سلام دوستو کیسے ہیں آپ سب ۔۔۔ یہ میری پہلی کاوشہے امید ہے آپ سب کو پسند آئے گی۔۔۔۔۔ میری کہانی میں کچھ واقعات حقیقت ہیں اور کچھ کہانی کی ڈیمانڈ کے مطابق فرضی ہیں ۔۔۔۔میری اس کہانی میں سب نام اور کردار فرضی ہیں ۔۔۔۔ یہ کہانی ایک لڑکی کی ہے ۔۔۔۔تو چلئے جس کی کہانی ہے اسی کے منہ سے سنتے ہیں ۔۔۔۔۔میرا نام نوشین ہے اور میرا تعلق ایک آسودہ حال خاندان سے ہے ۔۔۔۔میری عمر 25 سال ہے ۔۔۔۔ ہم 2 بہنیں اور 1 بھائی ہیںمیری بڑی بہن کا نام ماہین ہے ۔۔۔ان کی عمر 28 ہے اور بھائی ہم دونوں بہنوں سے چھوٹا ہے اس کی عمر ابھی 20 ہے ۔۔۔ہوش سنبھالی تو گھر میں خوشحالی دیکھی کسی قسم کی کوئی تنگی نہیں تھی۔۔۔۔ہمیں اپنے گھر میں ہر سہولت میسر تھی کبھی کسی چیز کی کمی محسوس نہ ہوئی تھی وقت کے ساتھ ساتھ تعلیم کا سلسلہ چلتا رہااور میں نے BA کا امتحان اچھے نمبروں کے ساتھ پاس کر لیا ۔۔۔میں ابھی اور پڑھنا چاہتی تھی مگر ہر ماں باپ کی خواہش ہوتی ہے کہ ان کی بیٹی جلد از جلد اپنے گھر کی ہو جائے ۔۔۔میں شکل صورت میں خوبصورت تھی ۔۔۔ رنگ سانولا اور قد 5 فٹ 6 انچ ہے ۔ اور میرے بریست کا سائز 38 ہے۔میرے فگر کو دیکھ کر اکثر میری سہیلیاں مجھے چھیڑا کرتی تھی کہ نوشین تمھارا فگر تو بہت ہی سکسی ہےمیری کلاس فیلو سمرین ایک ٹھنڈی آہ بھر کے کہتی کہ کاش میں لڑکا ہوتی تو تجھے پھنسا لیتی۔۔اور میں ایسی باتوں پر ہنس دیا کرتی۔۔۔۔جیسے جیسے میں جوان ہوتی گئی ویسے ویسے میرے خیالات اور جذبات بھی جوان ہوتے گئے۔۔۔وقت کے ساتھ ساتھ میرے دل میں بھی خواہش پیدا ہوتی گئی چاہے جانے اور سراہے جانے کی ۔۔۔میرے خوابوں میں بھی دوسری لڑکیوں کی طرح ایک راجکمار آتا تھا۔۔جو مجھے بے حد و بے حساب پیار کرتا تھا۔۔۔مگر مجھے کبھی بھی سکس کی طلب نہیں ہوئی تھی۔۔۔مجھے سکس کے بارے میں کچھ بھی پتہ نہ تھا۔۔۔میرے نزدیک پیار صرف شوہر کی باہوں میں سونے اور گلے لگنے کا نام تھا۔۔۔۔دیکھتے دیکھتے ہم دونوں بہنیں جوان ہو گئی پھر ایک دن میری بڑی بہن کا رشتہ آیا جسے تھوڑی چھان بین کے بعد قبول کر لیا گیا۔۔۔لڑکا انگلینڈ کسی بڑی کمپنی میں جاب کرتا تھا اور شادی کے بعد اس نے یعنی میرے جیجا جی نے میری باجی کو بھی اپنے ساتھ لے جانا تھا۔۔۔۔خیر رشتہ پکا ہوا اور باجی بیاہ کر اپنے سسرال چلی گئی۔۔۔شادی بہت دھوم دھام سے ہوئی ۔۔۔شادی کے بعد میں نے ایک چیز نوٹ کی کہ اب باجی کے ہونٹوں پر ایک دلفریب مسکان ہر وقت کھیلتی رہتیتھی۔۔۔میں نے ایک دن پوچھا کہ باجی آپ کی اس ہنسی کی کیا وجہ ہے تو وہ ہنستے ہوئے کہنے لگی ’’ پگلی یہ چاہے جانے کا خمار ہے‘‘ان کی یہ بات میرے پلے نہی پڑی ۔۔میں نے پھر پوچھا کہ کیا مطلب ؟؟ وہ مذید گہریہنسی ہونٹوں پر سجا کے کہنے لگی کہ جب تمھاری شادی ہوگی تو تم کو خود ہی پتا چل جائے گا۔۔۔۔ایک دن جیجا جی ہمارے گھر آے ہوے تھے ۔۔۔۔ ہم نے رات کو ice cream کھانے کا پروگرام بنا لیا کیوں کہ کچھ ہی دن کے بعد جیجا جی کی فلایٹ تھی اورباجی نے بھی ان کے ساتھ جانا تھا۔۔۔۔۔ اور ہم سبنے جیجا جی سے ٹریٹ لینی تھی ۔۔۔ ice cream کھا کے ہم گھر پہنچے تو سب تھک چکے تھے۔۔۔ تھوڑی دیر ہمسب گھر والے ایک ساتھ بیٹھ کر T.V دیکھتے رہے اور ساتھ ساتھ باتیں بھی ہوتی رہی۔۔۔۔ رات کا 1 بج چکا تھا ۔۔۔ ابو نے کہا کہ چلو بچو اب سو جاو رات بہت ہو چکی ہےمگر میرا سونے کا من نہیں ہو رہا تھا۔۔ میں اپنی باجی کے ساتھ بہت سی باتیں کرنا چاہتی تھی ۔۔۔۔ دل یہ سوچ کر اداس ہو رہا تھا کہ کچھ دن کے بعدباجی چلی جایں گی اور پھرایک سال کے بعد دوبارہ واپس آیں گی۔۔۔ میں نے باجی سے کہا کہ باجی آپ میرے ساتھ میرے کمرے میں سوجایں ۔۔ میں نے آپ سے بہت باتیں کرنی ہیں ۔۔۔باجی نے کہا چلو ٹھیک ہے ۔۔ میں تمھارے کمرے میں آتی ہوں جب تم سو جاو گی تو میں تمھارے جیجا جی ک پاس چلی جاوں گی۔۔ مجھے اب ان کے بنا نیند نھی آتی۔۔بس ٹھیک ہے باجی آپ تھوڑی دیر کے لیے ہی سہی مگر میرے پاس آ جایں ۔۔۔ میں نے باجی سے کہااور ان کو لے کر اپنے کمرے میں آ گی۔۔۔۔باتیں کرتے کرتےمجھے نیند کی مہربان دیوی نے اپنی آغوش میں لے لیا اور میں بے خبر سو گیی۔۔۔پھر پتا نہی کیا ہوا ۔۔۔ شاید کسی آہٹ سے یا ویسے ہی میری آنکھ کھلی تو میں نے دیکھا کی باجی جاچکی ہے۔۔۔ مجھے پیاس لگ رہی تھی ۔۔۔۔ ویسے تومیں سونے سے پہلےپانی کی بوتل اور گلاس اپنے پاس رکھ کے سوتی ہوںمگر آج یاد نہ رہا۔۔ میں فرج سے پانی کی بوتل لے کر واپس آ رہی تھی کہ کچھ آوازوں نے مجھے رکنے پر مجبور کر دیامیں شاید ان آوازوں کو نظر انداز کر کے چلی جاتی مگر جس آواز نے مجھے رکنے پر مجبور کیا وہ آواز باجی کی تھی۔۔۔نہی جان آج میں بہت تک گیی ہوں آج نہی کرو۔۔۔ جان پلیز آج میرا بہت دل کر رہا ہے ۔۔ آج مت روکو۔۔۔ کر لینے دو ۔۔۔۔ جیجا کی آواز میں لجاجت تھی ۔۔۔میں تجسس کے ہاتھوں مجبور ہو کے باجی والے کمرے کی کھڑکی کے پاس چلی گیی جہاں سے یہ باتوں کی آوازیں آ رہی تھی ۔۔۔۔اچھا چلیں اگر اتنا ہی دل کر رہا ہے تو میں آپ کو کسی اور طریقے سے فارغ کر دیتی ہوں ۔۔۔نہی جان کسی اور طریقے سے مجھے مزہ نہی آے گا۔۔۔سلام دوستو کیسے ہیں آپ سب ۔۔۔ یہ میری پہلی کاوش ہے امید ہے آپ سب کو پسند آئے گی۔۔۔۔۔ میری کہانی میں کچھ واقعات حقیقت ہیں اور کچھ کہانی کی ڈیمانڈ کے مطابق فرضی ہیں ۔۔۔۔میری اس کہانی میں سب نام اور کردار فرضی ہیں ۔۔۔۔ یہ کہانی ایک لڑکی کی ہے ۔۔۔۔تو چلئے جس کی کہانی ہے اسی کے منہ سے سنتے ہیں ۔۔۔۔۔میرا نام نوشین ہے اور میرا تعلق ایک آسودہ حال خاندان سے ہے ۔۔۔۔میری عمر 30 سال ہے ۔۔۔۔ ہم 2 بہنیں اور 1 بھائی ہیںمیری بڑی بہن کا نام ماہین ہے ۔۔۔ان کی عمر 32 ہے اور بھائی ہم دونوں بہنوں سے چھوٹا ہے اس کی عمر ابھی 25 ہے ۔۔۔ہوش سنبھالی تو گھر میں خوشحالی دیکھی کسی قسم کی کوئی تنگی نہیں تھی۔۔۔۔ہمیں اپنے گھر میں ہر سہولت میسر تھی کبھی کسی چیز کی کمی محسوس نہ ہوئی تھی وقت کے ساتھ ساتھ تعلیم کا سلسلہ چلتا رہااور میں نے BA کا امتحان اچھے نمبروں کے ساتھ پاس کر لیا ۔۔۔میں ابھی اور پڑھنا چاہتی تھی مگر ہر ماں باپ کی خواہش ہوتی ہے کہ ان کی بیٹی جلد از جلد اپنے گھر کی ہو جائے ۔۔۔میں شکل صورت میں خوبصورت تھی ۔۔۔ رنگ سانولا اور قد 5 فٹ 6 انچ ہے ۔ اور میرے بریست کا سائز 38 ہے۔میرے فگر کو دیکھ کر اکثر میری سہیلیاں مجھے چھیڑا کرتی تھی کہ نوشین تمھارا فگر تو بہت ہی سکسی ہےمیری کلاس فیلو سمرین ایک ٹھنڈی آہ بھر کے کہتی کہ کاش میں لڑکا ہوتی تو تجھے پھنسا لیتی۔۔اور میں ایسی باتوں پر ہنس دیا کرتی۔۔۔۔جیسے جیسے میں جوان ہوتی گئی ویسے ویسے میرے خیالات اور جذبات بھی جوان ہوتے گئے۔۔۔وقت کے ساتھ ساتھ میرے دل میں بھی خواہش پیدا ہوتی گئی چاہے جانے اور سراہے جانے کی ۔۔۔میرے خوابوں میں بھی دوسری لڑکیوں کی طرح ایک راجکمار آتا تھا۔۔جو مجھے بے حد و بے حساب پیار کرتا تھا۔۔۔مگر مجھے کبھی بھی سکس کی طلب نہیں ہوئی تھی۔۔۔مجھے سکس کے بارے میں کچھ بھی پتہ نہ تھا۔۔۔میرے نزدیک پیار صرف شوہر کی باہوں میں سونے اور گلے لگنے کا نام تھا۔۔۔۔دیکھتے دیکھتے ہم دونوں بہنیں جوان ہو گئی پھر ایک دن میری بڑی بہن کا رشتہ آیا جسے تھوڑی چھان بین کے بعد قبول کر لیا گیا۔۔۔لڑکا انگلینڈ کسی بڑی کمپنی میں جاب کرتا تھا اور شادی کے بعد اس نے یعنی میرے جیجا جی نے میری باجی کو بھی اپنے ساتھ لے جانا تھا۔۔۔۔خیر رشتہ پکا ہوا اور باجی بیاہ کر اپنے سسرال چلی گئی۔۔۔شادی بہت دھوم دھام سے ہوئی ۔۔۔شادی کے بعد میں نے ایک چیز نوٹ کی کہ اب باجی کے ہونٹوں پر ایک دلفریب مسکان ہر وقت کھیلتی رہتیتھی۔۔۔میں نے ایک دن پوچھا کہ باجی آپ کی اس ہنسی کی کیا وجہ ہے تو وہ ہنستے ہوئے کہنے لگی ’’ پگلی یہ چاہے جانے کا خمار ہے‘‘ان کی یہ بات میرے پلے نہی پڑی ۔۔میں نے پھر پوچھا کہ کیا مطلب ؟؟ وہ مذید گہریہنسی ہونٹوں پر سجا کے کہنے لگی کہ جب تمھاری شادی ہوگی تو تم کو خود ہی پتا چل جائے گا۔۔۔۔ایک دن جیجا جی ہمارے گھر آے ہوے تھے ۔۔۔۔ ہم نے رات کو ice cream کھانے کا پروگرام بنا لیا کیوں کہ کچھ ہی دن کے بعد جیجا جی کی فلایٹ تھی اورباجی نے بھی ان کے ساتھ جانا تھا۔۔۔۔۔ اور ہم سبنے جیجا جی سے ٹریٹ لینی تھی ۔۔۔ ice cream کھا کے ہم گھر پہنچے تو سب تھک چکے تھے۔۔۔ تھوڑی دیر ہمسب گھر والے ایک ساتھ بیٹھ کر T.V دیکھتے رہے اور ساتھ ساتھ باتیں بھی ہوتی رہی۔۔۔۔ رات کا 1 بج چکا تھا ۔۔۔ ابو نے کہا کہ چلو بچو اب سو جاو رات بہت ہو چکی ہےمگر میرا سونے کا من نہیں ہو رہا تھا۔۔ میں اپنی باجی کے ساتھ بہت سی باتیں کرنا چاہتی تھی ۔۔۔۔ دل یہ سوچ کر اداس ہو رہا تھا کہ کچھ دن کے بعدباجی چلی جایں گی اور پھرایک سال کے بعد دوبارہ واپس آیں گی۔۔۔ میں نے باجی سے کہا کہ باجی آپ میرے ساتھ میرے کمرے میں سوجایں ۔۔ میں نے آپ سے بہت باتیں کرنی ہیں ۔۔۔باجی نے کہا چلو ٹھیک ہے ۔۔ میں تمھارے کمرے میں آتی ہوں جب تم سو جاو گی تو میں تمھارے جیجا جی ک پاس چلی جاوں گی۔۔ مجھے اب ان کے بنا نیند نھی آتی۔۔بس ٹھیک ہے باجی آپ تھوڑی دیر کے لیے ہی سہی مگر میرے پاس آ جایں ۔۔۔ میں نے باجی سے کہااور ان کو لے کر اپنے کمرے میں آ گی۔۔۔۔باتیں کرتے کرتےمجھے نیند کی مہربان دیوی نے اپنی آغوش میں لے لیا اور میں بے خبر سو گیی۔۔۔پھر پتا نہی کیا ہوا ۔۔۔ شاید کسی آہٹ سے یا ویسے ہی میری آنکھ کھلی تو میں نے دیکھا کی باجی جاچکی ہے۔۔۔ مجھے پیاس لگ رہی تھی ۔۔۔۔ ویسے تومیں سونے سے پہلےپانی کی بوتل اور گلاس اپنے پاس رکھ کے سوتی ہوںمگر آج یاد نہ رہا۔۔ میں فرج سے پانی کی بوتل لے کر واپس آ رہی تھی کہ کچھ آوازوں نے مجھے رکنے پر مجبور کر دیامیں شاید ان آوازوں کو نظر انداز کر کے چلی جاتی مگر جس آواز نے مجھے رکنے پر مجبور کیا وہ آواز باجی کی تھی۔۔۔نہی جان آج میں بہت تک گیی ہوں آج نہی کرو۔۔۔ جان پلیز آج میرا بہت دل کر رہا ہے ۔۔ آج مت روکو۔۔۔ کر لینے دو ۔۔۔۔ جیجا کی آواز میں لجاجت تھی ۔۔۔میں تجسس کے ہاتھوں مجبور ہو کے باجی والے کمرے کی کھڑکی کے پاس چلی گیی جہاں سے یہ باتوں کی آوازیں آ رہی تھی ۔۔۔۔اچھا چلیں اگر اتنا ہی دل کر رہا ہے تو میں آپ کو کسی اور طریقے سے فارغ کر دیتی ہوں ۔۔۔نہی جان کسی اور طریقے سے مجھے مزہ نہی آے گا۔۔۔ آج دل کر رہا ہے تم کو اپنی گود میں بٹھا کر تمھارا مزہ لوں۔۔۔ جیجا جی باجی کو کہہ رہے تھے۔۔مجھے ان کی ان سب باتوں کی ٹھیک سے سمجھ نہیں آ رہی تھی کی یہ دونوں کیا بات کر رہے ہیں ۔۔۔ پھر اچانک جیجا جی کی آواز آیی ۔۔۔ جان دیکھو یہ کتنا بیچین ہو رہا ہے۔۔اس کی بیچینی ختم کر دو نہ۔۔۔۔میں حیران تھی کہ ان دونوں کے علاوہ کون تھا جوان کے کمرے میں موجود تھا اور بے چین بھی تھا۔۔ اور باجی اس نا معلوم کی بے چینی کیسے دور کر سکتی ہیں۔۔۔۔اپنے اس تجسس کے ہاتھوں مجبور ہو کر میں نے کھڑکی کو ہلکا سا کھولا تو خوش قسمتی سے کھڑکی کھلتی چلی گیی۔۔۔ اور اپنے سامنے والا منظر دیکھ کر میرا سر چکرا کر رہ گیا۔۔۔۔۔جاری ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔:جی دوستو امید ہے آپ اس کہانی کو انجوے کر رہے ہوںگے ۔۔۔۔آپ کی خدمت میں پیش ہے کہانی کا اگلا حصہ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔جیسے ہی میں نے کھڑکی کو ہلکا سا دھکا دیا تو کھڑکی اپنے آپ ہی کھلتی چلی گیی۔۔۔ اور سامنے والامنظر دیکھ کر میرے اوسان خطا ہو گیے۔۔۔میں نے دیکھا کہ باجی میرے جیجا جی کے سینے پرسر رکھ کر لیٹی ہویی ہیں اور جیجا نے صرف انڈر وییر پہنا ہوا ہے اور جیجا جی کا ناگ نما آلہ ان کے انڈر وییر سےباہر نکلا ہوا ھے اور باجی اس کو اپنے ہاتھ میں پکڑ کر اسے ہلکے ہلکے سہلا رہی ہیں۔۔۔ یہ سب دیکھ کر مجھے عجیب بھی لگا اور تجسس میں مزید اضافہ ہو گیا کہیہ سب چل کیا رہا ہے۔۔۔ میں نے کھڑکی سے ہٹنے کا فیصلہ کیا ۔۔۔ مگر مجھے ایسا لگ رہا تھا کہ جیسے میں اس کھڑکی سے پیچھے نہی ہٹ پاوں گی ۔۔۔۔میں وہی کھڑی رہیجان کچھ کرو نہ اب اپنے اس لاڈلے کا ۔۔۔۔ دیکھو نا کیسے تن کے کھڑا ہو چکا ہے ۔۔۔ جیجا جی نے باجیسے کہا۔۔۔۔جان جی میں جانتی ہوں کہ یہ میرا لاڈلا میرے احترام میں کھڑا ہو رہا ہے ۔۔ میں ابھی اس کا کچھ کرتی ہوں ۔۔ اور ساتھ ہی باجی نے جیجا جی کے ہونٹوں پر ایک بھرپورفرنچ کس کی ۔۔۔ کافی دیر تک باجی اور جیجا جی ایک دوسرے کے ہونٹوں کو چوستے رہے ۔۔۔۔ ساتھ ساتھ دونوں کی آوازیں بھی آ رہی تھی ۔۔ آآآہ ہ ہ ہ ہ۔۔۔۔ افف ف ف ف۔۔جان بہت مزے دار ہیں تمھارے ہونٹ ۔۔۔ آآآآہ ہ ۔۔۔ جان اپنی زبان مجھے چوسنے دو نا پلیززز۔۔۔ باجی نے بڑےپیار سے اور بہت سکسی آواز میں جیجا جی سے کہا۔۔جیجا جی نے شاید اپنی زبان باجی کے منہ میں داخل کر دی تھی ۔۔۔ باجی بڑے مزے سے جیجا جی کی زبان کاذایقہ چکھ رہی تھی ۔۔۔اور ساتھ ساتھ باجی نے اپنیقمیضبھی اتار دی تھی ۔۔۔۔ باجی کے ممے کیا قیامت لگ رہے تھے ۔۔۔ جیجا جی نے باجی کا برا بھی نہیںہٹایا تھا اور باجی کے مموں پر اپنا منہ رکھ دیا تھا ۔۔۔باجی کے منہ سےایک لذت بھری سسکاری نکلی ۔۔۔۔۔ سسسسس ۔۔۔ امممممم ۔۔۔۔ اففففف۔۔۔ جااااااااان ن ن ن ن۔۔۔۔ سارا دودھ پی لو میری جان ۔۔۔ خوب زور زور سے پیو ۔۔۔ یہ تمھارے ہی ہیں میری جاااان ن ن۔۔جیجا جی پاگلوں کی طرح باجی کے دونوں نپل باری باری چوس رہے تھے ۔۔۔۔ ان کو دیوانہ وار ایسے دودھ پیتے دیکھ کر میرے جسم میں آگ بھڑک اٹھی تھی ۔۔۔جان ۔۔۔۔۔ باجی نے بہت ہلکے سے جیجا جی کا سر اپنے مموں سے الگ کر کے کہا ۔۔۔ جان آج کیا ہو گیا ہےآپ کو ۔۔ کیوں اتنی آگ لگ رہی ہے ۔۔جیجا جی نے پھر باجی کے مموں پر اپنا منہ رکھ لیااور زیادہ زور سے چوسنے لگ گیے۔۔۔ باجی نے کہا جانمیرے نپلز کو اپنے دانتوں سے کاٹو۔۔۔ آآآآہ ہ ہ۔۔۔۔۔۔اوی ماں۔۔۔ ہان جان ایسے ہی۔۔۔ اففففففف۔۔۔۔۔۔ بہت مزہ آ رہا ہے ۔۔۔ ہاں اور زور سے کاٹو ۔۔۔ باجی مزے سے پاگل ہو رہی تھی اور جیجا جی کے سر کو زور سے اپنے مموںکے ساتھ دبا رہی تھی ۔۔۔۔۔ جیجا جی نے اب مموں کو چھوڑ کر باجی کے پورے جسم کو چومنا شروع کر دیا تھا ۔۔ اور کہیں کہیں اپنے دانتوں سے ہلکا ہلکاکاٹ بھی رہے تھے ۔۔۔۔۔Rjmudi:باجی مزے سے سسکاریاں بھر رہی تھی ۔۔۔ جیجا جی نے باجی کی شلوار کو اتارا اور اور باجی کی ٹانگیں پھیلا کر ان کے درمیان بیٹھ گیے ۔۔۔۔پہلے وہ باجی کی بھری بھری ٹانگوں کو چومتےرہے پھر انہوں نے بڑے آرام سے ان کی پھدی پر اپنے ہونٹ رکھ دیے۔۔۔ آآآآہ۔۔۔۔۔۔ جاااااااااان ۔۔۔۔جیجا جی نے اپنی زبان نکال کر پہلے باجی کی پھدی کے ہونٹوں کو اوپر سے نیچے اور نیچے سے اوپر کی طرف چاٹنا شروع کیا تو باجی نے مزے سے اپنی آنکھیںبند کر لی۔۔۔۔ باجی نے اپنی ٹانگیں اوپر کی طرف فولڈ کر کے اپنی پھدی کا منہ اور کھول لیا ۔۔۔ اور جیجا جی نے اپنی زبان باجی کی پھدی میں اندر تک ڈال دی۔۔۔آآآآآآہ میری جان اور کتنا تڑپاو گے مجھے ۔۔۔۔ اب بس کرو اور ڈال دو اس میں اپنا ناگ ۔۔۔ آگ بھجا دو اس کی ۔۔۔۔جیجا جی نے باجی کی ٹانگوں سے اپنا منہ اٹھایا اور باجی کو ہاتھ سے پکڑ کر اٹھایا اور اپنا کالا ناگ ان کے منہ کے سامنے کرتے ہویے بولےکہ جان یہ تمھارے پیار کا پیاسا ہو رہا ہے۔۔۔ باجینے بنا کویی وقت ضایع کیے جلدی سے جیجا جی کا لن اپنے منہ میں لے کر اس کو چوسنا شروع کر دیا ۔۔جیجا جی نے باجی کے سر کے پیچھے اپنے اپنے دونوں ہاتھوں سے پکڑا اور ان کے منہ کو اپنے ہاتھوں سے آگے پیچھے کرنے لگے۔۔۔ باجی بڑے مزے سے جیجا جی کاہتھیار چوس رہی تھی ۔۔ باجی کے منہ میں جیجا جی کا ہتھیار بہت مشکل سے جا رہا تھا ۔۔۔ باجین جیجا جی کا سارا ہتھیار اپنے تھوک سے چکنا کر دیا ہوا تھا۔۔۔۔ساتھ ساتھ وہ جیجا جی کے انڈوں کو اپنے ایک ہاتھ سےسہلا رہی تھی ۔۔۔۔۔ جیجا جی آنکھیں بند کیے ہوے باجی کے بالوں میں اپنی انگلیاں پھنسایے ان کا منہ آگے پیچھے کر رہے تھےاور ساتھ ساتھ کہہ رہے تھے ۔۔۔۔۔ ” ہاں میرے جان اسی طرح سے چوسو بہت مزہ آ رہا ہے۔۔۔ جیاجی اپنا ہتھیار پورے کا پورا باجی کے منہ میں داخل کرنے کی کوششکر رہے تھے۔۔۔ جو ظاہر ہے ایک مشکل کام تھا۔۔۔ باجی نے ہتھیار اپنے منہ سے باہر نکالا اور انڈے اپنے منہ میں لے کر بھرپور انداز سے چوسنے لگ گیی۔۔۔باجی کے پورے منہ پر جیجا جی کا ہتھیار چھایا ہوا تھا ۔۔۔ وہ کبھی ایک انڈہ اپنے منہ میں لے کر چوستی اور کبھی دوسرے کے اوپر اپنی زبان پھیرتی ۔۔۔ باجی کی پھدیپوری طرح گیلی ہو چکی تھی ۔۔۔ جیجا جی نے باجی کو اٹھایا اور کہا ” جان اب اس کو اجازت دے دو اپنی پیاس بجھانے کی ” جان اپ کی لاڈلی کی پیاس بہت بڑھ گیی ہےاس کا بھی کچھ کر لیں اس کی آگ بجھا دیں بہت گرم ہو رہی ہے یہ اب ۔۔۔ جیجا جی نے یہ سن کے باجی کو بیڈ پر لٹا دیا اور ان کی ٹانگیں اٹھا کر اپنے کاندھوں سے لگا لیان کے ہتھیار کا ٹوپا باجی کے تھوک سے کافی گیلا ہو چکا تھا ۔۔۔ انہوں نے باجی کی پھدی کے منہ پر اپنے ناگ کا ٹوپا سیٹ کیا اور ایک زور کا دھکامارا ۔۔ باجی کی ایک زور دارقسم کی چیخ نکل گیی جو انہوں نے اپنے منہ پر ہاتھ رکھ کر روکی ۔۔۔۔ میں سمجھی کہ شاید پورا اندر چلا گیا ہے ۔۔ مگر جیجا کہہ رہے تھے ” جان ابھی تو صرف ٹوپا گیا ہے اندر”اور تمھاری چیخ نکل گیی ہے ۔۔ ابھی پورا جانا باقی ہے ۔۔۔باجی کہنے لگی کہ آپ اس کو اور گیلا کر لیں ورنہ لگ رہا ہے جیسے یہ میری پھاڑ دے گا ۔۔۔ جیجا جی مسکراتے ہویےکہنے لگے میری جان اس درد کا مزہ لو پوری طرح سے ۔۔۔ تم اسے اپنی پھدی کے پانی سے گیلا کرو ۔۔۔ جان جی اسے اندر کریں یہ خود ہی گیلا ہو جایے گا۔۔۔اتنا کہہ کہ باجی نے اپنی ٹانگیں اور کھلی کر لیں ۔ ۔۔۔۔ جیجا جی نے باجی کی ٹانگیں کھینچ کر ان کو اپنے پاس کر لیا ۔۔۔۔ اور ایک جاندار جھٹکا مار کر باجیکے اندرکرنے کی کوشش کی جو اس بار بھی ناکام ہو گیی۔۔۔ ابھی بھی آدھا ہی اندر گیا تھا ۔۔ مگر باجی کے چہرے پر جو تکلیف کے آثار تھے اس کو دیکھ کر لگ رہا تھاجیسے باجی کی سانس ہی رک گیی ہو ۔۔۔ جیجا جی نے یہ دیکھ کر اپنا باہر نکال لیا ۔۔۔ اور باجی نے اٹھ کر جیجا کے ہونٹ اپنے ہونٹوں میں لے لیے ۔۔۔ اور چوسنے لگ گییجیجا جی نے پھر باجی کو ہلکا سا دھکا دے کر بیڈ پر گرایا اور ان کی ٹانگیں دوبارہ سے اور اٹھا کران کی پھدی پر تھوک لگایا ۔۔۔ جان اب جتنا بھی درد ہو برداشت کر لیناکیوں کہ میں اب پورا اندر ڈالنے لگا ہوں ۔۔ اس کے ساتھ ہی جیجا جی نے اپنی پوری طاقت سے ایک دھکامارا اور ان کا ناگ باجی کی پھدی کی گہرایی میں اترتا چلا گیاادھر میرے نیچے آگ بھڑک رہی تھی ۔۔ میرا ہاتھ بلکل غیر محسوس طریقے سے میری پھدی کو سہلا رہا تھا۔۔۔ میری پھدی اپنے ہی پانی سے بہت گیلی ہو رہی تھیمجھے بہت مزہ آ رہا تھا اپنی پھدی کو سہلانےکا۔۔۔جاری ہے۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔:جیسے ہی جیجا جی نے اپنا پورا زور کر باجی کو ایک جاندار جھٹکا مارا ان کا کالا ناگ باجی کی پھدی کی گہرایی میں اتر گیا ۔۔ باجی کی آنکھیں ابل کر باہر آ گییباجی نے اپنے ہونٹ سختی سے اپنے دانتوں میں دبا کھے تھے ۔۔۔ جیجا جی نے اندر رکھے رکھے باجی کے رسیلے ہونٹوں کو چوسنا شروع کر دیا۔۔۔تھوری دیر کے بعد باجی کی حالت نارمل ہو گیی اور جیجا جی نے آہستہ آہستہ بڑے آرام کے ساتھ باجی کے اند باہر کرنا شروع کر دیا ۔۔۔ باجی کی پھدی فل گرم اور گیلی تھیپھر باجی کو بھی مزہ آنے لگا اور انہوں نے جیجا جی کا ساتھ دینا شروع کر دیا ۔۔۔ جیسے ہی جیجا جی باجی کے اندر کرتے باجی اپنی ہپ تھوڑی سی اٹھاکر جیجا جیکا پورا اپنے اندر لینے کی کوشش کرتی ۔۔۔ جیجا جی نے باجی کے دونوں ممے اپنے ہاتھوں میں پکڑ رکھے تھے ۔۔ اور ان کو دبا بھی رہے تھے ۔۔۔باجی کی سکسی سسکیاںکمرے میں گونج رہی تھی ۔۔۔ پانچ منٹ تک جیجا جینے ایسے ہی باجی کو مزہ دیا ۔۔۔ پھر انھوں نے باجی کے اندر سے باہر نکال لیا ۔۔۔ میں سمجھی کے اب کھیل ختم ۔۔مگر کہاں جناب ابھی تو کھیل باقی تھا ۔۔ جیجا جی نے باجی کو بیڈ پر سے اٹھا کر نیچے کھڑا کیا اور کہا جان ایک ٹانگ بیڈ کے سرے پر رکھو اور ایک ٹانگ بیڈ سے نیچےاور باجی کو بیڈ پر جھکا دیا ۔۔ خود باجی کی بیک سایڈ پر آ کر کھڑے ہو گیے ایس کرنے سے باجی کی پھدی کھل گیی تھی اور جیجا جی نے باجی کے پیچھے کھڑے ہو کراپنا ناگ باجی کی پھدی کے دھانے پر فٹ کیا اور ایک ہلکا سا دھکا مارا ناگ بڑے آرام سے باجی کی گہرایی میں اتر گیا ۔۔۔ باجی نے ایک سسکاری بھری اور اپنا ایک ہاتھ پیچھے کر کے جیجا جی کو اپنے ساتھ چپکا لیا ۔۔۔ جیجا جی کا ناگ جڑ تک باجی کی گہرایی میں جا رہا تھا ۔۔۔۔ جیجا جی نے پیچے کھڑے کھڑے باجی کے دونوں ممےاپنے دونوں ہاتھوں میں پکڑ رکھے تھے جب وہ باہر نکالتے تو مموں پر گرفت کم کر دیتے مگر جیسے ہی وہ اندر کرتے مموں کو زور سے پکڑ کر اپنی طرف کھینچتےچھ سات منٹ تک جیجا جی ایسے ہی کرتے رہے چانک باجی کی آواز آیی جان زور سے کرو اسے اندر باہر میں فارغ ہونے لگی ہوں ۔۔ یہ سن کر جیجا جی کی رفتار میںتیزی آ گیی۔۔۔ انہوں نے تیز تیز دھکے مارنے شروع کردیے ۔۔ باجی کا سارا جسم اکڑنے لگ گیا اور ان کے منہ سے عجیب عجیب آوازیں آنا شروع ہو گیی پھر اچانک ہیباجی کے جسم کو جھٹکے لگنے لگ گیے ۔۔ باجی بیجان ہو کر بیڈ کے اوپر گر گیی ۔۔ جیجا جی بھی رکگیے تھے انہوں نے باجی کو کسنگ کرنا شروع کیاتھوڑی دیر کے بعد باجیکی حالت نارمل ہو گیی تو جیجا جی نے باجی کو بیڈپر ایک پہلو کے بل لٹا دیا اور خود ان کے پیچھے جا کر لیٹ گیے ۔ ۔ باجی نے اپنی ایک ٹانگ اٹھا کر جیجا جی کا ناگہاتھ میں پکڑ کر اپنی پھدی میں ڈالا اور ساتھ ہی مزے کی لہر سے ان کا جسم کانپ گیا ۔۔۔جیجا جی نے ایک ہاتھ ان کی گردن کے نیچے سے کر کے ان کے ممے کو پکڑلیا اور دوسرے ہاتھ سے ان کی اوپر اٹھی ہویی ٹانگ کوپکڑ کے سہارا دیا اور اپنی کمر ہلکا کر باجی کے اند باہر کرنے لگ گیے ۔۔۔ باجی نے اپنی آنکھیں بند کر لی تھیجیجا جی دھکے مارنے کے ساتھ ساتھ ان کی کمر کوپیچھے سے چوم چاٹ رہے تھے ۔۔میں نے دیکھاکہ باجی کی پھدی سے بہت سارا پانی نکلا ہوا تھا جس سے باجیکی رانیں بھی گیلی ہو رہی تھی ۔۔۔جیجا جی کا ناگبڑے آرام سے باجی کے اند باہر ہو رہا تھا ۔۔۔۔ دھپ دھپ کی آوازوں سے کمرہ گونج رہا تھا ۔۔۔ جیجا جی کی رفتار میںکافی تیزی آ گیی تھی ۔۔۔ پانچ منٹ ایسے کرنے کے بعد باجی کے جسم میں پھر سے اکڑاو پیدا ہونا شروع ہو گیا تھا انہوں سے جیجا جی سے کہا آپ کی کتنی دیر ہےمیں دوبارہ دسچارج ہونے لگی ہوں میری جان بس تھوڑی دیر رک جاو میں بھی ڈسچارج ہونے لگا ہوں اس کے ساتھ ہی انہوں نے اپنی سپیڈ تیز کر دی دس بارہ دھکوںکے بعد جیجا جی نے ایک آہ بھری اور کہا لو میری جان ناگ اپنا پانی چھوڑنے لگا ہے ۔۔ ساتھ ہی انہوں سے ایک بھرپور دھکا مارا اور اپنا پورا باجی کے اندر داخل کر دیاباجی نے لمبی سسکاری بھری اور ان کا جسم جھٹکے کھانے لگ گیا ۔۔۔ دونوں ڈسچارج ہو چکے تھے ۔۔ دونوں کی لمبی لمبی سانسوں کی آواز آ رہیتھی ۔۔ میرے نیچےآگ بھڑک رہی تھی ۔۔۔ میں نے اپنی پھدی کے دانے کو زور زور سے مسلنا شروع کر دیا ۔۔ مجھے ایسا لگا جیسے میری جان ٹانگوں سے نکل رہی ہو ۔۔ ایک ہاتھ سے میںنے اپنے منہ کو بند کر لیا اور تین چار جھٹکوں کے ساتھ میری پھدی سے پانی کا سیلاب نکل آیا ۔۔میرے جسم میں جیسے جان نہی رہی تھی ۔۔ میرے شلوار نیچے تھیاور میرا ایک میرے مموں پر تھا اور دوسرا میری پھدی پر تھا ۔۔ اچانک ایک آواز میرے کانوں میں آیی جس نے میری جان ہی نکال دی کیا کر رہی ہو یہاں کھڑ ی ہو کر۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
سفر Part 2
:یہ آواز امی کی تھی ۔۔ میری ٹانگوں میں جان نہیں رہی تھی کہ میں پیچھے مڑ کے دیکھتی ۔۔۔ وہ وہ وہ ۔۔۔۔ میں میں ۔۔ یہاں ۔۔۔ پا ۔۔ پپ پپ پانی ۔۔۔ کیا پانی پانی ؟؟؟ کیا کر رہی ہو یہاں میں نے صرف اتنا پوچھا ہے ۔۔ اور تم تو ایسے گھبرا گیی ہو جیسے پانی نہیں کویی چوری کرنے آیی ہو ۔۔۔ اور فرج تو اس طرف ہے تم یہاں کیا کر رہی ہو۔۔۔۔ اس سے پہلے کہ میں کچھ کہہ پاتی امی نے کھڑکی سے اندر جھانک کر دیکھا کمرے میں ابھی تک جیجا جی اور باجی ننگے لیٹے ہویے تھے۔۔۔۔امی نے قہر آلود آنکھوں سے مجھے دیکھا ۔۔۔۔۔۔ اس سے پہلے کہ میں اپنی صفایی میں کچھ کہہ پاتی امی نے ایک زناٹے دار تھپڑ مجھے رسید کر دیا ۔۔۔بے غیرت ۔۔ بے حیا ۔۔۔ کیا دیکھ رہی تی یہاں کھڑے ہو کر۔۔۔۔۔امی وہ میں وہ ۔۔۔۔۔۔ دفع ہو جا یہاں سے کمینی ۔۔ میں اپنے گال پر ہاتھ رکھے وہاں سے اپنے کمرے میں چلی آیی ۔۔۔۔امی نے باجی کے کمرے کا دروازہ بجایا باجی نے جلدی سے کپڑے پہنے اور دروازہ کھول دیا ۔۔۔ امی نے کہا کہ بیٹا آپ دونوں اندر ہو اور کڑکی کھلی ہویی ہے دھیان رکھا کرو ۔۔۔ جی امی وہ گرمی کی وجہ سے کھڑکی کھللی رکھی تھی ۔۔ اور اس وقت ویسے بھی ادھر کس نے آنا ہوتا ہے سب لوگ تو سو رہے ہیں ۔۔۔ پھر بھی بیٹا ۔۔۔ امی نے جھجھکتے ہویے باجی سے کہا کہ آپ رات کو سونے سے پہلے کھڑکی بند کر لیا کرو ایسے اچھا نہیں لگتا ۔۔۔ باجی اور جیجا جی یہ سمجھے شاید امی نے ان کو دیکھ لیا ہے ۔۔ باجی بھی امی کے سامنے شرمندہ سی ہو گیی ۔۔۔ ادھر میری ڈر اور خوف سے برا حال ہو رہا تھا پتا نہیں امی نے باجی سے کویی بات نہ کہہ دی ہو ۔۔ یا وہ ابو سے نا بول دیں ۔۔ طرح طرح کے خیالات ذہن میں آ رہے تھے۔۔۔۔ میں واش روم گیی ۔۔۔ شاور کے نیچے کافی دیر تک کھڑی رہی اور اپنے جسم کو بھگوتی رہی۔۔ مگر پتا نہیں کیا ہو گیا تھا میری آگ کسی طرح ٹھنڈی نہیں ہو رہی تھی ۔۔۔ خیر میں نہا کے باہر نکلی اور اپنے بیڈ پر سونے کے لیے لیٹ گیی مگر نیند جیسے میری آنکھوں سے کوسوں دور تھی ۔۔ پتا نہیں رات کے کس پہر میری آنکھ لگی ۔۔۔۔ صبح میری آنکھ کھلی تو جسم درد کر رہا تھا نیند نا پوری ہونے کی وجہ سے ۔۔۔۔ میں فریش ہو کے ڈرتی ڈرتی کچن میں آیی تو دیکھا امی ابھی تک ناشتے والے ٹیبل پر بیٹھی ہویی ہیں میں امی سے نظریں نہیں ملا پا رہی تھی ۔۔مارے شرمندگی کے میں کچن سے باہر جانے لگی تو امی نے آواز دے کر مجھے روک لیا ۔۔۔ میرے پیر جہاں تھے وہیں پر جم گیے ۔۔۔ادھر آو اور بیٹھو میرے پاس ۔۔۔ امی کی آواز میں نرمی تھی ۔۔۔ مگر میرا حلق خشک ہو گیا تھا خوف کے مارے ۔۔۔میں ٹیبل کے دورے کنارے پر بیٹھ گیی ۔۔۔ جی امی۔۔۔ مجھے لگا جیسے میرے آواز ہی نہیں نکل رہی ہے ۔۔۔دیکھو بیٹا تم اب بچی نہیں ہو ۔۔۔ اور تم اب عمر کے اس حصے میں ہو جہاں تم کو ہر چیز کی سمجھ ہونی چاہیے ۔۔ تمھاری باجی شادی شدہ ہے اور ایسے ہر کسی کے کمرے میں جھانکا نہیں کرتے ۔۔ ہر کسی کی اپنی پرایویسی ہوتی ہے ۔۔۔ برا لگتا ہے ایسے کسی کے کمرے میں جھانکنا ۔۔۔ اب تم بڑی ہو چکی ہو ۔۔ امی وہ دراصل میں رات کو ۔۔۔ چھوڑو رات کو ۔۔ جو ہوا سو ہوا ۔۔۔ اب آیندہ خیال رکھنا ۔۔۔ جی امی میں خیال رکھوں گی ۔۔ اینڈ آیی ایم ویری سوری ۔۔۔ اتنا کہتے ہویے میری آنکھوں میں آنسو آگیے ۔۔ امی نے اٹھ کر مجھے گلے سے لگایا اور میرے آنسو صاف کیے ۔۔ میں جانتی ہوں تمھرے ذہن میں سوالات اٹھ رہے ہوں گے ۔۔ اور میں اس وقت تمھاری امی نہیں تمھاری دوست ہوں ۔۔۔تمھارے ذہن میں جو بھی سوالات آ رہے ہیں تم بلا جھجھک مجھ سے پوچھ سکتی ہو ۔۔۔ میں ان سوالات کا جواب دینے کی پوری کوشش کروں گی ۔۔ امی کی ان باتوں سے میرے دل میں بیٹھا خوف اب کسی حد تک ختم ہو چکا تھا ۔۔۔۔ میرے ذہن میں سوالات ہی سوالات تھے مگر میں ابھی بھی جھجھک رہی تھی امی سے ۔۔۔ نہیں امی کویی سوال نہی ہے میرے ذہن میں ۔۔۔ امی میری اس جھجھک کو بھانپ گیی تھی ۔۔۔۔مسکراتے ہویے کہنے لگی کہ چلو ٹھیک ہے جب تمھارے ذہن میں کویی سوال آیے تو پوچھ لینا میں جانتی ہوں تم اس واقت جھجھک رہی ہو ۔۔۔ میں تمھاری ماں ہوں ۔۔۔ سب جانتی ہوں میری بیٹی کے ذہن میں اس وقت کیا چل رہا ہے ۔۔۔۔ میں نے وہاں سے اٹھنے میں ہی عافیت سمجھی ۔۔ ناشتہ کر کے میں کچن صاف کر رہی تھی کہ باجی آ گیی ۔۔ انہوں نے میرے ساتھ کام میںمدد کی اور چایے بنانے کا کہا ۔۔ میں چایے بنا کے ان کے پاس ہی بیٹھ گیی تو باجی کہنے لگی یار رات کو بہت کام خراب ہوا تھا ۔۔ میرے کان کھڑے ہو گیے ۔۔ کیا ہوا تھا باجی ۔۔ میں نے ڈرتے ڈرتے پوچھا ۔۔۔۔یار رات کو میں اور تمھارے جیجا جی کمرے میں لیٹے تھے اور ہمیں کھڑکی بند کرنا یاد نہیں رہا تھا ۔۔ امی نے گزرتے ہویے دیکھ لیا ہم دونوں کو ۔۔۔ میں بہت شرمندہ ہو رہی تھی ۔۔۔ ساری رات نیند نہی آیی۔۔ امی سے بھی میں اب نطریں نہی ملا پا رہی ۔۔۔ کیوں باجی ایسا کیا ہو گیا ہے کہ آپ امی سے نظریں نہی ملا پا رہی ۔۔ سب خیر تو ہے نا ؟؟۔۔۔ میں نے جان بوجھ کر انجان بنتے ہویےباجی سے پوچھا۔۔ حالانکہ مجے سب پتا تھا ۔۔ اور یہ بھی پتا تھا کہ کس نے دیکھا ہے اور کس نے نہی دیکھا ۔۔۔۔باجی نے مختصر رات والی باتمجھے بتا دی کہ رات کو ہوا کیا تھا ۔۔۔۔ میرے ذہن میں ایک دم سے شرارت آیی اور میں نے کہا باجی آپ بھلا مجھے کھڑا کر دیتی دروازے میں تاکہ میں دھیان رکھتی کسی کے آنے جانے کا۔۔۔۔ ہی ہی ہی ہی ہی ۔۔ میں کھلکھلا کے ہنس دی ۔۔ باجی نے ایک دھپ رسید کی میری کمر میں چل بے شرم ۔۔۔۔پھر باجی شام کو اپنے سسرال چلی گیی اور میں گھر میںاداس رہ گیی ۔۔ پھر ایک دن باجی انگلینڈ چلی گیی اپنےشوہر کے ساتھ ۔۔۔۔ باجی کے جانے کے تھوڑے دن بعد ہی ایک بہت اچھی فیملی سے میرے لیے رشتہ آ گیا ۔۔ لڑکا اپنا امپورٹ ایکسپورٹ کا کام کرتا تھا ۔۔۔ بظاہر اس رشتے میں کویی خامی نہ تھی سو یہ رشتہ منظور کر لیا گیا ۔۔۔ منگنی بڑی دھوم دھام سے ہویی ۔۔ اور منگنی کے ایک سال کے اندر اندر ہی میری شادی بھی ہو گیی اور میں بیاہ کر اپنے پیا گھر سدھار گیی ۔۔۔۔ رات دیر تک رسموں کا سلسلہ چلتا رہا ۔۔۔ شادی سے پہلے ہم دونوں میاں بیوی میں کافی کم بات چیت ہوتی تھی ۔۔۔ میں دلہن بنی سیج پر بیٹھی اپنے خاوند کا انتظار کر تے کرتے تھک چکی تھی ۔۔۔ دل میں خوشی اور خوف کے ملے جلے جذبات تھے ۔۔۔ سمجھ نہیں آ رہی تھی کہ ایسا کیوں ہو رہا ہے ۔۔۔۔ پھر اچانک دروازہ کھلنے کی آوازآیی۔۔۔۔ میں سنبھل کر بیٹھ گیی ۔۔۔ قدموں کی آواز آ رہی تھی۔۔ پاس اور پاس۔۔۔ بہت پاس۔۔۔۔ ایسا لگا جیسے کویی میرے بیڈ کے بلکل پاس آ کر کھڑا ہو گیا ہے ۔۔۔ میرا دل زور زور سے دھڑک رہا تھا ۔۔۔۔
:آنے والا کویی اور نہیں میرا شوہر تھا ۔۔۔ وہ کچھ دیر بیڈ کے پاس کھڑے رہے پھر میرے پاس بیٹھ گیے ۔۔۔ کچھ دیر خاموشی رہی پھر انہوں نے میرا گھونگھٹ اٹھایا۔۔۔ اور گھونگھٹ اٹھاتے ہی انہوں نے مجھے ماتھے پر کس کی ۔۔۔ میں شرم سے پانی ہو گیی ۔۔ پتا نہیں کہاں سے اتنی شرم آ رہی تھی مجھے ۔۔۔۔ میرا دل زور زور سے دھڑک رہا تھا ۔۔۔۔ منہ دکھایی اور قسموں وعدوں کے بعد انہوں نے مجھ سے کہا نوشی میری جان تم تھک گیی ہو گی ۔۔۔ چلو اٹھ کر کپڑے تبدیل کر لو ۔۔۔ میں ایسے ہی بیٹھی رہی ۔۔۔ انہوں نے مجھے ہاتھ سے پکڑ کر اٹھایا اور میرے ہاتھ میں کپڑے پکڑا دییے لو چلو چینج کر لو ۔۔۔ میں کپڑے پکڑ کر ابھی سوچ ہی رہی تھی کہ کہاں چینج کروں یہی پر چینج کروں یا واش روم جا کر ۔۔۔ اتنی دیر میں میرے شوہر نے کپڑے تبدیل کر لییے تھے ۔۔۔ وہ سمجھ گیے۔۔ مجھ سے کہنے لگے دلہن بیگم اب شرماو نہیں یہی پر چینجکر لو ۔۔۔ میں نے کہا کہ مجھے شرم آ رہی ہے ۔۔۔وہ ہلکا سا قہقہہ لگا کر بولے ۔۔۔ ارے جان اب کیسا شرمانا ۔۔۔ چلو اگر تم کو اتنی ہی شرم آ رہی ہے تو میں اپنا منہ دوسری طرف کر لیتا ہوں تم جلدی سے چینج کر لو ۔۔۔ اور اس کے ساتھ ہی انہوں نے اپنا چہرہ دہسری طرف کر لیا۔۔ میں نے جلدی سے شلوار اتارکر دوسری پہن لی ۔۔۔ اور جب میں نے اپنی قمیض اتار کر دہسری پہننے کے لییے پکڑ تو انہوں نے جلدی سےاپنا منہ میری طرف کر لیا اور ایک دم سے میری قمیض میرے ہاتھ سے لے لی۔۔۔۔ کہنے لگے جان اب اس اتنے تکلف بھی اچھے نہیں ہیں ۔۔۔۔ میرا بازو پکڑ کر اپنی طرف کھینچا ۔۔ میں بیڈ پر ان کے اوپر گر سی گیی ۔۔۔ انہوں نے مجھے اپنی باہوں میں لے لیا ۔۔ اور میرے گال کو چوم لیا ۔۔۔ ایک لہر سی میرے پورے جسم میں دوڑ گیی ۔۔۔ میرا نرم نازک سینہ ان کے چوڑے اور مظبوط سینے میں دبا ہوا تھا ۔۔۔ مجھے یہ احساس بہت اچھا لگ رہا تھا ۔۔۔ میں اپنے شوہر کی باہوں میں قید تھی ۔۔ اور اب کبھی بھی اس قید سے رہا نہیں ہونا چاہتی تھی ۔۔۔ میں نے بھی ان کو کس کے اپنی باہوں میں بھر لیا۔۔۔ وہ مجھے بے تحاشہ چوم رہے تھے۔۔۔ میں ان کے پیار کی گرمی سے قطرہ قطرہ پگھل رہی تھی ۔۔۔۔۔ابھیمیں خمار میں تھی کہ انہوں نے میرے ہونٹوں کو چوم لیا۔۔۔۔ ہونٹوں کا ہونٹوں سے ملنا تھا کہ میں مدہوش ہونے لگی ۔۔۔ وہ میرے ہونٹ چوس رہے تھے ۔۔۔۔ مجھے اب بہت زیادہ مزہ آ رہا تھا ۔۔۔ میں نے آنکھیں بند کر لی تھی ۔۔۔مجھے ان کے ہونٹوں کا ذایقہ بہت پسند آ یا تھا ۔۔۔ میں خوب مزے سے ان کے ہونٹ چوس رہی تھی ۔۔۔ پھر انہوں نے اپنی زبان میرے منہ کے اندر ڈال دی ۔۔۔ میں بھوکی تو تھی ہی فورا” میں نے ان نے زبان کو چوس لیا۔۔۔۔ جیسے ہی ان کی زبان میری زبان کے ساتھ ٹچ ہویی میں مزے کی ایک نیی دنیا میں پہنچ گیی ۔۔۔۔اففففف۔۔۔۔ کیا ذایقہتھا میٹھا ۔۔۔ مزے سے بھرپور ۔۔۔۔ پھر انہوں نے کہا مجے بھی اپنی زبان کا ذایقہ چکھنے دو ۔۔۔ میں نے اپنی زبان ان کے منہ میں داخل کر دی ۔۔۔ افففففف۔۔۔کیا ذایقہ تھا ان کی زبان کا میں مدہوش ہی تو ہو گیی ۔۔۔۔۔ میں ہواوں میں اڑ رہی تھی ۔۔۔ دل کر رہا تھا کہ ان کی زبان اب منہ سے باہر نا نکالوں ۔۔۔ میں ان کا سارا شہد چوسنا چاہتی تھی اور بڑے مزےسے چوس بھی رہی تھی ۔۔۔۔ انہوں نے زبان چوسنے کے ساتھ ساتھ میرے مموں پر ہاتھ رکھ دیے اور ان کو ہلکا ہلکا دبانا شروع کر دیا ۔۔۔میرے منہ سے ہلکی سی کراہ نکل گیی ۔۔۔ آآآآہ ہ۔۔۔۔۔ سسسسسس۔۔۔ اففففففف۔۔۔ جااااااان۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ایک بات میں آپ کو بتانا بھول گیی ۔۔ میرے شوہر کا نام نبیل ہے ۔۔۔ نبیل نے جوش میں آ کر میرے ممے کو زور سے دبا دیا۔۔ میری چیخ نکل گیی ۔۔ اوی ماں۔۔۔ جان اتنی زور سے تو نا دباو مجھے درد ہو رہا ہے۔۔۔۔۔جان کیا کروں تمھارے ممےاتنے سکسی ہیں کہ میں خود کو روک نہی پا رہا ۔۔۔۔ نبیل میرے سینے کو بھنبھوڑ رہا تھے۔۔۔۔ مزے کی لہر میرے پورے جسم میں دوڑ رہی تھی ۔۔۔۔اور میں نیچے سے اچھی طرح سے گیلی ہو چکی تھی ۔۔۔۔ میری ٹانگوں کے درمیان نبیل کا ناگ اپنی جگہ بنا رہا تھا ۔۔۔ مجھے اپنی ٹانگوں کے درمیان نبیل کے ناگ کا لمس بہت مزہ دے رہا تھا ۔۔ نبیل نے میری شلوار اتار دی اور میری بالوں سے پاک پھدی دیکھ کر پاگل ہو گیے ۔۔۔جو کافی گیلی ہو گیی تھی ۔۔۔ یہ دیکھ کر نبیل نے بھی اپنی شلوار اپنی ٹانگوں سے الگ کر دی ۔۔۔ اب مجھے بے انتہا شرم آ رہی تھی میں نے نبیل سے کہا نبیل آپ لایٹ آف کر دیں ۔۔۔ کیوں میری جان ۔۔۔ کیا ہوا؟؟ مجھے شرم آ رہی ہے نبیل ۔۔۔۔ میں نے اپنے ہاتھ اپنی آنکھوں پر رکھ لیے ۔۔۔۔ نبیل نے میرے ہاتھوں پر کس کیا اور بولے ۔۔۔ میری جان یہی تو مزہ ہے ۔۔ لایٹ آف نہی کرنی میں نےایسے ہی دیکھنا ہے میں نے اپنی جان کو ۔۔۔ بلکل ننگا کر کے ۔۔۔ ہایے نبیل کتنے بے شرم ہیں آپ ۔۔۔۔ہا ہاہاہاہاہا۔۔ نبیل نے نے قہقہہ لگایا ۔۔۔ اور مجھے اپنی باہوں میں کس کر ایک بھرپور کس کی میرے ہونٹوں پر ۔۔۔ جواب میں میں نے بھی ان کے ہونٹ چوس لیے ۔۔۔ نبیل میرے ہونٹوں کو چومتے ہوے میرے سینے کی طرف ہو لیے ۔۔۔ میرا سینا نبیل کے تھوک سے گیلا ہو گیا تھا ۔۔۔ سینے سے ہوتے ہوے وہ میرےپیٹ پر کس کرنے لگے ۔۔ میں سسک اٹھی ۔۔ اففففففففففف۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ آآآآآآہ۔۔۔ انہوں نے میری ٹانگیں کھول کر میری پھدی پر اپنا ھاتھ رکھ دیا۔۔۔۔ میں تھوڑا سا کسمسایی ۔۔۔۔ انہوں نے مزید میری ٹانگیں کھولی اور اپنے ہونٹ میری پھدی کے دھانے پر رکھ دیے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ نبیل میری جان پہلے اس کو صاف کر لیں۔۔۔ گیلی ہو رہی ہے ۔۔۔ار ے میرے جان اس کا رس ہی تو پینا ہے میں نے ۔۔ تم بس ٹانگیں کھولو ۔۔ مجھے پھدی کا رس پینے دو ۔۔۔ میں نے اپنی ٹانگیں مزید اوپن کر دی ۔۔۔ پہلے تو نبیل پھدی کےاوپر اوپر سے کس کرتے رہے ۔۔۔ پھر انہوں نے پھدی کے ہونٹ کھول کر اپنی زبان میری گیلی پھدی کے اندر داخل کر دی۔۔۔۔۔ آآآآآآآہ ہ ہ ہہ ہ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اوی ی ۔۔۔۔۔ جااااااااااانووووووووو۔۔۔۔۔۔۔ایک آگ بھڑک اٹھی میری پھدی میں ۔۔۔ میں مستی میں آ چکی تھی ۔۔۔ میں اپنے سر کو سرھانے پر پتخ رہی تھی۔۔۔۔ نبیل کی زبان بہت لمبی تھی۔۔ وہ میری پھدی کے بہت اندر تک جا رھی تھی ۔۔۔ آآآآآآہ ہ ہنبییییییلللللل۔۔۔۔۔۔ جانو زور زور سے کرو۔۔۔ آآآآآآہ۔۔۔۔۔۔ افففففف۔۔۔۔۔۔۔۔ میرے جسم میں اکڑن پیدا ہو رہی تھی ۔۔۔۔ مجھے ایسا لگ رہا تھا جیسے میری پھدی میں سیلاب آ گیا ہو ۔۔۔ میرے جسم نے دو تین جھٹکے لیے اور ممیری پھدی نے بہت سا پانی چھوڑ دیا۔۔۔ نبیل میں تو ڈسچارج ہو گیی ہوں ۔۔۔۔۔ نبیل نے پھدی کا سارا پانی چاٹ لیا ۔۔۔ نبیل کا سارا منہ میرے پانی سے بھر گیا تھا ۔۔۔ انہوں نے اٹھ کر مجھے ایک اور دار کس کی۔۔۔۔ میں جب نبیل کے ہونٹ چوس رہی تھی تو مجھے ان کے ہونٹ کچھ نمکین سے لگے ۔۔ جو یقینا” میری پھدی سے نکلے ہویے پانی کا ذایقہ تھا۔۔۔۔ نبیل نے اٹھ کر اپنا ناگ میری آنکھوں کے سامنے لہرایا ۔۔۔ جسے دیکھ کر میری توسٹی ہی گم ہو گیی۔۔ ھایے نبیل یتنا بڑا۔۔۔۔۔۔۔ اور ساتھ ہی میں نے نبیل کے موٹے اور لامبے ناگ تو اپنے ہاتھوں میں لے لیا ۔۔۔ میں اسے سہلا رہی تھی ۔۔ جان اسے اپنے منہ میں لو نا۔۔۔ میں نے اس کے ٹوپے پر ایک ہلکی سی کس کی اور زبان نکال کے اس کو چکھا ۔۔ جیسے میں نے باجی کو دیکھا تھا جیجا جی کے ناگ کے ساتھ کرتے ہویے ۔۔۔ نبیل کے ٹوپے میں سے تھوڑا سا پانی نکلا ہوا تھا جسے میں نے چاٹ لیا ۔۔۔۔اس کا ذایقہ بہت ہی مزے دار تھا ۔۔۔ اس کے نیچے نبیل کے انڈے میں نے اپنے ہاتھوں میں پکڑ لیے ۔۔۔ منہ کھول کر میں نے نبیل کے ناگ کو اپنے منہ میں لینے کی کوشش کی مگر نبیل کا ٹوپا ہیمیرے منہ میں جا سکا ۔۔۔نبیل نے میرا سر پکڑ کر تھوڑا سا دبایا ۔۔۔ ٹوپا میرے منہ میں کافی دور تک گیاسیدھا حلق میں جا کر لگا۔۔ مجھے کھانسی ہو گیی ۔۔ نبیل یہ بہت موٹا ہے میرے منہ میں نہی جایے گا ۔۔۔۔ میں نے کھانستے ہوے نبیل سے کہا ۔۔۔۔ جان کوشش کرو ۔۔ جتنا جاتا ہے منہ میں اتنا ہی لے لو ۔۔۔ تمھارے منہ کی گرمی سے یہ اور جوان ہو رہا ہے ۔۔۔میں نے جوش سے چوپے لگانے شروع کر دیے ۔۔۔ میں منہ میں ناگ کا ٹوپا لیے اپنے منہ کو اوپر نیچے کر رہی تھی ۔۔۔۔ پانچ منٹ تک میں چوپے لگاتی رہی میں تھک گیی تھی ۔۔۔ میں نے نبیل سے کہا جان میں تھک گیی ہوں ۔۔۔ نبیل نے مجھے بازو سے پکڑ کر اٹھایا اور بیڈ پر لٹا دیا ۔۔۔۔ میری دونوں ٹانگیں کھول کر وہ میری ٹانگوں کے درمیان پھدی کے منہ پر اپنے ناگ کا ٹوپا رکھ کر بولے ۔۔ جان تم کو ابے درد ہو گا۔۔۔ اسے برداشت کرنا ۔۔ تھوڑی دیر درد ہوگا پھر تم کو مزہ آنے لگے گا ۔۔۔ہممم ۔۔ تھیک ہے جان ۔۔ ۔نبیل نے اپنے ناگ کا ٹوپا اپنے تھوک سے گیلا کیا اور تھوڑا سا تھوک میری پھدی پر بھی لگا دیا ۔۔ پھر انہوں نے ٹوپا میری پھدی کے اوپر رگڑنا شروع کیا ۔۔ میں مزے کی دنیا میں پہنچ چکی تھی ۔۔۔۔ میرے دونوں ہاتھ میرے مموں کو دبا ریے تھے ۔۔۔ دل کر رہا تھا ک نبیل اب اپنا ناگ میری پھدی میں ڈال دے ۔۔ مگر نبیل نے قسم کھایی ہویی تھی کے آج مجھے کو ٹرپا ٹرپا کے مارنا ہے ۔۔۔ وہ میرے ممے زور زور سے دبا رہے تھے اور ٹوپا پھدی کے اوپر ہی گھسا رہے تھے ۔۔ میں نے کہا نبیل میری جان اب اور بارداشت نہی ہو رہا ۔۔ اس کا کچھ کرو ۔۔۔۔ نبیل نے اتنا ہی سنا اور ایک ہلکا سا دھکا مارا اور میری آنکھوں کے آگے اندھیرا چھا گیا ۔۔۔۔ مجھے ایسا لگا جیسے کسی نےمیری پھدی میں گرم لوہے کی سلاخ ڈال دی ہو ۔۔۔ میری آنکھوں میں آنسو آ گیے ۔۔۔۔ نبیل رک گیے ۔۔۔۔مگر ان کا ناگ بدستور میری پھدی کے اندر ہی تھا ۔۔۔ درد کی ایک شدید لہر اٹھی ۔۔۔ میں کراہ کے رہ گیی ۔۔۔۔نبیل مجھے کس کرنے لگ گیے ۔۔۔ تھری دیر کی کسنگ کے بعد میری پھدی میں جو درد کی لہر تھی وہ کم ہو گیی تھی ۔۔۔ اب مجھے درد کے ساتھ ساتھ مزہ بھی آ رہا تھا ۔۔۔۔ میں نبیل کے نیچے تھوڑا تھوڑا اوپر نیچی ہلنے لگی ۔۔۔ نبیل سمجھ گیے کہ میں اب انجویے کرنے لگی ہوں انہوں نے ٹوپا تھوڑا سا باھیر نکالا اور ایک اور پہلے سے سخت مگر ہلکا سا دھکا مارا ۔۔ ان کا ناگ آدھامیری پھدی کے اندر چلا گیا ۔۔۔ مگر مجھے ایسا لگا جیسے میرا سانس رک جاے گا ۔۔۔ میں نے اپنے ہونٹ سختی سے بھینچ لیے ۔۔۔۔انہوں نے پھر باہر نکالا اور ایک جاندار دھکا مارا ۔۔ اس بار پورے کا پورا ناگ میری پھدی کو پھاڑتے ہویے اندر تک اتر گیا ۔۔۔۔ میں نے نبیل کو سختی سے اپنے سات چپکا لیا۔۔۔ کچھ دیر تک ایسے ہی رہے وہ میرے ساتھ چپکے ہویے ۔۔۔۔ نبیل نے مجھے پھر سے ایک فرنچ کس کی اور مجھے کہنے لگے جان اب تم کو مزہ آنے والاہے ۔۔۔۔ پھر انہوں نے اہستہ اپنا ناگ میرے اندر باہر کرنا شروع کیا ۔۔۔۔ مجھے اب واقعی مزہ آ رہا تھا ۔۔۔۔ میں ان کا پورا ساتھ دے رہی تھی ۔۔۔۔ ساتھ میرے منہ سے آوازیں نکل رہی تھی ۔۔۔ جان ن ن ن ن ۔۔۔۔ آآآآآآ ہ۔۔۔ ھایےےےےےےے ۔۔ میں مر گیییییییی ۔۔۔۔ اور نبیل میری ان آوازوں کو سن کے اور زور سے دھکے مار رہے تھے ۔۔۔۔ میرے جسم نے ایک بار پھر سے اکڑنا شروع کر دیا ۔۔ اور میں نے نبیل سے کہا جان زور زور سے کرو ۔۔۔ میری جاااااااننننن ۔۔۔۔۔۔۔ افففففففففف ۔۔۔۔۔ جان میں گیی ۔۔۔ آآآآآآآآآآہہہہہہہہہ ۔۔۔ اور اس کے ساتھ ہی میری پھدی نے ایک بار پھر سے ڈھیر سارا پانی چھوڑ دیا ۔۔۔۔۔نبیل ایک مینٹ رکو میری جان مجھے سانس بحال کرنے دو اپنی ۔۔۔۔۔۔نبیل نے اپنا باہر نکال لیا ۔۔۔۔ اور میرے ساتھ آ کر لیٹ گیے ۔۔۔۔ مجھے اپنے ساتھ چپکا لیا اور مجھے بے تحاشہ چومنے چاٹنے لگے ۔۔۔۔ میں نے دیکھا کہ ان کے ناگ کے ٹوپے پر خون لگا ہوا تھا ۔۔ میں گھبرا گیی ۔۔ نبیل کہنے لگے جان یہ تمھاری سیل کھلنے کا خون ہے۔۔ پریشان ہونے کی ضرورت نہی ہے ۔۔ تھہڑی دیر کی کسنگ کے بعد میں پھر سے گرم ہو گیی ۔۔۔ اب نبیل نے مجھے الٹا کر کے مجھے میرے گھٹنوں کے بل جھکا دیا ۔۔۔ ڈوگی سٹایل میں کر لیا مجھے ۔۔۔۔۔ میرے پیچے آ کر انہوں نے میری پھدی پر ایک بار پھر سے تھوک لگایا اور ناگ کا ٹوپا پھدی میں داخل کر دیا ۔۔۔ اس بار ایسا لگا جیسے یہ میری کمر کو پھاڑ کے باہر نکل آیے گا ۔۔۔۔ نبیل نے ہاتھ بڑھا کر میرے ممے پکڑ لیے ۔۔۔ اور زور زور سے میرے اندر اپنا ناگ اندر باہر کرنے لگے ۔۔۔۔دس منٹ کے بعد نبیل کہنے لگے جان میں ڈسچارج ہونے لگا ہوں ۔۔ میں نے کہا میری جان اپنا سارا پانی میری پیاسی پھدی میں نکال دو ۔۔۔۔ آج بھر دو اس پیاسی پھدی کو ۔۔۔ آآآآآآہہہ۔۔۔ جاااااااان ۔۔ یہ گیا۔۔ اااااااممممممم ۔۔۔۔۔ نبیل کا ناگ میری پھدی میں جھٹکے رہا تھا ۔۔۔۔ اور میری پھدی سے ایک بار پھر چکنے نمکین پانی کی بارش ہو گیی ۔۔۔۔ نبیل میرے اوپر ہی بے جان نڈھال ہو کر گر پڑے ۔۔۔ اور ہم دونوں لمبے لمبے سانس مینے لگے ۔۔۔۔۔ تھوڑی دیر بعد میں اٹھی اور کپڑے سے اپنی پھدی اور نبیل کا ناگ صاف کیا ۔۔۔۔۔ پھر ہم دونوں ایک دوسرے کو باہوں میں لے کر ننگے ہی سو گیے ۔۔۔۔ نبیل کا دل کر رہا تھا دوسرا راونڈ لگانے کا ۔۔ مگر مجھ میں ہمت نہی تھی اتنی ۔۔ نبیل کہنے لگے کہ چلو کوییبات نہی۔ جان ہم کال پھر کر لیں گے ۔۔۔۔
سفر Part 3
