدی لوڑے کےلیے بے چین ہو رہی تھی کیونکہ عارفی بھابھی اور زاہد کی ظالمانہ رف سیکس کا شور ہمیں بھی پاگل کر رہا تھا۔ میں نے بڑی محبت سےاپنا لوڑا بنا ہاتھ لگائے جگنی کی پھدی کی موری پر سیٹ کیا اور ذرا سا دباؤ بڑھایا ۔ابھی تک جگنی کی پھدی باوجود فل گیلی ہونے کے ٹائٹ تھی۔ میں نےلوڑا ایک بار پھر جگنی کے منہ میں ڈالا اور اسے کہا کہ اس پر اچھی طرح تھوک لگائے۔ اس نےمنہ بھر کے تھوک میرے لوڑے پر لگایا اور باقی تھوک میں نے اس کے منہ سے چوسنا شروع کر دیا اور لوڑا اس کی تنگ موری کے اوپر رکھ کر اندر دھکیلنے کی کرنے لگا۔ دو منٹ کی ان تھک محنت کے بعد میرا لن پورے کا پورا جگنی کے غار میں اتر چکا تھا۔ جگنی کی پھدی میرے لن نے مکمل بھر دی تھی اور اس دوران جگنی تین چار مرتبہ ڈسچارج ہو چکی تھی۔
میں تو نہال ہو رہا تھا یہ سوچ سوچ کر کہ میرے نطفے سے اب جگنی ماں بنے گی اور میرے بچوں کی تعداد میں شادی سے پہلے ہی ایک اور بچے کا اضافہ ہونے والا ہے۔
خیر میں نے جگنی کو ہلکے ہلکے گھسے مار کر چودنا شروع کیا اور جگنی کا مزا آسمان سے باتیں کرنے لگا۔ جگنی بھی عارفی کی طرح آوازیں نکالنے لگی جس سے میری چودنے کی سپیڈ بڑھتی گئی اور جگنی کی آوازیں مزید بلند ہوتی گئیں حتی کہ زاہد اور عارفی بھابھی سے رہا نہ گیا اور وہ دونوں ایک دوسرے کو پکڑے اسی بیڈ روم میں آ گئے جہاں میں جگنی کی پھدی مار رہا تھا وہ بھی اسی بیڈ پر آ گئے اور اب چیخ و پکار شروع ہو گئی۔ عارفی بھابھی اور جگنی نے ایک دوسرے کو پکڑ کر منہ میں منہ ڈال دیا۔ اب زاہد ،عارفی بھابی کو کتیا بنا کر چود رہا تھا اور میں مشنری پوزیش میں اندھا دھند جگنی کی پھدی کے اندر باہر کر رہا تھا۔ میں نے زاہد سے کہا کہ دیکھو زاہد بھائی تمہاری بیوی کو میں چود رہا ہوں دیکھ کر بتاؤ کہ ٹھیک چود رہا ہوں نا؟ زاہد اپنا مناسب سائز کا لوڑا کسی ماہر چودنے والے کی طرح عارفی کی چوت میں پیل رہا تھا اور مجھے ان دونو کو دیکھ کر بہت مزا آ رہا تھا ۔ زاہد کہنے لگا کہ ہاں میرے بہن چود دوست یہ بھی دیکھ نا کہ تیری بھابھی اور تیرے تین بچوں کی ماں کو میں تمہارے سامنے چود رہا ہوں اس سے پوچھ نا کہ کیسا چود رہا ہوں۔ اب عارفی جگنی کے منہ پر جھکی ہوئی تھی اور اس کتیا کو زاہد کتا بے دردی سے چود رہا تھا اور میں عارفی بھابھی کےچوتڑوں پر ہاتھ رکھے جگنی کی چدائی لگا رہا تھا۔ اچانک عارفی بھابھی نے جگنی کے منہ سے منہ نکالا اور اس کے مموں کی طرف آئی تھوڑی دیر جگنی کےممے چوسے اور پھر پیٹ پر زبان پھیرتے پھیرتے پھدی تک پہنچ گئی اور پھر پھدی کا دانہ چاٹنے لگی۔ عارفی بھابھی کی زبان جگنی کی چوت میں اندر باہر ہوتے میرے لوڑے کو بھی لگ رہی تھی ۔پیچھے سے زاہد بہت تیزی کے ساتھ عارفی کو چود رہا تھا کہ اچانک عارفی بھابھی نے میرا لن جگنی کی پھدی سے نکال کر اپنے منہ میں بھر لیا اور پھر ایک لمبا چوپا لگا کر دوبارہ جگنی کی پھدی میں ڈال دیا اس طرح جگنی اور میرا مکسڈ پانی عارفی بھابھی نے چاٹ لیا اور اپنا تھوک تحفے میں دے دیا جو اب جگنی کی پھدی میں پہنچ چکا تھا۔
ہم چاروں مزے سے نڈھال ہو رہے تھے کہ عارفی بھابھی نے اچانک سائیڈ بدلی اور میرا لوڑا پکڑ کر جگنی کی پھدی سے نکالا اور اس سے پہلے کہ ہمیں کچھ سمجھ آتی اپنی تر بہ تر پھدی میں ڈال لیا اور زاہد سے کہنے لگی کہ آپ بھی ڈال دو۔ سو زاہد نے آؤ دیکھا نہ تاؤ عارفی کی پھدی میں اپنا لوڑا گھسا دیا۔ عارفی تو مزے سے چیخنے لگی۔ میں گھسے نہیں ما رہا تھا بس جڑ تک اپنا ہتھیار عارفی بھابھی کی چوت میں ڈال رکھا تھا جبکہ زاہد خطرناک حد تک اپنا لن عارفی کے اندر باہر کر رہاتھا۔ اس سپیڈ اور لوڑے کی سختی سے لگ رہا تھا کہ عارفی ساری رات چدے گی۔
کوئی دس منٹ بعد میں نے عارفی سے کہا کہ اب ہم سب کا پانی مکس ہو گیا ہے اور میں اپنے لن کے ذریعے جگنی کے اندر یہ سب مزا ڈالوں گا اور اپنی منی جگنی کے اندر ڈالنے لگا ہوں آپ لوگ دوسرے بیڈ روم میں چلے جائیں میں وہیں آ جاتا ہوں۔ وہ چلے گئے تو میں نے جگنی کو سیدھا لٹا کر اس کی یوٹرس میں اپنا لوڑا احتیاط کے ساتھ گھسیڑ ڈالا اور چند ایک گھسے لگا کر اس کی یوٹرس میں اپنا گاڑھا مال پھینک دیا۔ اور جگنی سے کہا کہ وہ گہرے سانس اندر کو کھینچے۔ اور دائیں کروٹ لیٹ جائے۔ سو اس نے ایسا ہی کیا اور نیند اور سپنوں کی وادی میں کھو گئی۔ میں بھی تھوڑی دیر آنکھیں موندے لیٹا رہا اور پھر اس گندے لوڑے کے ساتھ دوسرے بیڈ روم میں چلا گیا جہاں ابھی تک میرے بچوں کی ماں میری بھابھی عارفی کی چدائی جاری تھی۔جیسے ہی میں بیڈپر لیٹا، عارفی نے آؤ دیکھا نہ تاؤ میرا لتھڑا ہوا لوڑا اپنے منہ میں ڈال لیا جس سے ابھی تک منی نکل رہی تھی۔
عارفی کہنے لگی کہ حامی تمہارا سکڑا ہوا لوڑا بھی زاہد کے لن سے موٹا اور لمباہے۔ میں نے کہا کہ بھابھی مزے کرو۔ اور بھابھی مزے کرنے لگ گئی۔ میرا لوڑا چاٹ چاٹ کر صاف کر دیا اور ساتھ ہی وہ کھڑا ہو گیا۔ مجھے نیچے لٹا کر عارفی بھابھی میرے اوپر بیٹھ گئی اور لوڑا اندر لے لیااور اچھلنا شروع ہو گئی میں جگنی کے بیڈ روم کا دروازہ اس لیے بند کر آیا تھا کہ ہمارے اودھم مچانے کی وجہ سے اس کی آنکھ نہ کھل جائے۔ اس لیے اب میں بھی آوازیں نکال نکال کر عارفی بھابھی کو داد دے رہا تھا۔ادھر زاہد نے میرے منہ میں اپنا منہ ڈال دیا اور میری زبان چوسنے لگا۔ میں نے اسے کہا کہ عارفی بھابھی کو کتیا بنا لو اور اپنا لن بھی ڈال دو اس کے اندر اور پھر تینوں منہ جوڑ لیتے ہیں چنانچہ اس نے ایسا ہی کیا۔اب میں نیچے لیٹا ہوا تھا اور میرے اوپر عارفی بھابھی کتیا بنی ہوئی تھی اور زاہد اسے کتا بن کر چود رہا تھا مجھے ہلنے کی ضرورت نہیں پڑ رہی تھی۔ میں اسی طرح پڑا ہوا تھا اور ہم تینوں کی زبانیں باہم گتھم گتھا ہو رہی تھیں۔ زاہد کبھی میری زبان چوستا اور کبھی عارفی بھابھی کی۔ یہ کام تقریباً رات دو بجے تک چلتا رہا تو میں نے زاہد سے کہا کہ بھائی اب بس کر دیں اور سو جائیں کل سعدی بھابھی کو بھی تم نے چودنا ہے۔ زاہد بولا تمہیں نیند آ رہی ہے تو تم سو جاؤ میں ابھی آدھا گھنٹہ اور لگاؤں گا میں نے کہا ٹھیک ہے میں جگنی کے ساتھ سو جاتا ہوں۔زاہد مجھے گالی دیتے ہوئے بولا کہ جا بہن چود میری بیوی کے ممے چوستے ہوئے سو جا۔
میں جا کر جگنی کے پاس لیٹ گیااور جلد ہی مجھے نیند آ گئی اور سو گیا۔ صبح میں اپنے وقت پر بیدار ہو اور تیار ہو کر آفس کے لیے نکل گیا۔ بھابھی عارفی بھی گھر چلی گئی اور نگو آنٹی وعدے کے مطابق جگنی کے گھر پہنچ گئیں کہ کہیں زاہد جگنی کو چود نہ سکے اور بنا بنایا کام بگڑ نہ جائے۔
اب زاہد بھی کھل چکا ہوا تھا اور اسے معلوم ہو چکا تھا کہ عورت کو چدائی سب سے زیادہ عزیز ہوتی ہے اس لیے جہاں بھی ملو عورت کو چود دو۔ نگو جب جگنی سے ملی تو جگنی نے کہا کہ حامی تو بہت سمجھ دار ہے اور اس نے مجھے غلط استعمال نہیں کیا اب وہ چاہتا ہے کہ میں اسی مہینہ حاملہ ہو جاؤں اور ماں بن جاؤں جبکہ زاہد کی کوشش ہے کہ وہ جو بھی پھدی اسے مل جائے اسے مار کر رکھ دے۔ یہ سن کو نگو آنٹی ہنسنے لگیں کہ اچھا ایسا ہے؟ تو جگنی نے سہاگ رات سے لے کر اب تک کا سارا قصہ سنا دیا لیکن اپنی بھانجی عافی کی بات گول کر گئی۔ جگنی، زاہد اور عافی سے بھی میں نے یہ وعدہ لیا تھا کہ یہ بات راز رہے کہ ہم نے جگنی کی بھانجی عافی کو چود ڈالا ہے اور ایک وقت تک یہ بات راز رہنی چاہیے کیونکہ اس کا نگو آنٹی پر برا اثر پڑ سکتا ہے۔ اس لیے جگنی نے بڑی خوبصورت سے یہ بات گول کر دی اور نگو آنٹی کو محسوس نہ ہونے دیا۔ اب نگو آنٹی دوپہر کا کھانا بنا رہی تھی اور زاہد سویا ہوا تھا۔ شام کو جگنی کا میسج آیا کہ میری جان! کب تک آؤ گے؟ ڈنر میں نے تمہارے ساتھ کرنا ہے۔ میں نے کہا کہ پریشان نہ ہوں میں بس سعدی بھابھی کو لے کر آ ہی رہا ہوں کیوں کہ آج زاہد کے ساتھ سعدی بھابھی کی باری تھی۔
میں نے رستے سے سعدی بھابھی کو کال کر دی کہ تیار رہیں اور باہر نکل آئیں۔ وہ باہر نکل آئیں اور میں انہیں لے کر ایک جوس کارنر پر رکا اور وہاں سے اپنے لیے کھجور کا ملک شیک اور سعدی بھابھی کے لیے ان کی پسند کا فریش جوس لیا اور پیتے پیتے زاہد اور جگنی کے گھر کو کار بڑھا دی۔ میں نے سعدی بھابھی سے کہا کہ بھابھی! زاہد بڑے جوش میں ہے اور آپ کو آج رات بہت چودے گا۔ کل ساری رات اس نے عارفی بھابھی کو بے تحاشا چودا ہے آپ کو عارفی بھابھی نے بتایا ہو گا؟ سعدی بھابھی بولی حامی تم جانتے ہو کہ تم سے زیادہ اچھا اور لمبا سیشن چدائی پروگرام کا کوئی نہیں لگا سکتا۔ میں بولا کہ بھابھی جی زاہد رف سیکس پسند کرتا ہے۔ سعدی بولی پھر تو خوب مزا آئے گا۔ تم تو بہت پیار سے کرتے ہو جیسے پھدی کی بہت عزت کر رہے ہو لیکن اب اس عمر میں رف سیکس کا مزا بھی لینا چاہیے۔ چلو دیکھتے ہیں کہ زاہد بھائی کیا کرتے ہیں مجھے تو وہ شروع سے ہی بہت ڈیسنٹ اور ہینڈ سم لگتے تھے لیکن ان کی شخصیت کے رعب کی وجہ سے ان سے دور رہی اب آج رات دیکھتے ہیں کہ وہ میری پھدی کو مطمئن کرنے کے لیے کیسے کیسے ظلم توڑتے ہیں ؟ میں تو سعدی بھابھی کا یہ جواب سن کر ہکا بکا رہ گیا۔
خیر ہم گھر پہنچے تو نگو آنٹی ڈنر تیار کر کے اپنے گھر جا چکی تھیں اور زاہد اور جگنی تیار بیٹھے تھے کہ ڈنر کیا جائے۔ ہم پہنچے تو سیدھے ڈائننگ ٹیبل پر اور کھانا لگا دیکھ کر بہت خوش ہوئے بھوک مجھے بھی شدید لگی ہوئی تھی۔ سعدی نے جگنی اور پھر زاہد سے سلام کیا کہ زاہد بھائی کیسے ہیں آپ؟ زاہد نے مسکراتے ہوئے کہا کہ بھابھی بالکل ٹھیک ہوں۔ آپ کا انتظار ہو رہا تھا آیئے ڈنر کر لیں۔ ہم سب نے بیٹھ کر ڈنر کیا اور کیا اعلیٰ کھانا پکا ہوا تھا۔ سب نے کھایا اور پھر واک کے لیے باہر نکل گئے۔ لمبی واک کے بعد آئس کریم کھائی اور واپس گھر کو لوٹے۔ گھر لوٹتے ہی زاہد اپنے بیڈ روم میں چلا گیا وہ سعدی سے کچھ جھجک رہا تھا کیونکہ سارے رستے سعدی اسے زاہد بھائی زاہد بھائی کہہ کر بات کرتی رہی تھی اور مجھے بھی حامی بھائی حامی بھائی کہتی رہی تھی جس وجہ سے مجھے لگا کہ زاہد کچھ پریشان ہو گیا کہ پتہ نہیں سعدی اس کے ساتھ سیکس کرے یا نہ کرے۔ میں زاہد کے پیچھے گیا اور اس سے پوچھا کہ کیا ہوا کچھ پریشان لگ رہے ہو؟ کہنے لگا کہ یار یہ سعدی تو مجھے بھائی بھائی کی گردان سنائے جا رہی ہے؟ میں نے ہنس کر کہا کہ یار اس کا تکیۂ کلام ہے چلو آج اصل میں بہن چود بن جانا اور خوب چودنا اپنی بہن سعدی کو۔اور یہ بھی بتایا کہ سعدی رف سیکس کو لے کر بہت اُتاؤلی ہو رہی ہے اس لیے آج تم اپنی ساری انرجی لگا کر اسے جیسے چاہے چودنا وہ ذہنی طورپر رف سیکس کے لیے مکمل تیار ہے۔
یہ سن کر زاہد کی جان میں جان آئی۔ میں نے کہا کہ میں جاتا ہوں اور سعدی باجی کو بھیجتا ہوں۔ میں باہر چلا گیا اور دیکھا کہ سعدی باہر دروازے کے پاس ہی کھڑی تھی اور باریک نائٹی بھی پہن رکھی تھی۔ مجھے دیکھتے ہی مجھ پر پل پڑی اور کسنگ کرنے لگی۔ دو چار منٹ کی کسنگ کے بعد میں نے کہا سعدی بھابھی اندر جاؤ اور خوب چدائی کرواؤ۔ اور سعدی مجھے چھوڑ اندر چلی گئی بس دو منٹ کے بعد ہی اندر سے بھیانک قسم کی سیکسی آوازیں آنا شروع ہو گئی جنہیں سنتے ہیں میں اور جگنی جو آرام سے کسنگ کر رہے تھے ہشیار ہونا شروع ہو گئے۔ جگنی نے میرے لن پر چوپا لگانا شروع کر دیا اور میں اس کی پھدی کا امرت پینا شروع کر دیا۔ میں پھدی میں دور تک زبان گھسا دیتا اور جگنی تڑپنے لگتی۔ وہ بھی اب ایک ماہر رنڈی اور گشتی کی طرح میرے لوڑے کا چوپا لگا رہی تھی جیسے اس کام میں بہت مہارت رکھتی ہو۔ واقعی وہ چند دن میں ہی ماہر ہو چکی تھی۔ میں نے اس کے کان میں کہا کہ دوسرے بیڈ روم میں تمہارا خاوند میری باجی سعدی کو بے دردی سے چود رہا ہے اور لگتا ہے کہ آج سعدی بھابھی کی گانڈ بھی پھاڑ دے گا۔ اور میں تمہیں حاملہ کرنے کی کوشش کر رہا ہوں۔
میں نے سیدھا لٹا کر جگنی کی پھدی میں ل ڈال دیا اور آہستہ آہستہ یوٹرس تک پہنچا دیا۔ میں نہیں چاہتا تھا کہ جگنی کی یوٹرس کو کوئی بھی ضرب لگے اور اسے کوئی تکلیف ہونے کے ساتھ ساتھ کوئی خرابی پیدا ہو جائے۔ میں سچے دل سے چاہتا تھا کہ جگنی اسی ماہ حاملہ ہو جائے اور نو ماہ کےاندر اندر والدہ بن کر مجھے اپنے بچے کا باپ بنا دے۔ مجھے ایک عجیب نشہ سا تھا باپ بننے کا کیونکہ اب تک میں شادی کے بغیر ہی چھ بچوں کا باپ بن چکا تھا اور یہ ساتواں بچہ تھا جو میرے نطفے سے تیسرے پیٹ میں پروان چڑھنا تھا اور میں نے سات بچوں کا باپ بن جانا تھا۔ دونوں بھابھیوں نے بچے مجھے چھوٹے پاپا کہتے تھے جس سے مجھے بہت تسکین ملتی تھی۔ میں نے یہ ٹرم نکالی تھی تا کہ بچے مجھے اپنا پاپا ہی سمجھیں اور میں نے تمام بچوں کے ساتھ اتنا پیار ڈالا تھا کہ وہ سب اپنے باپوں سے زیادہ مجھ سے پیار کرتے تھے۔