دن گزرتے گیے ۔۔۔ کتنے ہی لمحے ہتھیلیوں سے نکل کر ماضی گرد میں گم ہو گیے ۔۔۔۔ آنے والا کل آج بنتا گیا اور جو آج تھا وہ بیتا ہوا کل بنتا گیا ۔۔۔ زندگے بہت پر سکون گزر رہی تھی ۔۔۔ میں پہلے بتا چکی ہوں کہ میرے ہسبنڈ امپورٹ ایکسپورٹ کا بزنس کرتے ہیں ۔۔۔ اور یہ بزنس ان کا فیملی بزنس ہے ۔۔۔ کبھی کبھی میرے ساس بھی میرے سسر اورمیرےہسبنڈ کے ساتھ فیکٹری چلی جاتی تھی سپیشلی جبکویی نیو پروڈکٹ بنتی تھی تو میری ساس فیکٹری کا چکر ضرور لگاتی تھی ۔۔۔ ان کا سارا دن پھر ادھر ہی گزرتا تھا ۔۔ میں گھر میں بور ہوتیرہتی تھی ۔۔ ۔ایک دن میں نے اپنے سسر سے کہا انکل میں بھی اپنی فیکٹری دیکھنا چاہتی ہوں کسیدن مجھے بھی لے کر جاییں نہ ساتھ اپنے ۔۔۔ ہم ناشتہ کر رہے تھے ۔۔ میری اس بات سے اچانک ہی نبیل کو اچھو لگ گیا ۔۔ کہنے لگے نہی تم جا کر کیا کرو گی فیکٹری میں ۔۔۔ گھر میں رہا کرو ۔۔ میں گھر میں بور ہو جاتی ہوں ۔۔ بس گھر میں امی ہوتی ہیں ۔۔ اور جب وہ بھی آپ کے ساتھ چلی جاتی ہیں تو دن گزارے نہی گزرتا ۔۔ مجھے نہی پتا مجھے بی جانا ہے فیکٹری ۔۔۔۔ انکل کہنے لگے اچھا اچھا بیٹی چلی جانا مگر آج نہیں آج ہماری فیکٹری میں فارن سے کسٹمر آ رہے ہیں ان کے ساتھ ہم بزی رہیں گے ۔۔۔ تم پھر سے بور ہو جاو گی اورآج ہو سکتا ہے نیو بزنس ڈیل بھی ہو جایے ان لوگوں کے ساتھ تم پھر کسی دن چکر لگا لینا ۔۔ بلکہ میں تو کہوں گا کہ ہمارا ہاتھ بٹایا کرو بزنس میں جیسے تماری آنٹی کرتی ہے ہماری ہیلپ ۔۔۔ مجھے کیا چھاہیے تھا ۔۔۔ میں خوش ہو گیی ۔۔۔ آنٹی اپ کیسے ہیلپ کرتی ہیں بزنس میں؟؟ میری بات سن کے آنٹی مسکرا دی ۔۔ بیٹی جس دن جاو گی فیکٹری خود ہی دیکھ لینا ۔۔۔ کیوں جی میں نے سہی کہا نہ؟؟ آنٹی نےانکل کو مخاطب کر کے کہا ۔۔ ہممم ۔۔۔ ہاں ہاں بلکل تم تھیک کہہ رہی ہو جس دن ہماری بیٹی ہمارے ساتھ جایے گی یہ خود ہی سمجھ جایے گی۔۔ کام اتنا مشکل نہیں ہے ۔۔ بس تھوڑا سا ٹیکنیکل ہے ۔۔۔ ارے انکل آپ فکر ہی نہ کریں میں بہت ٹیکنیکل کام کر لیتی ہوں ۔۔ اور ساتھ ہی میں نے نبیل کی طرف دیکھ کر شرارت سے انکھ دبا دی ۔۔۔ کیوں جی آپ کو تو پتا ہی ھے ۔۔۔ ہی ہی ہی ہی ۔۔ ہم سب ناشتہ کرتے ہویے ہنس ہنس کر باتیں بھی کر رہے تھے اور ناشتہ بھی کر رہے تھے ۔۔۔۔پھر ایک دن شام کو نبیل اور انکل جب فیکٹری سے آیے تو بہت خوش تھے ۔۔ نبیل کہنے لگے لو جی بیگم صاحبہ آپ کے فیکٹری جانے کے دن بھی آ گیے ہیں ۔۔ کل صبح آپ ہمارے ساتھ جایں گی فیکٹری ۔۔۔واو۔۔۔۔ یہ تو بہت اچھی خبر سنایی آپ نے ۔۔۔ میں ہی جاوں گی ےا آنٹی بھی جایں گی ہماارے ساتھ ۔۔ میں نے نبیل سے پوچھا ۔۔ ہان جی امی بھی جایں گی ہمارےساتھ کیوں کہ وہی تم کو کام سمجھا سکتی ہیں۔۔ جو کام وہ کرتی ہیں وہ ہم باپ بیٹا نہی کر سکتے فیکٹری میں ہی ہی ہی ہی ۔۔ ساتھ ہی انکل اور نبیل نے زور دار قہقہہ لگایا ۔۔۔آنٹی صرف مسکرا کے رہ گیی۔۔۔ کیا مطلب میں سمجھی نہیں ۔۔۔ ارے میری بیٹی سمجھ جاو گی ۔۔۔ کل میں فیکٹری جا کر تم کو سب کام سمجھا دو گی ۔۔۔ ان تینوں کی ہنسی مجھے بہت پر اسرار لگ رہی تھی ۔۔ مجھے ان دنوں پیریڈ آیے ہویے تھے ۔۔ رات کا کھانا کھا کر جب ہم انے کمرے میں گیے تو نبیل نے مجھے اپنے ساتھ چپکا لیا ۔۔۔ اور فرنچ کس کرنےلگ گیے ۔۔ میں نے کہا جان آج ہم صرف کسنگ ہی کر سکتے ہیں ۔۔ آج آخری دن ہے پیریڈ کا ۔۔۔۔ کل میں آپ کوخوش کر دو گی ۔۔۔ نبیل یہ بات سن کے تھوڑے اداس ہو گیے ۔۔ میں جانتی تھی پچھلے چھ دن سےنبیل کے ناگ کا پانی نہیں نکلا تھا اور وہ بیچین تھے ۔۔۔میرے دل میں درد کی ایک لہر اٹھی انپے شوہر کو اداس دیکھ کر ۔۔۔۔ مگر کیا کر سکتی تھی ۔۔۔ نبیل جان بس آج کی رات صبر کر لیں ۔۔ اگر زیادہ دلکر رہا ہے تو میں آپ کو چوپے لگا کر ڈسچارج کر دیتیہوں ۔۔ ارے نہی جانا جی۔۔ جو مزہ پھدی میں ڈسچارج ہونے میں ہو وہ منہ میں ڈسچارج ہونے میں نہی ہے ۔۔ کوی بات نہں آج رات کی تو بات ہے ۔۔۔ کل تم تھیک ہو جاو گی تو کل رات کو ہم مستی کر لیں گیے ۔۔۔ مگر میں جانتی تھی نبیل کتنے بے چین تھے ۔۔ میں نے فیصلہ کر لیا کہ آج بھی نبیل کو ڈسچارج کرنا ہے۔۔۔ چلیں ٹھیک ہے آپ کپڑے چینج کر کے آیں ۔۔ نبیل واش روم میں گس گیے ۔۔ ان کے باہر نکلنے تک میں اپنی قمیض اتار چکی تھی ۔۔۔۔ شلوار نہی اتاری تھی۔۔ پیریڈ کی وجہ سے۔۔۔۔ میں نے برا بی اتار دیا تھا ۔۔ نبیل مجھے دیکھتے ہی خوش ہو گیے ۔۔ اور مجھے اپنی باہوں میں بھر لیا ۔۔۔ نبیل رات کو سوتے وقت قمیض نہیں پہنتے ہیں ۔۔۔ مجھےاوپر سے ننگا دیک کر انہوں نے بھی اپنی بنیان اتار دی ۔۔۔اب ہم دونوں میاں بیوی اوپر سے بلکل ننگے تھے ۔۔۔۔ میرے ممے نبیل کے چوڑے چکلے سینے میں دھنسکر رہ گیے تھے ۔۔۔ نبیل فرنچ کر رہے تھے ۔۔ اورمیں نے محسوس کیا کہ جیسے نبیل کا ناگ میری ٹانگوں میں گھسنا چاہ رہا ہو ۔۔ میں نے نبیل کی شلوار کے اوپر سے ہی اس کو پکڑ لیا اور سہلانے لگی ۔۔۔ میرے ہونٹ نبیل کے ہونٹوں کی گرفت میں تھے ۔۔۔ اور نبیل کی لامبی زبان میری ہونٹوں کا دروازا بجا رہی تھی ۔۔۔۔ میں نے ابھی نبیل کی زبان کو انتظار کروانا تھا میں اپنے ہونٹ نہی کھول رہی تھی ۔۔ پھر نبیل نے میرا اوپر والا ہونٹ اپنے ہونٹوں میں لے کر چوسنا شروع کر دیا ۔۔ یہاں میرے صبر کی انتہا ہو گیی اور میں نے اپنا منہ کھول دیا ۔۔۔ جیسے ہی میں نے اپنا منہ کھلا نبیل کی زبان تیزی سے میرے منہ کے اندر آ گیی ۔۔ زبان جیسے ہی میری زبان کے ساتھ تچ ہویی میرا جسم کانپ اٹھا ۔۔۔ میں نے اپنی پوری زبان جہاں تک ممکن تا نبیل کے منہ میں ڈال دی تھی ۔۔ نبیل میری زبان کو بہت ہی مزے سے چوس رہے تھے ۔۔۔۔ میں انکھیں بند کیے نبیل کی زبان کارس چوس رہی تھی اور ایک ہاتھ سے نبیل کے ناگ کو سہلا رہی تھی ۔۔۔۔۔ پھر نبیل نے میرے ہونٹ چھوڑے اور گردن کو چومتے ہویے میرے مموں پر اپنا منہ رکھ دیا ۔۔۔۔ایک نپل کو انہوں نے اپنے دانتوں میں دبایااور دوسرے کو اپنے دوسرے ہاتھ سے دبا دیا۔۔۔ مزے اور درد سے میرا برا حال ہو رہا تھا ۔۔۔۔میری سسکاریاں کمرے میں گونج رہی تھی ۔۔۔ اففف جااااااان ن ن ن۔۔۔ نبییییییلل۔۔۔۔۔ اور زور سے دانت لگاو مجھے مزہ آ رہا ہےمیری جان ۔۔۔۔۔۔ میں فل جوش سے نبیل کے ناگ کو اپنے ھاتھوں میں لے کر آگے پیچھے کر رہی تھی ۔۔۔۔ نبیل کہنے لگے جان اس کو اپنے مموں میں پریس کر کے اوپر نیچے کرو ۔۔۔ میں نے نبیل کو بیڈ پر لٹا دیا اور خود ان کی ٹانگوں کے درمیان بیٹھ گیی ۔۔۔۔ نبیل کا ناگ خطرناک حد تک سخت تھا ۔۔ اس کی رگیں پھول گیی تھی ۔۔۔۔ میرا دل کٹ کے رہ گیا۔۔ میں چاہنے کے باوجود اپنے شوہر کی خواہش پوری نہی کر پا رہی تھی ۔۔۔۔ میں نے جلدی سے اپنے مموں کے درمیان نبیل کے ناگ کو رکھا اور دونوں مموں کو آپس میں دبا کر خود اوپر نیچھے ہونے لگ گیی ۔۔۔ ان کا ناگ بہت خشک تھا ۔۔۔ میں نے کہا جان تھوڑا تیل لگا لوں مموں کو ؟؟؟نبیل نے کہا جان جلدی کرو ۔۔۔ جو بھی کرنا ہے ۔۔۔ میں نے تیل کی شیشی پکڑی اور اپنے مموں کو تیل لگا لیا بہت سارا تیل ۔۔۔ پھر جیسے ہی میں نے دوبارہ سے مموں کے درمیان رکھا نبیل کے منہ سے سسکی نکل گیی ۔۔۔ آآہ ۔۔۔۔ جان بہت مزہ آ رہا ہے ۔۔۔ افففف۔۔۔۔۔۔۔۔ کرتی جاو ایسے ہی ۔۔۔۔ یس ناگ کا زہر نکالو ۔۔۔۔ نبیل جب یس کا زہر نکالنے لگو تو مجھے بتا دینا ۔۔ میں نے آج اس کا زہر پینا ہے ۔۔۔ دس منٹ تک میں ایسے ہی کرتی رہی ۔۔۔ کبھی نبیل کے انڈوں کو اپنے منہ میں میتی کبھی ٹوپے کو اپنے منہ میں لے کرچوپے لگاتی ۔۔۔۔ مجھے لگا جیسے نبیل کا جسم اکڑ رہا ہے ۔۔ میں نے جلدی سے بیٹھ کر اس کو اپنے منہ میں لے لیا ۔۔۔ پانچ چھ چوپوں کے بعد نبیل کی آواز آیی ۔۔ جان میں گیا ۔۔۔۔۔ اور ساتھ ہی نبیل کے ناگ نے اپنا زہر اگلنا شروع کر دیا ۔۔۔ میں اس کے زہر کا ہر قطرہ پی گیی ۔۔۔ افففف ۔۔۔ کیا بتاوں کیسا ذایقہ تھا ۔۔۔ میں نے آج تک ایسا ذایقہ دار کچھ نہیں کھایا یا پیا تھا ۔۔۔۔ جب ناگ نے جھٹکے لینے بند کر دییے تو میں نے دو تین اور چوپے لگایے اور جو باقی رہتا تھا وہ ب نکال کے پی گیی ۔۔۔۔ نبیل کی سانسیں اتھل پتھل ہو رہی تھی ۔۔۔ انہوں نے مجھے اپنے سینے کے ساتھ بھینچ لیا ۔۔۔۔۔ ہم دونوں نے کپڑے پہننے کا تکلف نہیں کیا ۔۔ اور ساری رات ایسے ہی ننگے ایک دوسرے کے ساتھ چپک کے سوتے رہے......:صبح ہویی میرے پیریڈ کا خون اب آنا بند ہو گیا تھا ۔۔ میں نہا ک تیار ہو گیی فیکٹری جانے کے لیے ۔۔ نبیل نے مجھے تیار ہوا دیکھا تو کہنے لگے جان گولیمارو فیکٹری جانے کے پروگرام کو آو تھوڑا سا پیار کر لیتے ہیں ۔۔۔۔ آج تم قیامت لگ رہی ہو ۔۔۔ وہ میرے پاس آیے اور مجھے اپنے ساتھ چپکا لیا ۔۔۔ میں نے ان کے ہونٹوں پر کس کی اور کہا ۔۔ جان جی بس شام تک انتظار کر لیں ۔۔ پھر میں آپ کو جی بھر کے پیار کروں گی ۔۔ اور اس پورے ہفتے کی کسر نکال دوں گی ۔۔۔۔ جب ہم تیار ہو کر نیچے آیے تو میں نے دیکھا میری ساس نے بہت ہی باریک کالے رنگ کا سوٹ پہنا ہوا تھا جس میں سے ان کا سفید کلر کا برا نظر آ رہا تھا ۔۔۔۔ میں نے آج غور کیا تھا اپنی ساس کے فگر پر ۔۔۔۔ان کا سایزکم سے کم چالیس تھا ۔۔۔ اور ان کی کمر تیس یا بتیس ہوگی ۔۔۔ بال کھلے ہویے اور باریک سٹریپ والی جوتی پہنی ہویے تھی ۔۔۔۔ کیا قیامت لگ رہی تھی میری ساس آج ۔۔۔ میں لڑکی ہونے کے باوجود ان کو ایک ٹکدیکھے گیی ۔۔۔۔۔کیا دیک رہی ہو بہو ۔۔۔ میری چوری پکڑی گیی تھھی ۔۔ میں نے نظریں چرا لیں ۔۔ کچھنہیں آنٹیآج آپ بہت خوبصورت لگ رہی ہیں ۔۔۔ کہیں میری ہی نظر نہ لگ جایے آج ۔۔۔۔وہ کھلکھلا کے ہنس پڑی ۔۔۔ ارے میری پیاری بیٹی نہیں لگتی نظر ۔۔۔ ابرے بھیی اب ایک دوسرے کو دیکھتی ہی رہو گی یا چلو گی اب ؟؟ میرے سسر نے آواز لگایی ۔۔۔۔ ہان جی چلیں ہم تو تیار ہیں ۔۔۔ہم گاڑی میں بیٹھے اور گاڑی چل پڑی ۔۔۔ کار میرے سسر چلا رہے تھے ۔۔۔ میں اور نبیل پچھلی سیٹ پر بیٹھے ہویے تھے ۔۔۔ میں نے نبیل کا ہاتھ اپنے ہاتھ میں لے لیا ۔۔۔۔۔ راستے میں ہمسب آپس میں بزنس کی باتیں کرنے لگے ۔۔۔ میرے ساس بولی دیکھو بیٹا اس دنیا میں بزنس کرنے کے بہت سے طریقے ہیں مختلف لوگ مختلف قسم کے بزنس کرتے ہیں ۔۔ کچھ لوگ دوسروں کے بزنس میں اعتراض بھی کرتے ہیں ۔۔ ہاں جی آنٹی کرنا تو بزنس ہے نا ۔۔۔ اور ایکسپورٹ تو ایکسپورٹ ہے جو بھی بھیجو ۔۔۔ چاہے پلاسٹک کے لن ہی بنا کر بھیجو ۔۔ یہ بات میں نے آہستہ سے نبیل کے کان میں کہی جو انکل اور آنٹی کے کانوں تک نہی پہنچی ہو گی ۔۔۔ نبیل نے میری بات سن کے مسکرا کر میرے ہاتھ کی پشت پر ہلکی سی کس کی ۔۔ میں نے جلدی سے انکل اور آنٹی کی طرف دیکھا جو اپنی باتوں میں بزی تھے ۔۔۔ میں نے مصنوی خدگی سے نبیل کی طرف دیکھا کیا کر رہے ہو انکل یا آنٹی نے دیکھ لیا تو ؟؟دیکھنے دو۔۔ میں کونسا غلط کام کر رہا ہوں ۔۔ اپنی بیگم کے ہاتھ ہی تو چومے ہیں۔۔ ہم ایسے ہی باتیں کرتے فیکٹری میں پہنچ گیے ۔۔۔۔ فیکٹری چھوٹی سی تھی اور فیکٹری میں کام کرنے والے آدمی بھی تھوڑے سے تھے ۔۔۔۔مگر کام بہت تھا ۔۔۔ آرڈر کی ایک لمبی لاین لگی ہویی تھی جو کہ بنا کے بھیجنے تھے ۔۔۔ مگر میرے شوہر اور سسر کیاباہر بھیجتے تھے ہی مجے ابھی تک معلوم نہیں ہوا تھا ۔۔۔ ہم آفس میں جا کر بیٹھ گیے ۔۔۔ انکل نے فریش جوس منگوا لیے ۔۔۔۔ ہم جوس پی کر فارغ ہویے تو میرے ساس بلکل پروفیشنل انداز میں انکل سے بات کرنے لگ گیی ۔۔ جی تو جناب جو آرٹیکل تیارہوا ہے وہ کس کوالٹی کا بنا ہے ۔۔۔ اور کیا اس کی سایزنگ پوری ہے ۔۔۔؟؟ میں ہی دیکنا چاہتی ہوں ۔۔ انکل نے بیل بجایی تو ایک بوڑھا ملازم حاضر ہو گیا ۔۔ آں۔۔۔ فضلو چاچا بیگم صاحبہ کو سٹور روم میں لے جایں جہاں پر ہمارا فریش آرڈر تیار کر کے رکھا ہے ۔۔ جی بہت صاحب۔۔ آییں میڈم میں آپ کو لیے چلتا ہوں ۔۔ چاچا فضلو نے بڑے احترام سے کہا اور آنٹی کو لے کر آفس سے باہر نکل گیا ۔۔ میں نے انکل سے کہا کہ میں بھی جا سکتی ہوں آنٹی کے ساتھ ؟؟؟ تو انکل سے پہلے نبیل بول پڑے ۔۔ ہاں اگر جانا چاہتی ہو تو چلی جاو۔۔ ہمیں کیا اعتراض ہو سکتا ہے ۔۔۔۔ امی ایک منٹ ۔۔ نوشین کو بھی ساتھ لے جاییں اور کام دکھا دیں اسے بھی ۔۔۔ ان کیوں نہیں ۔۔ چلو بیٹی۔۔ میں اٹھ کر آنٹی سے ساتھ چل پڑی ۔۔۔ آنٹی مجھ سے کہنے لگی بیٹی ہی جو بھی سٹاک باہر بھءجتےہیں اس کی کوالٹی اور سایز میں ہی چیک کرتی ہوں ۔۔ اس لیےمیرے بنا یہ کویی بھی آرڈر میرے چیک کیے بنا ایکسپورٹ نہیں کرتے۔۔ اچھا واو۔۔ یہ تو اچھی بات ہے ۔۔۔۔۔ مگر آنٹی مجھے ابھی تک ہی نہیں پتا چلا کہ ہم ایکسپورٹ کیا کرتے ہیں ۔۔۔۔ آنٹی مسکرا دی ۔۔ ابھی خود ہی دیکھ لینا کہ ہم کیا ایکسپورٹ کرتے ہیں ۔۔۔ ہم یہی باتیں کرتے ہویے سٹور میں پہنچگیے ۔۔ فضلو چاچا جتنا بھی مال تیار ہوا ہے ان سب کے سایز یہاں موجود ہیں؟؟ جی بیگم صاحبہ سب موجود ہیں ۔۔۔۔او کے ۔۔ اب آپ جا سکتے ہیں ۔۔۔۔ جب فضلو چاچا چلے گیے تو آنٹی نے کمرے کی سب لایٹس آن کر دی اور دروازے کو اندر سے لاک کر لیا ۔۔۔۔ لو بیٹی اب میں دکھاتی ہوں کہ ہم کیا چیز ایکسپورٹ کرتے ہیں ۔۔۔۔ پھر انہوں نے ایک پیک ڈبہ اٹھا کر اسکو کھولا ۔۔۔۔ اور اس میں سے جو چیز باہر نکال رہیتھی اس کو دیکھھ کر میری آنکوں کے آگے اندھیرا چھا گیا ۔۔۔۔۔
سفر Part 4
جو چیز میری آنکھوں کے سامنے تھی اسے دیکھ کر میرا حلق خشک ہو گیا تھا ۔۔۔ میں حیران پریشان دیکھ رہی تھی ۔۔۔ میری ٹانگوں میں جیسے جان نہیں رہی تھی ۔۔ اگر میں نے کرسی کا سہارا نا لیا ہوتا تو گر جاتی ۔۔۔میں کرسی پر گرنے کے انداز میں بیٹھ گئی ۔۔۔ مجھے دیکھ کر میری ساس بھاگ کر میرے پاس آئی اور مجھے فوراَ پانی پلایا ۔۔۔ مجھےپسینا آ رہا تھا ۔۔۔ میری ساس کے ہاتھ میں ربڑ کا لن پکڑا ہوا تھا ۔۔ بلکل اصلی لگ رہا تھا ۔۔۔۔ لمبا، موٹا کالا اور تنا ہوا ۔۔۔ کیا ہوا بیٹی ؟؟۔۔۔ آنٹی وہ وہ ۔۔وہ ۔۔۔ یہ آ آآپ ککک کے ہ ہ ہہاتھ میں ۔۔۔ میں نے ہکلاتے ہویے کہا ۔۔۔ ارے یہ ۔۔۔ اس کو دیکھ کر پریشان ہو گیی ہو ؟؟ میری بیٹی یہی تو ہم ایکسپورٹ کرتے ہیں اور میں اسی چیز کی کوالٹی اور سایز چیک کرتی ہوں ۔۔۔ تم بیٹھو میں سمجھاتی ہوں سب ۔۔۔۔ میں نے پانی کا گلاس ایک ہی گھونٹ میں پی لیا ۔۔۔ سانس بحال ہوئی تو میں اپنی ساس کی طرف دیکھنے لگی ۔۔۔دیکھو بیٹی یہی بات میں راستے میں کر رہی تھی کہ بزنس تو بزنس ہے وہ کسی بھی قسم کا ہو ۔۔۔ ہمارا مقصد صرف پیسہ کمانا ہے ۔۔۔ ہم کسی قسم کے منشیات میں ملوث نہیں ہیں ۔۔۔ جیسے دوسرے لوگ باہر اپنا مال بنا کر بیچتے ہیں ویسے ہی ہم بھی بیچتے ہیں ۔۔۔۔ ہاں یہ بات سچ ہے کہ ہمارا کام دوسروں سے ہٹ کر ہے ۔۔۔ اور اس کام میں مجھےبہت مزہ آتا ہے ۔۔۔۔۔ بیشک ہمارے پاس زیادہ مزدور نہیں ہیں مگر ہمارے پاس کام بہت ہے ۔۔۔ اور گھر میں جو بھی تم آسایشیں دیکھ رہی ہو یہ سب اسی کام کی مرہونِ منت ہیں ۔۔۔۔ میری پریشانی اب تجسس میں تبدیل ہو رہی تھی کی میری ساس کیسے اس چیز کی کوالٹی اور باقی چیزیں چیک کرتی ہیں ۔۔۔ میں اب چپ کر کے ان کو دیکھ رہی تھی ۔۔۔۔۔۔ ہمم تو بیٹی اب بات سمجھ میں آ رہی ہے تمھاری یا نہیں ؟؟؟ جی آنٹی جی میں سمجھ گئی ہوں ۔۔ اب آپ مجھے یہ بتایئں کہ کیسے آپ سب چیک کرتی ہیں ؟؟؟؟ سب سے پہلے تو اس کی سوفٹنس چیک کرتی ہوں کہ یہ کتنا سوفٹ ہے ۔۔۔ یا کتنا سخت ہے ۔۔۔ ایسے ۔۔۔ میری ساس نے اس کو ہاتھ میں پکڑ کر دبایا ۔۔ ہاں یہ ٹھیک ہے ۔۔۔ اتنا سخت نہیں ہے ۔۔۔ اور موٹا بھی ٹھیک ہے ۔۔۔ اتنے موٹے کو دیکھ کر مجھے پیاس لگ رہی تھی اور میں چور نظروں سے کبھی اپنی ساس کو اور کبھی اس کو دیکھ رہی تھی انہوں نے دو تین سیمپل نکال کے سامنے ٹیبل پر رکھ لیئے جو انہوں نے چیک کرنے تھے ۔۔۔۔ آنٹی آپ ان کو چیک کیسے کرتی ہیں ؟؟؟ میں نے جھجکتے ہوئے پوچھا ۔۔۔ وہ مسکراتے ہوئے بولی ابھی بتاتی ہوں ۔۔۔ اتنا کہہ کر انہوں نے اپنا چوڑی دار پاجامہ اتار دیا ۔۔۔ افففففف ۔۔۔۔۔ کیا خوبصورت ٹانگیں تھیں میری ساس کی ۔۔۔۔۔ گوری گوری اور بھری بھری رانیں ۔۔۔ کولہے موٹے اور سڈول ۔۔۔۔ فل جوسی تھے ۔۔۔ اور جب انہوں نے اپنی قمیض اتاری تو میری تو سٹی ہی گم ہو گئی ۔۔۔ تیس کمر ۔۔ اور چالیس سائز تھا مموں کا ۔۔۔ موٹے موٹے مموں سفید کلر کا برا قیامت ڈھا رہا تھا ۔۔۔ میرے منہ میں پانی آ گیا ان کی جوانی دیکھ کر ۔۔۔ میں نے مذاق میں کہا آنٹی آپ تو انکل کو پاگل کر دیتی ہوں گی ۔۔۔ہی ہی ہی ہی ہی ۔۔۔ بیٹی ان کا بس چلے تو وہ سارا دن میرے دودھ کے ساتھ ہی کھیلتے رہیں ۔۔۔تمھارے انکل کو بڑے بڑے ممے بہت پسند ہیں ۔۔۔۔۔ ان کی باتیں سن کر میں نیچے سے گیلی ہو رہی تھی ۔۔۔۔۔ وہ جب ان کو چوسنا شروع کرتے ہیں تو پھر رکنے کا نام ہی نہی لیتے ۔۔۔ جب تک میں اپنے منہ سے نا کہہ دوں کہاب کچھ اور بھی کر لیں تب تک یہ پاگلوں کی طرح چوستے رہتے ہیں ۔۔۔۔ خیر میں اب تم کو بتاتی ہوںکہ ان کا سائز کیسے چیک کرتے ہیں ۔۔۔ انہوں نے ایک ربڑ کا لن اٹھایا اور کرسی پر بیٹھ کر اپنی ٹانگیں کھول دی ۔۔۔ ان کی پھدی بالوں سے پاک تھی ۔۔۔اور پھر اپنی پھدی کے موٹے ہونٹ کھول کر اس کے اوپر لن کا ٹوپا رگڑنے لگ گئی ۔۔۔۔ تھوڑی دیر رگڑنے سے ان کی پھدی گیلی ہو چکی تھی ۔۔۔۔ بیٹی ادھر آو میری مدد کرو ۔۔۔ جی آنٹی میں کیا مدد کروں آپ کی؟؟؟ ادھر آو اور میری پھدی پر ذرا ہاتھ پھیرو ۔۔۔ یہ اتنی گیلی نہی ہو رہی جیتنی کہ ہونی چاہیے ۔۔۔۔۔ میں تو کب سے یہی چاہ رہی تھی کہ میں آنٹی کے جسم کو ہاتھ لگاوں ۔۔۔ اور انہوں نے خود ہی مجھے کہہ دیا تھا ۔۔۔ میری تو باچھیں کھل گئی ۔۔۔۔۔۔۔ جی آنٹی جیسے آپ کا حکم ۔۔ اور میں کرسی کے پاس زمین پر بیٹھ گئی ۔۔۔۔ آنٹی نے اپنی دونوں ٹانگیں پھیلا کر کرسی کے دونوں بازوؤں پر رکھی ہوئی تھی جس سے ان کی پھدی کافی کھل گئی تھی ۔۔۔۔ میں نے جیسے ہی ہاتھ رکھا ان کی پھدی پر ان کا جسم ایک بار کانپا اور میرے جسم میں کرنٹ دوڑ گئی ۔۔۔۔ افففف ۔۔۔ ان کی پھدی بہت نرم اور چکنی تھی ۔۔۔ دل کر رہا تھا کی اس کو میں کھا جاؤں ۔۔ میں نے بجائے ہاتھ لگانے کے ان کی پھدی پر اپنا منہ رکھ دیا ۔۔۔۔۔ میں نے ان کی پھدی اوپر سے کس کیا تو وہ بولی ارے بیٹی تم تو بہت سمجھ دار ہو ۔۔۔اگر برا نا لگ رہا ہو تو اب اس کو تھوڑا سا پیار بھی کر لو ۔۔۔ مجھے یقینہے تمھارے منہ کو اس کا ذائقہ بہت پسند آئے گا ۔۔۔میں نے ہنستے ہوئے کہا آنٹی آپ کو کیسے پتہ ہے ؟؟؟وہ میں بعد میں بتاؤں گی پہلے تم اس کو گیلا کرو اپنے تھوک سے ۔۔ مجھے ابھی بہت کام کرنے ہیں اس کام کے بعد ۔۔۔۔ میں نے منہ کھول کہ آنٹی کی پھدی اپنے منہ میں لے لی ۔۔۔ افففففففف۔۔۔۔۔۔۔۔ آآآآآآآآہ ہ ہ ہ ۔۔۔۔ سس۔۔۔۔ امم!!!!!۔۔۔۔۔ ان کے منہ سے سسکی نکل گئی ۔۔۔ ان کی پھدی سے بہت سکسی اور مزےدار سمل آ رہی تھی ۔۔ جسے سونگھکر مجھے نشہ سا ہو گیا تھا ۔۔ میں آنٹی کی پھدی پر ٹوٹ پڑی ۔۔۔ میں نے اپنی زبان تھوڑی سی باہر نکال کر پھدی کو چاٹا نیچے سے اوپر تک ۔۔۔۔ آنٹی کی پھدی پانی چھوڑ چکی تھی ۔۔۔میں نے ایک بار ہھر سے نیچے سے اور کی طرف اہنی زبان ہھیری اور ان کا سارا نمکین پانی چاٹ لیا ۔۔۔اس عمر میں بھی آنٹی کی پھدی جوان لگ رہی تھی ۔۔۔۔ مجھے نشہ سا ہو گیا ۔۔۔ میں ان کی پھدی اور سے نیچے اور نیچے سے اور چاٹ رہی تھی ۔۔۔۔ آنٹی مست ہو کر اپنا سر دائیں بائیں کر رہیتھی ۔۔۔ میں نے ان کی پھدی کا دانہ اپنے منہ میں لے لیا اور ایک زور سے چوسا لگایا ۔۔۔ آہ ہ ہ ہ ہ امم مم ۔۔۔۔ بیٹی زبان اندر کرو اس کے ۔۔۔ میں نے اپنی پوری زبان پھدی کے اندر کر دی ۔۔۔ کیا خوشنما ذائقہ تھا ۔۔۔۔ آنٹی کی پھدی پانی سے بھری ہوئی تھی ۔۔۔۔ میں نے ایک گھنٹ بھرا اور پھدی پانی سے خالی کر دی ۔۔۔۔ میں نے کہا آنٹی آپ اس کو چیک کب کریں گی ؟؟؟ بیٹی اس کو پکڑو اور پہلے اس کو اپنیتھوک سے گیلا کرو ۔۔۔ میں نے وہ لن پکڑا اور منہ میں لے لیا ۔۔۔ وہ اتنا موٹا تھا کی میرے منہ میں جا ہی نہیں رہا تھا ۔۔۔ میرا دل کر رہا تھا کی ابھی نبیلآ جائے اور میں اس کے لن کا چوپا لگاؤں ۔۔۔۔ میری پھدی نے بہت سارا پانی چھوڑ دیا تھا ۔۔۔ بیٹی اب ڈالو اس کو میری پیاسی پھدی میں۔۔۔ میں نے آنٹی کی پھدی کو اور کھولا اور پلاسٹک کے کؤلن کا ٹوپا پھدی کے اوپر رکھ دیا ۔۔۔ آنٹی نے میرا ہاتھ پکڑا اور ایک ہی جھٹکے میں پورا لن اپنی پھدی کے اندر کر لیا ۔۔۔ مگر لن زیادہ بڑا تھا پورا اندر نہیں گیا تھا ۔۔۔۔آدھا ہی گیا تھا ۔۔۔ آنٹی کی ہلکی سی چیخ نکل گئی ۔۔۔افف ف فف فف ۔۔۔ بیٹی یہ کچھ زیدہ ہی بڑا بنایا ہے تمھارے شوہر نے ۔۔۔ اس کو پتا ہی نہیں کہ اس کی ماں کی پھدی اتنا بڑا لن نہیں لے سکتی ۔۔۔ مگر کیا کروں کوالٹی بھی تو مجھے ہی چیک کرنی ہوتی ہے نہ ۔۔۔۔میں فل جوشمیں تھی ۔۔۔ آنٹی کی بات پوری ہونے سے پہلے ہیمیں نے ایک زور دار جھٹکا مارا اور باقی کا آدھا لن بھی آنٹی کی پھدی میں غائب کر دیا ۔۔۔۔۔آنٹی نے اپنی دونوں ٹانگیں جوڑ لی ۔۔ اور مجھے ہاتھ سے رکنے کا اشارہ کیا ۔۔۔ میں رک گئی اور اٹھ کر ان کے ہونت اپنے ہونٹون مین لے لیے اور دیوانہ وار ان کو چوسنے لگی ۔۔۔ آہہ ہ ہ ہ ۔۔۔ بیٹی تم بہت مزی دے رہی ہو مجھے ۔۔۔لن پورے کا پورا ابھی بھی پھدی میں ہی تھا ۔۔۔ میں آہستہ آہستہ اس کو اندر باہر کرنے لگی ۔۔۔۔ آنٹی کی سکسی سسکیاں کمرے میں گونج رہی تھی ۔۔۔۔ پانچ منٹ کے بعد آنٹی کا جسم جھٹکے کھانے لگ گیا ۔۔۔ آہ ہ ہہ ۔۔۔۔ ہائے بیٹی زور سے کرو ۔۔اور زور سے ۔۔ ہاں ایسے ہی ۔۔۔۔ میں نے زور زور سے اندر باہر کرنا شروع کر دیا ۔۔ آنٹی نے ایک زور کی سسکی لی اور ان کا جسم کانپنا شروع ہو گیا ۔۔۔وہ لمبی لمبی سانسیں لینے لگ گئی ۔۔۔۔ ان کی پھدی کا پانی میں نے چاٹ لیا ۔۔۔ جی آنٹی جی اب بتائیں مال ٹھیک بنا ہے ؟؟؟؟ ہاں بیٹی مال تو ٹھیک بنا ہے مگر ابھی ایک اور لاٹ کا سیمپل چیککرنا باقی ہے ۔۔۔ اچھا؟؟ وہ کون سا ہے ۔۔؟؟؟ میں نے پوچھا ۔۔ آنٹی نے ایک اور ڈبہ کھولا تو اس میں سے ایک دوسرا پلاسٹک کا لن نکال لیا جو بلکل انسانی کلرکا تھا اور یہ سائز میں پہلے لن سے زیادہ موٹا اورزیادہ لمبا تھا ۔۔ میں حیران تھی کہ اتنا لمبا اور موٹاآنٹی کیسے لیں گی اپنے اندر ۔۔ مگر میرا دل یہ کر رہا تھا کہ اب کی بار میں یہ اپنے اندر لوں ۔۔ آنٹی میرے دل کا بات جان گئی اور کہنے لگی بیٹی اب تم چیک کرو اس کو ۔۔۔ میں؟؟ مم میں کیسے چیک کروں آنٹی جی اس کو ؟؟ میں ہتھے سے اکھڑ گئی ان کی یہ باتسن کے ۔۔۔ ارے میری پیاری بیٹی جیسے میں نے ابھی تمھارے سامنے چیک کیا ہے ویسے ہی تم بھی چیک کر لو ۔۔۔ تم کو مزہ آئے گا ۔۔۔ میری آنکھیں سرخ ہو رہی تھی اور میری آواز بھی تبدیل ہو رہیتھی ۔۔ آنٹی یہ تو بہت موٹا اور لمبا ہے ۔۔۔ تمھاری آنکھوں سے تو یہی لگ رہا ہے کہ تم بھی اس کو اپنی پھدی میں لینا چاہتی ہو ۔۔۔ جی آ آنٹی وہ وہ میں دراصل ۔۔ میرے منہ سے بات نہیں نکل رہی تھی میں نے اپنے خشک ہوتے ہونٹوں پر زبان پھیری ۔۔۔ آنٹی نے مجھے اپنی طرف کھینچ کر میرے ہونٹوں سے اپنے ہونٹ لگا دئیے ۔۔۔ میں نے اپنی زبان کو پھر سے آنٹی کے منہ میں داخل کر دیا اور خود کو آنٹی کے حوالے کر دیا ۔۔ آنٹی نے میرے ہونٹوں پر ہلکا سا کاٹ لیا ۔۔ جس سے مجھے ایک جھٹکا لگا مگر میں نے اپنا منہ پیچے نہیں کیا ۔۔۔۔ مجھے اب مزہ آ رہا تھا ۔۔۔۔ میں نے اپنی قمیض اور شلوار اتاردی تی اور آنٹی کے سامنے ننگی ہو کر کھڑی ہو گئی ۔۔۔ آنٹی نے میرے ممو دیکھے تو کہنے لگی ارے واہ بیٹی میرے بیٹے کے تو خوب مزے ہیں ۔۔ اتنے بڑے اور دودھ سے بھرے ہوئے ممے دیکھ کر تو میرا بیٹا پاگل ہی ہو جاتا ہو گا ۔۔ میں جانتی ہوں اس کوبڑے بڑے ممے بہت پسند ہیں ۔۔۔ آنٹی آپ کو کیسے پتا ؟؟؟ بیٹی یہ بھی میں بعد میں بتاؤں گی پہلےمیرے پاس تو آؤ میری جان ۔۔۔۔ انہوں نے مجھے اپنے ساتھ چپکا لیا اور میری گردن اور کاندھوں کو چومنے لگ گئی ان کے ایسے چومنے سے میرے پورے جسم میں سنسناہٹ دوڑ گئی ۔۔ میں آنٹی سے ساتھ اور مضبوتی سے چپک گئی ۔۔۔ میرے جسم پر کالا برا تھا جو انہوں نے اتار کر الگ کر دیا ۔۔۔ میرے ممے آنٹی کے ہاتھ میں تھے ۔۔۔ انہوں نے ایک دم سے میرے جوسی مموں کو زور سے دبا دیا ۔۔ اویئی ی ی ۔۔۔ او ماں آنٹی جی اتنے زور سے نہ دبائیں اتنے زور سے تو نبیل بھی نہیں دباتے ہیں ان کو ۔۔ میری بات ان سنی کر کے آنٹی نے میرا ایک مما اپنے منہ میں لے کر چوسنا شروع کر دیا ۔۔۔ میں نے آنٹی کا منہ اپنے ممے کے ساتھزور سے دبا لیا آج ایک نیا مزہ آ رہا تھا مما چسوانے کا ۔۔۔ وہ کبھی کبھی میرے ممے پر اپنے دانت گاڑھ سیتی تھی جس سے درد اور مزہ ساتھ ساتھ محسوس ہوتا تھا ۔۔۔ میں نیچے فرش پر لیٹ گئی کیوں کہ اب مجھ سے پھدی کی پیاس برداشت نہی ہو رہی تھی ۔۔۔ میں نے اپنی ٹانگیں کھول کرآنٹی کا منہ اپنی پھدی کی طرف دبایا ۔۔ واہ بیٹی تمھاری پھدی تو مجھ سے بھی زیادہ خوبصورت ہے ۔۔۔ جی چاہتا ہے کہ اس کو پورا کھا جاؤں ۔۔۔ کھا جائیے نا آنٹی جی ۔۔ کس کافر نے روکا ہے آپ کو ۔۔ میں نے سکسی آواز میں کہا ۔۔ اور آنٹی نےاپنا منہ میری پھدی کے اوپر رکھ دیا ۔۔۔ میرا جسم زور سے کانپا ۔۔ آہ!!!!!!!!۔۔۔۔۔ سس!!!! افف!!! میرا دل کر رہا تھا کہ وہ میری پھدی کو دانتوں سے کاٹ کر کا جائیں ۔۔۔ مگر انہوں نے جو کیا وہ مجھ کو سرور کی نئی بلندیوں پر لے گیا ۔۔۔ آنٹی نے میری پھدی کا ایک بھرپور چوپا لگایا اور اپنی زبان ساری کی ساری میری پھدی میں داخل کر دی ۔۔۔ اف ف ف ف ف ۔۔۔۔۔ آہ میری سکسی آنٹی ۔۔ کھا جائیں آج اپنی بہو کی پھدی ۔۔۔ بیٹی ابھی تم کو وہ مزہ آنے والا ہے جو کبھی نہیں آیا ہو گا ۔۔۔۔۔ اتنا کہہ کر انہوں نے وہ پلاسٹک کا لن میری پھدی کی گہرایوں میں اتار دیا اتناموٹا اور لمبا لن جیسے ہی میری پھدی میں داخل ہوا میری آنکھوں کے آگے اندھیرا چھا گیا ۔۔ مجھے میری سانسیں رکتی ہوئی محسوس ہوئی ۔۔۔۔میرا سر بے جان ہو کر ایک طرف کو ڈھلک گیا ۔۔۔ اور میرا ذہن تاریکیوں میں ڈوبتا چلا گیا ۔۔۔ ڈوبتی سانسوں اور بند ہوتی آنکھوں سے میں دیکھا کی آنٹی کی آنکھوں میں پریشانی کے سائے مندلا رہے ہیں ۔۔۔۔ انہوں نے فوری طور پر لن کو چھوڑا اور پانی کا گلاس میرے منہ پر پھینک دیا ۔۔ مجے ایک دم سے ہوش آ گئی ۔۔۔ میرے چہرے پر گہرے کرب کے آثار تھے ۔۔ یہ دیکھ کر آنٹی نے لن کو باہر نکالنا چاہا تو میں نے ان کا ہاتھ پکڑ لیا ۔۔۔ آنٹی جی یہ کیا ظلم کرنے لگی ہیں ۔۔۔ رہنے دیں اس کو میرے اندر ہی ۔۔۔ وہ کہنے لگی بیٹی تم کو اتنی تکلیف میں میَں نہیں دیکھ سکتی ۔۔۔ مجھے انداہ نہیں تھا کہ یہ تم کو اتنا زیادہ ہرٹ کرے گا۔۔۔۔ کوئی بات نہیں آنٹی مزہ ایسے آرام سے تو نہیں ملتا نہ ۔۔۔۔ مجھے تکلیف کے ساتھ مزہ بیتو آ رہا ہے ۔۔۔ میں اب اس لن کو انجوائے کرنا چاہتی ہوں ۔۔۔اور یہ انجوائے آپ کرائیں گی مجھے ۔۔۔ ٹیک ہے میری جان کے ٹکڑے ۔ جیسے تم چاہو ۔۔۔ اور پھر انہوں نے آہستہ آہستہ لن کو میرے اندر باہر کرنا شروع کر دیا ۔۔۔ جب وہ اندر جاتا تھا تو ایسا لگتا تھا جیسے یہ میرا پیٹ پھاڑ کے باہر نکل آئے گا ۔۔ جب وہ باہر کرتی تھی تو سکون کا سانس آتاتھا ۔۔۔ میں نے اپنے ہونٹ سختی سے بھینچ لئے تھے کہ اس درد کو برداشت کر سکوں ۔۔۔۔ تھہریدیر کے بعد مجھے درد کم اور مزہ زیادہ محسوس ہونا شروع ہو گیا ۔۔۔ میں اب انے اندر جاتے لن کو انجوائے کرنے لگی تھی ۔۔ جب آنٹی لن کو میری پھدی کے اندر کرتی تو میں بھی اپنی پھدی کو تھوڑا سا اوپر اٹھا کر لن کو اس کی جڑ تک اندر لینے کی کوشش کرتی ۔۔۔ ایسا کرنے سے لن میری بچہ دانی میں داخل ہو جاتا جس سے مزے کی لہر میرے پورے جسم میں پھیل جاتی ۔۔۔ آنٹی میرے منہ کی طرف آئی اور بولی جانو میں تمھاری کی پیاس بجھا رہی ہوں اب تم میری گانڈ میں یہ دوسرا لن داخل کرو تا کہ ہماری آج کی انسپکشن ختم ہو جائے ۔۔۔ وہ میرے سینے کے اوپر ہو کر اس طرح سے بیٹھی کہ ان کی گانڈ میرے سامنے تھی ۔۔۔ اور ان کا منہ میری پھدی کے اوپر تھا ۔۔۔ لن بدستور میری پھدی کے اندر ہی تھا ۔۔۔ میں نے لن ان کی گانڈ میں داخل کرنے کی کوشش کی تو وہ اندر نہیں جا سکا کیوں کہ ان کی گانڈ خشک تھی ۔۔۔ میں نے ان کی پھدی پر ہاتھ لگایا تو وہ پہلے سے زیادہ گیلی ہو رہی تھی ۔۔۔ میں نے لن کا ٹوپا ان کی پھدی میں داخل کر کے انکے پانی سے لن کو گیلا کیا اور کہا آنٹی آپ اپنا منہ اپنے ہاتھ سے بند کر لیں میں اب آپ کی گانڈ کو پھاڑنے والی ہوں ۔۔ ہاں بیٹی پھاڑ دے اپنی ساس کی گانڈ ۔۔۔ بہت لوگ مرتے ہیں میری اس گانڈ پر ۔۔۔۔ میں نے پہلے آرام سے ان کی گانڈ میں لن کی ٹوپی ڈالی ٹوپی بڑی آسانی سے داخل ہو گئی جس کا مطلبتھا کہ آنٹی آج پہلی بار گانڈ میں لن نہیں لے رہیتھی اس سے پہلے بھی لے چکی تھی ۔۔۔۔ میں نے لن کے باہر والے حصے کو اپنی تھوک سےگیلا کیا ۔۔ ایک ہاتھ سے ان کی کمر کو پکڑا اور دہسرے ہاتھ سے پورا زور لگا کر لن جڑ تک ان کی گانڈ میں داخل کر دیا ۔۔۔۔۔ ھائےےےےے۔۔۔۔۔۔ مارررررر ڈڈڈالااا ۔۔۔۔ آہ ہہ ہ ہ ہ ۔۔۔۔۔آنٹی نے آگے ہونے کی کوشش کی جو میں نے ان کی کمر کو اپنی طرف کھینچ کے ناکام بنا دی ۔۔۔ اور مزید اندر کی طرف لن کو دھکیل دیا ۔۔۔۔۔۔۔ آنٹی نے اپنا بدلا مجھ سے یوں لیا کہ انہوں نے میری پھدی کے دانے زور سے اپنے دانتوں سے کاٹ لیا ۔۔۔۔ سس۔۔!!!! میرے منہ سے سسکاری نکل گئی اور ساتھ ہی میرے منہ سے بے اختیار ایک گالی نکل گئی ۔۔۔ھائے گشتی کی بچی آرام سے ۔۔۔ تیرےماں کے پھدے میں لوڑا ماروں حرام زادی اتنی زور سے میری گانڈ مین لن داخل کیا ہے میری گانڈ ہی پھاڑ دی ہے تم نے ۔۔ جواب میں آنٹی کے منہ سے گالیوں کا طوفان نکل آیا ۔۔ان کے منہ سے گالیاں سن کے مجھے اور مستی چڑھ گئی میں اپنی پھدی کو اور جوش سے ہلانے لگ گئی ۔۔۔ تھوڑی دیر کے بعد ہی میری پھدی نے جھٹکے کھانے شروع کر دئیے ۔۔۔ میری پھدی نے پانی چھوڑ دیا ۔۔۔ جو آنٹی نے سارا اپنے منہ سے زبان نکال کر چاٹ لیا ۔۔ مگر ابھی ان کی گانڈ کی پیاس نہیں بجھی تھی ۔۔ وہ گھوڑی بن گئی اور بولی میری جان اب ذرا زور سے یہ لن میری گاند میں اندر باہر کرو اور مجھے مزہ دو ۔۔۔ میں نے فل سپیڈ سے لن ان کی گانڈ میں اندر باہر کرنا شروع کر دیا ۔۔۔ تھوڑی دیر بعد ان کا جسم پھر سے جھٹکے کھانے لگ گیا ۔۔۔ میں نے ان کی پدی کے ساتھ اپنا منہ لگا دیا اور پھدی سے نکلے والا سارا پانی پی لیا ۔۔۔ وہ آگے کی طرف بے جان ہو کر گر گئی ۔۔ اب کمرے میں ہم دونوں کی تیز تیز سانسوں کی آوازیں آ رہی تھی ۔۔۔ ابھی ہم اسی پوزیشن میں تھیں دونوں بلکل ننگی ۔۔۔ دروازہ کھلنے کی آواز آئی میں نے ایک دم مڑ کے دیکھا تودروازے میں کوئی کھڑا تھا ۔۔۔ اتنا ٹائم بھی نہیں تھا کہ میں اٹھ کر اپنے کپڑے پہن لیتی یا کسی چادر سے خود کو ڈھانپ لیتی ۔۔۔
سفر Part 5
:میں نے مڑ کے جو دیکھا تو سامنے ہی دروازے میں اسی فیکٹری کی ایک ملازم لڑکی کھڑی تھی ۔۔۔ ہمیں اس حال میں دیکھ کر فوری طور پر وہ دروازہ بندکر کے چلی گئی ۔۔۔۔ میں بہت شرمندہ ہوئی کہ وہ لڑکی کیا سوچے گی ہمارے بارے میں ۔۔ ارے بیٹی کیوں پریشان ہو گئی ہو ۔۔؟؟ جی وہ آنٹی وہ لڑکی ۔۔۔ بس میرے منہ سے اتنی ہی بات نکل سکی تھی۔۔۔ ارے اس کی فکر نہ کرو اس کو پتا ہے کہ یہ سب مال میں ہی چیک کرتی ہوں اس لئے ڈرنے یا پریشان ہونے کی کوئی ضرورت نہی ہے ۔۔۔۔ آہاں ۔۔۔ پھر ٹھیک ہے ۔۔۔ اس کے بعد میری ساس نے مختلف قسم کے لن اپنی پھدی اور گانڈ میں لے چیک کیئے ۔۔۔ کوالٹی کے معیار سے مطمئن ہو کر انہوں نے کپڑےپہنے اور مجھے ساتھ لے کر آفس کی طرف چلی گئی ۔۔۔ جب ہم آفس میں داخل ہوئے تو نبیل اور میرے سسر ہماری طرف مسکراتے ہوئے دیکھ رہے تھے ۔۔۔میں تھوڑی شرمندہ سی ہو کر اپنی کرسی پر بیٹھ گئی ۔۔ جی امی کر لیا چیک ؟؟؟ ہاں بیٹی جی کر لیا ہے سب چیک ۔۔ اس دفع تم لوگوں نے جو مال بنایا ہے وہکافی اچھے معیار کا ہے ۔۔۔ اور پہلے والے مال سے سائز میں بھی بڑا ہے ۔۔۔ میری حالت بری ہو گئی تھی چیک کرتے ہوئے ۔۔۔۔ کیوں بیگم کیا ہوا؟؟ سب خیر تو تھی نا؟؟؟ انکل فکر مند ہو گئے تھے ۔۔۔ ہاں جی خیر ہی تھی بس آج بہو کا ساتھ تھا نا۔۔۔ اور آپ نے خیر سے اس دفعہ سائز کو بہت بڑا کر دیا ہے ۔۔۔ بہت مشکل پیش آئی تھی چیکینگ میں۔۔۔ اور جناب آپ کا مال پاس ہے ۔۔۔ سائز اور کوالٹی ایک دم فٹ ہے ۔۔۔۔۔ واؤ یہ تو اچھی بات ہے ۔۔۔۔ اچھا امی یہ بتائیں کہ آپ کی بہو نے بھی آپ کی ہیلپکی ہے یا نہی ؟؟ ہاں بیٹا اس نے بھی میری ہیلپ کی ہے اور اس نے بھی کچھ سامپل چیک کئے ہیں ۔۔ یہ بتاتے ہوئے آنٹی نے میری طرف ذومعنی نظروں سے میری طرف دیکھا ۔۔۔ میں نظریں جھکا کر رہ گئی ۔۔۔ میں سوچ رہی تھی پتا نہیں میرے سسر میرے بارے میں کیا سوچ رہے ہوں گے ۔۔۔ مگر وہ میری طرف نہیں دیکھ رہے تھے ۔۔۔۔۔ میں نے شکر کیا ۔۔۔۔ نبیل میری طرف دیکھ کر مسکرا رہے تھے ۔۔۔۔ میں بس یہی سوچ رہی تھی اس کا مطلب ہے کہ نبیل کو پتا ہے کیسے آنٹی مال چیک کرتی ہیں ۔۔۔۔ اور یہ بات مجھے کچھ کچھ عجیب لگ رہی تھی ۔۔۔۔۔ دوپہر کا ٹائم ہو رہا تھا ۔۔۔ کھانا آیا ہم نے بہت اچھے ماحول میں کھانا کھایا ۔۔۔ کھانا بہت لذیز تھا ۔۔۔۔ انکل بار بار آنٹی کے مموں کو دیکھ رہے تھے ۔۔ جو بہت ہی سکسی لگ رہے تھے ۔۔۔ کھانا کھانے کے بعد انکل نے کہا بیگم صاحبہ ہم نے ایک نیا ڈئزائن بنانے کا فیصلہ ہے مگر سمجھ نہیں آ رہی کہ نئی پروڈکٹ کو ڈئزائن کیسے کریں ۔۔۔۔ ارے اس میں اتنا پریشان ہونے کی کیا ضرورت ہے ۔۔۔ ہم ہیں نا ساس بہو آپ کی مدد کے لئے ۔۔۔۔ آنٹی نے ہنستے ہوئے انکل سے کہا ۔۔۔۔ تو پھر ٹھیک ہے ۔۔ نبیل تم دونوں کو اس بارے میں گائڈ کر دیتا ہے ۔۔ اور تم خود پاس بیٹھ کر ڈئزائن فائنل کروا لو ہم نے اس نئی پروڈکٹ کی پروڈکشن جلدی شروع کرنی ہے ۔۔۔ مارکیٹ کے ساتھ ساتھ بھی چلنا ہے ہم کو ۔۔۔ اور میں نہیں چاہتا کہ ہمارے کسٹمر کم ہو جائیں ۔۔۔ او کے ۔۔۔ آنٹی نے کہا ۔۔ چلو نبیل بیٹا چلتے ہیں کام شروع کرتے ہیں ۔۔۔۔ ہم اٹھ کے کمپیوٹر روم میںچلے گئے ۔۔۔ نبیل نے ہمارے سامنے ڈئزائن کھولا تو اسے دیکھ کر میرا منہ کھلے کا کھلا رہ گیا ۔۔۔ یہ ایک لن کا ڈئزائن تھا مگر اس میں خاصیت یہ تھی کی اس کے دونوں طرف لن کی ٹوپی بنی ہوئی تھی ۔۔۔ یہ ڈئیزائن مارکیٹ میں پہلے سے موجود تھا مگر نبیل نے اس میں تبدیلی یہ کی تھی کہ اس میں ایک بیٹری سے چلنے والی موٹر بھی نصب کی تھی جو بٹن آن کرنے سے چلنے لگتی تھی اور لن درمیان کے حصے کو چھوڑ کر دونوں طرف ٹوپی کی سائیڈ سے آگے پیچھے ہوتا تھا ۔۔۔۔ میں نے نبیل سے کہا کہ مجھے اس ڈئیزائن کی کچھ سمجھ نہیں آئی ۔۔۔ کیوں کہ اب آنٹیسے میرا کوئی پردہ نہیں رہا تھا اس لیئے میں بے جھجھک ہو کر نبیل سے آنٹی کے سامنے ہی سوال پوچھ رہی تھی ۔۔۔ دیکھو بیٹا میں سمجھاتی ہوں کہ یہ کیا چیز ہے ۔۔۔ میری ساس بولی ۔۔۔ دیکھو اس کے دونوں سروں پر ٹوپی بنی ہوئی ہے جس کا مطلب ہے کہ ایک وقت میں دو لڑکیاںاس کو اپنے اندر لے سکتی ہیں ۔۔۔۔ اور بنا ہلے جلے اسموٹر کو آن کر کے دونوں بیک وقت اس کو اپنے اندر باہر کر سکتی ہیں اور مزہ لے سکتی ہیں ۔۔۔ کیوں نبیل بیٹا میں ٹھیک کہہ رہی ہوں یا نہی ؟؟؟؟ جی امی آُ بلکل ٹھیک کہہ رہی ہیں ۔۔۔ مگر ایک پرابلم ہے۔۔۔ کیا پرابلم ہے ۔۔؟؟ اس بار میں نے پوچھا ۔۔۔۔ پرابلم یہ ہے کی ہمیں یہ سمجھ نہیں آ رہی کہ اس کا سائیز کیا رکھیں؟؟؟ سائز ایسا ہو کہ کسی بھی لڑکی کو یہ اندر سے زخمی نا کر دے اور اس کو اپنے اندر لینے والی لڑکی اس سے لطف اندوز بھی ہو ۔۔۔ ہمم!!!!!! ۔۔۔۔۔ یہ تو مسئلہ ہے ۔۔۔ خیر اتنا بھی مسلہ نہیں ہے ۔۔۔ آنٹی بولی ۔۔ بیٹا تم لوگ ایک کام کرو اس کو ڈیڑھ انچ موٹا اور نو انچ لمبا رکھو ۔۔۔ آپ کا مطلب ہے کہ اس کی پوری لمبائی نو انچ ہو۔۔۔؟؟ اس طرح تو اس کی ایک طرف کی لمبائی ساڑھے چار انچ رہ جائے گی ۔۔۔۔ اور آپ کیا سمجھتیہیں کہ اتنے چھوٹے لن کے ساتھ لڑکی انجوائے کر پائے گی ؟؟؟ نہیں میرا بیٹا میرا مطلب تھا کہ اس کی ایک طرف کی لمبائی نو انچ رکھو ۔۔۔۔ اور ایک کام اور کر دینا ۔۔۔ وہ کیا امی جان۔۔۔ نبیل نے پوچھا ۔۔۔ اس میں ایک ایسا فنکشن بھی رکھو کہ اگر اس کو آگے پیچے کرنے کی بجائے کوئی لڑکی اس کو وائبریٹ کرنا چاہے تو وہ بھی کر لے ۔۔۔۔ میرا مطلب سمجھ رہے ہو نا۔۔؟؟؟ جی جی امی جی میں سمجھ گیاہوں آپ کا مطلب آپ کیا کہنا چاہ رہی ہیں ۔۔ نبیل پر جوش آواز میں بولے ۔۔ یہ بات تو ہمارے ذہن میں بھی نہیں آئی تھی ۔۔۔ واہ کیا کمال کی بار سجھائی ہے آپ نے میری پیاری امی جان ۔۔ اور اس کے ساتھ ہی نبیل نے اٹھ کر آنٹی کے ہونٹ چوم لئے ۔۔۔۔۔ آنٹی نے بھی نبیل کا بھرپور ساتھ دیا کس کرنے میں ۔۔ انہوں نے نبیل کو گردن کے پیچھے سے پکڑ لیا ور فرنچ کس کرنے لگ گئی ۔۔۔ یہ میری زندگی کا پہلا واقعہ تھا کہ میں اپنے سامنے ایک بیٹ کو اپنی سگی ماں کے ساتھ فنچ کس کرتے ہوئے دیکھ رہی تھی ۔۔ مجھے مزہ بھی آ رہا تھا دیکھنے کا اور کچھ عجیب بھی لگ رہا تھا ۔۔۔ نبیل نے اپنا ایک ہاتھ آنٹی کے مموں پر رکھ دیا ۔۔۔ اور آنٹی نے اپنے بیٹے کی پینٹ کے اوپر سے ہی اس کا لن سہلانا شروع کر دیا ۔۔۔ میں یہ سب دیکھ کرکافی ہاٹ ہو رہی تھی ۔۔۔ مگر رنگ میں بھنگ کبھی بھی پڑ سکتا ہے ۔۔۔ ابھی یہ کسنگ کر ہی رہے تھے کہ اچانک دروازہ کھلنے کی آواز نے ہم تینوں کو چونکا دیا ۔۔۔ دروازے سے انکل اندر داخل ہو رہے تھے
:انکل نے اندر آتے ہی پوچھا ہاں بھئی کچھ فائنلہوا یا نہیں ابھی تک ؟؟؟ نبیل نے آنٹی سے اگ ہوتے ہوئے کہا جی ابو جی ہو گیا ہے فائنل ۔۔ امی نے کچھنئی باتیں بتائی ہیں اس کو بنانے کے لئے ۔۔ جو کہپمارے ذہن میں بھی نہیں تھی ۔۔ میں آپ کو ڈیٹیلساے سمجھاتا ہوں ۔۔۔۔ پھر وہ لوگ آپس میں باتیں کرنے لگ گئے ۔۔۔۔ مگر مجھے جیسے کچھ سنائی نہیں دے رہا تھا ۔۔ میری پھدی میں آگ لگ رہی تھی ۔۔۔ اور یہ پہلے سے زیادہ گرم ہو رہی تھی ۔۔میں نے خود کو کنٹرول کرنے کی کوشش کی ۔۔ ہم واپس اپنی اپنی کرسیوں پر بیٹھ چکے تھے ۔۔ میں نے پنسل اپنے ہاتھ میں پکڑی ہوئی تھی ۔۔۔۔ جو پتانہیں کیسے میرے ہاتھ سے نیچے گر گئی ۔۔۔۔ٹیبل کی ایک سائڈ پر میں اور آنٹی بیٹھے تھے اور ٹیبل کیدوسری سائڈ پر انکل اور بنیل بیٹھے تھے ۔۔۔۔ جیسے ہی میں پنسل اٹھانے کے لئے نیچے جھکی مجھے ٹیبل کے نیچے سے نظر آیا سامنے ہی نبیل کی پینٹ کی زپ کھلی ہوئی تھی اور اس میں سے نبیل کا لن اپنا سر باہر نکالے مجھے گھور رہا تھا ۔۔۔۔ میں خود پر کنٹرول نہیں رکھ پائی اور میں گھٹنوں کے بل چلتے ہوئے نبیل کے لن کے بلکل سامنے پہنچ گئی اور بنا کوئی وقت ضائع کئیے میں نے لن کو اپنے منہ میں لے لیا ۔۔۔ جب میں نے لن کو اپنے ہاتھ میں پکڑا تو مجھے کچھ کھٹکا سا ہوا کہ یہ لن نبیل کا نہیں لگ رہا ۔۔۔ مگرمجھے تو لن چاہئے تھا ۔۔۔۔ میں نے ایک بھرپورچوپا لگایا اور ایک سسکی کی آواز آئی ۔۔ جسے سن کر میرے پیروں تلے سے زمین نکل گئی ۔۔۔۔ وہ سسکی نبیل کی نہیں تھی ۔۔۔۔ پھر کس کی تھی ۔۔۔؟؟؟وہ سسکی جس کی بھی تھی مجھے اب پروا نہیں تھی ۔۔۔ اچانک میری پھدی پر پیچھے سے کسی نے ہاتھ رکھا ۔۔ میں نے تڑپ کر اپنے پیچھےدیکھا تو میری آنکھوں کے آگے اندھیرا چھا گیا ۔۔ میری پھدی پر کسی اور نے نہیں نبیل سے ہاتھ رکھا تھا ۔۔۔ اگر نبیل میرے پیچھے تھے تو میرے سامنے کس کا لن تھا ۔۔۔۔۔۔ ہوا یوں تھا کہ جیسے ہی میں پنسل اٹھانے کے لیئے نیچے جھکیٹھیک اسی وقت نبیل اور انکل نے اپنی اپنی جگہ ایک دوسرے سے بدل لی تھی ۔۔ جہاں نبیل تھے وہاںانکل بیٹھ گئے اور جہاں انکل تھے اس جگہ پر نبیل۔۔۔ میں نبیل کے لن کو نہیں بلکہ انکل کے لن کو چوس رہی تھی ۔۔ جیسے ہی میں نے چوپا لگایا انکل کے منہ سے سسکاری نکل گئی ۔۔ نبیل نے اپنا منہ کھولا ہی تھا پوچھنے کے لئے کیا ہوا۔۔۔ انکل نے ایک دم نبیل کو چپ رہنے کا اشارہ کیا اور اشارے اشارے میں ہی ٹیبل کی دوسری سائڈ سے نیچےدیکھنے کو کہا ۔۔ نبیل نے کپڑا اٹھا کر دیکھا تو میں مست ہو کر انکل کے لن کو چوس رہی تھی ۔۔۔ اور میری پھدی نبیل کی طرف ہی تھی ۔۔ نبیل سے اپنا ہاتھ میری پھدی پر رکھ دیا ۔۔ میں جتنی دیر میں سمجھ پاتی تب تک بہت دیر ہو چکی تھی ۔۔۔ ننننبیییل۔۔۔۔ وہ ووووہہ یہ وہ مم میں ۔۔۔ میرے اوسان خطا ہو گئے تھے اور میرے منہ سے آواز نہی نکل رہی تھی ۔۔۔۔ ارے جان کیوں پریشان ہو گئی ہو ۔۔۔۔ کوئی بات نہیں آج ابو کو بھی مزہ لینے دو تم ابو کو مزہدو میں امی کا دودھ پی لوں تھوڑا سا ۔۔۔۔ اتنا کہہ کر نبیل نے مجھ کو ٹیبل کے نیچے سے نکالا اور کھڑا کر کے مجھے ایک ڈیپ فرنچ کس کی ۔۔۔ نبیل کو پیچھے سے آنٹی نے جپی ڈالی ہوئی تھی ۔۔ نبیل بیٹا آج اپنے ابو کو بھی اپنی وائف کا مزہ لینے دو ۔۔۔۔ آنٹی کی چھاتیاں نبیل کی کمر میں دھنسی ہوئی تھی ۔۔۔۔۔۔ میری آنکھیں سرخ ہو رہی تھی خمار کی وجہ سے ۔۔۔۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ انکل کا لن نبیل کے لن سے زیادہ موٹا تھا ۔۔۔ اور میں اب بے چین تھی انکل کا لن لینے کے لئے ۔۔۔۔ میں گھٹنوں کے بل بیٹھ گئی اور بولی انکل پہلےمجھے اپنا لن کھلا دیں مجھے لن کی بھوک لگی ہوئی ہے ۔۔۔۔ انکل خوش ہو گئے اور اپنی پینٹ اتار کر میرے سامنے آ کھڑے ہوئے ۔۔۔ ان کا موٹا تازہ لن میرے سامنے لہرا رہا تھا ۔۔۔۔ میں بھوکی شیرنی کی طرح لن پر حملہ آور ہو گئی ۔۔۔ اور دیوانہ وار چاٹنا شروع کر دیا ۔۔۔۔انکل نے ایک آہ بھری اور میرے بالوں کو پکڑ لیا ۔۔ میں اپنا پورا منہ کھول کر لن اپنے منہ میں لینے کی پوری کوشش کر رہی تھی مگر لن تھا کہ ڈنڈا تھا جو میرے منہ کے اندر جا ہی نہیں رہا تھا ۔۔۔ بیٹی اپنے منہ کو ڈھیلا چھوڑو ۔۔ انکل نے مجھے کہا ۔۔ میں نے منہ کو ڈھیلا چھوڑ دیا انکل نے میرے سر کو مضبوطی سے پکڑ کر ایک جھٹکا مارا اور ان کا لن سیدھا میرے حلق میں جا کر لگا ۔۔۔۔ مجھے زور کی کھانسی ہوئیاور میں نے ان کا لن منہ سے باہر نکال دیا ۔۔۔۔ میری آنکھوں میں آنسو آ گئے ۔۔۔۔ اجی کیا کرتے ہیں آرام سے میری بیٹی کے منہ میں ڈالیں اپنا لن ۔۔۔ کیوں بے چاری کو تکلیف دے رہے ہیں ۔۔۔۔ ارے نہی آنٹی جی تکلیف کی کوئی بات نہیں ہے ۔۔۔ آج پہلی بار اتنا موٹا اور لمبا لن منہ میں لیا ہے نا اس لیئے کھانسی لگ گئی ۔۔ میں اپنے انکل کو پورا مزہ دوں گی آج ۔۔۔۔۔ پھر انکل نے بڑے ہی آرام اور پیار سے اپنا لن میرےمنہ میں آہستہ آہستہ داخل کرنا شروع کیا ۔۔۔ میں ہر چوپے پر لن کو اور زیادہ اپنے منہ میں لینے کی کوششکرتی تھی ۔۔۔ جس میں میںَ کافی حد تک کامیاب بھی ہو رہی تھی ۔۔ پھر میں نے انکل سے کہا آپ ممیرے سر کو پہلے کی طرح پکڑ کر پورا لن میرے منہ میں ڈال دیں ۔۔ میں اب پورا لن کھانا چاہتی ہوں ۔۔۔ ٹھیک ہے بیٹی جیسے تمھاری مرضی تیار ہو جاؤ ۔۔۔ اتنا کہہ کر انکل نے میرے سر کو پکڑ کر ایک زور دار جھٹکا مارا اور پورا لن میرے منہ میں داخل کر دیا ۔۔۔ مجھے لگا جیسے لن میری گردن کو پھاڑ کر باہر نکل جائے گا ۔۔۔ میری سانس بند ہو گئی مگر میں نے اب کی بار منہ پیچھے نہیں کیا ۔۔۔ تھوڑی دیر ایسے ہی رہنے کے بعد میں نے لن کو اپنے منہ سے باہر نکال دیا اور لن کو اپنے ہاتھ میں پکڑ کر مٹھ مارنی شروع کی ۔۔ انکل کا لن میرے تھوک سے اچھی طرح بھر گیا تھا ۔۔۔۔ انکل نے مجھے کہا بیٹی میرے انڈوں کا ذائقہ کیسا ہے ذراچکھ کر بتاؤ ۔۔۔۔ میں نے لن کو ہاتھ سے اوپر کی طرف کیا اور انکل کے انڈوں کو اپنے منہ میں لے کر چوپا لگایا ۔۔۔۔مجھے انکل کے لن اور انڈوں سے سکسی خوشبو آ رہی تھی جس سے میری پھدی بہت ہی گیلی ہو گئی تھی ۔۔۔۔ میں نے زبان باہر نکال کر انڈوں کو چاٹ چاٹ کر اچھی طرح سے صاف کر دیا ۔۔۔۔ انکل کے انڈے بھی کافی بھرے ہوئے تھے ۔۔۔۔۔اور مجھے وہ کافی وزنی لگ رہے تھے ۔۔۔۔۔۔۔۔ انکل آپ کے انڈے تو بہت مزے دار ہیں ۔۔۔ دوسری طرف ماں بیٹے کا کھیل بھی شروع ہو چکا تھا ۔۔۔ نبیل نے آنٹی کے مموں پر حملہ کر دیا تھا ۔۔۔ نبیل نے آنٹی کے نپل کو اپنے منہ میں لے کر اپنے دانتوں سے ہلکا سا کاٹ لیا ۔۔ سسس۔۔۔ آہہہہ۔۔۔۔ بیٹا ۔۔۔۔۔ میں نے دیکھا آنٹی اور نبیل دونوں بلکل ننگے ہو چکے تھے ۔۔۔ نبیل کا لن آنٹی کی ٹانگوں میں پھنسا ہوا تھا ۔۔۔۔ یہ دیکھ کر میری آگ اور بھڑک اٹھی ۔۔۔ میں نے انکل سے کہا انکل مجھے سینے پر کچھ کچھ ہو رہا ہے ۔۔۔ اچھا چلو بیٹی تمھارے سینے کا بھی کچھ کرتا ہوں ۔۔ میں کھڑی ہو گئی اور انکل نے ایک ہی جھٹکے میں میریقمیض اتار کر ایک طرف رکھ دی ۔۔۔ میرے ممے دیکھ کر انکل کے ہوش اڑ گئے ۔۔۔۔ انہوں نے میرے ہونٹ اپنے ہونٹوں کی گرفت میں لے کر چوسنا شروع کر دیا ۔۔۔۔ انکل نے دو تین بار اپنی زبان سے میرے ہونٹوں کو ٹچکیا ۔۔ میں ان کا مطلب سمجھ رہی تھی ۔۔۔ وہ اپنی زبان میرے منہ کے اندر داخل کرنا چاہتے تھے مگر میںاتنی جلدی ان کی خواہش پوری کرنے والی نہیں تھی۔۔ میں نے سختی سے اپنے ہونٹ بند کر لیئے تھے مگر انکل بھی ماہر کھلاڑی تھے ۔۔ میری ان کے سامنے کیا مجال تھی ۔۔۔۔۔۔۔ میں نے جیسے ہی سانسلینے کے لئے اپنا منہ کھولا انہوں نے جھٹ سے اپنی لمبی زبان میرے منہ میں داخل کر دی ۔۔۔ جیسے ہی انکی زبان میری زبان کے ساتھ ٹکرائی میرے جسم میں ایک لہر دوڑ گئی ۔۔۔ میں اپنے ہونٹوں کو گول کر کے انکی زبان کو چوسنے لگ گئی ۔۔۔۔ افف ۔۔۔ کیا بتاؤں کیا ذائقہ تھا انکل کی زبان کا ۔۔۔۔۔ انکل کا ایک ہاتھ میری گردن کے پیچھے تھا اور ایک ہاتھ نیچے میری پھدی کے ساتھ کھیل رہا تھا ۔۔۔۔۔۔۔ میں نے اپنی ایک ٹانگ ان کی کمر کے گرد لپیٹ لی ۔۔۔ انکل نے مجھے ٹیبل پر بٹھا دیا اور اپنا منہ میرے ایک ممے کے ساتھ لگا کر اپنی زبان سے میرے ممے پر اگے ہوئے پنک نپل کو اپنی زبان سے چاٹا ۔۔۔۔۔ آہ ہ ہ ہ ۔۔۔۔اااااااننن کک لل۔۔۔۔۔ جج ج یی۔۔۔ میرے منہ سے سسکاری نکل گئی ۔۔۔۔۔ انکل کبھی میرے ایک ممے کو چوس رہے تھے اور کبھی دوسرے کو ۔۔ مجھےسے اب بیٹھا نہیں جا رہا تھا میں ٹیبل کے اوپر ہی لیٹ گئی ۔۔۔ اور اپنی ٹانگیں میں نے کھول لیں ۔۔۔۔۔ میری بالوں سے صاف پھدی دیکھ کر انکل میریٹانگوں کے درمیان بیٹھ گئے اور اپنی زبان سے میری پھدی کو چاٹنے لگے ۔۔۔۔۔۔۔میرے منہ سے ایک سسکاری نکل گئی ۔۔ سس!!!!!!!!۔۔۔ افف۔۔۔۔ انکل۔۔۔ اپنی زبان اندر داخل کریں نا پلیزززززز۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ارے بیٹی تھوڑا صبر تو کرو ۔۔۔ آج تمھاری ہر خواہش پوریکروں گا ۔۔۔ میری جان انکل ۔۔ آپ جیسا چاہتے ہیں ویسا کریں ۔۔۔ بس مجھے سکون دے دیں ۔۔۔۔۔ میں انکل کے ترلے کر رہی تھی ۔۔۔ مگر انکل نے شائد قسم کھائی ہوئی تھی کہ آج میری جان ہی نکال لینی ہے ۔۔۔ میری پھدی کے ارد گرد زبان پھیر رہے تھے مگر میرے پھدی ان کے منہ کے آگے بار بارکرنے سے بھی وہ اپنی زبان کو پھدی کے اندر نہیں کر رہے تھے ۔۔۔ نبییی للللل ۔۔۔۔۔۔ میرے منہ سے نبیل کا نام نکل گیا ۔۔۔ جی میری سویٹ بیوی ۔۔ کیا ہوا؟؟؟ جان دیکھو نا انکل آپ کی بیوی کو کتنا تڑپا رہے ہیں ۔۔۔ یہ تمھارا اور ابو کا مسلہ ہے میں کچھ نہیں کہہ سکتا ۔۔۔۔۔ میں نے انکل کا سر پکڑ کر اپنی پھدی ان کے منہ سے ساتھ ملا دی اور اسی پل انکل نے اپنی لمبی زبان میری ترسی ہوئی پھدی کے اندر گہرائی میں لے گئے ۔۔۔۔ ایک سکون اتر گیا میرے بدن کے ہر حصے میں ۔۔۔۔ میرے جسم میں مخصوص قسم کی اکڑن پیدا ہو رہی تھی جس کا مطلب تھا کہ میں ڈسچارج ہونے والی تھی ۔۔۔ میرے منہ سے کنٹرول کرنے کے باوجود اونچی اونچی آوازیں نکل رہی تھی ۔۔ میں نے تین چار جھٹکے کھائے اور میری پھدینے ڈھیر سارا پانی چھوڑ دیا ۔۔۔۔ انکل نے اپنا منہ پیچھے ہٹایا تو میں نے دیکھا کہ ان کا سارا منہ میرے پانی سے لتھڑا ہوا ہے ۔۔۔ کیوں بیٹی راستے میں ہی اپنے انکل کا ساتھ چھوڑ گئی ۔۔۔ انکل نے منہصاف کرتے ہوئے مجھ سے کہا ۔۔۔ ابھی تو سفر شروع ہوا تھا اور تم تھک بھی گئی ہو ۔۔۔ کیا کرتی انکل جی اپ نے مجھے گرم ہی اتنا کر دیا تھا کہ مجھ سے برداشت نہی ہو رہا تھا ۔۔ میری ہانڈی ابل گئی ساری ۔۔۔۔ چلو آؤ اب مجھے اپنی ملائی نکالنے کا موقع دو ۔۔۔ میں نے اپنی ٹانگیں پھیلا دی اور کہا انکل جی یہ آپ کے لن کے لئے بے چین ہے اس کی بے چینی ختم کر دیں ۔۔۔۔ انکل نے میری ٹانگیں کھینچ کر اپنے لن کے پاس کر لیا ۔۔۔ میری پھدی اب خشک ہو رہی تھی اور ایسے میں انکل کا موٹا لن پھدی کے اندر نہیں جا رہا تھا ۔۔۔ انکل نے لن کے ٹوپے پر تھوک لگایا اور پھدی کے اوپر اپنی ٹوپی رگڑی تھہڑی دیر رگڑنے کے بعد میری پھدی ایک بار پھر سے گیلی ہو گئی تھی ۔۔۔ لو بیٹی اب تیار ہو جاؤ میں تمھاری پھدی میں اپنا لن ڈالنےلگا ہوں ۔۔۔ انکل جی اپنے لن کا ایک بھی انچ پھدیسے باہر نہ رہنے دینا ۔۔۔ ورنہ میں آپ سے ناراض ہو جاؤں گی ۔۔۔ نا نا میری بیٹی ناراض نہیں ہونا میں اپنی بیٹی کی پھدی کو اپنے لن سے بھر دو گا ۔۔۔ اور اس کے ساتھ ہی انہوں نے ایک ہلکا سا جھٹکا مارا اور لن کی ٹوپی میری پھدی میں داخل کر دی ۔۔۔ میں نے اپنے ہونٹ سختی سے بھینچ لئے تھے ۔۔۔ اگرمیں ایسا نا کرتی تو میری چیخ نکل جانی تھی ۔۔۔ انکل نے تھوڑی دیر رک کر میرے مموں کو چوسا جس سے میں اپنی پھدی میں ہونے والی درد کو کچھ دیر کے لئے بھول گئی ۔۔۔ پھر انکل نے اپنے لن کو دھکیلنا شروع کیا تو تب تک دھکیلتے رہے جب تک وہ پورا میری پھدی کی گہرائی میں غائب نہیںہو گیا ۔۔۔ مجھے ایسا لگ رہا تھا جیسے کسی نے میری پھدی میں گرم لوہے کی سلاخ داخل کر دی ہے۔۔۔۔ ھااااااا ئےےےےےےے۔۔۔۔ اوئی ماں ۔۔۔ میں مررررررر گئی یی۔۔۔۔۔میں نے اونچی آواز میں چیخ ماری ۔۔۔۔ ارے نبیل کے ابو آرام سے کریں کیوں میری بہو کی پھدی پھاڑنی ہے آپ نے ۔۔۔۔ تم چپ کرو کتیا ۔۔۔ انکل نے درشت لہجے میں آنٹی سے کہا ۔۔ ان کی آنکھوں میں وحشت نظر آ رہی تھی ۔ جس کو دیکھ کر میں دھل گئی ۔۔۔ آج میری خیر نہیں ہے ۔۔ میں نے دل میں سوچا ۔۔۔۔ میرا منہ کھلا ہوا تھا اور آنکھیں بند تھی ۔۔۔ درد کے مارے میری سانس رک رہی تھی ۔۔ میں نے انکل سے کہا انکل تھوڑی دیر کےلئے اسے باہر نکالیں ۔۔ میں مر جاؤں گی تکلیف سے ۔۔۔ بیٹی اب تو یہ باہر نہیں نکلنے والا ۔۔ اب توتم کو اسے برداشت کرنا ہی ہو گا ۔۔ ہت شوق ہے نا تم کو پھدی مروانے کا ۔۔ اب مزہ لو ۔۔ اور دیکھو میں آج تمھارا کیا حال کرتا ہوں ۔۔ بہت ترسایا ہے تم نے مجھے ۔۔ پہلے ہی دن سے میرے لن کی شدید خواہش تھی تمھاری پھدی میں جانے کی مگر تم کبھی میرے ہاتھ نہیں لگی تھی ۔۔۔ آج موقع ملا ہے تو میں کیوں اس کو ضائع کروں ۔۔۔ میری جان انکل میں کہیں بھاگی نہیں جا رہی ۔۔ آہ ہہ ہ ہ ہہ ہ۔۔۔ میری بات وری ہونے سے پہلے ہی انکل نے ایک اور جاندار دھکا مارا اور میری آنکھوں کے آگے تارے ناچنے لگ گئے ۔۔۔۔۔میں نے رحم طلب آنکھوں سے نبیل کی طرف دیکھا کہ میری مدد کرو ۔۔ مگر وہ اپنی ماں کی پھدی کھانے میں مصروف تھا ۔۔۔۔میں نے سوچا اب تو کچھ نہیں ہو سکتا ۔۔ اوکھلی میں سر دیا ہے اب دھمکوں سے کیا ڈرنا ۔۔ بہتر ہے میں اب درد کو مزے میں تبدیل کر کے اس سارے کھیل کو انجوائے کروں ۔۔۔۔انکل نے میری دونوں ٹانگیں اوپر کو اٹھا کر ساتھ ملا دی ۔۔۔ اس سے میری پھدی کا منہ بند ہو گیا ۔۔۔ اور انکل کا لن اب پھنس پھنس پھنس کر اندر جا رہا تھا ۔۔۔۔ اب مجھے بھی درد کم اور مزہ ذیادہ آ رہا تھا ۔۔۔۔۔ نیری ٹانگیں انکل کے سینے کے ساتھ گی ہوئی تھیں ۔۔ اور انکل نے میری ٹانگوں کے گرد اپنی باہیں مظبوتی سے لپیٹ رکھی تھی جس سے میںاپنی ٹانگوں کو ہلا جلا نہیں سکتی تھی ۔۔۔۔ پانچ منٹ بعد میری پھدی نے پانی چھوڑ دیا ۔۔۔ اور میں لمبی لمبی سانسیں لینے لگی ۔۔۔ کیا ہوا بیٹی پھر سے ۔۔۔؟؟؟ انکل نے پوچھا ۔۔ جی انکل پھر سے پانی نکال دیا ہے آپ نے ۔۔۔ پھر انکل نے مجھے ٹیبل سے نیچے اتارا اور میرا منہ ٹیبل کی طرف کر کےمجھے ٹیبل پر پیٹ کے بل لٹا دیا ۔۔ میری ٹانگیں ٹیبل سے نیچے تھی اور میرا دھڑ ٹیبل پر تھا ۔۔۔ انکل نے میری ٹانگیں کھول کر پھیلا دی اور خود میرے پیچھے آ کر کھڑے ہو گئے ۔۔۔ میں نے اپنے ہاتھ لمبے کر کے ٹیبل کا دوسرا سرا ہاتھ میں مضبوتی سے پکڑ لیا تھا ۔۔ انکل نے اپنا لن ایک بارپھر میری پھدی کی گہرائی میں ایک ہی وار میں اتاردیا ۔۔۔ میری پھدی چونکہ کلی ہوئی تھی اس لئے لن اپنی جڑ تک پھدی میں چلا گیا ۔۔۔۔۔ آاہہہہہہ ہ ہ ہ ہ ہ ۔۔۔ امم مم مم ۔۔۔۔ میرے منہ سے سسکاری نکلی ۔۔۔۔ نبیل اپنی امی کو چھوڑ کر ٹیبل پر آ کر بیٹھ گئے اور اپنا لن میرے منہ کے آگے کر دیا ۔۔ میں نے ان کا لن اپنے منہ میں لے کر چوپے لگانے شروع کر دیا ۔۔ اور آنٹی انکل کے پیروں میں گھٹنوں کے بل بیٹھ گئی ۔۔ انہوں نے کہا میرے سرتاج مجھے آپ کا لن چوسنا ہے ۔۔۔ انکل نے لن میری پھدی سے نکال کر میری ساس مے منہ میں دے دیا ۔۔۔۔۔ آنٹی نے انکل کا لن اپنے منہ میں سارا لے لیا اور لولی پاپ کی طرح چوسنا شروع کر دیا ۔۔۔۔ پھر آنٹی نے لن چھوڑ کر میری پھدی پر اپنا منہ رکھ دیا اور میری پھدی سے نکلاہوا سارا پانی پی لیا ۔۔۔ بیٹی تمھاری پھدی کا پانی بہت مزیدار ہے ۔۔۔ میری وحشت اب بڑھ رہی تھی ۔۔۔۔ میں نے اپنی ایک ٹانگ اٹھا کر ٹیبل پر رکھ دی ۔۔ جس سے میری پھدی اور کھل گئی ۔۔۔ انکل نے میری ساس کو ایک دھکا دے کر پرے دھکیلا اور میری پھدی پر پھر سے ستم آزمائی کرنے لگ گئے ۔۔۔ پتا نہیں انکل کیا کھاتے تھے جو ڈسچارج ہونے کا نام ہی نہیں لے رہے تھے ۔۔۔۔ بیٹی کبھی گانڈ میں لیا ہے لن ؟؟؟ انکل نے میرے بالوں کو سہلاتے ہوئے مجھے پوچھا ۔۔ نہیں انکل آج تک نہیں لیا اور میں لینا بھی نہیں چاہتی ۔۔چلو آج پھر تمھاری گانڈ بھی میں ہی اوپن کرتا ہوں ۔۔۔ میں نے انکل کے آگے ہاتھ جوڑ دئیے پلیز انکل یہ مت کرنا ۔۔ میری گانڈ پھٹ جائے گی ۔۔۔ مگر انکل نہیں مان رہے تھے ۔۔ ارے بیٹی اتنا گھبرانے کی کیا بات ہے کچھ نہی ہو گا تم کو ۔۔۔ مگر اتنا موٹا لنجس نے میری پھدی کا برا حال کر دیا تھا وہ میریگانڈ کا کیا حال کرے گا ۔۔۔ میں سوچ کر ہی مرنے والی ہو گئی تھی ۔۔۔ میں سچ میں رونے لگی ۔۔۔ انکل پلیز۔۔۔ مجھے بہت ڈر لگ رہا ہے آپ کے اس لن سے ۔۔۔ انکل کے دل پر میرے آنسو اثر کر گئے ۔۔ اچھاٹھیک ہے بیٹی تم رونا بند کرو میں آج نہیں ڈالتا تمھاری گانڈ میں اپنا لن ۔۔۔ اور اس طرح انہوں نے میری گانڈ مارنے کا پروگرام کینسل کر دیا ۔۔۔
:انکل نے پھر مجھے گھوڑی بنا دیا اور میری پھدی میں لن ڈال دیا ۔۔ آنٹی نے پیچھے سے آ کر انکل کے انڈے اپنے منہ میں لے کر چوسنے شروع کر دئیے ۔۔۔۔ جس سے انکل کے منہ سے بھی مختلف قسم کی آوازیں نکل رہی تھی ۔۔ وہ ساتھ ساتھ آنٹی کو گندی گندی گالیاں بھی دے رہے تھے ۔۔۔ ہاں چوس کتیا ۔۔ تیری پھدی میں گھوڑے کا لن ماروں ۔۔حرام زادی ۔۔ گشتی ۔۔۔ سالی رنڈی ۔۔۔چوس اپنے شوہر کےانڈے ۔۔۔ بہن چود ۔۔۔ ھااااااااااااا۔۔۔ آ آ آآآہ ۔۔۔ یہ میں گیا ۔۔۔۔ساتھ ہی انکل نے اپنا سارا پانی میری پھدی میں خارج کر دیا ۔۔ انکل کے ساتھ ہی میں بھی سسکنے لگ گئی ۔۔۔ آآآہ۔۔ اانن کک ک کل ۔۔۔ اآپ کی بیٹی کی پھو پھو پھ ہھ پھدی گگ گگ گئی ۔۔۔ اور اسی کے ساتھ میرے جسم کو زور دار قسم کے جھٹکے لگنے شروع ہو گئے ۔۔۔ میری پھدی میں سیلاب آ گیا تھا ۔۔۔ انکل بے جان ہو کر میرے اوپر ہی گر گئے تھے ۔۔۔
سفر Part 6
میں نے بوکھلا کر دیکھا تو اندر آنے والا کوئی اورنہیں میری باجی تھی ۔۔۔۔ ارے بب با جج جی ی ی ی ۔۔ سو سس سورررری۔۔۔۔ باجی نے ایک دم ہکلاتے ہوئے کہا ۔۔۔ سوری مجھے نہیں تھا پتا کہ تم دونوں ۔۔۔۔۔۔ باجی اب کھڑی کمرے میں ادھر ادھر دیکھ رہی تھی ۔۔۔۔ جی باجی کہیں کیا کہنا تھا ۔۔۔؟؟؟کچھ نہیں آپ لوگ اگر ڈسٹرب ہو رہے ہیں تو میں چلی جاؤں۔۔۔۔؟؟؟ اب میں کیا کہتی ۔۔۔ شرم سے میرا برا حال رہا تھا ۔۔۔۔ نبیل کہنے لگے یار اگر باجی نہیں جانا چاہ رہی تو کیا پرابلم ہے ۔۔؟؟ نا جائیں ۔۔۔ ارے مگرررر ۔۔۔۔۔۔ میں ابھی اتنا ہی کہہ پائی تھی کہ باجی بول پڑی ۔۔ نبیل آپ اچھا پیار کر رہے تھے ۔۔ اور ایسے وقت میں جب آپ کے جذبات عروج پرہوں خود کو روکنا نہیں چاہئے ۔۔۔۔ شاباش رکو نہیں ۔۔۔ باجی کی باتیں سن کر مجھے تو سمجھ نہی آ رہی تھی کہ باجی کرنا کیا چاہتی ہیں ۔۔۔۔ شائد نبیلکو سمجھ آ گئی تھی ۔۔۔ او کے ۔۔۔ سالی صاحبہ آپ کے سامنے ہم کیسے کر لیں۔۔۔۔ ؟؟؟ کیوں میرے سامنے کرتے ہوئے کیوں شرم آ رہی ہے ۔۔ جبکہ تم لوگ تو سارے گھر والے آپس میں کھل چکے ہیں ۔۔۔۔ باجی کے منہ سے یہ سن کر میرا منہ کھل گیا ۔۔۔۔۔ باجی آپ کو کس نے بتایا۔۔۔۔۔۔؟؟؟ میں نے جھجھکتے ہوئے پوچھا ۔۔۔۔۔ ارے بتانا کس نے ہے ۔۔۔۔ آنٹی نے بتایا ہے۔۔۔ اور مجھے بہت اچھا لگا یہ سب جان کر ۔۔۔ میری تو دلی خواہش ہے کہ گھر میں ایسا ماحول ہو ۔۔۔ سالی صاحبہ اگر آپ کو اعتراض نہیں ہے تو پھر ہمیں کیا اعتراض ہو سکتا ہے ۔۔۔۔ نبیل نے اتنا کہہ کر ہمارے اوپر سے چادر ہٹا دی ۔۔۔ ظاہر ہے ہم دونوں ننگے تھے ۔۔۔۔ اور نبیل نے میرے ممے پر ہاتھرکھا ہوا تھا ۔۔ اور اس کو دبا رھے تھے ۔۔۔ میں باجی کے سامنے اور بھی سکسی ہو رہی تھی ۔۔۔میں نے باجی کی طرف دیکھتے ہوئے اپنی ٹانگیںکھول دی ۔۔۔ میں دیکھ رہی تھی کہ باجی نے اپنی ایک ٹانگ دوسری ٹانگ پر رکھ لی تھی ۔۔۔ نبیل نے پھر سے میرے ممے اپنے دانتوں میں پکڑ لئے تھے ۔۔۔ جب نبیل ہلکا سا میرے نپل پر کاٹتے تھے تو مجھے بہت مزہ آتا تھا ۔۔۔ میں نے نبیلکا سر اپنے ممے کے ساتھ سختی سے لگا لیا ۔۔۔۔ میری جان اور دانت اور زور سے لگاؤ ۔۔۔ کاٹو ۔۔ افف ۔۔۔ آہہ ۔۔۔۔۔۔۔ میں مزے سے سسک رہی تھی ۔۔۔۔۔ میں نے باجی کی طرف دیکھا تو باجی کا ایک ہاتھ ان کی قمیض کے اندر تھا ۔۔۔ ان کے ممے پر ۔۔۔۔ میری پھدی پانی نکال رہی تھی ۔۔۔ جان کتنا انتظار کروانے کا ارادہ ہے آج؟؟ میں نے نبیل کے کان میں کہا ۔۔۔۔ دیکھو نا کتنی گیلی کر دی ہے آپ نے ۔۔ نبیل نے میری پھدی پر ہاتھ لگایا تو ان کا ہاتھ گیلا ہو گیا ۔۔۔یہ دیکھ کر نبیل میری ٹانگوں کے درمیان آ گئے۔۔۔ میری ٹانگیں انہوں نے اٹھا کر اپناے سینے کے ساتھ لگا دی اور لن کا ٹوپا پھدی کے اوپر رکھا ۔۔۔ میں نے نیچے سے پھدی کو اوپر اٹھا کر لن کی ٹوپی اندر لینے کی کوشش کی ۔۔۔ نبیل ایک ہی جھٹکے میں اندر ڈال دینا ۔۔ باجی نے نبیل سے کہا ۔۔۔۔جو حکم میری سالی صاحبہ ۔۔ نبیل نے باجی کے حکم کی تعمیل کرتے ہوئے پورا لن ایک ہی جھٹکےمیں اندر گہرائی تک اتار دیا ۔۔۔ باجی نے اپنی قمیض اتار دی تھی اور ان کے سفید سفید ممے برا کی قید سے آزاد ہو چکے تھے ۔۔۔ وہ اپنے مموں کو بری طرح سے مسل رہی تی ۔۔۔ اور ایک ہاتھ سے اپنی پھدی کو سہلا رہی تھی ۔۔۔ کمرے میں دھپ دھپ کی آوازوں کے ساتھ میری اور باجی کی ہلکی ہلکی سکسی سسکیاں بھی گونج رہی تھی ۔۔۔ تھوڑی دیر بعد ہی میرے جسم میں اکڑن پیدہ ہو گئی۔۔۔ نبیل زور سسےےےے۔۔۔۔۔ آہہ ہ ہ ہ ۔۔ میی ررریی جاااااااان۔۔۔ میں نے نبیل کے ہونٹ اپنے ہونٹوں میں لے لیئے ۔۔۔ نبیل نے جب دیکھا کہ میں ڈسچارج ہونے والی ہوں تو انہوں نے بھی دھکوں میں تیزی کر دی ۔۔ اور تیز تیز اپنا لن میری پھدی کے اندر باہر کرنے لگے ۔۔۔ ھااااااااااااا۔۔ نن بب یی ی ی لل۔۔۔۔ آآٓآآآآہہاااااااا۔۔۔۔۔۔۔۔ میری پھدی میں سیلاب آ گیا تھا ۔ نبیل کو میں نے اپنے ساتھ چمٹا لیا اور تیز سانسیں لینے لگی ۔۔۔ جب میں ڈسچارج ہوئی تو باجی نے اپنی شلوار بھی اتار دی تھی ۔۔۔ میں نے باجی کو ہاتھ کے اشارے سے اپنے پاس بلایا ۔۔ وہ ہمارے پاس بیڈ پر آ کر بیٹھ گئی ۔۔۔ نبیل تم تو بہت اچھے طریقے سے کرتے ہو ۔۔۔ مجھے دیکھ کر بہت مزہ آیا ۔۔۔ باجی نے نبیل سے کہا ۔۔۔ سالی صاحبہ ایسے دیکھنے سے کیا مزہ آتا ہے ۔۔۔ مزہ لینا ہے تو آؤ نوشی کی جگہ لیٹ جاؤ۔۔۔۔ باجی نے میری طرف سوالیہ نظروں سے دیکھا ۔۔۔۔ میں نے اٹھ کر باجی کا مما اپنے منہ میں لے لیا ۔۔۔ دوسرا مما نبیل نے اپنے ہاتھ میں پکڑ لیا ۔۔۔ باجی کی سسکاری نکل گئی ۔۔۔ وہ تو جیسے کب سے اس موقع کی تلاش میں تھی ۔۔ جلدی سے انہوں نے نبیل کا لن اپنے منہ میں لے لیا ۔۔ اور پاگلوں کی طرح چوپے لگانا شروع ہو گئی ۔۔ میں نبیل کے نیچے سے نکل کر باجی کی بیک پر آ گئی اور ان کی پھدی پر اپنے ہونٹ رک دئے ۔۔۔ باجیکی پھدی بہت ہی زیادہ گیلی تھی ۔۔ اور ان کی پھدی کا پانی بہت ہی مزیدار تھا ۔۔ میں مزے سےپھدی کا پانی چوس رہی تھی ۔۔۔ نبیل نے ایک ہاتھسے باجی کا سر پکڑا ہوا تھا اور دوسرے ہاتھ سےباجی کے ممو باری باری دبا رہے تھے ۔۔۔ نبیل جانومجھ سے برداشت نہی ہو رہا ۔۔۔۔ میری پیاس بجھا دو پلیز ۔۔۔۔۔ یہ پیار ہم بعد میں کر لیں گے ۔۔۔۔ باجی نے نبیل سے کہا ۔۔ ٹھیک ہے سالی صاحبہ ۔۔۔۔ جیسا آپ کی مرضی ۔۔۔ آپ ایسے ہی رہیں میں آ کو گھوڑی بنا کر پھدی مارنا چاہتا ہوں ۔۔۔ نبیل جو دل کرتا ہے کرو ۔۔۔ مجھے بس لن دے دو ۔۔۔ نبیل نے باجی کے پیچھے آ کر ان کی پھدی میں اپنا لن ڈال دیا ۔۔۔۔ جیسے ہی نبیل سے اپنے لن کا ٹوپا باجی کی پھدی میں داخل کیا میں نے نبیل کی کمر کو ایک زور دار دھکا مارا اور پوری لن باجی کی پھدی میں پھسلتا ہوا غائب ہو گیا ۔۔۔ ھائےےےےےےےےےےےےےےےےے ۔۔۔ باجی نے ایک درد بھری سسکاری لی ۔۔۔ افف۔۔ نبیل آرام سے کرو ۔۔۔ کیوں باجی اب پتا چلا ایک دم سے اندر جا کر لن کیا تباہی مچاتا ہے ؟؟؟ ہاں میری بہن ۔۔۔ اب اندازہ ہو رہا ہے ۔۔ اور نبیل کا لن تو کچھ زیادہ ہی بڑا ہے ۔۔۔ کم اننبیل فک می ۔۔ باجی اب خالص فلموں والے انداز میں نبیل کو اکسا رہی تھی ۔۔۔ نبیل اپنی کمر کو آگے پیچھے کر کر کے باجی کی پھدی میں لن کو جڑ تک اندر دھکیل رہے تھے ۔۔۔ میں نے نیچے ہو کر نبیل کے اندے اپنے منہ میں لے کر چوسنے لگی ۔۔۔۔ نبیل کے منہ سے سسکیوں کا طوفان نکل آیا ۔۔۔۔۔ وہ اور زور سے باجی کی پھدی مین اپنا لن اندر باہر کرنے لگے ۔۔۔نبیل تمھارا لن میری بچہ دانی کے اندر تک جا رہا ہے ۔۔ ھائےےےےے ۔۔ نن نبیل ۔۔۔۔ افف ف فف ۔۔۔۔۔ میں گئی نبیل لل ۔۔۔۔۔ اور باجی کے جسم کو زور دار جھٹکے لگنے لگ گئے ۔۔ باجی بھی چھوٹ گئی تھی ۔۔ ارے سس ساااالل یی۔۔ سالی جی میں بھی گیا ۔۔۔باجی نے جلدی سے نبیل کا لن اپنی پھی سے باہر نکالا اور سیدھی بیٹھ کر لن اپنے منہ میں لے کر چوپے لگانے لگ گئی ۔۔۔ آہہ۔۔رنڈی۔۔ سالی بہن چود۔۔۔ نبیل باجی کو گالیاں دے رہے تھے ۔۔۔ چوس اور چوس ۔۔۔ گالیاں دینے کے ساتھ ساتھ نبیل باجی کے نپلز کو اپنے ھاتھوں سے سختی سے مسل رہے تھے ۔۔۔ پھر نبیل نے باجیکے سر کو پکڑ کر اپنا سارا لن باجی کے منہ ڈال دیا اور ان کا لن جھٹکے کھانے لگ گیا ۔۔۔ باجی کی آنکھیں باہر نکل آئی ۔۔ ان کا سانس رک گیا تھا ۔۔انہوں نے اپنا سر پیچھے کرنے کی کوشش کی جو نبیل نے ناکام بنا کر اپنے لن سے آخری قطرہ تک باجی کے حلق میں چھوڑ دیا ۔۔۔ نبیل بے جان ہو کر بیڈ پر گر گئے ۔۔۔۔۔ باجی بھی ان کے اوپر ہی گر گئی ۔۔۔ میری پھدی نے بھی ایک بار پھر سے پانی نکال دیا تھا اپنا ۔۔۔۔ ہم تینوں ایسے ہی ننگے ایک دوسرے کے ساتھ چپک کر ایک ہی بیڈ پر سو گئے۔۔۔۔
:صبح جب ہم ناشتے کی ٹیبل پر جانے لگے تو میں نے روٹین کے مطابق صرف برا اور انڈر ویئر پہنا ہوا تھا ۔۔ ارے نوشی کپڑے تو پہن لو ۔۔۔ ایسے ہی باہرجاؤ گی؟؟ باجی نے مجھے ٹوک دیا ۔۔۔۔ ہاں باجی ہم گھر میں صبح کے وقت کپڑے نہی پہنتی ہیں ۔۔۔ کیا مطلب ؟ آنٹٰ بھی نہیں پہنتی؟؟؟ اور ایسے ہی نبیل اورانکل کے سامنے تم دونوں ننگی رہتی ہو ؟؟؟ جی میریپیاری باجی ۔۔۔ اور نبیل کو اس پر کوئی اعتراض نہیں ہے ۔۔ بلکہ وہ تو خوش ہوتے ہیں ۔۔ ارے واہ جی ۔۔ باجینے توصیفی انداز میں کہا ۔۔ اور میں تو کہتی ہوں کہ آپ بھی نا پہنو کپڑے ۔۔ اور ایسے ہی چلو ہمارے ساتھ باہر ۔۔۔ ہاں سالی صاحبہ ۔۔ آپ بھی اب کپڑے پہننے کا تلکف نہ ہی کرو تو بہتر ہے ۔۔۔ اب آپ بھی کھل چکی ہیں ہمارے سامنے ۔۔۔ اب کیسی شرم اور کیسا پردہ ہم لوگوں سے ۔۔۔۔۔ مگرررر وہ ۔۔ امی !!!!!!۔۔ باجی نے جھجھکتے ہوئے کہا ۔۔۔۔ ارے ان کی فکر نا کریں ۔۔ ان کو انکل سمجھا لیں گے ۔۔ بس آپ کپڑے نہ پہنو ۔۔۔۔ او کے ۔۔۔ ٹھیک ہے میں بھی نہی پہنتی کپڑے ۔۔۔ دیکھتی ہوں کیا مزہ ہے ایسے ننگے بیٹھ کر ناشتہ کرنے میں ۔۔۔ چلیں ٹھیک ہے آپ تیار ہو کر آ جائیں اتنی دیر تک میں ناشتہ لگاتیہوں ۔۔ میں اتنا کہہ کر باہر نکل گئی ۔۔۔ نبیل پہلے ہی جا چکے تھے ۔۔۔ جس کمرے میں امی سوئی ہوئی تھی اس کمرے کے سامنے سے گزرتے ہوئےمجھے آنٹی اور امی کی باتوں کی آواز آئی ۔۔ میں نے سوچا امی سے پوچھ لوں انہوں نے کیا ناشتہ کرنا ہے جیسے ہی میں دروازے کو کھولنے لگی مجھے آواز آئی آنٹی امی سے کہہ رہی تھی بہن جی برا مت ماننا مگر ہمارے گھر میں ناشتے کا ایک اصول ہے ۔۔ ہم سب لوگ ناشتہ ایک ساتھ کرتے ہیں ۔۔ اور ناشتے کے وقت ہم ساس بہو بنا کپڑوں کے ٹیبل پر بیٹھتی ہیں ۔۔۔ کیاااااااااا؟؟؟ امی نے حیرت سے پوچھا ۔۔۔۔ جی بہن جی ۔۔ کیوں کے بہو کا جسم توہمارے بیٹے نے دیکھا ہی ہوا ہے اور میرا جسم میرے شوہر نے دیکھا ہوا ہے ۔۔۔ میاں بیوی میں کوئی پردہ تو ہوتا نہیں ۔۔۔ اور نبیل کے ابو کو اچھا نہیں لگتا کہ ہم فضول میں ایک دوسرے سے پردہ کرتی پھریں ۔۔۔ آج آپ آئی ہیں تو نبیل کو ابو کی خواہش ہے کہ آپ اور ماہین بھی کپڑے نا پہنو ۔۔۔۔۔۔ ارے مگرررررر ۔۔۔ وہ تو ٹھیک ہے مجھے کوئی اعتراض نہیں مگر ماہین۔۔۔۔۔ امی نے آنٹی سے کہا ۔۔۔۔۔ بہن جی آپ اس کی فکر نہ کریں ۔۔ میں نے رات کو دیکھا تھا نوشین اور ماہین دونوں ہی نبیل کے ایش کر رہیتھی ۔۔۔۔ کک کیا ؟؟؟؟ ماہین نے بھی نن نبیل کے ساتھ ۔۔۔۔ جی بہن جی ۔۔ اور اس میں برا ہی کیا ہے ؟؟؟ نبیل کے ابو اور نوشین بھی ایک دوسرے کے ساتھ مزے کر لیتے ہیں جب ان کا دل چاہے ۔۔ ہمارے گھر میں کوئی کسی قسم کی پابندی نہیں ہے ۔۔۔۔ ہم آزاد خیال افراد ہیں ۔۔۔۔ امی کے لئے یہ سب نیا تھا ۔۔ وہ اپنی آنکھیں کھولے منہ پھاڑے آنٹی کی باتیں سنرہی تھی ۔۔ چلیں ٹھیک ہے بہن جی ۔ ۔۔ جب میری بیٹیوں کو کوئی اعتراض نہی ہے تو میں کون ہوتی ہوں اعتراض کرنے والی ۔۔۔ آپ چلیں میں فریش ہو کر آتی ہوں ۔۔ امی بھی راضی ہو گئی تھی ۔۔۔ آج پمارے گھر میں چار عورتیں ننگی ٹیبل پر بیٹھی تھیں ۔۔۔ انکل کے تو ہوش ہی اڑ گئے ۔۔۔ امی نے سکن کلر کا برا پہنا ہوا تھا ۔۔۔ اور نیچے انہوں نے انڈر وئیر نہیں پہنا تھا اس لئے انہوں نے اپنی شلوار نہیں اتاری تھی ۔۔۔ جبکہ میں نے مہرون کلر کا برا ور انڈر وئیر ۔۔ باجی نے بلیک کلر کا اور آنٹٰ نے سفید کلر کا برا اور انڈر وئیر پہنا ہوا تھا ۔۔۔۔۔ یہ دیکھ کر نبیل اور انکل نے بھی اپنے کپڑے اتار دئیے ارے بھئی جب آپ سب خواتین ننگی بیٹی ہیں تو ہم کیوں کپڑوںمیں رہیں ۔۔۔۔ انکل کا لن دیک کر امی کی آنکھوں میں سرخ ڈورے آ گئے تھے ۔۔۔ اور باجی کی حالت بھی کچھ ایسی ہی تھی ۔۔۔ امی کی نظر بار بار انکل کے لن کی طرف جا رہی تھی ۔۔ بہن جی کیا دیکھ رہی ہیں ۔۔۔؟؟ انکل نے امی سے پوچھا ۔۔ نن نہی کک کچھ بھی نہیں ۔۔ امی ایک دم سے گھبرا گئی ۔۔ شائد ان کو اپنی بیٹیوں کے سامنے ایسے کھلنے میں شرم آ رہی تھی ۔۔ میں نے امی کی مشکل آسان کرنے کا فیصلہ کر لیا ۔۔ میں اٹھی اور انکل کے پیچھے جا کر کھڑی ہو گئی ۔۔ انکل کا لن اپنے ہاتھ میں لے کر اسے ہلایا اور امی سے پوچھا امی آپ یہی دیکھ رہی ہیں نہ ؟؟؟ میں جانتی ہوں ۔۔ انکل کا یہ لن ہے ہی اتنا مزے دار کہ نظریں ہی نہیں ہٹتی ہیں ۔۔۔ امی نے جب دیکھا کہ ان کی اپنی بیٹی ان کو انپے سس کا لن دیکھا رہی ہے تو امی نے بھی شرم ایک طرف رکھتے ہوئے کہا بہن جی آپ اتنا موٹا کیسے لے لیتی ہیں ؟؟؟ میں ابھی لے کر دیکھاؤں کیا ؟؟؟ آنٹی نے شرارت بھرے انداز میںکہا تو امی ایک دم گڑ بڑا گئی ۔۔ نہی نہی میرا یہ مطلب نہی تھا ۔۔ میں تو بس ایسے ہی پوچھ رہی تھی ۔۔۔ امی آپ ایک بار لے کر تو دیکھیں مزہ آ جائے گا آپ کو بھی ۔ میں نے امی کی طرف دیکتے ہوئے ایک آنک دبا کر کہا ۔۔۔ ماہیں باجی بولی امی مجھے تو اب ناستے سے زیادہ انکل کی بھوک لگگئی ہے ۔۔۔ اور اس کے ساتھ ہی انہوں نے کرسی دھکیل دی ۔۔ باجی انکل کے پیچھے آ کر کھڑی ہوگئی اور انکل کے سر کو کرسی کی پشت سے لگا کر ان کو کس کرنے لگ گئی ۔۔۔ میں نے امی کے برا کی ہک کھول کر ان کے مموں کو آزاد کر دیا ۔۔۔ امی کے ممے دیکھ کر نبیل بھی اٹھ کھڑے ہوئے اور آ کر امی کے مموں کو چوسنے لگ گئے ۔۔۔ امی نے نبیل کا منہ اپنے مموں کے سات دبا لیا ۔۔۔ میری ساس نے آ کر امی کی شلوار اتار دی ۔۔ بہن اسے بھی اتار دو ۔۔۔ امی کی ہھدی پر بال تھے ۔۔۔ آنٹی جی آپ نے بالوں کی صفائی نہیں کی ہے ؟ نبیل سے امی سے پوچھا ۔۔ نہیں بیٹا ٹائم ہی نہیں ملا ۔۔۔ ان کو صاف کرنے کا ۔۔۔ نبیل اپنا ہتھیار میرے منہ میں ڈالو ۔۔۔ امی سے سکسی آواز میں نبیل سے کہا تو نبیل نے بنا کیس حجت کے امی کے منہ میں اپنا لن ڈال دیا جسے امی بڑے ہی ماہر انداز میں چوسنے لگ گئی ۔۔۔ میں نے نیچے بیٹھ کر امی کی پھدی پر زبان پھیرنی شروع کر دی ۔۔ آنٹی نے بھی اپنا برا اور انڈر وئیر اتار دیا تھا ۔۔ آنٹی نے ماہین باجی کی پھدی میں اپنی اگلی داخل کر دی ۔۔۔ جبکہ باجی مسلسل انکل کو فرنچ کس کر رہی تھی ۔۔۔۔ ہمیں ناشتے کی ٹیبل پر تھوڑی مشکل پیش آ رہی تھی ہم سب اٹھ کر صوفے پر آ گئے تھے ۔۔۔ انکل نے باجی کو اپنی گود میں بٹھا لیا تھا ۔۔۔۔ اب صورت حال کچھ یوں تھی کہ باجی انکل کی گود میں بیٹھی تھی ۔۔۔ باجی کا ایک مما انکل مے منہ میں تھا اور لن پھدی میں ۔۔۔۔ امی نبیل کا لن چوس رہی تھی اور میں نیچے بیٹھ کر امی کی پھدی میں اپنی زبان اندر باہر کر رہی تھی ۔۔۔ آنٹی کبھی نبیل کو فرنچ کس کرتی تو کبھی جا کر انکل کے انڈے چوسنے لگ جاتی ۔۔۔۔ ہمارے گھر کا ماحول اس وقت سکس ہاؤس والا منظر پیش کر رہا تھا ۔۔۔ ہمارے سامنے اس وقت دو لن اور چار پھدیاں تھی ۔۔۔ دو پھدیاں لن کے ساتھ اپنی پیاس بجھا رہی تھی اور دو پھدیاں ترس رہی تھی ۔۔۔ انکل کا لن پورا جڑ تک باجی کی پھدی میں تھا جب باجی کی آہیں نکلنا شروع ہوئی ۔۔۔ وہ تیز تیز انکل کی گود میں اچھل رہی تھی ۔۔ ھائےےےےےےے۔۔۔ میری پھپھ۔۔ پھدیی ی ی ی ی۔۔۔ اور ساتھ ہی باجی نے انکل کے منہ میں النی زبان ڈال دی ۔۔۔ باجی کی پھدی فارغ ہو چکی تھی ۔۔ اب امی نے نبیل کو نیچھے لٹا دیا اور خود نبیل کے لن پر بیٹھ گئی ۔۔۔ امی نے نبیل کے لن کا ٹوپا اپنیپھدی میں لے کر ایک دم اس کے اوپر بیٹھ گئی ۔۔۔ ایک ہی جھٹکے میں لن اندر غائب ہو گیا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ نبیل نے بہت زور سے امی کے ممے دبائے ۔۔۔ ھائےےےےےے ۔۔۔ اوئی ماں ںںںںںںں۔۔۔۔۔۔ نبیل نے امی کے مموں پر اپنے دانت گاڑھ دئے تھے ۔۔۔ امی سرورکی نئی دنیا میں پہنچ چکی تھی ۔۔۔ میں نے اپمی کمنہ کے سامنے اپنی پھدی کھول کر کھڑی ہو گئی۔۔۔۔ امی نے میری پھدی کو ہونٹ کھول کر اس کے اندر اپنی زبان ڈال دی ۔۔۔ مجھے ایاس محسوس ہوا جیسے میرے پیچھے سے کسی نے میری پھدی کےساتھ اپنا لن لگایا ہے ۔۔ میں نے پیچھے مڑ کے دیکھا تو ۔۔۔۔۔۔ مجھے میری آنکھوں پر یقین نہیں آیا ۔۔ میں آنکھیں پھاڑ پھاڑ کر دیکھنے لگ گئی........
سفر Part 7
:میرے پیچھے آنٹی ہاتھ میں پلاسٹک کا لن پکڑے مسکراتے ہوئے مجھے دیکھ رہی تھی ۔۔۔۔ ان کے ہاتھ میں جو پلاسٹک کا لن تھا وہ کم از کم تین انچ موٹا اور نو انچ لمبا تھا ۔۔۔ میری آنکھیں حیرت سے کھلی ہوئی تھی کہ آنٹی یہ کیوں لے آئی ہیں ۔۔۔۔ مگر ایک بات تھی اس کے لمس سے مجھے مزہ بہت آیا تھا ۔۔۔ میں نے اپنے کولہے پیچھے کی طرف کر دیئے جس سے میری پھدی کے ساتھ مزید لن ٹچ ہو رہا تھا ۔۔۔۔ آنٹی نے وہ لن اپنے منہ میں لے کر پہلے اس کو گیلا کیا اپنے تھوک سے اور پھر میری گیلی ہوتی ہوئی پھدی کے منہ پر رکھ دیا ۔۔ میں ایسے ہی گھوڑی بنی آنٹی کے سامنے کھڑی تھی ۔۔ آنٹی جی اب اس کو میری پھدی میں ڈال دیں نا پلیزز۔۔۔۔ میں نے آنٹی سے کہا ۔۔ آنٹی نے تھوڑا ہلکا دھکا دے کر لن کی ٹوپی میری گرم پھدی میں ڈال دیا ۔۔ مجھت ایسا لگا جیسے میری پھدی پھٹ جائے گی ۔۔۔ میں نے اس درد کو سہنے کا فیصلہ کر لیا تھا ۔۔ اس لئے میں نے اپنا درد کم کرنے کے لئے امی کے منہ میں اپنی زبان ڈال دی جسے امی بڑے ہی پیار سے چوس رہی تھی ۔۔ آنٹی جہاندیدہ عورت تھی ان کو احساس ہو گیا تھا کہ مجھ ناقابل برداشت درد ہو رہا ہے ۔۔۔ انہوں نے اس جنات کے لن کو باھیر نکال کر اس ہر اچھی طرح سے تیل لگا لیا اور تھوڑا سا تیل میری پھدی کے منہ پر بھی لگا دیا ۔۔۔۔۔ جس سے میری پھدی کافی چکنی ہو گئی تھی ۔۔ ۔۔۔پھر انہوں نے ایک ہی جھٹکے میں سارا لن میری پھدی میں داخل کر دیا ۔۔ میری آنکھوں کے سامنے تارے ناچنے لگ گئے ۔۔۔ میں نے ایک چیخ ماری اور آنٹی کو پیچھے دھکیل دیا ۔۔۔ آنٹی تھوڑا آرام سے کریں نا مجے بہت درد ہوتا ہے ۔۔ اتنا کہتے ہوئے میری آنکھوں سے پانی نکل آیا۔۔ درد نا قابل برداشت تھا ۔۔۔۔۔ میری پھدی میں جلنہو رہی تھی ۔۔ آنٹی نے میری پھدی میں اپنی انگلی ڈال دی ۔۔ کمرے میں ہم چار عورتوں کی سسکیاں گونج رہی تھی ۔۔ مجھے اب مزہ آ رہا تھا آنٹی کی انگلی کا ۔۔ وہ اپنی انگلی کو ٹیڑھی کر کے میری پھدی میں اندر باہر کر رہی تھی جس سے میری پھدی کا پانی نکل کر میری ٹانگوں کے ساتھ بھی لگ گیا تھا ۔۔۔۔۔۔۔۔ جسے دیکھ کر آنٹی نے وہ لن پھدی میں دھیرے دھیرے داخل کر دیا ۔۔ جب سارا لن میری پھدی میں غائب ہو گیا تو مجھے ایسا لگ رہا تھا جیسے میں ہواؤں میں اڑ رہی ہوں ۔۔۔ بہت ہی مزہ آ رہا تھا موٹے اور لمبے لن کا ۔۔۔۔۔ آنٹینے لن کو اہستہ آہستہ آگے پیچھے حرکت دینی شروع کر دی جب لن اندر کو جاتا تو لن کا ٹوپا میرے اندر بچہ دانی سے جا ٹکراتا اس سے مجھےاور مزہ آتا تھوڑی دیر بعد ہی میری پھدی نے اپنا پانی نکال دیا اور میں لمبی لمبی سانسیں لینے لگ گئی ۔۔۔ پھر میں نے آنٹی کا ہاتھ پکڑ کر آرام سے لن کو پھدی ساے باہر نکال لیا ۔۔ سارا لن میرے پانی سے بھرا ہوا تھا جسے آنٹی کی بجائے میری امی نے چاٹ لیا ۔۔ ارے واہ بیٹی مجھے تو پتا ہی نہیں تھا کہ تمھارا پانی اتنا مزے کا ہوگا ۔۔۔۔ آپ کو پسند آیا میرا پانی؟؟ میں نے امی کے ہونٹ چومتے ہوئے پوچھا ۔۔ ہاں بیٹی بہت مزہ آیا اور پسند بھی آیا ہے ۔۔۔ اب وہ لن لینے کی باری آنٹی کی تھی ۔۔۔۔ وہ میری طرف بیک کر کے کھڑی ہو گئیاور ٹیبل پر جھک گئی ۔۔۔۔ ان کی گانڈ دیکھ کر میرا دماغ خراب ہو رہا تھا تو انکل کا کیا حال ہوتا ہوگا ۔۔۔ میں نے وہ لن آنٹی کے ہاتھ سے لیا اور اس کا ٹوپا آنٹی کی پھدی سے نکلے ہوئ ےپانی سے گیلا کر لیا ۔۔ بیٹی آج اس کو میری گانڈ میں داخل کرو ۔۔ میرا دل کر رہا ہے گانڈ مروانے کا ۔۔۔ آنٹی نے مجھ سے فرمائش کی ۔۔ جی بہتر میری پیاری آنٹی ۔۔۔۔ میں نے آنٹی کی گانڈ پر تیل لگا کر اس کو اچھی طرح سے چکنا کر لیا اور گانڈ کے سوراخ پر تیل لگا کر آہستہ آہستہ اپنی انگلی گانڈ کے اندر باہر کر رہی تھی آنٹیکی گانڈ بہت ٹائٹ تھی میری انگلی پھنس پھنس کر اندر جا رہی تھی ۔۔۔۔ چلو بیٹی اب اور انتظار کیوں کروا رہی ہو ۔۔۔ آنٹی کی مخمور آواز میرے کانوں میں پڑی ۔۔۔۔۔۔ بیٹی لن کے ٹوپے پر بھی تیل لگا لو ۔۔ انکل نے مجھ سے کہا ۔۔ کہیں ایسا نا ہو تمھاری آنٹی کی گانڈ پھٹ جائے ۔۔۔۔ انکل پورے زور سے میری باجی کی پھدی میں اپنا لن اندر باہر کر رہے تھے ۔۔ باجی کی سسکیاں سن سن کر میری پھدی پھر سے گیلی ہو رہی تھی ۔۔۔۔ انکل جی آپ فکر نا کریں میں اپنی پیاری آنٹی کی پھدی کا خاص خیال رکھوں گی ۔۔۔ نبیل نے امی کواب گھوڑی بنا لیا تھا ۔۔ اور امی کے ممے نبیل کےہر جھٹکے کے ساتھ آگے پیچھے ہل رہے تھے ۔۔۔ میں نے پلاسٹک کے لن کا ٹوپا آنٹی کی گانڈ کے سوراخ پر رکھا اور بہت دھیرے سے اس کو اندر کرنے کی کوشش کی ۔۔۔ مگر کامیاب نا ہو سکی ۔۔۔۔۔ ارے بیٹی اتنا ترس مت کھاؤ بس زور لگا کر اندر کر دو اب مجھ سے برداشت نہیں ہو رہا ۔ میں نے آنٹی کیبات سن کر ایک ہاتھ ان کے منہ پر رکھا اور دوسرے ہاتھ میں مضبوطی سے لن پکڑ کر ایک زور دار جھٹکامارا اور ایک ہی جھٹکے میں لن آدھے سے زیادہ ان کی گانڈ میں غائب کر دیا ۔۔ ھائےےےےےےےےےےےےے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ آنٹی کے منہ سے درد اور مزے میں ملی جلی آواز نکلی ۔۔۔۔۔ میں نے بنا رکے آنٹی کی گانڈ میں لن کو ایک اور دھکا دے کرپورا غائب کر دیا ۔۔۔۔ آنٹی نے اپنا ایک ہاتھ پیچھے کر کے میرا ہاتھ پکڑ لیا ۔۔ ایک منٹ رک جا حرام کی جنی ۔۔۔ میری گانڈ پھاڑے گی کیا ؟؟؟؟ انکل کی گود میں باجی پتا نہیں کتنی بار ڈسچارج ہو چکی تھی ۔۔ ابانکل نے باجی کو اپنی گود سے نکال دیا تھا اور میرے سامنے آ کر آنٹی کے منہ میں اپنا لن ڈال دیا تھا ۔۔۔۔ میں اس دوران آنٹی کی گانڈ کو کس کرتی رہی ۔۔۔۔ جب آنٹی کا درد تھوڑا کم ہوا تو انہوں نے اپنی گانڈ کو ہلا کر مجھے اشارہ دیا کہ وہ اب تیار ہیں ۔۔ میں نےلن کو آہستہ آہستہ ان کی گانڈ کے اندر باہر کرنا شروع کر دیا ۔۔۔ میں لن کو ٹوپے تک باہر نکال لیتی اور پھر جڑ تک اندر داخل کر دیتی تھی ۔۔۔ پہلے تومیں یہ آرام سے کرتی رہی پھر آنٹی کی سکسی آوازیں سن کر میرے ہاتھوں میں بھی تیزی آ گئی ۔۔۔۔ جیسے جیسے میں تیزی سے اندر باہر کر رہی تھی ویسے ویسے آنٹی کی چیخیں بھی اونچی ہو رہی تھی ۔۔۔۔ پھر آنٹی نے ایک چیخ ماری اور آگے کو گر گئی ۔۔ آنٹی کی پھدی کا پانی نکل چکا تھا ۔۔۔۔ مگر انکل کا لن ابھی تک اکڑا ہوا تھا ۔۔۔ میں نے انکل کے لن کو اپنے منہ میں لے کر چوپا لگا لیا ۔۔۔ جس سے انکل بہت خوش ہوئے ۔۔ ہاں بیٹی ایسے ہی چوپے لگاؤ ۔۔ تمھاری باجی اور تمھاری آنٹی تو راستے میں ہی تھک گئی ہیں ۔۔ اب تم ہی ہو جو مجھے میری منزل تک پہنچا سکتی ہو ۔۔۔۔۔ میں نے ایک ہاتھ سے انکل کے انڈے پکڑے ہوئے تھے اور دوسرے ہاتھ سے انکل کی گانڈ کو اپنے منہ کی طرف دبا رہی تھی جس سے ان کا لن جڑ تک میرے منہ میں جا رہا تھا ۔۔۔ میں بہت ہی ماہرانہ انداز سے چوپے لگا رہی تھی ۔۔۔ انکل مزے سے اپنی آنکھیں بند کئے میرے سر کو اپنے ہاتھوں میں پکڑ کر آگے پیچے کر رہے تھے ۔۔۔۔ انکل کی سسکیاں اونچی ہو رہی تھی ۔۔ پھر انکل نے ایک دم سے میرا سر پکڑ کر اپنا لن پورا جڑ تک میرے منہ میں ڈال دیا میری سانس رک رہی تھی ۔۔ میں نے اپنا سر چھڑوانے کیکوشش کی مگر انکل کی گرفت بہت مضبوط تھی انہوں نے میرا سر نا چھوڑا ۔۔۔ اور پورا لن میرے منہ میں ہی رکھا ۔۔ ان کا لن مزید اکڑ گیا تھا ۔۔ میں سمجھ گئی کہ اب انکل ڈسچارج ہونے لگے ہیں ۔۔۔۔۔ اس کے ساتھ ہی انکل کا جسم جھٹکے کھانے لگ گیا ۔۔ انکل کے لن سے نکلا ہوا مادہ سیدھا میرے حلق میں جا کر لگا ۔۔۔۔ میں انکل کے لن سے نکلا ہوا مادہ سارا پی گئی ۔۔ بہت ہی مزیدار ذائقہ تھا ۔۔۔۔۔ میں نے چوس چوس کر انکل کے لن میں سے آخری قطرہ تک نکال کر پی لیا ۔۔۔۔ انکل اور میں نڈھال ہوکر صوفے پر ہی گر گئے ۔۔۔۔ ہم سب گھر والے آج ایک نئے مزے سے واقف ہوئے تھے ۔۔۔زندگی بہت آرام سے گزر رہی تھی ۔۔۔ ہم سب بہتخوش تھے ۔۔۔ میں نے کبھی سوچا بھی نا تھا کہ ہماری زندگی میں ایسا بھیانک موڑ بھی آئے گا ۔۔۔ ایک دن میں اپنے سسر کے ساتھ فیکٹری جا رہی تھی کچھ نیا مال بنا تھا جس کی کوالٹی چیک کرنی تھی ۔۔ میری ساس کو ڈیٹ آ گئی تھی جس کی وجہ سے وہ گھر پر ہی تھی ۔۔ نبیل کسیکام سے دوسرے شہر گئے ہوئے تھے ۔۔ اس لئے مجھے ہی جانا پڑا تھا انکل کے ساتھ ۔۔ ہم جیسے ہی فیکٹری کے آفس پہنچے تھوڑی دیر بعد ہی ہمارے آفس میں پولیس آ گئی ۔۔۔۔ میں ایک دم گھبرا گئی مگر انکل نارمل تھے ۔۔۔ جی انسپکٹر صاحب آج کیسے آنا ہوا ہمارے غریب خانے پر ۔۔؟؟ انکل نے انسپکٹر سے پوچھا ۔۔۔ بیٹھیں ۔۔۔ اکمل صاحب ہمیں آپ کے خلاف شکایت ملی ہے کہ آپ کی فیکٹری میں کچھ نا جائز چیزیں بنتی ہیں ۔۔۔ ہم وہی چیک کرنے آئے ہیں ۔۔۔ انسپکٹر نے سپاٹ لہجے میں کہا ۔۔۔ ارے انسپکٹر صاحب آپ تشریف تو رکھیں ۔۔۔ انکل نے بیل بجا کر چپراسی کو بلایا اور اس کو چائے کا کہا ۔۔۔ انسپکٹر صاحب دیکھیں ہم کوئی نا جائز کام نہیںکرتے اور نا ہی ہمارا ایسا کوئی مقصد ہے ۔۔ ہم تو اپنے کسٹمرز کو مال سپلائی کرتے ہیں ۔۔ اور ہمیں کبھی کسی کسٹمر نے بھی کسی قسم کی کوئی شکائت نہیں کی ہے ۔۔۔ اوئے بھولے بادشاہو باتکسٹمر کی نہیں ہے ۔۔۔ ہمیں اطلاع ملی ہے کہ آپ اپنی فیکٹری میں کچھ ایسی چیزیں بناتے ہیں جو ممنوع ہیں ہمارے ملک میں ۔۔ اور معاشرے میں بھی ان کو اچھی نظر سے نہیں دیکھا جاتا ۔۔۔ انسپکٹر نے اپنی موچھوں کو تاؤ دیتے ہوئے انکل کی آنکھوں میں دیکتے ہوئے کہا ۔۔۔۔۔ اور آج ہم خود دیکھنے چلے آئے ہیں ۔۔۔ وہ تو کوئی مسلہٴ نہیں ہے جناب آپ جب چاہیںاور جیسے چاہیں چیک کر لیں ۔۔ ہم باقاعدہ ٹیکس بھی ادا کرتے ہیں ۔۔۔۔ اور آج تک ہماری طرف سے ماحولیاتی قوانین کی بھی کبھی خلاف ورزی نہیں ہوئی ۔۔۔ نا ہی ہم نے کبھی اپنے کسی ملازم کو شکائت کا موقع دیا ہے ۔۔۔۔ اتنی دیر میں چائے آ گئی ۔۔۔ لیجئے پہلے چائے پیئں ۔۔ میں نے انسپکٹر اور انکل کو چائے کپ میں ڈال کے دی ۔۔۔ میں نے آج کھلے گلے والی قمیض پہنی ہوئی تھی ۔۔ جیسے ہی میں نے انسپکٹر کے سامنے کپ رکھا اس کی نظر سیدھی میرے سفید اور سڈول مموں پر پڑٖی ۔۔ وہ مبہوت ان کو دیکھے گیا ۔۔۔ اکمل صاحب چلیں دکھائیں آپ کیا چیزیں ایکسپورٹ کرتے ہیں ۔۔۔ انکل ابکچھ کچھ گھبرا رہے تھے ۔۔۔ کہیں معاملات خراب ہی نا ہو جائیں ۔۔۔ انسپکٹر صاحب آپ یہ تو بتائیں آپسے شکائت کس نے کی ہے اور کیا شکائت کی ہے۔۔ انکل نے رک کر کہا ۔۔ اکمل صاحب وہ بھی آپ کوپتا چل جائے گا پہلے مجھے دکھائیں جو آپ بناتے ہیں ۔۔۔۔ چاروناچار انکل اپنی سیٹ سے اٹھے اور انسپکٹر کو لے کر سٹور روم کی طرف چل دئیے ۔۔ جیسے ہی وہ آفس سے باہر نکلے میں نے نبیل کو فون کر کے بتا دیا کہ پولیس آئی ہوئی ہے ۔۔۔ میرے ہاتھ پیر پھول رہے تھے ۔۔ مجھے کچھ سمجھ نہیں آ رہی تھی کی کیا کرناہے اور کیا نہیں ۔۔۔ نبیلنے مجھے تسلی دی کہ کچھ نہیں ہوگا تم امی کو کال کر کے بلا لو آفس میں ۔۔۔ میں نے جلدی سے اپنی ساس کو کال کر کے ان کو بھی بلا لیا ۔۔ ابھی میری ساس راستے میں ہی تھی کہ انسپکٹر کو بولنےکی آواز آئی ۔۔ اکمل صاحب یہ سب چیزیں بنانے کی یہاں اجازت نہیں ہے ۔۔ آپ کو ہمارے ساتھ تھانے جانا ہوگا۔۔۔ ہم یہ فیکٹری ابھی سیل کرنے لگے ہیں ۔۔ آپ یہ چیزیں حکومت کی اجازت کے بنا نہیں بنا سکتے ۔۔ اور آپ کے پاس کسی قسم کا این او سی بھی نہیں ہے ۔۔۔ ارے مگر انسپکٹر صاحب ہماری باتتو سنیں آپ ۔۔ انکل نے انسپکٹر کا ہاتھ پکڑ کر کہا ۔۔دیکھیں اکمل صاحب میں آپ کے ساتھ شرافت کے ساتھ پیش آ رہا ہوں ۔۔۔مجھے زبردستی پر مجبور نہ کریں ۔۔۔ میں آپ کو پوری عزت کے ساتھ یہاں سے لے جانا چاہتا ہوں ۔۔۔ اگر آپ سیدھی طرح ہمارے ساتھ نا گئے تو ہمیں معلوم ہے آپ کو کیسے لے کرجانا ہے اپنے ساتھ ۔۔۔ انسپکٹر نے سپاٹ لہجے میں کہا۔۔۔ مجھے بہت رونا آ رہا تھا ۔۔۔ انسپکٹر صاحب آپ کو جو چاہئے وہ لے لیں مگر انکل کو ساتھ مت لے کر جائیں ۔۔۔ میں نے اس کے آگے ہاتھ جوڑ دئیے ۔۔۔ ہونہہ مجھے کچھ نہیں چاہئے ۔۔۔ آپ کو جو کچھ بھی کہنا ہے تھانے میں آ کر کہیں ۔۔۔ یہاں میں آپ کی کوئی بات نہیں ماننے والا ۔۔۔ پلیز انسپکٹر صاحب آپ ایک بار بات تو سن لیں ہماری ۔۔ انکل نے منت کرتے ہوئے کہا ۔۔ مجھے انکل پر بہت ترس آ رہا تھا ۔۔۔ وہ بہت پریشان تھے ۔۔ تھوڑی دیر بعد ہی آنٹی بھی آ گئی ۔۔۔ کیا بات ہے انسپکٹر صاحب کیا ہوا ہے ؟؟؟ بی بی آپ کون ہیں ؟؟ میں ان کی بیگم ہوں ۔۔ اچھااااااااااا۔۔۔۔۔۔۔ تو آپ کو پھر یہ بھی پتا ہوگا کہ آپ کے شوہر یہاں کیا چیزیں بناتے ہیں ۔۔۔؟؟ جی بلکل مجھے پتا ہے اور اس میں کوئی برائی بھی نہیں ہے ۔۔۔ میرے شوہر صرف وہچیز بناتے ہیں جس کی ڈیمانڈ کسٹمر کرتے ہیں ۔۔۔ دیکھیں بی بی یہ معاملہ بہت سیریس ہے ۔۔ آپ کے شوہر کے خلاف شکائت آئی ہے اس لیئے ہم یہاں آئے ہیں ۔۔۔ ورنہ ہمیں کوئی شوق نہیں ہے فالتوجھگڑوں میں پڑنے کا ۔۔۔ انسپکٹر صاحب ہم بیٹھ کر بات کر لیتے ہیں ۔۔ اور اس مسلےٴ کا کوئی حل نکال لیتے ہیں ۔۔ آپ بیٹھیں تو سہی ۔۔۔ آنٹی نے انسپکٹر کا ہاتھ پکڑ کر ان کو کرسی پر بٹھا لیا ۔۔۔ جی بولیں کیا کہنا ہے آپ کو؟؟؟ انسپکٹر نے کرسی پر بیٹھتے ہوئے کہا ۔۔۔۔۔ انسپکٹر صاحب دیکھیں یہ چیزیں۔۔۔ بی بی میں یہ بات سن چکا ہوں اس نے آنٹیکو ہاتھ کے اشارے سے روکتے ہوئے کہا۔۔۔۔ اگر کوئیاور بات کرنی ہے تو بتائیں۔۔۔۔ آپ کے شوہر غیر قانونی اشیاٴ بناتے ہیں جس کی ہمیں اطلاع ملی تھی اور یہاں ا کر ہمیں جو کچھ نظر آیا ہے وہ کافی ٖیر اخلاقی اور غیر قانونی بھی ہے۔۔۔ اس لئے مجھے ابان کو اپنے ساتھ تھانے لے کر جانا ہوگا ۔۔۔ آپ کو جو بھی کہنا ہے وہ آپ اب تھانے آ کر کہنا ۔۔۔۔ چلیں اکمل صاحب ٹائم ضائع نہ کریں ۔۔۔ ورنہ مجھے زبردستی کرنی پڑے گی ۔۔۔۔ پولیس والوں نے ہماری ایک نا سنی اور انکل کو لے کر چلے گئے ۔۔۔ جاتے ہوئے انہوں نے فیکٹری بھی سیل کر دی ۔۔۔ ہم ساس بہو پریشانی کی حالت میں گھر چلی گئی ۔۔۔۔۔ ہمارے گھر جانے کے تھوڑی دیر بعد ہی نبیل بھی آ گئے ۔۔۔ وہ آتے ہوئے تھانے سے ہو کر آئےتھے ۔۔۔ پولیس والا ایماندار آدمی تھا کسی قسم کی رشوت پر بھی نہی مان رھا تھا ۔۔۔۔ امی جی وہ تو نہیں مان رہا کسی بھی طرح سے ۔۔ اس کو میں نے ہر قسم کی آفر کر کے دیکھ لیا ہے ۔۔ الٹا وہ مجھے بھی رشوت ستانی کے جرم میں اندر کرنے کی دھمکی دے رہا تھا ۔۔۔ اب کیا کریں نبیل بیٹا مجھے تو بہت ڈر لگ رہا ہے ۔۔۔ آنٹی رونے لگ گئی تھی ۔۔۔ میں نے ان کے کاندھے پر ہاتھ رکھ کر ان کو چپ کروایا ۔۔۔ آنٹی جی آپ پریشان نہ ہوں کوئی نہ کوئی حل نکل ہی آئے گا ۔۔۔ نبیل آپ کسی سے رابطہ کریں ایسے تو بہت پریشانی ہو جائے گی ۔۔۔۔۔۔۔ میری اور آنٹی کی حالت بہت بری ہو رہی تھی نبیل کبھی کسی کو پھون کر رہے تھے کبھی کسی کو ۔۔۔ یار پلیز تم دونوں تو اپنے آپ کو سنبھالو میں کر رہا ہوں رابطے جلد ہی کچھ نہ کچھ بن جائے گا ۔۔ نبیل ایک دم غصے میں آ گئے تھے ۔۔۔امی کو لے کر اوپر کمرے میں جاؤ ۔۔۔ میں آنٹی کو لے کر اوپر کمرے میں آ گئی ۔۔۔ نبیل کافی دیر تک کسی سے فون پر بات کرتے رہے ۔۔ پھر وہ ہمارے پاس چلے آئے امی میں نے اپنے ایک دوست سے بات کی ہےاس کا کزن پولیس میں اعلیٰ افسر ہے ۔۔۔ اس وقت تو وہ شہر میں نہیں ہے اور اس کا فون بھی بند ہے ۔۔ صبح ابو کو میں لے آؤں گا ۔۔۔۔ کچھ نہیں ہو گا ابو کو ۔۔۔ آپ پلیز پریشان نا ہوں ۔۔۔ بیٹا کیسے پریشان نہ ہوں میں وہ پتا نہیں کس حالت میں ہوں گے ۔۔ اور پولیس والے تو ہوتے بھی بہت ظالم ہیں ۔۔۔ امی جان میں نے اپنے دوست سے کہہ کر تھانے فون کروا دیا ہے ابو کو پولیس والے ہاتھ بھی نہیں لگائیں گے ۔۔۔ وہ خیریت سے ہیں ۔۔ نبیل آپ ہم دونوں کو تھانے لے چلیں ہم جب تک انکل سے مل نہی لیتے ہمیں چین نہی آئے گا ۔۔۔ ہاں بیٹا مجھے لے چلو تھانے ۔۔ امی آپ کیا کرو گی وہاں جا کر ۔۔۔ آپ دونوں گھر ہی رکیں میں جا رہا ہوں پھر سے تھانے ۔۔ آپ بے فکر رہیں ۔۔۔ نبیل ہم کو تسلی دے کر خود تھانے چلے گئے ہم دونوں گھر میں ہی رہ گئی ۔۔۔ رات کافی دیر بعد نبیل گھر آئے تو کافی تھکے ہوئے تھے ۔۔ کیا ہوا نبیل سب خیر ہے نا!!!!؟ ہاں بیگم سب خیر ہے ابو ٹھیک ہیں اور ایک پولیس والے کو تھوڑے پیسے دے کر ابو کو حوالات سے نکال کر دوسرے کمرے میں بٹھا کر آیا ہوں ۔۔۔ کھانا بھی کھلا آیا ہوں فکر کی بات نہیں ہے کل صبح ابو گھر آ جائیں گے ۔۔۔۔ نبیل کی بات سن کر آنٹی بھی تھوڑی سکون میں آئی ۔۔۔ چلو بیٹا پھر تم بھی کھانا کھا لو صبح سے کچھ نہیں کھایا ہو گا میرے بیٹے نے ۔۔۔ نہیں امی جان بھوک نہیں ہے مجھے ۔۔ بس ایک کپ چائے کا پلادیں ۔۔ اچھا میں بناتی ہوں چائے آپ بیٹھیں ۔۔ میں یہکہتے ہوئے اٹھ گئی ۔۔ میں کچن میں جاتے ہوئے سوچرہی تھی پتا نہیں اب کیا بنے گا ۔۔۔۔۔ کون جانتا ہے آنے والے وقت نے اپنے دامن میں کیا کچھ چھپا کر رکھا ہوا ہے ۔۔ ہم سوچتے کچھ اور ہیں اور ہوتا کچھ اور ہی ہے ۔۔۔ اگر مستقبل کو پڑھنا ہمارے اختیار میں ہوتو بہت سے حالات ہمارے بس میں ہو جائیں مگر انسان جو سوچتا ہے ضروری نہیں ویسا ہی ہو ۔۔۔ ایسا ہیکچھ ہمارے ساتھ بھی ہونے جا رہا تھا جس سے ہم سب گھر والے انجان تھے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
صبح جب نبیل اپنے دوست کو لے کر تھانے گئے تو پتا چلا کہ انکل کو پولیس والوں نے کسی اور جگہ شفٹ کر دیا ہے اور ان کے بارے میں کوئی کچھ نہیں بتا رہا تھا کہ وہ کدھر ہیں ۔۔۔ بس اتنا کہہ رہے تھے کہ سیکرٹ ایجنسی والے ہم سے لے گئے ہیں اب پتہ نہیں وہ کہاں لے کر گئے ہیں یا کہاں نہیں ۔۔۔۔ ہمارے تو پیروں تلے زمین نکل گئی تھی یہ سن کر ۔۔۔ میں اور آنٹی رونے لگ گئی ۔۔۔ یار تم تو چپ کرو اور امی کو بھی چپ کراؤ میں کچھ کرتا ہوں نبیل جھنجلا کر بولے ۔۔۔۔ مگر ہمیں صبر کہاں آنے والا تھا ۔۔۔ اتنی دیر میں نبیل کے دوست بھی آ گئے چلو نبیل میں نے ابو سے بات کی ہے وہ ہمارے ساتھ تھانے چلتے ہیں اور اپنے طریقے سےپتا کرتے ہیں کہ انکل کو کہاں لے کر گئے ہیں ۔۔۔ ہمنے سب جگہ پتا کر لیا مگر انکل کا کہیں نام نشان نہیں تھا ۔۔۔ نبیل کے دوست کا نام انصر تھا ۔۔ انصر کہنے لگا نبیل چلو ابھی ابو کی طرف چلتے ہیں وہ کوئی نا کوئی حل نکال لیں گے ۔۔۔ وہ تو ٹھیکہے یار مگر ایک پرابلم ہے ۔۔۔ وہ کیا ؟؟؟؟ انصر نے نبیل کی طرف سوالیہ نگاہوں سے دیکھا ۔۔ پرابلم ہی ہے کہ انکل کو بتانا پڑے گا کہ ابو کو پولیس کیوں لے گئی ہے ۔۔ اور تم تو جانتے ہو جو !! ہم ایکسپورٹ کرتے ہیں ۔۔۔ نبیل نے ہچکچاتے ہوئے انصر سے کہا ۔۔۔ ہمم۔۔۔ یہ بات تو سہی ہے کہ ابو کو سب بتانا پڑےگا ورنہ وہ کچھ نہیں کر پائیں گے ۔۔ میرا خیال ہے کہ بتانےمیں کوئی حرج بھی نہیں ہے ۔۔۔۔ ہمم ۔۔۔ ٹھیک ہے چلو چلتے ہیں ۔۔ نبیل نے کچھ سوچ کر انصر سے کہا ۔۔۔۔ اور دونوں گھر سے نکل گئے ۔۔۔ اودیکھیں چوہدری صاحب ہمیں کیا کرنا تھا اس بندے کو اپنے پاس رکھ کر ۔۔۔ ایس ایچ او نے اپنی مونچھوں کو تاؤ دیتے ہوئے نثار صاحب )انصر کے ابو( سے کہا ۔۔ چوہدری صاحب وہ بندہ ہمارے کسی کام کا نہیں تھا جی ۔۔ ہم نے بس اپنی تفتیش کرنیتھی کر لی ۔۔ اب ایف۔آئی۔اے والے اگر ان کو لے گئے ہیں تو اس میں ہم کیا کر سکتے ہیں ۔۔۔۔ آپ وہاں جا کرپتا کریں اپنے بندے کا ۔۔۔۔ہم نے اس کو اپنے پاس رکھ کر اس کا اچار تو نہیں ڈالنا تھا ۔۔۔ انصر کے ابونے جب اپنی پہچان کروائی تو تھانیدار نے ان کو بتا دیا کہ انکل کدھر ہیں ۔۔۔۔ نثار صاحب نے اپنے ایک جاننے والے کو کال ملائی ۔۔۔ یار جمشید ایک کام پڑ گیا ہے تم سے ۔۔۔ نہیں نہیں بس ایک چھوٹا سا کام ہے ۔۔ انہوں نے دوسری طرف رابطہ ہوتے ہی کہنا شروعکیا ۔۔ یار تمھارے ڈیپارٹمنٹ کے لوگوں نے میرے ایکدوست کو اٹھا لیا ہے اور اب ان کا کچھ اتا پتا نہیں چل رہا ۔۔۔۔ ہاں یار اگر تم پتا کر کے بتا دو تو بڑی مہربانی ہوگے ان کے گھر والے کافی پریشان ہیں ۔۔۔۔ ان کا نام !!!!!!!! ۔۔۔۔ نثار صاحب نے ذرا رک کر نبیل کی طرف سوالیہ نظروں سے دیکھا ۔۔۔۔ اکمل!!!!!۔۔۔۔ نبیل نے جلدی سے بتایا ۔۔۔ ہاں ان کا نام اکمل ہے اور وہ امپورٹ ایکسپورٹ کا کام کرتے ہیں ۔۔۔ پلیز آج ہی یہ کام ہونا چاہئے ۔۔۔۔۔ او کے ۔۔۔ شام کو ملتے ہیں ۔۔۔۔ تھانے سے باہر آ کر نثار صاحب نے نبیل کو تسلی دی اور گھر جانے کا کہا ۔۔۔ شام کو نثار صاحب کا فون آ گیا ۔۔۔ ہاں نبیل بیٹا آپ مجھ سے ابھی مل سکتے ہو ؟؟؟؟ جی انکل میں ابھی آ جاتا ہوں ۔۔ آپ بتائیں سب خیریت ہی ہے نا ؟؟؟ ہاں ہاں بیٹاجی ہمارے ہوتے کوئی پریشانی ہو سکتی ہے؟؟ بس تم جلدی سے آ جاؤ ۔۔۔ جی میں ابھی نکل رہا ہوں آپ آفس میں ہیں یا گھر ؟؟؟ جی بہتر ۔۔ نبیل کچھ دیر تک نثار صاحب سے فون پر بات کرتے ہرے پھر جلدی سے باہر نکل گئے ۔۔۔۔۔ میں اور آنٹی نبیل کا بےچینی سے انتظار کر رہے تھے کافی رات ہو گئی تھی مگر نبیل ابھی تک نہیں آئے تھے ۔۔ میں نے ان کو فون کیا ۔۔۔ نبیل آپ کدھر ہیں؟؟ اور ابھی تک گھر کیوں نہیں پہنچے ہیں؟؟ انکل کا کچھ پتا چلا ؟؟؟ جیسے ہی نبیل نے فون ریسیو کیا میں نے ایک ہی سانس میں کئی سوال کر دئیے ۔۔۔۔ ارے بیگم صاحبہ تھوڑا سانس بھی لو میں بتاتا ہوں سب ۔۔ نبیل کی آواز میں ایک خوشی سی محسوس ہو رہی تھی مجھے ۔۔۔ جلدی بتائیں نبیل مجھے بہت پریشانی ہو رہی ہے ۔۔۔ لو تم خود ہی بات کر لو ۔۔۔ ھیلو بیٹی ۔۔۔ فون پر انکل کی آواز آئی ۔۔۔ ارے انکل آپآگئے جلدی سے گھر آئیں ۔۔۔ آنٹی سنیں انکل کو نبیل لے کر آ رہے ہیں ۔۔۔ میں نے چیختے ہوئے آنٹی کو بتایا ۔۔۔۔ ہمارے گھر میں جشن کا سا سماں تھا ۔۔۔ میری تو خوشی کا کوئی ٹھکانہ ہی نہیں تھا ۔۔۔ نبیل بتائیں نا کہاں لے کر گئے تھے میرے انکل کو ؟؟؟ ارے بیگم جہاں بھی لے کر گئے تھے میں لے آیا ہوں وہاں سے ۔۔۔ اور ابو کو گھر لانے میں نثار انکل کا بہت بڑا ہاتھ ہے ۔۔۔ ارے بیٹا تو ان کو بھی ساتھ لے کر آنا تھا نا ۔۔ اکیلے کیوں آئے ہو ؟؟؟؟ آنٹی نے نبیل سے کہا ۔۔ ارے امی جان وہ جلدی میںتھے انہوں نے کہیں جانا تھا کہہ رہے تھے کہ میں پھر کسی دن چکر لگاؤں گا ۔۔۔۔ نبیل یہ تو بتائیں کہ ہمارے خلاف کس نے شکائیت لگائی تھی پولیس میں؟؟؟ میں نے نبیل کے ساتھ صوفے پر بیٹھتے ہوئے پوچھا ۔۔۔ بیگم یہ تو ابھی پتا نہیں چلا مگر جلد ہی پتا چل جائے گا ۔۔۔ اچھا ۔۔۔ اب کل سے فیکٹری جانا ہے؟؟ نہیں ابھی کچھ دن انتظار کرنا ہو گا ۔۔۔ نثار صاحب کہہ رہے تھے کہ اب جب تک میں نا کہوں تب تک فیکٹری نہیں جانا ۔۔پہلے ہم یہ پتا کر لیں کہ ہمارا دشمن کون ہے ۔۔ اور وہ کیا چاہتا ہے ۔۔ یہ تو وہ پولیس والا ہی بتا سکتا ہے کہ کس نے کیا ہے یہ کام ۔۔۔۔ آنٹی نے انکل سے کہا ۔۔۔ آپ پولیس والے سے مل کر پتا کریں ۔۔۔ چلو کسی دن پتا کر لوں گا تم فکر نہی کرو ۔۔۔ ہو سکتاہے اس کام کے لئے پولیس والے کو رشوت بھی دینی پڑ جائے ۔۔ چلو جو بھی کرنا پڑا آپ کسی بھی طرح پتا کر لیں ۔۔۔ میں نے انکل سے کہا ۔۔۔۔ دوسرے دن ہم صبح ناشتہ کر کے فارغ ہی ہوئے تھے کہ انکل نثار آ گئے ۔۔ ارے اکمل بھائی دیکھیں میں کس کو لے کر آیا ہوں ساتھ ۔۔۔ انکل نثارکے ساتھ وہی پولیس والا تھا ۔۔۔ انکل نے ان دونوں کو ڈرائینگ روم میں بٹھا کر مجھے چائے لانے کا کہا ۔۔ جیسا میں پہلے بتا چکی ہوں کہ ہم خواتین ناشتے کی میز پر بنا کپڑے پہنے بیٹھتی ہیں ۔۔ میں نے جلدی سے کپڑے پہنے اور چائے دے کر آ گئی ۔۔ جی تھانیدار صاحب اب بتائیں کیسے آنا ہوا آج ہماریطرف؟؟؟ اکمل صاحب یہ نثار صاحب اپنے جاننے والے ہیں اور آپ ان کے دوست ہیں تو اس طرح آپ میرے بھی دوست ہی ہوئے ۔۔۔ میں آپ کو خبردار کرنے آیا ہوں ابھی کچھ دن فیکٹری بند ہی رکھیں بلکہ اگرآپ اپنا کام کہیں اور شفٹ کر سکتے ہیں تو یہ زیادہ بہتر ہے ۔۔۔ آپ کے پیچھے کچھ مذہبی ْلوگ پڑ گئےہیں جو نہیں چاہتے کہ آپ یہ کام کریں ۔۔۔ انکل کے چہرے پر تفکر کی گہری لکیریں ابھر آئی تھی ۔۔۔۔ ویسے آپ بتا سکتے ہیں کہ کس بندے کو سب سے زیادہ تکلیف ہے ہمارے کام کرنے کی؟؟؟ نبیل نےپولیس والے سے پوچھا ۔۔۔۔ یہ بھی بتا دوں گا اتنی جلدی بھی کیا ہے ؟؟ پہلے آ یہ بتائیں کہ آپ یہ کام یہاں سے کہیں اور شفٹ کر سکتے ہیں یا نہی؟؟؟ دیکھیں انسپکٹر صاحب ہم فیکٹری یہاں سے کہیں اور شفٹ نہیں کر سکتے آپ تو جانتے ہی ہیں کہ کتنا مشکل ہوتا ہے ایسا کرنا ۔۔۔۔ ہمم!!!!!!!! تو پھر کیا کرنا ہے ؟؟؟ پولیس والے نے انکل نثار کی طرف دیکھتے ہوئے کہا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ کرنا کیا ہےَ؟؟ جناب آپ پولیس والے ہیں آپ ہی کوئی حل بتائیں ہمیں ۔۔۔ انکل نے کہا ۔۔۔۔ دیکھیں جی میں سیدھا سا بندہ ہوں بات گھما پھرا کے کرنے کی عادت نہیں ہے مجھے ۔۔۔ پولیس والے نے اپنی ایک ٹانگ دوسری ٹانگ پر رکھتے ہوئے کہا ۔۔۔۔ آپ ہمارا خیال رکھیں ہم آپکا خیال رکھیں گے ۔۔۔ کیا کہتے ہیں آپ نثار صاحب۔۔۔۔ ہاں اس بات کی کچھ سمجھ آتی ہے ۔۔۔ تو پھر کیا کہنا ہے آپ کا اکمل صاحب ۔۔۔؟؟ ارے بھئی مجھےکیا اعتراض ہو سکتا ہے ۔۔۔ ہم تو خود یہی چاہتے ہیں کہ ہم سب مل جل کر رہیں ۔۔۔ ٹھیک ہو گیا جی ۔۔۔۔ ابپھر ہمیں اجازت دیں مجھے اور بھی بہت سے کام ہیں ۔۔۔پولیس والے نے اٹھتے ہوئے کہا ۔۔۔۔۔ ارے بھائی صاحب آپ بیٹھیں تو سہی ۔۔۔۔ ہم نے ابھی آپ کی خدمت ہی نہی کی ہے ۔۔۔ جاؤ نبیل بیٹا میرے چیک بک لے آؤ ۔۔۔۔ نا جی نا ۔۔۔ چیک شیک نہی چاہئے مجھے ۔۔۔ آپ نے جو بھی دینا ہے نقد دیں ۔۔ بنکوں کے چکر میں نا ڈالیں مجھ کو ۔۔۔۔۔ اچھا!!!!!!! تو پھر آپ کو کل تک انتظار کرنا پڑے گا اس وقت تو گھر میں پیسے بھی نہیں ہیں میں کل خود آکرآپ کی خدمت میں حاضر ہو جاؤں گا ۔۔۔۔ او کے اکمل صاحب ٹھیک ہے ۔۔ مجھے اب اجازت دیں پولیس انسپکٹر اتنا کہہ کر چلا گیا ۔۔۔ اس کے جانے کے بعد انکل نے نثار انکل سے پوچھا کہ اب اس کو کتنے پیسے دینے پڑیں گے ؟؟؟ یہ آپ دیکھ لیں سب اتنا خیال رکھنا کہ اس کا منہ بند ہو جائے ۔۔۔ ہمم!!!!!! ٹھیک ہے ۔۔۔۔ کچھ دن بعد انکل نثار نے کال کر کے نبیل سے کہا کہ اب وہ فیکٹری جا سکتے ہیں کیوں کہ پولیس والوں نے معاملات سیٹ کر دیئے ہیں اب فکر کی کوئی بات نہیں ہے ۔۔۔ دن بہت پر سکون گزر رہے تھے ۔۔ ایک دن انکل کی طبیعت ٹھیک نہیں تھی نبیل بھی کسی کام سے شہر سے باہر تھے میں اور آنٹی تھوڑی دیر کے لیئے فیکٹری چلی گئیں ۔۔۔ ہمیں ابھی تھوڑٰ دیر ہی ہوئی تھی آفس میں بیٹھے ہوئے کہ چپراسی نے آ کر بتایا باہر کوئی پولیس والا آیا ہے صاحب سے ملنے ۔۔۔ میں نے آنٹی کی طرف دیکھا کہ کیا کرنا ہے؟؟ اب وہ کیا لینے آیا ہے؟؟؟ چلو دیکھتے ہیں ۔۔ عبدل ایسا کروان کو ادھر ہی لے آؤ ۔۔۔۔۔ جی بیگم صاحبہ بہتر ۔۔۔ جی انسپکٹر صاحب فرمائیں آج کیسے راستہ بھول گئے ؟؟؟؟ میں تو اکمل صاحب سے ملنے آیا تھا ۔۔۔ وہ نظر نہیں آ رہے کہیں گئے ہوئے ہیں کیا وہ؟؟ انسپکٹر نے بیٹھتے ہی پوچھا ۔۔۔۔ ہاں آج ان کی طبیعت ٹھیک نہی تھی اس لئے وہ نہی آئے ہیں آج ۔۔۔ ہمم!!!!!! ۔۔ آنٹی نے بہت باریک قمیض پہنی ہوئی تھی جس میں سے ان کی چھاتی صاف نظر آرہی تھی ۔۔۔ میں دیکھ رہی تھی کہ پولیس والے کی نظریں بار بار آنٹی کے کھلے گلے کی طرف جا رہی تھی ۔۔۔ جسے آنٹی نے بھی محسوس کیا تھا ۔۔۔۔ جی جناب آپ بتائیں کیا کام تھا آ پ کو اکمل صاحب سے؟؟؟ کام تو خاص نہیں تھا بس ویسے ہی ملنے کا دل کر رہا تھا۔۔۔ میں ادھر سے گزر رہا تھا سوچا جاتے ہوئے ملاقات کرتا جاؤں ۔۔۔ خیر آپ بتائیں کام کیسا چل رہا ہے آپ کا؟؟؟ جی آپ کی دعا ہے کام فسٹ کلاس چل رہا ہے ۔۔ ویسے میڈم میرے ذہن میں ایک بات آ رہی تھی ۔۔۔ جی کیا بات آ رہی تھی مسٹر ۔۔۔!!!!!!!!؟؟؟؟ْ آنٹی نے رک کرپولیس والےسے کہا ۔۔۔ منیر ۔۔ منیر احمد نام ہے جی میرا ۔۔۔ اچھا جی تو منیر صاحب کیا بات آ رہی تھی آپ کے ذہن میں؟؟؟ وہ بات یہ ہے کہ آپ یہ جو بناتے ہو۔۔۔ میرا مطلب ہے ۔۔۔۔ منیر بار بار اپنے خشک ہوتے ہونٹوں پر زبان پھیر رہا تھا ۔۔ شائد وہ بات کرتے ہوئے شرما رہا تھا ۔۔۔ یا جھجک رہا تھا ۔۔۔ جو بھی تھا میں اس کی حالت سے محظوظ ہو رہی تھی ۔۔۔میری ساری توجہ اب ان دونوں کی باتوں کی طرف تھی ۔۔۔