اسی سوچ میں گم جگنی کی چوت مار رہا تھا کہ گزشتہ رات کی طرح زاہد سعدی کو اٹھائے ہوئے اسی بیڈ پر آ گیا اور میں نے دیکھا کہ سعدی بھابھی تو مارے خوشی اور جوش کے بجائے چدنے کے ایسا لگ رہا تھا کہ زاہد کو چود رہی ہے اور زاہد کو دانتوں پسینہ آ رہا تھا۔ ہمارے والے بیڈ پر آتے ہی انہوں نے بیڈ کی چولیں ہلا کر دکھ دیں اور سعدی تھی کہ زاہد کو اپنے اندر تک کھینچ رہی تھی۔ سعدی نے اپنا منہ میرے منہ کو لگا دیا اور زاہد نے جگنی کے منہ میں منہ ڈال دیا اور چدائی زور و شور سے ہونے لگی۔ سعدی نے مجھ سے کہا کہ ایک بار آپ دونو میرے اند لوڑے ڈالو۔ میں نے کہا ٹھیک ہے اب زاہد نیچے لیٹ گیااور سعدی اس کے اوپر کتیا بن گئی اور میں سعدی باجی کا کتا بن کر اس کے اوپر چڑھ دوڑا تھوڑی تگ و دو کے بعد میرا لن بھی سعدی باجی کی پھدی میں گھس گیا اور میں نے گھسے مارنا شروع کر دیئے اب ہم تینوں کی زبانیں آپس میں مس ہو رہی تھیں کہ جگنی بھی اس کوشش میں لگ گئی کہ اس کی زبان بھی شامل ہو جائے۔ چنانچہ وہ بھی شامل ہو گئی کبھی سعدی اور زاہد اور جگنی کی زبانیں باہم مل جاتیں اور کبھی میری زاہد اور جگنی کی اور کبھی میری سعدی اور جگنی کی اور کبھی میری زاہد کی اور جگنی کی یہ سلسلہ ایک گھنٹہ چلتا رہا تو میں نے کہا کہ اب جگنی کے اندر اپنی منی ڈال دوں اس لیے زاہد اورسعدی تم دوسرے بیڈروم میں چلے جاؤ میں ابھی ادھر ہی آ جاتا ہوں۔ یہ سنتے ہی زاہد نے سعدی کو اٹھایا اور گود میں اٹھائے اٹھائے لن اندر ہی رکھ کر اسے لے کر دوسرے بیڈ روم میں چلا گیا۔
میں نے جگنی کی یوٹرس میں لن ڈالا اور کچھ دیر وہاں رکھا اور چند ایک بار آگے پیچھے کیا اور پھر فوارہ چھوڑ دیا۔ آج میں نے جگنی کے اندر کافی دیر اپنا لوڑا رکھا اور جب وہ بالکل سکڑ گیا تب نکالا۔ جگنی میری ہدایات کے مطابق دائیں کروٹ لے کر وہیں سو رہی۔ میں نے اسے کس کیا اور ساتھ ہی لیٹ گیا اور یوں دوسری رات کا کام خیریت سے انجام پذیر ہو گیا۔ میری بھی آنکھ لگ گئی تھی۔ سو میں بھی وہیں سو گیا۔
کافی دیر گزر گئی تو مجھے لگا کہ میرا لوڑا کوئی چوس رہا ہے۔میں نے اٹھ کر دیکھا تو وہ سعدی بھابھی تھیں جو میرے لوڑے کا چوپا لگا رہی تھیں۔ میں نے حیرانگی سے پوچھا زاہد کہاں ہے؟ کہنے لگی کہ وہ تو ہار مان گیا۔ میں نے مسکراتے ہوئے کہا کہ چلیں ادھر چلتے ہیں جگنی کو سونے دیں۔میں جب سعدی بھابھی کے ساتھ دوسرے بیڈ روم میں آیا تو دیکھا کہ زاہد گہری نیند سو رہا تھا۔
حالانکہ آج تو میں نے اس کا لن اپنی گانڈ میں بھی ڈالا تھا۔ میں ہنسنے لگ گیا کہ اسی وجہ سے وہ ہار گیا وہ آپ کی گانڈ کی گرمی برداشت نہیں کر پایا۔
خیر سعدی نے میرے لوڑے پر جمی میری اور جگنی کی منی چاٹنا شروع کی یہاں تک کہ لوڑا چکنا ہو کر کھڑا ہو گیا۔ سعدی کہنے لگی زاہد کا لن بے شک چھوٹا ہے لیکن چدائی ٹھیک کرتا ہے زاہد۔ بہت جان مار قسم کی چدائی لگائی ہے اس نے میری۔ میں نے سعدی باجی کو بتایا نہیں کہ اصل میں وہ گولی کھاتا ہے۔
پھر میرا اور سعدی کا سیشن شروع ہوا اور ہم نے ہر طرح کا مزا کیا۔ اس دن میں نے سعدی باجی کی گانڈ بھی ماری اور گانڈ تو ایسی تھی جیسے تنور میں آگ بھڑک رہی ہو۔ ہم نے صبح چار بجے تک بہت مزا کیا اس دوران زاہد کو جاگ آ گئی لیکن وہ کچھ نہ کر سکا کیونکہ سعدی باجی اس کی گرمی نکال چکی تھی۔ سچ کہتے ہیں سیانے کہ جو آگ یکدم بھڑک جائے وہ یکدم ہی بجھ جایا کرتی ہے زاہد کے ساتھ بھی کچھ ایسا ہی ہوا کیونکہ اگلا پورا ہفتہ وہ نہ تو سعدی باجی کو چود سکا نہ ہی عارفی کو۔ اس لیے وہ دونو تو جگنی کے گھر نہ آئیں البتہ نگو آنٹی رات وہیں ٹھہر جاتیں اور میں جگنی کو سلا کر نگو آنٹی کو چودتا اور دو تین گھنٹے ان کو بھی لگا دیتا تھا تاکہ میری ساس مجھ سے خوش رہے۔
نگو آنٹی بہت مست خاتون تھیں۔ جگنی کو منی ڈالتے ہوئے چار دن ہو چکے تھے۔ اب اس کے بعد میرا دل تھا کہ دو تین مزید کام ڈالا جائے اور زاہد کی تو بس ہو چکی تھی کیونکہ اس نے مسلسل گولیاں کھا کھا کر اپنا بیڑہ غرق کر لیا تھا۔ نگو آنٹی اپنے بہنوئی کو میرےکہنے پر دودھ پلائے جا رہی تھی تاکہ اس کی کمزوری دور ہو۔لیکن ابھی تک وہ اپنے حواس میں نہیں تھا۔ جسم کانپنا شروع ہو گیا تھا۔ پانچویں رات بھی میں نے جگنی کو بےحد مزا کروایا اور پھر اس کی یوٹرس میں بڑی احتیاط کے ساتھ اپنی گاڑھی منی ڈالی اور اس کے دو گھنٹے بعد دوسرے بیڈ روم میں آنٹی نگو کو جی بھر کر چودا۔ آنٹی مجھ سے بہت خوش تھیں اور اب کافی ٹھنڈی ہو چکی تھیں۔ اگلی رات کے لیے میں نے سحر سے کہا کہ تم بھی آنٹی کے ساتھ آجانا رات مزا کریں گے تو اس نے کہا آ گئی میری یاد؟ میں بولا سحر تم ہی تو میری زندگی کی ساتھی ہو لیکن تمہاری خالہ کا گھر بچانا بھی بہت ضروری تھا اور اس کی گود ہری کرنا بھی نہایت لازمی تھا۔ اصل میں تو تم ہی میری اور میں تمہارا ہوں جانم! میری باتیں سن کر اسے تسلی ہوئی اور کہنے لگی کہ آپ بہت اچھے ہیں میں جانتی ہوں آپ نہ ہوتے تو عارفی اور سعدی بھابھیاں طلاق لے چکی ہوتیں اور میری والدہ بھی چکلے میں بیٹھی ہوتی اور خالہ جگنی بھی طلاق لے چکی ہوتی۔ آپ نے بڑے اچھے طریقے سے سب کو سنبھالا ہے۔
میں نے کہا سحر کل کا ڈنر ہم اکٹھے کریں گے۔ ابھی میں سحر سے بات کر رہا تھا کہ بیچ میں عافی کے نمبر سے میسج آ گیا۔ جناب بہنوئی صاحب! اپنی اس چھوٹی بہن کو بھول تو نہیں گئے؟ کیونکہ آج پانچ دن ہوگئے۔ خالہ جگنی والا کام مکمل نہیں ہوا ابھی؟ میں نے کہا کہ بھائی کی جان فکر کیوں کر رہی ہوں پرسوں تمہاری ہو گی ساری رات۔ اس نے کہا کہ کیسے؟ میں نے کہا کہ تمہاری امی اور سحر جگنی خالہ کے گھر سوئیں گی اور میں تمہارے اور عارفین کے ساتھ۔ وہ تنک کر بولی عارفین کیوں؟ میں نے کہا کہ وہ بھی تو گھر ہو گی نا؟ بس اس لیے کہا ورنہ ایسی کوئی بات ہمارے درمیان نہیں۔ وہ ہنسنے لگی کہ اگر ہو بھی تو مجھے کوئی فرق نہیں پڑتا وہ بھی تو لڑکی ہے اسے بھی لوڑے کی ضرورت ہے نا اوراگر لوڑا گھر کا اور دیکھا بھالا ہو تو پھر کیا کہنے اور آپ کا تگڑا لوڑا تو ہم سب کا سانجھا ہے نا!
میں نے کہا یہ بات تو آپ سب کی بہت اچھی ہے کہ کسی کو کسی سے کوئی حسد نہیں۔ہر کوئی دوسرے کا خیرخواہ ہے اور اب ان میں جگنی اور زاہد کا اضافہ بھی ہو چکا ہے۔ وہ کہنے لگی کہ آپ بھی تو سب کے ساتھ بہت پیار کرتے ہیں نا!
کافی باتیں ہوئیں اور پھر پرسوں کا وعدہ کر کے میں جگنی کے ہاں پہنچ گیا۔ زاہد ابھی تک پوری طرح سنبھل نہ پایا تھا لیکن کافی بہتر تھا۔ ابھی تک اس کے کان سائیں سائیں کر رہے تھے اور اب اگر اسے کہا جاتاکہ پھدی مارو گے تو کانوں کو ہاتھ لگانے لگ جاتا۔میں نے کہا کہ میں نے سمجھایا تھا کہ یکدم ایسے نہ اُڑو لیکن تمہیں تو یہ تھا کہ ساری پھدیاں چیر پھاڑ کر رکھ دوں۔ لیکن میرے بھائی پھدی کو جتنا مارو یہ اتنا ہی زندہ ہو جاتی ہے اور قاتل بن جاتی ہے۔ یہ لوڑے کو مار دیتی ہے۔ خود نہیں مرتی۔ جوان سے جوان کو بھی چوس جاتی ہے ۔ اس لیے ہر کام میں اعتدال ضروری ہے اور تم تو پھدیوں کے پیچھے ہی پڑ گئے دوست! اب جب ٹھیک ہو جاؤ گےتو میرے کہنے کے مطابق چلنا تاکہ مزا کر سکو اور کوئی مسئلہ بھی نہ ہو۔
زاہد نے کیا کہ ٹھیک ہے آئندہ میرے باپ کی بھی توبہ۔ میں نے کہا کہ چھوٹی عمر کی لڑکی کو چودنا آپ کے لیےمناسب نہیں ہے۔ سحر،عافی یا عارفین تو آپ کو فارغ کر دیں گی حتی کہ سعدی نے آپ کو فارغ کر دیا دیکھ لیں۔ اصل میں سعدی بے چاری کا تو نام لگ گیا اس سے پہلے جس طرح عافی کو آپ نے چودا اور پھر عارفی کو ہائے ہائے!آپ کی عمر اب پچاس کے قریب ہے اس لیے اپنی بیٹی کی عمر کی لڑکی کو چودیں گے تو ایسا ہی ہو گا۔ آپ بس عارفی اور سعدی اور نگو آنٹی تک محدود رہیں تو بہتر ہے ورنہ آپ کو ایسا نقصان ہو گا کہ گردے اور دل کی تکلیف شروع ہو جائے گی۔ زاہد بھائی نے میری باتیں سن کر وعدہ کیا کہ جیسے کہو گے آئندہ میں ویسا ہی کروں گا۔
اگلی رات نگو آنٹی اور سحر دونو جگنی کے گھر آ گئیں۔ نگو آنٹی کھانا وغیرہ کھا کھلا کر واپس اپنے گھر چلی گئیں اور سحر کو وہیں چھوڑ دیا۔ اس رات زاہد تقریباً ٹھیک تھا اس لیے جب میں جگنی کو کام ڈال رہا تھا تو اس نے سحر سے چھیڑ خانی شروع کر دی اس نے سحر کو چوما چاٹا تو ضرور اور اس کی پھدی کو بھی چوسا لیکن اس کا لن اس حد تک کھڑا نہ ہو سکا کہ سحر کی پھدی میں ڈال سکے۔ بعد میں میں نے زاہد پر غصہ کیا کہ تمہیں سحر لوگوں سے منع کیا تھا تو کہنے لگا کہ لن تو نہیں ڈالا نا!
میں بولا کہ دل تو تمہارا تھا کہ تم سحر کو بھی چود ڈالو لیکن تمہارے لن نے تمہارا ساتھ نہیں دیا اور یہ کہہ کر میں ہنس دیا اور وہ بھی ہنس دیا۔ سحر ہماری یہ باتیں سن رہی تھی۔ میں نےجگنی والا کام مکمل کر دیا تھا۔ اب دوسرے بیڈ روم میں سحر اور زاہد کے ساتھ جا کر لیٹ گیا۔ تھوڑی دیر بعد ہی سحر نے میرے ساتھ کسنگ شروع کر دی میں نے بھی اس کا ساتھ دیا اور زاہد کو بھی ساتھ کھینچ لیا ہم تینوں ایک دوسرے کے ساتھ چمٹے ہوئے تھے۔ اب سحر نے میرا لن منہ میں ڈالا اور چوپا لگانا شروع کر دیا۔میں اور زاہد کسنگ کر رہے تھے اور سحر باری باری ہم دونو کا چوپا لگا رہی تھی۔ زاہد کا لن نیم کھڑا تھا جبکہ میرا شہزادہ پھٹنےکے قریب تھا۔ زاہد نے مجھے کہا کہ تم اپنی ہونے والی بیوی کی سیل توڑ کر سہاگ رات منا ہی چکے ہو اور میری بیوی کی سیل میرے سامنے توڑ کر اس کے ساتھ بھی سہاگ رات منا چکے ہو تو کیا مجھے اجازت نہیں دو گے کہ میں بھی تمہارے سامنےتمہاری بیوی کو ایک بار چود ہی لوں؟ میں نے کہا کہ جب اس کی پھدی چاٹ لی اس نے تمہارا لوڑا بھی چوس لیا تو پھر اب پیچھے رہ کیا گیا؟ میرے دوست ہماری ہر چیز سانجھی ہے یہ کہہ کر میں نے سحر کی ٹانگیں اٹھا کر زاہد کے لوڑےپر اپنا تھوک لگایا اور ڈھیلا لوڑا ہی سحر کی چوت میں ڈالنے کی کوشش کی پیچھے سے زاہد نے دھکا لگایا اور اس کا نیم کھڑا لن سحر کی پھدی میں چلا گیا۔ زاہد کی تو خوشی کے مارے چیخیں ہی نکل گئیں اور دو تین بار اندر باہر کرنے سےاس کا لن کافی حد تک کھڑا ہو گیا تھا اب پھدی میں لن ڈالے سحر کے چھتیس سائز کے ٹائٹ ممے چوس رہا تھا اور زاہد سحر کو زبردست طریقے سے چود رہا تھا۔ پھر میں سحر کی پھدی پر آ گیا اور دانہ اپنی زبان سے چھیڑنے لگا۔ سحر کو اور زیادہ ہشیاری آنے لگی۔ بیچ بیچ میں میں زاہد کا لن سحر کی پھدی سے نکال کر چوپا بھی لگا لیتا تاکہ زاہد کا لن بیٹھ ہی نہ جائے۔
کوئی آدھے گھنٹےکی زبردست چدائی کے بعد زاہد تھک گیا اور لن نکال کر ایک طرف لیٹ گیا اور سحر میرےلوڑے کے اوپر آن بیٹھی۔ زاہد تو جلدی نیند کی وادی میں کھو گیا اور میں سحر کو پیار کرتے کرتے چودنے لگا۔ I LOVE YOU۔ I LOVE YOU کے نعروں سےسارا گھر گونج رہا تھا آدھے گھنٹے کا سیشن لگا چکے تھے کہ جگنی کی آواز آئی میں نے سحر کو لوڑا ڈالے ڈالے اٹھایا اور جگنی کے پاس لے گیا۔ وہاں بیٹھ کو سحر کو گود میں ہی بٹھائے چودتا رہا اب خالہ بھانجی آمنے سامنے تھیں اور جگنی نے سحر سے کہا کہ تم بہت خوش قسمت ہو جو تمہیں حامی جیسا خاوند ملا یہ تمہارے ساتھ ساتھ ہم سب کو بھی بہت خوش رکھے گا۔
سحر نےجذباتی انداز میں خالہ کہہ کر جگنی کے ہونٹوں پر ہونٹ رکھ کر چوسنا شروع کر دیئے۔ جگنی نے بھی اس کا ساتھ دینا شروع کر دیا پھر میں نے جگنی کےمنہ میں منہ ڈال دیا اور سحر جگنی کے ممے چوسنے لگی اور میں دیکھ رہا تھا کہ خالہ کے ممے بھانجی کے مموں سے چھوٹے ہیں۔ کروٹ لے دونوں ایک دوسری کے ممے چوس رہی تھیں اور میں سحر کو لن پیل رہا تھا۔ کوئی ایک گھنٹہ ہم نے پیار کیا اور اس کے بعد میں نے سحر سے کہا کہ اب میں تمہاری خالہ جگنی کے اندر اپنا مادہ ڈال دوں؟ سحر کہنے لگی کہ مجھے کب پریگننٹ کرنا ہے؟ ابھی کر دیں۔ لیکن میں نے کہا کہ نہیں رخصتی سے ایک ماہ پہلے کوشش کریں گے کیونکہ میں چاہتا ہوں کہ جب تمہاری رخصتی ہو تو تم ماں بننے والی ہو چکی ہو اور دل میں سوچا کہ اس رات میں عافی اور عارفین کو اکٹھے چود کر سہاگ رات منا سکوں۔
جگنی بولی سحر تمہاری ساری زندگی بہت رنگین گزرنے والی ہے۔ اب میں سحر کو چھوڑ جگنی کے اوپر آ گیا اور اس کو لوڑا گھسا کر سحر کے ممے چوسنا شروع کیے۔ سحر کے ممے بہت ٹائٹ تھے۔
اب سحر میرے سامنے کتیا بن کر اپنی خالہ جگنی کے کبھی ممے چوس رہی تھی تو کبھی زبان اور ہونٹ۔ ہم تینوں کا تھوک بھی مکس ہو گیا تھا اور لوڑے اور پھدیوں کا پانی بھی۔ میں نے جگنی کو لوڑا ڈالا ہوا تھا جبکہ پیچھے سے مجھے سحر کی بُنڈ اور پھدی دعوت دے رہی تھی سو میں نے کسی کتے کی طرح اس کی پھدی اور گانڈ چاٹنا شروع کر دی۔ مزے سے سحر کی چیخیں نکل رہی تھیں کہ میں بھی ڈسچارج ہونے والا ہو گیا تو میں نے لوڑا آرام سے یوٹرس کے منہ پر سیٹ کر کے اندر کر دیا اور دو تین گھسے مار کر جگنی کی یوٹرس میں منی کا فوارہ چھوڑ دیا۔ سحر اب اپنے شوہر سے چدی ہوئی اپنی سگی خالہ جگنی کےایک طرف لیٹ گئی اور میں اس کے اوپر لیٹ کر کسنگ کرنے لگا۔ پھر سحر نے میرے اوپر آ کر میرا لوڑا چاٹنا شروع کیا جس پر میرا۔ سحر اور اس کی خالہ جگنی کا پانی اور تھوک لگا ہوا تھا یہاں تک کہ وہ وہیں پڑی پڑی سو گئی اور میں بھی سو گیا۔
صبح جب میں جاگا تو زاہد سحر سے چمٹا ہوا تھا اور اس کے ممے چوس رہا تھا اور نیچے اپنا لن اس کی پھدی میں ڈال رکھا تھا میں نے دونو سے پیار کیا اور تیار ہو کر آفس کے لیے نکل گیا۔ آفس پہنچتے ہی میسج آ گیا ۔عافی نے پوچھا تھا کہ سحر آپی کا کام رات کو آپ نے کر دیا۔ میں نے کہا شرم کرو وہ تمہاری آپی ہے۔ وہ بولی: آپ کی تو میں بھی دیوانی ہوں۔ سیل تو ہم دونو بہنوں اور خالہ جگنی کی آپ نے ہی توڑی ہے نا۔ میں بولا اچھا مجھے کام کرنے دو رات کو تمہیں بتاؤں گا۔
وہ بولی اچھا بہنوئی صاحب۔ میں نے کہا کہ میں تو تمہاری والدہ اور تم تینوں بہنوں کا خاوند ہوں۔ وہ تنک کر بولی ہیں عارفین بھی؟ میں نے کہا کہ ابھی اس کی سہاگ رات منانا رہتی ہے۔ لیکن ایک بات بتاؤں؟ میں نے سبھی کو بڑے پیار کے ساتھ چودا ہے لیکن جو کشش اور خوش بو تمہارے سانسوں۔ جسم اور پھدی سے آتی ہے وہ کسی اور سے نہیں آئی۔ مجھے تمہاری اس خفیہ خوش بو سے بھی بہت پیار ہے وہ خوش بو کبھی کسی سے نہیں آئی۔ خیر اتنے میں اس نے کہا کہ کالج جا رہی ہوں واپس آ کر بات کرتی ہوں۔ میں نے کہا اللہ حافظ اوکے اللہ حافظ کہہ کر وہ کالج کو سدھاری اور میں کام پہ لگ گیا۔
شام کو جب میں گھر جا رہا تھا تو غیر ارادی طور پر فارمیسی پر رکا اور دو تین گولیاں ویاگرا کی لے لیں حالانکہ اس سے پہلے میں نے کبھی گولی استعمال نہیں کی تھی لیکن آج میرا دل تھا کہ ساری رات عافی پر لگاؤں۔ اس لیے چوتھا حصہ گولی میں نے کھا لی۔ اپنے گھر گیا اور نہا دھو کر سلیپنگ سوٹ پہن رہا تھا کہ باتھ کا دروازہ کھلا اور نجمہ آنٹی اندر آ گئیں اور سیدھا میرے لن پر پل پڑِیں۔ چوپا چوپا چوپا اور پھر جلدی سے میں نے اُن کے پھدے میں لوڑا گھسیڑ دیا۔ میں جلدی جلدی ان سے جان چھڑانا چاہتا تھا اور مجھے علم تھا کہ وہ پندرہ منٹ سے زیادہ نہیں کروا سکیں گی۔ چنانچہ میں نے ان کی دھؤاں دھار قسم کی چدائی شروع کر دی پھر بھی وہ آدھے گھنٹے کی چدائی لے ہی گئیں جس کے بعد وہ تھک گئیں۔ میں نے انہیں بیڈ پر لٹایا اور خود دوبارہ نہا کر سلیپنگ گاؤن پہن کر باہر آ گیا۔ کار نکالی اور سیدھا جگنی کے گھر پہنچاجہاں میری ہونے والی بیوی سحر اور سالی عافی میرا انتظار کر رہی تھیں۔
کھانا کھایااور لمبی واک پر نکل کھڑے ہوئے میں ۔سحر۔ عافی۔ ان کی خالہ جگنی اور خالو زاہد۔ سبھی نے آئس کریم کھائی اور واپسی ہوئی۔ واپسی پر جگنی کو چکر آ رہے تھے تو اس نے میرا سہارا لے لیا۔ میں نے محسوس کیا کہ اس کو کچھ حرارت ہے جو مجھے اس بات کی علامت لگی کہ اس کو حمل ہو چکا ہے۔
گھر کے رستے سے میں نے فارمیسی سے پریگننسی ٹسٹ کی ایک سٹرپ خریدی اور اپنی جیب میں رکھ لی۔ گھر پہنچ کر میں نے کہا کہ جگنی کو آرام کرنے دیا جائے۔ چنانچہ جگنی کو اس کے بیڈ روم تک میں نے پہنچا دیا اور اس کے ساتھ لیٹ کر پیار کرنے لگا۔ میں نے جگنی کو بتایا کہ مجھے لگتا ہے کہ اسے حمل ٹھہر چکا ہےاس لیے اب اسے رف چدائی سے پرہیز کرنا ہو گا اور زاہد کو تو بالکل قریب نہ پھٹکنے دینا کیونکہ وہ رف چدائی کرے گا جس سے بچہ ضائع ہو جانے کا خطرہ ہوتا ہے۔ میں آرام آرام سے اندر باہر کر کےتمہاری گرمی نکال دیا کروں گا یوں تم آرام سے بچہ پیدا کر سکو گی۔ جگنی کو میری باتیں سن کو بہت جوش آگیا اور وہ میرا شکریہ ادا کرنے لگی اور میے ہونٹ چومنے لگی۔ باتوں اور کسنگ سے ہم دونوں کو ہوشیاری آ چکی تھی میرا بھی کھڑا تھا اور جگنی بھی گیلی ہو چکی تھی۔ چنانچہ میں نے لیٹے لیٹے بڑے آرام سے لن جگنی کی پھدی میں ڈال دیا اور اندر باہر کرنے لگا۔اوپر سے گرم گرم کسنگ جاری تھی کہ تھوڑی دیر میں ہی جگنی ڈسچارج ہو گئی اب وہ تھک چکی تھی اس لیے ڈسچارج ہوتے ہی سو گئی۔ میں نے آرام سے اس کی پھدی میں سے اپنا لن نکالا اور اسی طرح دوسرے بیڈ روم میں چلا گیا جہاں زاہد، سحر اور عافی تھے۔
جیسے ہی میں نے دوسرے بیڈ روم کا دروازہ کھولا تو وہاں ایک دائرے میں سحر، زاہد اور عافی کو لیٹے دیکھا جو ایک دوسرے کو چوس رہے تھے۔ عافی کی پھدی پر زاہد کا منہ تھا، سحر کی پھدی عافی چاٹ رہی تھی اور سحر کا منہ زاہد کے لوڑے پر تھا اور تینوں مست اور سیکسی آوازیں نکال رہے تھے۔ مجھے دیکھتے ہی عافی نے سحر کی پھدی سے منہ ہٹایا اور جگنی کے پانی میں لتھڑا ہوا میرا لن اپنے منہ میں ڈال لیا اب دائرہ ذرا وسیع ہو گیا تھا اور میرا منہ سحر کی پھدی پر چلا گیا۔
پھر سب نے پوزیشن بدلی اور زاہد کا لن سحر چوس رہی تھی جبکہ میرا لن عافی چوس رہی تھی اور میں اور زاہد آرام سے لیٹے ہوئے تھے کہ میں نے سب کو خوش خبری سنائی کہ خواتین و حضرات ہمارا جگنی مشن کامیابی سے ہم کنار ہو چکا ہے اور ٹھیک نو ماہ بعد جگنی اور زاہد ماما پاپا بن جائیں گے جگنی کو حمل ٹھہر چکا ہے اس لیے اب زاہد جگنی کی چدائی نہیں کرے گا اور اگر جگنی کو چدائی کی طلب ہوئی تو میں کروں گا تا کہ وہ سکون سے بچہ پیدا کر سکے۔ اس وقت تک زاہد کے پاس عارفہ بھابھی، سعدیہ بھابھی، سحر اور عافی کی آپشن موجود رہے گی۔ سب نے ایک دوسرے کو مبارک باد دی اور سب کا جوش اس بات سے مزید بڑھ گیا۔ میں نے عافی کے ساتھ 69 کی پوزیشن بنا لی کیونکہ میں عافی کی پھدی کی مہک لینا چاہتا تھا۔ ہم بہت زیادہ مگن ہو گئے۔ پھر میں نے کچھ دیر بعد دیکھا کہ زاہد اور سحر چدائی پوزیشن سنبھال چکے ہیں جبکہ میں اور عافی ابھی ایک دوسرے کو چاٹ رہے تھے۔ ہم نے بھی پوزیشن سنبھال لی اور میں نے آرام سے عافی کی پھدی میں لن ڈال دیا۔ اب چدائی کا زور اور سحر اور عافی کا شور پڑھ گیا تھا۔ میں اور زاہد اپنے اپنے انداز میں دونوں بہنوں کو چود رہے تھے کہ سحر مجھے مخاطب کر کے بولی سرتاج! مجھے نہیں چودیں گے؟ میں نے کہا کہ کیوں نہیں اور میں نے عافی کو چودنا چھوڑ کر زاہد کے سپرد کیا جبکہ عافی ایسا نہیں چاہتی تھی اس نے مجھے کان میں کہا کہ میں زاہد خالو سے نہیں چُدنا چاہتی میں نے کہا کہ اب مصلحت اسی میں ہے کہ ایک بار چدائی کروا لو اور اسے کہتے ہیں کہ آرام سے چودے۔ چنانچہ زاہد سے میں نے کہا کہ اپنی بھانجی کو آرام سے چودنا یار پچھلی بار کی طرح نہ کرنا۔ تو زاہد نے مسکراتے ہوئے کہا کہ بھانجی! آجاؤ اپنے خالو کے نیچے اور وعدہ رہا کہ آرام سے چودوں گا مزہ لوں گا اور مزہ دوں گا۔ اس کے بعد میں نے سحر کی پھدی میں لن ڈالا تو لگ ہی نہیں رہا تھا کہ اسے آدھے گھنٹے سے کوئی اور چود رہا تھا پھدی بہت تنگ اور فریش لگ رہی تھی۔میں تو سحرکو اچھی طرح چود رہا تھا اور عافی نہ چاہتے ہوئے بھی اپنے خالو زاہد سے چدوا رہی تھی لیکن لگ رہا تھا کہ زاہد اسے بہت پیار سے چود رہا تھا اس لیے وہ بھی اب مطمئن ہی لگ رہی تھی ۔ دو تین گھنٹے کی اس پیار بھری چدائی کے اختتام کا وقت آن پہنچا تھا کہ اچانک بیڈ روم کا دروازہ کھلا اور ہم نے دیکھا کہ جگنی وہاں کھڑی ہے۔ صبح کا وقت ہو گیا تھا تو جگنی کے ہاتھ میں پریگننسی ٹسٹ سٹریپ دیکھ کر میں سمجھ گیا کہ اس نے میری ہدایت کے مطابق جاگتے ہی خود ہی اپنا پیشاب ٹسٹ کر لیا ہے اور سٹریپ دکھانے آئی ہے۔ چنانچہ وہ وہیں میرے پاس ہی بیٹھ گئی جہاں میں اس کی بھانجی سحر کی پھدی میں لن ڈالے گھسے پر گھسہ مار رہا تھا۔ آتے ہی جگنی نے میرے ہونٹوں پر ہونٹ رکھ دیئے پھر سحر کو ایک کس دی اور پھر زاہد اور عافی کو باری باری کس دی اور کہنے لگی کہ مبارک ہو میں اور زاہد ماما پاپا بننے والے ہیں اور مجھے کس پر پکڑ لیا اور کسنگ کرتے کرتے شکریہ ادا کرنے لگی کہ تمہاری وجہ سے آج یہ خوشی ہمیں ملی ہے۔ میں نے کہا کہ کوئی بات نہیں مل جل کر ہی یہ کام ہو سکتا تھا۔ اب ہم نے آسودگی کی ہر منزل طے کر لی اور اب مادہ نکالنے کا کام باقی تھا سو ہم نے سوچا کہ یہ مال جگنی کی چوت میں نکالا جائے چنانچہ پہلے زاہد نے آرام سے جگنی کی چوت میں لن ڈال کر اپنی منی انڈیل دی اور پھر میں نے جگنی کی چوت میں لن ڈال کر اپنی منی اس کی پھدی میں ڈال دی اور ہم پانچوں وہیں ڈھیر ہو گئے۔
اگلا دن عید اور جشن کا سا سماں تھا جب نگو آنٹی اور نجمہ خالہ نیز سعدیہ بھابھی اور عارفہ بھابھی اور ان کے خاوندوں کو معلوم ہوا کہ جگنی خالہ والا مشن کامیاب ہو گیا ہے اور وہ بھی ماں بننے کی پوزیشن میں آ گئی ہے۔ اس خوشی میں ایک زبردست دعوت کا اہتمام کیا گیا۔اس دعوت میں میں نے نگو آنٹی سے کہا کہ میری سب سے چھوٹی سالی عارفین اور جگنی کھانے پر آئیں گی لیکن اس کے بعد دونوں نگو آنٹی کی طرف چلی جائیں گی اور میں انہیں چھوڑ آؤں گا اور باقی ہلّہ گُلّا بعد میں کریں گے تو نگو آنٹی سمجھ گئی کہ عارفین چونکہ ابھی سیل بند تھی اور میں نے اسے سہاگ رات کے لے بچا کر رکھا ہوا تھا جبکہ جگنی نئی نئی حاملہ ہوئی تھی اس لیے دونوں کو بچانے کے لیے ایسا اقدام ضروری تھا ۔
شام بہت رنگین ہونے والی تھی اس لیے صبح سے ہی افتخار اور قمر بھائی نیز سعدیہ بھابھی اور عارفہ بھابھی اور خالہ نجمہ خوب تیاریوں میں لگے ہوئے تھے میں نے سب سے کہہ دیا تھا کہ کھانا ہم آرڈر کر لیں گے بس آپ سارے گھر کو سجائیں اور خود کو تیار کریں۔ سبھی بہت خوش تھے اور بچے بھی بہت پھولے نہیں سما رہے تھے۔ اب سبھی ذہنی طورپر تیار تھے کہ آج رات گھر میں جشن چدائی ہو گا اور ساری رات سبھی مل کر گروپ چدائی کریں گے اور سب مردوں اور عورتوں کو اجازت ہو گی کہ جس کے ساتھ چاہیں چدائی کریں اور ساتھی بدل بدل کر بھی چدائی کر سکتے ہیں اس نئی قسم کے چدائی ایکشن کا مزہ لینے کے لیے سبھی بے چین تھے۔ میں نے کھانے اور آئس کریم کا آرڈر دے دیا تھا اور اب بس رات کا انتظار تھا۔ شام ہوئی تو سبھی کھانے کے لیے جمع ہو گئے ایک بہت ہی خوبصورت سٹیج تیار کیا گیا جہاں جگنی خالہ اور زاہد خالو پوری تیاری کے ساتھ بیٹھے اور خالہ نجمہ اور نگو آنٹی دونوں نے ان کا صدقہ اتارا اور بچوں نے پھول برسائے۔ نیا مہمان آنے والا ہے کی خوشی جگنی کے چہرے کو بہت دمکا رہی تھی اور سبھی بہت خوش تھے اور مجھے بھی مبارک بادیاں دی جا رہی تھیں۔ سب نے خوب مزہ کیا اور پھر کھانا کھایا گیا اور اس کے بعد آئس کریم کا دور چلا۔ گیارہ بج گئے اور بچے اب تھک چکے تھے اس لیے سعدیہ بھابھی اور عارفہ بھابھی انہیں لے کر سلانے چلی گئیں۔ اب سبھی خاموش ہو گئے تاکہ بچے تسلی سے سو جائیں اور اس کے بعد اگلا راؤنڈ شروع ہو۔ میں نے جگنی خالہ اور اپنی سب سے چھوٹی سالی عارفین سے کہا کہ وہ بھی اٹھیں تاکہ میں پلان کے مطابق انہیں نگو آنٹی کے گھر پہنچا دوں۔چنانچہ وہ دونوں تیار ہوئیں اور باہر نکل گئیں۔ میں نے جگنی کو پیچھے اور عارفین کو آگے بٹھایا اور لے کر سیدھا نگو آنٹی کے گھر آ گیا۔ وہاں اتر کر ہم تینوں اندر گئے۔ عارفین جگنی خالہ کو شب بخیر کہہ کر اپنے کمرے کی طرف چلی گئی اور جگنی کو میں نے نگو آنٹی کے بیڈروم میں پہنچا دیا۔ جگنی نے مجھے وہیں پکڑ لیا اور لگی کسنگ کرنے میں نے اسے کس کرنا شروع کر دیا تھوڑی ہی دیر بعد جگنی اور میں کپڑوں سے آزاد ہو چکے تھے اور میں جگنی کو آرام کے ساتھ چود رہا تھا۔ جگنی کو یہ معلوم تھا کہ آج نجمہ خالہ کے گھر پر گروپ چدائی کا پروگرام ہونے والا ہے اور اس میں نگو آنٹی اور ان کی دونوں بڑی بیٹیاں بھی شامل ہونے والی ہیں اور جگنی کا شوہر زاہد بھی شامل ہو گا۔ دونوں بھابھیاں اور ان کے شوہر بھی اس پارٹی میں شامل ہوں گے پھر جگنی نے پوچھا کہ مجھے یہ سمجھ آ گئی کہ میں کیوں شامل نہیں کی جارہی لیکن اس بات کی سمجھ نہیں آ رہی کہ عارفین کو اس پارٹی میں کیوں شامل نہیں کیا ؟ تو میں نے مسکراتے ہوئے کہا کہ جناب عارفین ابھی سیل بند ہے اور میں نے اسے اپنی سہاگ رات کے لیےاسے بچا کر رکھا ہوا ہے۔ کیونکہ میں اپنی ہونے والی بیوی کی سیل توڑ چکا ہوا ہوں اور اسے اس کا خالو زاہد بھی استعمال کر چکا ہے اور آج افتخار اور قمر بھائی بھی استعمال کریں گے اور اسی طرح عافی بھی استعمال ہو چکی ہے اور رہی سہی کسر آج نکل جائے گی اس لیے انہیں چدائی پارٹی میں شامل کیا جا رہا ہے اور عارفین کو اس لیے نہیں کیا جارہا کہ میں اپنی سہاگ رات کو ایک عدد سیل توڑنا چاہتا ہوں۔
مجھے علم نہ ہوا کہ جگنی کی چدائی اور یہ سب باتیں عارفین چھپ کر دیکھ اورسن رہی ہے۔ یہ مجھے بعد میں پتہ چلا کہ اس نے ساری باتیں سن لی ہیں۔ خیر جب میں جگنی کی تسلی کروا کر باہر نکلا اور عارفین کے کمرے کے دروازے کے آگے سے گزرنے لگا تو مجھے اندر سے عارفین کی مدھر آواز آئی کہ بہنوئی صاحب اپنی سب سے چھوٹی سالی سے بھی مل کے جائیں نا!!