ب آنٹی نے جان بوجھ کر آگے کو جھک کر اپنا سینہ مزید واضع کر دیا تھا ۔۔۔ آنٹی کی قمیض کا گلا بہت کھلا تھا اور جو برا پہنا ہوا تھا اس کے کپ چھوٹے تھے جس کی وجہ سے آنٹی کے ممے خطرناک حد تک نظر آ رہے تھے ۔۔۔ منیر کی نظریں آنٹی کے سینے سے ہٹنے کا نام نہیں کے رہی تھی ۔۔۔۔ کیا دیکھ رہے ہیں منیر صاحب ؟؟؟ آنٹی نے ایک دم سے سوال کر دیا جسے سن کر منیر گڑبڑا گیا ۔۔ جج جیجی وہ کک کچھ نہیں ۔۔۔ وہ وہ گگ گرمی ۔۔۔۔ آآج گرمی بہت ہے نا۔۔۔۔کھی کھی کھی کھی ۔۔۔ میں اپنے منہ پر ہاتھ رکھ بہت مشکل سے اپنی ہنسی روک پائی تھی ۔۔۔۔۔ اچھا منیر صاحب یہ بتائیں کہ وہ کون لوگ تھے جنہوں نے ہماری شکایت لگائی تھی تھانے میں؟؟ ۔۔ وہ چھوڑیں جی ان لوگوں کی فکر نا کریں وہ لوگ آپ کی طرف اب آنکھ اٹھا کر بھی نہیں دیکھیں گے ۔۔۔ وہ کیسے؟؟ آنٹی نے بھنویں اچکا کر پوچھا ۔۔۔۔ بس یہ آپ مجھ پر چھوڑ دیں دیکھیں جی ہم نے ہی ایک دوسرے کے کام آنا ہے ۔۔۔ آپ ہمارا خیال رکھیں گے تو ہم بھی آپ کا خیال رکھیں گے ۔۔۔۔ وہ کیا کہتے ہیں ایک ہاتھ دے ایک ہاتھ لے ۔۔۔ آہاں ۔۔۔ پھر ٹھیک ہے ۔۔۔ تو بولیں منیر صاحب ہم آپ کی کیا خدمت کر سکتے ہیں؟؟ اب کی بار میں بول پڑی ۔۔۔ نا جی کوئی خدمت نہیں جیبس کبھی کبھی ہمارا خیال کر لیا کریں باقی سبخیر ہے ۔۔۔ اتنی دیر میں تھانے سے منیر کو فون آ گیا اور وہ ہم سے پھر ملنے کا وعدہ کر کے چلا گیا ۔۔۔ اس کے جانے کے بعد آنٹی نے میری طرف شرارتی نظروں سے دیکھا ۔۔۔۔ ہی ہی ہی ہی ہی ہی ۔۔۔۔۔۔ دیکھا یہ پولیس والا بھی ٹھرکی ہے سالا میرے مموں کو ایسے دیکھ رہا تھا جیسے ابھی کچا ہی کھا جائے گا ۔۔۔۔ ہی ہی ہی ہیہ ۔۔ آنٹی آپ نے بھی تو کمال ہی کر دیا اس کے سامنے اپنا گلا کھلا چھوڑ دیا تھا اس کی حالت غیر نہ ہوتی تو اور کیا ہوتا؟؟؟ ہی ہیہی ہی ہی۔۔۔۔۔۔ ہم دونوں کھلکھلا کے ہنس دی ۔۔۔ ارے یہ دیکھو جاتے ہوئے موصوف اپنا کارڈیہاں رھک گئے ہیں ۔۔ چلو اچھا ہے کسی دن بلائیںگے جناب کو ۔۔۔۔۔۔ آنٹی نے اپنی ایک انکھ دبا کر مجے کہا ۔۔۔ آنٹی آپ کی حوس کچھ زیادہ نہیں ہوتی جا رہی؟؟ ارے میری جان یہ آگ اتنی آسانی سے کہاں بجھتی ہے۔۔۔۔۔۔ کھی کھی کھی کھی ۔۔۔ جی میں جانتی ہوں یہ کنواں کبھی نہیں بھر سکتا ۔۔۔ کچھ دن آرام سے گزرے پھر ایک دن اچانک ہمارے آفسکی کھڑکی پر کچھ لوگوں نے پتھر پھینکے جس سے شیشے ٹوٹ گئے اس اچانک افتاد سے ہم گھبرا گئے ۔۔۔۔ کچھ لوگ ہنگاما کر رہے تھے انہوں نے ہاتھوں میں ڈنڈے اور لاٹھیاں پکڑی ہوئی تھی ۔۔۔ ہنگامہ آرائی کرنے والے داڑھیوں والے تھے اور وہ ہماری فیکٹری کے خلاف نعرے لگا رہے تھے ۔۔ انکل نے جلدی سے منیر کو فون کر دیا ۔۔۔ ھیلو انسپکٹر صاحب جلدی آئیں ہماری ٖفیکٹری پر کچھ لوگ پتھراؤ کر رہے ہیں ۔۔ تھوڑی دیر میں ہی پولیس آ گئی اور پولیس کو دیکھ کر ہنگامہ آرائی کرنے والے بھاگ کھڑے ہوئے ۔۔۔۔ اکمل صاحب یہ لوگ آپ کو چین سے رہنے نہیں دیں گے بہتر ہے آپ ان لوگوں کے نمائندے سے بات کریں بہت سارے مسلئے مذاکرات سے حل ہو جاتے ہیں ۔۔۔۔ انسپکٹر صاحب آپ ہی کوئی رستہ نکالیں پھر میں تو بہت پریشان ہو گیا ہوں اس روز روز کی چخ چخ سے ۔۔۔۔ ٹھیک ہے جناب میں کچھ کرتا ہوں یہ حرامی مولوی ٹائپ لوگ کچھ زیادہ ہی تیز بنتے ہیں ۔۔۔۔ ان کا منہ بند کرنا پڑے گا ورنہ یہ آپ کو کام نہیں کرنے دیں گے ۔۔۔ یہ معاشرے کے ٹھیکیدار بنے ہوئے ہیں ۔۔ ان کا کچھ کرتے ہیں ۔۔ آپ فکر نہ کریں اکمل صاحب میں ان سے رابطہ کر کے آپ کی ملاقات کروا دیتا ہوں ۔۔۔۔ دوسرے یا تیسرے دن ہی اس انتہا پسند گروپ کا سربراہ ہمارے آفس میں موجود تھا ۔۔۔ آفس میں نبیل ،انکل، پولیس انسپکٹر اور اس مولوی کے علاوہ میں اور آنٹی بھی موجود تھی ۔۔۔ مذاکرات شروع کرنے سےپہلے مولوی جس کا نام عاشق علی تھا کہنے لگا جناب اکمل صاحب یہ بہتر ہوگا کہ آپ خواتین کو یہاں سے اٹھا دیں میں ان کی موجودگی میں کوئی بات نہیں کرنا چاہتا ۔۔۔ بات مردوں کی ہے تو مرد ہی آپس میں بات کرتے اچھے لگتے ہیں عورتیں گھر کاکام کرتی اچھی لگتی ہیں ۔۔۔ اس لئے برا نا منائیے گا میری بات کا ۔۔۔۔ ہم دونوں وہاں سے چپ چاپ اٹھ کر دوسرے کمرے میں چلی گئی ۔۔۔ اور آنٹی نے جاتے جاتے اس طرح سے انسپکٹر کے پہلو میں خود کو گرانے کی ایکٹنگ کی کہ دیکھنے والے کو یہی لگا جیسے کسی چیز سے ٹھوکر کھا کر آنٹی کا توازنبگڑ گیا ہے ۔۔۔ جیسے ہی وہ لڑکھرائی انسپکٹر نے ایک دم سے آنٹی کو بازو سے تھام لیا ۔۔۔۔ آنٹی نے فوراََ اپنا بازو اپنے پہلو کے ساتھ چپکا لیا جس سے انسپکٹر کے ہاتھ کی پشت آنٹی کے ممے کے ساتھ ہلکا سا ٹچ ہو گئی ۔۔۔۔ انسپکٹر کا جسم ہولے سے کانپا ۔۔۔۔ جسے میںٰ نے اور آنٹی نے محسوس کر لیا ۔۔۔ آنٹی ہلکی سی مسکراہٹ اچھال کر میرے ساتھ دوسرے کمرے میں آ گئی ۔۔۔ جہاں ہم بیٹھی تھی وہاں پر کھڑکی تھی جہاں سے دوسرا کمرا نظر بھی آتا تھا اور آوازیں بھی صاف سنائی دیتی تھی ۔۔۔۔۔ جی جناب اب بولیں ہم آپ کی ناراضگی کیسے ختم کر سکتے ہیں ۔۔۔ انکل نے ہمارے باہر نکلتے ہی عاشق سے پوچھا ۔۔ دیکھیں اکمل صاحب ہمارا آپ کا کوئی خاندانی جھگڑا تو ہے نہیں ۔۔۔ بس بات اتنی سی ہے کہ آپ کی فیکٹری میںجو چیزیں بنتی ہیں ان سے معاشرے میں بگاڑ پیدا ہونے کا اندیشہ ہے ۔۔۔ اور اس سے بے راہروی پھیلے گی اور ہم اپنی زندگی میں تو ایسا ہرگز ہرگز نہیں ہونے دیں گے ۔۔ اس لئے آپ کو اپنا یہ کام بند کرنا ہوگا ۔۔۔ روزی کمانے کے اور بھی بہت سے طریقے ہیں ۔۔۔ آپ کوئی اور طریقہ ڈھونڈ لیں اپنے روزی روٹی کا ۔۔۔ مولوی ایک سانس لینے کو رکا ۔۔۔ عاشق صاحب آپ سمجھدار آدمی ہیں آپ ہی بتائیں اتنی جلدی ہم کوئی اور کاروبار کیسے شروع کر سکتے ہیں ۔۔۔ ہمارےبھی بیوی بچے ہیں ۔۔ ان کا پیٹ کیسے پالنا ہے ہمنے؟؟؟ انکل نے مولوی عاشق کی آنکھوں میں دیکھتے ہوئے قدرے سخت الفاظ میں کہا۔۔۔۔ وہ ہم ذمہ دار نہیں ہیں ۔۔۔ وہ آپ جانے اور آپ کا کام ۔۔۔ ابھی ہم سیدھے طریقے سے کہہ رہے ہیں ورنہ ہمیں پتا ہے فیکٹری کیسے بند کروائی جاتی ہے ۔۔۔۔ عاشق نے اپنی داڑھی پر ہاتھ پھیرتے ہوئے کہا ۔۔۔ ادھر میں اور آنٹی اس کی باتیں سن کر پریشان ہو رہی تھی ۔۔۔پتا نہیں اب کیا بنے گا ۔۔۔۔ مولوی صاحب آپ ذرا ہاتھ دھیما رکھیں کوئی درمیانہ رستہ نکال لیتے ہیں ۔۔۔ عاشق نے مولوی کے ہاتھ پر اپنا ہاتھ رکھتے ہوئے کہا ۔۔۔ آپ کو شرم آنی چاہئے ایک پولیس والے ہوکر آپ مجھے رشوت دینے کا سوچ رہے ہیں ۔۔۔۔ ارے نہیں نہی مولوی صاحب ہم ایسا سوچ بھی نہیں سکتے ۔۔ میں تو یہ بات کر رہا تھا کہ تھوڑا ہاتھ نرم کر لیں گے تو میرے دوست کو سوچنے کا موقع مل جائے گا کہ آگے کیا کرنا ہے ۔۔ اتنی جلدی میں تو کچھنہیں ہو سکتا نا ۔۔۔ ہمم!!!!! چلیں آپ بتائیں آپ کو کتناٹائم چاہئے ؟؟ ہم آپ کو ٹائم دے دیتے ہیں ۔۔۔ یہ ہوئی نا بات ۔۔۔ انکل نے خوش ہوتے ہوئے کہا ۔۔ جناب آپ فکر نہ کریں ایک مہینے کے اندر اندر ہم کوئی اور متبادل کاروبار کا سوچ لیتے ہیں ۔۔ اور آپ سے ایک التجا ہے ۔۔ جی بولیں ۔۔ مولوی نے بھنویں اچکاتے ہوئے انکل سے کہا ۔۔۔ دیکھیں جی اس ایک مہینے میں آپ ہمیں تنگ نہی کریں گے ہمیں اپنا کام کرنے دیں گے ۔۔۔ چلو جی ٹھیک ہے ۔۔ مولوی نے کرسی کے ہتھے پر ہاتھ مارتے ہوئے کہا ۔۔ اب آپ کے پاس صرف ایک مہینے کا ٹائم ہے ۔۔۔ میں اب ایک مہینے بعد ہی آؤں گا آپ سے ملنے ۔۔۔ خدا حافظ ۔۔۔ مولوی کے جاتے ہی انکل نے ہمیں آواز دے کر بلا لیا ۔۔۔اب کیا کرنا ہے انکل ۔۔ میں نے چھوٹتے ہی کہا ۔۔۔۔ پریشان ہونے کی ضرورت نہیں ہے ۔۔ ہم کوئی نا کوئی رستہ نکال ہی لیں گے ۔۔۔ فی الحال تو اتنا بھی کافی ہے کہ مولوی نے ہمیں کچھ ٹائم دے دیا ہے ۔۔ عاشق نے گلا کھنکارتے ہوئے کہا ۔۔۔ اتنی دیر میں ہم سوچ بچار کر لیتے ہیں ۔۔۔ ویسے تو ان جیسے مولویوں کو سیدھا کرنا ہمیں آتا ہے ۔۔ اگر زیادہ گڑ بڑ کریں گے تو ہم نمٹ لیں گے ان کے ساتھ ۔۔ اس کی نظریں بار بار آنٹی کے گریبان پر جا رہی تھی جہاں سے سفید سفید ممے اس کو دعوتِ نظارہ دے رہےتھے ۔۔۔تھوڑی دیر کے بعد میں اور آنٹی آفس سے نکل کر بازار چلی گئی مجھے کچھ خریداری کرنی تھی ۔۔ واپسی سارے راستے میں اور آنٹی اسی پرابلم کو ڈسکس کرتی رہی ۔۔۔۔۔ ویسے بہو ایک بات میرے ذہن میں آ رہی ہے ۔۔ کیا؟؟؟؟؟؟ میں نے پوچھا ۔۔ وہ یہ کہ کیوں نا میں اس پولیس والے کو استعمال کر کے اس مولوی سے تو چھٹکارا حاصل کر لیں ۔۔۔۔ کیا کہتی ہو؟؟ میںکچھ سمجھی نہیں آنٹی جی آپ کا مطلب کیا ہے ۔۔۔ میں نے کچھ نا سمجھتے ہوئے آنٹی کی طرف دیکھتے ہوئے کہا ۔۔۔ وہ میں تم کو سمجھاتی ہوں ۔۔ دیکھو ۔۔۔۔۔ ۔اور پھر جو بات آنٹی مجھے بتا رہیتھی اس کو سن کر میرا چہرہ سرخ ہوتا جا رہا تھا ۔۔۔۔۔۔۔ اصل مییں ان کا پلان اس قدر فول پروف تھا کہ میں خوشی سے جھوم اٹھی ۔۔۔۔۔۔۔ میں نے بازار میں ہی آنٹی کا منہ چوم لیا ۔۔۔ ارے لڑکی کچھ حیا کر کیا کر رہی ہو ۔۔ لوگ کیا کہیں گے ۔۔۔ بے شرم چھوڑ مجھے ۔۔۔۔۔ کھی کھی کھ یکھی۔۔۔ میں ہنستے ہوئے کہنے لگی ۔۔ آنٹی وہ تو پہلے ہی آپ کا دیوانہ لگ رہا ہے ۔۔۔ ایک ہی جھٹکے میں وہ آپ کے پیروں تلے آجائے گا ۔۔ ہی ہی ہی ہی ۔۔۔۔۔۔۔۔ پھر جو آپ کہیں گی وہ اس کے فرشتے بھی مانیں گے ۔۔ ھا ھا ھاھاھاھاھاھاھاھا ۔۔۔۔۔ میں اور آنٹی منہ پھاڑ کے ہنس رہی تھی ۔۔۔
سفر Part 8
:رات کو نبیل اور انکل جب گھر آئے تو کافی تھکے ہوئے لگ رہے تھے ۔۔۔ کیا ہوا میری جان آج بہت تھکے ہوئے لگ رہے ہیں ۔۔۔ آنٹی نے پیار بھرے لہجے میں انکل سے پوچھا ۔۔۔۔ ہاں جانِ بہار آج اس حرامی مولوی کی وجہ سے بہت ذہنی ٹینشن رہی ۔۔۔ اسی لئیے ایسا لگ رہا ہے ۔۔۔ میرا تو سارا جسم ٹوٹ رہا ہے ۔۔۔۔۔ چلیں میں آپ کا جسم دبا دیتی ہوں ۔۔۔ نہیں آج دل کر رہا ہے کہ اپنی پیاری بیٹی سے دبواؤں ۔۔۔۔ کیوں بیٹی تم دبا دو گی میرا جسم؟؟ جی انکل میں حاضر ہوں ۔۔۔ آپ پہلے کھانا کھا لیں پھر میں آتی ہوں ۔۔۔۔۔ ٹھیک ہے ۔۔۔ انکل نے جیسے ہی کھانا ختم کیا میں نبیل سے کہنے لگی جان آپ کمرے میں چلو میں انکل کو دبا کر ابھی آئی ۔۔۔۔ او کےجان میں اپنے کمرے میں جا رہا ہوں ۔۔۔ نبیل نے مجھےکہا ۔۔۔ اور کمرے کی طرف چل دئیے۔۔۔۔ میں اپنی ساس اور سسر کے کمرے میں آ گئی ۔۔۔ انکل نیکر پہنے اپنے بیڈ پر الٹے لیٹے ہوئے تھے ۔۔۔ میں نے تیل کی شیشی لی اور ان کی کمر پر تیل گرا کر اپنے ہاتھوں سے ان کی کمر پر مساج کرنے لگ گئی ۔۔۔ جیسے ہی میں نے انکل کی کمر پر ہاتھ لگایا مجھےایسا لگا جیسے کسی نے میرے جسم میں کرنٹ چھوڑ دیا ہو ۔۔۔ میں نے جو قمیض پہنی ہوئی تھی اس کیبیک پر زپ لگی ہوئی تھی ۔۔ میں ہولے ہولے انکل کی پیتھ پر مساج کر رہی تھی اور میرے جسم میں آگ بھڑک رہی تھی ۔۔۔ کچھ دیر کے بعد انکل سیدھے ہو کر لیٹ گئے ۔۔ میں نے دیکھا ان کی نیکر آگے سے اٹھی ہوئی ہے ۔۔ میری ہنسی نکل گئی ۔۔ کیا ہوا بیٹی؟؟ کیوں ہنس رہی ہو ۔۔ میں نے ان کی ابھری ہوئی جگہ پر ہاتھ لگا کر کہا اسے دیکھیں کیسے کھڑا ہو گیا ہے ۔۔ حالانکہ میں نے کچھ بھی نہی کہا اسے ۔۔ ہی ہی ہی ہی ہی ہی ۔۔۔ میری بے ساختہ ہنسی رک نہی رہی تھی ۔۔۔۔ بیٹی ذرامیری ٹانگیں بھی دبا دو بہت سکون مل رہا ہے تمھارے دبانے سے ۔۔۔ میں انکل کی ٹانگیں دبانا شروع کر دیا ۔۔۔ آہستہ آہستہ میں انکل کی ٹانگیں دباتےہوئے ان کی رانوں کی طرف بڑھ رہی تھی ۔۔ انکل نے اپنی ٹانگیں مزید کھول دی تھی ۔۔۔ جس سے انکا ابھار مزید واضع ہو گیا تھا ۔۔۔۔۔۔۔ میں ان کی رانیں دبا رہی تھی اور میرے نیچے آگ تھی کہ بھڑکے جا رہی تھی ۔۔۔۔ مجھ سے برداشت نہی ہو رہا تھا میں نے انکل کی نیکر کھینچ کر اتار دی ۔۔ ان کا لن ایک دم سے میرے سامنے لہرانے لگ گیا ۔۔۔ انکلنے میرا ہاتھ پکڑ کر اپنے لن پر رکھ دیا ۔۔۔ میں ان کا لن پکڑ کر ان کی متھ مارنے لگ گئی ۔۔۔ میں نے ابھی تک اپنے کپڑے نہی اتارے تھے ۔۔ مجھے نہی پتا چلا کب میری ساس میرے پیچھے آ کر کھڑی ہو گئی تھی ۔۔۔۔ انہوں نے ایک دم سے میری قمیض کی زپ کھول دی ۔۔ جس سے میری قمیض کا گلا کھل گیا تھا ۔۔ اور میرے موٹے موٹے ممے واضعہو گئے تھے ۔۔۔ انکل نے میرے ممے ہاتھ میں پکڑ لیئے اور ان کو ہلکے ہلکے دبانے لگے ۔۔۔۔ میرے منہ سے سسکاری نکل گئی ۔۔۔ میں نے دیکھا آنٹی بنا کپڑوں کے کھڑی تھی ۔۔۔ اور ان کی پھدی پر ہلکے ہلکے بالوں نے ڈیرا جما رکھا تھا ۔۔۔گوری گوری پھدی پر کالے بال کیا خوب نظارہ دے رہے تھے ۔۔۔ میرے ایک ہاتھ میں انکل کا لن تھا اور دوسرا میں نے آنٹی کی پھدی پر رکھ دیا تھا ۔۔۔ آنٹی کی پھدی گیلی ہو رہی تھی ۔۔۔۔ آنٹی جی کیا نبیل نے آپ کا پانی نہیں نکالا؟؟ نہی میں اس کو دبا رہی تھی اور وہ جلدی ہی نیند کی آغوش میں چلا گیا ۔۔۔ میں نے اسے ڈسٹرب نہیں کیا اور ادھر آ گئی ۔۔۔ چلوبیگم آج میں تم دونوں ساس بہو کا پانی نکالتا ہوں۔۔۔ انکل نے یہ کہہ کر آنٹی کا منہ اپنے منہ سے لگا لیا اور ایک بھرپورفرنچ کس دی ۔۔۔ انکل نے آنٹی کا نیچے والا ہونٹ اپنے ہونٹوں کی گرفت میں لیا ہوا تھااور دونوں ہاتھوں سے میرے ممے دبا رہے تھے ۔۔۔آنٹی نے میری قمیض اتار کر ایک طرف رکھ دی اور پھر شلوار بھی اتار دی تھی میری ۔۔۔ میں گھومکر انکل کے منہ کی طرف آ گئی اور اپنی پھدی کے ہونٹ کھول کر میں نے انکل کے منہ پر رکھ دی ۔۔۔۔ انکل کی زبان جیسے ہی میری پھدی کے اندر گئی میری پھدی میں ہلچل مچ گئی ۔۔۔ میں نے آگے کو جھک کر انکل کا لن اپنے منہ میں لے لیا ۔۔۔ اب ہم 69 کی پوزیشن میں تھے ۔۔۔۔ میں دیوانہ وار انکل کا لن چوس رہی تھی ۔۔۔۔ انکل کی کھردری زبان میری پھدی کے ہونٹوں پر خراشیں ڈال رہی تھی ۔۔۔ میرا دل کر رہا تھا کہ انکل میری پھدی اندر سے کھا جائیں ۔۔۔ اور اپنے دانتوں سے کاٹیں ۔۔۔ انکل اپنی بہو کی پھدی کو آج کھا جائیں ۔۔۔ دانتوں سے کاٹیں آج ۔۔۔۔ اففف۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ مگر انکل اپنی زبان سے ہی مجھے پاگل کر رہے تھے ۔۔۔ میں نے انکل کا منہ زور سے اپنی پھدی کے ساتھ دبایا ہوا تھا ۔۔ میری برداشت کی حد ختم ہو رہی تھی ۔۔ میں نے انکل کا منہ پیچھے کر کے کہا ۔۔ انکل جی کیا آپ کے منہ میں دانت نہیں ہیں ؟؟ کاٹیں نا زور سے ۔۔۔۔۔ انکل نے آخر کار اپنے دانت میری پھدی کے دانے پر لگا ہی دئیے ۔۔ ہاں ایسے ہی ۔۔ اور زور سے ۔۔۔ میری آواز کافی اونچی ہو گئی تھی ۔۔۔ آہ آہ ۔۔ انکل نے میری پھدی کے دانے کو اپنے دانتوں سے کاٹنا شروع کر دیا ۔۔۔ میرے پورے جسم میں مزے اور درد کی ایک لہر دوڑ گئی ۔۔۔ میں اس درد اور مزے کو پورے مزے سے انجوئے کر رہی تھی۔۔۔ ہاااااااا۔۔۔۔۔۔۔۔۔ آآآآآآآآآہ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ امم ۔۔۔۔۔۔۔ ایسے ہی ۔۔۔۔ میں اپنا سر ادھر ادھر مار رہی تھی ۔۔۔ ایسا لگ رہا تھا جیسے میری پھدی کے راستے میری جان نکل جائے گی ۔۔۔ یس یس یس یس ۔۔۔ میں گئی ۔۔۔ ؤآآآآآآآآہ ۔۔۔۔۔۔۔۔ میری پھدی کا پانی نکل گیا تھا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ میںبید پر گر کے لمبے لمبے سانس لینے لگ گئی ۔۔۔ مجھے بہت پسینہ آ رہا تھا ۔۔ اب انکل کا لن آنٹی کے ہاتھ میں تھا ۔۔۔۔ آنٹی نے انکل کا لن اپنے مموں میں رکھ لیا تھا ۔۔ اور اپنے دونوں ممے آپس میں دبا کراوپر نیچے ہو رہی تھی ۔۔ انکل کا لمبا کن آنٹی کے مموں سے نکل نکل کر ان کی گردن سے ٹکرا رہا تھا ۔۔۔۔ میں نے پیچے سے جا کر آنٹی کی پھدی میں اپنی دو انگلیاں ڈال دی ۔۔ جس سے ان کی سسکاری نکل گئی ۔۔ سس!!!!!! ۔۔۔۔ میں نے اپنی پوری انگلیاں ان کی پھدی میں ڈال کر زور زور سے ہلانا شروع کر دیا ۔۔ جس سے ان کی پھدی کا پانی کافی ذیادہ نکل رہاتھا ۔۔ میرا ہاتھ بھر گیا تھا ان کی پھدی کے پانی سے ۔۔۔ آنٹی اٹھ کر انکل کے لن پر بیٹھ گئی ۔۔انہوں نے پہلے انکل کے لن کا ٹوپا اپنی پھدی پرسیٹ کیا اور ایک دم سے اس کے اوپر بیٹھ گئی جس سے انکل کا سارا لن ایک ہی جھٹکے میں آنٹی کی پھدی کی گہرائی میں اتر گیا ۔۔۔ آنٹی انکل کے لن پر گھوڑا سواری کر رہی تھی ۔۔ پورے کمرے میں پچ پچ کی آوازیں گھونج رہی تھی ۔۔۔۔ جب آنٹی انکل کے لن پر گرتی تھی تو ان کی گانڈ میں ایک لہر سی اٹھتی تھی ۔۔ قسم سے بہت ہی سکسی لگ رہی تھی آنٹی کی گانڈ ۔۔۔۔ انکل کا لن پھدی کی کریم سے بھر گیا تھا ۔۔۔ میں نے اپنا منہ نیچےکر کے انکل کے بالز پر اپنی زبان پھیری ۔۔۔ انکل نے ایک لمحے کے لئے اپنا لن آنٹی کی پھدی سے باہر نکالا ۔۔ میں نے جلدی سے انکل کا کریم لگا لن اپنے منہ میں ڈال لیا ۔۔ ابھی میں نے دو تین چوپے ہی لگائے تھے کہ آنٹی بول پڑی ۔۔ بیٹی بس میرا پانی نکلنے ہی والا ہے ۔ ابھی مجھے لن کی سختزرورت ہے ۔۔ تم بعد میں اپنا چاؤ پورا کر لینا ۔۔۔ میں نے انکل کا لن منہ سے نکال کر دوبارہ آنٹی کی پھدی میں ڈال دیا ۔۔۔ جانو اب میں تھک گئی ہوں ۔۔آپ اوپر آئیں اور مجھے نیچے لیٹنے دیں ۔۔۔ آنٹی اب نیچے لیٹ گئی اور انکل نے ان کی ٹانگٰیں اٹھا کر اپنے کاندھوں سے لگا کی ۔۔۔ ایسا کرنے سے انکل کالن جڑ تک آنٹی کی پھدی میں جا رہا تھا ۔۔۔ آنٹی نے اپنی آنکھیں بند کر لی اور اپنے دونوں ہاتھوں سے انکل کی کمر کو مضبوتی سے پکڑ کر اپنے ساتھ لگا لیا ۔۔۔ پانچ منٹ کے دھکوں کے بعد آنٹی کا جسم اکڑنے لگ گیا ۔۔۔ یہ دیکھ کر انکل نے زور زور سے آنٹی کی پھدی میں اپنا لن اندر باہر کرنا شروع کر دیا ۔۔۔ دھپ دھہ دھپ دھپ کی آواز سے کمرا گونج رہا تھا ۔۔۔۔ میں نے اپنی زبان انکل کے منہ میں داخل کر دی ۔۔۔ اور اپنی پھد اآنٹی کے منہ پر رکھ دی ۔۔ اسے بھی کھائیں میری ساسو ماں جی ۔۔۔ آنٹی کا جسم ایک دم سے اکڑ گیا اور انہوں نے اپنے دانت سختیسے میری پھدی کے ہونٹوں پر گاڑھ دئیے ۔۔۔۔ ھائے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ آآآآآآآآآآآ ہہ ہ ہ ہ ہ ہ ہ ہ ہ ہ ہ۔۔۔۔۔۔ ہاااااااااااااااااااااااااااا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ آہ آہ آہ آہ ۔۔۔۔۔۔ اور اس کے ساتھ ہی آنٹی کی پھدی میں جیسے سیلاب آ گیا ۔۔۔ آنٹی کی پھدی اور انکل کے لن کا مکس ذائقہ بہت ہی منفرد تھا ۔۔۔ میں نے اپنے ہونٹوں کے ارد گرد لگا پانی اپنی زبان سے چات کر صاف کر لیا ۔۔۔۔۔۔ اب میری باری ۔۔۔ میں نے آنٹی کو ایک طرف ہٹا کر انکل کے سامنے اپنی ٹانگیں کھول کر لیٹ گئی ۔۔۔ نہیں بہو ۔۔۔ ایسے نہی ۔۔ انکل نے مجھے ہاتھ پکڑ کر اٹھاتے ہوئے کہا ۔۔۔ تو پھر کیسے؟؟؟ بہو آج تم گھوڑی بنو ۔۔۔ میں تم کو گھوڑی بنا کر چودوں گا۔۔ میں فوراََ سے پہلے گھوڑی بن گئی ۔۔ مجھے آج مزہ آ رہا تھا پھدی مروانے کا ۔۔۔ بہو اپنی پھدی گیلی کر لو ۔۔ نہی انکل جی یہ دیکھیں یہ پہلے ہی بہت گیلی ہے ۔۔ آپ بس لن ڈالیں اس میں ۔۔بہت ترسی ہوئی ہے ۔۔۔ آج اس کو مار مار کے لال کر دیں ۔۔۔ میں نے پیچے منہ کر کے انکل سے کہا ۔۔۔۔۔ اور اپنی پھدی کے نکلے ہوئے پانی سے اپنا ہاتھ گیلا کر کے انکل کے سامنے کرکے ان کو دکھایا ۔۔۔۔۔ انکل نے ایک ہاتھ سے میری کمر کو پکڑا اور دوسرے ہاتھ سے اپنے لن کا ٹوپا میری پھدی کے دھانے پر رکھا ۔۔۔ اور ایک ہی جھٹکے میں اپنا پورا لن میریپیاسی پھدی میں داخل کر دیا ۔۔۔ مزے سے میرے منہ سے سسکاری نکل گئی ۔۔۔ جب انکل اپنا لن میری پھدی سے باہر نکالتے تو میں تھوڑا سا آگے ہوجاتی اور جب وہ اندر کی طرف دھکا لگاتے تو میں بھی زور سے اپنی گانڈ ان کے لن کی طرف کر دیتی ۔۔ جس سے انکل کا لن میری بچہ دانی سے ٹکرا جاتا تھا ۔۔ مجھے اس سے درد تو ہو رہا تھا مگر یہ درد اس مزے سے کہیں کم تھا جو میں محسوس کر رہی تھی ۔۔۔ انکل زور زور سے میرے پھدی میں اپنا لن اندر اور باہر کر رہے تھے ۔۔ میری پھدی کا پانی اتنا زیادہ نکل رہا تھا کہ اس سے انکل کی رانیں بھی گیلی ہو گئی تھی ۔۔۔ بہو تمھاری پھدی میں کوئی نکلا کھل گیا ہے کیا جو اتنا پانینکال رھی ہو ۔۔۔ انک نے دھپ دھہ کی آواز کے درمیان مجھے پوچھا ۔۔۔ انکل جی آپ کا ہتھیار میرے اندر بور کر رہا ہے ۔۔۔ پانی تو نکلے گا ۔۔۔ میں نے اپنی گانڈ مزید اوپر کی طرف کر لی تھی جس سے میری پھدی مزید کھل گئی تھی ۔۔ میں انکل کا لن بہت مزے سے اندر لے رہی تھی کہ اچانک ایسا لگا جیسے میری آنکھوں کے آگے اندھیرا چھا گیا ہو ۔۔۔ درد کی ایک شدید لہر اٹھی میرے پورے جسممیں ۔۔ میں چاہنے کا باوجود اپنی چیخ نہی روک پائی ۔۔۔ میری چیخ سن کر شائد نبیل کی آنکھ بھی کھل گیئ تھی ۔۔۔ مجھے سمجھ نہیں آ رہی تھی کہ میرے ساتھ ہوا کیا ہے ۔۔۔ میں باس چیخے جارہی تھی ۔۔ اور بےجان ہو کر میں بیڈ ہر اندھے منہ گر گئی ۔۔۔ پھر مجھے ایسا لگا جیسے نبیل نے آ کر میرا چہرا اپنی گود میں رکھ لیا ۔۔۔۔ میری آنکھیں بند ہوتی گئی اور میرا ذہن تاریکی میں دوبتا چلا گیا ۔۔۔۔۔۔۔ مجھے کچھ مللی جلی آوازیں آ ررہی تھی جن کی کچھ سمجھ نہیں آ رہی تھی ۔۔۔
پھر میرا ذہن تاریکی میں ڈوبتا چلا گیا ۔۔۔۔ اچانک مجھے ایسا لگا جیسے بارش ہو رہی ہو ۔۔۔ میرے منہ پر بارش کے قطرے گر رہے تھے ۔۔۔ میں نے جلدی سے آنکھیں کھول کر دیکھا تو پہلے تو مجھے سمجھ ہی نہی آئی کہ میں کہاں ہوں اور کیا ہوا ہے ۔۔۔ پھر اچانک مجھے اپنی کمر میں شدید درد کا احساس ہوا ۔۔۔ میں نے اٹھنا چاہا تو نبیل نے مجھے کندھوں سے پکڑ لیا ۔۔ ابھی لیٹی رہو میری جان ۔۔۔ کیا ہوا ہے نبیل؟؟؟ میں انکل کے ساتھ مزے کر رہی تھی کہ اچانک ہی ۔۔۔۔ آآآآآآآ ہ ہ ہ ہ ہ!!!!!!!! مجھے میری گانڈ میں ناقابلِ برداشت درد ہو رہا تھا ۔۔۔۔۔ ہوا کچھ یوں تھا کہ انکل میری پھدی سے اپنالن ٹوپے تک نکال کر پھر ایک دم سے اپنا لن جڑ تک داخل کر رہے تھے ۔۔ جس سے مجھے اور انکل کو بہت مزہ آ رہا تھا ۔۔۔ پھر ایک دم سے انکل نےاپنا لن میری پھدی میں سے اپنے ٹوپے تک نکالا اور دوبارہ سے ایک جھٹکے کے ساتھ اندر داخل کرنے لگے تو لن کا نشانہ غلط ہو گیا اور لن پھدی کی بجائے میری کنواری گانڈ کے سوراخ میں داخل ہو گیا ۔۔۔۔ مجھ سے یہ درد برداشت نا ہوا اور میں بےہوش ہو گئی ۔۔۔۔ میرے منہ سے دلخراش چیخ نکلی جسے سنکر نبیل کچی نیند سے گھبرا کر بیدار ہو گئے ۔۔۔۔ جب وہ کمرے میں داخل ہوئے تو دیکھا میں بے جان ہو کر بیڈ پر گری ہوئی ہوں اور انکل نے میری گانڈ پر ہاتھ رکھا ہوا تھا ۔۔۔ نبیل نے جلدی سے میرا چہرا اپنی گود میں رکھ لیا اور آنٹی میرے منہ پر پانی کے چھینٹے مارنے لگ گئی ۔۔ جس سے مجھے ہوشآ گیا ۔۔۔۔ بے پناہ درد سے میرا برا حال تھا اور میری آنکھوں سے آنسو نکل رہے تھے ۔۔۔۔ نن ن نب بی ی ی لل ۔۔۔ کیا ہوا میری جان؟؟؟ میں تمھارے پاس ہوں ۔۔۔ نبیل مجھے پتا نہیں کیوں ۔۔۔۔ چپ رہو میری جان ۔۔۔ میں جانتا ہوں کیا ہوا ہے ۔۔۔ نبیل نے میرے آنسو صاف کرتے ہوئے کہا ۔۔۔ مجھے معاف کر دو میری بیٹی ۔۔۔ انکل نے بڑی بوجھل آواز میں مجھے کہا ۔۔۔ ارے نہیں انکل اس میں آپ کی کیا غلطی ہے ۔۔۔ جو کچھ بھی ہوا انجانے میں ہوا ۔۔ ویسے بھی مجھے کبھی نا کبھی تو گانڈ میں لن لینا ہی تھا ۔۔ آج آپ کی وجہ سے اچانک مل گیا تو کیا ہوا ۔۔۔۔دکھاؤ تو کہیں زیادہ تو نہیں پھٹ گئی میری پیاری بہو کی گانڈ ۔۔۔۔ آنٹی نے مجھے الٹا لٹاتے ہوئے میری گانڈ کو کھول کر دیکھا ۔۔۔ ارے کچھ نہیں ہوا تمھاری گانڈ کو ۔۔۔ بس پہلی بار تھا نا تمھارا اس لیئےدرد برداشت نہیں ہوا ۔۔۔ کوئی بات نہیں بیٹی اب تم آرام کرو ۔۔ انکل نے میرے سر پر ہاتھ پھیرتے ہوئے کہا ۔۔ مجھے اس وقت انکل پر بے حد پیار آ رہا تھا ۔۔۔ بھلا اتنا پیار آج کل کے زمانے میں کون اپنی بہو سے کرتا ہے ۔۔۔۔۔۔ انکل وہتو ٹھیک ہے مگر آپ کا لن تو ابھی بھی ویسے کا ویسا ہی ہے ۔۔ اس کا کیا کرنا ہے اب؟؟؟ کچھ نہیں کرنا میری پیاری بہو ۔۔ یہ تمھاری ساس ہے نا ۔۔۔ میں ابھی دیکھنا اس کی پھدی میں اپنے لن کو فارغ کر لیتا ہوں ۔۔۔ انکل نے آنٹی کو ایک جھٹکے سے اپنے سامنے لٹا لیا اور ان کی ٹانگیں کھول کر اپنے لن کا ٹوپا پھدی پر فٹ کر کے ایک ہی جھٹکے میں پورا لن اندر غائب کر دیا ۔۔۔ انکل نے پھر آنٹی کو اپنی گود میں بٹھا لیا اور آنٹی بھی انکل کی گود میں چھل چھل کر ان کا لن اپنی پھدی میں لے رہی تھی ۔۔ انکل اور آنٹی کا سکس دیکھ کر نبیل کا لن بھی کھڑا ہو رہا تھا ۔۔ جسے میں نے دیکھ لیا ۔۔۔ اب درد کم ہو گیا تھا ۔۔ اور ایک بار پھر سے میرا لن لینے کو دل کر رہا تھا ۔۔۔۔۔۔۔۔ میں نے نبیل کا لن ہاتھ میں پکڑ لیا اور اس کو آگے پیچھے کرنے لگی ۔۔ نبیل نے یہ دیکھ کر اپنا پاجامہ اتار دیا اور میرے سامنے بلکل ننگے ہو کر کھڑے ہو گئے ۔ ان کا لن ایک دم سیدھا اور تنا ہوا تھا ۔۔۔ جسے دیکھ کر میری پھدی پھر سے گرم ہو گئی ۔۔۔ میں نے بنا دیر کئیے اپنی پھدی کو نبیل کے لن کے حوالے کر دیا ۔۔۔۔ نبیل نے دھکے مار مار کر میری پھدی کی توبہ کروا دی ۔۔۔ نبیل جان ۔۔۔۔ میں نے خمار آلود آواز میں نبیل سے کہا ۔۔ جی نبیل کی جان ۔۔۔۔ جان اب پھر میری گانڈ میں خارش ہو رہی ہے ۔۔پلیز گانڈ میں کرو نہ اس شہزادے کو ۔۔۔ نبیل کی جان تم کو پھر سے درد ہوگا ۔۔ آپ آرام سے اندر کرنا ۔۔ نہیں ہو گا درد ۔۔۔ اگر ہوا بھی تو میں برداشت کر لو گی ۔۔ مجھے بس گانڈ میں لن لینا ہے ۔۔۔۔ نبیل نے مجھے الٹا لٹایا اور اپنی امی سے تیل لانے کا کہا ۔۔۔ آنٹی بھی بنا کپڑوں کے دوسرے کمرے میں چلی گئی اور وہاں سے تیل کی شیشی نکال لائی ۔۔۔پھر آنٹی نے ہی میری گانڈ کے ارد گرد اور تھوڑا تیل میری گانڈ کے اندر اپنی انگلی کی مدد سے لگا دیا ۔۔۔۔ جب انہوں نے اپنی تیل لگی انگلی میری گانڈ کے اندر کی تو مجھے بہت مزہ آیا ۔۔ آنٹی جی کیا لگایا ہوا ہے آپ نے اپنی انگلی پر ۔۔۔ مجھے بہت مزہ آ رہا ہے ۔۔ بیٹی جب تم ریگولر لن اپنی گانڈ میں لینا شروع کر دو گی تو تم کو اور بھی مزہ آئے گا ۔۔۔ اتنا مزہ پھدی مروانے میں آتا ہے اتنا ہی مزہ گانڈ مروانے میں آتاہے ۔۔۔ اتنی دیر میں نبیل نے اپنے لن کو اچھی طرح سے تیل سے تر کر لیا ہوا تھا ۔۔۔ امی آپ اس کی ٹانگیں پکڑیں ۔۔۔ آنٹی نے میری ٹانگیں پکڑ کر گھٹنے میرے کاندھوں کے ساتھ ملا دی تھی ۔۔۔ جس سے میری گانڈ کا سوراخ بلکل نبیل کے سامنے آ گیا تھا ۔۔۔ نبیل نے میری کمر کے نیچے تکیہ رکھ دیا جس سے مزید میری گانڈ کا سوراخ سامنے آ گیا تھا ۔۔۔۔ پھر نبیل نے آہستہ آہستہ لن کا ٹوپا اند داخل کیا ۔۔۔۔ مجھے ایک بار پھر سے نا قابل برداشت درد محسوس ہو رہا تھا ۔۔ مگر اب کی بار میں نے فیصلہ کر لیا تھا کہ کچھ بھی ہو جائے میں نے لن لینا ہی لینا ہے ۔۔۔۔ جب میں نے دیکھا کہ اب مجھ سے درد مزید برداشت نہیں ہوگا میں نے اشارے سے انکل کو اپنے پاس بلایا اور ان کا لن اپنے منہ میں لے کر چوسنے لگ گئی ۔۔ لن کا خمار تھا یا پھر کیا تھا مجھے نہیں پتا مگر مجھے اب لن کا مزہ آنے لگ گیا تھا ۔۔۔ نبیل نے آہستہ آہستہ پورا لن جڑ تک میری گانڈ میں داخل کر دیا تھا ۔۔۔۔ ابنبیل زور زور سے مجھے دھکے مار رہے تھے ۔۔ ہردھکے کے ساتھ میرے ممے آگے پیچھے ہو رہے تھے ۔۔۔ پھر نبیل نے مجھے کہا جان اب تم میری گود میں بیٹھ جاؤ ۔۔۔ نبیل نیچے لیٹ گئے اور میںان کی گود میں بیٹھ گئی ۔۔۔ لن میری گانڈ میں تھا ۔۔۔۔ میں نے نبیل کی رانوں پر اپنے دونوں پیر رکھ لئے۔۔۔ اب میری پھدی کا منہ اوپر کی طرف مزید ہو گیا تھا ۔۔۔ انکل یہ دیکھ کر ہمارے قریب آئے اور اپنے لن کا ٹوپا میری پھدی میں داخل کر دیا ۔۔۔ اف ف ففف !!!! کیا بتاؤں کیا سرور تھا ۔۔ نیچے گانڈ میں لن اور اوپر پھدی میں بھی لن ۔۔۔۔ کافی دیر تک ہم ایسے ہی کرتے رہے ۔۔ پھر میرا جسم اکڑنے لگ گیا ۔۔ میں نے آہیں بھرتے ہوئے کہا نبیل میں گئی ۔۔ آآآآآآآہ ہ ہ ہ ہ۔۔۔۔۔۔۔ اور ایک زبردست جٹکے کے ساتھ میری پھدی نے پانی چھوڑ دیا ۔۔۔۔ جیسے ہی میری پھدینے پانی چھوڑا نبیل اور انکل کے لن بھی جھٹمے کھانے لگ گئے ۔۔ وہ دونوں ایک ساتھ میرے اندر ہی فارغ ہوئے ۔۔۔ ہم تینوں بے جان ہو کر بیڈ پر گر پڑے۔۔۔۔۔۔۔۔ رات میں کب ہماری آنکھ لگی کچھ پتا نہیں ۔۔ صبح جب میری آنکھ کھلی تو میں نے دیکھا ہم چاروں ایک دوسرے کی باہوں میں ننگے ہی سوئے ہوئے تھے ،۔۔۔۔یہ کچھ دن بعد کی بات ہے میں اور آنٹی کسی کام سے بازار گئی ہوئی تھی واپسی پر ہم ایک جگہ رکگئے کولڈ ڈرنک پینے کے لئے ۔۔۔۔۔۔۔ جیسے ہی ہم نے جوس پیا پتا نہیں کیا ہوا میری طبیعت ایک دم سے خراب ہو گئی ۔۔۔۔ مجھے بہت متلی ہو رہی تھی ۔۔۔۔ آنٹی مجھے ڈاکٹر کے پاس لے گئی ۔۔۔ میں سمجھی کہ شائد میں امید سے ہو گئی ہوں ۔۔ مگر ڈاکٹر کے پاس جا کر پتا چلا کہ مجھے فوڈ پوائزنہو گیا ہے ۔۔۔ ڈاکٹر فواد ایک جواںسال خوبصورت لڑکا تھا ۔۔ گھنی مونچھیں ،گہری سیاہ چمکتی ہوئی آنکھیں ،چوڑا سینہ ۔۔۔۔ لمبا قد ۔۔ سلیقے سے بنائے ہوئے بال ۔۔۔ اور بہت ٹھہرا ہوا لہجا ۔۔۔ سچ پوچھیں تو میں اس کو دیکھتے ہی اس ڈاکٹر پر فدا ہو گئی تھی ۔۔۔۔ وہ بڑے انہماک اور توجہ سے میرا چیک اپ کر رہا تھا اور میں اس کے جسم سے اٹھنے والی مسہورکن خوشبو کو اپنی سانسوں میں بسا رہی تھی ۔۔۔ مجھے کچھ خبر نہیں تھی کہ وہ کیا کہہ رہا ہے اور کیا کیا ہدایات دے رہا ہے ۔۔۔ میں تو بس اس یونانی دیوتا کے حسن میں کھوئی ہوئی تھی ۔۔۔۔ وہ میری نبض پکڑے ہوئے تھا اور میں دعاکر رہی تھی کہ یہ لمحے اب ہمیشہ کے لئے یہی رک جائیں ۔۔۔ میرے دل کی دھڑکن ایسے تھی جیسے میرا دل ابھی میری پسلیاں توڑ کر باہر نکل آئے گا ۔۔۔ میرے چہرے کی بدلتی ہوئی رنگت کو دیکھ کر آنٹی پریشان ہو گئی ۔۔ ڈاکٹر صاحب آپ دیکھیں میری بچیکی رنگت کیسی ہو رہی ہے ۔۔ ڈاکٹر فواد نے میرے چہرے کی طرف دیکھا تو وہ بھی پریشان ہو گیا ۔۔۔ وہ پھر سے میرا بی پی اور دوسری چیزیں چیک کرنے لگ گیا ۔۔ اب اس کو کون سمجھاتا کہ درد اب کہیں اور ہو رہا ہے ۔۔۔ میں ایک نظر میں ہی فواد کی دیوانی ہو گئی تھی ۔۔ دوستو میں کوئی دل پھینک قسم کی لڑکی نہیں ہوں ۔۔ مگر پتا نہیں اس فواد کی شخصیت میں کیا جادو تھا کہ مجھے یہ روگ لگ گیا ۔۔۔۔ میں کلینک سے واپس آ کر بھی واپس نہیں آئی تھی ۔۔۔ بقول شاعر گھر کہاں پہنچے ۔۔۔ ہواؤں میں بکھر آئے ہیں ۔۔۔۔۔۔ میرا دل کر رہا تھامیں پھر سے بیمار ہو جاؤں اور پھر سے اسی دشمنِ جاں کے پاس چلی جاؤں ۔۔۔ تین چار دن کے بعد مجھ سے رہا نہ گیا اور میں آنٹی کو لے کر پھر سےاسی کلینک پہنچ گئی ۔۔۔ وہاں جا کر مجھے وہ کہیں بھی نظر نہیں آیا ۔۔۔ میں نے چپکے سے نرس سے پوچھا تو اس نے بتایا کہ آج ڈاکٹر فواد چھٹی پرہے ۔۔۔ میں شلستہ دل کے ساتھ واپس آ گئی ۔۔ گھر پہنچ کر بھی سکوں نہیں آ رہا تھا ۔۔ میں بنا مقصد کار لے کر شہر کی سڑکوں پر مٹر گشت کرتی رہی ۔۔۔ جب آواراگردی سے بھی بات نا بنی تو میںایک پارک میں جا کر بیٹھ گئی وہاں میں ایک نسبتاََ ویران کونے میں جا کر اکیلی بیٹھ گئی ۔۔۔ بینچ کی پشت کے ساتھ میں نے اپنا سر ٹکا دیا اور آنکھیں بند کر کے ڈاکٹر فواد کا چہرہ اپنی سوچ کے کینوس پر لے آئی ۔۔۔ پتا نہیں کتنی دیر گزری تھی کہ مجھے ایک مانوس سی آواز سنائی دی ۔۔ ارے مس آپ یہاں اکیلی کیا کر رہی ہیں ۔۔ آواز جانی پہچانی سی تھی ۔۔ میں نے فوراََ اپنی آنکھیں کھول کر دیکھا تو میرے بلکل سامنے ۔۔ تھوڑے سے فاصلے پر ڈاکٹر فواد کا مسکراتا ہوا چہرہ دکھائی دیا ۔۔۔ میں مسکرا اٹھی ۔۔۔ کبھی کبھی تخیلات بھی کتنے پاورفل ہو جاتے ہیں کے بندہ سوچ کی دنیا سے نکل کر آپ کے سامنے آ کھڑا ہوتا ہے ۔۔۔۔ میں یہی سوچ رہی تھی کہ اس کی دلربا آواز نے ابکی بار مجھے چونکا دیا ۔۔۔ ھیلو!!!!! میڈم ۔۔۔۔ میں ایک دمچونک گئی ۔۔ یہ خیال نہیں تھا حقیقت تھی ۔۔۔ میرا محبوب میرے سامنے تھا ۔۔۔ بکل حقیقت میں ۔۔۔ جج جی جی وہ وہ میں!!!! ۔۔۔۔ میں ایک دم ہکلانے لگ گئی ۔۔۔ وہ مسکراتے ہوئے میرے پاس آیا اور کہنے لگا مس آپکی طبیعت تو ٹھیک ہے نا ؟؟؟ جج جی ڈڈاکٹر صاحب میری طبیعت ٹھیک ہے ۔۔۔ بس ویسے ہی دل گھبرا رہا تھا تو میں یہاں کھلی ہوا میں آ گئی ۔۔۔ اس دن کے بعد تو متلی نہیں ہوئی آپ کو؟؟؟ جی نہیں ڈاکٹر صاحب اس دن کے بعد تو بلکل نہیں ہوئی ہاں کبھی کبھی دل بہت گھبرانے لگ جاتا ہے ۔۔۔ میں نے رک رک کر ان کو بتایا ۔۔۔ میرا ابھی فوادسے اور باتیں کرنے کا دل کر رہا تھا مگر وہ اپنی فیملی کے ساتھ آئے ہوئے تھے ۔۔ مجھے ایسے اکیلے بیٹھے دیکھ کر میرا حال احوال پوچھنے آ گئے ۔۔۔ تھوڑی دیر بیٹھ کر وہ مجھ سے اجزت لیتے ہوئے میرے پاس سے اٹھ گئے ۔۔ ان کے جانے بعد بھی میں کافی دیر تک اسی بنچ پر بیٹھی رہی ۔۔ اور اس دشمنِ جاں کی خوشبو محسوس کرتی رہی ۔۔ پھر جب شام ڈھل گئی تو میں بھی گھر کے لئے نکل کھڑی ہوئی ۔۔۔ میرے گھر پہنچنے سے پہلے ہی نبیل اور انکل آفس سے آ چکے تھے ۔۔ بیٹی خیریت تو ہے نا ؟؟؟ کدھر چلی گئی تھی تم بنا بتائے ۔۔ آنٹی نے مجھے دیکھتے ہی مجھ سے پوچھا ۔۔ جی آنٹی وہ میں ذرا ہوا خوری کے لئے پارک گئی ہوئی تھی ۔۔ پتا نہیں آج کل کہیں بھی دل نہیں لگ رہا ۔۔ عجیب سی بے چینی ہو رھی تھی ۔۔۔ کیا بات ہے جانِ من کیوں اتنی بےچین ہو رہی ہو ۔؟؟؟ کوئی بات پریشان کر رہی ہے تو بتاؤ ۔۔۔ نہیں جان جی ایسی کوئی بات نہیں ہے ۔۔ بس ویسے ہی کبھی کبھی ایسی طبیعت ہو جاتی ہے ۔۔۔ رات کو نبیل کا موڈ ہو رہا تھا سکس کا مگر میں کسی اور ہی دنیا میں گم تھی ۔۔۔ میں نے ان کا کوئی خاص ساتھ نا دے پائی ۔۔۔۔ مجبوراََ وہ اٹھ کر اپنی امی کے پاس چلے گئے اور پھر میرے سامنے ہی انہوں نے انکل کے ساتھ مل کر آنٹی کی بھرپور طریقے سے چودائی کی ۔۔ جو دیکھ کر بھی میرے اندر کوئیہلچل نہیں ہوئی ۔۔۔۔ میں بور ہو کر اپنے کمرے میں آ کر لیٹ گئی اور تھوڑی ہی دیر کے بعد میری آنکھ لگ گئی ۔۔۔ دوسرے دن صبح ہم ناشتے کی ٹیبل پر بیٹھے تھے کہ انکل نے کہا دیکھو بیگم میں اور نبیل کچھ دن کے لئے ملک سے باہر جا رہے ہیں ایک نئی بزنس ڈیل کرنی ہے ۔۔ اور اس کے لئے ہم دونوں کا جانا ضروری ہے ۔۔۔ ہمارے پیچھے تم اور بہو فیکٹری کا خیال رکھنا ۔۔۔۔ اگر کوئی پریشانی ہوئی تو ہم سے رابطہ کر لینا ۔۔میں ان کی یہ بات سن کر تھوڑا پریشان ہو گئی ۔۔۔ جس کو نبیل نے نوٹ کر لیا ۔۔ دیکھو بیگم ہم کچھ دن کے لئے جا رہے ہیں ۔۔ زیادہ سے زیادہ ایک ہفتہ اور پھر ہم واپس گھر ہوں گے ۔۔ کیوں ابو؟؟ نبیل نے انکل کی طرف دیکھتے ہوئے کہا ۔۔ ہاں ہاں بیٹا ہم ایک ہفتے کے لئے ہی تو جا رہے ہیں ۔۔۔ وہ تو ٹھیک ہے مگر میں آپ کے ب
سفر Part 9
اور میرے دیکھتے ہی دیکھتے آنٹی نے آریان کو آواز دی ۔۔۔۔ ارے آریان پلیزززز ادھر آنا ۔۔ دیکھو مجھے کوئی چیز بہت زور سے کاٹ رہی ہے ۔۔۔بہت درد ہو رہا ہے ۔۔ پلیزززز جلدی آؤ ۔۔۔ اور آریان جو پہلے ہی حوسبھری نظروں سے آنٹی کی حرکتوں کو دیکھ رہا تھا جلدی سے اٹھ کر آنٹی کے پاس آیا اور بولا ۔۔ جیآنٹی جی کیا ہوا ۔۔۔ کہاں کاٹ رہا ہے کیڑا؟؟؟ تو آنٹی نے ایک دم اس کا ہاتھ پکڑ کر اپنے گریبان میں ڈالتے ہوئے کہا یہاں دیکھو ۔۔۔ جیسے ہی آریان کا ہاتھ آنٹی کے مموں سے ٹچ ہوا میں نے دیکھا آریان کا جسم بڑا واضع کانپا تھا ۔۔۔۔ اس نے جلدی سے اپنا ہاتھ کھینچ لیا اور بولا آنٹی جی یہ آپ کیا کر رہی ہیں؟؟ باجی آ گئی تو؟؟؟ ارے نہیں آتی ۔۔ اور اگر وہ آ بھی گئی تو اس میں گھبرانے والی کون سی بات ہے تم میرے گریبان سے کیڑا ہی تو نکال رہے ہو ۔۔ اب پلیززز جلدی سے دیکھو کہیں ایسا نا ہو کہ وہ کیڑا مجھے زیادہ کاٹ لے ۔۔۔ مگر مجھے تو کہیں کوئیکیڑا نظر نہیں آ رہا ۔۔۔ ارے بدھو ایسے تھوڑی نظرآئے گا ۔۔ ہاتھ ڈالو گے تو ہی نظر آئے گا نا ۔۔۔۔ انہوں نے پھر سے آریان کا ہاتھ اپنے گریبان میں ڈال لیا ۔۔۔ اب کی بار آریان نے بھی ہمت دکھائی اور آنٹی کے مموں کے درمیان اپنا ہاتھ ڈال دیا ۔۔۔ آنٹی جی کوئی کیڑا نہیں ہے ۔۔۔ نہیں آریان مجھے ابھی بھی ایسا لگ رہا ہے ۔۔ ایک منٹ ایسے نہیں پتا چلے گا ۔۔ یہ کہتے ہوئے آنٹی نے اپنی قمیض ایک دم اتار دی اور اب آریان کے سامنے وہ برا میں بیٹھی ہوئی تھی ۔۔۔ اب دیکھو آریان ۔۔۔ آریان نے بڑی للچائی ہوئی نظروںسے آنٹی کے مموں کو دیکھا اور پھر دیکھتے ہی دیکھتے آریان نے آنٹی کے برا کی ہک بھی کھولدی ۔۔۔ آنٹی نے مصنوعی حیرت سے آریان کی طرف دیکھا اور بولی یہ کیا کر رہے ہو آریان؟؟؟ ارے آنٹی جی برا میں کیسے نظر آئے گا کیڑا ۔۔ اس کے لئے مجھے آپ کے دودھ الگ الگ کر کے دیکھنا ہو گا کہیں سچ مچ کسی کیڑے نے کاٹ لیا تو بڑی پرابلم ہو جائے گی ۔۔۔ پھر اس نے سچ مچ آنٹی کے دونوں ممے الگ الگ سمت میں پھیلا کر ان کی گولائیاں ناپنا شروع کر دی ۔۔۔ آنٹی جی کیڑا تو بہت بڑا ہے۔۔۔ ایسے نہیں جان چھوڑنے والا آپ کی ۔۔۔ بیٹا کچھ کرو مجھے اس کیڑے نے بہت تنگ کیا ہوا ہے ۔۔۔۔ اور اس کیڑے کو اب بس تم ہی مار سکتے ہو ۔۔۔۔ آنٹی نے شہوت بھرے لہجے میں آریان سے کہا ۔۔۔۔ آپ فکر نا کریں میں آج اس کیڑے کو ایسا ماروں گا کہ آپ ساریزندگی یاد رکھو گی ۔۔۔ آریان نے آنٹی کی نپل پر گولگول اپنی انگلی کی پور کو گھماتے ہوئے کہا ۔۔۔۔ ھائے میں صدقے جاؤں ۔۔۔ میں دور کھڑی اپنے بھائی کے واری صدقے ہو رہی تھی ۔۔۔ بہت ہی پیار سے وہ آنٹی کے ممے سہلا رہا تھا جیسے وہ ممے نا ہوں کوئی کانچ کی چیز ہو جس کو اگر سختی سے پکڑا تو ٹوٹ جانے کا اندیشہ ہو ۔۔۔ آریان کو یہ ہنر کیسے آ گیا مجھے نہیں پتا ۔۔ آنٹی جی اب میرا دل گھبرا رہا ہے ۔۔۔ آریان نے آنٹی کے ایک نپل کو مسلتے ہوئے کہا ۔۔۔ کیوں بیٹا تمھارا کیوں دل گھبرا رہا ہے ؟؟؟ آنٹی جی میں نے کبھی اتنا خطرناک کیڑا نہیں دیکھا اس لیئے ۔۔۔ اب میرا دل کر رہا ہے کہ میں تھوڑا سا دودھ پی لوں تاکہ میری ہمت بحال ہو جائے ۔۔۔۔ تو ایسے بولو نہ میری جان ۔۔ یہ لو پی لو اور جتنا دل کرتا پے اتنا پیو ۔۔۔ کوئی تم کو منا نہیں کرے گا ۔۔۔ آریان نے آنٹی کا مما اپنے منہ میں لے لیا ۔۔۔ ادھر میری حالت خراب ہو رہی تھی ۔۔۔ میری پھدی میں پانی ہی پانی بھر گیا تھا ۔۔۔ آنٹی نے آریان کا منہ اپنے ممے کے ساتھ زور سے لگا دیا ۔۔ اور پیو ۔۔ پیو پیو ۔۔۔ میرے بچے خوب زور لگا کر پیو ۔۔۔ جتنا دودھ پیو گے اتنی ہی ہمت آئے گی ۔۔۔۔ آہ ہہ ہ ہ ہ ہ ہ ۔۔۔۔۔۔ شائد آریان نے آنٹی کے نپل پر کاٹ لیا تھا جس سے آنٹی کے منہ سے ایک سکسی سسکاری نکلگئی تھی ۔۔۔ افف ف ف ف میری جااااااااااااانن۔۔۔۔۔۔۔ اور زور سے۔۔۔ ھاااااااااااااا۔۔۔۔۔ آریان اب پاگلوں کی طرح کبھی آنٹی کا ایک مما چوستا اور کبھی دوسرا ۔۔۔ آنٹی نے اپنی ٹانگیں پھیلا دی تھی مگر ابھی تک انہوں نے اپنی شلوار نہیں اتاری تھی ۔۔۔۔ مجھے اب آریان کا لن دیکھنے کی خارش ہو رہی تھی ۔۔ میں چاہتی تھی کہ آریان کا لن دیکھوں ۔۔۔ میری انگلیاں آہستہ آہستہ میری پھدی پر مساج کر رہی تھی ۔۔۔۔ اور میری پھدی کا پانی اب نکل نکل کر میری ٹانگوں کو بھی گیلا کر رہا تھا ۔۔۔ آنٹی نے آریان کا منہ اپنے مموں سے ہٹا کر اپنے ہونٹوں کے ساتھ لگا لیا اور دیوانہ وار اس کے ہونٹوں کو چوسنے لگ گئی ۔۔۔ پھر وہ تھوڑی دیر بعد آریان سے بولی ۔۔۔ آریان میری جان کیا صرف دودھ ہی پیو گے؟؟؟ تھوڑا سا جوس بھی پی لو ۔۔۔ آنٹی کے لہجے میں حوس ہی حوس تھی ۔۔۔۔ آنٹی نے اپنی شلوار اتار کر ایک طرفپھینک دی اور اپنی ٹانگیں اٹھا کر اپنی بالوں سے پاک پھدی آریان کے سامنے کر دی ۔۔۔ آریان یہ دیکھ کر پاگل ہی ہو گیا وہ آنٹی کی پھدی پر ایسے ٹوٹ پڑا جیسے کوئی صدیوں سے بھوکے انسان کو کھانا مل جائے ۔۔۔ اس نے آنٹی کی پھدی کے دونوںہونٹ اپنی انگلیوں کی مدد سے کھولے اور ان پھدیکے دانے پر اپنا منہ لگا دیا ۔۔۔ جیسے ہی اس نے آنٹی کی پھدی کو ایک بھرپور چوسا لگایا آنٹی کے جسمنے ایک زبردست قسم کا جھٹکا لیا اور آنٹی نے آریان کا سر اپنے ہاتھوں میں پکڑ لیا اور اپنی پھدی کو اوپر اٹھا کر آریان کا منہ اپنی پھدی میں اور آگے کی طرف کر دیا ۔۔ آریان بیٹا کھا جاؤ اپنی آنٹی کی پھدی ۔۔۔ پھر اچانک آنٹی کا جسم اکڑ گیا اور ان کے منہ سے عجیب آوازیں نکلنے لگ گئی ۔۔ پھر آنٹی نے دو تین زور سے جھٹکے کھائے اور ٹھنڈی ہو گئی ۔۔۔ آریان کا سارا منہ آنٹی کے لیس دار پانی سے لتھڑا ہوا تھا ۔۔۔ آنٹی جی آپ کا جوس تو بہت ہی مزیدار ہے ۔۔۔ بہت مزہ آیا مجھے ۔۔۔۔ ہممممممم بیٹھا مجھے بھی بہت مزہ آیا ۔۔ مگر اصل مزہ تو ابھی باقی ہے ۔۔۔ آنٹی نے اٹھ کر آریان کی پینٹ اتار دی ۔۔۔ آریان کا موٹا اور لمبا لن دیکھ کر ایک دفعہ تو میری آنکھیں بھی حیرت کے مارے کھلی کی کھلی رہ گئی ۔۔ انتا شاندار لن میں نے آج تک نہیں دیکھا تھا ۔۔۔۔ اسے دیکھ کر میرے منہ میں بھی پانی بھر آیا ۔۔۔۔ دل تو کر رہا تھا کہ آنٹی کو اٹھا کر میں لیٹ جاؤں آریان کے سامنے اور اس کا سارا لن اپنی پھدی میں لے لوں ۔۔ مگر میں ابھی اور تماشہ دیکھنا چاہتی تھی ۔۔۔۔ آنٹی نے آریان کا لن اپنے ہاتھمیں پکڑ لیا اور اس کو پیار سے سہلانے لگ گئی ۔۔۔ جیسے ہی آنٹی نے آریان کا لن اپنے ہاتھ میں لیا آریان نے اپنی آنکھیں بند کر لی ۔۔۔ بیٹا تمھارا لن تو بہت ہی زبردست ہے ۔۔۔ کیا کھلاتے ہو اسے میری جان ۔۔۔ آنٹی نے اس کی ٹوپی پر ایک کس کرتے ہوئے آریان سے پوچھا ۔۔۔۔ آنٹی جی ابھی کہاں کھلایا ہے اسےکچھ ۔۔ ابھی یہ بہت بھوکا ہے ۔۔۔۔ ہمممم۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ چلو آج میں اس کی بھوک پیاس بجھا دیتی ہوں ۔۔۔ پھر انہوں نے اپنی زبان نکال کر لن کو اوپر سے لے کر نیچے تک چاٹنا شروع کر دیا ۔۔۔۔ اور ایک ہاتھ سے وہ آریان کے انڈے سہلا رہی تھی ۔۔۔ آریان کے انڈے بھی کافی بھرے بھرے تھے ۔۔۔میں اب اپنی انگلی کو اپنی پھدی میں اند باہر کر رہی تھی۔۔۔ آنٹی کا منہ پکڑ کر آریان نے اپنا لن ان کے منہ میں ڈال دیا ۔۔ آنٹی مزے سے اس کا لن چونتی رہی ۔۔۔ کوئی پانچ منٹ تک انہوں نے آریان کا لن چوسا اور پھر کہنے لگی آریان ۔۔۔۔اسے اب میرے اندر ڈال دو ۔۔۔ اب مجھ سے مزید برداشت نہیں ہو رہا ۔۔۔ آنٹی پھر سے آریان کے سامنے لیٹ گئی اور اپنی پھدی کے ہعنٹ اپنی انگلیوں کی مدد سے کھول کر آریان کو دعوت دینے لگی ۔۔۔ آریان نے اپنے لن کی ٹوپی آنٹی کی پھدی کے ہونٹوں کے ساتھ رگڑی ۔۔۔ بیٹا ذرا سا بھی رحم مت کرنا ۔۔ ایک ہی جھٹکے میں پورا لن اندر جانا چاہئے ۔۔۔۔ اور اپنے لن کا ایک انچ بھی باہر مت رکھنا ۔۔۔ میری پھدی میں جو آگ لگی ہوئی ہے اس کو بجھا دو ۔۔۔ آریان نے یہ سن کر آنٹی کی ٹانگیں اپنے ہاتھوں میں مضبوتی سے پکڑی اور اپنے لن کا ٹوپا پھدی پر سیٹ کر کے ایک ہی جھٹکے میں اپناپورا لن آنٹی کی پھدی میں غائب کر دیا ۔۔۔ ھائےےےےےےےےےےےےے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ میں مررررررررر گئی ییییی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ آآآآآآآآآآآہہہہہہہہہ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔آآآآآآآآآآآآریاااااااااااااانننننننن۔۔۔۔۔۔۔۔ آریان کا پورا لن پھدی کے اندر تھا ۔۔ اور اس نے آنٹی کے ہونٹ اپنے ہونٹوں کی گرفت میں لئے ہوئے تھے ۔۔۔ پھر آریان نے آہستہ آہستہ لن اندر باہر کرنا شروع کر دیا ۔۔ آنٹی کی پھدی میں بہت گرمی تھی ۔۔۔ ان کا پانی نکل نکل کر آریان کی ٹانگوں کو بھی گیلا کر رہا تھا ۔۔۔ رفتہ رفتہ آریان کی سپیڈ میں اضافہ ہوتا گیا ۔۔۔ اور وہ آنٹی کی پھدی میں اپنا لن کسی پسٹن کی طرح چلانے لگا ۔۔ کمرے میں آنٹی اور آریان کی سکسی آوازیں گونج رہی تھی ۔۔۔ اففففففففف۔۔۔۔۔ بیٹا رکو ایک منٹ ۔۔۔ آنٹی نے لمب لمبےسانس لیتے ہوئے آریان سے کہا ۔۔۔ وہ رک کر آنٹی کی طرف دیکھنے لگا ۔۔۔ آنٹی نے لن کو پھدی سے باہر نکالا اور پھر سے اپنے منہ میں لے لیا ۔۔ تین چار بھرپور قسم کے چوپے لگا کر آنٹی آریان کے سامنے گھوڑی بن گئی ۔۔۔ اب ڈال اپنا یہ گھوڑا میری گھوڑی میں ۔۔۔ آریان نے آنٹی کو ہپس سے پکڑ کر تھوڑا سا اوپر کیا اور اپنا لن پھر سے ان کی پھدی میں ڈال دیا ۔۔۔ آریان اب پورے جوش اور پوری طاقت سے آنٹی کی پھدی مار رہا تھا ۔۔۔ پھر اچانک وہ کہنے لگا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔آآآآآآآؤؤہہہہہہہ آنٹی جی۔۔۔۔۔۔۔۔۔ میں جانے لگا ہوں ۔۔۔ نکلا بیٹا اپنا سارا پانی نکلا ۔۔۔۔۔۔۔ باہر نکالوں یا اندر ہی ؟؟؟ آریان نے دھکے مارتے ہوئے آنٹی سے پوچھا ۔۔ بیٹا اندر ہی نکلا دے ۔۔۔۔ میری پھدی بہت پپ پ پیااااااا سسسسسس ییی۔۔۔۔۔۔۔ ھائےےےےےےےےےے ۔۔۔۔۔۔ آنٹی کی زبان اب لڑکھڑانے لگی تھی ۔۔ اور ساتھ ہی آریان کے منہ سے بھی عجیب سی آواز نکلی ۔۔۔۔۔ وہ بھی ڈسچارج ہونے لگا تھا ۔۔۔۔ اور میری پھدی کاپانی بھی اس کے منہ تک آ گیا تھا ۔۔۔ میں نے اپنی دو انگلیاں اپنی پھدی میں ڈالی ہوئی تھی ۔۔۔ اورپاگلوں کی طرح ان کو اندر باہر کر رہی تھی ۔۔۔ مجھے ایسا لگا جیسے میری ٹانگوں کے راستے میری جان نکل رہی ہے ۔۔۔۔ آنٹی نے ایک زور دار چیخ ماری اور بیڈ پر آگے کی طرف گرنے لگی ۔۔ مگر آریان نے آنٹی کی کمر کو کس کے پکڑا ہوا تھا ۔۔ جس کی وجہ سے وہ ایسا نا کر سکی ۔۔ اور آریان نے فل پاور کے ساتھ اپنا لن پھدی کے اندر باہر کرنا جاری رکھا۔۔۔۔ایک بھپور جھٹکا لیا آریان نے اور تین چار اور زبردست قسم کے جھٹکے مار کر وہ بھی آنٹی کے اوپر ہی گر گیا ۔۔ ادھر میں بھی ڈسچارج ہو چکی تھی ۔۔ اور اب مجھ سے کھڑا نہیں ہوا جا رہا تھا ۔۔ میں بے جان ہو کر وہیں فرش پر لیٹ گئی ۔۔میری شلوار اتری ہوئی تھی اور قمیض اوپر تھی۔۔ میرے ممے ننگے تھے ۔۔۔۔ مجھے نہیں پتا چلا کہ کب آنٹی اور آریان نے کپڑے پہنے ۔۔۔۔۔ میں بڑی مشکل سے لڑکھڑاتی ہوئی ٹانگوں کے ساتھ اپنے کمرے میں واپس آ کر اپنے بیڈ پر گر گئی ۔۔۔۔۔۔۔مجھے ایک بار پھر سے نیند کی مہربان دیوی نے اپنی آغوش میں لے لیا ۔۔۔ جب میری آنکھ کھلی تو مجھے اپنی ٹانگوں میں بہت درد محسوس ہو رہا تھا ۔۔۔ پت نہیں کیوں ۔۔۔۔ مجھے سے اٹھا بھینہیں جا رہا تھا ۔۔ میرا سر بہت چکرا رہا تھا ۔۔۔ اور میں ایسے لگ رہی تھی جیسے میں صدیوں کی بیمار ہوں ۔۔۔ میں آریان کے ساتھ کلینک گئی ۔۔ وہاں بلکل سامنے ڈاکٹر فواد بیٹھے ہوئے تھے ۔۔۔۔۔۔۔۔ان کو دیکھتے ہی میرے دل میں درد کی ایک ٹیس اٹھی ۔۔۔۔۔۔ وہ کہتے ہیں نا کہ درد آپ چھپا بھی لوتو آنکھیں سب حال کہہ دیتی ہیں ۔۔ بس کچھ ایسا ہی میرے ساتھ بھی ہوا تھا۔۔۔۔۔۔۔ میں جس فواد کے سامنے بیٹھی تو انہوں نے میری کلائی پکڑ کر میری نبض چیک ی ۔۔۔۔۔ ان کے ہاتھ کا لمس تھا یاکچھ اور تھا ۔۔۔۔۔ ایک عجیب سا سکون میرے رگ و پے میں اتر گیا ۔۔۔۔۔ جی چاہ رہا تھا کہ یہ وقت یوں ہی رک جائے ۔۔۔۔۔ دوستو عجیب بات یہ تھی کہ فواد کو دیکھ کر مجھے کسی قسم کی سکس کی خواہش نہیں ہوتی تھی ۔۔۔ وہ دشمنِ جاں اک ادا سے بولا ۔۔۔ دیکھیں مس نوشی میرے خیال میں آپ ریسٹ نہیں کر رہی ہیں جس کی وجا سے آپ کے ساتھ یہ پرابلم ہے ۔۔ آپ کو بیڈ رسٹ کی سخت ضرورت ہے ۔۔۔ میں آپ کو کچھ ادویات لکھ کر دیتا ہوں وہ کھا لیں ۔۔۔۔۔۔ بہت جلد آپ ٹھیک ہو جائیں گی ۔۔۔ اب اسے کونسمجھاتا کہ یہ درد اور یہ جلن کیا ہے ۔۔۔۔ وہ میرے دل کی حالت سے بے نیاز نسخہ لکھ رہا تھا اور میں بس ہونکوں کی طرح اس کے چہرے کو دیکھ رہی تھی ۔۔ اس نے میری آنکھوں کے سامنے اپنا ہاتھ لہراتے ہوئے کہا ۔ ھیلو مس۔۔۔۔۔۔۔۔آآآآں ھاں؟؟؟ میں نے ایک دم سے ہوش میں آتے ہوئے کہا ۔۔۔کدھر کھو گئی آپ؟؟؟ جی کہیں نہیں ۔ میں کھسیانی ہو کر بولی۔۔۔۔۔۔۔۔ جیسے میری چوری پکڑی گئی ہو ۔۔۔۔۔۔۔۔ مگر وہ ہر بات سے بے نیاز اپنے مشورے اور صلاح دیتا رہا ۔۔۔ وہ کیا کہہ رہا تھا اور کیا سمجھا رہا تھا مجھے کچھ خبر نہیں تھی ۔۔۔۔۔۔۔ میں تو کسی اور ہی دنیا میں گم تھی ۔۔۔۔۔ گھر آ کر بھی میں گم سم رہی ۔۔۔۔۔ جس کو آنٹی نے نوٹ کر لیا ۔۔۔ وہ میرے پاس بیڈ پر بیٹھ کر میرا ہاتھ اپنے ہاتھوں میں لے کر بولی ۔۔۔۔ پتا نہیں کیوں ۔ مگر مجھے ایسا لگ رہا ہے جیسے تم ابھی بھی کلینک میں ہی ہو ۔۔۔۔۔۔ کیا مطلب آنٹی جی؟؟؟ میں نے حیران ہوتے ہوئے ان سے پوچھا ۔۔۔۔۔ جب بھی تم ڈاکٹر فواد کے کلینک سے ہو کر آتی ہو تو پھر تم کافی دیر تک گم سم رہتی ہو ۔۔۔۔۔۔ کہیں کوئی پیار شیار کا چکر تو نہیں چل رہا محترمہ کا ؟؟؟؟ آنٹی نے مجھے ٹہوکہ دیتے ہوئے شرارتی انداز میں پوچھا ۔۔۔۔۔۔ میں ایک دم اپنی چوری پکڑے جانے پر گڑبڑا گئی ۔۔ نن نہیں آنٹی جی ایسی کوئی بات نہیں ہے ۔۔ بس طبیعت بوجھل ہو رہی ہے ۔۔۔ دن رات اسی بے درد انسان کے خیالوں میں گزرتے رہے ۔۔۔۔۔۔ ایک دن شام کو میں واک کر کے واپس گھر جا رہی تھی پارک کے گیٹ سے باہر ننکل رہی تھی کہ میرا سامنے وہی مولوی عاشق صاحب تھے ۔۔ میں نے دیکھتے ہی سلام کہا ۔۔ سالام کا جواب دے کر وہ بولے محترمہ کیسا چل رہا ہے آپ کے شوہر اور سسر کا کام؟؟؟ جی اچھا ہے ۔۔۔ آپ یہاں کیسے عاشق صاحب ۔۔ میں نے ہلکی سی مسکراہٹ کے ساتھ ان سے پوچھا ۔۔۔۔ میں نے ٹائٹ پاجامہ اور ٹی شرٹ پہنی ہوئی تھی اور میرے کانوں میں ہیڈ فون لگے ہوئے تھے ۔۔۔ گلا دوپٹے سے عاری تھا ۔۔۔۔۔ ٹی شرٹ کا گلا اتنا کھلا نہیں تھا مگر کافی فٹنگ میں تھی ۔۔۔ جس کی وجہ سے میرے ممے کافی نمایاں ہو رہے تھے ۔۔۔۔میں نے شرٹ کے نیچے برا نہیں پہنا ہوا تھا ۔۔۔ جس سے میرے نپلز واضح ہو رہے تھے ۔۔۔ اور مولوی عاشق کی نظریں بار بار میرے سینے کا طواف کر رہی تھی ۔۔۔ اس کی نظروں کو محسوس کرتے ہوئے میں نے بھی اپنا سینہ آگے کی طرف کس لیا تھا اور مولوی واشق بار بار اپنے ہونٹوں پر زبان پھیر رہا تھا ۔۔۔۔ جی میں بھی اس وقت یہاں واک کرنے کے لئے آتا ہوں ۔۔۔۔۔ تو پھر کیا سوچا ہے آپ لوگوں نے؟؟؟ یہ کام کب سے بند کر رہے ہیں؟؟؟ عاشق صاحب آپ کو پرابلم کیا ہے ہمارے کام سے؟؟؟ میں نے چڑتے ہوئے ان سے کہا ۔۔۔۔ مولوی عاشق نے اپنی داڑھی پر ہاتھ پھیرتے ہوئے کہا کہ جو بھی پرابلم ہے وہ آپ کوکچھ ہی دن میں پتا چل جائے گا۔۔ اگر آپ نے اپنا یہ حرام کام بند نہیں کیا تو ۔۔۔۔ مولوی عاشق کے لہجےمیں دھمکی تھی جس کو سن کر مجھے غصہ آ گیا ۔۔۔۔ چلیں پھر اگر آپ کی یہ دھمکی ہے تو ہم بھی دیکھیں گے کہ آپ کون سا تیر مار لیتے ہیں ۔۔۔۔ یہ کام تو اب ہم بند نہیں کرنے والے ۔۔۔ آپ سے جو ہوتا ہے کر لیں ۔۔۔۔ لڑکی۔۔۔ تم نہیں جانتی تم کس سے بات کر رہی ہو ۔۔ ہم عورتوں کے منہ نہیں لگتے ورنہ ابھی بتا دیتے کہ ہم کیا کر سکتے ہین اور کیا نہیں کر سکتے ۔۔۔ مولوی عاشق کے منہ سے غصے کی وجہ سے جھاگ نکل رہی تھی ۔۔۔۔ اور اس کا چہرہ سرخ ہو رہا تھا ۔۔۔ اگر آپ عورتوں کے منہ نہیں مگتے تو پھر میرے پاس کسی عورت کو ہی بھیج دیں میں ااس سے بات کر لیتی ہوں یا پھر آپ میرے سسر اور شوہر سے ہی بات کر لیں ۔۔۔ اتنا کہہ کر میں اپنی کار میں بیٹھ گئی ۔۔۔ اور وہ مولوی غصے کی حالت میں ادھر ہی کھڑا پتا نہی کیا کہہ رہا تھا ۔۔ میں گھر واپس آئی تو کافی پریشان تھی ۔۔۔ میں نے ساری بات آنٹی کو بتا دی کہ آج کیاہوا ہے ۔۔ میری ساری بات سن کر آنٹی بھی پریشان ہو گئی ۔۔۔ ایک منٹ رکو میں ابھی انسپکٹر منیر سے بات کرتی ہوں ۔۔۔ انہوں نے جلدی سے منیر کا نمبر ڈائل کیا ۔۔ دوسری ہی بیل پر دوسری طرف سے فون اٹھا لیا گی ۔۔۔ آنٹی نے ان کو فوری طور پر گھر آنے کا کہا ۔۔ آنٹی کی آواز سے پریشانی جھلک رہی تھی ۔۔۔ تیس منٹ تک انسپکٹر منیر ہمارے گھر میں داخل ہو رہا تھا ۔۔۔۔ آنٹی نے ان کو ڈرائنگ روم میں لے کر بیٹھ گئی ۔۔ اور آج کی ساری بات ان کو بتا دی ۔۔۔ ہمممممم۔۔۔۔۔۔۔۔۔ انسپکٹر منیر نے اپنی گھنی مونچھوں کو تاؤ دیتے ہوئے ہنکارا بھرا ۔۔۔۔ ارے میڈم جی آپ پریشان کیوں ہو رہی ہیں ۔۔۔۔۔۔ اس مسئلے کا حل نکال لیتے ہیں ۔۔ آپ فکر نہ کریں ۔۔۔۔ میں دیکھرہی تھی کہ منیر کی نظریں بار بار آنٹی کو موٹے مموں کا طواف کر رہی تھیں ۔۔۔ بہت شکریہ منیر صاحب ہمیں تو اس مولوی نے بہت پریشان کر کے رکھ دیا ہے ۔۔ آپ سے بات کر کے مجھے کچھ تسلی ہو گئی ہے ۔۔۔۔ آنٹی نے انسپکٹر منیر سے کہا ۔۔۔۔۔۔ آج آپ کے شوہر اکمل صاحب اور نبیل صاحب نظر نہیں آ رہے ۔۔ ابھی تک فیکٹری میں ہی ہیں کیا ؟؟؟ منیر نے سوال کیا ۔۔ ارے مجھے بتانا یاد ہی نہیںرہا وہ دونوں آج کل ملک سے باہر گئے ہوئے ہیں ۔۔۔ کچھ دن تک آ جائیں گے ۔۔ اچھا ۔۔۔۔ ٹھییک۔۔۔ منیر نے ٹھیک کو تھوڑا لمبا کر کے کہا ۔۔۔ آپ ایزی ہو کر بیٹھیں میں کھانے کا انتظام کرواتی ہوں ۔۔۔ آنٹی نے اٹھتے ہوئے کہا ۔۔۔ ارے نہیں نہیں ۔۔ میڈم جی کھانے کی فکر نا کریں ابھی میرے کھانے کا ٹائم نہیں ہوا ہے ۔۔ آپ بس بیٹھیں میرے پاس ۔۔۔۔ انسپکٹر نے آنٹی کا ہاتھ پکڑتے ہوئے ان کو صوفے پر واپس بٹھا دیا ۔۔۔ مجھے ابھی کھانے کی بھوک نہیں ہے ۔۔۔ تو پھر کس چیز کی بھوک ہے جناب آپ کو ؟؟؟ آنٹی نے ہنستے ہوئے انسپکٹر منیر کی دکھتی رگ کو چھیڑا ۔۔ جج جی کک کیا مم مطلب!!!!!۔۔۔ منیر ایک دم سے ہکلا گیا ۔۔۔۔ ہا ہا ہا ہا اہاہاہاہاہاہاہا۔ کچھ نہیں منیر صاحب ۔۔۔ میں نے ویسے ہی ایک بات کی ہے ۔۔۔۔ منیر کی آنکھوں میں حوس صاف نظر آ رہی تھی ۔۔۔ اس سے پہلے کہ آنٹی کی حرکتیں منیر صاحب کو کچھ کرنے پر مجبور کرتی انکو تھانے سے فون آ گیا اور منیر کو ایمرجنسی تھانے جانا پڑ گیا ۔۔۔جاتے جاتے وہ آنٹی سے کہہ گئے کہ رات کو فون کرنا آپ سے بات کرنے کا دل کر رہا ہے ۔۔۔۔ آنٹی نے ہلکی سی مسکراہٹ منیر کی طرف اچھالی اور رات کو فون کرنے کا وعدہ کر لیا ۔۔۔۔ منیر کے جانے کے بعد میں نےآنٹی سے کہا آنٹی جی آپ منیر صاحب کو اتنا کیوں تڑپا رہی ہیں؟؟ ۔۔۔۔۔۔۔ اس کی پیاس ختم کر دیں اب ۔۔۔ ارے میری جان میری تو خود پیاس اپنے عروج پر ہے ۔۔۔ مگر کیا کروں جب بھی منیر کو دیکھتی ہوں تو اس کو تڑپانے کا دل کرتا ہے ۔۔۔۔۔۔ ہی ہی ہی ہی ہی ہی ہی ہی ہی ۔۔۔۔۔ ہم دونوں ہنس دی ۔۔۔۔ اگلے دن آنٹی کی ایک سہیلی ان سے ملنے کے لئے آ گئی میں ان کو اچھی طرح سے جانتی تھی ان کے ساتھ ایک اور خاتون بھی تھی جو بڑی سی چادر سے خود کو ڈھانپے ہوئے تھیں اور اس خاتون نے نقاب بھی کیا ہوا تھا ۔۔۔ ان کی آنکھیں بہت غضب کی تھیں ۔۔۔ گہری سبزی مائل ۔۔۔ بڑی بڑی اور لمبی گھنیری پلکیں ۔۔۔ میں دیکھ رہی تھی کہ وہ صوفےپر بیٹھی ہوئی تھی مگر ابھی تک انہوں نے اپنانقاب نہیں ہٹایا تھا ۔۔۔۔ میں نے کہا آنٹی جی آپ نقابتو ہٹا دیں ۔۔۔ ہم سے کیا پردہ کر رہی ہیں ۔۔۔۔ نہیں جیوہ وہ وہ ۔۔۔۔ وہ کچھ کہنا چاہ رہی تھی مگر شائد ہچکچا رہی تھی ۔۔۔۔ پھر آنٹی کی دوست نصرت نےان سے کہا ۔۔ ارے آسیہ بہن یہاں کوئی مرد نہی ہے آپ اپنا نقاب ہٹا دیں ۔۔۔ اصل میں ان نے گھر میں پردے کی کافی پابندی ہے اور یہ کسی بھی مرد کے سامنے اپنا نقاب نہیں ہٹاتی ہیں ۔۔۔ میں نے ہنس کے کہا آسیہ آنٹی جی آپ پریشان نا ہوں سب مرد گھر ے باہر ہیں ۔۔ اور اگر کوئی آیا بھی تو اس کمرے میں نہیں آئے گا ۔۔۔۔ آپ ایزی ہو کر بیٹھیں ۔۔۔۔۔ جیسے ہی انہوں نے اپنا نقاب ہٹایا میں ان کے چہرے کو دیکھتی ہی رہ گئی ۔۔۔ فراخ ماتھا ۔۔ گھنی پلکیں ۔۔۔ ستواں ناک ۔۔۔ اور گلاب کی پنکھڑی جیسے ہونٹ ۔۔ اور گورا رنگ ۔۔۔۔ میں دیکھتی رہی ۔۔۔ میں نے فوراََ ان کی نظر اتاری ۔۔ ارے ہی کیا کر رہی ہو بیٹی ۔۔۔ وہ ایک دم سے ہکلا گئی ۔۔۔۔ کچھ نہیں آنٹی جی آپ کی نظر اتار رہی ہوں ۔۔ کہیں میری ہی نظر نا لگ جائے آپ کو ۔۔۔ چائے پی کے ہم ادھر ادھر کی باتیں کرنے لگ گئے ۔ باتوں باتوں میں ہمارے کاروبار کا تذکرہ نکل آیا ۔۔۔ اس سے پہلے کہ میں کچھ بولتی میری ساس بول پڑی جی بہن وہ ہمارا امپورٹ ایکسپورٹ کا کام ہے ۔۔۔ اچھا اچھا ۔۔۔ کیا ایکسپورٹ کرتے ہیں؟؟ آسیہ نے پوچھا تو ہم دونوں گڑبڑا گئی کہ اب کیا کہا جائے ۔۔۔اتنے میں شائد آنٹی نصرت کو سمجھ آ گئی تھی کی ہم ان کی دوست کے سامنے اپنے کام کو زیادہ ڈسکس نہیں کرنا چاہ رہے ۔۔۔۔۔ انہوں نے بات کو سنبھال لیا ۔۔ ارے آسیہ یار یہ عورتوں کے استعمال کی چیزیں ایکسپورٹ کرتے ہیں ۔۔ اپنی فیکٹری لگائی ہوئی ہے انہوں نے ۔۔۔ چلیں جی یہ تو اچھا ہے ۔۔ کاماپنا ہی ہو تو بہتر رہتا ہے ۔۔ بس ایک بات کی سمجھنہیں آئی کہ یہ خالص عورتوں کے استعمال کی کون سی چیزیں ہیں جو آپ لوگ بناتے ہیں؟؟؟۔۔۔۔۔ میں نے ہچکچاتے ہوئے پوچھا آپ دیکھنا چاہیں گی وہ سب چیزیں؟؟ جی ضرور ۔۔ وہ بولی ۔۔۔ مگر میں نے دیکھا میری ساس کے چہرے پر تذبذب کے آثار تھے ۔۔ وہ شائد نہیں چاہتی تھی کہ میں ان کو یہ سب دکھاؤں ۔۔۔ مگر میں فیصلہ کر چکی تھی ۔۔۔ اتنی دیر میں آسیہ آنٹی بولی جی وہ آپ لوگوں کا واشروم کدھر ہے؟؟ جی وہ سامنے ہے ۔۔۔ میں نے ڈرائنگ روم کے اٹیچ باتھ کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا ۔۔ وہ جیسے ہی واشروم گئی مجھے آنٹی نصرت نے سرگوشی میں کہا بیٹی تم جانتی بھی ہو کہ یہ کون ہیں؟؟ جج جی نن نہیں ۔۔ جس طرح انہوں نے ایک دم پریشان ہو کر کہا تھا مجھے خطرے کہ گھنٹی سنائی دی ۔۔۔۔ ارے بیٹی وہ اسی مولوی عاشق کی بیوی ہیں ۔۔۔ کیا؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟۔۔۔۔۔۔۔۔۔ میرا اور میری ساس کا منہ کھلے کا کھلا رہ گیا ۔۔۔۔ آنٹی آسیہکے الفاظ میرے کان کے قریب کسی بم کی طرح پھٹے ۔۔۔۔ او مائی گاڈ۔۔۔۔۔ رئیلی؟؟؟مجھے اپنے کانوں پر یقین نہیں ہو رہا تھا ۔۔۔ آپ کیا کہہ رہی ہیں آنٹی جی ۔۔۔ میں وہی کہہ رہی ہوں جو تم سن رہی ہو ۔۔۔۔ اب کیا کرنا ہے ؟؟ میری ساس کے چہرے پر ہوائیاں اڑ رہی تھی ۔۔ کرنا کیا ہے میری پیاری ساسو ماں جی ۔۔ اب جو ہوگا دیکھا جائے گا ۔۔۔ میں نے ایک دم سے پر سکون ہوتے ہوئے کہا ۔۔۔ آپ دونوں خواتین بس دیکھتی جائیں آپ کی یہ پٹاخہ بہو کیا کرتی ہے ۔۔۔ اس مولوی کی تو آج میں بینڈ نہ بجا دوں تو کہنا ۔۔۔۔ میرے چہرے پر ایک شیطانی مسکراہٹ تھی ۔۔۔ اتنی دیر میں آسیہ آنٹی واشروم سے باہر آ گئی تھی ۔۔۔ کیا بات ہے بھئی آپ دونوں سہیلیوں کے چہرے پر یہ پریشانی کیسی ہے؟؟ کچھ نہیں آنٹی جی یہ بس ایسے ہی ہیں۔۔۔ میں نے جواب دیا۔۔۔ تو کیا خیال ہے چل کے دیکھیں پھر کیا چیزیںہم بناتے ہیں؟؟؟ میں نے سوال کیا ۔۔۔۔ ہاں ہاں کیوں نہیں ۔۔۔ میں ان کو لے کر اپنے بیڈ روم میں آ گئی جہاں ہمارے بنائے ہوئے کافی سارے پلاسٹک کے لنمیرے دراز میں پڑے ہوئے تھے ۔۔۔ میں نے آسیہ آنٹی کو بیڈ پر بٹھایا اور دراز کھول کر ایک درمیانے سائز کا لن دراز سے نکال لائی جسے دیکھ کر آسیہ کی سٹی گم ہو گئی ۔۔۔۔ یہ یہ یہ یہ کک ککک کیا ہہہ ہے؟؟ ان کے چہرے پر ہیجان کی سی کیفیت تھی ۔۔۔ اور ماتھے پر پسینہ آ گیا تھا میری پیاریآنٹی جی یہی تو ہے وہ چیز جو ہم بناتے ہیں ۔۔۔ اور باہر کے ملکوں میں بھیجتے ہیں ۔۔۔ کک کککک کیا ممم مط لب ۔۔۔۔ ان کے منہ سے ٹھیک سے آواز بھی نہی نکل رہی تھی ۔۔ میں اس ساری صورتِ حال سے لطف اندوز ہو رہی تھی ۔۔۔ ان کے رویے سے لگ رہا تھا کہ ان کو یہ سب اچھا نہی لگ رہا مگر ان کی نظریں چاہنے کے باوجود میرے ہاتھ میں پکڑے ہوئے لن پر سے ہٹنے کا نام نہی لے رہی تھی ۔۔۔ وہ بار بار اپنے ہونٹوں پر اپنی زبان پھیر رہی تھی ۔۔۔۔ اور چہرے کا رنگ سرخ ہو رہا تھا ۔۔۔ میں ان کے بہت پاس جا کر بیٹھ گئی ۔۔۔۔ آسیہ آنٹی کیا ہوا؟؟؟ آپ کی طبیعت تو ٹھیک ہے نا ۔۔۔۔۔ میں نے ان کے کاندھے پر اپنا ہاتھ رکھتے ہوئے پوچھا ،،، جج ج ججی جی وہ ووو وہ جی میں ٹھیک ہوں مگر یہ تم کیا پکڑ لائی ہو ۔۔۔ اسے ہٹاؤ ۔۔۔ وہ بہت زیادہ گھبرا رہی تھی ۔۔ میں نے وہ پلاسٹک کا لن میز پر رکھ دیا اور پانی کا گلاس ان کے ہاتھوں میں تھما دیا ،۔۔۔۔۔ یہ لیں پانی پیئں۔۔۔۔ آسیہ نے جلدی سے میرے ہاتھ سے پانی کا گلاس پکڑا او
سفر Part 10
فففففففف۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ان کے منہ سے سسکاری نکلی ۔۔۔۔ میں نے ایک بھپور چوسا لگایا تو وہ تڑپ سی گئی ۔۔۔۔ آآآآآہہہہ ۔۔۔۔۔۔ بیٹی آرام سے ۔۔۔۔ یہ ابھی تک کنوارے ہی ہیں ۔۔۔ ان کا کنوارا پن دھیرے دھیرے دور کرو ۔۔۔۔۔۔انہوں نے میرا سر پیچھے کرتے ہوئے کہا ۔۔۔ جی آنٹی جی میں اب خیال کروں گی ۔۔ آپ کے ممے ہی اتنے مزے کے ہیں کہ میں خود پر کنٹرول نہی رکھ پائی ۔۔۔ایک بار پھر سے میں نے ان کے دوسرے نپل کو اپنےمنہ میں لے لیا اور دوسرے ممے کو اپنے ہاتھ سے دبانےلگ گئی ۔۔۔ اب ان کی برداشت بھی جواب دے رہی تھی ۔۔۔ ان کے منہ سے اب سسکیوں کا طوفان نکل رہا تھا ۔۔۔۔ پھر میں نے ان کو کھڑا کر کے ان کی شلوار بھی اتار دی ۔۔ وہ میرے سامنے بلکل ننگی کھڑی تھی ۔۔۔ اور ان کی پھدی پر چھوٹے چھوٹے بال تھے ۔۔۔۔ گوری چٹی پھدی پر کالے کالے بال بہت ہی پیارے لگ رہے تھے ۔۔ میں نے بے اختیار ان کو چوم لیا تو وہ ایک دم سے شرم گئی ۔۔۔ کیا ہوا میری جان؟؟ میں نے ان سے پوچھا ۔۔۔ آج تک انہوں نے میری جگہ کو نہی چوما۔۔آج تم نے چوما ہے تو عجیب سا لگا ہے ۔۔۔ انہوں نےشرماتے ہوئے کہا ۔۔۔۔ ارے میری پیاری آنٹی جی آج میں آپ کو ایسا پیار دوں گی کہ آپ اپنے شوہر کا پیار بھول جائیں گی ۔۔۔ میں نے ان کو بیڈ پر لٹا کر ان کی ٹانگیں کھولی اور انپنے ہونٹ ان کی پھدی سے لگا دئیے ۔۔۔ آہہہہہہہہہ۔۔۔۔۔۔۔۔ ان کے جسم نے ایک جھٹکا کھایا ۔۔۔ اور انہوں نے اپنی ٹانگیں سمیٹنے ک کوشش کی مگر میرا سر ان کی ٹانگوں کے درمیان تھا جس کی وجہ سے وہ ایسا نہ کر سکی ۔۔۔۔ میں نے ایک انگلی ان کی پھدی میں داخل کر دی ۔۔۔ وہ مزے سے سسکنے لگی ۔۔۔ آآآآآآہہہہ ۔۔۔۔۔ اففففف بیٹی اب اسے اندر کرو میرے ۔۔ مجھ سے برداشت نہی ہو رہا ۔۔۔۔ تم نے میرے سارے جسم کو آگ لگا دی ہے۔۔ اس آگ کو بھجا دو اب ۔۔۔۔ میں نے لنکو ایک بار پھر سے اپنے منہ میں لے کر اسے اچھی طرح سے گیلا کیا اور پھر اس کا ٹوپا آسیہ آنٹی کی پھدی کے اوپر رکھ کر ان کے پھولے ہوئے دانے کو مسلا ۔۔۔ وہ اپنا سر اِدھر ادھر پٹخ رہیتھی اور اپنی کمر کو اوپر کر کے لن کو اندر لینے کی کوشش کرنے لگی ۔۔۔ ان کا پانی اتنا زیادہ تھا جس کی وجہ سے ان کی رانیں بھی گیلی ہو گئی تھی ۔۔۔۔ میں نے ہلکا سا دھکا لگا کر لن کی ٹوپی پھدی میں داخل کر دی ۔۔۔۔ ان کے جسم نے ایک جھٹکا لیا اور انہوں نے اپنے ممے اپنے ہاتھوں میں لے کر ان کو دبانا شروع کر دیا ۔۔۔ میں نے ٹوپا باہر نکال کر ان کی پھدی کو اوپر سے نیچے اور نیچے سے اوپر کی طرف رگڑا ۔۔۔ جس سے ان کو اور بھی مزہ آ رہا تھا ۔۔۔ بیٹی کیا آج میری جان نکالنی ہے تم نے؟؟؟ اب ڈال دو اندر کیوں اتنا تڑپا رہی ہو مجھے ۔۔۔۔۔۔۔ میں نے پھر ایک جھٹکا دیا اور لن آدھا ان کیپھدی کے اندر چلا گیا ۔۔۔۔ وہ ایک دم سے تڑپ کے اٹھی اور میرے ہاتھ کو کلائی سے پکڑ لیا ۔۔۔ اففففففف۔۔۔۔۔۔۔ ظالم یہ بہت درد کر رہا ہے ۔۔۔ ذرا رکو ۔۔۔۔ میں نے ان کا ہاتھ ہٹایا اور لن باہر نکال کر ایک اور جھٹکا دیا جس سے لن اب کی بار ادھے سے زیادہ اندر چلا گیا ۔۔۔ انہوں نے ایک ہلکی چیخ ماری ۔۔۔ اور میرا ہاتھ ایک بار پھر روکنے کی کوشش کی ۔۔ مگر میں اب کہاں رکنے والی تھی ۔۔۔ میں نے پہلے دو جھٹکوں سے بھی زیادہ زور سے ایک اور جھٹکا مارا اور سارار لن جڑ تک داخل کر دیا ۔۔۔۔ ان کے منہ سے ایک زوردار قسم کی چیخ نکلی جسے سن کر ساتھ والے کمرے سے میری ساس اور نصرت آنٹی بھی آ گئی ۔۔۔۔۔ اندر کا منظر دیکھتے ہی دونوں خواتین حیران رہ گئی ۔۔۔ آسیہ سے اپنی ٹانگیں ساتھ جوڑ لی تھی جس سے مجھے اب تھوڑی پریشانی ہو رہی تھی ۔۔۔۔ میری ساس اور نصرت آنٹی کو دیکھتے ہی آسیہ نے اپنے اوپر بیڈ کی چادر لے لی۔۔ ارے ارے ارے میری جان یہ کیا ظلم کر رہی ہو ۔۔۔ کیوں اپنا خوبصورت جسم ہم سے چھپا رہی ہو ۔۔۔۔ میری ساس نے ان کے جسم سے چادر ہٹاتے ہوئے کہا ۔۔ آسیہ شرما رہی تھی اب ۔۔۔۔ میری ساس نے ایک جھٹکے سے ان کے جسم سے چادر ہٹا دی اور بھوکی شیرنی کی طرح آسیہ کے مموں پر پل پڑی۔۔۔۔ جیسے ہی میری ساس نے آسیہ کا مما اپنے منہ میں لے کر ایک چوسا لگایا آسیہ کی ٹانگیں تھوڑی دیر کے لئے ڈھیلی ہو گئی ۔۔۔ جس کا فائدہ اٹھاتے ہوئے میں نے ایک زور کا جھٹکا لگایا اور سارا لن جڑتک ان کی پھدی میں داخل کر دیا ۔۔۔نصرت نے آسیہ کے ہونٹ اپنے ہونٹوں میں لئے ہوئے تھی آسیہ کے منہ سے نکلنے والی سسکیاں ان کے منہ میں ہی دبی رہ گئی ۔۔۔۔ پانچ یا چھ منٹ کے بعد ہی آسیہ کا جسم اکڑنے لگ گیا ۔۔۔ میں سمجھ گئی کہ اب کام ختم ہونےکے نزدیک ہے ۔۔ میں نے اپنی رفتار تیز کر دی ۔۔ اور جیسے جیسے میری رفتار تیز ہو رہی تھی آسیہ کی سسکاریاں بھی تیز ہو رہی تھی ۔۔ آآآآہہہہہہہہہ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ہااااااااااااااا۔۔۔۔۔۔۔ اوئی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ پھر آسیہ نے ایک جھٹکا لیا اور اٹھ کر مجھ سے لپٹ گئی ۔۔۔ اس کی پھدی نے بہت سا پانی چھوڑدیا تھا۔۔۔۔ اور میری پھدی پانی سے لبالب بھری ہوئی تھی ۔۔۔ اور میرے جسم سے جیسے آگ کی لپٹیں اٹھ رہی تھی ۔۔۔۔ میں نے اپنی پھدی نصرت آنٹی کی طرف کر کے کہا آنٹی جی اب اس کا بھی کچھ کریں یہ پانی چھوڑ رہی ہے ۔۔۔ میری پانی سے بھری ہوئی پھدی دیکھ کر نصرت آنٹی نے اپنا منہ اس کے ساتھ لگا دیا ۔۔۔ میرے جسم میں سکون کی ایک لہر دوڑ گئی ۔۔ میں نے مزے سے اپنی آنکیں بند کر لیں اور ان کا سر اپنی پھدی کے ساتھ بھینچ لیا ۔۔۔ اففففففف۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ان کی لمبی زبان میری پھدی کے اندر ہلچل مچا رہی تھی ۔۔ آسیہ اب ایک سائد پر ہو کر ہمارا تماشہ دیکھ رہی تھی ۔۔۔۔ مگر اس نے ابھی تک کپڑے نہی پہنے تھے ۔۔۔ میں اپنی کمر اٹھا اٹھا کر نصرت آنٹی کی زبان اپنی پھدی کے اندر تک لے رہی تھی ۔۔میری ساس نے ایک ڈبل سائڈ لن نکال لیا ۔۔ وہ کچھ ایسے بنا ہوا تھا کہ یہ درمیان میں سے لن ہی کی طرح تھا مگر اس کی دونوں طرف لن کی ٹوپی بنی ہوئی تھی اس کا فائدہ یہ تھا کہ ایک وقت میں یہ دو پھدیوں میں جا سکتا تھا ۔۔۔۔ اور اس کی لمبائی بارہ انچ کے قریب تھی ۔۔ میری ساس نے نصرت آنٹی کو ایک طرف کر کے خود میری ٹانگوں کے درمیان بیٹھ گئی اور لن کی ایک ٹوپی کو اپنے منہ میں لے لیا اور دوسری ٹوپی کو میرے منہ میں دے دیا ۔۔۔ میں اس کو مزے سے چوسنے لگ گئی ۔۔۔جب یہ ہمارےتھوک سے ٹھیک سے گیلا ہو گیا تو آنٹی نے اس کی ایک ٹوپی میری پھدی کے ہونٹوں پر رکھی اور دوسری ٹوپی اپنی پھدی پر سیٹ کر کے ایک دم سےآگے کی طرف زور لگایا جس سے ہم دونوں کی پھدیوں میں ایک ہی وقت میں لن داخل ہو گیا ۔۔۔ آآآآآآآآآہہہہ ۔۔۔۔۔۔ ابھی لن تین انچ کے قریب ہی میرے اندر گیا تھا مگر مجھے ایسا لگا جیسے میری آنکھوں کے آگے اندھیرا چھا گیا ہو ۔۔۔ میرے منہ سے ایک دم چیخ نکل گئی ۔۔۔۔۔ اوئی میں مررررررر گئی۔۔۔۔۔۔۔۔ میں نے اپنی ٹانگیں سکیڑ لیں۔۔ نصرت آنٹی نے آ کر میری ٹانگیں کھول دی اور مجھے کمر سےپکڑ کر ایک جھٹکا دیا جس سے کم سے کم دو انچ لن مزید میری پھدی میں داخل ہو گیا ۔۔۔ میری آنکھوںکے آگے تارے ناچنے لگے ۔۔ میں نے ایک سسکی لی۔۔۔آنٹی جی پلیز اس کو تھوڑا تیل ہی لگا لیں یہ ایسے اندر نہی جائے گا ۔۔۔۔۔ میں نے التجائیہ لہجے میںکہا ۔۔۔ اگر اس کو تیل لگانا ہے تو پھر کیا فائدہ اس کو اندر لینے کا ۔۔ اتنا کہتے ہوئے میری ساے نے ایک اور زور دار جھٹکا مارا اور ا]نی پھدی میری پھدی کے ساتھ ملا دی ۔۔ لن ہماری پھدیوں کے اندر غائب ہو چکا تھا ۔۔۔ مجھے ایسا لگا جیسے کسی نے میری پھدی کے اندر تلوار ڈال دی ہے ۔۔۔ میری پھدی آخری حد تک کھل گئی تھی ۔۔۔ مجھے نا قابل برداشت درد ہو رہا تھا ۔۔۔ اور میری آنکھوں میں نا چاہتے ہوئے بھی آنسو آ گئے تھے ۔۔۔۔ مگر میرے آنسوؤں کا کہاں اثر ہونے والا تھا ۔۔۔ میری ساس اب تھوڑا سا دور ہو کر لیٹ گئی تھی جس سے لن تین یا چار انچ باہر نکل آیا تھا ۔۔۔ میرے ایک ممے کو آسیہ نے اپنے ہونٹوں مین دبا لیا تھا اور دوسرے ممے کو وہ جانوروں کی طرح دبا رہی تھی ۔۔ مجھے درد کے ساتھ ساتھ مزہ بھہ آ رہا تھا ۔۔۔۔ پھر نصرت آنٹی نے اپنی ٹانگیں کھول کر میرے منہ کے اوپر آ کر بیٹھ گئی ۔۔ میں نے ان کی پھدی کے ہونٹ اپنی انگلیوں سے کھولے اور اپنی زبان ان کی پھدی میں داخل کر دی ۔۔۔۔۔ اب وہ اس طرح سے بیٹھی تھی کہ ان کی پھدی میرے منہ کے ٹھیک اوپر تھی اور ان کا منہمیری ساس کی طرف تھا ۔۔۔ اور میری ساس نے آسیہ آنٹی کو اپنے منہ کے اوپر بٹھا کر ان کی پھدی میں اپنی زبان داخل کی ہوئی تھی ۔۔۔ اور نصرت آنٹی اور آسیہ آنٹی کے ہونٹ آپس میں ملے ہوئے تھے ۔۔۔ میں نے ہاتھ بڑھا کر لن کو درمیان سے پکڑ لیا اور اس کو آگے پیچھے حرکت دینے لگ گئی ۔۔۔۔ جب میں اپنی پھدی سے لن کو باہر نکالتی تو وہ میری ساس کی پھدی میں چلا جاتا ور جب ان کی پھدی سے نکالتی تو یہ میری پھدی میں چلا جاتا ۔۔۔۔ ایسے ہی پانچ منٹ تک کرتی رہی اچانک ہی میری ساس اور میرے منہ سے بلند آواز میں سسکیاں نکلنا شروع ہو گئی ۔۔۔۔۔ امممممم۔۔۔۔۔۔ آآآآہہہہہہہ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ھائےےےےےےےےےےے۔۔۔۔۔۔۔۔۔میرا جسم اکڑ گیا اور میری آنکھیں بند ہونے لگ گئی ۔۔۔۔ پھر میری ٹانگوں میں جیسے جان نہیں رہی ۔۔۔۔ میری پھدی نے تین چار جھٹکے کھائے اور میرا سارا جسم کانپنے لگ گیا ۔۔۔۔۔۔ جیسے ہی میں ڈسچارج ہوئی میرے ساتھ ہی میری ساس اور ہمارے منہ کے اوپر بیٹھی ہوئی دونوں خواتین کے جسموں کو بھی جھٹکے لگنے لگ گئے ۔۔۔ ہم چاروں عورتیں ایک ساتھہی فارغ ہو کر بیڈ پر بے جان سی ہو کر گر پڑی ۔۔۔۔
اس کے بعد ہم تینوں نے کپڑے پہنے اور پھر چائے پی۔۔ چائے پینے کے دوران ہی میری ساس نے آنٹی آسیہ سے کہا ۔۔۔ آپ کے شوہر ہمیں کام نہیں کرنے دیتے ۔۔ وہ سمجھتے ہیں کہ یہ کام غلط ہے۔۔ اور ہمارا کوئی اور کام ہے نہی جو کر کے اپنا گزارا کرلیں۔۔۔۔۔۔۔ تو آپ کیا چاہتی ہیں؟؟ آسیہ نے میری ساس سے پوچھا۔۔۔ ہم صرف یہ چاہتے ہیں کہ آپ کے شوہر ہمیں کام کرنے دیں۔۔۔:وہ سب تو ٹھیک ہے مگر بات یہ ہے کہ اس میں آپلوگوں کی مدد میں کیا کرسکتی ہوں؟ آسیہ نے میری ساس سے پوچھا۔۔۔۔ بس آپ ایک کام کرو کسی بھی طریقے سے اپنے شوہر کے ساتھ میری ملاقات کروا دو۔۔۔ باقی بات میں ان سے مل کر خود ہی کر لو گے۔۔۔ آسیہ نے ہاں میں سر ہلا دیا۔۔ ٹھیک ہے اگر تمھاری یہی خواہش ہے تو میں آپ کی بات کرو گی اپنے شوہر سے۔۔۔ اگر وہ مان گئے تو آپ کو اطلاع دے دوں گی۔۔ اور نا مانے تو بھی بتا دوں گی۔۔۔اتنا کہہ کر وہ خواتین ہمارے گھر سے چلی گئیں۔۔۔ ان کے جانے کے بعد میں نے ساس سے پوچھا آنٹی اگر فرض کریں عاشق صاحب ہماری طرفآ بھی جاتے ہیں تو کیا گارنٹی ہے کہ آپ ان کو منا لیں گی؟ وہ میری طرف مسکراتے ہوئے دیکھ کر بولی۔۔ ارے میری جان یہ جو میں نے اپنی ٹانگوں میں سرنگ چھپا کر رکھی ہے نہ۔۔ یہ اچھے اچھوں کو لیٹنے پر مجبور کر دیتی ہے۔۔ مرد ہمیشہ ہی سوچتا ہے کہ اس نے عورت کی لی ہے۔۔جبکہ یہ بات غلط ہے۔۔ ہمیشہ عورت ہی مرد سے لیتی ہے۔۔۔ دیتی کچھ نہی۔۔۔ ہاہاہاہاہا۔۔ ہم دونوں اس بات پر ہنس دی۔۔۔ کچھ ہی دنبعد عاشق صاحب ہمارے ڈرائینگ روم میں براجمان تھے۔ میں چائے پانی کے بہانے سے کچن میں گھس گئی اور میری ساس مولوی صاحب کے پاس ہی بیٹھی رہی۔ میں سوچ رہی تھی کہ اگر مولوی نا مانا تو پھر کیا ہوگا۔ مگر میری ساس بہت کتی شے تھی اس نے منوا کر ہی دم لینا تھا۔۔ آج میری ساس نے حد سے زیادہ باریک کپڑے پہنے ہوئے تھے جن میں سے ان کا جسم صاف جھلک رہا تھا۔۔ فل ٹائٹ کپڑوں میں میری ساس کے ممے قیامت ڈھا رہے تھے۔ اور آج میری ساس نے پاجامہ بھی باریک اور ٹائٹ پہنا ہوا تھا جس کی وجہ سے ان کے ٹانگیں خطرناک حد تک واضح ہو رہی تھی۔ میں چائے کے لوازمات لے کر کمرے میں گئی تو مولوی للچائی اور ہوس ناک نظروں سے میری ساس کی طرف دیکھ رہا تھا۔۔۔ میں مولوی کے سامنے والے صوفے پر بیٹھ گئی۔ میری ساس نے مجھے آنکھوں ہی آنکھوں میں باہر جانے کا اشارہکیا۔ کیوں کہ میں دیکھ رہی تھی کہ مولوی صاحب میرے آنے سے تھوڑے ڈسٹرب ہو گئے ہیں۔۔۔ میں اٹھ کر باہر کھڑکی میں کھڑی ہو گئی ۔ اور اندر کا نظارا کرنے لگی۔۔ میں ایسے جگہ پر کھڑی تھی جہاں سے مولوی تو مجھے نہیں دیکھک سکتا تھا مگر میری ساس بلکل میرے سامنے تھی اور ہم ایک دوسرے کو دیکھ بھی سکتے تھے۔ خیر میری ساس نے میری جاتے ہی ایک قیامت خیز انگڑائی لی اور مخمور آنکھوں سے مولوی کی آنکھوں میں دیکھا جس سے مولوی ایک دم سے گڑبڑا گیا۔۔ ایسے کیا دیکھ رہے ہیں عاشق صاحب آپ میری طرف؟۔ میری ساس نے مولوی صاحب کو ایسے چپ دیکھ کر ان سےسوال کیا۔۔ نن نہیں ایسی تو کوئی بات نہی ہے۔ وہ بس ایسے ہی۔ مولوی کی آواز میں لڑکھڑاہٹ واضح تھی جس کا مطلب تھا کہ میری ساس اپنے پلان میں کچھ کچھ کامیاب جا رہی ہے۔۔ تو پھر آپ کوئی بات کیوں نہی کر رہے ہیں؟ کیا میری کوئی بات آپ کو بری لگ گئی ہے؟ یا میں ہی آپ کو بری لگ رہی ہوں؟؟ میری ساس نے براہ راست مولوی عاشقکی آنکھوں میں دیکھتے ہوئے پوچھا۔۔ نہی نہیآپ کیوں مجھے بری لگیں گی۔۔ عاشق نے اپنے ہونٹوںکو اپنی زبان سے تر کرتے ہوئے جواب دیا۔۔۔ اس کا مطلب کہ میں آپ کو اچھی لگ رہی ہوں ۔۔۔ ہے نا؟؟ میری ساس اب عاشق پر باقاعدہ حملہ کر رہی تھی جس کی تاب شائد مولوی عاشق میں نہی تھی۔۔ وہ بار بار اپنا پہلو بدل رہا تھا۔۔۔ عاشق نے ہمت جمع کر کے میری ساس سے پوچھا تو بہن جی آپ نے مجھے کس لئے بلایا ہے یہاں؟ ۔۔ مولوی صاحب ایسی بھی کیا جلدی ہے بتا دیتی ہوں سب کچھ آپ خاطر جمع رکھیں۔۔ ویسے ایک بات تو بتائیں آپ ۔۔ آپ صرف نام کے ہی عاشق ہیں یاااااا؟؟؟؟؟۔۔۔ میری ساس نے جان بوجھ کر جملہ ادھورا چھوڑ دیا۔۔۔۔جی نہی ایسی کوئی بات نہی ہے میں صرف نام کا نہی کام کا عاشق ہوں۔۔ بالآخر عاشق نے بھی تھوڑی سی ہمت دکھا ہی دی جس کا میری ساس انتظار کر رہی تھی۔۔۔۔ عاشق صاحب دیکھیں آپ ہمیں اپنا کام کرنے دیں اور آپ اپنا کام کریں ۔ آخر آپ کو ہماری ساتھ پرابلم کیا ہے؟ پرابلم تو کوئی نہی ہے بس یہ ہے کہ یہ کام غلط ہے جو آپ لوگ کر رہے ہیں۔۔ میری ساس نے آہستہ آہستہ اپنی ٹانگیں کھول لی ہوئی تھی جس سے اب میں یہاں سے کھڑے کھڑے ان کی صاف پھدی کا ہلکا سا نظارہ کر سکتی تھی۔۔ اور عاشقتو پھر بھی ان کے بلکل سامنے بیٹھا ہوا تھا۔۔۔ اچھا اب آپ چاہتی کیا ہیں؟ مولوی نے میری ساس سے پوچھا۔۔ میں کیا چاہتی ہوں؟؟ امممم ۔۔۔ آنٹی نے سوچنے کے انداز میں اپنے سر کو ہلایا۔۔۔ مین صرف اتنا چاہتی ہوں کہ آپ ہمارے کام میں دخل اندازی نا کریں۔۔ اور ہمیں کچھ نہی چاہئے۔۔ اور اس کے بدلےمیں اگر آپ کو کچھ چاہئے تو وہ آپ مجھے بتا دیں ۔۔۔ اس کے ساتھ ہی میری ساس نے اپنی ٹانگیں جتنی ہو سکتی تھی کھول کر بیٹھ گئی۔۔ میں دیکھ رہیتھی کہ عاشق کی شلوار میں ایک تمبو سا بن رہا ہے اور وہ اس کی وجہ سے بے چین بھی ہو رہا ہے۔۔۔۔ ارے آپ نے ابھی تک یہ بسکٹ نہی لیئے ۔۔ پلیز لیجئے نا آپ کے لیئے خاص منگوائے ہیں۔۔۔ میریساس نے آگے کی طرف جھک ان کے موٹے موٹے ممے کافی حد تک باہر نکل آئے۔۔ اس سے پہلے کہمیری ساس سیدھی ہوتی مولوی عاشق نے جھٹ سے ان کے کھلے گلے میں ہاتھ ڈال کر مموں کو چھو لیا۔ میری ساس ایک دم سے سیدھی ہوئی اور بولی ارے مولوی صاحب یہ آپ کیا کر رہے ہیں؟؟؟؟ مولوی کہنے لگا کہ میں نے کہا تھا نا کہ میں صرف نام کا ہی عاشق نہی ہوں کام کا بھی عاشق ہوں اور مجھے آپ کے جسم سے عشق ہو گیا ہے۔۔۔ ابمزید مجھ سے برداشت نہی ہو رہا۔۔میں آپ کے جسم کو پیار کرنا چاہتا ہوں۔۔۔ عاشق نے اپنا ہتھیار مسلتے ہوئے کہا۔۔۔ عاشق صاحب آپ بیٹھیں مجھے خدمت کا موقع دیں ۔۔۔۔ عاشق سیدھا ہو کر بیٹھ گیا۔۔ میری ساس اپنی جگہ سے اٹھ کر عاشق کے پیچھے آ گئیاور اس کا سر صوفے کی پشت سے لگا کر ایک ہلکیسی اس کے ہونٹوں پر کس کر دی۔۔۔ میری ساس نے جیسے ہی اپنا منہ پیچھے کرنا چاہا تو عاشق نے میری ساس کی یہ کوشش ناکام بنا دی اور اپنے دونوںہاتھوں سے میری ساس کا سر پکڑ کر واپس اپنے ہونٹوں کے ساتھ ان کے ہونٹ لگا لیئے۔۔۔اور ایک بھرپور فرنچ کس کرنے لگا۔۔۔ میں ان لوگوں کے بلکل پیچھے کھڑی تھی اس لئے مجھے کچھ خاص اندازہ نہی ہو رہا تھا کہ وہ کیسے کس کر رہا ہے مگر اتنا جانتی تھی میری ساس اس کس کو انجوائے کر رہی تھی۔۔ کیونکہ میری ساس نے اپنی ایڑیاں اٹھا کر اپنے آپ کو مولوی عاشق کے اوپر تقریبا" گرا لیا ہوا تھا۔۔۔ کچھ دیر ایسے ہی رہنے کے بعد جب میری ساس سیدھی ہو کر واپس مڑی تو ان کے ہونٹوں پر سرخی نام کی کوئی چیز باقی نہی تھی جس کا ایک ہی مطلب تھا کہ وہ ساری سرخیمولوی عاشق کے ہونٹوں نے اتار لی ہوئی تھی۔۔ مولوی عاشق نے اپنی شلوار کا ناڑا کھول کر اپنی شلوار کو ڈھیلا کر دیا تھا مگر ابھی تک میں اس کا وہ ناگ نہی دیکھ پائی تھی۔۔ میری ساس نے میری طرف دیکھا تو میں نے آنکھوں ہی آنکھوں میں اشارہ کیا کہ مجھے کچھ نظر نہی آ رہا۔۔۔ میری ساس عاشق کے سامنے آ کر کھڑی ہو گئی اور اپنے ممےپھر مولوی کی گود میں بیٹھ کر اس کا سر پکڑلیا اور ایک بار پھر اپنے نشیلے ہونٹ عاشق کے ہونٹوں کے ساتھ ملا دئیے۔ مولوی کسی بھوکے کتےکی طرح میری ساس کے ہونٹ کھا رہا تھا۔۔ اس کاایک ہاتھ میری ساس کے مموں سے کھیل رہا تھا اچانک سے مولوی نے اپنے ہاتھوں کا زور لگا کر میریساس کے مموں کو دبا دیا جس سے میری ساس کی ایک ہلکی سی چیخ نکل گئی۔۔ افففففففف۔۔۔۔ آرام سے میرے عاشق یہ اب کہیں نہی بھاگ رہے تمھارے پاس ہی ہیں جتنا چاہے تم ان کے ساتھ کھیلو مگر ان کو اتنا زور سے نا دباو کہ مجھے درد ہو۔۔ مجھے پیار کے ساتھ کھا جاو میں اس وقت تمھاری ہی ہوں میری جان۔ یہ کہہ کر میری ساس نے اپنی زبان باہرنکالی اور مولوی عاشق کے منہ میں ڈال دی جسے وہ بڑے ظالم انداز میں کھانے لگ گیا۔۔۔ جس کا اندازہ مجھے ایسے ہو رہا تھا کہ میری ساس کی آنکھیںبار بار تکلیف کی وجہ سے بند ہو رہی تھیں اور وہ کوشش کر رہی تھی کہ اپنی زبان مولوی کے منہ سے باہر نکال لیں مگر مولوی نے میری ساس کے سر کو مضبوتی کے ساتھ اپنے سخت ہاتھوں سے پکڑا ہوا تھا۔۔ جس کی وجہ سے میری ساس کی ہر کوشش ناکام ہو رہی تھی اور وہ بری طرح سے تڑپ رہی تھی۔۔ پھر مولوی نے اپنے ایک ہاتھ سے میری ساس کے ممے کو بہت ہی وحشیانہ طریقے سے دبانا شروع کر دیا جس سے میری ساس کی تکلیف میںاور اضافہ ہو گیا۔۔ وہ اب بری طرح سے تڑپ رہی تھی مگر تڑپنے کے علاوہ وہ کچھ اور کر بھی نہی سکتی تھی۔۔جیسے ہی میری ساس نے اپنا چہرہ پیچھے کرنے کی ایک اور کوشش کی تو عاشق نے میری ساس کے بال اپنی مٹھی میں پکڑ لیئے اور ان کا سر پیچھے کرنے کی یہ کوشش بھی ناکام بنا دی۔۔ مین دیکھ رہی تھی کہ میری ساس کو اس میں کتنی تکلیف ہو رہی ہے مگر میں ان کی کوئی بھی مدد نہی کر رہی تھی کیوں کہ میں دیکھنا چاہتی تھی کہ اب آگے کیا ہوتا ہے اور میری ساس میں برداشت کی کتنی قوت ہے۔۔ آہ آہ آہ۔۔ اامممااہہ۔۔۔ ہہاائےےےے۔۔۔ ایسی آوازیں کمرے سے باہر کھڑی میں سن سکتی تھی۔۔ جس سے میری اندر بھی ایک مستی کی لہر جاگ رہی تھی۔۔ پھر عاشق نے خود ہی میری ساس کا منہ اپنے منہ سے پیچھے ہٹا دیا۔۔ میری طرف ابھی تک ان دونوں کی بیک سائڈ تھی جس کی وجہ سے میں کچھ بھی دیکھنے سے قاصر تھی۔۔ میری اس مشکل کو میری ساس بھانپ گئی تھی شائد اسی لیے اب میری ساس نے اپپا پاجامہ اتارا اور بلکل میرے سامنے والے صوفے پر بیٹھ گئی اور اپنی ایک ٹانگ صوفے کی ایک سائڈ اور دوسری ٹانگ صوفے کی دوسری طرف رکھ کر اپنی ٹانگیں جتنی ہو سکتی تھی کھول کر بڑی ہوس ناک نظروں سے مولوی عاشق کی طرف دیکھنے لگ گئی۔۔ مولوی عاشق نے بنا دیر کیئے جلدی سے اپنی قمیض خود ہی اتار دی اور شلوار بھی اتار کر ایک طرف رکھ دی پھر وہ آ کر میری ساس کے سامنے اس کی ٹانگوں کے درمیان بیٹھ گیا اور اپنا منہ میری ساس کی پھدی سے ساتھ لگا دیا۔۔ میری ساس کی آنکھیں لذت کی وجہ سے خود بخود بند ہو گئی عاشق میری ساس کی پھدی بڑی مہارت کے ساتھ چاٹ رہا تھا۔۔ پھر پتا نہی کیا ہوا میری ساس نےاک دم سے انپی آنکھیں کھولی اور میں نے دیکھا کہ میری ساس کی آنکھوں میں مستی کی جگہ درد کی لہر تھی۔۔ میں ٹھیک سے سمجھ نہی پائی تھی کی کیا ہوا ہے۔ پھر میری ساس نے ایک چیخ ماری اور مولوی عاشق کا سر اپنی پھدی سے الگ کرنے کی ناکام کوشش کرنے لگی جس میں ظاہر ہے وہ کامیاب نہی ہو سکتی تھی۔۔ مجھے ایسا لگ رہا تھا کی مولوی عاشق بہت ہی منجھا ہوا کھلاڑی ہے اس معاملے میں۔۔۔ پھر میری ساس کی اواز آئی عااااااشش شق ۔۔۔ مم۔۔ میری پھدی۔۔ آہ آہ۔۔۔ ہائےےےے۔۔۔۔ نہی نہی۔۔ اس ٹوٹی پھوٹی آواز سے جو میں سمجھ سکی وہ یہ تھی کہ مولوی عاشق میری ساس کی پھدی کو اپنے دانتوں سے بری طرح کاٹ رہا تھا جس سے میر ساس کو تکلیف ہو رہی تھی۔۔۔ یہ سب آوازیں سن سن کے میری پھدی میں آگ لگی ہوئی تھی۔۔۔ میرا ایک ہاتھ نا چاہتے ہوئے بھی میری شلوار کے اندر چلا گیا تھا۔۔۔ میں نے محسوس کیا کہ میری پھدی گیلی ہو چکی ہے۔ پھر عاشق نے ایک اور کام کیا اس نے اپنا منہ پورا کھولا اور میری ساس می پھدی کو اپنے منہ میں لے کر زور سے اس پر کاٹ لیا۔۔۔ میری ساس ماہی بے آب کی طرح سے تڑپ رہی تھی اور اب وہ مولومی عاشق کی قمر پر باقاعدہ مکے مار رہی تھی اور اسے پیچھے دھکیل رہی تھی مگر عاشق بھی اپنے نام کا عاشق تھا وہ کسی بھی طرح پیچھے نہی ہٹ رہا تھا۔۔ ایسا لگ رہا تھا جیسے میری ساس کے مکے اس پر کوئی اثر ہی نہی کر رہے تھے۔۔۔ میری ساس نے نڈھال ہو کر اپنا سر صوفےکی پشت سے لگا دیا اور اپنی آنکھیں بند کر لی۔۔ میری ساس کا جسم بلکل ڈھیلا پڑ گیا تھا۔۔ جس کا فائدہ اٹھاتے ہوئے مولوی عاشق نے پھدی کو چھوڑا اور سیدھا میری ساس کے مموں پر اپنے منہ سے حملہ کر دیا۔۔ میں دیکھ سکتی تھی کہ مولوی عاشق کا منہ میری ساس کی پھدی کے پانی سے بھرا ہوا تھا جس کو اس نے صاف کرنے کی زحمت نہی کی اور اسی بھرے ہوئے منہ کے ساتھ مموں پر حملہ آور ہو گیا۔۔ وہ میری ساس کے مموں کوب اپنے دانتوں سے کاٹ رہا تھا۔۔۔ میری ساس کے منہ سے ھائے ھائے افففف۔۔۔ میں مررررررر گئی ی ی ی ی۔۔۔ کمینے ۔۔۔ نہ کرو اتنا ظلم مجھ پر۔۔ بہت شوق تھا نہ تجھ کو پھدی دینے کا۔۔ اب دیکھ میں کرتا کیا ہوں تیری پھدی کے ساتھ۔۔ آج کے بعد تو یادرکھے گی کیسے پھدی دیتے ہیں کسی غیر مرد کو۔۔۔عاشق نے بپھرے ہوئے لہجے میں کہا۔۔۔ اس کے لہجے میں غصہ تھا۔۔ وہ اپنا پورا منہ کھولتا اور ممے کو ایک ہی بار میں اپنے منہ میں لینے کی کوشش کرتا پھر جتنا اس کے منہ میں آتا وہ اسی پر اپنے دانتگاڑھ دیتا۔۔۔ مجھے اب اپنی ساس پر ترس آ رہا تھا اس کے سینے پر جگہ جگہ عاشق کے دانتوں کے نشان پر گئے تھے۔۔ میری ساس نے اچانک سے عاشق کو پیچھے دھکیلا اور باہر کی طرف دوڑ لگادی۔۔ مگر عاشق بھی کم تیز نہی تھا اس نے ایک چیتے کی طرح چھلانگ لگائی اور کمرے کے دروازے عین بیچوں بیچ پہنچ کر میری ساس کا باہر جانے کا راستہ بند کردیا۔۔ الٹے ہاتھ کا ایک بھرپور تھپڑ میری ساس کے گال پر نشان چھوڑ گیا ۔۔۔ چٹاخ کی آواز کمرے میں گونج اٹھی۔۔۔۔میری ساس کی آنکھوں میں آنسو آ گئے۔۔۔ مادر چود۔۔ حرام زادی سالی کتیا۔۔۔ کہاں بھاگ رہی ہے۔۔ آج تیری پھدی کا میں نے پھدا نا بنا دیا تو کہنا۔۔ آج تجھے مجھ سے کوئی نہی بچا سکتا۔۔۔ مولوی عاشق غصیلی آواز میں بول رہا تھا اور میری ساس سمیت مری بھی سٹیگم ہو چکی تھی۔۔ شائد میری ساس اب پچھتا رہی تھی اس کو گھر بلا کر۔۔۔ مگر اب کچھ نہی ہو سکتا تھا۔۔۔ مولوی نے میری ساس کو اس کے سر سے پکڑ کر نیچے بٹھا دیا اور اپنا لن اس کے منہ کے سامنے لہرایا جسے دیکھ کر میرے پیروں تلے سے زمین نکل گئی۔۔ اتنا موٹا اور صحت مند لن میں نےپہلے کبھی نہی دیکھا تھا۔۔۔ وہ لن نہی تھا۔۔ کوئی راڈ لگ رہا تھا بلکل سیدھا اور خطرناک حد تک تنا ہوا ۔۔ اور اس کی لمبائی کم از کم میرے کلائی سے لے کر کہنی تک تھی۔ اور موٹا بھی میرے بازو جتنا ہی تھا۔۔ میری ساس کی آنکھیں حیرت سے پھیل گئی۔۔۔ ییہ یہ کک ک کیا ہے۔ میری ساس نے اپنے خشک ہوتے ہونٹوں پر زبان پھیرتے ہوئے مولوی عاشق سے پوچھا۔۔۔۔ یہ تمھاری پھدی کا علاج ہے۔۔ آج کے بعد تم کو کسی لوڑے کی ضرورت نہی رہے گی۔ بس یہی کافی ہوگا۔ اور نا ہی تم اب اتنی جلدی کسی کے بھی لن کو لینے کے قابل رہو گی۔۔۔ اتنا کہہ کر عاشق نے اپنے لن کا ٹوپا میری ساس کے منہ میں داخل کر دیا۔۔ جو کہبہت ہی مشکل سے میری ساس کے منہ میں پورا آیا تھا۔۔۔ اس نے میری ساس کے سر کو پیچھے کی طرف سے کس کے پکڑا ہوا تھا اور اپنا لوڑا مسلسلمیری ساس کے منہ میں داخل کرنے کی پوری کوشش کر رہا تھا۔۔ پھر مولوی نے ایک زور کا دھکا م
سفر Part 11
اس سے پہلے کہ وہ کمرے ساے باہر جاتی مولوی نے ایک بار پھر قابو کر لیا۔۔۔ مولوی نے میری ساس کے منہ پر تین چار کافی زور دار تھپڑ مار دئے ۔۔ اور سنگین لہجے میں بولا کتیا چپ چاپ اپنی گانڈ میں یہ لن لے لو ورنہ تمھارا وہ حشر کروں گا چلنا پھرنا بھول جاؤ گی۔۔۔ اس کی آنکھوں میں صرف سفاکی ہی سفاکی تھی جس کو دیکھ کر میری ساس اور میںہم دونوں ہی سہم گئی۔۔ اب مجھ میں اتنی ہمت بھی نہی ہو رہی تھی کہ میں اندر جا کر کچھ مدد ہی کر دوں۔۔ مولوی کے ارادے اور اس کا لن دیکھ کر ہی مجھے پسینے آ رہے تھے۔۔ اس نے زبردستی ساس کو گھوڑی بنایا اور پھر گانڈ کے سوراخ پر بھوکے شکاری کی مانند پل پڑا۔۔ وہ بار بار اپنی زبان گانڈ کے سوراخ میں داخل کر رہا تھا ۔۔ ویسے تو میری ساس کی گانڈ کنواری نہی تھی مگر مولوی کا ڈنڈا دیکھ کر مجھے ایسا لگ رہا تھا جیسے آج میری ساس کی گانڈ سہی معنوں میں پھٹ جائے گی۔۔۔ مجھے اپنی ساس پر ترس آ رہا تھا مگر میں اس کی کوئی بھی مدد کرنے سے قاصر تھی۔۔۔مولوی صاحب پھر ایک کام کریں پلیز۔۔ میری ساس نے التجا بھرے لہجے میں مولوی سے کہا۔۔۔ ھممم بولو ۔۔۔ آپ میری گانڈ کے سوراخ پر بہت ساراتیل لگا لیں۔۔۔ اور ایک ہی جھٹکے میں اندر کر دینا۔۔ آہستہ آہستہ اندر کرنے سے مجھے زیادہ تکلیف ہوگی۔۔ ٹھیک ہے۔۔ مولوی آخر کار مان گیا۔۔ مگر مسلہ یہ تھا کہ کمرے میں تیل نام کی کوئی چیز نہی تھی۔۔۔ مجبوراََ میری ساس نے مجھے آواز دی۔۔ مرتی کیا نا کرتی، مجھے اندر جانا ہی پڑا۔۔۔۔۔ میری ساس نے مجھ سے کہا کہ بیٹی تیل لا دو مجھے۔۔۔ مولوینے میری طرف دیکھا تو اس کی آنکھوں میں میرے لیئے ہوس ہی ہوس تھی جس کو دیکھ کر میری سٹی گم ہو گئی۔۔۔ میں تو کسی بھی حال میں مولویکو پھدی دینے والی نہی تھی۔۔ میں جلدی سے اپنےے کمرے میں آئی اور تیل کی شیشی لے کر واپس ان لوگوں کے پاس آ گئی۔۔۔ مولوی نے میرے ہاتھ سے تیل لے کر مجھے اپنے سینے سے لگانے کی کوشش کی مگر میں پہلے ہی محتاط تھی۔۔ فوراََ میںنے اپنا آپ اس سے چھڑوا لیا۔۔ اس سے پہلے کہ میں واپس کمرے ساے باہر جاتی میری ساس نے مجھے آواز دے کر روک لیا۔۔ بیٹی ایک کام کرو۔۔ جی امی جی کیا کام کروں؟؟ میں نے سوالیہ انداز میں پوچھا۔۔ کان میں میری بات سنو۔۔ میں اپنی ننگی لیٹی ہوئی ساس کے منہ کے قریب اپنا منہ کیا تو میری ساس نے مجھے کہا کہ بیٹی تم دیکھ رہی ہویہ مولوی اس وقت جانور بنا ہوا ہے اور آج یہ میری پھدی اور گانڈ پھاڑ کے رکھ دے گا۔۔مجھے آج بچا سکتی ہو تو وہ صرف تم ہو۔۔ انہوں نے بڑی التجا کے ساتھ مجھے کہا۔۔ نا چاہتے ہوئے بھی میں نے اپنی ساس کی مدد کرنے کا فیصلہ کر لیا۔۔ اچھا تو آپ بتائیں میں کیا کر سکتی ہوں آپ کے لیئے۔۔۔ میری ساس نے مجھے سمجھایا کہ مجھے کرنا کیا ہے۔۔ میں نے حامی بھر لی۔۔ مولوی کی آواز آئی اگر آپ دونوں گشتیوں کی بات چیت ختم ہو گئی ہو تو میں آگے کام کروں؟؟ لفظ گشتی سے میری جسم میں آگ لگ گئی۔۔ میں نے ایک قہر آلود نگاہ اس پر ڈالی اور صوفے پر سے اٹھ کر ایک سائڈ پر ہوکر بیٹھ گئی۔۔۔ مولوی نے تیل کی شیشی سے تیل نکالا اور میری ساس کی گانڈ پر بھر بھر کے تیل لگایا۔۔ پھر میری طرف دیکھتے ہوئے بولا میری بلبل میرے لن پر تیل تم لگاؤ گی۔ میں نے انکار میں سر ہلایا تو وہ کمینہ کہنے لگا کہ چلو ٹھیک ہے نہ لگاؤ تیل۔ میں ایسے ہی تمھاری ساس کی گانڈ میں اپنا لوڑا ڈالنے لگا ہوں اب جتنی بھی اس کو تکلیف ہوگی اس کی ذمہ دار تم ہوگی۔۔۔ اس کے خطرناک ارادے دیکھ کر جلدی سے میری ساس بولی پلیز بیٹی اس کمینے کی بات مان لو۔۔ میں نے چار و ناچار تیل کی شیشی ہاتھ میں لے کر بہت سارا تیل اپنی ہتھیلی پر انڈیل لیا۔۔ مولوی نے اپنا لن میرے سامنے کر دیا۔۔۔ ایک دفعہ تو میرا جی چاہا کہ میں بھی ایک چوپا لگا کر دیکھتی ہوں کیسا سواد ہے اس کا۔۔ مگر پھر اس خیال کو ترک کر دیا۔۔۔میں نے ہتھیلی کا سارا تیل لن کے ٹوپے سے لے کر اس کی جڑ تک خوب اچھی طرح سے مل دیا۔۔ جب میں اس کے لن کو تیل لگا رہی تھی تو مولوی کی آنکھیں بند ہو گئی۔۔ اس کا ایک ہاتھ میرے بالوں کے ساتھ کھیلنے لگ گیا۔۔ مجھے بھی مزہ آنے لگا۔ مگر میں نے یہ بات ظاہر نہی ہونے دی۔۔ میں چاہتی تھی کہ کسی طرح سے یہ مولوی آج ہمارے گھر سے چلا جائے۔۔۔۔ مگر جو انسان سوچتا ہے ضروری نہی کہ وہ سب ویسا ہو بھی جائے۔۔۔۔ چل اب اپنی گشتی ساس کا سر پکڑ کے رکھو۔۔ اگر یہ آگے کی طرف ہوئی تو اس کو چھوڑ کر میں نے تمھاری گانڈ میں اپنا لن گھسا دینا ہے۔۔ کیونکہ مجھے آج گانڈ لینی ہے۔۔ اب وہ تمھاری ساس کی ہو یا تمھاری ۔۔ مجھے اس سے کوئی فرق نہی پڑتا۔۔۔اس کی یہ بات سن کر میں اندر تک لرز گئی۔۔۔۔ نن نا بابا نا مجھے اپنی پھدی نہی پھڑوانی۔۔۔ مولوی نے اپنے لن کا ٹوپا میری ساس کی گانڈ کے سوراخ پر رکھ کے ہلکا سا دھکا دیا جس سے لن اندر تو نہی گیا مگر میری ساس کی ہلکی سی آہ نکلگئی۔۔۔ میں نے اپنی ساس کے منہ پر اپنا ہاتھ مضبوطی سے رکھا اور مولوی سے کہا اب آپ ایک دم سے سارا لن اس کی گانڈ میں داخل کر دیں۔۔ اتنا سننا تھا کہ مولوی جو پہلے ہی تیار تھا اس نے ایک بھرپور جھٹکا مارا اور سارے کا سارا لن گانڈ میں گھسا دیا۔۔۔ میری ساس کی آنکھوں میں آنسو آ گئے اور اس کی دلخراش چیخ میرے ہاتھوں کے دباؤ کی وجہسے اس کے گلے میں ہی گھٹ گئی۔۔ جب پورا لن گانڈ کے اندر چلا گیا تو مولوی نے اپنا سارا جسم میری ساس کے اوپر گرا لیا اور اس کو کمر پر کسنگ کرنے لگا۔۔ تھوڑی دیر ایسے ہی رہنے کے بعد میری ساس کی حالت تھوڑی سی بہتر ہوئی۔۔ جب مولوی کو بھی اس بات کا احساس ہو گیا تو وہ واپس اٹھا اوردھیرے سے اپنا لن باہر نکالا اور پھر ایک جھٹکے کے ساتھ پورا لن اندر ڈال دیا۔۔۔ یہ آدمی ہے یا جانور۔۔۔ بلکل بے رحم آدمی ہے یہ تو۔۔۔ میں نے سوچا۔۔ پھر دھیرے دھیرے مولوی نے اپنی رفتار میںاضافہ کر دیا۔۔ اور میری ساس کو ابھی بھی درد ہو رہی تھی۔۔ مگر وہ مجبور تھی کہیں جا بھی نہیسکتی تھی۔۔ جب مولوی کی رفتار میں ایک اعتدال آ گیا تو میں نے وہی کرنے کا سوچا جو میری ساس نے مجھے کہا تھا۔۔ میں غیر محسوس طریقے سے اپنی جگہ سے اٹھی اور مولوی کے بلکل پیچھے پہنچ گئی۔۔۔ پہلے تو میں بری طرح سے ڈر رہی تھی۔۔ مگر پھر اپنی ساس کا خیال آتے ہی میں نے مولوی کو پیچھے سے جپھی ڈال دی۔۔ اب مولوی کے منہ سے آآآآآآآہہہہہہہ۔۔ اووووہہہہہہ۔۔۔۔ ہااا ہا اہ ہا اہا اہاااااااااا۔۔۔۔ اس قسم کی اوازیں نکل رہی تھی اور وہ دھنا دھن میری ساس کی گاند مار رہا تھا۔۔۔ مولویکی کمر کے ساتھ میں لگی ہوئی تھی اور اسے اس کا بھی مزہ آ رہا تھا۔۔۔ اس نے اپنا ایک ہاتھ پیچھے کر کے مجھے اپنے ساتھ لپٹا لیا۔۔ میں رفتہ رفتہ مولوی کو اس کی گردن سے کس کرتی ہوئی نیچے کی طرف آنا شروع ہوئی۔۔ اور نیچے آتے آتے میں نے مولوی کو زور زور سے ہلتے ہوئے ٹٹے اپنی منہ میں لے کر ان کو چوپے لگانے لگ گئی۔۔۔ جس کا اثر یہ ہوا کہ مولوی اب فل جوش اور سرور میں آ گیا تھا۔۔ اب میری ساس بھی انپی گانڈ کھول کھول کہ مولوی کا لن پورا اپنی گانڈ میں لے رہی تھی۔۔۔ میری پھدی میں جو آگ لگی تھی وہ بھی تیز ہو گئی۔۔۔ اچانک میری ساس کا جسم پھر سے اکڑ گیا۔۔۔ اور اس نے گالیوں بکتے ہوئے اپنی پھدی کا پانی ایک بار پھر نکال دیا۔۔۔۔ مولوی تھوڑی دیر کے لئے رک گیا۔۔ میری ساس نڈھال ہو کر آگے کی طرف گر گئی۔۔۔۔ ایسا کرنے سے مولوی کا لن بھی میری ساس کی گانڈ سے باہر نکل گیا۔۔۔۔ میں نے دیکھا کہ موٹے لن ک اوپر خون لگا ہوا ہے۔۔۔ میرا سارا جسم کانپ گیا۔۔۔ مگر اس سے پہلے کہ میں اپنی ساس کو سنبھالتی مولوی نے ہاتھ بڑھا کر میری قمیض کو ایک جھٹکے کے ساتھ میرے جسم سے پھاڑ کر الگ کر دیا۔۔۔ کتے کی بچی تو کدھر جا رہی ہے۔۔۔۔ اس نے مجھے ایک اور جھٹکا دیا اور میری ساس کے برابر میں ہی گرا دیا۔۔۔ میری پھدی توپہلے سے ہی بہت ذیادہ گیلی ہو رہی تھی۔۔۔ اور دل بھی کر رہا تھا کہ اب اس آگ کو لن سے بجھالوں۔۔۔ مولوی نے میری ٹانگیں ہوا میں اوپر اٹھا دی۔۔۔ شلوار میری پہلے ہی اتری ہوئی تھی ۔۔ میری پھدیکو دیکھ کر مولوی پھر سے بے قابو ہو گیا اور اس نے میری پھدی کو دیوانہ وار چوسنا شروع کر دیا۔۔ میں لذت کی دنیا میں پہنچ چکی تھی۔۔۔ پھر میرا جسم بھی اچانک اکڑ گیا اور میری ٹانگیں زور زور سےکانپنے لگ گئ
میری پھدی کا پانی نکل چکا تھا۔۔۔۔ مگر اب مجھے ایسا لگ رہا تھا جیسے مولوی اب میری پھدی کا پھدا بنانے والا ہے۔۔۔ جس کو سوچ کر ہی میری جان نکل رہی تھی۔۔ میرے ذہن میں ایک بات بجلی کی تیزی کے ساتھ کوندی ۔۔ میں نے فورا" اس پر عمل کرنے کا فیصلہ کر لیا۔۔ میں نے جلدی سے لیٹے لیٹے اپنی پوزیشن تبدیل کی اور اپنا منہ مولوی کی ٹانگوں کی طرف کر کے اس کے ٹٹے اپنے منہ میں ڈال لئے اس سے پہلے کہ مولوی کچھ سمجھ پاتا میں نے اس کو کمر سے پکڑ کر اپنے اوپر گرا لیا۔۔ اس سے یہ ہوا کہ اس کا منہ میری پھدی کے بلک اوپر آ گیا۔۔ ایک ہاتھ سے میں اس کے لن کو مالش کر رہی تھی اور دوسرے ہاتھ کے ساتھ میں نے اس کے ٹٹے سنبھالے ہوئے تھے۔۔۔ تھوڑی ہی دیر کے بعد مولوی کی ہمت جواب دے گئی۔۔اور اس کے منہسے امم اہہ ہہ اااااااا۔۔ اوووووو۔۔۔ ھاااااااااا۔۔ جیسی آوازیں نکلنا شروع ہو گئی۔۔۔ پھر اس نے ایک دم سے اپنا لن میری منہ میں ڈال دیا۔۔ بڑی مشک سے مجھے سانس آ رہی تھی۔۔۔ مگر یہ تکلیف کا مرحلہ زیادہ لمبا نہی تھا۔۔ مولوی کے لن سے تازہ اور گرم منیکی دھار نکل کر میرے منہ کے اندر ہی گر گئی۔۔ جسےمیں نے باہر نلاکنے کی کوشش کی مگر ایسا نا کر سکی کیونکہ مولوی کے لن کا ٹوپا میرے منہ کو بند کئیے ہوئے تھا۔۔ جب وہ اپنی ساری منی نکال چکا تو نڈھال ہو کر ایسے ہی لیٹا رہا۔۔ میں نے ہمت کر کے اس کالن اپنے منہ سے باہر نکالا اور اس کا پانی بھی اپنے منہ سے نکال دیا۔۔ مگر کچھ کچھ پانی میرے منہ میں بھی رہ گیا۔۔ اس کا پانی بھی بہت مزے کا تھا۔۔۔ جب ہمت تھوڑی بحال ہوئی تو وہ میرے اوپر سے اٹھ گیا۔۔ میری ساس ابھی تک بے سدھ پڑی ہوئی تھی اسے کچھ ہوش نہی تھا۔۔۔ ہم نے کپڑے پہنے اور آنٹی کو آواز دی تو کوئی جوابنہ آیا ۔۔ اب میں اور مولوی پریشان ہو گئے۔۔۔ میں نے اپنی ساس کے گال تھپتھپائے مگر وہ بلکل بےہوش تھی۔۔۔ میں نے جلدی سے ان کے چہرے پرپانی کے چھینٹے مارے مگر کوئی اثر نا ہوا۔۔ اب مولوی اور میں سہی معنوں میں گھبرا گئے تھے۔ اگر آنٹی کو کچھ ہوجاتا تو پھر خیر نہی تھی۔۔ میرے چہرے پر ہوائیاں اڑ رہی تھی۔۔ مولوی نے جلدی جلدی کپڑے پہنے اور یہ کہتا ہوا غائب ہو گیا کہ اگر ڈاکٹر کی ضرورت پڑی تو مجھے بتا دینا میں کچھ کر دو گا۔۔ میرا دل کررہا تھا کہ مولوی کو ابھی کےابھی قتل کر دوں۔۔۔ مگر میں نے اس سے صرف اتنا کہا کہ ابھی وہ چلا جائے۔۔۔ وہ گولی کی سی تیزی کے ساتھ ہمارے گھر سے نکل گیا۔۔ میں نے دیکھاکہ آنٹی کی سانس ٹھیک نہی چل رہی۔۔ میں نے جیسے تیسے ان کو کپڑے پہنائے اور پھر گھبرائی ہوئی آواز میں نبیل اور انپے سسر کو فون کر دیا ۔۔ وہ ایک منٹ کے اند اندر گھر آ گئے۔۔ مگر شکر تھا کہ ان کے آنے تک میری ساس کو ہوش آ گیا تھا۔۔ مگر وہ مسلسل رو رہی تھی۔۔ اس کا سارا جسم درد کر رہا تھا اور چلا نہی جا رہا تھا۔۔۔۔۔ انکل اور نبیل نے پوچھاکہ اسے کیا ہوا ہے۔ میں نے ڈرتے ڈرتے ساری بات بتا دی ۔۔۔ نبیل نے میری ساس کو دو تین گولیاں دی کھانے کے لئے اور انکل کو لے کر دوسرے کمرے میں چلے گئے۔۔ میں بہت ڈر گئی تھی۔۔ پھر میرے سسر نے مجھے آواز دے کربلایا۔۔۔ میں اپنی ساس کا جسم دبا رہی تھی۔۔ ان سے تو ٹھیک سے ہلا بھی نہی جا رہا تھا۔۔ اس کمینے مولوی نے میری ساس کا حشر نشر کر دیا تھا۔۔۔ مجھے بہت رونا آ رہا تھا اپنی ساس کی یہ حالت دیکھ کر۔۔ میں جب نبیل لوگوں کے سامنے گئی تو میرے آنسو خود بخود ہی نکل آئے۔۔ میں بہت زیادہ شرمندہ ہو رہی تھی۔ انکل نے مجھے اپنے ساتھ لگایا اور کہنے لگے کہ اس میں تمھاری تو کوئی غلطی نہی تھی۔۔۔تم پریشان نا ہو جو ہونا تھا وہ ہو گیا۔۔۔اب دعا کرو تمھاری آنٹی کو کچھ ناہو۔۔ مولوی کو گھر بلانے کی ضرورت ہی کیا تھی۔۔ مجھے اگر پہلے پتا ہوتا تو میں کچھ کر بھی لیتا ہم لوگ لگے تو ہوئے تھے اس کا حل ڈھونڈنے میں۔۔ میں زور زور سے رونا شروع ہو گئی۔۔ پھر نبیل نے مجھے اپنے ساتھ گلے لگا لیا اور تسلی دیتے ہوئے بولے ۔۔ میری جان اب رونا بند کرو۔۔ ہم تم کو تو قصور وار نہی بنا رہے نا۔۔۔ کچھ دیر ایسے ہی رونے کے بعد دل کو ڈھارس ہوئی ۔۔ اس دوران انکل کسی کے ساتھ فون پر بات کر رہے تھے۔۔ پھر وہ آنٹی کے پاس جا کر بیٹھ گئے۔۔۔:میری پھدی کا پانی نکل چکا تھا۔۔۔۔ مگر اب مجھے ایسا لگ رہا تھا جیسے مولوی اب میری پھدی کا پھدا بنانے والا ہے۔۔۔ جس کو سوچ کر ہی میری جان نکل رہی تھی۔۔ میرے ذہن میں ایک بات بجلی کی تیزی کے ساتھ کوندی ۔۔ میں نے فورا" اس پر عمل کرنے کا فیصلہ کر لیا۔۔ میں نے جلدی سے لیٹے لیٹے اپنی پوزیشن تبدیل کی اور اپنا منہ مولوی کی ٹانگوں کی طرف کر کے اس کے ٹٹے اپنے منہ میں ڈال لئے اس سے پہلے کہ مولوی کچھ سمجھ پاتا میں نے اس کو کمر سے پکڑ کر اپنے اوپر گرا لیا۔۔ اس سے یہ ہوا کہ اس کا منہ میری پھدی کے بلک اوپر آ گیا۔۔ ایک ہاتھ سے میں اس کے لن کو مالش کر رہی تھی اور دوسرے ہاتھ کے ساتھ میں نے اس کے ٹٹے سنبھالے ہوئے تھے۔۔۔ تھوڑی ہی دیر کے بعد مولوی کی ہمت جواب دے گئی۔۔اور اس کے منہسے امم اہہ ہہ اااااااا۔۔ اوووووو۔۔۔ ھاااااااااا۔۔ جیسی آوازیں نکلنا شروع ہو گئی۔۔۔ پھر اس نے ایک دم سے اپنا لن میری منہ میں ڈال دیا۔۔ بڑی مشک سے مجھے سانس آ رہی تھی۔۔۔ مگر یہ تکلیف کا مرحلہ زیادہ لمبا نہی تھا۔۔ مولوی کے لن سے تازہ اور گرم منیکی دھار نکل کر میرے منہ کے اندر ہی گر گئی۔۔ جسےمیں نے باہر نلاکنے کی کوشش کی مگر ایسا نا کر سکی کیونکہ مولوی کے لن کا ٹوپا میرے منہ کو بند کئیے ہوئے تھا۔۔ جب وہ اپنی ساری منی نکال چکا تو نڈھال ہو کر ایسے ہی لیٹا رہا۔۔ میں نے ہمت کر کے اس کالن اپنے منہ سے باہر نکالا اور اس کا پانی بھی اپنے منہ سے نکال دیا۔۔ مگر کچھ کچھ پانی میرے منہ میں بھی رہ گیا۔۔ اس کا پانی بھی بہت مزے کا تھا۔۔۔ جب ہمت تھوڑی بحال ہوئی تو وہ میرے اوپر سے اٹھ گیا۔۔ میری ساس ابھی تک بے سدھ پڑی ہوئی تھی اسے کچھ ہوش نہی تھا۔۔۔ ہم نے کپڑے پہنے اور آنٹی کو آواز دی تو کوئی جوابنہ آیا ۔۔ اب میں اور مولوی پریشان ہو گئے۔۔۔ میں نے اپنی ساس کے گال تھپتھپائے مگر وہ بلکل بےہوش تھی۔۔۔ میں نے جلدی سے ان کے چہرے پرپانی کے چھینٹے مارے مگر کوئی اثر نا ہوا۔۔ اب مولوی اور میں سہی معنوں میں گھبرا گئے تھے۔ اگر آنٹی کو کچھ ہوجاتا تو پھر خیر نہی تھی۔۔ میرے چہرے پر ہوائیاں اڑ رہی تھی۔۔ مولوی نے جلدی جلدی کپڑے پہنے اور یہ کہتا ہوا غائب ہو گیا کہ اگر ڈاکٹر کی ضرورت پڑی تو مجھے بتا دینا میں کچھ کر دو گا۔۔ میرا دل کررہا تھا کہ مولوی کو ابھی کےابھی قتل کر دوں۔۔۔ مگر میں نے اس سے صرف اتنا کہا کہ ابھی وہ چلا جائے۔۔۔ وہ گولی کی سی تیزی کے ساتھ ہمارے گھر سے نکل گیا۔۔ میں نے دیکھاکہ آنٹی کی سانس ٹھیک نہی چل رہی۔۔ میں نے جیسے تیسے ان کو کپڑے پہنائے اور پھر گھبرائی ہوئی آواز میں نبیل اور انپے سسر کو فون کر دیا ۔۔ وہ ایک منٹ کے اند اندر گھر آ گئے۔۔ مگر شکر تھا کہ ان کے آنے تک میری ساس کو ہوش آ گیا تھا۔۔ مگر وہ مسلسل رو رہی تھی۔۔ اس کا سارا جسم درد کر رہا تھا اور چلا نہی جا رہا تھا۔۔۔۔۔ انکل اور نبیل نے پوچھاکہ اسے کیا ہوا ہے۔ میں نے ڈرتے ڈرتے ساری بات بتا دی ۔۔۔ نبیل نے میری ساس کو دو تین گولیاں دی کھانے کے لئے اور انکل کو لے کر دوسرے کمرے میں چلے گئے۔۔ میں بہت ڈر گئی تھی۔۔ پھر میرے سسر نے مجھے آواز دے کربلایا۔۔۔ میں اپنی ساس کا جسم دبا رہی تھی۔۔ ان سے تو ٹھیک سے ہلا بھی نہی جا رہا تھا۔۔ اس کمینے مولوی نے میری ساس کا حشر نشر کر دیا تھا۔۔۔ مجھے بہت رونا آ رہا تھا اپنی ساس کی یہ حالت دیکھ کر۔۔ میں جب نبیل لوگوں کے سامنے گئی تو میرے آنسو خود بخود ہی نکل آئے۔۔ میں بہت زیادہ شرمندہ ہو رہی تھی۔ انکل نے مجھے اپنے ساتھ لگایا اور کہنے لگے کہ اس میں تمھاری تو کوئی غلطی نہی تھی۔۔۔تم پریشان نا ہو جو ہونا تھا وہ ہو گیا۔۔۔اب دعا کرو تمھاری آنٹی کو کچھ ناہو۔۔ مولوی کو گھر بلانے کی ضرورت ہی کیا تھی۔۔ مجھے اگر پہلے پتا ہوتا تو میں کچھ کر بھی لیتا ہم لوگ لگے تو ہوئے تھے اس کا حل ڈھونڈنے میں۔۔ میں زور زور سے رونا شروع ہو گئی۔۔ پھر نبیل نے مجھے اپنے ساتھ گلے لگا لیا اور تسلی دیتے ہوئے بولے ۔۔ میری جان اب رونا بند کرو۔۔ ہم تم کو تو قصور وار نہی بنا رہے نا۔۔۔ کچھ دیر ایسے ہی رونے کے بعد دل کو ڈھارس ہوئی ۔۔ اس دوران انکل کسی کے ساتھ فون پر بات کر رہے تھے۔۔ پھر وہ آنٹی کے پاس جا کر بیٹھ گئے۔۔۔شام تک آنٹی حالت کچھ بہتر ہو گئی تھی۔۔۔رات کے کھانے میں آنٹی نے تو کچھ خاص کھایا نہی تھا بھوک کسی کو بھی نا تھی۔۔ہم سب بس چپ کر کے کھانے کی ٹیبل پر بیٹھے ہوئے تھے۔۔۔ آنٹی کا سوچ سوچ کے سردرد کر رہا تھا۔۔۔ اور رہ رہ کر اس حرام کے بچے مولوی پر غصہ آ رہا تھا۔۔ گھر ایک عجیب طرح کی افسردگی چھائی ہوئی تھی۔۔۔ میں ٹیبل سے اٹھ کر اپنے کمرے میں چلی گئی۔۔ صبح تک آنٹی کی طبیعت کافی ٹھیک تھی۔ میں نے ان کے کمرے میں ان کا حال احوال پوچھنے گئی تو میرے سسر ان کی پھدی اور گاند پر کوئی دوا لگا رھے تھے۔۔ میں واپس آنے لگی تو میرے سسر نے مجھے روک لیا۔۔ جی ابو ۔۔ میں نے پوچھا۔۔ بیٹا میں نے یہ پوچھنا تھا کہ تمھارے ساتھ تو اس مولوی کے بچے نے کچھ نہی کیا نا؟؟؟ نہی ابو میں نے خود کو بڑی مشکل سے بچایا تھا اس حرامی سے۔۔ جیسے وہ آنٹی کے ساتھ کر رہا تھا اگر میں ہوتی تو شائد مر چکی ہوتی۔۔ میں نے اپنے بازو کو ناپتے ہوے انکل سے کہا کہ اس کا اتنا بڑا تو لن تھا۔۔ میں تو اس بات پر حیران ہوں کہ آنٹی نے یہ اپنے اندر لے کیسے لیا۔۔۔۔ میری بچی یہ واقعی اس کی ہمت ہے اس کی جگہ کوئی اور عورت ہوتی تو مر جاتی۔۔۔ میرے سسر بولے۔۔ زندگی کے دن اسی طرح سے گزرتے رہے۔۔۔ ہم واپس اپنی روٹین لائف میں آ چکے تھے۔۔ مگر آنٹی کے اندر زخم بنے ہوئے تھے جو ابھی ٹھیک نہی ہوئے تھے۔۔ ڈاکٹر کا علاج تو چل رہا تھا مگر کوئی خاص فرق نہی پڑ رہا تھا۔۔۔ ایک دن میں آنٹی کو لےکر ڈاکٹر فواد کے پاس گئی۔ ڈاکٹر کو کچھ بات بتائی اور کچھ نا بتائی۔ یہ شکر ہے کہ ڈاکٹر فواد کے پاس ایک لیڈی ڈاکٹر بھی تھی ہم الگ کمرے میں چلے گئے وہاں جا کر اس لیڈی ڈاکٹر نے میری ساس کا چیک اپ کیا۔ ظاہر ہے یہ چیک اپ شلوار اتار کے کیا گیا۔۔ جب اس ڈاکٹر نے میری ساس کے نیچے دیکھا تو ایک دم سے حیران ہو کر بولی۔۔ یہ کیا ہوا ہے آپ کے ساتھ؟ اور کس نے کیا ہے یہ سب؟ بس جی کیا بتاؤں ایک حادثہ ہوا تھا۔۔ اصل میں ہمارے گھر میں کچھ دن پہلے ہمارے گھر میں ڈاکو آ گئے تھے۔۔ اور انہوں نے میری عزت لوٹ لی۔۔۔ وہ بندے بھی تین چار تھے۔۔ اور میں اکیلی تھی۔۔ اس لیئے یہ حال ہو گیا تھا۔ہممم اس نے ایک ہنکارہ بھرا۔۔ اور پھر میری ساس کی پھدی کھول کے اندر تک چیک کیا۔۔ تھوڑی دیر بعد اس نے چیک اپ مکمل کر کے ان کو کچھ دوا دے دی۔۔ پھر ہم باہر آ کر ڈاکٹر کے پاس بیٹھ گئے۔تھوڑی دیر بعد اس نے چیک اپ مکمل کر کے ان کو کچھ دوا دے دی۔۔ پھر ہم باہر آ کر ڈاکٹر کے پاس بیٹھ گئے۔ میرے سامنے ہی میرا محبوب بیٹھا ہوا تھا اور میں اس کو بڑی پیار بھری نظروں سے دیکھ رہی تھی مگر وہ ہمیشہ کی طرح بے پروا بیٹھا ہوا تھا۔ جیسے اس کو اس بات سے کوئی غرض نہی کہ میں کون ہوں اور یہاں کیوں بیٹھی ہوئی ہوں۔۔ میرا دل ایک عجیب لے پر دھڑک رہا تھا میں نے سنا تھا کہ جذبے سچے ہوں تو دوسرے بندے تک دل کی لہریں پہنچ جاتی ہیں۔۔ میرے جذبے سچے تھے۔۔ مگر شائد ان میں ابھی وہ تڑپ پیدا نہی ہوئی تھی جس سے اس ظالم کو بھی احساس ہوتا۔۔ ایک دو بار فواد نے میری طرف دیکھا اور دیکھ کر مسکرا دیا۔۔ میرے دل کی دنیا اتھل پتھل ہو گئی۔ تھوڑی دیر بعد ہم اٹھ گئے۔۔ جب میں نے اپنے قدم دروازے کی طرف بڑھائے تو ڈاکٹر نے ایک دم سے مجھے آواز دی۔۔ نوشی جی بات سنیں۔۔ میرے قدم جہاں تھے وہی رک گئے۔۔ میں واپس مڑی تو انہوں نے مجھے اپنا کارڈ دیتے ہوئے کہا اگر کوئی پرابلم ہو تو مجھے اس نمبر پر فون کر لینا ۔ میں نے دھڑکتے دل کے ساتھ کارڈ لیا اور اپنی ساس کے ساتھ کلینک سے باہر نکل آئے۔۔ کچھ دن بعد نبیل گھر آئے تو مجھے کچھ پریشان لگ رہے تھے۔۔میں نے وجہ پوچھی تو کہنے لگے کہ انسپکٹر منیر کا فون آیا تھا وہ امی سے ملنا چاہ رہا ہے۔ مگر امی کی تو طبیعت ہی ٹھیک نہی ہے۔ آپ نے پوچھا نہی کہ وہ امی سے کیوں ملنا چاہتا ہے؟ ۔۔۔ پوچھا تھا کہہ رہا تھا کہ مجھے ضروری بات کرنی ہے۔ ہمم۔۔ میں نے ہنکارا بھرا۔ چلیں آپ صبح آنٹی سے بات کر کے انسپکٹر کو گھر بلا لینا۔۔ اگر آنٹی نے ملنا ہوا تو ٹھیک ورنہ سہولت کے ساتھ منیر کوانکار کر دیں گے۔۔ کیا خیال ہے آپ کا؟ ہم۔ کہہ تو تم ٹھیک رہی ہو۔۔ صبح آنٹی نے نبیل سے کہا کہ وہ منیر کو آج آنے کا کہہ دے دیکھتی ہوں کہ اس نے کیابات کرنی ہے۔۔ میرے ذہن میں پتا نہی کیوں یہ بات گھوم رہی تھی کہ منیر پھدی کا طلبگار ہوگا۔۔۔ دوسرے ہی دن انسپکٹر منیر ہمارے گھر میں بیٹھا ہوا تھا ۔۔ سنائیں جی اب تو پ کو وہ مولوی تنگ تو نہی کرتا نا؟ منیر نے آنٹی سے پوچھا۔۔ جی نہی جیفی الحال تو اس نے ہمیں تنگ نہی کیا مگر ہو سکتاہے کچھ دن تک وہ پھر سے تنگ کرنا شروع کر دے۔۔ ہا ہاہاہاہاہا۔۔ منیر نے ایک قہقہا لگایا اور کہنے لگا جناب مجھے لگتا نہی کہ اب وہ آپ کو دوبارا تنگ کرے گا۔۔ آنٹی نے منیر کی طرف دیکھا ور بولی آپ اتنے یقین سے کیسے کہہ سکتے ہیں ؟؟ منیر بولا جناب میں پولیس والا ہوں مجھے سب کچھ تو نہی مگر کچھ کچھ ضرور پتا ہوتا ہے کہ کیا ہونے والا ہے اور کیا ہوا ہے۔۔۔اس نے اپنی مونچھوں کو تاؤ دیتے ہوئے کہا۔۔ کک کی مطلب؟ آنٹی نے ہکلاتے ہوئے منیر سے پوچھا۔۔ دیکھیں جی سیدھی سی بات بتاتا ہوں آپ کو۔۔ میں بات کو گھما کہ نہی کرتا۔۔ مجھے معلوم ہے کہ اس کچھ دن پہلے وہ مولوی یہاں آیا تھا۔ اور اس کا منہ آپ نے کیسے بند کیا ہےمیں یہ بھی جانتا ہوں۔۔ اور اب میں چاہتا ہوں کہ آپ میرا بھی منہ بند کر دیں۔۔ورنا یہ بات تو آپ بہت اچھے سے جانتی ہیں کہ ابھی صرف مولوی چپ ہوا ہے۔۔ اس کی تنظیم نہی چپ ہوئی۔۔ اور اس کی تنظیم میں کتنے آدمی ہیں اور وہ کس طرح کے ہیں یہ میں آپ سے بہتر جانتا ہوں۔ اس لئے۔۔۔۔۔۔۔ اتنا کہہ کر وہ چپ کر گیا۔ اس کی آنکھوں میں شیطانیت صاف نظر آ رہی تھی۔۔ آنٹی کچھ تذبذب تھی۔۔ منیر صاحب میں آپ کے لئے کیا کر سکتی ہوں؟ اگر آپ کو یہ پتا ہےکہ مولوی اس دن ہمارے گھر آیا تھا تو آپ کو یہ بھی پتا ہوگا کہ اس نے میرے ساتھ کیا کیا ہے۔۔ اورمیں ابھی تک ٹھیک نہی ہوئی ہوں۔ میں ابھی آپ کے کسی کام نہی آ سکتی۔۔ بہتر ہے آپ کچھ دن صبرکر لیں۔۔آنٹی چار و ناچار بات کر رہی تھی۔۔ اوہ نہی جی۔۔ صبر والی تو اب کوئی بات نہی ہے۔ دیکھیں نامیں نے کل یا پھر پرسوں سے دوسرے تھانے میں شفٹ ہو جانا ہے میری ٹرانسفر ہو گئی ہے۔ اور میں نہی چاہتا کہ میرے بعد میرے تھانے والے بھی آپکو تنگ کرنا شروع کر دیں۔ اس لئے جو بھی ہونا ہے آج ہی ہوگا۔۔آنٹی کی آنکھوں میں بے پناہ خوف تھا۔۔ میں سمجھ سکتی تھی کہ پرابلم کیا ہے۔ پھر میں نے اپنے طور پر ایک فیصلہ کیا اور اندر کمرے میں چلی گئی جہاں وہ لوگ بیٹھے ہوئے تھے۔۔۔ میرے جاتے ہی منیر چپ کر گیا۔۔ مگر میں دیکھرہی تھی کہ اب اس کی نظریں میرے جسم میں گڑھی ہوئی ہیں۔۔ جسے میں نے محسوس کیا تھا۔۔ مگر میں ابھی اس کے سامنے کھلنا نہی چاہتی تھی۔ میرے ذہن میں یہ بات چل رہی تھی کہ اس بات کی کیا گارنٹی ہے کہ بعد میں یہ دوبارہ نہی آئےگا اپنی پیاس بجھانے کے لئے۔۔ میں نے آنٹی سے کہا کہ ذرا باہر آ کر میری بات سنیں ۔۔ وہ میرے ساتھ باہر آ گئی۔ اور آتے ہی بولی اب اس کمینے کو کیسے راضی کرنا ہے۔۔ یہ تو آج یسے نہی جانے والا۔۔ میں آنٹی کی بات سن کے اپنے دل کی بات بتا دی۔ آنٹی کہنے لگی کہ کیا ذہن میں چل رہا ہے تمھارے۔۔؟؟ میں نے کہا آنٹی جی میں بھی اس گھر کی بیٹی ہوں اور میں یہ برداشت نہی کر سکتی کہ آپ کو کوئی ایسے تکلیف پہنچائے۔۔ میری بات پور ہونے سے پہلے ہی میری ساس بول پڑی اس کا مطلب ہے کہ تم اپنے آپ کو منیر کے سامنے پیش کرنے کی سوچ رہی ہو؟ آنٹی کے لہے میں حیرانگی تھی۔۔ جی آنٹی جی آپ ٹھیک سمجھی ہیں۔۔ مگر میں اس منیر کاکوئی پکا حل ڈھونڈ رہی ہوں۔۔ آپ جائیں تھوڑی دیراس
سفر Part 12
پھر میں نے کیمرے کی ریکاڈنگ چیک کی ۔ وہ ٹھیک کام کر رہا تھا۔۔ ۔ میں نے ہلکا سا میک اپ بھی کر لیا تھا۔۔ادھر آنٹی نے منیر سے کہا۔۔۔ منیر صاحب میں نے آپ کو بتایا تھا نہ کہ میں تو ٹھیک نہی ہوں مگر آپ اپنی خواہش میری بہو کے ساتھ بھی پوری کر سکتے ہیں۔۔ کیا مطلب؟؟ منیر نے حیران ہوتے ہوئے آنٹی سے پوچھا۔۔ مطلب یہ کہآپ میری بہو کے ساتھ اپنی خواہش پوری کر لیں ۔ میں نے کوئی غلط بات تو نہی کہی۔۔ آپ کا مطلب تو کام پورا کرنا ہے۔ چاہے وہ میں ہوں یا کوئی اور۔ کیا فرق پڑتا ہے۔ ویسے بھی میری بہو جوان ہے اورگرم بھی زیادہ ہے۔۔۔ آنٹی نے منیر کو سہی معنوں میں گرم کر دیا تھا۔۔۔ وہ ہے کہاں ؟ اور آپ نے اس کے ساتھ بات کر لی ہے کیا؟؟ منیر نے بےچینی سےپوچھا۔۔ جی بات تو کی ہے مگر وہ شائد اتنی آسانیسے نہی مانے گی۔۔ پھر کیسے مانے گی؟؟ منیر کی بےچینی بڑھ رہی تھی۔۔ اممم۔۔ مجھے لگتا ہے آپ کو زبردستی کرنے پڑے گی۔۔ آنٹی نے آنکھ دباتے ہوئے کہا۔۔ ہممم۔۔ اگر اس نے شور ڈال دیا تو پھر؟ منیر نے پوچھا۔۔ دیکھیں پہلی بات تو یہ ہے کہ آپ اس کو شور کرنے ہی نا دینا۔۔ اور دوسری بات ہی ہے کہ جہاں اس کا کمرا ہے وہاں سے آواز باہر نہی آ سکتی۔۔ اس کا کمرا ساؤنڈ پروف ہے۔۔ یہ بات سن کے منیر کی آنکھوں میں چمک آ گئی تھی۔۔ ٹھیک ہے آپ مجھے اس کا کمرا دیکھا دیں باقی میں جانوں اور میرا کام۔۔ آنٹی نے منیر کو ساتھ لیا اور میرے کمرے کی طرف پیشقدمی شروع کر دی۔۔ میں پہلے ہی اپنے ذہن میں پلان بنا کر بیٹھی ہوئے تھی۔۔ کیمراچل رہا تھا۔۔۔ جیسے ہی میری ساس کمرے کے دروازے پر پہنچی تو وہ باہر ہی رک گئی اور منیر اکیلا ہی میرے کمرے کے اندر داخل ہوا۔ میں نے جب منیرکو دیکھا تو حیرانگی کا اظہار کرتے ہوئے کہا۔۔ ارےمنیر صاحب آپ یہاں کیا کرنے آئے ہیں؟؟ آپ ڈرائنگ روم میں جا کر بیٹھیں۔۔ منیر نے جلدی سے دروازا پیچھے بند کیا اور کہنے لگا میری جان آج تمھارے ساتھ مجھے کام ہے۔۔ میں نے بھاگنے کی اداکاری کی اور سیدھا منیر کے پاس سے گزرنے کی کوشش کی۔۔ منیر نے مجھے اپنا بازو پھیلا کر اپنے ساتھ لگا لیا۔۔ میں نے بلکل ایسے ہی اکٹنگ کی جیسے میں اس سے بچنا چاہ رہی ہوں۔۔ مگر حقیقت تو یہ تھی کہ میں خود چاہ رہی تھی کہ منیر آج میری پھدی پھاڑ کے رکھ دے۔ میں نے منیر کو دھکا دینے کی کوشش کی تو اس نے میری قمیض کے گلے کو پکڑ کر مجھے واپس دھکا دیا جس سے میری قمیض پھٹ کر اس کے ہاتھ میں آ گئی۔۔ میں اپنے بیڈ پر گر گئی۔۔ میں نے چیخ کر آنٹی کو آواز دی مگر اس سے پہلے ہی منیر میرے اوپر آ گیا تھا۔ اس نے میرے منہ پر اپنا ہاتھ مضبوطی کے ساتھ جما دیا اور دوسرے ہاتھ سے میرے ممے کو پکڑ لیا۔۔ اففف۔ ظالم نےاتنی زور سے میرے ممے کو دبایا کہ میری سسکاری ہی نکل گئی۔ اففففف۔ کمینے چھوڑ مجھے۔ مگر اب منیر کہاں سننے والا تھا۔ اس نے جلدی سے مجھے الٹا کیا اور میری برا کو کھینچ کو میرے جسم سے الگ کردیا۔ بلکل ایسا لگ رہا تھا جیسے منیر میری مرضی کے خلاف میری عزت لوٹنے کی کوشش کر رہا ہو۔ اور یہی میں چاہتی تھی کہ کیمرے میں جو بھی ویڈیو بنے اس سے ایسا ہی محسوس ہو جیسے یہ حرام کا بچہ میری عزت لوٹ رہا ہے۔ کچھ اپنا دفاع بھی تو کرنا تھا نہ بعد میں۔ میرے ننگی کمر منیر کے سامنے تھی اس نے جلدی سے میری کمر کو چومنا شروع کر دیا۔ اس کی موچھیں میری کمر پر چبھ رہی تھی۔ اور مجھے اچھا لگ رہا تھا۔ میں چاہتی تھی کی یہ ایسے ہی کرتا رہے۔ اس کی مونچھوں کے بال سخت تھے اور میری نرم جلد کو جیسے چھیل رہے تھے۔ پھر اس نے میرا بازو اوپر کی طرف کیا اور میری بغل میں کس کرنے لگ گیا۔ اس کی مونچھوں کی وجہ سے مجھے گدگدی ہو رہی تھی مگر مزہ بھی آ رہا تھا۔ میں نے تھوڑا سا اپنے بازو کو اس کے منہ کے ساتھ دبایا۔ جس کو اس نے بھی محسوس کر لیا۔ پھر وہ اور زور سے میری بغل کو کاٹنے لگ گیا۔ اس کے دانت مجھے بہت مزہ دے رہے تھے۔ میں ہواؤں میں اڑ رہی تھی۔پھر میں نے منیر کی گرفت کو تھوڑا سا نرم کیا اور سیدھی ہو گئی کیوں کہ میں چاہتی تھی کہ وہمیرے ممے بھی اسی طرح سے کاٹے اور کھائے۔۔ جیسے ہی میں اس کے نیچے لیٹی لیٹی سیدھی ہوئی تو اس کے سامنے میرے دودھ سے بھرے ہوئے ممے آ گئے۔۔ اس نے فوراََ سے پہلے میرے مموں پر اپنا منہ رکھ دیا۔۔ اس کی مونچھوں کے بال میرے مموں پر بہت ہی زیادہ مزہ دے رہے تھے۔۔ اب بات میری برداشت سے باہر ہو رہی تھی۔۔ میرے منہ سے آوازیں نکل رہی تھی مگر میں نے خودکو بڑی مشکل سے روکے رکھا میں نہی چاہتی تھی کہ کیمرے میں ایسا نظر آئے کہ جیسے میں بھی اس کو انجوائے کر رہی ہوں۔۔ اس نے میرے مموں کو دبانا اور کاٹنا شروع کر دیا۔۔ وہ اس وقت کسی بھوکے کتے سے کم نہی لگ رہا تھا۔۔ اور میں بھی اس وقت ایک بھوکی کتی کی طرح ہو رہی تھی۔۔ دل کر رہا تھا کہ یہ میرے مموں کو اتنی زور زور سے کاٹے کہ اس پر دانتوں کے نشان پڑ جائیں۔۔اور میں تکلیف سےبلبلا اٹھوں۔۔ میں نے منیر کو غصہ دلانے کے لئے اسے پرے دھکیلا اور اس کے نیچے سے نکلنے کی کوشش کی۔۔ مگر اس نے جلدی سے مجھے پیچھے سے پکڑ لیا مگر اس کے ہاتھ میں میری شلوار آ گئی میں نے خود کو جلدی سے آگے کی طرف ایسے کیا کہ میری شلوار اتر جائے اور ایسا ہی ہوا۔۔ میری شلوار اس کے ہاتھ میں تھی۔۔ اور میں نے اپنی پھدی کو اپنے ہاتھوں سے ڈھک لیا تھا اور ساتھ ساتھ یہ شورکر رہی تھی کہ مجھے جانے دو نہ کرو ایسا۔۔ میں مر جاؤں گی ۔۔ امی امی امی۔۔۔۔ میں ساتھ ساتھ چیخ رہی تھی اور منیر کو اپنی من مانی کرنے سے فی الحال روک رہی تھی۔۔میں کبھی ایک طرف ہو جاتی اور کبھی دوسری طرف ہو جاتی تھی۔۔ منیر کو میں اچھی طرح سے تڑپا کر ہی اسے کچھ کرنے دیتی۔۔۔ جب میں کسی بھی طرح منیر کے قابو میں نہی آ رہی تھی تو اس نے مجھے ایک دم سے سیدھا کیا اور ایک زور کا تھپڑ میری گال پر مار دیا۔۔ چٹاخ کیآواز کمرے میں گونج اٹھی۔۔میری آنکھوں میں آنسو آ گئے۔۔ مجھے امید نہی تھی کہ منیر مجھے تھپڑ مارے گا۔۔ اور یہ سب کچھ میری ساس بھی دیکھ رہی تھی۔۔۔ میری ایکٹنگ کو دیکھ کر میری ساسکے ہونٹوں پر ایک مسکراہٹ آ گئی تھی۔۔میرا ایک ہاتھ میری پھدی پر تھا اور ایک ہاتھ اور بازو کی مدد سے میں نے اپنے ممے چھپائے ہوئے تھے۔۔ وہ کوش کر رہا تھا کہ کسی طرح سے میرے جسم کو کھول سکے مگر میں اس کی ہر کوشش کو ناکام بنا رہی تھی۔۔۔ ہم دونوں کی سانسیں چڑھ گئی تھی۔۔ پھر میں نے اس کے منہ کو نوچنے کیکوشش کی۔۔ اس نے جلدی سے اپنا چہرا پیچھے کر لیا اور ایک دم سے میرے بال اپنے ہاتھ میں پکڑ لئے۔ اور میرے سر کو پیچھے کی طرف کھینچ لیا۔۔ ایسا کرنے سے میرا چہرا اس کے بلکل سامنے آ گیا اور جلدی سے اس نے میرے ہونٹوں پر اپنے کھردرے ہونٹرکھ دیئے۔۔ میں نے سختی سے اپنے ہونٹ بند کر لیئے۔۔ منیر نے اپنی زبان باہر نکالی اور میرے ہونٹوں پر پھیری۔۔ مجھے مزہ تو آ رہا تھا مگر میں نے اپنے ہونٹ نرم نہی کیئے۔۔ میں چاہتی تھی کہ وہ جتنا ہو سکتا ہے میرے ساتھ جانوروں والا سلوک کرے۔۔ وہ کچھ دیر تک ایسے ہی کوشش کرتا رہا جب اس نے دیکھا کہ میں کسی بھی صورت میں اپنے ہونٹ نہی کھول رہی تو اس نے اپنے دانت میرے ہونٹوں پر گاڑھ دئے۔۔ درد کی ایک تیز لہر میرے جسم میں دوڑ گئی۔۔ آآآآآآہہہ۔۔۔۔ جیسے ہی میں نے سسکاری بھری اس نے جلدی سے اپنی زبان میرے منہ میں داخل کر دی۔۔ پھر میں نے بھی مزاہمت کم کر دی مگر ابھی بھی میں نے اس کی زبان کو چوسا نہی تھا۔۔ اس کی زبان میری زبان کے ساتھ ٹچ ہو رہی تھی۔۔ میرے جسم میں گرمی چڑھ رہی تھی۔۔ مگر میں نے خود کو کمال ضبط کے ساتھ کنٹرول کیا ہوا تھا۔۔ میری کسی بھی حرکت سے اس کو یہ محسوس نہی ہو رہا تھا کہ مجھے مزہ آ رہا ہے۔۔ میں مسلسل ابھی بھی اس کو پیچھے دھکیل رہی تھی۔۔ پھر اس نے اپنے ایک ہاتھ سے میرے جبڑے پکڑ کر ان کو زور سے دبا دیا۔۔ جس سے یہ ہوا کہ میری منہ کھل گیا۔۔ اس نے اپنی زبان باہر نکالی اور پھر ایک دم سے پوری زبان میرے منہ میں داخل کر دی۔۔ اس کی زبان سے میری منہ سارا فل ہو گیا۔۔ مجھے اس کی زبان کاذائقہ بہت اچھا لگ رہا تھا۔۔ پھر میں نے ایک ہلکا سا اس کی زبان کو چوسا لگایا۔۔ جیسے ہی میں نے ایسا کیا منیر کے ہاتھ کی گرفت تھوڑی سی کمزور ہوئی۔۔ اسی لمحے کا فائدہ اٹھا کر میں نے اپنی منہ پیچھے کر لیا۔۔ اس نے جلدی سے میرے مموں پر اپنے ہاتھوں کی گرفت مضبوط کر لی۔۔ زور سے دبانے کی وجا سے میری چیخ نکل گئی۔۔ جیسے ہی میرا منہ کھلا اس نے پھر سے اپنے لمبی زبان میرےمنہ میں داخل کر دی۔۔ اب کی بار میں نے ان کی زبان کو ایک بھرپور چوپا لگایا۔۔ اس نے میرے سینے کے ساتھ اپنے سینا لگا دیا۔۔ اس کا چوڑا چکلا سخت سینہ مجھے بہت مزہ دے رہا تھا۔۔۔ اس نے ایک ہاتھ نیچے کر کے میری پھدی پر رکھ دیا۔۔ میری پھدی گیلی ہو رہی تھی۔۔ اس کا ہاتھ گیلا ہو گیا۔۔ اس نے اپنا ہاتھ میرے سامنے کرتے ہوئے کہا۔۔ حرامزادی دیکھ تو نیچے سے گیلی ہو چکی ہے مگر میرے سامنے نخرے کر رہی ہے۔۔ میں جانتا ہوں تم بھی لن لینے کو ترس رہی ہو۔۔ مگر میرا ساتھ نہی دے رہی۔۔ جتنا مجھے ترساؤ گی اتنی ہی دیر لگے گی۔۔ اس لئے میرے ساتھ تعاون کرو اور اپنی جان جلدی چھڑوا لو مجھ سے۔ ورنہ میں بہت بری طرح سے تمھارے ساتھ پیش آنے والا ہوں۔۔ اس کے لہجے میں بلا کی درشتگی تھی جسے محسوس کر کے ہی میں کانپ گئی۔۔اس کے لہجے میں بلا کی درشتگی تھی جسے محسوس کر کے ہی میں کانپ گئی۔۔ منیر کا لن میری ٹانگوں کے ساتھ ٹچ ہو رہا تھا۔۔ میں محسوس کر سکتی تھی کہ اس کا لن کتنا بڑا ہے ۔۔ پھر اس نے میرے مموں کو اپنے منہ میں لے کر چوسنا شروع کر دیا۔۔ ایک ہاتھ سے وہ میرا دوسرا مما دبا رہا تھا اور ایک ہاتھ سے اس نے میرا ایک مما اپنے منہ میں ڈالا ہوا تھا۔۔ وہ پورا منہ کھول کر میرا مما چوس رہا تھا۔۔ اب میری برداشت ختم ہو رہی تھی۔ میں نے اس کا سر اپنے ممے کے ساتھ دبا دیا۔۔ جیسے ہی اسے میری طرف سے اجازت ملی اس نے پورے زور سے میرے مموں پر حملہ کر دیا۔۔ وہ اتنی زور سے میرے ممےچوس اور کاٹ رہا تھا کہ میرے مموں پر اس کے دانتوں کے نشان بن گئے تھے۔۔۔ مجھے درد کے ساتھ مزہ بھی آ رہا تھا۔۔ اب مجھ میں قوت مدافعت ختم ہو چکی تھی۔۔ اس نے جب مجھے نرم پڑتے دیکھا تو وہ میرے مموں سے نیچے ہو گیا اور پھر اس کی زبان نے اپنا جادو دکھانا شروع کیا۔۔ وہ اپنی زبان سے میرے مموں کو چاٹ کر نیچے میرے پیٹ تک پہنچ گیا اور اور اپنی زبان سے مجھے مزہ دینے لگا۔۔ اس کی زبان میرے پیٹ پر۔۔ میری ناف کے ارد گرد اور اس کے اندر گھوم رہی تھی۔۔ میری آنکھیں بند تھی اور میرے منہ سے ہلکی ہلکی آوازیں نکل رہی تھی۔۔ ااممممم۔۔۔ آآآآآہہہ۔۔۔ ھائے۔۔۔۔ میرے ھاتھ منیر کے سر پر ہی تھے اور میری انگلیاں اس کے بالوں میں پھر رہی تھی۔۔۔ پھر اس نے اپنا منہ تھوڑا اور نیچے کیا۔۔ اور میری پھدی کے ادر گرد اپنی زبان پھیرنے لگا۔۔۔ میری پھدی میں آگ لگی ہوئی تھی۔۔ وہ کبھی پھدی کے ایک طرف سے چاٹتا اور کبھی دوسری طرف سے۔۔ مگر ابھی تک اسنے میری گیلی ہوتی پھدی کو منہ نہی لگایا تھا۔۔۔میں نے اپنی پھدی کو تھوڑا سا اوپر کی طرف اٹھایا تاکہ منیر کا منہ میری پھدی تک پہنچ جائے۔۔ مگر اس نے ارادہ کیا ہوا تھا کہ آج مجھے صرف تڑپانا ہے۔۔۔ وہ پھدی کو خاطر میں نہی لا رہا تھا۔۔۔ میں جتنا اوپر اپنی کمر اٹھاتی وہ اتنا ہی اپنا منہ پیچھے کی طرف کر لیتا۔۔۔۔ میرا حال بہت برا ہو رہاتھا۔۔۔ پھر اس نے میری پھدی پر رحم کر ہی لیا۔۔۔ اس نے میری پھدی کا ایک ہونٹ اپنے منہ میں لیااور اور چوسنے لگ گیا۔۔ مجھے تھوڑا مزہ آیا۔۔۔ میں اپنی پھدی اس کے منہ کی طرف کر رہی تھی اور کراہ رہی تھی۔۔۔ پھر اس نے دوسرا پھدی کا ہونٹ اپنے منہ میں لے کر چوسا۔۔ مگر میں چاہ رہی تھی کہ وہ میری پھدی کو کھا جائے۔۔ میری پھدی میں پانی ہی پانی تھا۔۔۔ جو میری ٹانگوں کو بھگو رہا تھا۔۔ اور اس پانی سے منیر کے ہونٹ بھی گیلے ہو رہے تھے۔۔۔ کافی دیر مجھے ایسے ہی تڑپانے کے بعد منیر کو مجھ پر رحم آ ہی گیا اور اس نے اپنا منہ کھول کے میری تڑپتی پھدی کے اوپر رکھ دیا۔۔ جیسے میری روح تک میں سکون کی ایک لہر دوڑ گئی۔۔ میں نے جلدی سے اپنی پھدی کو اوپر کی طرف اٹھایا جسے منیر نے بنا کسی تردد کے اپنے منہ میں لے لیا۔۔ افففففففف۔۔۔مزے کی لہر میرے پورے جسم میں دوڑ گئی۔۔۔ میں ہواؤں میں اڑ رہی تھی۔۔۔ میں نے منیر کا سر پکڑ کر زور سے اپنی پھدی کے ساتھ لگا دیا۔۔۔۔ منیر نے اپنی لمبی زبان پھدی کے اندر داخل کر دی۔۔ اس کی سخت اور کھردری زبان میری پھدی کی دیواروں کے ساتھ مسہو رہی تھی۔۔۔پھر اچانک میرے جسم نے اکڑنا شروع کر دیا۔۔۔ میرے منہ سے روکنے کے باوجود ایک چیخ نکل گئی۔۔ آآآآآآآہہہہہہ۔۔۔۔ھائےےےےےےےےےے۔۔۔۔ میں مرررررررر گگ گ گئییییی۔۔۔۔ مم منن منیررررررررر۔۔۔۔۔۔میری پھدی سے ایسے پانی نکل رہا تھا جیسے کوئی نلکا کھول دیا گیا ہو۔۔۔ کافی دیر تک میرا جسم کانپتا رہا۔۔ میری پھدی کا سارا پانی منیر نے چوس لیا۔۔۔ میں لمبی لمنی سانسیں لی رہی تھی۔۔۔ منیر نے اپنا منہ میری پھدی سے ہٹایا تو اس کا منہ میری پھدی کے پانی سے لتھڑا ہوا تھا جسے اس نے صاف کرنے کی زحمت نہی کی اور اپنے ہونٹ ایک بار پھر میرے ہونٹوں کے ساتھ ملا دئیے۔۔۔ میرے منہ میں میرے ہی پانی کا ذائقہ بہت اچھا لگ رہا تھا۔۔۔ میں نے منیر کے ہونٹوں پر لگے ہوئے اپنے پانی کو چات چات کر صاف کر دیا۔۔۔۔ میری آنکھیں سرخ ہو رہی تھی۔۔۔ یہ صرف اس لئے تھا کہ منیر نے میرے چٹائی بہت اچھے طریقے سے کی تھی۔۔۔ پھر منیر میرے سامنے کھڑا ہو گیا۔۔ اس کا موٹا لن مجھے دعوتِ چوپا دے رہا تھا۔۔۔ میں نے اس کی دعوت کو قبول کرتے ہوئے اس کو اپنے ہاتھ میں پکڑ لیا اور ایک ہلکی سی کس کر دی۔۔۔۔ پھر اپنا منہ کھول کر اس کو اپنے منہ میں لے لیا جو کہ ظاہر ہے ایک مشکل کام تھا۔۔۔ کیونکہ اس کا لن کافی موٹا تھا اور لمبا بھی تھا۔۔۔ کوشش کے باوجود اس کا لن صرف آدھا ہی میرے منہ میں جاسکا۔۔۔ میں نے لن کو منہ سے باہر نکالا اور ایک بار پھر ٹرائی کی مگر نتیجہ پہلے جیسا ہی تھا۔۔ اس کو پورا منہ میں لو میری جان۔۔ منیر پیار بھرے لہجے میں بولا۔۔۔ اس کے اس طرح کہنے کی وجہ سےمیرا دل کیا کہ اب چاہے کچھ بھی ہو جائے پورا لنمنہ میں لینا ہی لینا ہے۔۔ مگر میں اس بار بھی آدھا لن ہی منہ میں لے سکی۔۔ منیر نے میرے سر کو پکڑ کر ایک ہلکا سا جھٹکا دیا جس سے لن آدھے سے زیادہ میرے منہ میں چلا گیا مگر اس کے ساتھ ہی مجھے زبردست کھانسی کا غوطہ لگ گیا۔۔ میں زور زور سے کھانسنے لگ گئی۔۔ جب سانس تھوڑی بحال ہوئی تو میں نے منیر کی طرف شاکی نظروں سے دیکھا۔۔ ایسا کیا دیکھ رہی ہو؟ اب جلدی سے میرے لن کو چوپے لگاؤ۔۔ میں نے پھر سے اس کا لن منہ میں لیا اور جیسے تیسے چوپے لگانے لگی۔۔ مگر لن تھا کہ منہ میں جاتے ہی اور موٹا ہو جاتا تھا۔۔۔ منیر نے مجھے رکنے کا کہا اور خود بیڈ پر لیٹ گیا۔۔ اس کا لن میں دیکھ رہی تھی کہ کسی ٹاور کی مانند کھڑا تھا ایک دم سیدھا۔۔۔ منیر نے مجھے اپنے منہ پت بٹھایا اور میرا منہ اپنئے لن کیطرف کر دیا۔۔ یعنی اب ہم 69 کی پوزیشن میں تھے۔۔ میں نے اپنی ٹانگیں کھولی اور اپنا منہ بھی کھول لیا۔۔ اور پھر میں منیر کے لن پر جھک گئی۔۔۔ آگے جو ہونے والا تھا وہ میں نے کبھی سپنے میں بھی نہی سوچا تھا۔۔۔۔
سفر Part 13
آگے جو ہونے والا تھا وہ میں نے کبھی سپنے میں بھی نہی سوچا تھا۔۔۔۔ہوا یہ کہ جیسے ہی میں نے منیر کے لن کا ٹوپا اپنے منہ میں لیا تو پہلے اس نے میرے سر کو پکڑ کے زور لگایا جس سے اس کا آدھے سے زیادہ لن میرے منہ میں گھس گیا۔۔ میں اگر اپنے ہاتھوں سے اس کی ٹانگوں کو پکڑ کے اپنے سر کو نا روکتی تو شائد لن میرے حلق کو پھاڑ کے میری گردن کے باہر ہو جاتا۔۔۔ مگر یہ سکون عارضی تھا۔۔۔ اس نے اپنی ٹانگوں کو میری گردن کے اوپر کر کے فولڈ کر لیا ایسا کرنے سے اس کی ٹانگوں کا ایک پھندا سا بن گیا ۔۔ پھر اچانک سے منیر نے اپنی ٹانگوں کا زورلگایا اور میری گردن کو اپنے لن کی طرف دبا دیا۔۔ میں ایسے پھنس گئی تھی کہ چاہنے کے باوجود میںاپنا سر پیچھے نہی کر سکتی تھی۔۔۔۔ منیر کا لن میرے منہ میں پھنس گیا تھا۔۔۔ میرا سانس رک گیا تھا میں ماہی بے آب کی طرح تڑپنے لگ گئی مگر منیت نے اپنی ٹانگوں کا زور کم نہ کیا۔۔ میری آنکھوں کے آگے اندھیرا چھا گیا۔۔ میں نے منیر کی ٹانگوں کو پورا زور لگا کر پیچھے کرنے کی کوشش کی مگر اس کی گرفت بہت مضبوط تھی ۔۔ پھر مجھے ایسا لگا جیسے میرا دماغ اندھیروں میں ڈوب رہا ہے۔۔۔ ایسے میں اچانک منیر نے میرے سر سے اپنی ٹانگوں کا دباؤ تھوڑا سا کم کیا تو اسی لمحےکا فائدہ اٹھا کر میں نے جلدی سے اپنا منہ پیچھےکر لیا۔۔ میری آنکھوں سے آنسو نکل رہے تھے اور گلا بے تحاشہ درد کر رہا تھا۔۔۔ میں نے اپنی نیم وا آنکھوں سے دیکھا منیر کے ہونٹوں پر خباثت بھری مسکراہٹ تھی۔۔۔ میں نے آگے بڑھ کر منیر کا منہ نوچنے کی کوشش کی ۔۔ جلدی سے منیر نے اپنے آپ کو ایک طرف جھکا لیااور مجھے دھکا دے کر پھر سے بیڈ پر گرا لیا۔۔۔ پھر اس نے میرے چہرے پر تھپڑوں کی بارش کر دی۔۔ سالی کتیا۔۔ حرامزادی۔۔۔ تیری ماں کی پھدی ماروں ۔۔۔ کنجری۔۔ آج تو مجھ سے بچ کے دکھا۔۔ تیری پھدی کا میں وہ حشر کروں گا کہ تو سدا یاد رکھے گی منیر کا نام۔۔۔ چل اب لیٹ جا۔۔ منیر نے مجھے اوپر کی طرف منہ کر کے میرے بیڈ پر مجھے لٹا دیا۔۔ اور وہ خود بیڈ کے کنارے کے پاس زمین پر کھڑا تھا۔۔ میں اس طرح سے لیٹی تھی کہ میرا جسم تو سارا بیڈ پر تھا مگر میری گردن بیڈ کے کنارے سے نیچے ہوگئی تھی۔۔۔ منیر نے میرے گلے کو پکڑا اور میرے جبڑے پر اپنی انگلیوں کا دباؤ بڑھا دیا۔۔ جس سے میرا مننہ کھل گیا۔۔ منیر کا لن میرے منہ کے سامنے تھا۔۔۔ اور ایک جھٹکے کےساتھ اپنا لن میرے منہ میںداخل کر دیا۔۔ مجھے ایسے لگا جیسے میرا گلا پھٹ جائے گا۔۔۔ لن ابھی آدھا ہی میرے منہ میں گیا تھا۔۔۔ منیر نے کافی کوشش کی مگر لن پورا میرے منہ میں نہی جا سکا۔۔ مجھے ایسا لگ رہا تھا جیسے میرے گلے میں زخم بن گئے ہوں۔۔۔ میں رونے لگ گئی ۔۔۔ درد برداشت سے باہر تھا۔۔۔منیر کے جھٹکے قیامت ڈھا رہے تھے۔۔ اور میری ساس مجھے دور سے بس دیکھے جا رہی تھی۔۔۔ شائد وہ اس بات کا بدلہ لے رہی تھی جب مولوی نے میری ساس کو ادھیڑ کے رکھ دیا تھا اور میں نے اس کی کوئی مدد نہی کی تھی۔۔ میں نے مدد طلب نظروں سے اپنی ساس کی طرف دیکھا مگر وہ بس مجھے دیکھتی ہی رہی۔۔۔۔ منیر نے میرے ممے جھک کے پکڑ لئے۔۔۔۔ اور ایک بار اپنا لن میرے منہ سے باہر نکالا۔۔۔ اور پھر واپس ایک زور دار جھکٹا دیا اور پھر رکا نہی۔۔۔ اس کا تقریباََ سارا لن میرے حلق سے نیچے اتر گیا تھا۔۔۔ مجھے سانس لینے میں بہت پرابلم ہو رہی تھی۔۔۔۔منیر نے میرے ممے اتنی زور سےدبائے ہوئے تھے کہ مجھے اب سمجھ نہی آ رہیتھی کہ مجھے گلے میں درد ہو رہا ہے یا پھر مموں پر؟ ۔۔میں زور زور سے چیخنا چاہتی تھی مگر منیر کے لن نے میری آواز کا گلا گھونٹ دیا ہوا تھا۔۔۔ میں بس اپنے ہاتھ مار رہی تھی اس کی کمرپر اور ٹانگوں پر۔۔۔ پھر منیر نے اپنا لن میرے منہ سے باہر نکالا تو مجے جیسے سکون مل گیا۔۔ میری سانس بحال ہوئی۔۔ مجھے زور سے کھانسی کا غوطہ لگ گیا۔۔۔ میں کافی دیر کھانستی رہی۔۔ میرے کھانسنے کا منیر نے کوئی خاص نوٹس نا لیا اور میرے اوپر لیٹ گیا۔۔ میری ٹانگیں کھلی ہوئی تھی منیر نے ایک بار پھر سے میری پھدی اپنے منہ میں لے لی۔۔۔ افففففف۔۔۔۔۔۔ میری نرم پھدی میں اس کی کھردری زبان مجھے ہواؤں میں اڑا رہی تھی۔۔۔ میں نے منیر کا سر اپنے ہاتھوں میں لےکر اسے اپنی پھدی کے ساتھ دبا دیا۔۔ وہ اور زور سے اپنی زبان میریپھدی کے اندر باہر کرنے لگ گیا۔۔۔۔ میں تڑپ رہی تھی اور میری ٹانگیں اور زیادہ کھل گئی تھی۔۔۔ میں نے منیر کا لن ہاتھ میں پکڑ لیا اور اسے ایک طرف کر کے اس کے ٹٹے اپنے منہ میں لے لئے۔۔۔۔ آآآآآہہہہ۔۔۔ منیر کے منہ سے بے اختیار ایک سسکی نکلی۔۔ کچھ دیر پھدی چاٹنے کے بعد منیر نے مجھے کہا۔۔۔۔ چلو اب تمھاری پھدی کو سیراب کرنے کا ٹائم آ گیا ہے۔۔۔ مجھ میں کھڑے ہونے کی ہمت نہی تھی۔۔۔ منیر گھوم کر بیڈ کی دوسری طرف آ گیا۔۔۔ یعنی میری ٹانگوں کی طرف۔۔۔اس نے میریٹانگیں اٹھائی اور اپنی دونوں ٹانگوں کے درمیان میری پھری پھدی سیٹ کر لی۔۔۔ وہ بیڈ کے نیچے ہی کھڑا تھا۔۔۔ میری ٹانگیں اس نے اپنے دونوں کندھوں پر رکھ لی۔۔ میری پھدی بہت گیلی تھی۔۔۔ منیر کے لن کا ٹوپا میری پھدی پر رگڑ کھا رہا تھا۔۔۔ میں نے جتنی ہو سکتی تھی اپنی پھدی کو کھول لیا تاکہ لن کسی بھی رکاوٹ کے بغیر میرے اندر چلا جائے۔۔ مگر منیر بہت ہی کمینہانسان تھا۔۔ اس نے پورا پروگرام بنایا ہوا تھا کہآج بس مجھ تڑپانا ہے اور کرنا کچھ نہی۔۔۔۔۔ میری برداشت کی حد ختم ہو رہی تھی۔۔ میں اب چاہتی تھی کہ لن میرے اندر چلا جائے۔۔ پھر منیر نے مجھے کمر سے پکڑا اور کہا۔۔۔ تیار ہو جاؤ۔۔۔۔ لن کاٹوپا تو پہلے ہی پھدی کے دھانے پر تھا۔۔ منیر نے اتنا کہتے ہی ایک دم جھٹکا دیا اور لن ایک ہی بار میں جڑ تک میری پھدی کے اندر چلا گیا۔۔۔۔ آآآآآآآآآآآآہہہہہہ۔۔ میرے منہ سے درد اور لذت کی ملی جلی آواز نکلی۔۔ میں تڑپ اٹھی ۔۔ میں نے اپنے جسم کواوپر کی طرف دھکیلا تاکہ اس تکلیف میں کچھ کمی ہو سکے۔۔ مجھے ایسا لگ رہا تھا جیسے کسی نے میری پھدی کے اندر ایک سخت لوہے کا راڈداخل کر دیا ہے۔۔ درد کی ناقابل برداشت لہر اٹھی ۔۔ مگر منیر نے مجھے کمر سے بہت مضبوتی سے پکڑا ہوا تھا۔۔ میں اس کی گرفت سے نکل نا سکی۔۔ منیر نے میرے منہ پر مضبوتی کے ساتھ اپنا ہاتھ رکھا ہوا تھا۔۔ میری چیخ میرے منہ میں ہی گھٹ کے رہ گئی۔۔۔ ظالم کا لن تھا یا کسی گدھے کا لن تھا۔۔۔ اس کا لن میری بچہ دانی سے ٹکرا رہا تھا۔۔ جس کی وجہ سے میری تکلیف نا قابل برداشت تھی۔۔ مگر منیر کو اس بات کی کوئی پرواہ نہی تھی۔۔۔ میری آنکھیں ابل پڑی۔۔ اس نے بناکسی توقف کے اپنا لن میری پھدی کے اندر باہر کرنا شروع کر دیا۔۔ اس کے ہر جھٹکے کے ساتھ میریپھدی جل رہی تھی۔۔۔ اور میرے ممے اوپر نیچے ہو رہے تھے۔۔۔ میں تڑپ رہی تھی۔۔ چلا رہی تھی۔۔۔ میری چیخیں سن کے میری ساس بھی پریشان ہو گئی تھی۔۔ مگر وہ بدستور کھڑکی کے سامنے ہی کھڑی تھی۔۔ وہ اند آنے کی ہمت نہی کر رہی تھی کیونکہ وہ جانتی تھی اگر وہ اندر آئی تو میرے ساتھ ساتھ اس کی بھی خیر نہی ہے۔۔ آہستہ آہستہ مجھے منیر کے جھٹکوں کا مزہ آنے لگا۔۔۔ پھر میرے منہ سے لزت بھری سسکیاں نکل رہی تھیں۔۔ آآآآہہہ۔۔۔ اووہہہ۔۔ ہااااااااا۔۔۔ اففففف۔۔۔ مم۔۔۔ ممننیییرررررر۔۔۔۔۔ اور زور سے کرو۔۔ ھاااااا۔۔۔۔ ھائےےےےےے۔۔۔۔۔ ممممممم۔۔۔۔ منیر میری ان سسکیوںکو سن سن کے اور جوش میں آ رہا تھا۔۔۔ اس کے جھٹکوں مین طوفانی رفتار آتی جا رہی تھی۔۔ کچھ دیر ایسے ہی جھٹکے کھانے کے بعد میرے جسم میں اکڑن پیدا ہو گئی۔۔۔ مجھے ایسا لگ رہا تھا جیسے میری جان میرے پھدی کے راستے نکل رہی ہے۔۔ میں اٹھ کر بیٹھ گئی اور منیر کو اپنے ساتھ چپکا لیا۔۔۔۔ ممم۔۔ منییی۔۔ منیرررر۔۔۔ میری پپھھ۔۔ پھددییی۔۔۔ آآآآآہہہہہ۔۔۔۔ منیر میری پھدی کا پانی نکال دو اب۔۔۔ ھھھھاااااااااااااہہہہہہہ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ میری سکسی آوازیںاونچی ہو گئی تھی۔۔ منیر نے یہ دیکھ کر اور زور زور سے دھکے مارنے شروع کر دئے۔۔ پھر ایک بھرپور جھٹکا لے کر میری پھدی نے پانی چھوڑ دیا۔۔۔۔ منیر نے دو تین زور زور کے جھٹکے مارے جس کی وجہ سے منیر کا لن سیدھا میری بچہ دانی سے ساتھ جا ٹکرایا۔۔۔ ایک بار پھر درد کی شدید لہر اٹھی مگر میں لذت کی وجہ سے اسے برداشت کر گئی۔۔۔ میں نے منیر کے ہونٹ اپنے ہونٹوں میں لے کر زور سے ان کو چوس لیا۔۔۔ پھر میں نڈھال ہو کر بیڈ پر گر گئی۔۔ میرا جسم ہولے ہولے کانپ رہا تھا۔ مگر منیر کا گھوڑا ابھی تک ویسا ہی سخت اور غصے میں تھا۔۔ میں نے منیر کو رکنے کا اشارہ کیا۔۔۔ منیر نے اپنا لن دھیرے سے پھدی سے باہر نکالا۔۔۔۔ مجھے جیسے ایک سکون مل گیا۔۔۔۔منیر میرے پیٹ پر ہو کر بیٹھ گیا اور میری پھدی کےپانی سے گیلا لن ایک بار پھر میرے منہ میں دے دیا۔۔۔میں سمجھ گئی تھی کہ منیر کو سب سے زیادہ مزہ چوپے لگوانے میں آ رہا تھا۔۔۔ میں نے جتنا ہو سکا اس کا لن منہ میں لیا اور چوپے لگانے لگ گئی۔۔ اب کی بار منیر نے میرے ساتھ کوئی زبردستی نہی کی تھی۔۔۔ مجھے میرا اپنا پانی بہت مزے کا لگ رہا تھا۔۔ جب میں نے اس کا لن چاٹ چاٹ کر صاف کر دیا تو پھر اس نے مجھے گھوڑی بنا دیا۔۔۔ میں سمجھی کہ وہ اب گھوڑی بنا کر میری پھدیمارے گا۔۔ مگر ایسا بلکل بھی نہی تھا۔۔ اس نے میری گانڈ کو اپنی انگلیوں کی مدد سے کھولا اور ایک بھرپور کس میری گانڈ پر کر دی۔۔ میرے جسم میں سنسنی دوڑ گئی۔۔ میں سمجھ گئی کہ اب میری گانڈ کی باری ہے۔۔۔۔ پھر منیر نے اپنی زبان باہر نکالی اور میری گانڈ کے سوراخ پر پھیرنے لگ گیا۔۔۔ امممم۔۔۔۔ مجھے مزہ آ رہا تھا۔۔۔ میں نے اپنی گانڈ منیر کے منہ کے ساتھ ملا دی۔۔ اس نے اپنے دونوں ہاتھوں کے ساتھ میری گانڈ کو جتنا ہو سکتا تھا کھولا اور بڑے زور شور کے ساتھ میرے گانڈ کے کےسوراخ کو چومنا اور چاٹنا شروع ہو گیا۔۔۔ میری گانڈ کا سوراخ اس کے تھوک سے بھر گیا تھا۔۔ پھر اس نے اپنی زبان باہر نکالی اور گانڈ کے سوراخ کے اندر کرنے کی کوشش کی۔۔ جس میں وہ کامیاب نا ہو سکا۔۔ کیونکہ کافی عرصہ سے میری گانڈ کے اندر کوئی چیز نہی گئی تھی۔۔۔۔ پھر اس نے اپنی درمیان والی انگلی میرے منہ میں ڈال دی۔۔ جسے میں نے ایسے شوپا لگایا جیسے یہ انگلی نا ہو بلکہ یہ منیر کا لن ہو۔۔ چار پانچ چوپے لگوانے کے بعد منیر نے میرے تھوک سے بھری ہوئی اپنی انگلی میری گانڈ کے اند بہر آہستہ سے کر دی۔۔۔ جیسے جیسے انگلی اندر جا رہی تھی میرے اندر ایک بار پھر سے آگ بھڑک رہی تھی۔۔۔ میں نے اپنی گانڈ کو ایک بار پھر پیچھے کی طرف دھکا دیا۔۔ ایسا کرنے سے منیر کی انگلی آدھی میرے اندر چلی گئی۔۔ مزے کی لہر میری گانڈ سے ہوتی ہوئی میری پھدی تک پہنچی۔۔۔۔ اففففففف۔۔۔۔۔۔۔۔منیر نے آہستہ آہستہ اپنی انگلی میری گانڈ کے اندر اور باہر کرنی شروع کی۔۔۔ مین ہل ہل کر اس کا پورا ساتھ دے رہی تھی۔۔ جیسی چٹائی میری گانڈ کی منیر نے کی تھی ایسے آج تک کسی نے نہی کی تھی۔۔ میں منیر کی دیوانی ہو رہی تھی۔۔۔ پھر منیر نے انگلی باہر نکالی اور اپنے لن کا ٹوپہ میری گانڈ کے سوراخ پر رکھ دیا۔۔ میں نے منیر سے کہا کہاسے پہلے گیلا کر لو۔۔۔ یہ ایسے اندر نہی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ابھی میری بات پور نہی ہوئی تھی کہ منیر نے ایک زور دار جھٹکا مارا اور اس کا لن آدھا میری گانڈ کے اند چلا گیا۔۔۔ آآآآآآہہہہہ۔۔۔۔۔۔۔ میرے منہ سے دل شگاف چیخ نکلی۔۔ مجھے ایسا لگا جیسے کسی نے میری گانڈ کو چھری سے کاٹ دیا ہو۔۔ میں نے آگے ہو کر لن کو اپنی گانڈ سے باہر نکالنے کی کوشش کی مگر منیر تو منیر تھا۔۔ وہ جانتا تھا کہ میں ایسا ہی کروں گی۔۔ اس نے مجھے پہلے ہی اپنی مضبوط گرفتمیں لیا ہوا تھا۔۔ میں چاہنے کے باوجود ایسا نہی کرسکی۔۔۔۔ اس نے مجھے ہپ پر ایک زور دار تھپڑ مار دیا۔۔ چٹاخ کی آواز آئی۔۔۔ میری سکن سرخ تو ہو ہی گئی ہوگی۔۔ مگر میں صرف اندازہ لگا سکتی تھی۔۔۔ میری آنکھوں کے آگے اندھیرا چھا گیا تھا۔۔ میرےحلق میں جیسے کانٹے اگ آئے تھے۔۔۔ پھر منیر نے اپنا لب باہر نکالے بغیر ہی ایک اور دھکا دیا اور باقیماندہ لن بھی میری گانڈ کے اندر غائب کر دیا۔۔ ھائےےےےےےےےےےےےےےےےےےے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ کمیییی۔۔ نن ۔۔ نےےےےےے۔۔۔۔۔۔۔ آآآآآآآآآآآآآآآآآآآآہہہہہہہ۔۔۔۔۔۔۔۔ میں مر گئی۔۔۔۔۔۔۔۔۔ میرے منہ سے بے ربط الفاظ نکل رہے تھے۔۔ مگر منیر کے لن کو پرواہ تھی میری چیخوں کی۔۔ اس نے اپنا سارا وزن میری پیٹھ پر گرا دیا اور اپنے ہاتھ نیچے کر کے میرے دونوں ممے اپنی گرفت میں لے کر ان کو بری طرح سے مسلنے لگا۔۔ گانڈ کا درد پہلے کم تھا کیاجو اب اس نے میرے مموں پر حملہ کر دیا تھا۔۔۔ میں تڑپ رہی تھی اور اس کے آگے سےنکلنے کی کوشش کر رہی تھی۔۔ سارا مزہ اچانک ہی تکلیف میں بدل گیا تھا۔۔ آنٹییییی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ مجھے بچاؤ آنٹی پلیز۔۔ یہ مجھے مار دے گا۔۔ میں اب باقاعدہ رونے لگ گئی اور ساتھ ساتھ اپنی ساس کو آوازیں دے رہی تھی۔۔ مگر میری آواز نا تو میری ساس سن رہی تھی نا ہیمنیر سن رہا تھا۔۔۔ پھر منیر نے میری کمر کو چاٹنا اور چومنا شروع کر دیا۔۔ جس سے تھوڑا سا سکون ملا۔۔ مگر اس کا لن بدستور میری گانڈ کے اندر ہی تھا۔۔۔۔ اور ایسا لگ رہا تھا جیسے میری گانڈ چر گئی ہو۔۔۔اس کا موٹا لن میری برداشت سے باہر تھا۔۔۔۔ میں جتنا آگے ہونے کی کوشش کرتی وہ اتنا ہیمضبوتی سے مجھے پکڑ لیتا۔۔۔اس دوران منیر نے جھٹکے مارنے بند رکھے اور مسلسل میری کمر کو چومتا چاٹتا رہا۔۔۔ لن کے رک جانے سے کچھ دیر کے بعد مجھے تھوڑا سکون ملا۔۔ پھر جب منیر نے دیکھا کہ اب میں نارمل ہو رہی ہوں تو اس نے آہستہسے اپنا لن میری گانڈ کے اندر باہر کرنا شروع کر دیا۔۔۔ پہلے تو مجھے بہت درد ہو رہا تھا۔۔ مگر پھر رفتہ رفتہ مجھے بھی اس کا مزہ آنے لگا۔۔ میں نے اپنی گانڈ کو اور اونچا کر دیا اور اپنا سر سرھانے پر رکھ دیا۔۔ اب میری گانڈ منیر کے سامنے بلکل کھلی ہوئی تھی اور منیر نے رفتہ رفتہ اپنے جھٹکوں کی رفتار میں اضافہ کر دیا۔۔ جیسے وہ تیز پمپنگ کر رہا تھا ویسے ویسے میرے منہ سے لذت بھری سسکیاں نکل رہی تھیں۔۔ امممم۔۔ آآآۃہہ۔۔۔۔۔۔ اوووہہہ۔۔ ھااااا۔۔۔ منیر جان۔۔۔۔ اور تیز۔۔ اور تیزمیری جان۔۔ افففف۔۔۔۔ میری ایسے آوازوں کے ساتھ منیر کی رفتار بھی تیز ہو رہی تھی۔۔ دھپ دھپ دھہ کیآوازیں کمرے میں گونج رہی تھی۔۔۔۔ پھر منیر کے منہ سے بھی گندی گندی گالیوں کا طوفان نکل آیا۔۔ سالی گشتی۔۔ رنڈی۔۔ حرام کی جنی۔۔۔۔ افففف۔۔۔۔ مدرد چود۔۔۔۔ کتی کی بچی میرا لن انجوائے کر۔۔۔ بتا میرے لن کا مزہ آ رہا ہے یا نہی تجھے ۔۔۔ بول کسی کنجری کی اولاد۔۔۔۔ اس کی گالیاں سن سن کر مجھے اور جوش آ رہا تھا۔۔۔ میں نے بھی اپنی گانڈ کو اور زیادہ آگے پیچھے کرنا شروع کر دیا۔۔ منیر سالے اپنا لن سارا ڈال میری گانڈ میں کتے کے بچے۔۔۔ میں نے منیر کو جوش دلاتے ہوئے کہا اور اپنی گانڈ بلکل منیر کے ساتھ جوڑ دی۔۔ یہ سن کر منیر نے میرے بال پکڑ لیئے اور اپنی طرف کھینچ لیئے۔۔ میرا سر اوپر کی جانب اٹھ گیا۔۔۔ منیر نے اسی کے ساتھ ایک زور کا تھپڑ میرے منہ پر جڑ دیا۔۔ میری آنکھوں کے آگے اندھیرا چھا گیا۔۔ مگر مین اس درد کو بھی برداشت کر گئی۔۔ جو آگ میری پھدی اور گانڈ میں لگی ہوئی تھی وہ اس درد سے کہیں زیادہ تھی اس لیئے مجھے درد کا احساس بھی نہی ہوا۔۔ پھر منیر کی رفتار میں اور تیزی آ گئی۔۔۔ اچانک میری ٹانگیں کانپنا شروع ہو گئی اور میرے جسم کو پھر سے جھٹکے لگنے شروع ہو گئے۔۔۔ اور پھر میری پھدی نے ایک بار پھر اپنا پانی چھوڑ دیا۔۔ میں دوسری دفعہ ڈسچارج ہو گئی تھی۔۔ میں نڈھال ہو کر آگے کی جانب گر گئی۔۔ اس بار منیر نے اپنی گرفت مجھ پر ڈھیلی چھوڑ دی۔۔۔ میں آگے گر کر لمبے لمبے سانس لے رہی تھی اور اپنا آپ بحال کرنے کی کوشش کر رہی تھی۔۔۔۔۔ پھر منیر گھوم کر میرے سامنے آیا اور اپنا لن میرے ہونٹوں کے ساتھ جوڑ دیا۔۔ میں نے منہ کھول کر اس کے لن کو چوپے لگانے لگی۔۔۔ پھر منیر نے مجھے سیدھا لیٹا دیا اور میری دونوں ٹانگیں کھول کر ایک بار پھر اپنا موٹا لن میری پھدی میں داخل کر دیا۔۔۔ اففففففففف۔۔۔۔۔۔ ابکی بار منیر نے اپنے طوفانی جھٹکوں سے میرے جسمکا انگ انگ ہلا کر رکھ دیا۔۔۔ کافی دیر چودنے کے بعد منیر کا لن ایک دم اور زیادہ سخت ہونے لگ گیا۔۔۔۔ وہ کہنے لگا ۔۔ افففففف۔۔۔ میں فارغ ہونے لگا ہوں۔۔ میں نے منیر سے کہا کہ اندر ہی فارغ ہو جائے۔۔ پھر منیر نے اپنا سارا لن میری پھدی کے اندر داخل کر دیا اور میرے منہ میں اپنی زبان داخل کر دی۔۔۔ اس کی زبان کا میریزبان کے ساتھ ٹکرانا تھا کہ میری پھدی ایک بار پھر پانی چوھڑنے کے لئے تیار ہو گئی۔۔۔ منیر نےمجھے اپنی باہوں میں ایسی طاقت کے ساتھ جھکڑاہوا تھا کہ نا تو میں ہل سکتی تھی نا کچھ کر سکتی تھی۔۔۔ پھر منیر کے لن نے جھٹکتے کھانے شروع کر دیئے۔۔۔ اور پھدی نے بھی منیر کے لن کا پورا پورا ساتھ دیا۔۔ منیر کا لن جب اپنی ساری منی نکال چکا تو اس کا لن ڈھیلاپڑ گیا۔۔۔ میں ابھی تک لذت کی دنیا میں کھوئی ہوئی تھی۔۔ میں نے اپنی ایک ٹانگ اٹھا کر منیر کی ٹانگ پر رکھ دی اور ایسے اس کے سینے کے ساتھ لگ گئی جیسے کوئی چھوٹی بچی ۔۔۔۔۔ منیر بڑے پیار کے ساتھ میرے بالوں انگلیاں پھیر رہا تھا۔۔۔ میں نے مننیر کے سینے کو چوم لیا۔۔ اور منیر نے میرے ماتھے پر ایک بوسہ ثبت کر دیا۔۔ مجھے منیر کا ساتھ چپکانا بہت اچھا لگ رہا تھا۔۔۔ میں چاہتی تھی کہ یہ ایسے ہی میرے ساتھ لیٹا رہے۔۔۔ مگر تھوڑی دیر کے بعد منیر نے مجھے خود سے الگ کیا اور اٹھ کر واشروم میں چلا گیا۔۔ ایک زبردست چدائی کے بعد مجھ میں اب ہلنے جلنے کی سکت نہی تھی۔۔۔ میں ایسے ہی بے سود پڑی رہی۔۔ مجھے نہی پتا کب میری آنکھ لگ گئی اور میں نیند کی وادی میں کھو گئی۔۔۔
سفر Part 14