میں عارفین کی آواز سن کر ٹھٹکا اور دوسرے ہی لمحے عارفین میرے سامنے تھی اور اس کا روشن چہرہ اور امرت ہونٹوں پر دلکش مسکراہٹ بکھری ہوئی دعوت طعام دے رہی تھی۔ میں نے اسے اپنے ساتھ چمٹا لیا اور پیار کرنے لگا۔ پیار کرتے کرتے ہم اس کے بیڈ روم میں آ گئے اور اسے اس کے بیڈ پر بٹھا کر میں نے بہت پیار سے سمجھانا شروع کیا کہ ابھی وہ چھوٹی ہے اور اسے میں ان سب باتوں سے دور رکھنا چاہتاہوں لیکن جلد ہی وہ وقت آ جائے گا کہ وہ بھی ان سب پارٹیوں کا حصہ بنا کرے گی اور خوب مزے کیا کرے گی۔ اس نے کہا کہ بھائی جان میں تو صرف آپ کے ساتھ مزے کرنا چاہتی ہوں کسی اور کے ساتھ نہیں نہ ہی مجھے خواہش ہے کہ میں ہر ایرے غیرے مرد کے نیچے ہو یا اس کا لن چوسوں اور اس سے پھدی مرواؤں۔ اس کی یہ بولڈ باتیں سن کر میرا لن تو پینٹ اور انڈرویئر کے اندر ہی پھنکارنے لگا جبکہ عارفین نے اپنا نرم و نازک ہاتھ میرے لن کے ابھار پر رکھ دیا اور میں نے اس کے ہونٹوں میں اپنے ہونٹ گاڑ دیئے۔ کسنگ اپنے عروج پر تھی۔ دل تو میرا کر رہا تھا کہ آج ہی عارفین کی سیل توڑ دوں لیکن میں نے یہ کام سہاگ رات کے لیے بچا رکھا تھا۔ بھینی بھینی خوشبو میں بسی میری سب سے چھوٹی سالی عارفین کی زبان اور ہونٹوں کا رس چوس چوس کر میں پاگل ہو رہا تھا اور یہی حالت عارفین کی تھی وہ مدہوش ہو گئی تھی اور میرا لن پینٹ کی زپ کھول کر باہر نکال چکی تھی اب میرے لن اور اس کے ہاتھ کے درمیان کچھ نہ تھا اور اس کا گورا گورا نرم و نازک ایک ہاتھ میرے لن کی ٹوپی پر تھا اور دوسرا ہاتھ میرے چہرے پر تھا۔ میرا ایک ہاتھ اس کے چہرے پر تھا اور دوسرا اس کے 34 سائز کے مموں کو ٹٹول رہا تھا۔ پھر پتہ ہی نہیں چلا کہ کب ہم نے اپنے کپڑے اتار دیئے اور ننگے ہو کر کسنگ کرنے لگے۔ 69 پوزیشن میں جاتے ہوئے بھی دیر نہ لگی اور جیسے ہی میں نے عارفین کی پھدی پر اپنی زبان لگائی تو اسے ایک کرنٹ لگاادھر وہ کوشش میں تھی میں کہ میرا نوانچ لمبا اور ساڑھے پانچ انچ موٹا لن اپنے چھوٹے سے منہ میں لے لے لیکن میرے لن کی ٹوپی ہی اس کے چھوٹے سے بابِ دہن سے اندر نہیں گھس رہی تھی۔ کچھ کوشش کے بعد اس نے بہتر یہی سمجھا کہ میرے لن کی ٹوپی پر ہی زبان پھیرتی رہے اور میں اس کی پھدی کا نمکین جوس پی رہا تھا۔ حیرت مجھے اس بات پر تھی کہ اس کی پھدی سائز میں بہت ہی چھوٹی سی تھی اور اس کا سوراخ بھی نہایت تنگ تھا میں نے اپنی سب سے چھوٹی انگلی گھسانے کی کوشش کی تو وہ تڑپ اٹھی چنانچہ میں نے بھی یہ کوشش سہاگ رات کے لیے اٹھا رکھی۔ اب عارفین پندرہ منٹ میں کوئی پانچ بار ڈسچارج ہو چکی تھی اور میں تو ابھی ٹھیک طرح سے تیار بھی نہیں ہوا تھا لیکن میں نے ڈسچارج ہونے کی کوشش نہیں کی کیونکہ ابھی تو پارٹی شروع ہونی تھی۔ عارفین کو سکون مل گیا تھا اس لیے میں نے اسے کہا کہ میری پیاری سالی! تم اب آرام سے سو جاؤ کیونکہ پارٹی میں بہت سے لوگ میرے لن کا انتظار کر رہے ہیں۔ چنانچہ عارفین وہیں سو گئی اور میں نے کپڑے پہنے اور باہر نکل کر اس کے کمرے کا دروازہ بند کیا اور بڑے دروازے کو آٹو لاک لگا کر چابی سے دوسرا ڈبل لاک لگایا اور اپنی کار میں بیٹھ کر واپس گھر کو چلا جہاں میرے اندازے کے مطابق اب تک پہلا راؤنڈ شروع ہو چکا تھا۔
جیسے ہی میں گھر پہنچا تو میں نے دیکھا کہ وہاں چدائی کا ایک طوفانِ بدتمیزی برپا تھا۔ ہر کوئی دوسرے کو ماں بہن کی گالیاں نکال رہا تھا اور ایک دوسرے کو بھنبھوڑ رہا تھا۔ بھابھیاں تو پاگل ہوئی پڑی تھیں اور افتخار اور قمر بھائی بھی بہت چھوچھورے پن پر اترے ہوئے تھے نگو آنٹی، سحر اور عافی کی گاہکی زیادہ تھی کیونکہ افتخار اور قمر بھائی نے پہلی بار انہیں چودنا تھا لہٰذا وہ دونوں بھائی ان تینوں کو باری باری چود رہے تھے۔ میں سمجھ گیا کہ ان بہن چودوں نے ٹائمنگ بڑھانے والی گولیاں کھا رکھی ہیں ورنہ ان تازہ دم اور گرما گرم پھدیوں کے سامنے دو منٹ بھی نہ نکال سکتے تھے۔ خیر میں بھی اب پارٹی کا حصہ بن گیا اور سحر اور میری سالی عافی میری طرف متوجہ ہوئی اور میں بھی سیدھا ان کی طرف گیا میری ہونے والی بیوی اور سالی پر میرے بھائی افتخار اور قمر اپنے چار چار انچ کے چھوٹے چھوٹے لوڑوں سے حملہ آور تھے اور لڑکیوں کو صرف اس بات کا مزہ آ رہا تھا کہ وہ تیز تیز چدائی کر رہے تھے باقی ان کی پھدیوں میں ابھی بہت گنجائش تھی کہ ایک ایک اور لوڑا گھسا دیا جائے۔ خیر میں آگے بڑھا اور دونوں کو کس دی۔ اس کے بعد نگو آنٹی اور نجمہ خالہ کو بھی کس دی اور پھر سعدیہ اور عارفہ بھابھی کی طرف بڑھا تو سعدیہ بھابھی نے مجھے دبوچ لیا جو عارفہ بھابھی کے ممے چوس رہی تھی کیونکہ زاہد سعدیہ بھابھی کو اندھا دھند چود رہا تھا۔ نگو آنٹی اور نجمہ خالہ آپس میں 69 کی پوزیشن والا کھیل کھیل رہی تھیں۔ اب افتخار بھائی نے سحر کو چھوڑ کر عافی کو چودنا شروع کر دیا تھا اور قمر بھائی نے سحر کی پھدی میں اپنا منا ڈال دیا تھا۔ چوہے بلی کا یہ کھیل بہت شدت سے جاری تھا ہر بلی زیادہ سے زیادہ چوہے کھانا چاہتی تھی اور ہر چوہا ہو ایک بلی کے منہ میں جانے کے لیے بے قرار تھا یوں سبھی اس کمرے میں پورے جوش کے ساتھ ایک دوسرے کو مزہ دے رہے تھے۔ میں بھی اب نگو آنٹی اور نجمہ خالہ کے پاس رک گیا اور اپنا لوڑا نکال لیا دونوں میرے لوڑے پر پل پڑیں اور میرا لوڑا دونوں کے دہنوں کی باری باری سیر کرنے لگا میرا لوڑا سب لڑکوں سے بڑا اور موٹا تھا اس لیے سبھی کو اس کی حاجت تھی لیکن جلدی اس لیے نہیں تھی کیونکہ سب کو معلوم تھا کہ حامی کا حرامی لوڑاسب کی پیاس بجھا کر بھی تنا رہ سکتا ہے۔ میں بھی یہی سوچ رہا تھا کہ بھائی اور زاہد خالو فارغ ہو جائیں تو میں لڑکیوں کی طرف جاؤں اس وقت تک میں بھی آنٹی نگو اور خالہ نجمہ کے پاس رہنا چاہتا تھا۔ اب دونوں نے میرا لوڑا باری باری چوسنا شروع کیا اور نجمہ خالہ میرے بڑے بڑے ٹٹوں کو منہ میں لے کر وسنے لگی اور نگو آنٹی نے میرا راڈ اپنے منہ میں حلق تک اتار لیا۔ پھر جلد ہی میں نے نگو آنٹی کو سیدھا کیا اور دھڑام سے اپنا چوہا ان کی بلی میں پیل دیا اور آنِ واحد میں زور دار چدائی شروع کر دی۔ نگو آنٹی کی ہائے ہائے سے کمرہ گونج اٹھا اور سب کا شہوت بھرا دھیان ان کی طرف اٹھ گیا۔ سبھی ان کی خوش قسمتی پر رشک کر رہے تھے کہ میرا تگڑا لوڑا سب سے پہلے ان کی چوت میں گیا تھا حالانکہ انہیں معلوم نہ تھا کہ میرا لوڑا آج کی رات بھی سب سے پہلےجگنی آنٹی کی چوت سر کر کے، عارفین کے منہ کی سیر کرتاہوا آیا ہے۔ پندرہ بیس منٹ کی مسلسل چدائی کہ وجہ سے نگو آنٹی کوئی چھ بار ڈسچارج ہو چکی تھیں اور اب تھک گئی تھیں تو میں نے انہیں ایک لمبی فرنچ کس دی اور انہیں چھوڑ کر جلدی سے اپنا چوہا نجمہ خالہ کی چوت میں گھسا دیا۔نجمہ خالہ کی عمر اب چونکہ ساٹھ کے قریب تھی اس لیے مجھے معلوم تھا کہ وہ جلدی تھک جائیں گے چنانچہ میں نے پوری قوت کے ساتھ نجہ خالہ کو چودنا شروع کیا اور دھپ دھپ دھپ۔۔۔۔ آہ۔۔۔۔ آہ ۔۔۔ آہ۔۔۔۔ کی آوازوں کے مابین ایک ردھم قائم ہو گیا۔ دس منٹ کی دھؤاں دار چدائی نے خانہ نجمہ کو نڈھال کر دیا اور میں نے خالہ کو چھوڑ دیا۔ اب زاہد اپنی سالی نگو آنٹی کو چود رہا تھا اور اس نے سعدیہ اور عارفی بھابھی کو چھوڑ دیا اور انہوں نے مجھے وہیں دبوچ لیا ادھر افتخار کو جوش آیا اور اس نے بے سدھ پڑی اپنی ماں نجمہ کو چودنا شروع کیا اور گشتی ماں گشتی ماں کہتے ہوئے اس کی زوردار چدائی شروع کر دی۔خالہ نجمہ افتخار کو حرامی بچہ کہ رہی تھیں اور وہ انہیں گشتی ماں کہہ رہا تھا لیکن خالہ نجمہ کو جس طرح میں نے چودا تھا اس کی وجہ سے ان میں ہلنے کی ہمت نہ تھی اس لیے بغیر ہلے جلے وہ گالیاں بکتی جا رہی تھی اور اس بات کا مزہ لے رہی تھی کہ جس پھدی سے اس کا بیٹا نکلا تھا اسی میں آج وہ واپس لوڑا گھسیڑے جا رہا تھا۔ ادھر عارفہ اور سعدیہ بھابھی نے مجھے پکڑا ہوا تھااور مجھے سیدھا لٹا کر سعدیہ میرے اوپر چڑھی ہوئی تھی اور عارفہ نے میرے منہ میں منہ ڈالا ہوا تھا۔ اب قمر بھائی کبھی سحر اور کبھی عافی کو چود رہا تھا اور افتخار اور زاہد نے بھی پارٹنر بدل لیے تھے۔ ادھر میں نے سعدیہ بھابھی کو نیچے لٹایا اور اس کے اوپر چڑھ کر زور دار چدائی شروع کر دی میں چاہتا تھا کہ میں ان سب کی تسلی کروا کر اپنی ہونے والی بیوی سحر اور سالی عافی کے پاس چلا جاؤں اور باقی رات وہیں ان کے ساتھ گزاروں سو میں نے سعدیہ کی مزید زور شور سے چدائی شروع کر دی اور چد منٹوں میں ہی سعدیہ ہانپنے لگی کیونکہ اب سعدیہ بھابھی کی عمر بھی چالیس سے اوپر تھی اب سعدیہ بھابھی کے ہانپنے کی دیر تھی کہ میں نے عارفہ بھابھی کو کو پکڑا وہ گھوڑی تو پہلے ہی بنی ہوئی تھی میں نے لوڑے کو تھوک لگایا اور سیدھا ان کی چوت میں پیل دیا۔ ادھر میں نے پارٹنر بدلا ادھر قمر بھائی نگو آنٹی پر آ گئے اور زاہد خالو سحر اور عافی کے پاس چلے گئے۔
اب سعدیہ بھابھی بے سدھ پڑی تھیں اور افتخار اور قمر نگو آنٹی اور نجمہ خالہ کو چود رہے تھے، میرا لوڑا عارفہ بھابھی کی چوت کی سیر کر رہا تھا اور زاہد خالو اپنی بھانجیوں سحر اور عافی کی ٹھکائی کر رہے تھے۔ میں جلد از جلد عارفہ بھابھی کو نڈھال کر کے سحر اور عافی کے پاس پہنچنا چاہتا تھا چنانچہ میں نے مزید زور لگا کر عارفہ بھابھی کو چودنا شروع کیا ادھر افتخار نے اپنی گشتی ماں نجمہ کی گانڈ میں لوڑا پیل دیا تھا اور پانچ منٹ بھی نہ نکالے اور اس کے لوڑے نے اپنی ماں کی گرم گانڈ کے آگے ہار مان لی اور اپنا لاوا اگل دیا۔ اب افتخار تو اپنی ماں کے اوپر ہی ڈھیر ہو گیا اور قمر ابھی تک نگو آنٹی کو چود رہا تھا کہ اچانک اس نے بھی نگو آنٹی کی گانڈ پر ہلہ بول دیا لن اس قدر چھوٹا اور پتلا تھا کہ نگو آنٹی کو پتہ بھی نہ چلا کہ کس وقت قمر بھائی کا لن ان کی چوت سے نکل کر ان کی گانڈ میں چلا گیا اور نگو آنٹی کی گرم گرم گانڈ نے قمر بھائی کی لُلّی کو شکست سے دی اور قمر بھائی بھی نگو آنٹی کے ساتھ لیٹ کر بے سدھ ہو گئے اب یہ چاروں تو فارغ ہو کے تھے۔ زاہد خالو نے عافی کی گانڈ پہلے بھی ماری تھی آج پھر وہ عافی کی گانڈ میں لوڑا پیل کر دھکم دھکا ہو رہے تھے وہ بھی عافی کی جوان گانڈ کی گرمی برداشت نہ کرپائے اور اچانک ان کے لوڑے نے بھی گانڈ کے اندر ہی الٹیاں شروع کر دیں اور وہ بھی فارغ ہو گئے۔ اِدھر سعدیہ بھابھی نے اپنے کپڑے اٹھائے اور کہنے لگی کہ میں تو چلی اپنے روم میں اُدھر نجمہ خالہ نے افتخار اور قمر بھائی سے کہا کہ اب تم لوگ بھی اپنے اپنے روم میں جاؤ اور خود بھی چدائی پارٹی روم سے نکل گئیں۔ نگو آنٹی نے دیکھا کہ زاہد خالو فارغ ہو چکے ہیں تو ان سے کہا کہ چلو زاہد ہم تمہارے گھر چلتے ہیں میں وہیں سو لوں گی اور جگنی اور عارفین کو ڈسٹرب نہ ہی کروں تو بہتر ہے یہاں بھی ان لڑکیوں کو اب اپنے اصلی لوڑے کے ساتھ مزے کرنے دیتے ہیں۔ یہ سن کر زاہد خالو اٹھے اور نگو آنٹی کو لے کر اپنے گھر چلے گئے۔
اب چدائی پارٹی میں آخری تین کھلاڑی بچے تھے جن میں سے عافی تو بہت نڈال ہو چکی لیکن اپنے بہنوئی یعنی میرے لن کی منتظر تھی اور سحر کی آنکھیں بھی نشے سے بند ہو رہی تھیں آج افتخار، قمر بھائی اور زاہد خالو نے دونوں کوبھی خوب چودا تھا اس لیے دونوں کی پھدیاں سوجی ہوئی تھیں اور مجھے سحر کی چوت میں لوڑا گھساتے ہوئے بہت دقت محسوس ہو رہی تھی اور اسے بھی درد ہو رہا تھا۔ کہ عافی نے اپنے اور میرے منہ سے تھوک لے کر میرے لوڑے پر لگایا اور کچھ سحر نے اپنا تھوک اپنی چوت پر لگایا اور اور دھکم پیل کر کے میں نے اپنا نو انچ لمبا اور ساڑھے پانچ انچ موٹا لوڑا اس کی چوت میں بالآخر ڈال ہی دیا۔ اب میں سحر کو چود رہا تھا اور عافی سحر کی چوت سحر کے منہ پر تھی جسے وہ چاٹ رہی تھی اور عافی کا منہ میرے منہ میں تھا اور ہم تینوں کی آوازیں کمرے میں گونج رہی تھیں۔ تھوڑی دیر بعد سحر نے کہا کہ حامی میری جان اب اپنی سالی اور میری بہن عافی کو میرے سامنے چودو تا کہ مجھے بھی پتہ چلے کہ میرا ہونے والاشوہر اپنی سالی سے کتنا پیار کرتاہے۔ چنانچہ میں نے کہا کہ نوکر کیا اور نخرہ کیا اور عافی کو سحر کے اوپر ہی کتیا بنا کر ڈوگی سٹائل میں اپنا لوڑا سحر کی پھدیا سے نکالا اور عافی کی پیاری سی تنگ چوت میں ڈالنے کی کوشش کرنے لگا۔
اور سحر عافی اور میری مشترکہ کوششوں نے بالآخر عافی کی تنگ چوت کو سر کر ہی لیا اور میرا موٹا لمبا لوڑا عافی کی چوت میں داخل ہو گیا۔ میں نے آہستہ آہستہ اسے چودنا شروع کیا اور ساتھ اس کے منہ میں منہ ڈال دیا۔ ایسا لگ رہا تھا کہ پہلی بار عافی کو چود رہاہوں۔ کیونکہ اس کی چوت کو تین مردوں نے مار مار کر اچھا خاصا سُجا دیا تھا جس سے مجھے اپنا لوڑا آزادی سے اندر باہر کرنے میں دشواری ضرور ہو رہی تھی لیکن سوجی ہوئی پھدی میں لن ڈال کر رواں کرنے تک بہت ہی زیادہ مزہ آ رہا تھا۔ تھوڑی تھوڑی دیر بعد سحر اپنی بہن کی پھدیا میں سے میرا لن نکال کر اس پر تھوک لگا رہی تھی جس سے لن آسانی سے اندر باہر ہو رہا تھا۔ عافی اب بہت تھک چکی تھی اس لیے میں نے اس کی چوت سے اپنا لوڑا نکالا اور سحر کی چوت میں ڈال دیا۔ ہم دونوں بے تحاشا کسنگ کر رہے تھے اور ساتھ ساتھ دھؤاں دار قسم کی چدائی جاری تھی۔ عافی اب آرام سے ہمارے ساتھ ہی سو رہی تھی۔ کوئی ایک گھنٹے کے بعد میں نے دیکھا کہ نگو آنٹی اندر آئیں اور ہم دونوں کو پیار سے چمکارتے ہوئے بولیں کہ واہ کیا بات ہے میرے داماد کی ابھی تک میری بیٹیوں کی دھلائی کر رہا ہے۔ یہ کہتے ہوئے انہوں نے مجھے ایک لمبی فرنچ کس دی جس سے میرا جوش بڑھ گیا اور میں نے سحر کی پھدی سے اپنا لن نکال کر نگو آنٹی کے منہ میں دے دیا اور ساتھ ہی سحر نے اپنی امی کی شلوار اتار دی اور میں نے آؤ دیکھا نہ تاؤ ان کی گانڈ میں تھوک لگا کر ان کی گانڈ میں اپنا لوڑا ڈال دیا جسے انہوں نے آسانی سے اپنی گانڈ میں سما لیا۔ اب میں نے زور زور کے جھٹکے مارنے شروع کر دیئےسحر نے میرے اندر باہر ہوتے ہوئے لن پر تھوکنا شروع کیا اور پھر اپنی ماں کے منہ سے بھی کچھ تھوک لے کر میرے لوڑے پر مل دیا جس سے لوڑے کے لیے اندر باہر ہونے میں آسانی ہونے لگی۔ آنٹی نگو اونچی اونچی چلا رہی تھی کہ مار اپنی ساس کی پھدی، میرے پیارے داماد اپنی ساس کی گانڈ پھاڑ دے، اپنی بیوی اور سالیوں کو بھی چود تجھے آزادی ہے ہم چاروں تیرے لیے ہی بنی ہیں، ہماری پھدیاں اور گانڈیں چود چود کر نڈھال کر دے۔۔۔۔۔ وہ چلا رہی تھیں اور عافی تو بے چاری تھک کر چور ہو چکی تھی اس لیے وہ چدائی سے بے خبر گہری نیند کی آغوش میں جا چکی تھی اور سحر اپنی والدہ کو اپنے ہونے والے خاوند سے چدوا رہی تھی۔ میں نے بھی نگو آنٹی مزید زور اور مزے سے چودرہا تھا اور ادھر کبھی سحر اور کبھی نگو آنٹی کے منہ میں منہ ڈال رہا تھا۔ ہم تینوں مزے کی انتہا پر تھے اور اب میرا بھی وقت ہو گیا تھا اور نگو آنٹی چونکہ تجربہ کار عورت تھی اسے معلوم ہو گیا کہ ان کا داماد اپنا مادہ نکالنے والا ہے تو انہوں نے کہا کہ میرے اندر نہ نکالنا میں تمہارا مادہ کھانا چاہتی ہوں اس لیے میرے منہ میں نکالنا۔ میں نے کہا کہ جی میری پیاری ساسو ماں ایسا ہی کروں گا۔ سحر بولی کہ میرے پیارے شوہرحامی حرامی جی اپنی اس قیمتی دولت سے مجھے بھی حصہ دینا، میں نے کہا کہ اچھا زانی ماں کی گشتی بیٹی صاحبہ آپ اپنی والدہ کے منہ سے جتنا حصہ چاہے لے لینا اور یہ کہتے ہوئے مجھے اتنا جوش آیا کہ میں نے دو تین گھسے زور زور سے آنٹی نگو کی گانڈ میں مارے اور لوڑا نکال کر ساتھ لیٹی ہوئی سحر کی پھدی میں ڈال دیا اور نگو آنٹی سے کہا کہ اپنا منہ اپنی بیٹی کی پھدیا کے قریب لائیں تا کہ میں آپ کے منہ میں اپنی دولتِ مشترکہ ڈال سکوں۔ جیسے ہی نگو آنٹی نے اپنا منہ سحر کی پھدیا کے قریب کیا میں نے اپنا لن ایک بار سحر کی پھدی سے نکال کر سار ااس کی پھدی میں دوبارہ جڑ تک ڈال دیا اور پھر نکال کر نگوآنٹی کے منہ میں ڈال کر پچکاریاں مارنی شروع کر دیں کوئی ڈیڑھ منٹ میرا لوڑا نگو آنٹی کے منہ میں پچکاریاں مارتا رہا جب اسے سکون ہو گیا تو ڈھیلا لوڑا ان کے منہ سے باہر کھینچ کر سحر کے منہ میں ڈال دیا اور سحر مزے لے لے کر میرا لوڑا چاٹنے لگی اس نے میرا لوڑا منہ سے صاف کر دیا تھا اور میں ساتھ لیٹی ہوئی اپنی سالی عافی کو جپھی ڈال کر لیٹ گیا اور اب نظارہ کرنے لگا کہ دونوں ماں بیٹی دیکھیں میری منی کے ساتھ کیا کرتی ہیں نگو آنٹی کے منہ سے دونوں طرف میری منی بہہ رہی تھی جسے سحر چاٹنے میں مصروف تھی اور دونوں کے ہاتھ ایک دوسرے کے مموں پر تھے اور دونوں میری منی چاٹنے اور ضائع ہونے سے بچانے کی بھرپور کوشش میں جُٹی ہوئی تھیں۔ یہ نظارہ دیکھتے دیکھتے میں نے عافی کو کس کیا اور آنکھیں بند کر کے نیند کی وادی میں اتر گیا۔
رات تو گزر چکی تھی اور ساری رات ہی چدائی پارٹی چلتی رہی جس کی وجہ سے سبھی تھکے ہوئے اور چور چور تھے اس لیے سبھی سو رہے تھے۔ میں نے بھی آفس سے رخصت لے لی ہوئی تھی اس لیے سو رہا تھا اور مجھے عافی کی کسنگ نے جگایا وہ مجھے بے تحاشا چوم رہی تھی۔ نگو آنٹی زاہد کے ساتھ جا کر ایک بار پھر واپس آئی تھیں اور مجھ سے گانڈ مروا کر دوبارہ زاہد کے ساتھ اس کے گھر چلی گئی تھیں۔ میرے کمرے میں اب میں میری ہونے والی بیوی سحر اور عافی تینوں ہی سوئے ہوئے تھے۔اب عافی جو جاگ چکی تھی مجھے بیڈ کافی پلانے کی بجائے بیڈ کسنگ دے رہی تھی جس کا مجھے لامحالہ مزہ آ رہا تھا کیونکہ اس کے منہ سے اُٹھنے والی بھینی بھینی خوشبو کا تو میں دیوانہ تھا۔ ادھر میری بیوی ننگی ہی بے سدھ پڑی تھی میں نے عافی سے کہا کہ بیڈ سے اتر کر صوفے پر چلتے ہیں اور سحر کو آرام کرنے دیتے ہیں۔ چنانچہ میں عافی کو گود میں اٹھا کر صوفے پر لے گیااور ہم باہم لپٹ کر کسنگ کرنے لگے کپڑوں کی قید سے تو ہم دونوں ہی آزاد تھے اس لیے میرا لوڑا کھڑا ہونے کا علم تو عافی کو ہو ہی چکا تھا۔ لوڑے کے الارم پر عافی نے کسنگ چھوڑ لوڑے کو منہ میں لینے کو ترجیح دی میں نے بھی اس کی پھدی کو چاٹنا شروع کر دیا پھدی چاٹتے ہوئے میں نے اپنا تھوک اس کی پھدی میں ڈالنا شروع کیا تا کہ اس کی پھدی کی تنگ موری میں میرا لمبا موٹا لوڑا آسانی سے گھس سکے۔ اب اس کی پھدیا کچھ اپنے اندر سے نکلنے والے پانی کی وجہ سے اور کچھ میرے تھوک کی وجہ سے چپ چپانے لگی اور اس کی پھدی کا دانہ بھی موٹا ہو کر چمکنے لگا اب تک وہ دو تین مرتبہ ڈسچارج ہو چکی تھی اور اپنا پانی نکال کر میرے منہ میں انڈیل چکی تھی۔ادھر وہ میرے لوڑے سے نکلنے والے نمکین پانی سے لطف اندوز ہو رہی تھی اور میرا لوڑا اب مکمل تن چکا تھا۔ میری سالی عافی نے اک منٹ بھی نہیں لگایا اور دھپ سے میرے اوپر لیٹ گئی اور میرے منہ میں منہ ڈال کر میرا لوڑا پکڑا اور اپنی تنگ اور جوان پھدیا پر سیٹ کیا اور پوری قوت کے ساتھ اپنی پھدی میں ڈال کر اوپر نیچے ہونے لگی۔اب میرا لوڑا مکمل طورپر اس کی پھدی کی حراست میں تھا اور وہ کبھی اسے آزادی دیتی اور پھر قید کر لیتی اسی طرح مسلسل پندرہ منٹ وہ میرے اوپر لیٹی مجھے چودتی رہی اور پھر میں نے اسے اٹھا لیا اور کھڑے ہو کر اس کی بجانے لگا۔ وہ بھی اتاولی ہو کر چدوا رہی تھی اور مست ہو چکی تھی۔ کوئی پانچ منٹ بعد میں نے اسے کہا کہ میری سالی میری کتیا بن میں تجھے کتا بن کر چودوں لیکن وہ کہنے لگی کہ بہنوئی صاحب آپ یہ نہ کہیں کہ آپ کتا بن کر مجھے چودیں گے بلکہ مجھے تو لگ رہا ہے کہ جیسے ایک گدھا کسی کتیا کو چودے گا۔ میں نے کہا ایسے ہی سمجھ لو تو بن جاؤ میری کتیا۔ عافی کتیا بن گئی اور میں اس کا گدھا بن کر پیچھے آ گیا اور اس کی تنگ چھوٹی سی پھدیا میں پہلے تھوکا اور پھر لوڑا ڈال کر دھکے پر دھکا دینے لگا وہ بھی چلانے لگی کہ پیارے بہنوئی اپنے لمبے اور موٹے لوڑے سے اپنی سالی کی پھدیا کو بجاؤ۔۔۔۔۔ آآآآآآہ۔۔۔۔ اووووووووووہ۔۔۔۔۔ خوب بجاؤ بہنوئی صاحب۔۔۔۔۔ میں نے کہا کہ ابھی تو میری ایک سالی رہتی ہے بہن چود جسے میں نے سہاگ رات کے لیے بچا کر رکھا ہوا ہے۔۔۔۔ یہی باتیں کرتے کرتے میں نے عافی سے کہا کہ میں نے رات کو تیری ماں کی گانڈ ماری تھی تو کیا تو اپنی گانڈ اپنے بہنوئی سے مروانا پسند کرے گی؟ تو عافی کہنے لگی کہ میرے خالو نے میری گانڈ ماری تھی تو میرے بہنوئی صاحب کا بھی حق کیا فرض ہے کہ میری گانڈ ماریں لیکن آپ کا لوڑا میرے خالو کے لوڑے سے بہت موٹا اور لمبا ہے لیکن میں برداشت کر لوں گی کیونکہ میں اپنے بہنوئی کو ناراض تو نہیں کر سکتی نا!!
میں نے کہا کہ وہ کیوں؟ تو کہنے لگی کہ کہیں آپ میری بہن کو طلاق ہی نہ دے دیں۔ میں نے کہا کہ یہ تو نہیں ہو سکتا میری جان کیونکہ تم سب اب میری ذمہ داری ہو میں تم سب کو خوش رکھنے کا پکا ارادہ کر چکا ہوا ہوں اس لیے تم گانڈ میں لوڑا ڈلواؤ یا نہ ڈلواؤ تمہاری بہن اور تم لوگوں کو کبھی نہ چھوڑوں گا۔ یہ کہتے کہتے میں نے بہت سا تھوک نکال کر اس کی گانڈ کی موری پر لگایا اور اپنی انگلی اس کی گانڈ میں ڈال دی جو آسانی سے اندر چلی گئی پھدی میں دھکے لگاتے لگاتے میں نے اس کی گانڈ پر بھی اپنی انگلی سے کام جاری رکھا پھر دو انگلیاں ڈالیں جو تھوڑی دقت کے بعد اندر باہر ہونے لگیں اور پھر میں اس سے کہا کہ اپنی گانڈ کے لیے کچھ تھوک دو تو اس نے میرے ہاتھ پر تھوک دیا جو میں نے اس کی گانڈ پر لگایا اور کچھ اپنے لوڑے پر اور اس کی گانڈ کی موری پر رکھ کر لوڑا آگے دھکیلنے لگا اسے درد تو ہو رہا تھا لیکن میں نے اس کے ہونٹوں کو اپنے ہونٹوں میں لیا ہوا تھااور ہم دونو ایک دوسرے کے ہونٹ چوس رہے تھے۔ مجھے اس کے ساتھ کسنگ کا بہہت مزہ آتا تھا کیونکہ اس کے اندر سے ایک مدہوش کردینے والی خوش بو اٹھتی تھی جو مجھے اور میرے لوڑے کو پاگل کر دیتی تھی۔ گانڈ میں آرام سے آدھا گھسانے کے بعد میں نے اسے اندر باہر کرنا شروع کر دیا تو درد اور مزے کی وجہ سے عافی میری سالی تو پاگل ہی ہو گئی وہ کتیا بھونکنے لگی کہ میرے گدھےبہنوئی صاحب! اپنی کتیا سالی کی گانڈ میں پورا ڈال کر اندر باہر کرو ورنہ میں تمہیں اپنی بہن سے طلاق دلوا دوں گی۔۔۔۔ نوکر کیا اور نخرہ کیسا؟ میں نے تو زور کا دھکا دھیرے سے لگایا اور لوڑا صاحب کتیا کی گانڈ کے اندر پورا اتار دیا۔ اب تو مزے کی شدت سے سالی چلانے لگی اور میں بھی جکڑے ہوئے لوڑے کی وجہ سے مزے سے بے حال ہو گیا تھا اور اب مجھ سے مزید برداشت نہ ہو رہا تھا کہ میرا لوڑا اس کی گانڈ کی قید میں ہی رہے چنانچہ میں نے دھکے پر دھکا لگانا شروع کیا اور دو تین منٹ میں ہی میں جھڑنے کے قریب پہنچ گیا تو میری کتیا سالی نے بھی میری گشتی ساس کی طرح فرمائش کر ڈالی کہ بھیا میرے منہ میں اپنا قیمتی مال ڈالنا چنانچہ میں نے پوری قوت سے لوڑا جڑ تک اپنی کتیا کی گانڈ میں اتار دیا اور پیچھے سے مزید دھکا لگا دیا تا کہ اچھی طرح میری منی نکلنے کے قریب ہو جائے پھر ایک جھٹکا دے کر سارا لوڑا یک دم نکالا اور اپنی سالی کے منہ کے اندر کر دیا میرا لوڑا اب جھٹکے لے لے کر میری سالی کے منہ میں فارغ ہو رہا تھا جب تک وہ خود ڈھیلا ہو کر اس کے منہ سے ہیں نکلا میں نے اسے اس کے منہ میں دبائے رکھا اور اپنی کتیا سالی کو اس کی زندگی کا بہترین ناشتہ کروا دیا۔ وہ بھی ساری منی نگل گئی۔
عافی کو اس طرح اندھا دھند اور گانڈ میں چودنے کے بعد مجھے بھوک محسوس ہوئی اور میں نے ٹراؤزر پہنا اور فریج سے دہی نکالا اور اس میں دودھ اور ملائی ڈال کر کھانے لگا۔ اتنے میں نجمہ خالہ آ گئیں اور میرے بالوں میں ہاتھ پھیرتے ہوئے کہنے لگیں کہ اٹھ گیا میرا شیر؟ میں نے کہا کہ جی اور اٹھتے ہی اپنی سالی کی چوت اور گانڈ کا شکار بھی کر لیا ہے۔ وہ ہنستے ہوئے کہنے لگیں کہ کھاؤ میرے شیر اور دودھ بھی پیو تا کہ سب کی چوت اور گانڈ کو اپنے لوڑے سے سکون دے سکو کیونکہ ہم سب خواتین تمہارے لوڑے کی دیوانی ہو چکی ہیں۔تمہارے لوڑے جیسے تین چار لوڑے اور تیار ہو رہے ہیں ہمارے گھر میں یعنی تمہاری منی سے پیدا ہونے والے سبھی بچے۔ مجھے لگتاہے کہ ان کے لوڑے بھی تمہارے لوڑے کی طرح زبردست ہوں گے۔ میں نے کہا کہ خالہ یہ تو ہے۔یہ باتیں کرتے کرتے خالہ نے میرے لیے ایک روٹی پکائی اور میں نے دہی کے بعد وہ روٹی کھائی اور اوپر سے ایک کپ دودھ پی لیا تا کہ کھوئی ہوئی انرجی بحال ہو سکے۔ میں کھا پی کر اپنے کمرے کی طرف جانے لگا تو دیکھا کہ سعدیہ بھابھی اور عارفہ بھابھی بھی اپنے کمروں سے نکل کر کچن کی طرف آ رہی ہیں۔ ان کی آنکھوں میں رات والی چدائی پارٹی کا خمار ابھی تک نظر آ رہا تھا۔دونوں نے مجھ سے پیار کیا اور جپھی لگا کر شکریہ بھی ادا کیا میں نے بھی دونوں بھابھیوں کا شکریہ ادا کیا اور دونوں کو سینے سے لگا کر باری باری کس کیا اور کہا کہ میں ذرا نہا کر فریش ہو جاؤں پھر دن کا کوئی پروگرام بناتے ہیں۔ اتنے میں خالہ نجمہ نے کہا کہ نگو کہہ رہی تھی کہ اب حامی اور سحر کی شادی کو پلان کیا جائے۔ چنانچہ ان کی یہ بات سن کر میں نے کہا کہ بالکل ٹھیک ہے لیکن میں نے اور سحر نے یہ پلان کر رکھا ہے کہ پہلے وہ پریگننٹ ہو گی اور اس کے بعد ہماری رخصتی کا سین ہوگا۔ سب نے یک زبان کہا کہ بالکل ٹھیک ہے اور یہ پریگننسی بھی ہمارے سامنے ہو گی۔میں نے کہا جی بالکل اب تک جو کچھ ہوا ہے سب کے سامنے ہوا ہے یہ بھی سب کے سامنے ہو گا فکر نہ کریں۔ یہ کہہ کر میں اپنے روم میں چلا گیا جہاں عافی اور سحر سو رہی تھیں۔ میں دیکھا کہ سحر بیڈ پر موجود نہ تھی اور عافی گھوڑے گدھے بیچ کر بے سدھ پڑی تھی۔ میں نے دیکھا کہ سحر باتھ روم میں ہے کیونکہ پانی گرنے کی آوازیں آ رہی تھیں تو میں سیدھا باتھ روم میں چلا گیا جہاں سحر باتھ ٹب میں لیٹی ہوئی گرم پانی میں خود کو ٹکور کر رہی تھی کیونکہ رات کو چار مردوں نے اس کی اندھا دھند چدائی کی تھی اب وہ سب کی باس اپنے بدن سے اتار رہی تھی کیونکہ اس کے جسم پر جگہ جگہ سب بھائیوں کی اور اس کے خالو کی منی لگی ہوئی تھی میں نے آؤ دیکھا نہ تاؤ اور ٹراؤزر اتار کر باتھ ٹب میں جا گھسا ہم دونوں ایک دوسرے سے لپٹ گئے اور کسنگ کا ایک طویل دور چلا میں نے سحر کو بتایا کہ نجمہ خالہ نے الٹی میٹم دے دیا ہے کہ اب حامی اور سحر کی شادی کر دی جائے تا کہ ان کے بھی بچے ہوں اور سب ہنسی خوشی زندگی کی دوڑ میں بھاگیں۔ تو سحر کہنے لگی کہ اس کا مطلب ہے کہ ایک تو میرے پریگننٹ ہونے کا وقت آ گیا اور دوسرے عارفین کی سیل ٹوٹنے کا وقت آ گیا ہے۔ میں نے کہا کہ ہاں اور پھر اسے بتایا کہ کس طرح رات کو میں نے عارفین کو چاٹا اور اس نے میرا لوڑا چوسا لیکن ابھی اندر نہیں کیا کیونکہ میں وعدہ کے مطابق سہاگ رات اس کے ساتھ مناؤں گا تا کہ میں یہ نہ کہہ سکوں کہ سہاگ رات کو میں نے کوئی سیل نہیں توڑی۔ سحر کہنے لگی تو پھر سنیں کہ مجھے دو تین دن بعد مینسز آ جائیں گے اور مینسز کے بعد کے تین چار دن پریگننسی کے لیے بہترین ہوتے ہیں تو کیوں نہ اسی مہینے ہم یہ اناؤنس کر دیں اور کوشش کریں کہ مجھے پریگننسی ہو جائے۔ میں نے کہا ٹھیک پھر ہم نے وہیں ٹب میں چدائی کی ایک لمبی بازی لگائی اور پھر سحر کہنے لگی کہ بھوک سے اب میری جان نکل رہی ہے اس لیے میں تو چلی۔ میں بھی باہر نکلا اور اپنے بیڈ پر لیٹ گیا۔ اس دن ہم نے سب کو بتا دیا کہ اس ماہ ہم کوشش کریں گے کہ سحر پریگننٹ ہو جائے اور اگر اس ماہ پریگننسی ہو گئی تو اگلے ماہ رخصتی ہو گی۔ یہ سن کر سبھی بہت خوش ہوئے اور سب نے ایک دوسرے کو مبارک باد دی اور گلے لگ لگ کے سحر کو سب نے پیار کیا اور مجھے بھی پیار کیا اور دونوں کے لیے اچھی تمناؤں کا اظہار کیا اور آباد ہونے کی دعا دی۔ بھابھیاں کہنے لگیں کہ جس طرح تم نے ہمارے گھر آباد کیے ہیں تمہارا گھر بھی آباد ہو اور آباد رہے۔ میں نے سب کا شکریہ ادا کیا اور سب اپنے اپنے کاموں پر لگ گئے۔
تین چار دن بعد ہی سحر کو مینسز آ گئے نگو آنٹی اور جگنی خالہ کو بھی بتا دیا گیا کہ اب سحر کے پریگننٹ ہونے کی باری ہے اور اس کے بعد رخصتی ہو گی۔جگنی خالہ اور زاہد خالو بھی بہت خوش تھے کیونکہ انہیں معلوم تھا کہ یہ پریگننسی سب کی موجودگی میں ہو گی اور ان ایام میں سحر کو حامی کے علاوہ کوئی نہیں چود پائے گا لیکن بشمول عافی باقی سب لڑکیاں تو سب لڑکوں سے چدنے والی تھیں ۔ خیر میں نے اب سحر کے مینسز والے ایام میں کسی کو بھی نہیں چودا تا کہ میرے سپرم زیادہ سے زیادہ جمع ہو جائیں اور سحر کو پریگننسی ہو سکے۔ میں نے چلغوزے،بادام، اخروٹ اور موصلی سفید اور سیاہ نیز ثعلب مصری کا ایک مرکب بنایا اور ایک چمچ صبح اور ایک شام کو دودھ کے ساتھ استعمال کرنے لگا تاکہ منی مزید گاڑھی ہو جائے اور اسی مہینے سحر پریگننٹ ہو جائے کیونکہ اب مجھ سے عارفین کو دیکھ کر مزید انتظار نہیں ہوتا تھا اور یہ بھی خطرہ تھا کہ کہیں عارفین گرم ہو کر کسی اور سے نہ چدوا بیٹھے یا خالو زاہد پر جنون ہو گیا تا پھر کیا ہو گا وغیرہ وغیرہ۔
بڑے انتظار کے بعد آخر وہ گھڑی آ ہی گئی جس کا انتظار تھا اور میں نے سحر سے کہا کہ تم نہا دھو کر فارغ ہو جاؤ لیکن اپنی چوت پر بال صاف نہ کرنا کیونکہ مجھے بالوں والی چوت زیادہ پسند ہے یہی بات میں نے عارفین سے کہہ دی کہ وہ بھی اب چوت کے بال صاف نہ کرے کیونکہ مہینے بعد اگر اس کے ساتھ سہاگ رات منانی پڑی تو میں اپنی پسندیدہ چوت بالوں کے ساتھ چاٹنا اور پھاڑنا چاہوں گا۔ میری اس خواہش کو عجیب سمجھا گیا لیکن سب نے میری بات مان لی اور وعدہ کر لیا کہ اب وہ دونوں بہنیں چوت پر سے بال صاف نہیں کریں گی۔جس دن سحر نہائی اس رات کو میں اسےاور عافی کو اپنے گھر اپنے کمرے میں لے گیا۔ میں نے جو تیاری کی ہوئی تھی اس کے لیے ضروری تھا کہ میں فل ایکشن پروگرام کرتا اور عافی کو اس لیے ساتھ لیا تھا کہ ایک بار سحر کی یوٹرس میں منی ڈالنے کے بعد رات کو اگر پھدی مارنے کو دوبارہ میرا دل کرے تو سحر پر ٹائم لگانے کی بجائے عافی پر ٹائم لگا لوں اور اس کی گانڈ مار لوں گا اور منی پھر آرام سے سحر کی چوت میں گرا دوں گا تا کہ اس کے اندر ڈالی ہوئی منی دوسری بار چوت مارنے کی وجہ سے ضائع نہ ہو جائے کیونکہ میں ہر حال میں چاہتا تھا کہ اسی مہینے سحر پریگننٹ ہو جائے۔ چنانچہ رات کو ہم نے ہلکا پھلکا کھانا کھایا اور ہم تینوں اور سعدیہ بھابھی اور عارفہ بھابھی ایک لمبی واک کے لیے نکلے اور رستے میں آئس کریم کھائی اور واپس آ گئے۔ واپس آ کر دونوں بھابھیوں نے سحر اور مجھے مبارک باد دی اور اپنی تمنا کا اظہار کیا کہ اسی ماہ پریگننسی ہو جائے۔ پھر عافی کو نصیحت کی کہ اپنی بہن اور بہنوئی کااچھی طرح خیال رکھنا۔ یوں ہم اپنے روم میں آ گئے۔ روم کو لاک کرنے کی ضرورت ہی نہیں تھی کیونکہ سبھی جانتے تھے اور کسی کا کسی سے کوئی پردہ بھی نہیں تھا۔ہم تینوں بیڈ تک پہنچتے پہنچتے کپڑوں کی قید سے آزاد ہو چکے تھے۔ سحر اور عافی کی بالوں بھری چوتیں میری دسترس میں تھیں۔ ہم تینوں ایک دوسرے سے لپٹے لپٹے اور ایک دوسرے کے منہ سے منہ لگائے بیڈ پر لیٹ گئے اور پھر میں نے عافی کے منہ میں منہ ڈال دیا اور اس کے 34 کے مموں سے کھیلنے لگا۔ سحر سمجھ گئی کہ اسے میرا لوڑا چوسنا ہے جو پہلے ہی سخت تنا ہوا تھا۔ سو سحر نے میرا لوڑا چوسنا شروع کر دیا میں اور عافی اس وقت منہ میں منہ ڈالے مزہ کر رہے تھے۔ مجھے کسنگ کرنے کا سب سے زیادہ مزہ عافی کے ساتھ آتا تھا اور اس کے بعد عارفین کے ساتھ آیا تھا لیکن وہ اس کے بعد میری سہاگ رات منانے والی تھی ابھی تو عافی اور سحر کا وقت تھا اور ہماری کوشش تھی کہ سحر اس ماہ پریگننٹ ہو جائے۔ہم تینوں ایک دوسرے کے نشے میں مدہوش ہو گئے اور پتہ ہی نہیں چلا جب عافی نے میرا لوڑا اپنی چوت میں ڈال لیا اور میرے اوپر بیٹھے بیٹھے آرام آرام سے لن کو اندر باہر کرنے لگی۔ سحر نے میرے منہ میں منہ ڈال دیا اور عافی کے منہ کو اپنی چوت لگا دی جسے وہ خوشی خوشی چاٹنے لگی۔اب سحر میرے اوپر لیٹی تھی اور میرا لوڑا اس کی چوت میں اندر باہر چل رہا تھا جبکہ سحر کی میرے منہ پر بیٹھی تھی اور میں اور عافی اس کی چوت چاٹ رہے تھے۔ اچانک عافی نے پینترہ بدلا اور میرا لوڑا اپنی چوت سے نکال کر اپنی گانڈ میں ڈال لیا مجھے ایسا لگا کہ میرا لوڑا عام حوالات سے کال کوٹھڑی میں منتقل کر دیا گیا ہو۔ اب عافی نے آرام آرام سے میرا لوڑا جڑ تک اپنی گانڈ میں لے لیا تھا اور میں مزے کے ساتویں آسمان پر اڑ رہا تھااور ادھر سحرمیرے منہ میں منہ ڈال چکی تھی اور ساتھ ساتھ کہہ رہی تھی کہ میری جان میرے سرتاج آج مجھے پریگننٹ کر دیں۔۔۔۔ تاکہ میں اپنی بہنوں کے لیے آپ جیسا ایک اور لوڑے والا جوان پیدا کر سکوں۔۔۔ میں نے کہا کہ سعدیہ اورعارفہ بھابھی کے دو دو بیٹے ہیں جن کے لوڑے تیار ہو رہے ہیں چند سال میں دیکھنا وہ بھی تم سب کی چوتوں اور گانڈوں میں جانا شروع ہو جائیں گے۔۔۔۔ میرے بیٹوں کے لوڑے بھی تم سب کی گانڈ اور چوت میں جایا کریں گے۔۔۔۔ سحر کہنے لگی کہ میں تو اپنے بیٹے کا لیا کروں گی۔۔۔ میں نے کہا کہ بیٹے پر سب سے پہلا حق اس کی والدہ کا ہی ہوتا ہے جیسا کہ میری ماں سمان خالہ نے میرے لوڑے پر قبضہ کر لیااور پھر اپنی دونوں بہوؤں کی چوتوں اور گانڈوں کی بھی سیر کروا دی۔۔۔۔ پھر تمہاری امی نگو آنٹی کی پھدی بھی میں نے ماری اور جگنی آنٹی کو بھی ماں بننے میں مدد دی۔۔۔۔ تمہاری اور عافی کی بھی میں نے ہی سیل توڑی اور اب میری سب سے لاڈلی اور چھوٹی سالی عارفین کی تنگ اور چھوٹی سی چوت کی سیل توڑنا باقی رہ گئی ہے بس اس کی بھی اگلے ماہ کسی رات کو سہاگ رات منائی جائے گی۔۔۔ بس تمہارے پریگننٹ ہونے کی دیر ہے کہ اس کا بھی کھاتہ اپنے اس لوڑے سے کھول دوں گا۔۔۔۔