پھر ایک دن وہ بھی آیا جس کا تصور ہمارے وہم و گمان میں بھی نہی تھا۔۔۔ ایک ایسا واقعہ جس سے ہمارا سارا خاندان تباہ ہو کر رہ گیا۔۔۔۔۔۔ میری ساس کی طبیعت مولوی کی چدائی کے بعد ٹھیک ہونے کا نام نہی لے رہی تھی۔۔ کافی علاج کروایا مگر کوئی خاص فرق نہی پڑا۔۔۔ پھر ایک دن نبیل کے دوست کافون لندن سے آیا جو وہاں ڈاکٹر تھا۔۔ نبیل نے اپنی امی کی بات اس سے کی۔۔ نبیل کے دوست کا نام سنی تھا۔۔ سنی نے نبیل سے کہا کہ پریشان نا ہواور کچھ ٹیسٹ کے نام بتائے کہ یہ والے ٹیسٹ کروا کر ان کی رپورٹس مجھے بھیج دو میں اپنے ڈاکٹرز کے ساتھ مشورہ کر کے آپ کو بتا دیتا ہوں۔۔۔ نبیل نے اپنی امی کے وہ سب ٹیسٹ کروا کر ان کی رپورٹس سنی کو بھیج دی۔۔۔ ایک مہینے کے اندر اندر سنی نے میری ساس اور میرا ویزا بھیج دیا۔۔ ہم دونوں لندن جا رہی تھی۔۔ لندن ایک نئی دنیا تھی۔۔۔ ایک نیا ملک تھا میرے لئیے۔۔۔ میں کچھ گھبرا رہی تھی۔۔ میں نے نبیل کو بھی اپنے ساتھ چلنے کا کہا مگر وہ نا مانے۔۔ کیونکہ اگر نبیل ہمارے ساتھ چلے جاتے تو یہاں کا نظام ڈسٹرب ہو جانا تھا۔۔۔ ہم اپنی تیاریوں میں لگ گئے۔۔۔ پھر ہمارے جانے سے ٹھیک سات دن پہلے نبیل کی بڑی باجی جو کہ لندن میں ہی رہتی تھی وہ اچانک سے آ گئی۔۔۔ ہم سب ان کے ایسے اچانک آنے سے حیران ہو گئے۔۔۔ انکلکچھ ہریشان بھی ہو گئے۔۔۔ نبیل کی اس بہن کا نام روبی تھا۔۔ روبی ایک پڑھی لکھی خاتون تھی۔۔ بہت ہی ہنس مکھ۔۔۔ سرخ سفید رنگت۔۔۔ نکلتاہوا قد۔۔۔ بھرا بھرا جسم۔۔۔ ہم اگر روبی کو موٹی کہتے تو یہ غلط ہوتا۔۔ اس کا جسم کمال کا بنا ہوا تھا۔۔۔اس کے کوہلے بھرے ہوئے تھے۔۔۔۔ اور کمر پتلی۔۔۔ مموں کا سائز کم از کم 40 تھا۔۔۔ہونٹ ایسے تھے جیسے کسی ماہر سنگ تراش نے بڑی مہارت سے تراشے ہوں۔۔۔ بنا لپ سٹک کے بھی ان کے ہونٹوں کا رنگ گلابی تھا۔۔۔میں تو ان کو مبہوت ہو کر دیکھتی رہی۔۔۔ نوشی کیا دیکھ رہی ہو؟؟؟ مجھے روبی کی آواز پر ہوش آیا۔۔ وہ کچھ نہی باجی آپ ہیں ہی اتنی پیاری کہ میں اپنی نظریں چاہنے کے باوجود آپ سے ہٹا نہی پائی۔۔ میری اس تعریف پر روبی تھوڑا سا شرما گئی۔۔۔ شکریہ بھابی۔۔ آپ بھی بہت پیاری ہیں۔۔ رات کے کھانے کے بعد میںاپنے کمرے میں آ گئی۔۔۔ باقی لوگ ڈرائنگ روم میں بیٹھے گپ شپ کرتے رہے۔۔۔ اس دوران نبیل نے اپنی باجی روبی کو اپنی امی کے بارے میں بتایا کہ کیا کچھ ہوا ہے اور اب امی کے طبیعت ٹھیک ہونے کا نام نہی لے رہی۔۔ روبی بھی جانتی تھی کہ یہ سب گھر والے کیا کچھ کرتے ہیں۔۔ اور انکل اکمل نےاور نبیل نے بھی کافی دفعہ روبی کی پھدی لی ہوئی تھی۔۔روبی نے کہا۔۔ آخر امی کو مولوی کا لن لینے کی ضرورت ہی کیا تھی؟؟ اس کی کیا ضرورت تھی وہ بھی انکل نے روبی کو بتا دی۔۔ روبی بہت پریشان ہو گئی تھی۔۔ اس نے نبیل اور اپنے ابو کی موجودگی میں ہی اپنی امی کی پھدی کو کھول کےدیکھا۔۔۔ پھدی کے اندرزخم بنے ہوئے تھے۔۔ اور ایسا لگ رہا تھا جیسے یہ زخم کافی پرانے ہیں۔۔۔۔ سلمیٰ )میری ساس کا نام( آنٹی کا چہرہ بھی اترا ہوواتھا۔۔ اور کرب کے آثار کافی نمایاں تھے۔۔۔ ہمممم۔۔۔ روبی نے ایک لمبی سانس لی۔۔۔۔ اب کیا کرنا ہے نبیل امی کا؟؟؟ روبی نے نبیل سے پوچھا۔۔ کرنا کیا ہے۔۔ سنی سے بات ہو گئی ہے میری۔۔ اور امی کی سب رپورٹس بھی بھیج دی ہیں۔۔۔ اب تو امی اور نوشی پندرہ دن بعد لندن جا رہی ہیں۔۔ امید ہے وہاں ان کا علاج ہو جائے گا۔۔۔تم لوگوں نے مجھے کیوں نہی بتایا یہ سب؟؟ روبی شاکی لہجے میں بولی۔۔ وہ بیٹی اس لئے نہی بتایا کہ تم خواہ مخواہ پریشان ہوگی اس لئے نہی بتایا تھا۔۔۔ مگر پھر بھی آپ مجھے بتاتے تو سہی میں آپ کی بیٹی ہوں کوئی غیر نہی ہوں۔۔ روبی نے شکوہ بھرے لہجے میں کہا۔۔۔ خیر اب مجھے امی کی بہت فکر ہو رہی ہے۔۔۔ یہ ٹھیک ہو جائیں۔۔ کچھ نہی ہوتا امی کو۔۔ سب ٹھیک ہو جائے گا تم فکر نا کرو۔۔۔ نبیل نے روبی سے کہا۔۔ کیسے نا فکر کروں؟ میری امی ہیں یہاور مجھے فکر نہی ہوگی تو اور کسے فکر ہوگی ان کی۔۔۔ روبی نے نبیل سے کہا۔۔ اور امی کے ساتھ ساتھ اب مجھے ابو کی بھی فکر ہو رہی ہے کہ وہ کیسے گزارہ کرتے ہوں گے امی کے بنا۔۔۔ بیٹا اب گزارہ تو کرنا ہے نا۔۔۔ جیسے تیسے کر لیتا ہوں۔۔۔ نہی ابو جی آپ کو جیسے تیسے کیوں گزارہ کرنا پڑ رہا ہے؟ نوشی آپ کے کسی کام نہی آتی ہے کیا؟ روبی نے انکل اکمل سے پوچھا۔۔ وہ تو کام آتی ہے مگر میں نے اس سے اب کبھی کہا نہی۔۔ ویسے بھی تم تو جانتی ہو کہ مجھے جتنا مزہ تمھاری پھدی لینے میں آتا ہے وہ کسی اور میں کہاں مزہ۔۔۔ ہی ہی ہی ہی ہی ۔۔ روبی یہ سن کے کھل کھلا کے ہنس دی۔۔ ابو جی اب میں آ گئی ہوں نا۔۔ آپ کو فکر کرنے کی کوئی ضرورت نہی ہے۔۔۔ جب تک میں یہاں ہوں میں اپنے ابو کی ہر ضرورت پوری کروں گی۔۔ آخر میں اپنے امی ابو کا خیال نہی رکھوں گی تو اور کونرکھے گا۔۔ پھر روبی نے اٹھ کر انکل کو ہونٹوں پر کس کرتے ہوئے پوچھا۔۔ ابو جی آپ کو ابھی پیاس لگی ہوگی نا۔۔۔ تو میں آپ کی پیاس بجھا دیتی ہوں۔۔ امی کی طبیعت ٹھیک نہی تو کیا ہوا میری طبیعت تو ٹھیک ہے نا۔۔۔ یہ کہتے ہوئے روبی اپنی جگہ سے اٹھی اور انکل کی گود میں بیٹھ گئی۔۔۔ انکل کا لن پہلے ہی اکڑا ہوا تھا روبی کی یہ باتیںسن سن کر۔۔۔ انکل کا لن محسوس کر ےک روبی بولی امی دیکھیں نہ کتنا سخت ہو رہا ہے ابو کا لن۔۔۔ اور انکل کے لن کو ان کی شلوار کے اوپر سے ہی پکڑ لیا۔۔۔ آنٹی بس سامنے بیٹھی دیکھ رہی تھی باپ بیٹی کا پیار۔۔ وہ صرف مسکرا کر رہ گئی۔۔۔ ہاں بیٹی میں تو فی الحال اس کا کچھ کر نہی سکتی۔۔ تم ہی اب اپنے ابو کو سکون دو۔۔ نبیل بھی بیٹھا یہ سبکچھ دیکھ رہا تھا۔۔ مگر وہ اپنی جگہ سے ہلا نہی۔۔ پھر روبی نے کہا۔۔ ابو آپ تو کافی کمزور ہو گئے ہیں لگتا ہے کافی دنوں سے آپ نے دودھ بھی نہی پیا ہے۔۔ ہے نہ؟؟ میں سچ کہہ رہی ہوں نا؟؟ روبی نےسوالیہ نگاہوں سے انکل کی طرف دیکھتے ہوئے پوچھا۔۔ ہاں بیٹا جب سے تمھاری امی کی طبیعت خراب ہوئی ہے میں نے دودھ بھی نہی پیا ہے۔۔ انکل نے نہایت ہی معصومانہ انداز میں روبی سے کہا۔۔ روبی نے اس کے ساتھ ہی اپنی قمیض اتار دی اور اپنے دودھ کے بھرے ہوئے دو ممے انکل کے سامنے کر دئے۔۔ انکل نے جلدی سے روبی کی کمر کے پیچھے ہاتھ کر کے اس کی برا کی ہک کھول دی اور دودھ کے بھرے ہوئے ممے آزاد کر دئیے۔۔جیسے ہی روبی کے موٹے موٹے ممے انلک کے سامنے آئے انکل نے بنا کسی دیر کے جلدی سے روبی آپی کے ممے کو اپنے منہ میں لے کر چوسنا شروع کر دیا۔۔ آآآآآآہہہہ۔۔ روبی کے منہ سے ہوس بھری سسکاری نکل گئی۔۔۔ اس نے اپنے ابو کا سر پکڑ کر اپنے ممے کے ساتھ دبا دیا اور اپنی گردن کو ڈھیلا چھوڑ دیا۔۔ روبی لمبے کالے بال اس کی کمر پر ایسے جھول رہے تھے جیسے کوئی مست سانپ مستی میں لہرا رہا ہو۔۔ انکل دل کھول کے روبی آپی کے ممے کو چوپے لگا رہے تھے اور ان کے آوازوں سے کمرے کا ماحول سکسیہو رہا تھا۔۔۔ پھر روبی نے اپنا دوسرا مما انکل کے منہ میں دے دیا۔۔۔ اففف۔۔ ابو اور چوسیں نا اپنی بیٹی کے مموں کو۔۔۔۔ آج سارا دودھ پی جائیں۔۔ انکل اپنا پورا منہکھول کے روبی باجی کا مما چوس رہے تھے ۔ ایسا لگ رہا تھا جیسے انکل بہت بھوکے ہیں اور آج ان کو کافی دنوں کے بعد دودھ پینے کو ملا ہے۔۔۔ اور وہ دودھ کا ایک قطرہ بھی ضائع نہی کرنا چاہ رہے تھے۔۔۔ روبی اپنی پھدی انکل کے لن کے اوپر رگڑ رہی تھی جس سے ان کی پھدی بھی کافی گیلی ہو رہی تھی۔۔۔ مگر ابھی تک روبی باجی نے اپنی شلوار نہی اتاری تھی۔۔۔ انکل نے روبی سے کہا۔۔بیٹی اب اور برداشت نہی ہو رہا۔۔ میں تمھاری پھدی کھانا چاہتا ہوں۔۔۔ اتنا سن کے روبی باجی نےاپنی شلوار اتار دی اور صوفے پر بیٹھ کر اپنی ٹانگیں کھول کر اپنے ابو کو دعوت دی پھدی کھانے کی جس کو انکل نے رد نہی کیا اور اپنا منہ رابی باجی کی پھدی پر رکھ دیا۔۔۔ آآآآآآہہہہ۔۔۔ بے اختیار باجی کےمنہ سے سسکاری نکل گئی۔۔ میری ساس سامنے بیٹھی یہ سب دیکھ رہی تھی۔۔۔ ان کا ایک ہاتھ اپنی پھدی پر تھا اور دوسرے ہاتھ سے انہوں نے اپنا مما پکڑا ہوا تھا جس کو وہ اپنی قمیض کے اوپر سے ہی دبا رہی تھی۔۔۔ نبیل کا لن بھی سخت ہو رہا تھا۔۔ مگر وہ ابھی سکون کے ساتھ بیٹھا ہواتھا۔۔۔ شائد اپنی باری کا انتظار کر رہا تھا۔۔۔ انکل نے روبی باجی کی پھدی کو اپنے دونوں ہاتھوں کیانگلیوں کی مدد سے کھولا اور اپنی زبان لگا کر چکھا۔۔۔ اور پھر اپنی زبان روبی باجی کی پھدی میں داخل کر دی۔۔۔ پھدی میں جیسے سیلاب آیا ہوا تھا انکل نے سارا پانی پی لیا۔۔۔ روبی نے انکل کا سر پکڑ کر اپنی پھدی کے ساتھ لگا دیا۔۔۔ انکل نےاپنی ساری زبان روبی باجی کی پھدی میں داخل کی ہوئی تھی۔۔ وہ وحشیوں کی طرح پھدی کو چاٹ رہے تھے۔۔۔ پھر روبی نے انکل کا سر پیچھے ہٹایا اور صوفے سے نیچے ہو کر بیٹھ گئی ۔۔ انکل نےاپنا لن روبی کے منہ کے سامنے کر دیا۔۔ جس کو بنا کسی دیر کے روبی نے اپنے منہ میں لے کر چوسنا شروع کر دیا۔۔۔انکل نے روبی باجی کے سر کو پکڑ لیا اور اس کے سر کو آگے پیچھے کرنے لگے۔۔۔ روبی اپنا پورا منہ کھول کر اپنے ابو کا لن منہ میں لےرہی تھی۔۔ حیرانگی یہ تھی کہ انکل کا پورا لن روبی کے منہ میں تھا اور وہ بڑے مزے سے پورا لن چوس رہی تھی۔۔۔۔ ٹوپے سے لے کر جڑ تک روبی لنکو چاٹ رہی تھی۔۔ اور اپنے ایک ہاتھ سے انکل کے ٹٹے سہلا رہی تھی۔۔ جس کا مزہ انکل کو بہت زیادہ آ رہا تھا۔۔ ااووووو۔۔۔۔ آآآآآہہہہہ۔۔۔۔۔ کی آوازیں دونوں کے منہ سے نکل رہی تھی۔۔ اور کمرے کا ماحول گرم سے گرم تر ہو رہا تھا۔۔۔ پھر انکل نے روبی باجی کو پکڑ کر اٹھایا اور صوفے پر گھوڑی بنادیا۔۔۔روبی باجی کی پھدی پہلے ہی بہت گیلی تھی اس لئیے انکل کا لن بہت آرام کے ساتھ روبی کی پھدی میں چلا گیا۔۔۔ اففففففففف۔۔۔۔۔ روبی باجی کے منہ سے ایک لمبی سسکاری نکلی۔۔۔۔ اور اس نے اپنی پھدی کو انکل کے لن کے ساتھ جوڑ دیا۔۔۔ انکل نے اپنے دونوں ہاتھ آگے کو کر روبی باجی کے لٹکتے ہوئے ممے پکڑ لئے اور ان کو بہت شدت کے ساتھ دبا کر پکڑ لیا۔۔۔ آآآآۃہہہ۔۔۔ ابو آرام سے دبائیں میرے ممے۔۔۔ روبی باجی نے ایک دم سے سسکاری بھرتے ہوئے انکل سے کہا۔۔۔ انکل نے یہ سن کر اور زور سے روبی باجی کے ممے دبانے شروع کر دئے۔۔ آآآآآہہہہ۔۔۔۔ اااااوووی۔۔۔ اامم۔۔ امی ی ی ی جج ججییی۔۔۔۔ روبی باجی کی چیخیں نکل رہی تھی مگر انکل کو اس بات کی کوئی پرواہ نہی تھی وہ دھپا دھپ روبی باجی کی پھدی میں اپنا لن اند بار کر رہے تھے۔۔۔ تھوڑی دیر کے بعد روبی باجی کا جسم اکڑ گیا ۔۔ آآہہ۔۔ ابو جی میری جان نکل رہی ہے۔۔ اور زور سے میری پھدی ماریں۔۔۔ میری پھدی پھاڑ دیں آج۔۔۔۔ آج اپنی بیٹی کی پھدی کا سارا پانی نکال دیں۔۔ مجھے آپ کی گشتی بننے کا شوق ہے۔۔ آج میرا یہ شوق پورا کر دیں۔۔ روبی ایسے ہی بول رہی تھی۔۔ پھر روبی باجی کے جسم نے جھٹکے کھانے شروع کر دئے اور وہ نڈھال ہو کرآگے کی طرف گر گئی۔۔۔۔ انکل کے جسم پر بھی پسینہ آیا ہوا تھا۔۔۔ روبی باجی لیٹ کر اپنے حواس بحال کر رہی تھی۔۔ اتنی دیر میں آنٹی میں نے اپنے ممے قمیض سے باہر نکال لئے تھے اور نبیل نے بھی اپنی پینٹ اتار دی ہوئی تھی اور اپنی امی کی طرف پیار بھری نظروں سے دیکھ رہا تھا۔۔۔ آنٹی نے نبیل کی آنکھوں کا مفہوم سمجھ لیا اور اسے پاس آنے کا کہا۔۔۔۔ امی آپ کی پھدی میں تو زخم ہیں۔۔۔ میرا لن اندر نہی جا سکتا ۔۔۔۔ نبیل نے اپنی مجبوری بتائی۔۔۔ میرے بچے میری پھدی میں مسئلہ ہے میرے منہ میں اور میرے مموں کو کوئی مسئلہ نہی ہے۔۔۔ تم اپنی امی کے مموں سے دودھ پی سکتے ہو۔۔اور اپنی امی کی پھدی سے سارا شہد بھی چوس سکتے ہو میرے بچے۔۔ اتنا کہہ کر آنٹی نے نبیل کے منہ میں اپنا مما دے دیا۔۔ اور نبیل نے آنٹی کے ممے کا نپل اپنے منہ میں لے کر چوسنا شروع کر دیا۔۔۔:اور نبیل نے آنٹی کے ممے کا نپل اپنے منہ میں لے کر چوسنا شروع کر دیا۔۔۔ ادھر انکل نے روبی باجی کو صوفے سے نیچے اتار کر اس کی ٹانگیں اوپر ہوا میں اٹھا دی اور ایک بار پھر اپنا منہ رابی باجی کی پھدی کے ساتھ لگا دیا۔۔۔ روبی باجی نے اپنی ٹانگیں جتنی ممکن تھی کھول دی اور انکل کو پھدی چوسنے میں مدد کرنے لگی۔۔۔ تھوڑی دیر بعد انکل نے روبی باجی کی پھدی سے اپنا منہ ہٹایا اور اپنا لن پھدی کے منہ پر رکھ دیا۔۔۔ پھر ایک دم جھٹکا مارا اور پورا لن جڑ تک پھدی میں داخل کر دیا۔۔ آآآآآآآآآہہ ہ ہ ہہ ہ ہ ہ ہ ہ ہ ہہہ ہہہ۔۔ ھاائےےےےےے۔۔۔۔ روبی باجی کی منہ سے بے اختیار ایک چیخ نکل گئی۔۔۔۔ ابوووو جج جییی۔۔۔۔۔ ااففففف۔۔۔۔۔۔ اور ساتھ ہی اپنی ٹانگیں انکل کی کمر کے گرد لپیٹ دی۔۔۔۔۔۔ زور سے ۔۔ اور زور سے۔۔ رابی باجی انکل کو للکار رہی تھی۔۔ مادر چود۔۔ سالی رندی۔۔۔۔۔ تیری ماں کے پھدے میں کھوتے کا لن ماروں کسی حرامزادےکی اولاد۔۔۔۔۔ افففففف۔۔ اب انکل کے منہ ے گالیوں کا طوفان نکل آیا تھا۔۔ میں جانتی تھی کہ جب بھیانکل فارغ ہونے لگتے ہیں تو ایسے ہی گالیاں نکالتے ہیں۔۔۔ )یہ سب باتیں مجھے صبح نبیل نے ناشتہ کرتے ہوئے بتائی تھی( پھر انکل کے جسم نے زور دار جھٹکے کھائے اور اپنا سارا روبی باجی کی پھدی میں ہی نکال دیا۔۔۔ ادھر نبیل نے اپنا لن آنٹی کے منہ میں دیا ہوا تھا اور وہ دونوں 69 کی پوزیشن میں تھے۔۔ یعنی نبیل کا لن آنٹی کے منہ تھا اور آنٹی کی پھدی نبیل چاٹ رہے تھے۔۔۔آنٹی نے نبیل کا پورا لن منہ میں لیا ہوا تھا اور بہت جوش کے ساتھ چوپے پر چوپا لگا رہی تھی۔۔۔۔ پھر ایک دم سے آنٹی کے منہ سسکاریاں نکلنے لگ گئی۔۔ آآآآآآآہہہ۔۔۔ ااففففف۔۔۔۔ چچ چوسس لو اپنی امی کی پھدی آج ساری مم میرے بیٹے ۔۔۔اور اپنی پھدی اوپر کو اٹھا دی تاکہ نبیل کی زبان آنٹٰ کی پھدی میں گہرائی تک جا سکے۔۔۔ پھر آنٹی کے جسم میں اکڑنپیدا ہو گئی اور آنٹٰ کا جسم جھٹکے کھانے لگ گیا۔۔۔ جیسے ہی آنٹی کا جسم شانت ہوا نبیل کے لن نےبھی آنٹی کے منہ میں ہی اپنے پانی کا چھڑکاؤ کر دیا۔۔۔ یہ سب لوگ فارغ ہو چکے تھے۔۔۔۔پھر کچھ دن کے بعد میری اور امی کی ٹکٹیں کنفرم ہو گئی لندن کے لئے۔۔۔ اور ہم جہاز میں بیٹھ کر لندن کے لئے پرواز کر گئے۔۔۔ وہاں ایک نئی دنیا ہماری منتظر تھی۔۔۔ وہاں جا کر ایک دو دن تو ریسٹ کیا اور پھر ہسپتال کے چکر شروع ہو گئے۔۔ میری ساس کا علاج شروع ہو گیا۔۔ ڈاکٹرز نے بتایا کہ فکر والی کوئی بات نہی سب ٹھیک ہو جائے گا۔۔۔۔ آہستہ آہستہ میری ساس کی طبیعت سنبھل رہی تھی۔۔ ایک دن شام کو نبیل کا فون آیا ہم باتیں کر رہے تھے اور نبیل نے صرف نیکر پہنی ہوئی تھی۔۔ میں نے پوچھا میری جان آج کیا ارادہ ہے آپ کا؟ تو وہ کہنے لگے کہ تم اب اتنی دور بیٹھی ہوئی ہو کہ میں چاہ کر بھی ابھی کچھ نہی کر سکتا۔۔ ہممم۔۔ میں سوچ میں پڑ گئی۔۔ میں جانتی تھی کہ نبیل کو میری ضرورت ہے مگر میں مجبور تھی کر کچھ نہی سکتی تھی۔۔ اور اس بات سے میرا دل بہت اداس ہو رھا تھا۔۔ نبیل میری جان۔۔ میں نے بڑے پیار بھرے لہجے میں نبیل کو پکارا۔۔ جی میری جان؟ آپ اپنے کپڑے اتاریں میں آپ کو ایسے ہی فارغ کر دیتی ہوں۔۔ میں نے نبیل سے کہا۔۔۔ نہی میری جان ایسے مزہ نہی آئے گا۔۔۔ نبیل نے جواب دیا۔۔۔ میرے بار بار اصرار کرنے پر نبیل نے اپنی نیکر اتاری اور اپنا لن کیمرے کے سامنے کر دیا۔۔ میں دیکھ سکتی تھی کہ نبیل کا لن کافی زیادہ اکڑا ہوا تھا اور بڑے غصے میں لگ رہا تھا۔۔ جان اس کو اتنا غصہ کیوں آ رہا ہے؟ میں نے ہوس بھری آواز میں پوچھا۔۔ میری جان یہ تمھاری پھدی کا انتظار کر رہا ہے۔۔۔ میری جان اب یہ پھدی تو ۱ ماہ بعد ہی اس کو ملنی ہے۔ تب تک آپ کسی اور طریقے سے اس کو شانت کر لیں۔۔ کیسے کر لوں میری جان۔۔ ہاتھ سے مٹھ مارنے کا مجھے مزہ نہی آتا یہ تم جانتی ہو اچھی طرح سے۔۔ نبیل کے لہجے میں حوس اور بے چارگی تھی۔ میرا دل کٹ کر رہ گیا۔۔ میں اپنے جانو کے لئے کچھ نہی کر سکتی تھی۔۔۔ اسی دوران روبی باجی نے ہمارے کمرے کا دروازہ کھولا اور اندر داخل ہو گئی۔۔ روبی نے جیسے ہی دیکھا کہ نبیل اپنے ہاتھ میں اپنا لن پکڑے ہوئے ہے اور سکرین پر میں اپنے ممے ننگے کئے ہوئے بیٹھی ہوئی ہوں۔۔۔ روبی باجی کی ہنسی نکل گئی۔۔ واہ بھئی کیا بات ہے تم دونوں کیمرے پر ہی سکس کر رہے ہو؟ روبی باجی نے مسکراتے ہوئے کہا۔۔ نبیل نے روبی باجی کو دیکھ کراپنا آپ چھپانے کی کوشش نہی کی۔۔۔ کیوں کہ جیسا میں پہلے بتا چکی ہوں کہ یہ ساری فیملی ہی بہتسیکسی تھی اور ایک دوسرے کے ساتھ سیکس کرتے رہتے تھے۔۔۔ کیا کروں باجی اب یہ نوشی اتنیدور بیٹھی ہوئی ہے کہ میں کچھ کر بھی نہی سکتا۔ مگر میرا لن ہے کہ ٹھنڈا ہونے کا نام ہی نہی لے رہا۔۔۔ ہممم۔۔۔ روبی باجی نے ایک ہنکارہ بھرا۔۔ چلو اگر وہ کچھ نہی کر سکتی تو میں ادھرہی ہوں ۔۔ میں ٹھنڈا کر دیتی ہوں تمھارے لن کو۔۔ کیا خیال ہے نوشی؟ روبی نے مجھ سے پوچھا۔۔۔ مجھے کیا اعتراض ہو سکتا تھا۔۔ میں نے ہاں کہہ دی مگر آپ لوگ کیمرہ آف نہی کرو گے اور سب کچھ میرے سامنے ہی کرو گے۔۔ میں دیکھنا چاہتی ہوں کہ میرا شوہر کیسے اپنی بہن کے ساتھ پیار کرتا ہے۔۔ ہمم۔۔ ٹھیک ہے ہمیں منظور ہے۔۔ دونوں نے ایک ساتھکہا۔۔ پھر روبی باجی نے کیمرہ بیڈ کی طرف سیٹ کیا اور اپنے کپڑے اتار کر بیڈ پر اپنی ٹانگیں کھول کر بیٹھ گئی۔۔۔ رابی باجی بلکل ننگی تھی اور نبیلتو پہلے ہی ننگا بیٹھا ہوا تھا۔۔ نبیل نے بیڈ پرروبی باجی کو لٹا دیااور اس کی ٹانگیں اوپر اٹھا کر ان کو ممکن حد تک کھول دیا اور اپنا منہ روبی باجی کی پھدی پر رکھ دیا۔۔۔ روبی باجی نے اپنی آنکھیں بند کر دی اور اپنی گردن کو ڈھیلا چھوڑ دیا۔۔۔ نبیل روبی باجی کی پھدی کو ایسے چاٹ اور کھا رہا تھا جیسے کوئی بچہ کافی دن سے بھوکا ہو اور آج اس کو کھانا ملا ہو۔۔ وہ ندیدوں کی طرح روبی باجی کی پھدی پر ٹوٹ پڑا۔۔باجی بھی اپنے بھائی کو اپنی پھدی بڑے شوق سے کھلا رہی تھی۔۔ مجھے ان دونوں بہن بھائی کا پیار دیکھ کر بہت خوشی ہو رہی تھی۔۔ میں نے بھی اپنے کپڑے اتار دئے تھے اور اپنی پھدی میں اپنی انگلی ڈال کر اسے شانت کرنے کی کوشش کر رہی تھی۔۔۔ بنیل روبی باجی کی پھدی چوس رہا تھا کہ اچانکہی روبی باجی کے جسم نے جھٹکے کھانے شروع کر دئے اور انہوں نے نبیل کا منہ اپنی پھدی کے ساتھ کس کے لگا دیا۔۔ آآآآآآہہ۔۔۔ ھائےےےےےےےےےےے۔۔۔۔۔۔ نن نبیل ل ل ل ل ۔۔۔۔ میریپھدی گگ گئییییی۔۔۔۔۔ آآآآآآآآآآآآہہہہہہہ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ میں نے دیکھا کہ نبیل کا سارا منہ روبی کے پانی سے بھر گیا ہو۔۔۔ نبیل نے اپنی زبان باہر نکالی اور روبی باجی کی پھدی کا سارا پانی چاٹ لیا۔۔۔۔ افف۔۔ نبیل آئی لو یو۔۔۔ روبی باجی نے نبیل کے ہونٹ چوستے ہوئے کہا۔۔۔ پھر وہ نیچے بیٹھ گئی اور نبیل کا لناپنے منہ میں لے کر چوسنے لگی۔۔۔۔ وہ بڑی مہارت کے ساتھ نبیل کا لن چوس رہی تھی۔۔ وہ لن کے ٹوپے سے اس کی جڑ تک اپنی زبان سے چاٹ رہی تھی۔۔ ادھر میری حالت غیر ہو رہی تھی۔۔۔۔ روبی باجی اپنے بھائی کے لن کو چاٹتے ہوئے ان کے ٹٹے بھی اپنے منہ میں لے لیتی جس سے نبیل کو ایک سکون ملتا ۔۔۔ روبی اپنے منہ سے تھوک بھی نکال نکال کر نبیل کے لن پر لگا رہی تھی ۔۔۔ پھر نبیل نےروبی باجی کو بیڈ پر گھوڑی بنا کر اپنا لن ان کی پھدی میں ڈال دیا۔۔۔ آآآآآآہہہ۔۔۔ روبی نے ایک لمبی سسکاری بھری اور اپنی پھدی کو نبیل کے لن کے ساتھ بلکل جوڑ دیا۔۔۔ نبیل بھی اب جوش میں آ گیا تھا اور بھرپور جھٹکے مار رہے تھے روبی باجی کی پھدی میں۔۔۔ پھر نبیل نے روبی کو سیدھا لٹا لیا اور اس کی ٹانگیں اپنے کاندھوں پر رکھ لی۔۔ ایسا کرنے سے روبی باجی کی پھدی کافی کھل گئی اور اوپر کو بھی اٹھ گئی۔۔ میں دیکھ سکتی تھی کہ روبی باجی کی پھدی بہت ہی زیادہ گیلی ہو رہی تھی۔۔ اور نبیل کا لن بھی پھدی کے پانی سے بھرا ہوا تھا۔۔۔ نبیل نے اپنے دھکوں میں طوفانی رفتار پیدا کر لیل تھی۔۔ ہر دھکے پر روبی کے ممے اچھل رہے تھے ۔۔ نبیل نے روبی کے مموں کو اتنی بے دردی سے پکڑے ہوئے تھے کہ اس کی انگلیاں دھنسی ہوئی تھی۔۔روبی کو درد کے ساتھ ساتھ مزہ بھی آ رہا تھا۔۔۔ اچانک نبیل نے اپنا لن روبی کی پھدی سے نکال کر روبی کے منہ میں ڈال دیا۔۔۔ روبی کے پانی سے لتھڑا ہوا لن روبی کے منہ میں جا رہا تھا۔۔ میرا دل کر رہا تھا کہ میں یہ لن اپنے منہ میں لے لوں اور اس کا سارا پانی نچوڑ کر اپنے حلق میں اتار لوں اور اس کے نشے میں مدہوش ہو جاؤں۔۔ مگر میں ایسا کر نہی سکتی تھی کیوں کہ میں بہت دور تھی۔۔۔ میں صرف اتنا کر سکتی تھی کہ اپنی انگلیں اپنی پھدیمیں ڈال کر اس کو سکوں پہنچاؤں اور وہ میں کر رہی تھی۔۔ میرا ایک ہاتھ میری پھدی پر تھا اور دوسرے ہاتھ سے میں نے اپنے ممے کو زور سے دبا رہی تھی۔۔ میرا مما میری سخت پکڑ کی وجہ سے سرخ ہورہا تھا مگر میں اس پر کسی قسم کا رحم نہی کر رہی تھی۔۔۔۔ اس کو جتنا ہو سکتا تھا دبا رہی تھی۔۔ اور میری انگلیاں میری پھدی میں تیزی سے حرکت کر رہی تھی۔۔ میں نے اپنی ٹانگیں کھولی ہوئی تھی اور میری تین انگلیاں میری پھدی میں گہرائی تک جا رہی تھی۔۔ میں آج اپنی ہی پھدی پھاڑنے کے موڈ میں تھی مگر کوئی ہوتا تو میری اس خواہش کا انجام بھی ہو جاتا۔۔۔ روبی نے نبیل کا لن چاٹ چاٹ کر صاف کر دیا۔۔ اور پھر سے اپنی ٹانگیں پھیلا کر نبیل کے سامنے لیٹ گئی اور اس کو دعوت پھدی دینے لگی۔۔ نبیل نے روبی کو الٹا کیا اور اپنی زبان نکال کر اس کی گانڈ پر پھیرنی شروع کر دی۔۔ میں سمجھ گئی کہ اب کی بار نبیل اپنی بہن کی گانڈ مارے گا۔۔ یہ سوچ کر میری گانڈ میں بھی کیڑا داخل ہو گیا۔۔ میں اٹھ کر کچن میں گئی اور ایک موٹاتازہ کھیرا فریج میں سے نکال کر لے آئی۔۔ کھیرا دیکھ کر میری پھدی میں پانی ہی پانی آگیا تھا۔۔ میں نے کھیرا کیمرے پر نبیل اور روبی کو دیکھایا۔۔ جسے دیکھ کر دونوں نے انگوٹھا کا اشارہ کیا ۔۔۔۔ میں نے کھیرا اپنے منہ میں لے کر اسے ایسے چوپو لگانےلگی جیسے یہ کھیرا نا ہو نبیل کا لن ہو۔۔۔ پھر میں نے کھیرے کے نوک کو اپنی پھدی پر رگڑا۔۔ سرور کی ایک لہر میرے پورے جسم میں دوڑ گئی۔۔ میں نے اپنی ٹانگیں کھولی اور کھیرے کو آہستہ آہستہ اپنی پھدی کی گہرائی میں لے گئی۔۔۔ جیسے جیسے کھیرا میری پھدی کی گہرائی میں اتر رہا تھا میری روح مین جیسے سکون کی ایک لہر اتر رہی تھی۔۔ادھر نبیل نے روبی کی گانڈ پر ڈھیر سارا تھوک لگایا اور انپے لن کی ٹوپی گانڈ کے سوراخ پر رگڑ نے لگا۔۔ روبی نے یہ دیکھ کر اپنی گانڈ مزید نبیل کے لن کے ساتھ لگا دی۔۔۔ نبیل نے روبی کو اس کی کمر سے پکڑا اور ایک جھٹکا دیا اور آدھے سے زیادہ لن گانڈ میں داخل کر دیا۔۔۔ روبی کے جسم کو ایک جھٹکا لگا۔۔۔ اس نے آگے ہونے کی کوشش کی جسے نبیل نے ناکام بنا دیا۔۔۔ نبیل نے بنا دیر کئے ایک دم سے دوسرا جھٹکا دیا اور پورا لن گانڈ میں داخل کر دیا۔۔۔ روبی نے ایک چیخ ۔۔۔ آآآآآآآآآآآآآآہہہہہہہہہہہہ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ھائےےےےےےےےے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ نبیل۔۔۔۔۔ میں مر گئی۔۔۔۔ میری گگ گانڈ۔۔۔۔۔ اففففففففففففف۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ روبی کے منہ سے عجیبعجیب آوازیں نکل رہی تھی جو یقیناََ تکلیف کی وجہسے تھی۔۔۔ نبیل نے روبی کے بال پکڑ لئے۔۔۔۔۔ اور ان کو زور سے پیچھے کی طرف کھینچا۔۔ جس سےاس کا سر اوپر کی طرف اٹھ گیا۔۔ نبیل نے اپنا منہ ٓگے کر کے اس کے ہونٹ اپنے ہونٹوں میں لے لئے اور بہت ڈیپ فرنچ کس کی۔۔۔ نبیل نے اپنی زبان روبی کے منہ میں ڈال دی اور روبی بھی نبیل کی زبان کو ایسے چوس رہی تھی جیسے یہ کوئی لولی پاپ ہو۔۔۔ادھر میری پھدی کا حال برا ہو رہا تھا۔۔ میں کھیرے کو پوری رفتار کے ساتھ اپنی پھدی کے اند باہر کر رہی تھی۔۔۔ اچانک مجھے روبی کی آواز آئی۔۔ نبیل پلیز لن میری پھدی میں ڈالو۔۔ میری پھدی فارغ ہونے والی ہے۔۔ پلیز نبیل۔۔۔ وہ نبیل کے ترلے کر رہی تھی۔۔ نبیل نے اپنا لن اس کی گانڈ ے باہر نکالااور واپس اس کی پھدی میں ڈال دیا۔۔ آآآہہہہ۔۔ نبیل زور زور سے میری پھدی مارو۔۔ نن۔۔نب۔۔۔ نبییی۔۔۔ للل۔۔۔ اورزور سے۔۔ آآآآآآآآہہہہہ۔۔۔ ہاں ایسے ہی۔۔ روبی باجی کی آوازوں کے ساتھ ساتھ نبیل کے دھکوں میں طوفانی رفتار آتی جا رہی تھی اور پھر روبی باجی کا جسم ایک دم سے جھٹکے کھانے لگ گیا۔ ساتھ ہی نبیل کی آواز آئی۔ ھائےےےےےےے۔ روبی باجی میرا لن بھی اپنا پانی ننکالنے لگا ہے۔۔۔۔۔۔۔۔ اند ہی نکال دو میرے پیارے بھائی۔ آج اپنی باجی کی پھدی کو اپنے پانی سے بھر دو۔۔۔۔۔۔ ان کی یہ باتیں سن سن کے میری اندر بھی آگ بھڑک رہی تھی۔۔ میں نے سارا کھیرا اپنی پھدی کے اندر غائب کر دیا۔۔۔۔۔۔۔ کھیرا سیدھا جا کر میری بچہ دانی کے ساتھ ٹکرایا۔۔۔۔۔۔۔۔ میں مزے کی دنیا میں کھو گئی۔۔۔۔۔ ساتھ ہی میری پھدی نے کھیرے کو جکڑ لیا۔۔ اور میری پھدی
سفر Part 15
:پھر ہم نے تھوڑی دیر اور بات کی اور پھر کال بند کر دی۔ میں نے شاور لیا اور تازہ دم ہو کر اپنے بیڈپر لیٹ گئی،۔۔۔۔ کپڑے میں نے نہی پہنے تھے۔۔۔ مجھے نہی پتا چلا کب میری آنکھ لگ گئی ۔۔۔۔۔۔ صبح جب آنکھ کھلی تو امی اور سنی ہاسپتال جانے کے لئے تیار ہو رہے تھے۔۔ ناشتہ ابھی انہوں نےنہی کیا ہوا تھا۔۔۔ میں نہا کر فریش ہوئی اور ہم سب نے مل کر ناشتہ کیا۔۔ پھر ہم تینوں ہسپتال کےلئے نکل گئے۔۔وہاں میری ساس کے کچھ اور ٹیسٹہوئے۔۔ اور ڈاکٹرز نے دوائی میں کچھ تبدیلی بھی کی میری ساس کی حالت اب کافی بہتر تھی۔۔۔ یہاں آکر بھی مجھے ڈاکٹر فواد کی یاد بہت آ رہی تھی۔ میں چاہ کر بھی اس کو بھلا نہی پا رہی تھی۔۔ پتا نہی کیوں اس کے بارے میں سوچتے ہوئے میرے دل میں کبھی بھی سیکس کے جذبات پیدا نہی ہوئے تھے۔۔ یہ شائد اس کے پیار کا اثر تھا یا کچھ اور تھا۔۔ مگر کچھ تو تھا۔۔ میرے پاس اس کا نمبر بھی تھا۔۔ میں ایک شام باہر گھوم رہی تھی وہاں ایک کپل سڑک کنارے بیٹھا بڑے ہی رومینٹک انداز میں ہاتھ میں ہاتھ پکڑے پیار سے باتیں کر رہے تھے۔۔ میرے دل میں فواد کی یادنے انگڑائی لی۔۔ میں پھر خود کو روک نہی پائی اورڈاکٹر فواد کا نمبر ڈائل کر دیا۔۔ میرا دل زور زور سے دھڑک رہا تھا۔۔۔ کافی دفعہ بیل ہونے کے بعد بالآخر اس ہرجائی کی آواز میرے کانوں میں آئی۔۔ ھیلو۔۔۔ اس کا مخصوص دھیما لہجہ میری روح کی گہرائی میں اتر رہا تھا۔۔ جج جی کیا حال ہے ڈاکٹر صاحب آپ کا؟ میں نے سوال کیا۔۔ جی میں ٹھیک ہوں آپ کون؟ لو جی جس کی یاد میں ہم یہاں مرنے کے قریب پہنچگئے تھے اس کو ہماری آواز ہی اجنبی لگ رہی تھی۔۔ میں نے اپنا تعارف اچھے سے کروایا تو ڈاکٹر صاحب کو بھی یاد آ گیا کہ میں کون ہوں اور کہاں سے بات کر رہی ہوں۔۔۔ جی کہیے کیسے یاد فرمایا اس ناچیز کو؟ جی ڈاکٹر صاحب ایک بہت ہی گھمبیر پرابلم ہو گئی ہے میرے ساتھ۔۔ جی کیا ہوا؟فواد نے جلدی سے سیریس ہوتے لہجے میں پوچھا۔۔ میری بے اختیار ہنسی نکل گئی جسے میں نے بڑی مشکل سے کنٹرول کیا ۔۔۔۔ہوا تو کچھ نہی ۔۔ اور بہت کچھ ہوا بھی ہے۔۔۔ میں نے ہلکے سے کہہ دیا۔۔ کا مطلب مس آپ کچھ بات کلیر کریں کہ کیا بات ہے۔۔ ڈاکٹر صاحب بات کچھ ایسے ہے کہ میرے دل میں ایک درد ہے۔۔ میں نے آج فیصلہ کر لیا تھا کہ اس سے اپنے دل کا حال کہنا ہی کہنا ہے۔۔ کیسا درد ہے محترمہ ؟؟ فواد نے مجھ سے پوچھا۔۔ ڈاکٹر صاحب ایسا درد ہے جس کی دوا ممکن نہی ہے۔۔۔ میں نے دھیمے لہجے میں جواب دیا۔۔۔ پھر بھی کچھ بتائیں بھی۔۔ وہ اصل میں میرا دل کہیں کھو گیا ہے۔۔ اور مجھے اتنا بھی پتا ہے کہ کس نے چرایا ہے میرا دل۔۔ اتنا کہہ کر میں خاموش ہو گئی۔۔ محترمہ اگر آپ کو پتا ہے کہ کس نے یہ حرکت کی ہے تو اس کے خلاف آپ کاروائی کریں نا۔۔۔۔ فواد نے تھوڑے شوخ لہجے میں کہا۔۔ ڈاکٹر صاحب کیا کروں وہ پیارا بھی اتنا لگتا ہے کہ میں اس کے خلاف کوئی کاروائی بھی نہی کر سکتی۔۔۔ ایک منٹ محترمہ اگر آپ کے پاس واٹسایپ ہے تو میں اس پر کال کرتا ہوں یہاں آپ کو کال مہنگی پڑے گی۔۔ فواد نے کہا۔۔ چلیں ٹھیک ہے میں واٹسایپ پر کال کرتی ہوں۔۔پھر میں نے واٹسایپ پر کال کر لی۔۔ جی اب بولیں اور دل کھول کر بولیں ۔۔ فواد کی چہکتی ہوئی آواز آئی۔۔۔ بولنا کیا ہے ڈاکٹر صاحب۔۔ جس بندے نے میرا دل چرایا ہے مجھے پتا ہے اس کا مگر مسلہ یہ ہے کہ میں اس کے خلاف کچھ کر بھی نہی سکتی۔۔ وہ مجھے جان سے پیارا ہے۔۔ اچھاااااااااا۔۔۔۔۔ فواد نے ایک لمبی سانس بھری۔۔ پھر تو واقعی بہت پرابلم والی بات ہے۔۔ تو آپ ایسا کریں اس سے سیدھے سبھاؤ بات کریں کہ آپ کا دل آپ کو واپسکر دے۔۔۔ ہمم۔۔۔ میں بس اتنا ہی کہہ سکی۔۔ ویسے وہ خوش نصیب ہے کون؟ کیا میں اس کا نام جان سکتا ہوں؟؟ جس نے اتنی خوبصورت لڑکی کا دل چرا لیا ہے۔۔۔۔ کیا کریں گے آپ اس کا نام جان کر؟ میں نے سوال کیا۔۔ کرنا کیا ہے۔۔ بس دل ہی دل میں اس بندے کو سراہوں گا ۔۔۔۔ کیوں آپ کیوں سراہیں گے اس کو؟؟ کیوں کہ میں تو چاہتا تھا کہ میں آپ کا دل چرا لوں۔۔ مگر وہ مجھ سے زیادہ لکی نکلا۔۔۔۔ اور پہل کر گیا۔۔۔ میری خوشی کی کوئی انتہا نا رہی یہ الفاظ فواد کے منہ سے سن کر۔۔۔ میرا دل کر رہا تھا کہ ابھی فون سے باہر نکل کر فواد کا منہ چوم لوں مگر ہماری سب خواہشیں پوری نہی ہو سکتی۔۔ بس میں اپنا دل مسوس کر رہ گئی۔۔۔ اچھااااااا۔۔ اگر میں یہ کہوں کہ وہ آپ ہی ہیں جس نے میرا دل چرایا ہو تو پھر؟؟ اچھاااااا۔۔۔۔ تو یہ بات ہے۔۔ فواد نے گہرے لہجے میں کہا۔۔ میری جان میں تو تب سے آپ کا دیوانہ ہوں جب آپ پہلی بار میری کلینک پر آئی تھی۔۔ تو پھر آُ نے مجھ سے کہا کیوں نہی؟؟ میں نے شاکی لہجے میں کہا۔۔۔۔ میں ڈرتا تھا کہیں آپ ناراض ہی نا ہو جاؤ۔ اور میں آپ کی ناراضگی کسی بھی صورت میں گوارہ نہی کر سکتا تھا۔۔ میں تم کو کھونے کا تصور بھی نہی کر سکتا تھا۔۔۔ فواد کے لہجے میں پیار ہی پیار تھا۔۔ اور میں اس کے پیار بھرے لہجے کی بارش میں بھیگ رہی تھی۔۔ پتا ہی نہی چلا کب آنسو میری گال پر ڈھلک آئے تھے۔۔۔ میں سمجھی کہ بارشہو رہی ہے۔۔ مگر جب آسمان کی طرف نظر اٹھائی تو پتا چلا یہ بارش میری آنکھوں میں ہو رہی ہے۔۔ میری خاموشی سے شائد وہ گھبرا گیا تھا۔۔ کیا ہوامیڈم؟ کچھ نہی ڈاکٹر صاحب بس آپ کی باتوں میں کھو سی گئی ہوں۔۔۔۔ ساتھ ہی میں نے شکوے کردیے۔۔ اوہ میری جان تھوڑا حاصلہ کرو۔۔۔ ابھی تو تم مجھ سے بہت دور ہو جب پاس آو گی تو جی بھر کے شکوے کر لینا۔۔۔ ہم کافی دیر ایسے ہی بات کرتے رہے۔۔ ان باتوں میں کبھی پیار کی جھلک آجاتی تھی کبھی غصہ کبھی شکوے کبھی شکائت۔۔ جب کال بند کی تو میں نے دیکھا کہ کال کا دورانیہ تین گھنٹے کا ہو چکا تھا۔۔ یہ ٹائم کیسے گزر گیا پتا بھی نہی چلا۔۔۔ یہاں لندن میں ہمیں اب کافی دن ہو گئے تھے۔ سارا لندن گھوم لیا تھا۔۔ بہت مزہ آ رہاتھا۔۔ اس سارے عرصے میں مجھے کبھی کبھی ایسا محسوس ہوتا کہ سنی کی آنکھوں میں میری ساس کے لئے کچھ عجیب احساسات ہیں۔ مگر شائد وہ ابھی تک اس لیئے چپ تھا کہ ڈاکٹرز نے ابھی میری ساس کو کسی قسم کی سیکس ایکٹیوٹی سے منع کیا ہوا تھا۔۔۔ پھر ایک دن ڈاکٹرز نے چیک اپ کر کے ہمیں خوش خبری دی کہ اب میری ساس بلکل ٹھیک ہیں اور اپنے شوہر کے ساتھ جسمانی تعلقات بنا سکتی ہیں۔۔ یہ بات سن کر ہماری خوشی کی کوئی انتہا نا رہی۔۔ میں بہت خوش تھی۔۔ میں نے یہ بار اپنے سسر اور شوہر کو بھی بتا دی کہ اب آنٹی بلکل ٹھیک ہیں۔۔۔ واؤ ڈارلنگ جب آپ دونوں واپس آؤ گی تو ہم ایک پارٹی کا ارینج بھی کریں گے ۔۔۔۔ نبیل نے مجھے کہا۔۔ پھر ہم تینوں شام کے بعد باہر نکل گئے آج سنی نے ہمیں باہر لنچ کروانے کا وعدہ کیا ہوا تھا۔۔ واپسی پر سنی اپنے ساتھ ایک بوتل بھی لے آیا۔۔ انگلش سکاچ ۔۔۔۔ آج بارش بھی ہوئی تھی اور موسم کافی ٹھنڈا ہو رہا تھا۔۔ میں تو گھر آ کر بستر میں گھس گئی مگر میری ساس اور سنی کچن میں چلے گئے۔۔۔ میں سردی سے بہت بریطرح کانپ رہی تھی ایسے میں میرا دل کر رہا تھا کہ کسی کی بانہوں میں گھس کر سو جاؤں۔۔ مگر کس کے؟ پھر اچانک میرے ذہن میں سنی آ گیا۔۔ واہ جی بندہ بغل میں اور ڈھنڈورا شہر میں والی بات ہو گئ یہ تو۔۔ میں یہ سوچ کر اپنے بستر سے باہر نکل آئی کہ سنی کے کمرے میں جا کر اس کے ساتھ لیٹ جاتی ہوں۔۔ مگر جب میں کچن سے سامنے سے گزری تو ایک عجیب منظر میری آنکھون کے سامنے تھا۔۔۔ میری ساس اور سنی دونوں نے اپنے ہاتھوں میں شیشے نہائت ہی نفیس گلاس پکڑے ہوئے تھے اور ان دونوں کے ہونٹ آپس میں ملے ہوئے تھے۔۔۔ میں پہلے تو اندر جانے لگی مگر پھر رک گئی۔۔ میں دیکھنا چاہتی تھی کہ اتنے دن کے انتظار کے بعد میں ساس کیسے اپنی پھدی سنی کے حوالے کرتی ہے۔۔۔ سنی اور میری ساس فرنچ کس کر رہے تھے۔۔ پھر سنی نے اپنا ایک ہاتھ میری ساس کے موٹے تازے مموں پر رکھ دیا۔۔۔ وہ اوپر اوپر سے ہیمیری ساس کے ممے دبا رہا تھا۔۔۔ پھر میری ساس نے بھی اپنا اک ہاتھ نیچے کیا اور سنی کا لن اس کی پینٹ کے اوپر سے ہی مسلنے لگی۔۔۔ کبھی میری ساس کی زبان سنی کے منہ میں جا رہی تھی کبھی سنی کی زبان میری ساس کے منہ میں دونوں ایک دوسرے کی زبانوں کا مزہ لے رہے تھے۔۔ اور اسی دوران میری سردی بھی دور ہو چکی تھی۔۔ اب اس سردی کی جگہ ایک ہلکی ہلکی گرمی نے لے لی ہوئی تھی۔۔ میں قدرے اندھیرے میں تھی اس لیئے میرے دیکھے جانے امکانات صفر تھے۔۔۔ میں کچن کے سامنے رکھی ہوئی کرسی پر بیٹھ گئی۔۔۔ پھر سنی نے آنٹی کی شرٹ کے سامنے کو بٹن کھول دیئے۔۔۔ ابھی ایک ہی بٹن کھلا تھا کہ آنٹی کے ممے باہر آنے کو بےچین ہو گئے۔۔ شرٹ تنگ ہونے کی وجہ سے بٹن کھولنے میں کافی دشواری کا سمنا کرنا پڑ رہا تھا۔۔ کیوں کہ آنٹی اپنے بٹن ایک ہاتھ سے کھول رہی تھی دوسرا ہاتھ سنیکے لن کو سہلا رہا تھا۔۔ آنٹی کے ممے کافی ابھرے ہوئے تھے۔۔ سنی نے مزید انتظار کرنے زحمت سے بچنا ہی بہتر سمجھا اور ایک ہاتھ آنٹی کے گریبان میں ڈال کر اس کو زور سے ایک دم اپنی طرفجھٹکا دیا جس سے آنٹی کی شرٹ کے سارے بٹن ایک ہی دفعہ میں ٹوٹ گئے اور آنٹی کے ممے ان کے پش اپ برا میں پھنسے ہوئے اب سنی کے سامنے تھے۔۔۔ سنی نے جب آنٹی کے دودھ سے بھرے ہوئے ممے دیکھے تو اپنے ہوش کھو بیٹھا۔۔ اس نے اپنا منہ آنٹی کے مموں میں غائب کر دیا۔۔ آنٹی نے اپنا سر پیچھے کی طرف کر کے سنی کو بھرپور موقع فراہم کیا کہ وہ آنٹی کے ممے کی خوشبو اپنے نتھنوں میں اتار لے اچھی طرح سے۔۔۔۔ سنی نے اپنا ایک ہاتھ آنٹی کی بیک پر لے جا کر ان کی برا کی ہک کھول دی اور ان کے مموں کو برا کی قید سے آزاد کر دیا۔۔۔ افففف۔۔۔۔ دودھ سے بھرے ہوئے چھلکتے ہوئے ممے اب سنی کے سامنے بلکل ننگے تھے۔۔۔۔۔۔۔ سنی نے اپنا پورا منہ کھولا اور کسی بھوکے کتے کی طرح آنٹی کے مموں پر پل پڑا۔۔۔۔ آنٹی کے منہ سے مزے کی بھری ہوئی سکسی آوازیںنکل رہی تھی۔۔ آآآہہہہہ۔۔۔ اممممم۔۔۔۔۔۔۔۔۔ افففففف۔۔۔۔ سس سنی کھا جاؤ آج میرے ممے۔۔ بہت دن ہو گئے ان کو کسی نے کھایا نہی ہے۔۔ آج تم کھا جاؤ سارے۔۔ آآآآہہہہہہ۔۔۔۔اممممممم۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔سنی بھی آنٹی کے حکم کے مطابق ان کے ممے بھنبوڑ رہا تھا۔۔۔۔ پھر آنٹی نے اپنا پاجامہ بھی اتار دیا اور سنی کے سامنے بلکل ننگی کھڑی ہو گئی۔۔۔ سنی نے آنٹی کو کچن کی شلف پر ہی بٹھا دیا اور ان کی ٹانگیں کھول کر پھیلا دی۔۔ پھر اس نے اپنا منہ آنٹی کی پھدی کے پاس کیا اور ایک لمبا سانس لیا۔۔ میں سمجھ گئی کہ وہ آنٹی کی پھدی کی خوشبو سونگ رہا تھا۔۔۔ پھر اس نے اپنی لمبی زبان باہتنکالی اور ساری زبان آنٹی کی پھدی میں داخل کر دی۔۔ آنٹی کا جسم ایک بار کانپ اٹھا۔۔ ظاہر ہے اتنے دنوں کے بعد ان کی پھدی میں کوئی چیز گئی تھی۔۔۔ انہوں نے اپنی ٹانگیں پوری کھول دی اور سنی کا سر اپنی پھدی کے ساتھ اور زور کے ساتھ چمٹا لیا۔۔ سنی نے پھر اپنے دانتوں کے ساتھ آنٹی کی پھدی پر چھولے کو کاٹ لیا۔۔ آآآآآآہہہہ۔۔۔ ظالم!!!!!!!!!!!!!!۔۔۔۔۔۔۔ آنٹی کی سسکاری نکلی۔۔ سنی نے جی بھر کے آنٹی کی پھدی کو کھایا ۔۔ جب سنی کا سارا منہ آنٹی کے پانی سے بھر گیا تو اس نے اپنا منہ ایک بار پھر سے آنٹی کے ہونٹوں کے ساتھ ملا دیا۔۔۔۔ آنٹی نے سنی کے ہونٹ چوس کر ان کو صاف کر دیا۔۔ پھر آنٹی نیچے بیٹھ گئی اور سنی کا لن اپنے منہ میں لے کر اس کو چوپے لگانے اگی۔۔ آنٹی اپنا پورا منہ کھول کر سنی کا سارا لن اپنے منہ میں غائب کر رہی تھی اور نیچے سے سنی ککے ٹٹے اپنی مخروطی انگلیوں کے ساتھ سہلا رہی تھی۔۔ پھر آنٹی نے اپنی زبان سے سنی کے ٹٹے چاٹ لئے۔۔ سنی نے اپنی آنکھیں لزت کی وجہ سے بند کر لی اور اپنے ٹٹے جڑ سے پکڑ کر آنٹی کے منہ میں سارے داخل کرنے کی کوشش کرنے لگا۔۔ آنٹی کے منہ میں سارے تو نہی آ رہے تھے مگر وہ کوشش کر رہی تھی کہ سنی کی یہ خواہش پوری ہو جائے۔۔ پھر سنی نے اپنا لن آنٹی کے مموں میں ڈال دیا آنٹی کے اپنے مموں میں سنی کا دبا لیا اور اوپر نیچے مموں کو حرکت دینے لگی ۔۔۔ آنٹی کے ممے خشک تھے۔۔ سنی نے اپنا بہت سارا تھوک نکال کر آنٹی کے مموں پر گرا دیا۔۔ اب سنی کا لن بڑی آسانی کے ساتھآنٹی کے مموں میں حرکت کر رہا تھا۔۔۔ تھوڑی دیر بعد آنٹی کی ہمت جواب دے گئی ۔۔ سنی میری جان اب میری ہمت جواب دے گئی ہے۔۔ اور اب پھدی بھی بہت بے چین ہو رھی ہے اس کا کچھ کرو۔۔۔ آنٹی نےٹیبل پر بیٹھ کر اپنی ٹانگیں پھیلاتے ہوئے سنی سے کہا۔۔ سنی نے آنٹی کی ٹانگیں اپنے ہاتھوں میں پکڑی اور ان کو ہوا میں پھیلا کر اپنے لن کا ٹوپا آنٹی کی پھدی پر سیٹ کیا۔۔ آنٹی نے اپنی پھدی کو ہوا میں اٹھایا تاکہ لن آسانی سے اندر جا سکے۔۔ سنی نے اپنے لن دباؤ بڑھایا اور جب ٹوپا پھدی کے اندر چلا گیا تو پھر سنی رکا نہی۔۔ اس نے ایک بھرپور جھٹکا مارا اور سارا لن جڑ تک آنٹی کی پھدی میں داخل کر دیا۔۔ آنٹی کی پھدی میں کافی عرصہ سے لن نہی گیا تھا۔۔ اب وہ خاصی ٹائٹ ہو چکی تھی۔۔ اس لیئے آنٹی کی دل خراش چیخ نکل گئی۔۔ مگر سنی کے دماغ پر اس وقت صرف پھدی سوار تھی۔۔ اس نے جلدی سے آنٹی کے ہونٹ اپنے ہونٹوں میں لئے اور اس کی چیخ کو اپنے ہونٹوں میں گائب کر دیا۔۔۔ آنٹی بھی کچھ کم نہی تھی اس نے سنی کی کمر کو اپنی ٹانگوں کے ساتھ جکڑ لیا ور اپنے دونوں بازو بھی سنی کے سینے کے گرد لپیٹ دئے اور اس طرح سنی مکمل طور پر آنٹی کی گرفت میں آگیا اب وہ چاہتے ہوئے بھی آنٹی کو جھٹکے نہی مار سکتا تھا۔۔۔۔ تھوڑٰ دیر ایسے ہی رہنے کے بعد سنی نے خود کو آنٹی کی گرفت سے آزاد کروایا اور ایک بار پھر سے لن پھدی کا کھیل شروع ہو گیا۔۔۔ آہستہ آہستہ سنی نے اپنے دھکوں کی سپیڈ میں اضافہ کر دیا اور ایک سپیڈ کے ساتھ اب وہ آنٹی کو چود رہا تھا۔۔ آنٹی کے ممے سنی کے ہر جھٹکے کے ساتھ اوپر نیچے ہو رہے تھے۔۔ اور ادھر میری پھدی کا برا حال ہو رہا تھا۔۔۔ میں چاہ رہی تھی کہ میری پھدی میں بھی لن جائے مگر میں ابھی ان دونوں کے رنگ میں بھنگ نہی ڈالنا چاہ رہی تھی۔۔۔ آآآہہہہ۔۔ ھائےےےےےےےے افففففف۔۔۔۔۔ یہ آوازیں دونوں کے منہ سے نکل رہی تھی۔۔۔ پھر اچانک ہی آنٹٰ کا جسم اکڑ گیا اور انہوں نے سنی کو اپنے ساتھ ملا لیا۔۔ سسسسنن۔۔۔۔۔۔۔۔۔ سسننییی۔۔۔۔ سنی میری جان۔۔ مری پھدیپھاڑ دو آج۔۔ آآآآآۃہہہ۔۔۔ میں گئی۔۔ اور اس کے ساتھ ہی آنٹٰ کے جسم نے کانپنا شروع کر دیا۔۔۔ سنی نے یہ دیکھ کر اور زور زور سے اپنا لن آنٹٰ کی پھدی میں اندرباہر کرنا شروع کر دیا۔۔۔ اور پھر آنٹی کا جسم جھٹکے کھانے کے بعد پر سکون ہو گیا۔۔۔۔ اس دوران سنی نے بھی اپنا لن تھوڑی دیر کے لئے روک لیا تھا مگر اس کا پانی ابھی نہی نکلا تھا۔۔۔۔ آنٹی نے اپنا ایک ہاتھ اپنی پھدی سے تھوڑااوپر اپنے پیٹ پر رکھ لیا تھا۔۔ کیا ہوا؟؟ سنی نے پوچھا۔۔۔ سنی آج بہت دنوں کے بعد لن لیا ہے نا تو مجھے اب درد ہو رہا ہے۔۔۔ ہممم۔۔۔۔ مگر میں تو ابھی فارغ بھی نہی ہوا۔۔ میں کیا کروں؟ سنی نے بےچارگی کے عالم میں آنٹی سے پوچھا۔۔۔ چلو خیر ہے تم ڈالو پھر سے لن۔۔۔ نہی آنٹی جی میں اتنا بھی ظالم نہی ہوں کہ اپنی خواہش کے لئے آپ کوتکلیف دوں۔۔۔۔ مگر تمھارا پانی بھی نکالنا ضروری ہے۔۔ اگر وہ نہی نکلا تو یہ اچھا نہی ہوگا۔۔۔ سنی نے ایک بار پھر سے اپنا لن آنٹی کی پھدی میں ڈال دیا مگر فوری طور پر باہر نکال لیا۔۔۔ کیوں کہ آنٹی کے منہ سے تکلیف کی وجہ سے ایک چیخ نکل گئی تھی۔۔۔ سنی نے پھر لن کو دوبارہ آنٹی کی پھدی میں ڈالنے کی کوشش نہی کی۔۔ میں دیکھ رہی تھی کہ سنی کا لن ابھی بھی بہت خطرناک حد تک اکڑا ہوا تھا۔۔۔میں نے اپنا پاجامہ اتارا ہوا تھا اور میرا ایک ہاتھ میری پھدی پرتھا اور ایک ہاتھ سےمیں اپنے ممے دبا رہی تھی۔۔۔ اچانک آنٹی کی نظر مجھ پر پڑ گئی۔۔ اس سے پہلے کہ میں وہاں سے ہٹتی آنٹی کے ساتھ ساتھ سنی کی بھی مجھ پر نظر پڑ گئی۔۔ میں بہت شرمسار ہوئی مگر میری شرمساری کو دور ان دونوں کی آواز نےدور کر دای۔۔ ادھر آؤ وہاں کیا کر رہی ہو؟؟ جج جی وو وہ وہ میں۔۔۔ یہ کیا میں میں لگا رکھی ہے۔۔۔ سنی گھوم کر میرے پیچھے آیا اور میرے گانڈ کے ساتھ اپنا سخت راڈ لگا دیا۔۔ آنٹی جی۔۔ میں اس سے پہلے کہ کچھ کہہ سکتی آنٹی نے مجھے ایک دم سے پکڑ کراپنے اوپر گرا لیا اور میری گانڈ جیسے ہی پیچھے کی طرف ہوئی سنی نے اپنا لن میری پھدی میں داخل کر دیا۔۔اففففف۔۔۔۔۔۔۔ میری چیخ نکل گئی کیوں کہ سنی نے اپنا لن روکا نہی اور پورا اندر ڈال دیا تھا۔۔ میں نے اپنی انگلیاں آنٹی کے بازو میں گھسا دی۔۔ آنٹی نے مجھے ایک فرنچ کس کی اور میرے ممے اپنے ہاتھ میںلے لئے۔۔۔ مجھے بہت ہی مزہ آ رہا تھا۔ جس کو میں لفظوں میں بیان نہی کر سکتی۔۔۔ میں نے اپنی گانڈ اور پیچھے کی طرف کر دی تاکہ سنی کا لن پورا کا پورا میری پھدی میں جا سکے۔۔۔ سنی نے یہ دیکھ کر انے دھکوں کی طوفانی رفتار اور تیز کر دی۔۔۔ میری ہھدی پہلے ہی اپنا پانی نکالنے کے قریب تھی۔۔ جیسے ہی لن اس کے اندر گیا پھدی میرے اختیار سے باہر ہو گئی۔۔ میں نے جلدی سے اپنا جسم آگے کی طرف کر لیا۔۔ اس سے یہ ہوا کہ میری پھدی سے سنی کا لن باہر نکل گیا۔۔۔ کیا ہوا میری جان؟ آنٹی نے مجھے پوچھا۔۔ آنٹٰ جی وہ دراصل کافی دیر سے میں اس میں انگلی ڈال کے کھڑی تھی تو اس کا پانی نکلنے والا تھا۔۔ میں ابھی سنی کے لن کا مزہ لینا چاہ رہی ہوں اس لیئے سنی کا لن تھوڑی دیر کے لئے باہر نکال لیا ہے۔۔۔ سنی نے میرے بازو اپنے ہاتھوں میں پکڑے اور ان کوپیچھے کی طرف نوڑ دیا۔۔۔ اب صورت حال یہ تھی کہ میں جھکی تو آگے کی طرف تھی مگر میرے بازو سنی کے ہاتھوں میں ہونے کی وجہ سے میرا سر پیچھے کی طرف تھا اور میں آگے کی طرف نہی جا سکتی تھی۔۔ سنی نے اپنے لن کا ٹوپا میری پھدی پر رکھا اور ایک دھکے کے ساتھ سارا لن میری پھدی میں غائب کر دیا۔۔۔ اس کا لن سیدھا میری بچہ دانی میں جا کر لگا۔ جس سے ایک درد کی لہر اٹھی مگر میں کر کچھ نہی سکتی تھی۔۔۔ آگے آنٹی نے مجھے پکڑا ہوا تھا اور پیچھے سے سنی کا لن میری پھدی کی بینڈ بجا رہا تھا۔۔۔ اورمیں سنی اور ٹیبل کے درمیان پھنس گئی تھی۔۔۔ پھر میں نے خود کو حالات کے دھارے پر چھوڑ دیا۔۔۔ اب جو ہواگا دیکھا جائے گا۔۔۔ سنی کا لن میرے اندر تباہی مچا رہا تھا۔۔۔ پھر میرا جسم بھی اکڑ گیا اور میری پھدی میں جیسے سیلاب آ گیا۔۔۔ میرا ساراجسم بہت زبردست کانپ رہا تھا۔۔۔۔ سنی نے اپنا لن باہر نکالا اور آنٹی سے کہنے لگا۔۔ دیکھا آنٹی جی میرے لن کے آگے آپ دونوں ساس بہو نہی ٹک سکی۔۔۔ آنٹی نے نیچے بیٹھ کر سنی کے لن کو ایک چما دیا اور بولی یہ لن تو ہے ہی بہت زبردست۔۔۔ میں لمبے لمبے سانس لے رہی تھی۔۔ جب تھوڑا سانس بحال ہوا تو سنی نے مجھے ایک بار پھر سے گھوڑی بنا لیا۔۔ میں سمجھی کہ اب پھر وہ پھدی پر وار کرے گا۔۔ مگر ایسا نہی تھا۔۔ اس نےاپنے لن کا ٹوپا اس بار میری گانڈ کے سوراخ پر رکھدیا اور اسے ہلکے ہلکے دبانے لگا۔۔ میری سانس پھر رک گئی۔۔ میں نے مدد طلب نظروں سے آنٹی کی طرف دیکھا مگر انہوں نے مسکرا کر مجھے گھوڑی بنے رہنے کا کہہ دیا۔۔۔ میں نے کہا سنی مجھے بہت درد ہوتا ہے گانڈ میں لن لینے کی وجہ سے کوئی بات نہی میں ہوں نا میری جان تمھاری یہ مشکل حل کرنے کے لئے۔۔ آنٹی نے کہا اور اس کے ساتھ ہی اپنا منہ میری گانڈ کے اوپر رکھ کر میری گانڈ کے سوراخ کو چومنا اور چاٹنا شروع کر دیا۔۔۔ جب وہ میری گانڈ کے سوراخ پر اپنی زبان لگاتی تو جیسے ایکمزے کی لہر میرے سارے جسم میں دوڑ جاتی۔۔۔۔ کچھ دیر ایسا کرنے کے بعد آنٹٰ نے اپنی ایک انگلی میری گانڈ میں داخل کر دی۔۔۔ میری گانڈ پر آنٹی نے کاف سارا تھوک لگایا اور سنی کو لن آگے کرنے کا اشارہ کر دیا۔۔۔ سنینے اپنے لن کے ٹوپے پر دباؤ بڑھایا اور ٹوپا میری گانڈ کے اندر داخل کر دیا۔۔ درد کی شدید لہر اٹھی مگرمیں نے اپنے زبان کو اپنے ہونٹوں کے درمیان دبا لیا۔۔۔۔ آنٹی یہ سب دیکھ رہی تھی۔۔ انی بڑے پیار پیار کے ساتھ اپنا لن میری گانڈ کے اندر کرنے کی کوشش کر رہا تھا۔۔۔۔۔۔ آنٹی نے اسے کمر سو ایک دم دھکا دیا جس کی وجہ سے سنی کا لن آدھے سے زیادہ میری گانڈ کے اندر چلا گیا۔۔ میں درد کی وجہ سے بلبلا اٹھیمگر اب سنی نے مجھ پر ذرا بھی ترس نہی کھایا اور ایک اور بھرپور دھکا دیا جس سے اس کا باقی کا لن بھی میری گانڈ کے اندر چلا گیا۔۔۔ میری آنکھوں کے آگے اندھیرا چھا گیا۔ سنی نے اپنے لن کو تھوڑی دیر کے لئے روکا اور میری ننگی کمر کو بھپور طریقے سے چومنا شروع کر دیا۔۔۔جیسے جیسے وہ میری چوم رہا تھا مجھے درد میں کمی محسوس ہو رہی تھی۔۔۔ جب درد کافی کم ہو گئی تو پھر سنی نے اپنا لن آرام سے باہر نکالا اور پھر اندر کر دیا۔۔ اب کی بار درد کے ساتھ مزہ بھی آیا جس کا اظہار میں نے سنی کے ساتھ اپنی گانڈ ملا کر کر دیا۔۔۔ سنی سمجھ گیا ۔۔۔ اس نے آہستہ آہستہ اپنی رفتار تیز کر دی۔۔ اب مجھے درد کی جگہ مزہ آ رہا تھا۔۔ میں سنی کا ساتھ پورا پورا دے رہی تھی۔۔ آآآآۃہہ۔۔۔ اااااااااوووووہہہہہ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ھائےےےےےےےےےےےےے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ااامممم۔۔۔۔ جاااااانننن۔۔۔۔۔ اور تیز ۔۔۔۔ یس یس یس۔۔ تیزز۔۔۔۔۔۔۔۔۔ میں ایسے ہی اپنے منہ سے آوازیں نکالرہی تھی۔۔۔۔ آنٹی کے اپنی دو انگلیاں میری پھدی میں داخل کر دیں۔۔ افففففف۔۔۔۔۔۔۔ میں مزے کی بلندیوں پر پہنچ گئی۔۔۔۔ میں نے آنٹی کا ہاتھ پکڑ کر اس کو تیزی سے اپنی پھدی میں حرکت کرنی شروع کر دی۔۔۔۔ مجھے بہتمزہ آ رہا تھا۔۔۔۔ میں ایک بار پھر فارغ ہونے کے قریب پہنچ گئی مگر سنی کا ابھی دور دور تک کوئی امکان نہی تھا کہ وہ بھی فارغ ہو جائے گا۔۔۔۔ میں نے آنٹی سے کہا کہ کچھ کریں سنی کا بھی ۔۔ یہ تو مجھے مار ڈالے گا آج۔۔۔ آنٹٰ نے کہا تم فکر نہی کرو میں اس کو فارغ کرتی ہوں ابھی۔۔۔ وہ گھوم کر پیچھے گئی اور سنی کے ٹٹے اپنے منہ میں لے کر ان کو چوسنا شروع کر دیا۔۔ آآآآہہہ۔۔۔ سنی کے منہ سے بے اختیار ایک سسکی نکلی۔۔ ہر مرد کی کمزوری یہی اس کے ٹٹوں میں ہوتی ہے۔۔ مجھےاب اس بات کا یقین آ گیا تھا۔۔۔ آنٹٰ نے سنی کے ٹٹوں کو اپنی زبان سے خوب گیلا کیا اور پھر سے اپنے منہ میں لے لیا ان کو۔۔۔ اب سنی نے بھی اپنی رفتار تیز کر ی تھی۔۔ مجھ میں اب صبر ختم ہو رہا تھا۔۔۔ سسسس سنییییی۔۔۔۔۔۔ سنی۔۔ میری پھدی کا پانی پھر سے نکلنے لگا ہے۔۔۔ تمھارا کیا پروگرام ہے؟؟ میں نے گردن گھما کر سنی سے پوچھا۔۔۔ میری جاان۔۔ میرا لن بھی چھڑکاؤ کرنے کے لئے بےچین ہو رہا ہے۔۔ تو کر دو نا پلیز سنی۔۔۔۔ میر ری گانڈ میں اپنا پانی چھوڑ دو پلیز۔۔۔ میں سنی کے ترلے کرنے لگ گئی۔۔۔۔ ادھر آنٹی نے سنی کے ٹٹوں کو اپنے دانتوں سے ہلکا ہلکا کاٹ رہی تھی۔۔۔۔ جس سے سنی بھی مزے کی بلندیوں پر تھا۔۔۔۔ اس نے اپنے فارغ ہونا کا اشارہ دے دیا۔۔۔ میں نے بھیاپنی گانڈ کو ممکن حد تک کھول دیا۔۔۔ سنی کا لن پتا نہی کیسے میرے اندر باہر ہو رہا تھا ۔۔ میری گانڈ کے ساتھ ساتھ میرے پھدی میں بھی پانی کا سیلاب آ رہا تھا۔۔ میں نے اپنی تین انگلیاں اپنی پھودی میں ڈال دیے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
سفر Part 16
میری تین اگلیاں میری پھدی کے اندر باہر ہو رہی تھی۔۔ اچانک سنی کی آواز آئی۔۔ میں گیا میری جان۔۔ اور اس نے اپنے جھٹکوں میں طوفانی رفتار پیدا کر دی تھی۔۔۔ اس کے ساتھ ہی سنی کے جسم نے جھٹکےکھائے اور اپنا سارا پانی میری گانڈ کے اندر نکال دیا۔۔۔ میری پھدی کا پانی بھی ایک بار پھر سے نکل گیا تھا۔۔ میں نڈھال ہو کر ٹیبل پر ہی گر گئی اور سنی بھی میرے اوپر ہی گر گیا۔۔۔ جب ہم دونوں کی سانسیں کچھ بحال ہوئی تو سنی نے اپنا لن میری گانڈ میں سے باہر نکالا۔۔ جیسے ہی سنی کا لن باہر آیا آنٹی نے جلدی سے سنی کا لن اپنے منہ لے کر اسے چوسنا شروع کر دیا۔۔ وہ تب تک سنی کا لن چوستی رہی جب تک وہ بلکل صاف نہی ہو گیا۔۔۔۔۔سنی سیدھا ہوا اور کہنے لگا میں واشروم سے ہو کرآتا ہوں۔۔ کیوں واشروم میں کیا کرنے جانا ہے۔۔ تمھارا لن تو میں نے صاف کر دیا ہے۔۔۔ آنٹی نے سنی سے سوال کیا۔۔ ارے نہی میری جان لن تو تم نے صاف کر دیا ہے۔۔ مگر مجھے پیشاب کرنا ہے۔۔۔ میں نے کہااگر ایسی بات ے تو ادھر ہی کر لو۔۔۔ ھائیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ادھر کدھر کر لوں؟؟ سنی نے حیران ہو کر پوچھا۔۔۔ میری جان میں بتاتی ہوں کہ کدھر اور کیسے کرنا ہے۔۔ میں نے نیچے لیٹ کر اپنی ٹانگیں کھول لی اور پھدی سنی کے سامنے کر دی۔۔ اس پر کرو میری جان اپنا پیشاب۔۔۔ میری دیکھا دیکھی آنٹینے بھی نیچے لیٹ کر اپنی ٹانگیں ہوا میں اٹھا لیاور سنی سے کہا بلکل ٹھیک کہہ رہی ہے نوشی۔۔ ہماری پھدیوں کو ہی اپنے گرم پانی سے بھر دو اب۔۔۔۔۔ اچھا۔۔ اگر ایسے بات ہے تو ٹھیک ہے۔۔۔ سنی نے یہ کہہ کر اپنا لن ہاتھ میں پکڑ لیا اور اس کا منہ ہماری پھدیوں کی طرف کر دیا۔۔۔ جب اس کے گرم پانی کی دھار میری پھدی پر پڑی تو مزے ایک لہرمیرے سارے جسم میں دوڑ گئی۔۔ میں نے اپنی ٹانگیں مزید کھول دی۔۔ پھر اس نے اپنا گرم پانی آنٹی کی پھدی پر بھی گرایا۔۔۔ جب وہ آنٹٰ کی پھدی کو پانی دے رہا تھا تو میں اٹھ کر بیٹھ گئی اور اپنے ممے سنی کے لن کے سامنے کر دئے۔۔ سنی نے پھر اپنا لن میرے مموں کی طرف کر کے ان پر بھی چھڑکاؤ کیا۔۔۔ پھر ایسا ہی آنٹٰ کے ساتھ بھی کیا۔۔ ہمیں اس قدر مزہ پہلے کبھی نہی آیا تھا جتنا آج آیا تھا۔۔۔ پھر ہم نے ایک ساتھ ہی شاور لیا اور شاور لینے کے دوران بھہ ہم ایک دوسرےکے ساتھ مستیاں کرتے رہے۔۔۔۔ اب کافی رات ہو رھی تھی ہم تینوں ایک ساتھ ہی ایک ہی بیڈ پر سو گئے مگر ہم تینوں بلکل ننگے تھے کسی نے بھی کپڑے پہننے کی ذھمت گوارا نہی کی تھی۔۔۔۔۔۔