ہم یہ باتیں کر رہے تھے کہ عافی نے اپنی گانڈ سے میرا لوڑا نکال کر چوپا لگانا شروع کر دیا۔۔۔۔ میں نے سحر سے کہا کہ آؤ میری پیاری ہونے والے پیاری بیوی۔۔۔۔ اب تمہاری چوت کی بار ہے۔۔۔۔ یہ کہہ کر میں نے سحر کو لٹا لیا اور بڑے آرام سے اس کی پھدی میں عافی کی چوت اور گانڈ سے نکلنے کے بعد اس کی تھوک میں لتھڑا ہوا لوڑاسحر کی چوت میں ڈال دیا۔ میں نے بہت ہی آرام کے ساتھ لوڑا آہستہ آہستہ اندر کیا اور پھر اندر باہر کرنا شروع کر دیا۔۔۔۔ عافی نے میرے ٹٹے چوسنے شروع کر دیئے تھے اور جب میرا لوڑا سحر کی پھدیا سے باہر آتا اس پر بھی زبان پھیر دیتی۔۔۔ میرا لوڑا مکمل تنا ہوا تھا۔۔جیسے ہی پورا لوڑا سحر کی پھدیا میں گھسا سحر کی پھدیا نے پانی چھوڑ دیا اور اب تک وہ کئی بار ڈسچارج ہو چکی ہوئی تھی۔۔۔ اب وہ مکمل ہو چکی تھی اور میں بھی عافی کی گرم گانڈ میں قریب قریب تھا لیکن ڈسچارج نہیں ہوا تھا اب میں بھی اپنی جمع شدہ منی سحر کی چوت میں موجود یوٹرس میں ڈالنے کو تیار تھا سو میں نے دونوں بہنوں کو الرٹ کر دیا کہ تیار ہو جاؤ میں پہلا فوارہ اپنی منی کا سحر کی پھدیا میں چلانے لگا ہوں۔ میں نے آرام سے سحر کے پیٹ پر ہاتھ رکھا، لوڑا باہر نکالا، اسی طرح پیٹ پر ہاتھ رکھے رکھے دباؤ تھوڑا سا بڑھا کر لوڑا سیدھا آرام سے پورا اندر کرنے لگا اور جب مجھے لوڑے نے کاشن دے دیا کہ وہ سحر کی یوٹرس کے اندر چلا گیا ہے تو میں نے ہلکے ہلکے انداز میں وہیں کچھ زور لگا کر آگے کو دھکیلتے ہوئے لوڑے کو منی اندر پھینکنے کی اجازت دے دی۔۔۔ ادھر میری سالی عافی نے میرے چوتڑوں پر اپنے دونوں ہاتھ رکھے اور آگے کو دھکیلنے لگی تو کہ میرا لوڑا مکمل طورپر جڑ تک اس کی بہن کی پھدی میں اتر جائے اور ایک چھوٹا سا ننھا قطرہ بھی باہر نہ رہ جائے۔۔۔ عافی نے بھی دبا کے رکھا اور خود میں نے بھی دبا کر رکھا حتی کہ میرا لوڑا سکڑ کر خود بخود باہر پھسل گیا کیونکہ سحر کی چوت میں بہت زیادہ پھسلن ہو چکی تھی۔ میرا لوڑا باہر نکلا تو عافی نے اسے چاٹنا شروع کر دیا۔ میں تو جیسے نڈھال ہو چکا تھا اس لیے میری آنکھیں بند ہونے لگیں بس میں اتنا دیکھ سکا کہ میرے روم کا دروازہ کھلا اور اس میں سے افتخار بھائی اپنے چہرے پر شیطانی مسکراہٹ سجائے اندر آ رہے تھے۔ یقیناً ان کی نظر میری سالی عافی پر تھی لیکن مجھے کوئی اعتراض نہ تھا۔ مجھے معلوم تھا کہ عافی خود ہی ان سے نمٹ لے گی۔
میں جب جاگا تو دیکھا کہ افتخار بھائی اور عافی دونوں اندھا دھند چدائی لگا رہے تھے، عافی بھی بھرپور انجوائے کر رہی تھی۔۔۔ کتیا بن کر افتخار بھائی سے چدوا رہی تھی اور میرا لوڑا اس کے منہ میں تھا۔۔۔ اس نے میرا لوڑا کھڑا کر لیا ہوا تھا اور سختی سے تنا ہوا میرا لن اب اس کے ہاتھوں اور منہ کا شکار بنا ہوا تھا جبکہ افتخار بھائی کا مناسب سے سائز کا لوڑا اس کی چوت میں تھا۔ میں نے لیٹے لیٹے عافی کو اپنے اوپر کیا اور نیچے سے اس کی چوت میں لوڑا گھسانے لگا اور افتخار بھائی سے کہا کہ آپ بھی اس کتیا کی پھدیا میں اپنا لن ڈالے رکھیں کیونکہ میں اب چاہتا تھا کہ دو لوڑے ایک ہی وقت میں میری سالی کی پھدیا کی گرمی دور کریں۔۔۔چنانچہ افتخار بھائی نے میری بات مانی اور عافی بھی بہت پرجوش ہو گئی اور اس طرح میں نے نیچے سے عافی کی پھدیا میں اپنا لوڑا ڈال دیا اور پھر افتخار بھائی سے کہا کہ آپ بھی ڈالیں تھوڑی سی تگ و دو کے بعد افتخار بھائی کا لوڑا بھی عافی کی پھدی میں اتر گیا اور پھر دھپ دھپ کی آوازیں شدت اختیار کرگئیں ساتھ ساتھ عافی کی پرجوش آوازیں بھی اونچی ہو گئی تھی۔ تھوڑی دیر بعد سعدی بھابھی بھی آگئیں اور کہنے لگیں کہ میں بھی کہوں کہ کہ افتی کہاں چلا گیا ہے۔۔۔۔ تو یہ حرامی یہاں مزے کر رہا ہے۔۔۔۔ اتنا کہہ کر سعدیہ بھابھی بھی ننگی ہو کر سیدھی میرے پاس آئی اور میرے منہ میں اپنا مما ڈال دیا اور افتخار سے کہنے لگی کہ بہن چود یہ دیکھو میں بھی اپنے دیور سے چدواتی ہوں تیرے سامنے۔۔۔ تو افتخار بھائی نے اپنی بیوی کے چوتڑ پر تھپڑ مارتے ہوئے کہا کہ اچھی بات ہے نا ہر ایک سے چدوا کیونکہ چوت چدوانے کے لیے ہی بنی ہے اور لوڑا چودنے کے لیے۔۔۔ میں تو کہتا ہوں کہ تمہارے بڑے بیٹے کا لوڑا بھی اب تیار ہے اس سے بھی میرے سامنے چدوا اب۔۔۔۔ اور اپنی ان بھانجیوں کو بھی چدوا۔۔۔۔ سعدیہ بھابھی تو بہت گرم ہو گئی اور اس نے آؤ دیکھا نہ تاؤ میرا لوڑا عافی کی پھدیا سے بار کھینچا اور اس پر بیٹھ گئی بھابھی کے 38 کے ممے اچھل کود کرنے لگے اور بھابھی دو منٹ کی اندھا دھند چدائی سے بری طرح جھڑ گئی۔ پھر سعدیہ بھابھی نے میرے لوڑے پر تھوک لگایا اور اپنی گانڈ میں ڈال لیا اور لگی شور مچانے کہ ہائے میرے دیور نے میری گانڈ پھاڑ دی۔۔۔۔ ہائے ایسا ظالم دیور ہے کہ ذرا بھی ترس نہیں کھاتا نہ اپنی بھابھیوں پر نہ اپنی خالہ پر نہ اپنی ساس پر اور نہ اپنی سالیوں پر۔۔۔ ہائے بہن چود دیور اپنی باجی کو چود۔۔۔۔ چود دے اپنی باجی کو۔۔۔۔ پھاڑ دے اپنی باجی کی گانڈ۔۔۔۔ پتہ نہیں سعدیہ بھابھی کو اتنا جوش کیسے اور کیوں چڑھ گیا وہ شور مچاتی میرے لوڑے پر اپنی گانڈ کا دباؤ بڑھاتی چلی گئی۔۔۔۔ میں نے بھی اب عافی کو چھوڑ کر بھابھی سعدیہ کو پکڑ لیا اور افتخار بھائی سے کہا کہ آؤ میرے بے غیرت بھائی اپنی بیوی کی گانڈ میں دوسرا اپنا لوڑا ڈالو اگر ہمت ہے ۔۔ افتخار بھائی نے بھی عافی کو چھوڑا اور اپنی بیوی سعدیہ کی گانڈ میں میرے لوڑے کے ساتھ اپنا لوڑا گھسانے کی کوشش کرنے لگا۔۔۔ عافی نے اپنا تھوک اپنے انکل افتخار کے لوڑے پر لگایا اور سعدیہ بھابھی کی گانڈ میں اس کے خاوند کا لوڑا گھسانے میں مدد کرنے لگی جبکہ میرا لوڑا پہلے ہی سعدیہ بھابھی کی گانڈ میں پھنسا ہوا تھا تھوڑی دیر کی کوشش کے بعد بالآخر افتخار بھائی کا لوڑا بھی ان کی بیوی سعدیہ کی گانڈ میں چلا ہی گیا لیکن دو تین گھسے مارنے کے بعد ہی افتخار بھائی کی اپنی گانڈ کی چیخیں نکل گئی کیونکہ گانڈ تو چوت سے تنگ اور بہہہت زیادہ گرم ہوتی ہے اس لیے افتخار بھائی برداشت نہ کر پائے اور اندر ہی فوارہ چھوڑ دیا جس سے گانڈ چکنی ہو گئی اور میرا لوڑا آسانی سے سعدیہ بھابھی کی گانڈ میں اندر باہر ہونے لگا۔ تھوڑی دیر بعد ہی میں نے اپنا لن نکالا اسے اچھی طرح وائپ سے صاف کیا اور پھر سحر کی پھدی میں ڈال کر آرام سے ساری منی اس کی یوٹرس میں انڈیل دی۔
اب مجھے بھوک لگ رہی تھی اور میں سعدیہ بھابھی اور افتخار بھائی سے کہا کہ وہ اب اپنے روم میں چلے جائیں اور سحر اور عافی کو آرام کرنے دیں۔ عافی بھی گانڈ اور چوت مروا مروا کر تھک چکی تھی۔ لیکن گرمی ابھی بھی اس کی دور نہیں ہو رہی تھی۔خیر ابھی تھک کر عافی بے سدھ پڑی تھی اور افتخار بھائی سعدیہ بھابھی کو لے کر روم سے باہر نکل گئے میں نے بھی ٹراؤزر پہنا اور کچن کا رخ کیا۔
سحر کو مینسز نہائے آج پانچواں دن تھا اور پانچ دن سے مسلسل میں اس کی یوٹرس میں اپنی منی ڈال رہا تھا اور اب مجھے تسلی ہو گئی تھی کہ اسی کوشش میں سحر حاملہ ہو جائے گی اور اگلے ڈیڑھ دو ماہ میں جب اس کا ریزلٹ آ جائے گا تو رخصتی رکھی جائے گی۔ گھر میں میری اور سحر کی شادی کی تیاریاں شروع ہو گئیں۔ بچے سب سے زیادہ خوش تھے کہ ماموں کی شادی ہو رہی ہے۔ بھابھیاں بھی چہکتی پھر رہی تھیں۔ میں نے نگو آنٹی سے کہا کہ عارفین کا خاص خیال رکھیں کیونکہ مجھے زاہد خالو کی طرف سے اندیشہ تھا کہ وہ ضرور عارفین کو چودنے کی گھٹیا کوشش کریں گے۔ ادھر میں نے عارفین سے بھی کہہ دیا کہ یاد رکھنا اگر تم میری سہاگ رات تک کنواری سیل بند نہ رہیں تو میں تمہاری بہن کو چھوڑ دوں گا اس لیے اپنی سیل کسی اور سے نہ تڑوانا۔ عارفین نے کہا کہ پیارے بھیا! یہ ممکن ہی نہیں کہ آپ کے میری سیل توڑ دینے کے بعد بھی میں کسی اور کو چوت کا مزہ دوں میں تو صرف آپ کی اور پھر اپنے خاوند کی رہوں گی بس مجھے شوق نہیں ہے کہ میں نت نئے لوڑے اپنی چوت اور گانڈ میں لیتی رہوں۔ میں اس کا یہ جواب سن کر مطمئن ہو گیا۔
سحر میرے پاس پانچ دن گزار کر اپنے گھر چلی گئی اور اب ہم سب اس انتظار میں تھے کہ سحر کی طرف سے کب خوش خبری سننے کو ملے گی۔ خیر اسی طرح ایک مہینہ گزر گیا لیکن سحر کو اگلے ماہ مقررہ تاریخ پر مینسز نہ آئے جس پر سبھی نے خوشی منائی لیکن ابھی یقین نہیں تھا اس لیے سبھی کو مزید انتظار کرنا تھا۔ ادھر جگنی بھی اب آخری دنوں میں تھی اور اس کے ہاں بھی بیٹے کی ولادت ہونے والی تھی اور دن بہ دن اس کا رنگ روپ نشیلا ہوتا جا رہا تھا۔اگلے پندرہ بیس دن گھر میں جشن کا سماں رہا کیونکہ سب کو یقین ہو چکا تھا کہ سحر پریگننٹ ہو چکی ہے۔ سعدیہ اور عارفہ بھابھی تو آتے جاتے مجھے چھیڑتی تھیں اور میں بھی خوش ہو رہا تھا۔ گھر میں ہر وقت چہل پہل رہنے لگی تھی کیونکہ ابھی شادی کی تیاریوں میں مصروف ہو گئے تھے۔ میں نے اپنے لیے کپڑوں اور جوتوں کا انتخاب شروع کر دیا اور خالہ نجمہ کا کہنا تھا کہ یہ شادی بہت ہی دھوم دھام سے ہونی چاہیے کیونکہ اپنی نوعیت کی یہ پہلی شادی تھی۔ میں نے اپنے کمرے کے لیے سحر، عافی، عارفین اور آنٹی نگو کی پسند کا فرنیچر پینٹ اور پردے وغیرہ بنوانے کا آرڈر دے دیا۔ میں چاہتا تھا کہ میری سہاگ رات کا سماں ایک خواب ناک سماں ہو اور میری سہاگ رات نگو آنٹی کی پوری فیملی کے ساتھ ہوجس میں میں اپنی سب سے چھوٹی سالی عارفین کی سیل سب کے سامنے توڑ سکوں۔ اس اعتبار سے یہ ایک انوکھی قسم کی شادی اور سہاگ رات ہونے جا رہی تھی اور میں ان سب انتظامات کو لے کر بہت پُرجوش تھا۔
اسی گہما گہمی میں پندرہ بیس دن مزید گزر گئے اور ایک دن میں نے سحر کو پریگننسی چیک کرنے والی سٹرپ لا کر دی اور کہا کہ چیک کرو جب اگلی صبح اس نے چیک کیا تو سبھی کو خوش خبری سنا دی گئی کہ سحر ماں بننے والی ہے اور اسی خوشی میں نجمہ خالہ نے نگو آنٹی سے کہا کہ اب رخصتی کی تاریخ طے کر لیں۔ نگو آنٹی نے حساب لگایا کہ عارفین اس مہینے کی آخری تاریخوں میں نہا کر فارغ ہو جائے گی تو اگلے ماہ کی چار تاریخ رکھ لیں۔ خیر دسمبر کی چار تاریخ کو رخصتی رکھ دی گئی اور اس کے لیے ہال بک کروا دیا گیا۔ شادی کارڈز کا ذمہ افتخار بھائی نے لیا اور بہترین قسم کے کارڈ چھپوائے گئے۔ سب کو اجازت تھی کہ اپنے اپنے دوستوں کو بلائیں۔ خواتین کو بھی کھلی اجازت تھی کہ اپنی تعلق والیوں کو بلائیں اور سحر، عافی اور عارفین کو بھی کہا گیا کہ اپنی کلاس فیلوز اور دوستوں کو بلا سکتی ہیں۔چنانچہ سبھی نے اپنے اپنے تعلق والوں کو بلانے کا ارادہ ظاہر کیا سو اس حساب سے کھلا انتظام کرنے کے لیے میں نے شادی ہال والوں کو تخمینہ دیا کہ آپ ایک ہزار لوگوں کا انتظام کر دیں تا کہ عین وقت پر کوئی چیز بھی کم نہ پڑے نہ ہی کسی کو پریشانی ہو۔ خالہ نجمہ اور ان کے دونوں بیٹے بھی کھل کر اس شادی پر خرچہ کرنے میں لگے ہوئے تھے۔ سحر کے والد نے بھی بہت خوشی کا اظہار کیا لیکن افسوس کا بھی کہ وہ اس شادی میں شامل نہ ہو سکیں گے لیکن انہوں نے کہا کہ کسی قسم کی کنجوسی نہیں کرنی بلکہ شادی ایسی ہو کہ دنیا مدتوں یاد رکھے۔
تیاریاں جاری تھیں کہ ایک دن عارفین کا میسج آیا کہ میرے پیارے بھیا! میرے لیے عروسی جوڑے اور زیور کا بندوبست بھی کیا ہے یا نہیں؟ تو میں نے اسے کہا کہ نگوآنٹی کے ساتھ مل کر ان کے لیے اور تم تینوں بہنوں کے لیے ہم ایک جیسے عروسی جوڑے اور زیورات کا ہم انتظام کر چکے ہیں جس پر عارفین خوش ہوکر کہنے لگی کہ اس کا مطب ہے کہ دولہا ایک ہو گا اور دلہنیں چار؟ میں نے کہا کہ ہاں میرے یار!!! لیکن اصل دلہن تو تم ہو گی نا میری سب سے چھوٹی اور چھوٹی سی چیز والی سالی جی!
شادی کا دن جیسےجیسے قریب آ رہا تھا سب کا جوش بڑھتا جا رہا تھا۔ سبھی بہت خوش تھے۔ چار دسمبر میں چار دن رہ گئے تھے۔ تیاریاں آخری مراحل میں تھیں عروسی کمرے کی زیبائش مکمل ہو چکی تھی اور وہ کسی خوب ناک محل سے کم نہ دکھتا تھا۔ ہیٹر سسٹم بھی لگا دیا گیا تھا اور مسہری بھی بہت خوب صورت لگائی جا رہی تھی۔ گھر میں چہل پہل شروع ہو چکی تھی اور دور دراز سے آنے والے رشتہ دار بھی آنا شروع ہو چکے تھے۔ شام کے بعد چائے کافی کا دور اور ڈھولک کی تھاپ پر رقص بھی شروع ہو چکا تھا۔ محلہ کی لڑکیاں ایک سے بڑھ کر ایک خوب صورت اور جوان آ جاتی تھیں۔ ہمارا گھر محلہ میں بہت اچھا سمجھا جاتا تھا جس میں نہ کبھی کسی کی لڑائی نہ تو تکار نہ کسی قسم کا کوئی شورشرابہ ہوتا تھا بلکہ محلہ میں ہمارا گھر آئیڈیل سمجھا جاتا تھا کہ اس گھر س کبھی کسی کو کوئی نقصان نہیں پہنچا بلکہ یہ لوگ بہت دھیمے مزاج کے ہیں اسی لیے سبھی ہم پر بہت اعتماد کرتے تھے ہماری طرف سے بھی کبھی کسی کو کوئی تکلیف نہیں پہنچی تھی کیونکہ ہم تو اپنے گھر کی چاردیواری میں ہی ایک دوسرے کی ضروریات پوری کرنے والی فیملی تھی اس لیے باہر کے لوگوں پر ہماری نظر ہی نہیں ہوتی تھی اس اعتبار سے ہمارا گھر اچھا اور سلجھا ہوا پڑھا لکھا گنا جاتا تھا۔ بہرحال محلہ بھر کی خواتین آتیں اور ان کی بہت عزت کی جاتی اور احترام کے ساتھ انہیں چائے پانی پیش کیا جاتا اور گھر کے مرد حضرات کو اس طرف جانے کی اجازت نہ تھی تاکہ ہمارا بھرم قائم رہ سکے۔ خواتین پوری آزادی کے ساتھ ڈھولک بجا رہی تھیں اور لڑکیاں ناچ گانا کر رہی تھیں۔
مہندی کی رات جب میں بیٹھا تھا تو محلہ کی کچھ لڑکیاں مجھے بہت اچھی لگیں اور وہ بھی مجھے پیار بھری نظروں سے دیکھ رہی تھیں میں نے بھی انہیں تاڑتا دیکھ کر مسکرایا اور آنکھوں ہی آنکھوں میں ان سے باتیں بھی ہوئیں اور میں ان کی نظر اچھی طرح پہچانتا تھا کہ وہ سیکس کی بھوکی تھیں اور مجھ پر ڈورے ڈال رہی تھیں۔ خیر میں نے کہا کہ بعد میں دیکھی جائے گی۔ ان میں سے ایک لڑکی ذرا زیادہ ہی بولڈ تھی وہ مجھے مہندی لگانے آگے آئی اور بالکل میری کان میں پھسپھسائی کہ میں نے آپ کی جیب میں اپنا فون نمبر ڈال دیا ہے مجھے کال ضرور کیجیے گا۔ اور مہندی لگا کر چلتی بنی۔ میں بھونچکا رہ گیا۔
رات گئے تک مہندی کا ہنگامہ چلتا رہا اس کے بعد جب سب چلے گئے اور میں بھی سونے کے لیے اپنے کمرے میں چلا گیا اور کپڑے بدلے تو مجھے یاد آیا کہ اس لڑکی نے مجھے کان میں کہا تھا کہ اس نے اپنا فون نمبر میری جیب میں ڈالا ہے تو جھٹ میں نے فون نمبر والی پرچی نکالی اور اسے کھول کر دیکھا تو اس میں واقعی ایک نمبر اور نیچے مریم لکھا ہوا تھا میں نے فورًا اس نمبر پر کال کی اور آدھی بیل پر ہی اس نے فون اٹھا لیا اور بڑی مدہوش کر دینے والی آواز میں کہنے لگی ہیلوووو! میں نے بڑے احترام سے بہت نرم لہجے میں کہا کہ حامی بول رہا ہوں۔ ادھر سے مریم بولی: جانتی ہوں۔ میں نے لہجے میں مزید نرمی پیدا کرتے ہوئے پوچھا کہ آپ نے یہ کیا حرکت کی کہ میری جیب میں اپنا نمبر ڈال دیا کیا میں پوچھ سکتاہوں کہ اس کا مقصد کیا ہے؟
مریم بھی نہایت شستہ اور مؤدب لہجہ میں بولی: ۔ کہ مجھے آپ بہت پیارے اور اچھے لگتے ہیں اور میں بچپن سے آپ کو دیکھ رہی ہوں کہ آپ نے کبھی ادھر ادھر نہیں دیکھا اور اپنے دھیان پر چلتے رہتے ہیں آج تو میری حد ہی ہو گئی تھی کہ آپ سے ضرور بات کروں گی اس لیے آپ کی جیب میں نمبر ڈال دیا۔ آج آپ بہت پیارے لگ رہے ہیں ۔میں نے کہا کہ مریم صاحبہ شکریہ آپ کا ،بہت خوشی ہوئی جان کر کہ آپ بھی ہمارے ہمسائے میں رہتی ہیں۔ مریم بولی: حیرت والی با ت ہے کہ آپ کا گھرانہ سب ہمسائیوں کے ساتھ اچھا سلوک کرتا ہے اور آپ لوگوں کی نہ آپس میں کبھی کوئی کھٹ پٹ سنی ،نہ ہمسائیوں کے ساتھ۔ میں نے کہا: کہ مریم جی ہم ہر ایک کا ادب اور احترام کرتے ہیں اور کسی کو تکلیف اور تنگی دے کر راضی نہیں ہوتے اس لیے بھی اور اس لیے بھی کہ اپنے کام سے کام رکھتے ہیں اس لیے بھی ہم سب کو اچھے لگتے ہیں۔ مریم سے باتیں ہوتی رہیں اور اس نے کھل کر مجھ سے اپنی محبت کا بھی اظہار کر دیا۔ میں نے شکریہ ادا کیا اور کہا کہ اب تو میری شادی ہو رہی ہے محترمہ! تو مریم کہنے لگی کہ ضروری نہیں ہوتا کہ جس سے محبت ہو اس کے ساتھ شادی بھی ہو اس لیے مجھے آپ کی شادی پر کوئی اعتراض نہیں نہ ہی آپ کو پریشان کرنا میرا مقصد ہے بلکہ اگر آپ کے پاس وقت ہو تو کبھی کبھی مجھے بھی کال کر لیا کریں۔ میں نے کہا کہ ٹھیک ہے اور پھر گڈ نائٹ کہہ کر فون بند کر دیا۔
اگلے دن بارات تھی اس لیے میں نے سونے کے لیے بیڈ پر لیٹ گیا۔ بیڈ پر لیٹتے ہی مریم کا خیال آیا کہ یہ تو قسمت پڑی نکل آئی۔ ادھر مجھے اپنی چار دلہنوں کا خیال آ گیا کہ کل اس وقت اس بیڈ پر میری چاروں دلہنیں میرے ساتھ ہوں گی اور سب سے چھوٹی دلہن کی سیل بڑی تینوں دلہنوں کی موجودگی میں توڑوں گا تو مزہ آ جائے گا۔انہی خیالات کی یلغار میں نیند نے بھی یلغار کر دی اور میری آنکھ لگ گئی
اگلے دن بارات تھی جب میں صبح جاگا تو میں نے دیکھا کہ سعدیہ بھابھی میرے لیے ناشتہ تیار کر کے بیٹھی ہوئی ہیں میں نے ناشتہ کیا اور دیکھا کہ سبھی تیاری کے مختلف مراحل میں ہیں کوئی میک اپ کر رہا ہے کوئی کپڑے پہن چکا ہے اور کوئی ناشتہ کر رہا ہے۔ سعدیہ بھابھی نے میرے لیے میرا پسندیدہ ناشتہ بنایا تھا کھجور کا ملک شیک اور ساتھ دو انڈوں کا سبز مرچوں والا چیز آملیٹ۔ میں نے آدھا پراٹھا کھایا اور آملیٹ سارا کھا لیا اور ملک شیک پی کر چائے کا مگ پکڑ لیا اور ایک ایک گھونٹ چائے پینے لگا۔ سعدیہ بھابھی نے مجھے چھیڑتے ہوئے کہا کہ جناب آج چار چار دلہنوں کے دولہے راجہ بنیں گے ہمارے بھائی صاحب! میں نے کہا کہ بھابھی باقی رشتہ داروں کے سامنے تو نہ ایسی بات کہیں! کہیں ہمارا بھانڈا ہی نہ پھوٹ جائے تو بھابھی نے کہا کہ نہیں میرے بھائی ایسا نہیں ہو گا۔ اتنے میں عارفہ بھابھی آ گئیں وہ بھی اپنے بچوں کو ناشتہ دے رہی تھیں اور تیار ہو رہی تھیں انہوں نے بھی مجھے مسکرا کر دیکھا اور مبارک باد دی۔
میں نے کہا کہ خالہ امی نظر نہیں آ رہیں؟ تو مجھے بتایا گیا کہ وہ دلہن کا جوڑا اور زیور لے کر میرے سسرال گئی ہیں۔ خیر تین گھنٹے بعد شام کو بارات تھی میں بھی تیار ہونے کے لیے اپنے روم میں چلا گیا اور نہانے کے لیے باتھ ٹب میں گھس گیا میں پانی نیم گرم کر کے کچھ فوم سوپ اس میں ڈالا اور آرام سے گردن تک خود کو پانی میں ڈال کر آرام سے بے سدھ لیٹ گیا اور آنکھیں بند کر کے ماضی کے جھروکوں میں کھو گیا۔ خالہ نجمہ نے مجھے کس طرح اپنے جال میں پھنسایا، کس طرح سعدیہ بھابھی کو پریگننٹ کروایا، پھر عارفہ بھابھی کو پریگننٹ کروایا، پھر میرا رشتہ اور نگو آنٹی کے ساتھ سہاگ رات منائی گئی، جگنی آنٹی کو کیسے منایا اور پریگننٹ کیا، پھر عافی کو چودنا اور پھر عارفین کے ساتھ اوورل سیکس، یہ سب خیالات باری باری میرے دماغ میں ایک فلم کی طرح چل رہے تھے اور میں مزے میں ڈوبا ہوا تھا۔ ایک سکون تھا کہ آج سحر اور اس کی والدہ اور دونوں چھوٹی بہنوں کے ساتھ میری انوکھی سہاگ رات ہو گی اور ماں اور دونوں بڑی بیٹیوں کے سامنے سب سے چھوٹی سالی کی سیل توڑی جائے گی اور اس لمحے کو بھرپور طریقے پر منایا جائے گا۔ یہ سب سوچتے سوچتے میں اس قدر کھو گیا کہ وقت گزرنے کا پتہ ہی نہیں چلا۔ مجھے باتھ ٹب میں گھسےدو گھنٹے ہوچکے تھے ۔ باہر سے خالہ نجمہ آئیں اور مجھے آواز دی کہ حامی سبھی تیار ہیں اور تمہارا انتظار کر رہے ہیں، خالہ آواز دیتے دیتے اندر آ گئیں اور مجھے کمرے میں نہ پا کر سیدھی باتھ روم میں گھس آئیں میں اتنی دیر میں ٹب میں کھڑا ہو چکا تھا۔ میں ننگا ہی تھا کہ خالہ نے مجھے دیکھ کر کہا کہ ابھی تک نہا رہے ہو؟ میں نے کہا کہ دو گھنٹے ہو گئے وقت کا پتہ ہی نہیں چلا۔ خیر میں ٹب سے نکلا، پانی خشک کیااور ٹاول والا گاؤن پہن کر جب خالہ کے قریب سے گزرنے لگا تو خالہ نے مجھے پکڑ کر سینے سے لگا لیا اور میرا ماتھا چوم کر کہنے لگیں کہ آج میرا شیر جوان شادی کے بندھن میں بندھ جائے گا۔ کیسا ہے میرا شیر جوان؟ میں نے محسوس کیا کہ گاؤن کے اندر انہوں نے ہاتھ سرکا کر میرے لوڑے پر اپنی گرفت پکی کر لی ہوئی ہے اور اسی کا حال پوچھ رہی ہیں میں نے جواب دیا کہ جی خالہ جان بالکل ٹھیک ہےاور آج تو اس کی کشتی ہے چار چار دلہنوں سے!! خالہ ہنس کر بولیں کہ کہیں اپنی خالہ کو نہ بھول جانا۔ میں نے کہا کہ بھول کیوں جاؤں گا؟ آپ کی مہربانیوں نے تو مجھے ہر طرح سے جکڑا ہوا ہے اگر آپ چاہیں تو ابھی آپ کا شکریہ ادا کر دوں لیکن خالہ نے نیچے جھک کر میرے لوڑے کو منہ میں لیتے ہوئے کہا کہ نہیں آج نہیں بلکہ آج سہاگ رات منا لو کل میرے ساتھ رات منانا۔ میں نے کہا کہ ٹھیک ہے۔
خالہ تھوڑی دیر میرے لن کا چوپا لگا کر باہر چلی گئیں اور مجھے کہا کہ تم بھی جلدی آ جاؤ اب۔ بارات کا وقت ہو گیا ہے مزید لیٹ نہیں کرنا۔ میں نے جلدی سے کپڑے پہنے اور شیروانی پہنی، کھسہ پہنا اور کنگھی کر کے باہر نکلا میں نے خود کو ہمیشہ کی طرح سادہ ہی رکھا تھا۔ جیسے ہی میں مین ہال میں آیا سبھی مجھے دیکھنے لگ گئے اور ان میں مریم بھی تھی۔ مریم تو ایک پری زاد لگ رہی تھی۔ بہت ہی خوب صورت اور بالکل سادہ۔ مجھے دیکھتے ہیں اس نے مجھے آنکھوں آنکھوں میں سلام کیا جس کا جواب میں نے بھی مسکرا کر آنکھوں آنکھوں میں دیا اور پھر سبھی میرے ارد گرد اکٹھے ہو گئے۔ سبھی میری سادگی پر بہت حیران تھے کہ میں نے سفید سادہ سی سفیدپاجامہ قمیص پر کالی شیروانی پہن رکھی تھی اور نیچے سادہ سا کالے رنگ کا کھسہ پہنا ہوا تھا۔
بارات کے لیے کاریں تیار تھیں میں نے اپنی کار کے بونٹ پر گلاب کا صرف ایک بڑا سا گلدستہ رکھوایا تھا اور میں نے یہ بھی سب کو بتا دیا تھا کہ کار میں خود ہی چلا کر لے جاؤں گا اور خود ہی واپس لاؤں گا اور میری کار میں خالہ نجمہ، سعدیہ بھابھی اور عارفہ بھابھی ہی بیٹھیں گی اور واپسی پر بھی یہی خواتین ہوں گی جبکہ دلہن اور اس کی والدہ اور بہنوں کے لیے ایک لیموزین لی گئی تھی کہ وہ اس میں بیٹھ کر الگ آئیں گی۔سب حیران تھے کہ یہ کیسا فیصلہ ہے لیکن میں نے کہا کہ ہم اسی سادگی اور اسی طریق پر یہ سب کریں گے کیونکہ میں یہ نہیں کر سکتا کہ اپنی خالہ اور بھابھیوں کو لے کر تو اپنی کار میں جاؤں لیکن وہ واپسی پر کسی اور سواری میں بیٹھ کر آئیں۔ میرے سسر اپنے کیس کی وجہ سے یوکے سے نہیں آ سکے تھے لیکن انہیں سارا فنکشن وقتا فوقتاً دکھایا جا رہا تھا۔ وہ بھی بہت خوش تھے اور میری ان کے ساتھ بات بھی ہوئی تھی اور میری تعریفیں سن سن کر وہ بھی بہت خوش تھے۔ انہیں یقین تھا کہ میں ان کی بیٹی کو بہت خوش رکھوں گا۔ اب انہیں کیا پتہ کہ میں نے ان کی بیوی اور تینوں بیٹیوں اور ایک سالی کو بھی پہلے سے ہی بہہہہت خوش رکھا ہوا ہے۔ خیر بارات نکلی تو سارا محلہ انگشت بدنداں تھا اور سبھی بارات میں شامل تھے۔ پندرہ بیس منٹ بعد ہی ہم سب شادی ہال پہنچ گئے، جہاں زاہد خالو اور دیگر عزیز ہاتھوں میں پھولوں کے ہار لیے کھڑے تھے انہوں نے ہمارا پرتپاک استقبال کیا ۔ ہم لوگ اندر بٹھائے گئے اور پھر نکاح ہوا نکاح کے بعد کھانا اور پھر تصویریں اور رخصتی ہو گئی۔ ہمارے محلہ دار سب حیران تھے کہ دلہن اور اس کی والدہ ، خالہ، خالواور بہنوں کے لیے ایک الگ لیموزین سجائی گئی تھی اور وہ سب فیملی اس لیموزین میں بیٹھ گئی اور یوں بارات واپس رخصت ہوئی۔ دلہن کو مین ہال میں لگی سٹیج پر بٹھایا گیا جہاں سب محلہ دار خواتین دیکھنے آئی تھیں۔ سب نے کہا کہ دلہا بھی ساتھ بیٹھے لیکن میں نے کہا کہ بعض خواتین چونکہ پردہ کرتی ہیں اس لیے کوئی بھی مرد ادھر نہیں جائے گا مردوں کے بیٹھنے کا الگ انتظام دوسرے چھوٹے ہال میں تھا۔ چنانچہ سبھی ادھر چلے گئے تاکہ خواتین آرام کے ساتھ دلہن کو دیکھ سکیں۔ یہ مرحلہ بھی طے ہو گیا اور اب سب محلہ دار خواتین اپنے اپنے گھروں کو چلی گئیں اور مہمانوں کو ان کے ٹھہرنے والے ہوٹلز میں پہنچا دیا گیا۔ اب گھر پر صرف گھر کے افراد باقی رہ گئے تھے اس لیے سبھی کا دل تھا کہ جلداپنے اپنے کمرے میں جائیں اور مجھے بھی میری سہاگ رات کے لیے تنہائی میسر ہو۔ چنانچہ تھوڑی ہی دیر میں سبھی اپنے اپنے کمروں میں چلے گئے۔ زاہد خالو جگنی آنٹی کو لے کر اپنے گھر چلے گئے ۔ اب نگوآنٹی، عافی اور عارفین نے سحر کو اٹھایا اور پکڑ کر میرے کمرے تک لے آئیں اور ادھر مجھے بھی خالہ نجمہ، سعدیہ بھابھی اور عارفہ بھابھی نے اٹھا اور میرے کمرے تک آ گئیں۔ اب سعدیہ بھابھی نے سب سے پہلے مجھے سینے سے لگا کر مبار ک باد تھی اور میرا ماتھا چوما، عارفہ بھابھی نے بھی پیار کیا اور مبارک باد دی اور سب سے آخر پر نجمہ خالہ نے سینے سے لگایا اور میری امی کو یاد کر کے رونے لگیں اور دعا دی اور مبارک باد دی اور پھر گھر کی تینوں خواتین اپنے اپنے روم میں چلی گئیں اور مجھے میرے روم میں جانے کا کہا۔ میں نے جیسے ہی اپنے روم میں قدم رکھا تو دیکھا کہ چار دلہنیں گھونگھٹ نکالے ایک ہی بیڈ پر بیٹھی اپنے دلہا کا انتظار کر رہی تھیں۔ میں دھڑکتے ہوئے دل اور پھڑکتے ہوئے لوڑے کے ساتھ بیڈ کی طرف بڑھنے لگا جہاں چار دل میرے لیے دھڑک رہے تھے اور چار پھدیاں میرے لوڑے کے لیے پھڑک رہی تھیں۔۔۔۔۔