:دوسرے دن سنی دوپہر سے پہلے پہلے ہماری ٹکٹیں لے آیا۔۔ ہماری فلائٹ ایک دن بعد کی تھی۔۔ میں نے یہ اطلاع نبیل اور انکل کو بھی دے دی تھی۔۔۔ اور پھر اپنی پیکنگ مکمل کرنے کے بعد میں ڈاکٹر فواد کو کال ملا دی۔۔۔ خیر خیریت پوچھنے کے بعد فواد کہنے لگا۔۔ تو جناب کب تک واپسی ہے میری سرکار کی ؟؟ میں مسکرا دی۔۔ اجی صاحب تھوڑا سا انتظار اور کر لیں۔۔ ایک دو دن میں ہی واپسی ہے۔۔ پھر میں آپ کے پاس آؤں گی۔۔۔۔ واؤ۔۔۔ گریٹ۔۔ فواد نے چہکتی ہوئی آواز میں جواب دیا۔۔ تو ٹھیک ہے جناب آپ سے پھر ہوتی ہے ملاقات۔۔ اور جب ہم ملیں گے تو پھر میں آپ کو اپن بیتابی اور بے قراری دکھاؤں گا۔۔۔ ہاہاہا۔۔ میں ہنس دی۔۔ اچھا جی۔۔ چلیں جی دیکھتی ہوں کہ آپ کتنے بےچیں ہیں۔۔۔ رات کو سنی نے کہا کہ اگر پیکنگ پوری ہو گئی ہو تو آج رات کا کھانا ہم کہیں باہر کھائیں گے۔۔ ایک برٹش دوست نے اپنے گھر میں ایک پارٹی رکھی ہے۔۔ اگر تم لوگوں کو کوئی اعتراض نا ہو تو میں آپ کو اس کی طرف لے جاؤں؟ ہمیں کیا اعتراض ہو سکتا تھا۔ ہم نے ہاں کہہ دی۔۔ اسی بہانے ہم بھی گوروں کی پارٹی انجوائے کر لیتی ۔۔۔۔۔ ہم نے اپنی پیکنگ تو پوری کر لی ہوئی تھی۔۔۔ شاور لے کر میں تو تھوڑی دیر کے لئے سستانے اپنے بیڈ پر لیٹ گئی اور پتا ہی نہی چلا کب آنکھ لگ گئی۔۔ کچھ کل رات کی تھکاوٹ تھی میں نیند کی وادی میں کھو گئی۔۔۔ شام کے وقت آنٹی نے مجھے جگایا۔۔ وہ صرف برا اورپینٹی میں تھی۔۔ ہائیں۔۔۔ میں نے حیران ہو کر پوچھا آنٹی آپ نے پھر سے پھدی دینے کا پروگرام بنا لیا ہے کیا؟؟؟ ارے نہی پاگل۔۔ میں نہا کر نکلی تو دیکھا کہ تم سو رہی ہو۔۔ اس لئے تم کو جگانے آ گئی۔۔ اب پھدی گھر جا کر ہی دوں گی کل رات کو سنی نے بہت کمال کر دیا تھا۔۔۔ میں تو ابھی تک اسی خمار میں ہوں۔۔۔ آنٹی نے کہا۔۔ ہمم۔۔ تو ایک بار پھر سے اس خمار کے مزے لے لیں۔۔ کسی نے منع تھوڑی کیا ہے۔۔ ہی ہی ہی ہی ہی ہی ۔۔۔ میں ہنس دی۔۔۔ ارے نہی یار۔۔ اب نہی۔۔۔ ابھی موڈ نہی ہو رہا۔۔۔ ویسے بھی تھوڑی دیر تک ہمیں پارٹی میں بھی جانا ہے۔۔ ا بھی سنی کا فون آیا تھا وہ کہہ رہا تھا کہ ریڈی ہو جائے ۔ وہ اپنے آفس سے نکل آیا ہوا ہے اور سیدھا ادھر ہی آ رہا ہے۔۔۔ میں جلدی سے بستر سے نکلی اور سیدھی واشروم میں گئی۔۔۔ نہا کے فریش ہوئی۔۔ آج میں نے پینٹ شرٹ پہنی تھی۔۔اور وہ بھی کافی تنگ تھی۔۔ سپیشلی میرے ممے شرٹ میں کافی پھنسے ہوئے تھے۔۔ جب میں کپڑے پہن کر باہر آئی تو آنٹی نے سیٹی بجا کر میری تعریف کی۔۔۔میں تھوڑا سا شرما گئی۔۔۔ ویسے یہ شرمانا بھی کیا شرمانا تھا۔۔ ہم ایک دوسرے کے سامنے ہر کام کر لیتے تھے اور جب کبھی ایسا موقع آتا تھا ہم شرما بھی لیتے تھے۔۔ ہی ہی ہی ہی۔۔۔ خیر آنٹی نے میری دل کھول کر تعریف کی۔۔ اور کہنے لگی کہ آج لگتا ہے کسی کا دل ضرور گم ہو جائے گا اس پارٹی میں۔۔ میں صرف مسکرا دی۔۔ تھوڑی دیر تک سنی بھی آ گیا۔۔ وہ تو مجھے دیکھتے ہی اپنی جگہ پر ساکت ہو گیا۔۔۔ واؤ۔۔ سویٹی تم اتنی پیاری لگ رہی ہو کہ میرا دل کر رہا ہے پارٹی کو مارو گولی ہم گھر میں ہی پارٹی منا لیتے ہیں۔۔ ہاہاہاہا۔۔۔۔ ہم سب ایک ساتھ قہقہہ مار کر ہنس دئے۔۔۔پھر ہم لوگ ایک ساتھ ہی گھر سے نکل گئے۔۔۔ آنٹی بھی کچھ کم نہی تھی انہوں نے بھی آج بہت باریک قمیض پہنی تھی جس میں سے ان کےممے صاف صاف نظر آ رہے تھے اور جو پاجامہ پہنا ہوا تھا اس میں ان کی ٹانگیں بھی دکھائی دے رہی تھی۔۔۔ کیا بات ہے آج تو آپ دونوں نے ہی کمال کر دیا ہوا ہے۔۔۔ دل کر رہا ہے ادھرہی کہیں گاڑی روک کر پہلے تم دونوں پر اپنا ہاتھ صاف کروں اس کے بعد پارٹی میں تم لوگوں کو لےکر جاؤں۔۔۔ کھی کھی کھی۔۔ ہم دونوں کھی کھی کر کے ہنس دی۔۔۔ سنی سے آخر کار برداشت نا ہوا اس نے گاڑی ایک طرف روک دی اور پہلے مجھے جی بھر کے فرنچ کس کی پھر اس نے آنٹی کو پکڑ لیا اور ان کو بھی بھرپور فرنچ کس کی۔۔۔ سنی کا لن اکڑ رہا تھا۔۔ ہم دونوں کی لپسٹک تو سنی نے اتار دی تھی۔۔۔۔ آ نٹی نے اپنے ہینڈ بیگ میں سے لپسٹک نکالی اور پھر سے ہم دونوں نے اپنے ہونٹوں کا حلیہ ٹھیک کر لیا۔۔۔ جب سب او کے ہو گیا تو سنی ہمیں لے کر آگے چل دیا۔۔ سنی اگر پھدی لینے کا زیادہ دل کر رہا ہے تو ایک طرف گاڑی کھڑی کر کے پہلے پھدی لے لو پھر چلیں گے پارٹی میں۔۔ آنٹی نے کھلی آفر کی سنی کو۔۔ ارے نہی نہی آنٹی جی ایسے بات نہی ہے۔۔ وہ تو جب ہم واپس گھرآئیں گے تو میں آپ دونوں کی لے لوں گا فی الحال ہم لیٹ ہو رہے ہیں ۔۔۔۔ سنی ہمیں لے کر ایک ہوٹل میں داخل ہو گیا۔۔۔۔۔ ہوٹل میں ایک جگہ مختص تھی ۔۔۔ یہ ایک بڑا حال تھا جس میں ہر طرف فینسی ڈسکو لائٹیں لگی ہوئی تھی اور ساونڈ سسٹم پر ہلکی آواز میں بہت رومینٹک میوزک چل رہا تھا۔۔۔ ہر طرف خوشبوؤں کا زور تھا۔۔۔ ہمیں دیکھتے ہی کافی لوگ ہماری طرف متوجہ ہو گئے یہاں کافی لوگ تھے جنمیں پاکستانی بھی تھے انڈین ۔ انگلش سب ہی لوگ تھے۔۔ وہاں کا ماحول دیکھ کر مجھے کافی خوشی ہو رہی تھی۔۔۔ میں پہلی بار کسی غیر ملکی پارٹی میں شامل ہو رہی تھی۔۔۔ ہر طرف لوگ خوش گپیوں میں مصروف تھے۔۔ سنی ہمیں چھوڑ کر خود کسی دوست کے ساتھ کسی کونے میں جا بیٹھا تھا اور ہم اب ہونکوں کی طرح ادھر ادھر دیکھ رہے تھے۔۔ ہمارے یہاں کوئی جان پہچان تو تھی نہی۔۔ اچانک ایک غیر ملکی ہماری طرف آیا اس کےہاتھ میں شراب کا گلاس پکڑا ہوا تھا۔۔ اس نے ہائے ہیلو کے بعد ویٹر کو آواز دی اور ویٹر ہمارے لیئے دو گلاس لے آیا۔۔۔ میں نے تو کبھی شراب نہی پی تھی مگر آنٹی کا تجربہ تھا شراب پینے کا۔۔ انہوں نے بلا جھجک گلاس اپنے ہاتھ میں لے لیا اور شکریہ کے ساتھ مجھے بھی دوسرا گلاس پکڑا دیا۔۔ میں نے جھجکتے ہوئے وہ گلاس اپنے ہاتھ میں لیا۔۔ اور ساتھ ہی آنٹی کے کان میں سرگوشی کی کہ میں نے تو کبھی شراب نہی پی ہے۔۔۔ کوئی بات نہی مری بچی یہ تیز شراب نہی ہے۔۔ بہت ہلکی شراب ہے اس سے صرف بندہ سرور میں آ جاتا ہے۔۔ حواس قائم رہتے ہیں انسان کے تم بے فکر ہو کر اس کی ایک چسکی لو۔۔ اگر مزہ نا آیا تو واپس گلاس رکھ دینا۔۔۔ وہ غیر ملکی ہمارے ساتھ بات چیت کر رہا تھا۔۔ ہم نے اسے بتایا کہ ہم پاکستانی ہیں اور یہاںعلاج کے لئے آئے تھے۔۔۔ اس کی نظریں میرے اور آنٹٰ کے جسم سے ہٹ نہی رہی تھیں۔۔۔ جسے میں اور آنٹی دونوں نے محسوس کر لیا تھا۔۔۔ مگر ہم ہی کیا یہاں تو سب لڑکیوں اور عورتوں ن کچھ اسی قسم کے لباس پہنے ہوئے تھے۔۔ بلکہ کچھ عورتیں توخطرناک حد تک ننگی بھی ہو رہی تھی۔۔ ان کے جسم لباس کے نام پر بس ناکافی کپڑے تھے۔۔ ہمیں اتنا تو پتا تھا کہ یہاں ایسا ہی ماحول ہوگا۔۔ مگر یہ نہی پتا تھا کہ آج ہمارے ساتھ ہونے کیا والا ہے۔۔۔ یہ پارٹی سنی کے ایک دوست کی تھی یہ تو نہی پتہ تھا کہ کس خوشی میں اس نے یہ پارٹی رکھی تھی مگر یہاں کافی لوگ جمع تھے۔۔ آنٹی تو اس فرنگی دوست کے ساتھ ایک سائڈ پر جا کر بیٹھ گئی تھی میرے پاس ایک لڑکی آئی جو شکل سے پاکستانی لگ رہی تھی۔۔ میرے پاس آ کر انگلش میں کہنے لگی۔۔ آر یو پاکستانی؟۔۔ میں نے مسکرا کر ہاں میں سر ہلا دیا۔۔۔ اچھا۔۔ کس شہر سے تعلق ہے؟ میں نے بتا دیا۔۔ پھر باتوں کا سلسلہ چل نکلا۔۔ اس کا نام سحرش تھا۔۔۔ نام کی طرح اس میں واقعی سحر تھا۔۔۔ گندمی رنگت بڑی بڑی آنکھیں۔۔۔ سیاہ کالے بال جو اس کی کمر پر جھول رہے تھے۔۔۔ ستواں ناک۔۔ تیکھا ناک۔۔۔ اور گلابی ہونٹ۔۔۔ صراحی دار گردن اور گردن سے تھوڑا نیچے چالیس سائز کے ممے۔۔ کمرپتلی۔۔ جو کم سے کم اٹھائس تھی۔۔۔ میں تو اسے دیکھتی ہی رہ گئی۔۔ اس نے بتایا کہ وہ یہاں اپنی فیملی کے ساتھ رہتی ہے ۔۔ شادی شدہ تھی اور بچہ ابھی تک کوئی نہی تھا۔۔ اس کی شادی کو تین سال ہو چکے تھے ۔۔۔۔ اس کا شوہر یہاں کسیکمپنی میں ملازم تھا اور راوی چین ہی چین لکھ رہا تھا۔۔۔۔ میں نے بھی اسے اپنے بارے میں بتایا۔۔۔ پھر وہ مجھے لے کر ایک ٹیبل پر بیٹھ گئی ۔۔۔ آپپہلے بھی کسی پارٹی میں گئی ہیں یہاں لندن میں یا پہلی بار آئی ہیں؟؟ اس نے مجھ سے پوچھا۔۔ جی یہ میری پہلی پارٹی ہے۔۔ میں نے اسے بتایا۔۔ اچھا۔۔ اسی لئے آپ جھجک رہی ہیں ورنہ یہاںآنے والی سب لڑکیاں اور عورتیں بے جھجک ہو جاتی ہین یہاں کا ماحول ہی ایسا ہے۔۔۔ وہ کافی باتونی خاتون لگ رہی تھی مجھے۔۔ اس نے جو کپڑے پہنے ہوئے تھے اس کا گلا کافی ڈیپ تھا۔۔ اور اس کے مموں کی لکیر کافی واضح نظر آ رہی تھی۔۔ ممے بھی اس کے گندمی تھے سکائی کلر کے کپڑوں میں لپٹی ہوئی وہ قیامت لگ رہی تھی۔۔ ہم کافی دیر تک باتیں کرتی رہی پھر کہیں سے سنی آ گیا۔۔ سنی سے سحرش کافی جوش سے ملی سنی کو دیکھتے ہی وہ اپنی سیٹ سے اٹھی اور سنی کے گلے گئی۔۔ کدھر تھے اتنے دنوں سے تم سنی کےبچے۔۔۔ اس نے سنی کے سینے پر ایک گھنسا مارتے ہوئے کہا۔۔۔ ھائےےےےے۔۔ سنی نے درد کی ایکٹنگ کرتے ہوئے کرسی پر بیٹھ گیا۔۔ ظالم لڑکی اتنی زور سے مکا مارا ہے میرا سانس بند کردیا۔۔۔ ہاہاہاہا۔۔۔ سحرش کھلکھلا کر ہنس دی۔۔۔ ابھی تو سانس بند ہوئی ہے۔ اگر اب ایسے غائب ہوئے تو یاد رکھنا میں تمھاری جان نکال دو گی۔۔ تھے کہاں پر تم اتنے دنوں سے؟؟ وہ بنا رکے بول رہی تھی۔۔ ارے ارے تھوڑا سانس لو سب بتاتا ہوں۔۔ سنی نے اس کے منہ پر ہاتھ رکھتے ہوئے کہا۔۔۔ پہلے ان سے ملو یہ ہیں میری بہت پیاری اور اچھی کزن۔۔ نوشی۔۔۔ سنی نے میرا تعارف کروایا۔۔ جی ہم اپنا اپنا تعارف کروا چکی ہین ایک دوسرے کے ساتھ۔۔ تم اب بتا رہے ہو۔۔۔ ہاہاہاہا۔۔ اب کی بار میں نے ہنس کر کہا۔۔۔ اچھا!!!!! اس کا مطلب ہے کہ میں لیٹ ہو گیا ہوں۔۔۔ خیر کوئی بات نہی یہ بتاؤ تم لوگوں کو بھوک لگ رہی ہے کیا؟ ہاں یار مجھے تو بہت بھوک لگ رہی ہے۔۔۔ سحرش جلدی سے بولی۔۔۔ کچھ کھانے کا پروگرام ہے یا باہر سے جاکر کھانا پڑے گا؟ ارے نہی یار ادھر سب انتظام ہے۔ تم بیٹھو میں ابھی کچھ لے کر آتا ہوں تم دونوں کے لئے۔۔ سنی جلدی سے اپنی سیٹ سے اٹھا اور کھانالینے چلا گیا۔۔ کھانا بہت مزے دار تھا۔۔۔ چائنیز کی بہتات تھی کھانے میں ۔ میں نے تو پیٹ بھر کر کھایا۔۔ کھانے کے بعد سب اپنی اپنی جگہ پر بیٹھے تھے کہ اچانک ہی مائک پر انؤنس ہوا کہ سب لوگ یہاں سٹیج پر آ جائیں ڈانس پروگرام شروع کرنا ہے۔۔ سب اپنی جگہ سے اٹھ گئے۔۔ سب ہی کپلز کی شکل میں تھے۔۔۔ سحرش نے سنی کا ہاتھ پکڑا اور اس کو لے کر سٹیج پر چلی گئی۔۔ میں اکیلی بیٹھی ہوئی تھی ۔۔ ایک 25 سال کا لڑکا آیا اور بولا مس اگر آپ کو برا نا لگے تو کیا میں آپ کے ساتھ ڈانس کر سکتا ہوں؟؟ مجھے کیا اعتراض ہوسکتا تھا۔۔ لڑکے نے میرے سامنے اپنا ھاتھ پھیلا دیا۔ میں اس کا ہاتھ تھام کر اٹھ کھڑی ہوئی وہ مجھے لے کر سیدھا سٹیج کی طرف چلا گیا۔۔ ہم سٹیج پر چڑھے تو ڈی جے نے ایک رومینٹک میوزک لگا دیا۔۔۔ جبران نام ہے میرا۔۔ وہ لڑکا میرے کان کے قریب اپنا منہ کر کے بولا۔۔۔۔ اچھا۔۔ مجھے نوی کہتے ہیں۔ میں نے بھی اپنا تعارف کروایا۔۔۔ جبران نےمیری کمر میں اپنا ہاتھ ڈالا اور میرا دوسرا ہاتھ پکڑ لیا۔۔ ہم ساز کی لے پر آہستہ آہستہ تھرک رہے تھے۔۔ مجھے بہت مزہ آ رہا تھا۔۔۔ ہال کی لائٹیں بہت مدھم کر دی گئی تھی۔۔ اور سموگ چھوڑ دیا گیا تھا جس سے ماحول اور زیادہ خواب ناک ہو گیا تھا۔۔۔ پھر جبران نے اپنا بازو سکیڑا اور مجھ ےاپنے قریب کر لیا۔۔ اب میرا اور جبران کا جسم آپس میں مل گیا تھا۔۔ اس ماحول میں جبران کے جسم سے اٹھتی ہوئی خوشبو مجھے اور مدہوش کر رہی تھی۔۔۔ میں اس کے ساتھ تقریباََ چپک گئی تھی۔۔۔ اس کا ہاتھ میری کمر پر پھر رہا تھا۔۔۔ مجھے اچھا لگ رہا تھا۔۔ سب ہی ایسے ڈانس کر رہے تھے۔۔ میں نے دیکھا کہ آنٹی بھی ایک کالے حبشی کے ساتھ ڈانس کرنے میں محو تھی۔۔۔ ایک لمحہکے لئے ہم دونوں کی نظریں ملی۔۔ ہم دونوں ہی مسکرا دی۔۔ پھر میں نے دیکھا کہ سنی اور سحرش ایک دوسرے کو کس کر رہے تھے۔۔ سب اپنے اپنے ڈانس میں مگن تھے۔۔ کسی کو کسی کی ہوش نہی تھی۔اور نا ہی کوئی کسی کو روک ٹوک رہا تھا۔۔۔ جس کا جو جی چاہے کرے یہاں کوئی پابندی نہی تھی۔۔۔میرا حلق خشک ہو رہا تھا۔ میں نے جبران سے کہا کہ میں پانی پی کر آتی ہوں۔۔ جبران بھی میرے ساتھ ہی سٹیج سے نیچے اتر آیا ااور مجھے لے کر جہاں فریج رکھی ہوئی تھی وہاں لے کر آ گیا۔۔ جبران کا جسم کسرتی تھا۔۔ اور اس کا سینہ بھی چوڑا تھا۔۔۔ جبران نے مجھے پانی کا گلاس تھما دیا۔۔ پانی پی کر جب ہم واپس سٹیج کی طرف گئے تو وہاں کا ماحول ہی تبدیل ہو چکا تھا۔۔۔ کوئی لڑکا کسی لڑکی کو کس کر رہا تھا اور کہیں کوئی لڑکی اپنے ڈانس پارٹنر کے لن کو مسل رہی تھی۔۔۔ مجھے بھی تھوڑی تھوڑی مستی چڑھ گئی یہ سب دیکھ کر۔۔۔ جبران نے میری طرف دیکھا۔۔ مگر میںتو اس سین میں گم پو چکی تھی۔۔ مجھے پتا بھی نہی چلا کہ کب جبران نے میرا ہاتھ پکڑ کر اپنے موٹے لن پر رکھ دیا ہوا ہے۔۔۔ جیسے ہی میرا ہاتھ اس کے لن کے ساتھ لگا میں جیسے ہوش کی دنیا میںواپس آ گئی۔۔۔ میں نے جبران کی طرف دیکھا تو اس کی آنکھوں میں حوس ہی حوس تھی۔۔ میں نے اس کو تنگ کرنے کے لئے اپنا ہاتھ پرے ہٹا لیا۔۔۔ کک کیا ہوا میڈم؟؟ جبران ایک دم گھبرا گیا۔۔۔ کچھ نہی ہوا۔۔ مجھے نہی کرنا یہ سب۔۔۔ کیوں؟ آپ کو اچھا نہی لگا؟؟ میں جواب میں کچھ نہی بولی اور آنٹی کو ڈھونڈنے لگ گئی۔۔ میری نظر ایک طرف کونے میں گئی تو میں نے دیکھا کی آنٹی اور وہی کالا حبشی ایک دوسرے کو فرنچ کس کر رہے تھے۔۔۔ اور اس کےساتھ والے صوفے پر سنی اور سحرش ایک دوسرے کو کسنگ کر رہے تھے۔۔۔ جبران میرے ساتھ ہی کھڑا تھا۔۔۔ جبران نے ایک بار پھر سے میرا ہاتھ پکڑ لیا۔۔ یہاں اب تقریباََ ابھی ننگے ہو رہے تھے۔۔ لڑکے لڑکیاں سب ہی شراب کے نشے میں دھت اور ڈانس کر رہے تھے۔۔ ایک لڑکی ڈانس کرتے کرتے اپنےسارے کپڑے اتار چکی تھی۔۔ اور جس کا دل کرتا وہ ٓ کراس لڑکی کی پھدی میں یا گانڈ میں اپنا لن داخل کر دیتا۔۔ یہ میرے لئے ایک نیا تجربہ تھا۔۔۔ اور لڑکے بھی اپنے لن نکال کر سارے حال میں پھر رہے تھے جس لڑکی کا دل کرتا وہ ان لڑکوں میں سے کسی کا بھی لن اپنے منہ میں لے لیتی یا اپنے ممے ٓگے کر دیتی۔۔ غرض سارا ہی ماحول بڑا ہی ہیجان خیز ہو چکا تھا۔۔ اچانک جہاں ہم تھوڑی دیر پہلے ڈانس کر رہے تھے سٹیج پر پانی کا ایک فوارہ چل پڑا۔۔ اس کو دیکھتے ہی ہال ایک عجیب طوفان بدتمیزی اٹھ کھڑا ہوا۔۔ مجھے سمجھ نہی ٓئی کہ یہ سب کیوںایسے چلا رہے ہیں۔۔۔ جیسے ہی پانی چلنا شروع ہوا کافی لڑکیاں اس پانی کے نیچے جا کر کھڑی ہو گئیں۔۔۔ اچھااااااااا۔۔۔۔۔ تو یہ بات ہے۔۔ مجھے ساری سمجھ آ گئی کہ یہ کیا چکر ہے۔۔۔ لڑکیاں پانی میں بھیگ رہی تھی اور ان کے جسم پانی میں بھیگنے کی وجہ سے بہت واضح ہو رہے تھے۔۔ سٹیجی سے نیچے کھڑے لڑکے یہ دیکھ کر قابو سے باہر ہو رہے تھے۔۔ کچھ لڑکوں نے شیمپئن کی بوتلیں اٹھا لی اور ان کو خوب ہلا ہلا کر ان کے ڈھکن اڑا دئے اور شراب ایک پریشر کے ساتھ بوتلوں لے منہ سے باہر نکل آئی۔۔ وہ اس شراب کا رکھ ان لڑکیوں کی طرف کر رہے تھے جو پہلے سے پانی میں بھیگ رہی تھی۔۔۔ ایک لڑکے نے بوتل کا رکھ میریطرف کر دیا۔۔ میرے کپڑے ویسے ہی بہت باریک تھے جیسے ہی شراب مجھ پر گری میں کپڑے پہنے ہونے کے باوجود ننگی سی ہو گئی تھی۔۔۔ میرے ممے واضح ہو گئے تھے۔۔ یہ دیکھ کر تین چار اور لڑکوں نے اپنی بوتلوں کا رکھ میری طرف کر دیا۔۔۔ میںساری کی ساری شراب میں نہا گئی۔۔ میرا سارا بدن شراب میں شرابور ہو گیا تھا۔۔۔ ایک مڑکے نے پیچھے سے ہو کر اپنے ہاتھ آگے کئے اور میرے ممے اپنی گرفت میں لے لئے۔۔ میں نے اپنا آپ چھڑانے کی کوشش کی مگر اس کی گرف میری طاقتسے زیادہ تھی۔۔۔ ابھی اس کی گرفت ڈھیلی نہی ہوئی تھی کی سامنے ے ایک اور لڑکا آیا اور اس نے مجھے ایک فرنچ کس کر دی۔۔۔ اور ہنستا ہوا ایک طرف ہوگیا۔۔۔ پھر اس اجنبی کے بعد جبران میرے سامنے آیا اوور اس نے بھی میرا منہ پکڑ کر مجھے ایک بھرپور فرنچ کس کر دی۔۔۔۔ جبران کی کس اس لڑکے سے زیادہ لمبی تھی۔۔ جبران نے اپنی زبان میرے منہ میں داخل کر دی تھی۔۔ میں مزے لے لے کر اس کی زبان کو چوس رہی تھی۔۔۔ سامنے جبران کس کر رہا تھا اور میرے پیچھے ابھی تک دوسرا لڑکا مجھے مموں سے پکڑے ہوئے تھا اور اس کا لن میری گانڈ کے ساتھ ٹچ ہو رہا تھا۔۔۔۔ مجھے محسوس ہو رہا تھا کہ اس لڑکے کا لن بھی کافی موٹا تھا۔۔۔ میں نے دل میں سوچا نوشی بیٹا آج تمھاری خیر نہی ہے۔۔ پتا نہی یہاں آج کتنے لن تمھاری گانڈ اور پھدی میں جانے والے ہیں۔۔۔۔ خیر جو ہوگا دیکھا جائے گا۔۔۔ میں نے خود کو تسلی دی اور جبران کو کس کرنے لگی۔۔۔ میں ان دونوں کے درمیاں پھنسی ہوئی تھی۔۔۔ وہ دونوں لڑکے مجھے لے کر ایک سائڈ پر آ گئے اور میرے کپڑے اتار کر ایک سائڈ پر رکھ دئیے۔۔ جبران نے اپنا لن میرے منہ کے سامنے کر دیا،۔۔ میں نے جبران کا لن دیھکا جو میری توقع سے زیادہ موٹا تھا۔۔ مگر زیادہ لمبا نہی تھا۔۔ مگر جو دوسرا لڑکا تھا سا کا لن موٹا بھی تھا اور لمبا بھی تھا۔۔۔ میری پھدی جوپانی سے بھر رہی تھی ان دونوں کے لن دیکھ کر خشک ہو گئی۔۔۔ ان دونوں کے لن میری توقع سے زیادہ خطرناک تھے۔۔ مگر اب ہو کچھ نہی سکتا تھا۔۔ میں ان دونوں کے درمیان بری طرح سے پھنسی ہوئی تھی اور یہاں سے جا بھی نہی سکتی تھی۔۔۔ میرے پیچھے جو لڑکا تھا اس نے اپنا ہاتھ اگے کر کے میری پھدی پر رکھ دیا۔۔۔ میں تڑپ اٹھی۔۔ میری پھدی پہلے ہی گیلی ہو رہی تھی جیسے ہی اس کا ہاتھ لگا یہ کنٹرول سے باہرہو گئی۔۔۔ میں نے اپنی ٹانگیں پھیلا لی تاکہ اس کا ہاتھ سہی مقام پر پہنچ جائے اور اس کو کسی بھی مشکل کا سامنا نہ کرنا پڑے۔۔۔ جبران نے میریشرٹ کے بٹن کھول دیئے اب میرے ممے برا میں پھنسے ہوئے اس کے سامنے تھے۔۔۔۔ جبران نے جیسے ہی میری شرٹ کھولی میرے پیچھے والے لڑکے نے میری شرٹ کو میرے جسم سے الگ کر دیا۔۔ پھر اس نے میری ننگی کمر پر کسنگ شروع کر دی۔۔۔ مجھ پر خماری کا غلبہ ہو رہا تھا۔۔۔ جبران نے جب میرے موٹے ممے دیکھے تو آپے سے باہر ہو گیااور ایک زور کا جھٹکا مارا اور میری برا توڑ دی۔۔ اس نےمیری برا کو ہوا میں گھما کر پرے پھینک دیا۔۔ جب میری برا ٹوٹی تو میں نے ایک چیخ ماری جس سے ہمارے ارد گرد کھڑے لوگ بھی ہماری طرف متوجہ ہو گئے۔۔ جبران نے میری برا ایسے پھینک جیسے کوئی ہیرو اپنی شرٹ ہوا میں گھما کر اپنے فینز کی طرف پھینکتا ہے۔۔۔ پتا نہی میری برا کو کسی نے پکڑا بھی تھا یا نہی۔۔۔ میں اب بلکل ننگی تھی اور جبران میرے مموں پر ٹوٹ پڑا تھا۔۔ وہ اتنی بے دردی کے ساتھ میرے ممے چوس اور کاٹ رہا تھا کہ میری آنکھوں میں آنسو آ گئے۔۔ مگر اس کو میرے آنسوؤں سے کوئی غرض نہی تھی۔۔ وہ بس میرا تازہ دودھ پینے میں مصروف تھا۔۔۔ پھر جبران نے مجھے نیچے بٹھا دیا اور اپنا لن میرے منہ کے سامنے کر دیا۔۔ میں نے اپنا منہ کھولا اور اس کے لن کا ٹوپا اپنے منہ میں لے کر اسے چوسنا شروع کر دیا۔۔ اس کی دیکھا دیکھی دوسرا لڑکا بھی اپنا لن لے کر میرے سامنے آ گیا۔۔ اب ظاپر ہے میں ایک وقت میں ایکہی لن چوس سکتی تھی۔۔ چنانچہ میں نے دورے لڑکے کا لن اپنے ہاتھ میں پکڑ لیا اور اس کو ہلکی ہلکی مٹھ لگانے لگی۔۔۔ میرا ایک مما جبران کے ہاتھ میں تھا اور دوسرا مما دوسرے لڑکے کے ہاتھ میں تھا۔۔وہ دونوں میرے مموں کو کھینچ اور دبا رہے تھے۔۔۔ مجھے مزہ بھی آ رہا تھا اور ڈر بھی لگ رہا تھا۔۔ مگر مزے کی شدت ڈر سے کہیں زیادہ تھی۔۔۔ میرا پاجامہ ابھی تک میری ٹانگوں پر ہی تھا۔۔۔ پھر جبران نے اپنا لن میرے منہ سے باہر نکالا اور دوسرے لڑکے نے اپنا لن آگے کر دیا۔۔ اب میں نے جبرانکا لن اپنے ہاتھ میں پکڑا اور اس کا لن منہ میں ڈال لیا۔۔ تھوڑی دیر ایسے ہی کرنے کے بعد دونوں نے پکڑ کر مجھے کرسی پر گھوڑی بنا دیا۔۔ پہلے جبران میرے پیچھے گیا اور اپنا لن میری پھدی کے اوپر رگڑا۔۔ میرے جسم میں سنسنی دوڑ گئی۔۔۔ دوسرا لڑکامیرے سامنے آیا اور اپنا لن میرے منہ میں ڈال دیا۔۔ اب صورت حال یہ تھی میرے دونوں ہاتھ کرسی کی باچک پر تھے اور میرے منہ میں لن تھا۔۔ پیچھے سے جبران نے اپنا لن میری پھدی میں ڈال دیا تھا۔۔۔ جیسے ہی اس کا لن میری پھدی میں گیا تو مجھے ایسا لگا جیسے کسی نے میری پھدی کودونوں طرف کھینچ کر چیر دیا ہو۔۔ میں درد کی وجہ سے بلبلا اٹھی مگر میرے منہ لن ہونے کی وجہ سے میری آواز میرے ہی منہ میں دب کر رہ گئی۔۔۔ جبران کا لنمیری پھدی میں ایسے جا کر لگ رہا تھا جیسے کوئی لوہے کا راڈ میری پھدی میں داخل ہو گیا ہو ۔۔۔ دوسرے لڑکے نے میرے سر کو مضبوطی سے پکڑا اور اپنا سارا لن میرے منہ میں داخل کر دیا۔۔ اس کا لن میرے حلق سے نیچے چلا گیا۔ مجھے زور کی کھانسی لگی ۔۔ میں نے اپنی ساری قوت جمع کر کےسامنے والے لڑکے کو پرے دھکیلا اور کھانسنے لگ گئی۔۔۔ اس دوران جبران رکا نہی اس نے اپنی پمپنگجاری رکھی۔۔۔ میں سوچ رہی تھی کہ ان جانوروں سے اب جان کیسے چھوٹے گی۔۔۔ اسی دوران ایک اور لڑکا ہمارے پاس آیا اور اس نے بھی اپنا لن میرے منہ میں داخل کر دیا۔۔ اس کا لن قدرے چھوٹا تھا۔۔ اور یہ لن بڑے آرام سے میرے منہ میں چلا گیا۔۔ میں نےسوچا کہ اب نخرے کرنے سے کچھ حاصل نہی ہونا اب اس چودائی کو جی بھر کے انجوئے کرو۔۔۔ پہلےوالا لڑکا پھر میرے پاس آیا اور اب کی بار اس نے اپنا لن میرے ہاتھ میں دے دیا۔۔ میں اس کو مٹھ لگانے لگ گئی۔۔۔ پھر اس نے جبران کو اشارہ کیا اور جبران میرے سامنے آ گیا اور اس لڑکے نے میرے پیچھے جا کر اپنا لن میری پھدی میں ڈال دیا۔۔۔۔ اس کا لن جبران سے بھی بڑا اور موٹا تھا۔۔ میری آنکھوں کے آگے اندھیرا چھا گیا۔۔۔ میں بہت درد برداشت کر رہی تھی۔۔ مگر میں کر کچھ نہی سکتی تھی۔۔۔ اچانک اس کی گرفت تھوڑی ڈھیلی ہوئی اور مجھےاس کے آگے سے ہٹنے کا موقع مل گیا۔۔ میں نے ایک دھکا مارا اور جبران سمیت تیسرے بندے کو پرے دھکیل دیا اور اٹھ کر اندھا دھند بھاگ کھڑی ہوئی۔۔۔ مگر میں کیا اور میری کیا اوقات۔۔۔ سامنے جو دو تین آدمی کھڑے تھے انہوں نے مجھے دبوچ لیا اور مجھے فرش پر رکھے ہوئے ایک گدے پر پھینک دیا۔۔۔ جیسے ہی میں نیچے گری ایک آدمی نے آ کر مجھے اٹھایا او
سفر Part 17
جاتے تھے آج میں نے ارادہ کیا ہوا تھا کہ لن منہ میں نہی لینا چاہے کچھ بھی ہو جائے۔۔ مگر مجھے کیا پتا تھا۔۔ جیسے ہی دوچار دفعہ انہوں نے اپنا لن میرے ہاتھوں میں آگے پیچھے کیا ان کی منینکل گئی۔۔۔۔ پھر میں نے بہت کوشش کی کہ لن کھڑا ہو سکے مگر نہی ہوا۔۔ پھر میں نے ان کا لن اپنے منہ میں لے کر چوپے بھی لگائے مگر کوئی طریقہ کامیاب نہ ہو سکا اور مجھے پھر راتکو یہ ادھورا ہی چھوڑ کر سو گئے۔۔ میں نے تمھارا دیا ہوا ربڑ کالن پھدی میں لے لے کر اپنی پیاس بجھائی مگر تم جانتی ہو کہ مرد کا لن جتنی پیاس بجھا سکتا ہے وہ کام یہ ربڑ کا لن کر ہی نہی سکتا۔۔۔ میں کیا کروں چھوٹی ۔۔۔ اتنا کہہ کر باجی پھوٹ پھوٹ کر رونے لگ گئی۔۔ میں نے ان کو تسلی دی اور سوچنے لگ گئی کہ میں اس مسئلہ میں باجی کی کیا مدد کر سکتی ہوں۔۔ شام تک سوچ سوچ کر میرا دوران خون کم ہو گیا۔ میں اپنے کمرے میں لیٹی ہوئی تھی آنٹی مجھے ڈاکٹر کے پاس لے گئی۔۔ جی ہاں اسی دشمنِ جاں کے پاس جس کو دیکھے ہوئے مدت ہو گئی تھی۔۔ فواد مجھے دیکھ کر بہت خوش ہوا۔۔۔ پہلے تو اس نے میرا چیک اپ کر کے مجھے دوا دی پھر اس کے بعد گلے شکوے لے کر بیٹھ گیا۔۔ اسے سب سے زیادہ شکائت اس بات ہر تھی کہ میں نے اسے اپنے دل کے خیالات پہلے کیوں نہی بتائے تھے۔۔ جب میں نے اس کو اپنی ساری مجبوریاں بتائی تو وہ کسی حد تک مطمئن ہو گیا۔۔ پھر ہمارے گھر جانے کا ٹائمہو گیا۔۔ جیسے ہی میں نے اس سے اجازت مانگی اس نے اپنی سیٹ سے اٹھ کر مجھے گلے لگا لیا اور ایکپیار بھری کس میرے ہونٹوں پر جڑ دی۔۔ اس کے ہونٹوں کی مٹھاس میں نے اپنی زبان سے چکھ لی۔۔ ہماری آج کی ملاقات زیادہ لمبی نہی ہو سکتی تھی کیوں کہ اس کے پاس مریضوں کا کافی رش تھا۔۔ میں اس کے ہونٹوں کے نشے میں گم گھر آ گئی۔۔ دوسرے دن اتوار تھی۔۔ میں ابھی اپنے بستر پر ہی تھی کہ میرے فون کی بیل ہوئی میں نے کسلمندی سے آنکھیں کھولی تو سامنے سکرین پر ڈاکٹر فواد کا نمبر آ رہا تھا۔۔۔میری طبیعت خوش ہو گئی اس کا نمبر دیکھ کر۔۔۔ وہ ملنا چاہ رہا تھا۔۔۔ او کے جہاں کہتے ہو مین آ جاتی ہوں مجھے کوئی مسئلہ نہی ہے۔۔ میں نے فواد کو جواب دیا۔۔ امم۔۔ ایسا کرو پھر تم تیار ہو کر مجھے بتاؤ میں تم کو گھر سے ہی پک کر لیتا ہوں اور کسی ریسٹورنٹ میں جا کر کچھ دیر گپ لگاتے ہیں اور ساتھ ہی ناشتہ بھی کر لیتے ہیں۔۔ ہمم۔۔ میں نے سوچ کر اسے ہاں بول دیا اور خود واشروم میں گھس گئی۔۔ آج میں نے اپنے جسم کیسپیشل قسم کی صفائی کی تھی۔۔ مجھے پوری امید تھی کہ آج فواد میرے جسم کی ڈیمانڈ ضرور کرے گا۔۔۔ میں تیار ہو رہی تھی کی آنٹی میرے کمرے میں آ گئی مجھے ایسے تیار ہوتے دیکھ کر مجھے کہنے لگی۔۔۔ اوے ہوئے۔۔ آج لگتا ہے کسی غریب کی جان نکالنے جا رہی ہے ہماری دلہن بیٹی۔۔ کون ہے وہ خوش قسمت؟ آنٹی نے سیٹی بجاتے ہوئے مجھ سے پوچھا۔۔ ہی ہی ہی ہی ۔ میں ہنس دی ۔۔ ماں جی وہ کوئی اور نہی ڈاکٹ فواد ہے ۔۔ آج اس کے ساتھ میریملاقات ہے۔۔۔ اچھاااااااااا۔۔۔۔۔ آنٹی نے معنی خیز انداز میں سر ہلایا اور میری گال پر ایک کس کر کے کہنے لگی خیال رکھنا کہیں ایسا نا ہو کہ ڈاکٹر صاحب اپنے گھر کا راستہ ہی نا بھول جائے۔۔ میں بس مسکرا کر رہ گئی۔۔۔ ابھی میں تیار ہوئی ہی تھی کہ فواد کا فون آ گیا میں نے کھڑکی سے جھانک کر دیکھا تو وہ ہمارے گھر کے سامنے ہی اپنی کار میں بیٹھا میرا انتظار کر رہا تھا۔۔ میں جلدی سے نیچے آئی ۔۔ کار میں بیٹھتے ہوئے اچاننک میرے ذہن میں آیا کہ کیوں نا میں ارسلان بھائی کا مسئلہ بھی فواد کے ساتھ ڈسکس کر لوں۔۔ یہ خیال آتے ہی مجھے جیسے ایک سکون سا ہو گیا۔۔ مجھے لگ رہا تھا کہ یہ کوئی نا کوئی حل نکال لیں گے۔۔ راستے میں ہم ہلکی پھلکی باتیں کرتے ہوئے کب ہوٹل پہنچے پتا ہی نہی چلا۔۔۔ میں اپنے خیالات میں کھوئی ہوئی تھی مجھے فواد نے کاندھے سے پکڑ کر ہلایا۔۔ کیا بات ہے گڑیا۔۔ اس کا ایسے گڑیاکہنا مجھے بہت اچھا لگا۔۔۔ میں نہال ہی تو ہو گئی اس کی اس ادا پر۔۔ کک کچھ نہی یار بس ویسےہی۔۔ کوئی پریشانی ہے تو مجھے بتاؤ۔۔ وہ مجھ سے بڑے پیار سے پوچھ رہا تھا اور میں بس اس کی آنکھوں میں کھائی ہوئی تھی۔۔ وہ بار بار اپنا ہاتھ میرے سامنے لہرا کر مجھے اسی دنیا میں واپس لے کر آتا۔۔ جب میں کافی دیر تک بھی واپس اپنے ہواس میں نہی آئی تو وہ جھنجلا اٹھا۔۔ دیکھو اگرتم کو میرے ساتھ ایسے آنا اچھا نہی لگ رہا تو بھی بتا دو میں تم کو زبردستی نہو روکوں گا۔۔۔۔ وہ کچھ روٹھ سا گیا تھا۔۔ ارے نن نہی نہی ۔۔ ایسی بات نہی ہے فواد۔۔ جو بات ہے پریشانی کی وہ میں ابھی تم کو بتاتی ہوں ۔۔ مگر تم ابھی اپنا موڈ ٹھیک کرو پلیز۔۔ ایسے بلکل بھی اچھے نہی لگ رہے ہو۔۔۔ اچھا چلو پہلے اپنی پرابلم بتاؤ ۔۔ وہ بھی ضد پر اڑ گیا تھا۔۔۔ اچھا بابا بتاتی ہوں میں کہیں بھاگی جا رہی ہوں کیا۔۔۔ چلو اب بتاؤ بھی۔۔ وہ بھی ایس ٹلنے والا نہی تھا مجھ سے جب تک پوچھ نہی لیتا ا نے چین سے نہی بیٹھنا تھا۔۔۔ میں نے ایک لمبا سانس لیا اور پھر فواد کوسب بتا دیا کہ میری باجی اور اس کے ہسبنڈ کے ساتھکیا پرابلم چل رہی ہے۔۔۔ بس!!!!!!!!!! اتنی سی پرابلم کے لئے تم اتنی زیادہ پریشان ہو رہی تھی۔۔ میں سامجھ پتا نہی کتنی بڑی پرابلم ہو گی۔۔۔ ہاہاہاہا۔۔ وہ میری بات سن کر ہنس دیا اور ہونکوں کی طرح اس کا منہ تکے جا رہی تھی۔۔۔ ارے یار میں تمھارے بہنوئی کا لن ایسے ٹائٹ کر دو گا کہ ساری ساری رات اس کا بیٹھا نہی کرے گا۔۔۔ اور جب تک تمھاری بہن تین چار دفعہ فارغ نہی ہو جاتی وہ فارغ نہی ہوا کرے گا۔۔۔ اچھا!!!!۔۔۔ میں نے اپنا لہجہ معنی خیز کر کے کہا۔۔۔ جی جناب اور اگویسے اتنا یقین آپ جناب کو کیسے ہے؟ اگر تم کو یقین نہی ہے تو میں تم کو اس کا تجربہ بھی کروا سکتا ہوں۔۔۔ فوادنے میری طرف جھک کر بڑے رازدار انداز میں کہا۔۔۔ اچھا!!!!!!!!۔۔میں نے معنی خیز انداز میں کہا ۔ تو جناب خود پر بڑا اعتماد ہے آپ کو؟۔ کہیں ایسا نا ہو کہ پہلے ٹیسٹ میں ہی جناب فیل ہو جائیں۔۔ آزمائش شرط ہے ۔۔ فواد چہک کر بولا۔۔اچھا تو ٹھیک ہے مگر چیک کہاں کرنا ہے؟ میں نے اپنی بھنوئیں اچکاتے ہوئے اس سے پوچھا۔۔۔امممم ایسا کرتے ہیں میرے اسی ہوٹل میں کمرہ لے لیتے ہیں اور ادھر ہی چیک کر لیتے ہیں۔۔۔ چلیں ٹھیک ہے۔ میں نے ہامی بھر لی۔۔ فواد ٹیبل سے اٹھا اور کاؤنٹر پر جا کر کمرہ بک کروانے لگا۔۔ تھوڑی دیر بعد واپس آیا اس کے منہ پر خوشی کی جگہ مایوسی تھی۔۔ میرے پوچھنے پر بتانے لگا کہ ادھر کوئی کمرہ فارغ نہی ہے اور ہمیں کہیں اور جانا پڑے گا۔۔ فواد کی بھوکی نظریں میرے سینے کا طواف بار بار کر رہی تھی اور میں اس بات کو اچھے سے جانتی تھی ۔۔ میں نے بھی اسے روکا نہی اور ایسے ہی اس کو انجوائے کرنے دیا۔۔۔ اب پھر کیا کرنا ہے؟؟ میںنے پوچھا۔۔ کچھ کرتا ہوں۔۔۔ اچانک میں بولی ڈاکٹر صاحب آپ کے کلینک کے بارے میں کیا خیال ہے؟ْْ وہاںتو آج کوئی بھی نہی ہوگا نا؟؟ میں نے ایک نقطہ سجھایا۔۔۔ ارےےےےے واؤؤؤؤؤ۔۔ یہ بات تو میرے ذہن میں آئی ہی نہی تھی۔۔۔ کیا بات ہے نوشی جی۔۔ تم تو کمال ذہن کی مالک ہو۔۔۔ ہی ہی ہی ہی ۔۔۔ میں کھی کھی کر کے ہنس دی۔۔۔ ہم ہوٹل سے اٹھے اور فواد کے کلینک کی طرف رخ کر دیا۔۔۔۔۔ کار میں بیٹھ کر میں نے اپنی شرٹ کے اوپر والے دو بٹن کھول دئیے جس سے میرا کالا کلر کا برا صاف نظرآنے لگا۔۔۔ اور میرے مموں کی لکیر فواد کو پاگل کرنے کے کافی تھی۔۔۔ افففف۔۔۔ نوشی جی کیوں میری جان نکالنے پر تلی ہوئی ہیں آپ آج۔۔۔ فواد رومانٹک انداز میں بولا۔۔۔ میں آپ کی جان نکال نہی رہی بلکہ آپ میں جان ڈال رہی ہوں ۔۔۔ ہاہاہاہاہا۔۔ فواد کھلکھلا کر ہنس دیا۔۔۔ چلیں ابھی آپ جان نکال لو بعد میں میںَ نکال لوں گا تمھاری جان۔۔ ہائیں؟؟ وہ کیسے؟؟ میں حیران ہو کر بولی۔۔ ہاہاہاہا۔۔ ڈارلنگ تم ایک بار کلینک تو پہنچ لو پھر بتاتا ہوں۔۔اہو!!!!!!!!! مجھے تو اب خیال آیا ہے کہ جناب کیسے میری جان نکال سکتے ہیں۔ میں نے ایک دم چونک کر کہا۔۔ کیا مطلب میں سمجھا نہی۔۔ فواد سٹپٹا کر بولا۔۔۔ وہ ایسے حضور کہ آپ جناب تو ڈاکٹر ہیں۔۔۔ میں نے مزے لیتے ہوئے جواب دیا۔۔ ہاں تو؟؟؟ فواد ابھی تک الجھا ہوا تھا۔۔۔ تو میرے بدھو عاشق صاحب آپ کوئی گولی شولی کھا کر بھی میری جان نکالنے کا پورا انتظام کر سکتے ہیں۔۔ نا بابا مجھے نہی جانا آپ کے ساتھ ۔۔۔ میں نے باقاعدہ ہاتھ جوڑ کر فواد کو چڑایا۔۔ ارےےےےےے۔۔۔ یہ کس کنجر نے تم سے کہہ دیا کہ میں ایسا کوئی بھی ارادہ رکھتا ہوں۔۔۔ فواد نے آنکھیں دکھاتے ہوئے کہا۔۔۔ میری امی نےکہا ہے ایسا۔۔۔ میں نے اپنی ہنسی کو کنٹرول کرتے ہوئے فواد سے کہا۔۔۔ ہائیں؟؟؟؟؟ یہ تم اپنی امی کو بھی بتا کر آئی ہو کہ تم میرے ساتھ میرے کلینک پر جا رہی ہو۔۔۔ فواد جھنجھلا گیا۔۔ ہاہاہاہااہا۔۔۔ میں زور زور سے ہنسنے لگ گئی۔۔۔ میری ہنسی نہی رک رہی تھی۔۔ جب میں ہنس ہنس کر بے حا ہو گئی تو مجھے فواد کا پھولا اور الجھن ذدہ چہرہ نظر آیا۔۔۔ اس کو دیکھ کر ایک بار پھر میری ہنسی چھوٹگئی۔۔۔ فواد نے چار سڑک کے ایک طرف روک دی اور میری طرف سوالیہ نظروں سے دیکھنے لگا۔۔۔ ارے بابا کیا ہو گیا ہے تم کو۔۔ میں کیوں اپنی امی کو بتا کر آنے لگی یہ سب کچھ۔۔ میں نے بڑی مشکل سےاپنی ہنسی روک کر کہا۔۔ تو پھر؟؟ فواد نے الجھتے ہوئے سوال کیا۔۔۔افففف خدایا ایک تو آپ کو مذاق بھی سمجھانا پڑ جاتا ہے۔ اچھا چلو اب سمجھاؤ میں ابھی تک الجھا ہوا ہوں تمھاری باتوں سے۔۔۔ ارے یار سیدھی سی بات ہے آپ ڈاکٹر ہو اور آپ کے پاس تو ہر قسم کی گولی ہو سکتی ہےاور آج آپ اس کا فائدہ بھی اٹھا سکتے ہیں۔۔۔میں نے وضاحت کی تو فواد کھسیانا ہو کر رہ گیا۔۔ ہاہااہاہاہا۔۔ واقعی یہ تو سامنے کی بات تھی جو مجھے سمجھ جانی چاہئے تھی مگر تمھارا جادو ہی ایسا ہے کہ میرے حواس ہی کام نہی کر رہے تھے۔۔ ہاہاہاہا۔۔ فواد مجھے بہت معصوم سا لگ رہا تھا یہ بات کرتے ہوئے ۔۔ اور اس پر مجھے ڈھیروں ڈھیر پیار آ رہا تھا۔۔ مجھ سے رہا نہی گیا اور میں نے آگے ہو کر فواد کا گال چوم لیا۔۔۔۔ ارے ارے ارےےے۔۔۔ بس بس بس ۔۔ فواد نے احتجاج کرتے ہوئے کہا۔۔۔ میں ایک بار پھر ہنس دی۔۔۔ اسی دوران ہم کلینک پہنچ گئے ۔۔۔ فواد نے اپنا سپیشل کمرہ کھلوایا اور ملازم کو کولڈ ڈرنک لینے بھیج دیا۔۔۔ کولڈ ڈرنک آنے تک ہم ادھر ادھر کی باتیں کرتے رہے۔۔۔ اس کا یہ کمرہ بہت ہی نفاست سے سجایا گیاتھا۔۔ میں تعریف کئے بنا نہ رہ سکی۔۔۔ اچھا تو یہ کمرہ اسی مقصد کے لئے بنایا ہوا ہے جناب نے۔۔ ہے نا؟؟؟ میری شرارت کی رگ ایک بار پھر پھڑک اٹھی ۔۔۔ ہاہاہاہا۔۔ ارے نہی یار ایسی کوئی بات نہیہے یہ کمرہ میں نے اس لئیے بنوایا ہے کہ جب کبھی کام سے تھک جاؤں تو یہاں آ کر آرام کر لیتا ہوں ۔۔۔ فواد نے جواب دیا۔۔ اچھا۔۔۔ اور ساتھ تھکاوٹ اتار بھی لیتے ہوں گے ۔۔ ہے نا؟؟؟؟ میں نے ایک بار پھر سوال کر دیا۔۔۔ یار تھکاوٹ لوڑا اتارنی تھی تم آج سے پہلے کبھی ملی ہی نہی تھی جو میں تھکاوٹ اتارتا۔۔۔۔ اچھا جی اس کا مطلب ہے کہ ارادے پہلے ہی ٹھیک نہی تھے تمھارے۔۔۔ میں نے ناک چڑھاتے ہوئے کہا۔۔۔ اس سے پہلے کہ فواد کچھ کہتا ملازم کولڈ ڈرنک لے کرآ گیا۔۔۔ کمرے میں اے سی لگا ہوا تھا کافی پر سکون ماحول تھا۔۔ میں ریلیکس ہو کر بیڈ پر بیٹھ گئی۔۔۔۔ فواد میرے پاس آ کر بیٹھ گیا۔۔ وہ جیسے ہی قریب آیا اس کی مسحور کن خوشبو میرے نتھنوں میں اتر گئی۔ میں نے ایک لمبا سانس لیا اور اس کی خوشبو کو اپنے اندر اتار لیا۔۔۔پتا نہی کیوں میری آنکھوں میں نمی آ گئی۔۔ گو کہ ابھی اس کے پاس بیٹھی ہوئیتھی مگر اس کی جدائی کا غم ابھی سے میرے کلیجے کو کاٹ رہا تھا۔۔۔ کیا بات ہے میری جان؟؟ فواد نے میرے بالوں میں انگلیاں پھیرتے ہوئے بڑےپیار سے پوچھا۔۔۔ کچھ نہی جان بس ویسے ہی آنکھ میں کچھ پڑ گیا ہے شائد۔۔۔ میں بات کو ٹال گئی ۔۔ میں نہی چاہتی تھی کہ فواد کو میری اس کمزوری کا ذرا سا بھی احساس ہو۔۔ فواد نے میری ران پر ہاتھ رکھ دیا۔۔۔ میں نے اس کا ہاتھ ہٹانے کی کوشش بھی نہی کی اور ایسے ہی اس کے ہاتھ کو رہنے دیا۔۔۔۔ میرا جسم اب ہولے ہولے کانپ رہا تھا۔۔۔ یہ میرا پہلا تجربہ نہی تھا سیکس کا مگر پتا نہی کیوں فواد کے ساتھ میری فیلنگز کچھ اور تھی۔۔۔ میں نے اسے کبھی سیکس کے انداز میں نہی سوچا تھا۔۔ میں اسے پیار کرتی تھی اور دل جان سے کرتی تھی۔۔۔ اور میری یہ خواہش بلکل بھی نہی تھی کہ وہ بھی مجھے ایسے ہی چاہے۔۔۔میری بس اتنی سی خواہش تھی کہ وہ میرے سامنے رہے ۔۔۔ مجھے اور کچھ نہی چاہئے تھا۔۔۔ فواد کا دوسرا ہاتھ میرے سینے پر رینگ رہا تھا۔۔ میںنے اس کی طرف اپنے ہونٹ کر دیئے ۔۔ جن کو اس نے بڑے پیار کے ساتھ اپنے ہونٹوں میں قید کر لیا اور میرے ہونٹوں کو ایسے چوس رہا تھا جیسے یہ بہت ہی نازک کانچ کے ہیں جو ذرا سی ٹھوکر سے ٹوٹ جائیں گے۔۔ میں اس کا پورا ساتھ دے رہی تھی۔۔ میں نے اپنی زبان نکال کر اس کے ہونٹوں کا پھیرنے لگی۔۔۔ فواد نے میری زبان کو اپنے منہ میں لے لیا اور اتنے انوکھے انداز سے اس کو چوس رہا تھا کہ مجھے آج تک ایسا مزہ نہی ملا تھا جیسا اب مل رہا تھا۔۔۔۔ میں آہستہ آہستہ جوش میں آ رہا تھی۔۔۔۔ مگر میں نے ابھی تک اس کا لن نہی پکڑا تھا۔۔۔ پھر فواد نے میری گردن کو پکڑا اور مجھے اپنی گود میں گرا لیا اور میرے ہونٹوں کو دیوانہ وار چومنے چاٹنے لگ گیا۔۔ کبھی اس کی زبان میرے ہونٹوں کو ٹچ کرتی کبھی وہ میری زبان کو اپنے منہ میں لے کر چوستا۔۔۔ پھر اس نے اپنی زبان میرے منہ میں داخل کر دی۔۔ میں اس کی زبان کو جتنا ممکن تھا اپنے منہ کے اندر لے گئی اور ایسے چوسنے لگی جیسے کوئی بچہ بت دنوں سے بھوکا ہو اور اس کو آج جا کر کہیں مدت بعد دودھ ملا ہو پینے کے لئے۔۔ میں اس کی زبانکی مٹھاس اپنی روح میں اتار رہی تھی۔۔۔ اور میرا دل کر رہا تھا کہ ایسے ہی یہ وقت رک جائے اور میں کبھی بھی فواد کے ہونٹوں سے الگ نہ ہوں۔۔۔۔ پھر فواد نے میری شرٹ کے بٹن کھول دئے اور میرے ممے اپنے سامنے ننگے کر لئے۔۔ میرے بھرے بھرے ممے دیکھ کر فواد کی رال ٹپک پڑی۔۔۔۔ وہ براکے اوپر سے ہی ان کو دبانا شروع ہو گیا۔۔ میں آج خود سے کچھ بھی کرنے کے موڈ میں نہی تھی۔۔ میرا دل کر رہا تھا کہ فواد خود ہی سب کچھ کرے۔۔۔ مجھے ننگا بھی وہی کرے اور جو بھی کرنا ہے مجھے خود سے نہ کرنا پڑے۔۔۔ میں آج سچ میں اس کی غلام بنی ہوئی تھی۔۔ وہ آج مجھے جو کچھ کہتا میں نے کرنا تھا اور بلا چوں چراں کرنا تھا۔۔ میں آج اپنے دلبر جانی کو خوش کرنے کے لئے آئی تھی نہ کہ خود خوش ہونے آئی تھی۔۔۔ آج اس کا ٹائم تھا۔۔ بعد میں جب دوبارہ ملیں گے تو میں بھی اپنی ساری خواہشیں پوری کر لوں گی اس پر۔۔فواد میرے مموں کو اتنی زور سے دبایا کہ میری چیخ نکل گئی مگر میں نے اپنی چیخ کو اپنے منہ میں ہی دبالیا۔۔۔ میں نہی چاہتی تھی کہ میرا محبوب ڈسٹرب ہو یا وہ اپنا کام روک دے۔۔۔ مجے درد سے زیادہ مزہ آ رہا تھا۔۔ میں نے اپنا سینا تان لیا۔۔ یہ دیکھ کر فواد اوربے قابو ہو گیا اور اس نے اپنا ہاتھ میرے برا کے اندر ڈال دیا۔۔۔ میں نے اسے کہا جان اگر برا تنگ کر رہا ہے تو اسے اتار کیوں نہی دیتے ہو؟ نہی جان تمھارے ممے برا میں اتنے قیامت خیز لگ رہے ہیں تو باہر نکل کر قیامت ہی ڈھا دیں گے۔۔۔ فواد نے میرا ایک نپل اپنی دونوں انگلیوں میں لے کر اس کو ہلکا سا مسل دیا۔۔۔ اففففف۔۔۔۔۔۔۔۔ ایک مزے کی لہر میرے جسم میں دوڑ گئی۔۔۔ میری شرٹ ابھی تک میرے جسم پر ہی تھی۔۔ میں نے اوپر ہو کر افواد کو اپنی شرٹ اتارنے کا کہا۔۔۔اس نے بنا کچھ کہے میری شرٹ میرے جسم سے الگ کر دی۔۔ اور اپنی شرٹ بھی اتار دی۔۔ اب میرے سامنے فواد کا بالوں بھرا سینہ تھا۔۔ میں نے بے اختیار اپنے ہونٹ اس کے سینے سے لگا دیئے۔۔ اس کے سینے سے بڑی بھینی بھینی خوشبو آ رہی تھی۔۔۔ میں اس کی خوشبو سونگ ہی تھی اور مدہوش ہو رہی تھی۔۔ پھر فواد نے میری کمر پر اپنا ہاتھ کر کے میری برا کا ہک کھول دیا۔۔ میرے ممے ایک دم سے آزاد ہو گئے تھے اور فواد نے جلدی سے اپنا منہ میرے موٹے موٹے مموں پر رکھ دیا۔۔ وہ میرے مموں کو بھنبھوڑ رہا تھا اور میں مزے کی نئی دنیا سے متعارف ہو رہی تھی۔۔ میرے انگ انگ میں مزے کی لہر دوڑ رہی تھی۔۔۔ میں نے فواد کا سر اپنے مموں کے ساتھ دبا دیا۔۔ پہلے تو فواد بڑے پیارکے ساتھ ممے چوستا رہا پھر اس نے اچانک میرے نپل پر اپنے دانت بڑی بے رحمی سے گاڑھ دئے۔۔۔ میری جان نکل گئی۔۔ میں نے بہت کوشش کی مگر پھر بھی میری چیخ نکل ہی گئی۔۔ پتا نہی کیا بات تھی جو بھی میرے ممو چوستا وہ بے قابو ہوجاتا۔۔۔ آآآآآآآہہہہہہ۔۔۔ آرام سے میری جان یہ تمھارے ہی ہیں۔۔ میں نے فواد کو روکتے ہوئے کہا۔۔۔ مگر وہ کہاں رکنے والا تھا۔۔۔۔ جان تمھارے ممے اتنے مزے دار ہیں کہ میں خود کو روک نہی پایا اور میرا دل کر رہا ہے کہ میں تمھارے مموں کو کھا جاؤں۔۔ تو کھا جاؤ نا میری جان کسی نے روکا تھوڑی ہے۔۔۔ میں نے شہوت بھری آواز میں کہا۔۔۔ اس نے اتنا سننا تھا او:کیا مطلب تم کو پتا تھا سب کچھ؟ میں نے ہکلاتے ہوئے سنی سے پوچھا۔۔۔ جی جناب میں سپیشل تم دونوں کو ادھر لے کر آیا ہی اسی مقصد کے لئے تھا۔۔۔ اور آج جو تمھاری ویڈیو انٹرنیٹ پر براہ راست دکھائی گئی ہے تو اس سے میری چینل کو بہت زیادہ پذیرائی ملی ہے ۔۔۔ سنی مجھے بتا رہا تھا اور میں ہونکوں کی طرح منہ پھاڑے آنکھیں کھولے اس کی شکل تکے جا رہی تھی۔۔۔دوسرے دن ہم لوگ جہاز میں بیٹھ کر پاکستان واپس آ گئے۔۔۔ واپس آکر کچھ دن آرام سے گزر گئے کوئی خاص واقع نہی ہوا جو قابل ذکر ہو۔۔۔ پھر ایک دن میرے بہنوئی ہمارے گھر آئے۔۔۔ اور میری بہن ہمارےگھر آئی شام کو جب ہم چائے پی رہے تھے تو مجھے ایسا محسوس ہوا کہ جیسے وہ کچھ پریشان ہے۔۔ میں نے پوچھا تو وہ بات ٹال گئی۔۔۔ رات کے کھانے کے بعد میں نے پھر بات چھیڑ دی۔۔۔۔ پہلے تو وہ ٹال مٹول کرتی رہی مگر میں بھی اپنی ضد پر قائم رہی ۔۔ آخر کار اسے ہار ماننی ہی پڑی۔۔ یار کیا بتاؤں۔۔ تمھارے بہنوئی صاحب نے بہت تنگ کیا ہوا ہے۔۔۔ کیوں کیا ہوا ہے؟ کیا کہہ رہے ہیں وہ؟؟ کہہ نہی رہے۔۔ مگر کر بھی کچھ نہی رہے۔۔ رات کو میں تڑپتی رہتی ہوں اور وہ کرتے کچھ نہی۔۔ میں باجی کا منہ تک رہی تھی۔۔۔ میرا مطلب ہے کہ میں انکو پاس ننگی ہو کر بھی لیٹی رہوں تو بھی ان کا لن کھڑا نہی ہوتا۔۔ اگر ہو بھی جائے تو میری پھدی کا پانی نکالے بغیر ہی یہ اپنا پانی نکال دیتے ہیں اور پھر لاکھ کوشش کر لو ان کا کھڑا نہی ہوتا اور پھر یہ سو جاتے ہیں۔۔۔ اب اس وجہ سے میرے جسم میں درد رہتا ہے اور طبیعت بھی خراب رہتیہے۔۔۔ ہممم۔۔ میں نے ایک ہنکارہ بھرا۔۔۔ پھر باجی بولی میں نے دوسرے طریقے بھی اپناکر دیکھے ہی مگر کوئی خاص فائدہ نہی ہوا۔۔۔ مثلاََ کیا طریقے کر کے دیکھے ہیں؟ میں نے باجی سے پوچھا۔۔۔ مثلاََ کھیرا او لمبے بینگن بھی اپنی پھدی میں ڈال ڈال کر دیکھا ہے مگر میری آگ ہے کہ ٹھنڈی ہونے کا نام ہی نہی لے رہی۔۔ میری آگ بڑھتی جا رہی ہے۔۔۔میں کیا کروں کچھ سمجھ نہی آتا۔۔ باجی بات کرتے کرتے جذباتی ہو گئی اور ان کی آنکھوں میں آنسو آ گئے۔۔ میں ایک لڑکی تھی۔۔ میں چاہ کر بھی کچھ نہی کر سکتی تھی اپنی باجی کے لئے۔۔ باجی یہمسئلہ کب سے ہو رہا ہے؟ میں نے باجی سے پوچھا۔۔یہ پچھلے چھ ماہ سے ایسا ہو رہا ہے۔۔۔ میںنے کافی دفعہ کہا کہ کسی ڈاکٹر کو چیک کروائیں مگر یہ سنتے ہی نہی ہیں۔۔۔ آخر مئلہ کیا ہے یہ کیوں نہی جاتے کسی ڈاکٹر کے پاس؟ میں نے پوچھا۔۔ پتا نہی یار ان کا کیا مسئلہ ہے۔۔ شائد یہ اپنی مردانگی پر کوئی حرف نہی برداشت کر سکتے۔۔ میںتو اب تھک گئی ہوں۔۔۔ میں باجی کی بات سن کر کافی پریشان ہو گئی تھی یہ مسئلہ واقعی کافی بڑا مسئلہ تھا۔۔ مگر میں کیا کر سکتی تھی؟ کچھ بھی نہی۔۔ میں جب رات کو اپنے بیڈ پر سونے کے لئے لیٹی تو بھی میرے ذہن میں باجی کا روتا ہوا چہرہ آ رہا تھا۔۔ میں ساری رات کروٹیں بدلتی رہیمگر نیند تھی کہ آنکھوں سے جیسے روٹھ گئی تھی۔۔۔نبیل نے مجھے پوچھا بھی مگر میں طبیعت خرابی کا بہانا بنا کر چپ کر گئی۔۔ نبیل نے بھی مجھے ڈسٹرب کرنا مناسب نہی سمجھا۔۔۔ صبح ہوئی تو میری آنکھیں سوجی ہوئی تھی اور جسم بہت درد کر رہا تھا۔۔ سر میں شدید درد تھا مجھ سے اٹھا نہی جا رہا تھا۔۔ نبیل اور انکل کو ناشتہ کروا کر آنٹی نے آفس بھیج دیا میرے پاس باجی آئی وہ بھی پریشان تھی کہ مجھے کیا ہوگیا ہے۔۔۔ پھر مجھے باجی نے بتایا کہ آج ان کے شوہر ان کو لینے آ رہے ہیں۔۔۔۔ہمم۔۔ میں نے پر خیال انداز میں سر ہلا دیا۔۔۔ پھر اٹھ کر میں نے نہا کر کپڑے بدلے اور ناشتہ کرنے کے بعد گھر کے کاموںمیں لگ گئی دن کیسے گزرا پتہ ہی نہی چلا۔۔۔ شام ہوئی تو ارسلان بھائی ) باجی کے شوہر( بھی آگئے۔۔۔ وہ شکل سے کافی تھکے ہوئے لگ رہے تھے۔۔ میری نظر نا چاہتے ہوئے بھی ان کی پینٹ میں کوئی ابھار ڈھونڈ رہی تھی جس میں ظاہر ہے مجھے ناکامی ہی ہوئی ۔۔۔ میں کچھ میں گئی اور اشارے سے باجی کو اپنے پاس بلا لیا۔۔۔ میں نے ان سے کہا کہ اب آپ میں اور ہم گھر والوں میں کوئی پردہ تو رہا نہی آپ جائیں اور بھائی کے سامنے اپنا دوپٹہ اتار کر اپنے مموں کا نظارہ کروائیں ان کو۔۔ شائد ان کی ٹانگوں کے درمیان کوئی ہلچل پیدا ہو جائے۔۔۔ ابھی میں اپنی بات مکمل بھی نہ کر پائی تھی کہ باجی بول پڑی۔۔ کچھ نہی ہو گا چھوٹی۔۔ میں یہ سب کچھ کافی دفعہ کر چکی ہوں ۔۔ میں نے تم کو کل بھی بتایا تھا کہ میں ان کے سامنے ننگی بھی لیٹ جاؤں تو ان کا لن کھڑا نہی ہوتا۔۔ باجی میرے کہنے پر ایک بار کر کے تو دیکھیں شائد کچھ فرق پڑ جائے آج۔۔۔ باجی مایوسی کے ساتھ نفی میں سر ہلا کر کچن سے باہر چلی گئی۔۔ میرا دل کٹ کر رہ گیا۔۔۔ میں باجی کے لئے کچھ کرنا چاہ رہی تھی مگر کیا کروں کچھ سمجھ نہی آ رہا تھا۔۔۔۔ رات کا کھانا کھا کر وہ لوگ جانے لگے تو میری ساس نے ان دونوں میاں بیوی کو روکنے کی کوشش کی مگر وہ رکے نہی اور اپنے گھر چلے گئے۔۔ دوسرے دن میں نے باجی کو فون کر کے پوچھا کہ رات کیسی گزری ہے تو وہ پھوٹ پھوٹ کر رونے لگ گئی۔۔ میں نے تسلی دیاور ان سے کہا کہ مجھے تفصیل میں بتائیں کہ کیاہوا ہے۔۔ تھوڑی دیر رونے کے بعد وہ بولی کہ رات کو جب ہم گھر آئے تو میں نہا کر واشروم سے بنا کپڑے پہنے ہی باہر آ گئی کہ شائد ان کو کچھ خیالآ جائے ۔۔ یہ مجھے دیکھ کر اٹھے اور مجھے کسنگ کرنے لگ گئے۔۔۔ میں تو پہلے ہی گرم تھی ان کا لوڑا بھی گرم ہونے لگ گیا۔۔۔ جب وہ میری ٹانگوں کے ساتھ ٹچ ہوا تو مجھے بہت خوشی محسوس ہوئی کہ آج میری پیاس بجھ جائے گی۔۔۔ یہ میرے ممے چوس رہے تھے ۔ مجھ سے غلطی یہ ہوئی کہ میں نے جوش میں آ کر ان کا لن اپنے ہاتھ میںپکڑ لیا۔۔ جیسے ہی مین نے ان کا لن اپنے ہاتھ میں لیا انہوں نے اپنے لن کو میرے ہاتھ میں آگے پیچھے کرنا شروع کر دیا۔۔ اب مجھے کیا پتا تھا کہ آگے کیا ہونے والا ہے۔۔ پہلے تو یہ ہوتا تھا کہ میں جب لن منہ میں لے کر چوپے لگاتی تھی تو یہ فارغ ہوجاتے تھے آج میں نے ارادہ کیا ہوا تھا کہ لن منہ میں نہی لینا چاہے کچھ بھی ہو جائے۔۔ مگر مجھے کیا پتا تھا۔۔ جیسے ہی دوچار دفعہ انہوں نے اپنا لن میرے ہاتھوں میں آگے پیچھے کیا ان کی منینکل گئی۔۔۔۔ پھر میں نے بہت کوشش کی کہ لن کھڑا ہو سکے مگر نہی ہوا۔۔ پھر میں نے ان کا لن اپنے منہ میں لے کر چوپے بھی لگائے مگر کوئی طریقہ کامیاب نہ ہو سکا اور مجھے پھر راتکو یہ ادھورا ہی چھوڑ کر سو گئے۔۔ میں نے تمھارا دیا ہوا ربڑ کالن پھدی میں لے لے کر اپنی پیاس بجھائی مگر تم جانتی ہو کہ مرد کا لن جتنی پیاس بجھا سکتا ہے وہ کام یہ ربڑ کا لن کر ہی نہی سکتا۔۔۔ میں کیا کروں چھوٹی ۔۔۔ اتنا کہہ کر باجی پھوٹ پھوٹ کر رونے لگ گئی۔۔ میں نے ان کو تسلی دی اور سوچنے لگ گئی کہ میں اس مسئلہ میں باجی کی کیا مدد کر سکتی ہوں۔۔ شام تک سوچ سوچ کر میرا دوران خون کم ہو گیا۔ میں اپنے کمرے میں لیٹی ہوئی تھی آنٹی مجھے ڈاکٹر کے پاس لے گئی۔۔ جی ہاں اسی دشمنِ جاں کے پاس جس کو دیکھے ہوئے مدت ہو گئی تھی۔۔ فواد مجھے دیکھ کر بہت خوش ہوا۔۔۔ پہلے تو اس نے میرا چیک اپ کر کے مجھے دوا دی پھر اس کے بعد گلے شکوے لے کر بیٹھ گیا۔۔ اسے سب سے زیادہ شکائت اس بات ہر تھی کہ میں نے اسے اپنے دل کے خیالات پہلے کیوں نہی بتائے تھے۔۔ جب میں نے اس کو اپنی ساری مجبوریاں بتائی تو وہ کسی حد تک مطمئن ہو گیا۔۔ پھر ہمارے گھر جانے کا ٹائمہو گیا۔۔ جیسے ہی میں نے اس سے اجازت مانگی اس نے اپنی سیٹ سے اٹھ کر مجھے گلے لگا لیا اور ایکپیار بھری کس میرے ہونٹوں پر جڑ دی۔۔ اس کے ہونٹوں کی مٹھ