میں نے سب سے پہلے نگو آنٹی کا گھونگھٹ اٹھایا اور انہیں منہ دکھائی میں ایک انگوٹھی پہنا دی۔ انہوں نے مجھے سینے سے لگا لیا اور کہنے لگیں کہ حامی! آج سے میری پیاری بیٹی سحر تمہارے حوالے۔ امید ہے کہ تم اسے ہر طرح خوش رکھو گے۔میں نے کہا کہ جی آنٹی میں سحر کو کیا آپ سب کو بھی ہر طرح سے خوش رکھوں گا۔ اس کے بعد میں نے سحر کا گھونگھٹ اٹھایا اور اپنی پریگننٹ بیوی کا ماتھا چوما اور اس کو بھی ایک انگوٹھی منہ دکھائی میں پہنائی۔ سحر مجھ سے لپٹ گئی اور کہنے لگی کہ میں آپ سے بہت پیار کرتی ہوں۔ میں نے جواباً کہا کہ سحر میں بھی تم سے بہت پیار کرتا ہوں اور ہمیشہ ساتھ نبھانے کا وعدہ کرتا ہوں۔ پھر میں نے اپنی بڑی سالی عافی کا گھونگھٹ اٹھایااور اسے ہونٹوں پر پیار کیا اور اس کی مدہوش کردینے والی خوش بو دار سانسیں اپنی سانسوں میں اتارنے لگا اور نیچے سے اسے بھی ایک انگوٹھی منہ دکھائی میں پہنا دی۔ کافی دیر تک اس کی سانسیں اپنی سانسوں میں اتارنے کے بعد میں نے اسے کہا کہ عافی! I LOVE YOU عافی گرم ہو گئی تھی۔ ساتھ ہی میں نے اس کے کان کی لو پر اپنی زبان پھیری۔ وہ مجھ سے چمٹ گئی اور کہنے لگی کہ میں کبھی آپ سے دور نہیں جاؤں گی میں نے کہا کہ جانے کون دے گا؟ اس کے بعد میں اپنی چھوٹی سالی کی طرف بڑھا اور اس کا گھونگھٹ اٹھایا اور اس کے گلے میں سچے موتیوں سے جڑا ہوا ایک سونے کا گلوبند پہنا دیا اور ایک انگوٹھی پہنا دی۔ میں نے سب سے پوچھا کہ آپ میں سے کسی کو اعتراض تو نہیں کہ میں نے عارفین کو منہ دکھائی میں گلوبند زیادہ کیوں پہنایا ہے؟ تو سب کہنے لگیں کہ ہمیں کیوں اعتراض ہونے لگا؟ اس کا حق بھی بنتا ہے کیونکہ اصل میں تو یہ اس کی ہی سہاگ رات ہے ہماری سیلیں تو کب کی ٹوٹ چکی ہیں اور ہم نے سیکھ لیا ہے کہ ایک دوسرے سے حسد نہیں کرنا بلکہ سب کو ساتھ لے کر چلنا ہے۔ میں اس بات پر خوش ہو گیا اور عارفین تو میرے اندر گھستی جا رہی تھی میں نے اس کے منہ میں منہ ڈال دیا۔ ادھر سحر اور عافی اور نگو آنٹی بھی میرے قریب آ گئیں اور ہم چاروں ایک دوسرے سے لپٹ گئے اور پیار کرنے لگے۔ پھر نگو آنٹی نے کہا کہ لڑکیو! یہ بھاری بھرکم لباس اتار دو۔ میں نے بڑی لائیٹ بجھا دیں اور کمرے میں سبز روشنی والا بلب جلا دیا تا کہ ہلکی ہلکی خواب ناک روشنی رہے جس کے بعد چاروں خواتین نے اپنے بھاری لباس اتارنے شروع کیے اور میں سامنے جا کر صوفے پر بیٹھ کر دودھ پینے لگا جو بادام وغیرہ ڈال کر میرے لیے تیار کیا گیا تھا۔ ادھر میرے سامنے چار خواتین اپنے کپڑے اتار رہی تھیں۔ جب سب نے اپنے اپنے کپڑے اتار دئیے تو سب سے پہلے نگو آنٹی میرے پاس آئیں اور میرے کپڑے بھی اتار دیئے وہ ساتھ ساتھ مجھے چومتی جاتی تھیں اور میرا لوڑا تو پہلے سے ہی تنا ہوا تھا نگو آنٹی کی دیکھا دیکھی میری پیاری بیوی سحر بھی میرے پاس آ گئی اور میرے تنے ہوئے لوڑے کو اپنے مہندی لگے ہاتھوں سے پکڑا اور پیار سے مسلنے لگی۔ اس کے ہاتھ میں میرا موٹا اور لمبا لوڑا بہت مست لگ رہا تھا، عافی آ کر میرے دوسرے طرف بیٹھ گئی اور میرے ٹٹے اپنے منہ میں لے کر ان سے کھیلنے لگی وہ کبھی ہاتھوں میں لیتے اور کبھی چوسنے لگتی۔ عارفین سے میں نے کہا کہ وہ بیڈ پر ہی بیٹھی رہے اور نگو آنٹی سے کہا کہ آپ جا کر عارفین کو تیار کریں جس کی آج سہاگ رات ہے اور بیڈٹیبل سے ایک سفید کپڑا نکال لیں جس پر آج میری پیاری سالی عارفین کی سیل ٹوٹنی تھی۔ میں چاہتا تھا کہ اس کے خون سے رنگا ہوا کپڑا صبح سب کو دکھایا جائے۔ چنانچہ نگو آنٹی نے ایسا ہی کیا۔اب نگو آنٹی عارفین کے ساتھ کسنگ کر رہی تھیں اور پھر 69 کی پوزیشن پر جا کر وہ ماں بیٹی ایک دوسرے کی چوت چاٹ رہی تھیں اور کمرے میں گونجنے والی ون کی ہلکی ہلکی سسکیاں اور سیکسی آوازیں ماحول کو گرما رہی تھیں۔ خیر ادھر عافی نے میرے منہ میں منہ ڈالا ہوا تھااور سحر میرا موٹا لمبا لوڑا چوس رہی تھی۔ کبھی ٹٹے منہ میں ڈال لیتی عافی تو میری کسنگ ایکسپرٹ بن گئی تھی اس کے ساتھ کسنگ کرنے کا بہت مزہ آتا تھا اب عافی سے میں نے کہا کہ اپنی چوت میرے منہ پر فکس کرو تو اس نے اپنی چوت میرے منہ پر فکس کر دی۔ اس کی چوت سے آنے والی بھینی بھینی خوشبو نے مجھے پاگل کر دیا اور میں دیوانوں کی طرح اس کی چوت چاٹنے لگا۔ وہ بھی سسکیاں لینے لگی۔ سحر نے یہ دیکھا تو اس نے میرے لوڑے پر اپنے منہ کی گرفت مزید بڑھا دی۔ اب مجھ سے برداشت نہیں ہو رہا تھا چنانچہ میں نے کہا کہ ٹھہرو اور پھر میں اپنی بیوی اور سالی کو لے کر بیڈکی طرف بڑھا جہاں نگوآنٹی اور عارفین مست ہوئی پڑی تھیں میں نے نگو آنٹی کا منہ عارفین کی چھوٹی سی پھدیا سے ہٹایا اور اس پر ایک کس دی۔ چاروں خواتین نے میری خواہش کے مطابق چوتوں پر بالوں کی صفائی نہیں کی تھی اور بس سے بڑی جھانٹیں عارفین کی دکھائی دے رہی تھیں جس کی آج سیل ٹوٹنے والی تھی۔مجھے یہ دیکھ کر بہت خوشی ہو رہی تھی۔ میں نے ایک کس عارفین کی بالوں بھری چوت پر کی اور پھر اپنا لوڑا نگو آنٹی کے منہ میں ڈال کر خود عارفین کو کس کرنے لگا۔ عارفین نے سسکتے ہوئے کہا کہ بھیا میں تو ماما کے منہ میں اب تک کوئی دس بار ڈسچارج ہو چکی ہوں۔ اب جلدی سے میری سہاگ رات منا ڈالیے۔ میں نے کہا کہ میری پیاری چھوٹی سی پھدیا والی سالی! فکر نہ کرو ابھی تمہارا افتتاح کرنے لگا ہوں۔ یہ کہہ کر میں نے اپنا لوڑا جب اس کی پھدیا پر سیٹ کیا تو یہ دیکھ کر حیران رہ گیا کہ میرا لوڑا اس کی پھدیا سے کہیں موٹا تھا اور اس کی چکنی ہوئی ہوئی پھدیا کے دانے پر جب میں نے اپنا لوڑا رگڑنا شروع کیا تو عارفین کی پھدیا نے بے تحاشہ پانی چھوڑنا شروع کیا جس سے میرے لوڑے سے بھی پانی نکلنے لگا تو میں نے اس کی موری پر اپنے لوڑے کا ٹوپا سیٹ کیا لیکن یہ کیا میرے لوڑے کا ٹوپا اس کی چوت کی موری سے بہت بڑا تھا یہ دیکھ کر نگوآنٹی کی تو جیسے جان ہی نکل گئی ہو وہ عارفین کو مخاطب کر کے بولیں کہ عارفین! میری پیاری بیٹی آج تیری بہت زیادہ پھٹنے والی ہے میں نے سحر سے کہا کہ میرے دراز میں سے ہومیوپیتھک دوا سٹیفی ساگریا نکال کر لے آؤ۔ چنانچہ میں نے وہ دوا اپنے پاس رکھ لی۔ اور عارفین کی پھدیا پر اپنے لوڑے کا دباؤ بڑھا دیا جس سے میرے لوڑے کا ٹوپا تھوڑا سا اندر چلا گیا۔۔۔۔
جیسے ہی میرے لوڑے کے ٹوپے کی آنکھ عارفین کی پھدی کو چیر کر اندرداخل ہوئی تو مزے سےمیرا برا حال ہو گیا۔ ابھی تک کسی کی چوت نے نہیں اِس حد تک میرے لوڑے کو گرفتار نہیں کیا تھا جس قدر عارفین کی تنگ چوت نے کر لیا۔ میں تو مزے کے سیلاب میں بہہ رہا تھا۔ عارفین کی چوت گیلی ہو کر بہت چکنی ہو چکی تھی اس کے باوجودمیرا لوڑا اس میں گھس نہیں رہا تھا اور میں چاہتا تھا کہ میری پیاری سالی کو تکلیف بھی کم سے کم ہو اس لیے میں نے لوڑے کے ٹوپے کی آنکھ اندر کر کے تھوڑا توقف کیا، ادھر نگو آنٹی، سحر اور عافی نے عارفین کو پیار کرنے کی انتہا کر دی وہ اسے مختلف جگہوں سے کس کر رہی تھیں جس کی وجہ سے اس کا دھیان بٹا ہوا تھا اور اسی سے مجھے فائدہ اٹھانا چاہیے تھاسو میں نے سحر اور عافی دونوں سے کہا کہ میرے لوڑے پر اپنا تھوک لگائیں ڈھیر سارا تو انہوں نے میرے لوڑے پر تھوک لگایا اور میں نے آؤ دیکھا نہ تاؤ عارفین کی پھدی سے اپنا لن نکالا اور ٹوپی کو ایک بار سحر کے منہ میں ڈال کر دوبارہ عارفین کی چوت پر سیٹ کیا اور دباؤ بڑھا دیا اب میرے لن کا موٹا سا ٹوپا عارفین کی پھدیا میں چلا گیا عارفین نے ایک سسکی لی میں نے تھوڑا اور آگے کیا اور لوڑا اس کے پردۂ بکارت یعنی سیل کو جا کر ٹچ ہوا۔ میں نے عارفین کے ہونٹوں کو چوسنا شروع کر دیا اور پھر سب سے کہا کہ یہ نظارہ کرنے کے لیے اس دن کا انتظار کر رہے تھے اب نگو آنٹی سے کہا کہ بڑی لائیٹس آن کر کے وہ میرے موبائل سے اس منظر کی ویڈیو بنائیں اور سحر سے کہا کہ تم اپنے موبائل میں تصویریں بناؤ تا کہ اس منظر کو میں بھی بعد میں دیکھ سکوں۔ سو جب یہ انتظامات ہو گئے تو میں نے کہاکہ تیار ہو جائیں کیونکہ اب سیل ٹوٹنے لگی ہے۔ یہ کہہ کر میں نے عارفین کے پردۂ بکارت پر دباؤ بڑھا دیا اور عارفین درد کے مارے آہیں بھر رہی تھی اور اس کی آنکھوں سے آنسو جاری ہو گئے عافی نے خود بخود اپنے موبائل سے میرے اور عارفین کے چہرے اور اوپر والے جسموں کی ویڈیو بنانی شروع کر دی۔ میں نے ایک منٹ کے بعد بڑے ہی آرام سے عارفین کی چوت میں لوڑا نان سٹاپ گھسانا شروع کیا جو اُس کی سیل توڑتا ہوا اس کی یوٹرس تک اتر گیا، عارفین ماہئ بے آب کی طرح تڑپی لیکن اسے میں نے مزید ہلنے نہیں دیا ساتھ ہی وہ ڈسچارج ہو چکی تھی اس چوت بہت زیادہ گیلی ہونے کی وجہ سے اسے درد زیادہ محسوس نہیں ہو رہا تھا۔ یہ لمحہ بہت ہی خوب ناک تھا اور اس کو تین کیمرے ریکارڈ کر رہے تھے۔ آج میری سہاگ رات منائی جا رہی تھی جو دراصل میری اور میری سالی عارفین کی سہاگ رات تھی۔ میں نے کچھ دیرلوڑا اس کی چوت میں رکھا اور پھر آہستہ آہستہ اسے ہلانا شروع کیا اور پھر رفتار بڑھانے لگا۔ میرا خون میں لتھڑا ہوا لوڑا اندر باہر ہو رہا تھا اور اس کی ویڈیو میری ساس بنا رہی تھی اور میری بیوی ہر زاویے سے تصاویر بنا رہی تھی۔ جب مجھے تسلی ہو گئی کہ عارفین کی چوت میں خون خرابہ مکمل ہو چکا ہے تو میں نے لوڑا اس کی چوت سے نکالا اور عافی کو پکڑ کر اس کی چوت میں وہ خون آلود لوڑا گھسا دیا اور بڑی تیز رفتاری سے اسے چودنے لگا۔ عارفین کو کہا کہ وہ تکیے کے نیچے پڑی دوا کے تین قطرے ایک گھونٹ پانی میں ملا کر پی لے۔ چنانچہ اس نے وہ کام کیا اور آرام سے ایک طرف لیٹ گئی۔ اس کی اس حالت کی تصاویر اور ویڈیو بھی نگو آنٹی اور سحر مسلسل بنا رہیں تھیں اور میں عافی کو مسلسل چود رہا تھا۔ کوئی سات منٹ کی دھؤاں دار چدائی کے بعد میں نے عافی کو چھوڑا اور نگوآنٹی کو لٹا کر انہیں چودنا شروع کیا آنٹی کو چودنے میں بھی مزہ آرہا تھا آنٹی کو تقریباً پندرہ منٹ چودنے کے بعد میں نے عارفین کو دوبارہ پکڑ لیا اور اس بار اس کی اندھا دھند چدائی شروع کر دی دس منٹ تک اسے چودنے کے بعد مجھے لگنے لگا کہ اب میں ڈسچارج ہو جاؤں گا اس لیے میں نے اپنا لوڑا اس کی چوت سے نکال لیااور اب میری پیاری بیوی سحر کی باری تھی اسے میں نے بڑے آرام سے سیدھا لیٹنے کو کہا اور آرام سے اس کی گیلی چوت میں لوڑا گھسیڑ دیا۔ اور ہلکی ہلکی رفتار میں آدھا لوڑا اندر باہر کرنے لگا سحر کی چوت بہت گرم تھی لیکن میں جان بوجھ کر اس کی چوت میں آدھا لوڑا ڈال رہا تھا تا کہ اس کی کوکھ میں پلتے میرے بچے کو کوئی نقصان نہ ہو ۔ چنانچہ میں نے سحر کو کہا کہ میں تم سے بہہہت محبت رکھتا ہوں کیونکہ جس طرح تم اور تمہاری فیملی نے میرے ساتھ پیار اور اعتماد کا طریق اپنایا ہے یہ ہمیشہ ایسے ہی رہے گا اور ہم سب مل کر اس سےبھی بڑھ کر پیار محبت سے رہیں گے۔ یہ کہتے کہتے میں اپنی بیوی کی پھدی میں اپنا لوڑا اندر باہر کرتا رہا اور اب میری بھی اخیر ہو چکی تھی اس لیے تھوڑی ہی دیر میں میں نے اپنا سارا مال سحر کی بھوکی پھدی میں انڈیل دیا۔ سبھی تھکے ہوئے تھے اور عارفین تو پہلے ہی سو چکی تھی اور عافی نے مجھے چمٹتے ہوئے کس کیا اور پھر نگو آنٹی اور عافی دونوں دوسرے بیڈ پر چلی گئی اور میں وہیں عارفین اور سحر کے درمیان لیٹ گیا اور کچھ ہی دیر میں ہم سب نیند کی وادی میں کھو گئے۔۔۔۔
اگلے دن ولیمہ تھا اور ہم سب تیار ہو کر شادی ہال پہنچے سبھی بہت خوش تھے۔ ادھر جگنی خالہ کی طبیعت اچانک خراب ہو گئی تھی جس وجہ سے جگنی اور زاہد خالو ہسپتال میں تھے ان کے ڈلیوری کے دن چل رہے تھے ۔ اچانک میرے فون کی گھنٹی بجی میں نے دیکھا تو زاہد خالو کی کال تھی۔ زاہدخالو پریشان تھے اور کہہ رہے تھے کہ جگنی کہہ رہی ہے کہ حامی کو بلائیں کیونکہ اس کے بیٹے کی پیدائش کے وقت اس کا یہاں ہونا بہت ضروری ہے۔ میں نے کہا کہ ابھی کھانا کھلا کر میں پہنچتاہوں۔ میں نے نگو آنٹی کو بتایا اور سحر کو بھی بتا دیا۔ مجھے عارفین نظر نہ آئی تو میں نے سحر سے پوچھا کہ جس دلہن کی سہاگ رات تھی کل رات وہ کہاں ہے؟ تو سحر مسکرا کر کہنے لگی کہ جناب وہ تو سوجی ہوئی چوت لے کر لیٹی ہوئی ہے اور اسے تو بخار ہو گیا ہے میں یہ سنتے ہی پریشان ہو گیا اور کہنے لگا کہ تم نے مجھے صبح کیوں نہ بتایا؟ سحر کہنے لگی کہ عارفین نے ہی منع کیا تھا کہ میری وجہ سے یہ فنکشن خراب نہ کریں اس لیے کسی کو بھی نہیں بتایا حتی کہ امی کو بھی نہیں بتایا۔ مجھے اب جگنی اور عارفین دونوں کی پریشانی لگ گئی۔ خیر میں نے کھانا تھوڑا بہت کھایا اور افتخار اور قمر بھائی سے کہا کہ آپ مہمانوں کو سنبھالیں میں ابھی آتا ہوں، میں سیدھا گھر پہنچا اور اپنے کمرے میں مسہری پر عارفین کو دیکھا اسے نیم گرم دودھ کے ساتھ دوا دی۔ بخار اتنا نہیں تھا بس تھکاوٹ اور پہلی چدائی کی وجہ سے کمزوری اور بخار ہو گیا تھا۔ خیر میں نے اسے دوا دی اور تھوڑا پیار بھی کیا اور اس کا شکریہ بھی ادا کیا اور اسے بتایا کہ جگنی خالہ کے ہاں بیٹے کی ولادت ہونے والی ہے میں اب یہاں سے ہال میں جاؤں گا اور دوستوں سے ملنے کے بعد سیدھا ہسپتال جاؤں گا اور تمہارے لیے کھانا ہال سے آ جائے گا۔ پھر اسے ایک لمبی کس دی اور سیدھاہال میں جا کر سحر کو بتایا کہ عارفین ٹھیک ہے اب۔ اب مجھے جلد ازجلد ہسپتال پہنچنا تھا جہاں میرا پیارا بیٹا جگنی خالہ کے پیٹ سے پیدا ہونے والا تھا۔کھانا کھانے کے بعد لوگ رخصت ہو رہے تھے کہ میں نے سحر کو بتایا کہ یں نگوآنٹی کو لے کر خالہ جگنی کے پاس ہسپتال جا رہا ہوں تم اور عافی باقی اہل خانہ کے ساتھ گھر چلی جانا اور کپڑے بدل کر بے شک ہسپتال آ جانا تا کہ ہم سب مل کر خالہ جگنی کے بیٹے کو ویلکم کر سکیں۔سحر کہنے لگی کہ کیوں نہیں آپ جلدی سے جائیں اور اپنے اور خالہ جگنی کے بیٹے کو دیکھیں ہم بھی آتے ہیں۔ چنانچہ میں نے نجمہ خالہ کو بتایا اور نگوآنٹی کو لے کر سیدھا ہسپتال پہنچ گیا۔ جگنی خالہ کو لیبر روم میں گئے دو گھنٹے ہو چکے تھے اس لیے اب وقت زیادہ دور نہیں تھا۔ چنانچہ کوئی آدھے گھنٹے بعد ہی ہمیں یہ خوش خبری مل گئی کہ جگنی آنٹی نے ایک چاند سے بیٹے کو جنم دیا ہے اور وہ چاہتی ہے کہ زاہد اور حامی دونوں اکٹھے اس بچے کو دیکھیں۔ چنانچہ ہم دونوں نگو آنٹی کو لے کر اندر چلے گئے جہاں ہم نے بچے کو دیکھا میں نے بچے کو چوما اور زاہد خالو کو پکڑا کو سیدھا جگنی کے پاس پہنچا اور اس کے ماتھے پر بوسہ دیا۔ جگنی کی آنکھوں میں آنسو آ گئے اور اس نے میرا ہاتھ پکڑ کر میرا شکریہ ادا کیا۔ میں نے کہا کہ یہ تو ابھی ابتدا ہے ابھی تو بہت سا کام باقی ہے کم از کم تین بچے تو ہونے چاہئیں۔ جگنی کہنے لگی کہ ہاں ٹھیک ہے۔ میں ابھی وہیں تھا کہ نگوآنٹی عافی کے ساتھ وہاں پہنچ گئیں۔ جگنی خالہ نے سب کا شکریہ ادا کیا اور کہا کہ آپ سب فنکشن چھوڑ کر آ گئے۔ تو نگو آنٹی بولیں کہ سب کہاں آئے ہیں سحر اور عارفین تو آئے ہی نہیں سحر دلہن بنی بیٹھی تھی اور عارفین کی حالت ایسی نہ تھی کہ وہ آسکتی۔ جگنی خالہ نے ذومعنی انداز میں مسکراتے ہوئے میری طرف دیکھا تو میں نے بھی مسکراتے ہوئے کہا کہ کل اس کی سہاگ رات تھی اور بہت خون خرابہ ہو گیا اس لیے اسے تو بخار ہو گیا تھا لیکن اب بہتر ہے۔ جگنی خالہ نے مجھے ایک چپت رسید کرتے ہوئے کہا کہ بہت شرارتی اور ظالم ہے تمہارا شہزادہ جس نے چیر پھاڑ دیا ہو گا اس بے چاری معصوم کو۔ میں نے کہا کہ یہ تو ایک نہ ایک دن ہونا ہی تھا عارفین کے ساتھ سو ابھی ہو گیا ۔
اس کے بعد مبارک بادیوں کا سلسلہ چلتا رہا اور میں عافی اور نجمہ خالہ کو لے کر ہال میں واپس آ گیا اور پھر ولیمے کے فنکشن سے فارغ ہو کر ہم سب گھر واپس آ گئے جہاں عارفین میری منتظر تھی۔ ہم سب نے مل کر رات کا کھانا کھایا اور پھر سونے کے لیے اپنے اپنے کمرے میں چلے گئے۔ میرے کمرے میں عارفین اور سحر موجود تھیں جبکہ نگوآنٹی اور عافی اپنے گھر چلی گئی تھیں۔ آج کی رات بھی عارفین میرے بیڈ پر مزے کرے گی۔ یہ سوچ کر میں بہت خوش ہو رہا تھا