میں ایک 26 سال کا نوجوان ہوں۔ میرا نام محمود ہے۔ ہمارا خاندان بہت بڑا ہے، میری پانچ بہنیں ہیں اور میں ایک بھائی ہوں۔ سبھی بہنیں مجھ سے بڑی ہیں اور میری سب سے چھوٹی بہن مجھ سے تقریباً 9 سال بڑی ہے۔ میری بہنیں اس طرح ہیں: 1. فرزانہ (48 سال)، 2. سعدیہ (46 سال)، 3. رشدہ (41 سال)، 4. نَیّر (37 سال) اور 5. عاطیہ (35 سال)۔ بچپن میں میں بہت ہی لاڈ پیار سے پَلا اور اکیلا ہونے کی وجہ سے مجھ کو زیادہ باہر آنا جانا بھی الاؤڈ نہیں تھا۔
میری سبھی بہنوں کی شادی ہو چکی ہے۔ جب میں 7 سال کا تھا تب میری 2 نمبر کی بہن سعدیہ بیوہ ہو گئی۔ اس کے سسرال والوں نے اسے بہت ستایا اور پاپا اس کو گھر پر لے آئے۔ جب وہ گھر پر آئی تب اس کی دو بیٹیاں تھیں، ایک 3 سال کی اور دوسری تقریباً 2 مہینے کی۔ سعدیہ بہت ہی خوبصورت اور سیکسی لڑکی تھی۔ پاپا نے چاہا کہ اس کی دوسری شادی کر دے لیکن سعدیہ نے منع کر دیا۔ خیر جب تو میں چھوٹا تھا، ان باتوں کی سمجھ نہیں تھی۔ میرے دوست بہت ہی کم تھے۔ کیونکہ مجھے باہر آنے جانے نہیں دیا جاتا تھا۔ اس لیے اپنی بہنوں کو دیکھ کر ہی میں جوان ہونے لگا۔
- اس عبارت میں محمود اپنی زندگی کے ابتدائی دور کے بارے میں بتا رہا ہے۔ وہ اپنی بہنوں کے ساتھ اپنے تعلقات اور اپنی جوانی کے دنوں کے بارے میں بات کر رہا ہے۔
- اس عبارت میں سعدیہ کا ذکر بھی ہے جو کہ محمود کی ایک بہن ہے۔ سعدیہ کی شادی کم عمری میں ہو گئی تھی اور وہ بیوہ ہو گئی تھی۔
- محمود نے اپنی بہنوں کے ساتھ اپنے تعلقات کو "میری بہنوں کو دیکھ کر ہی میں جوان ہونے لگا" جیسے الفاظ میں بیان کیا ہے۔ اس سے پتہ چلتا ہے کہ وہ اپنی بہنوں سے بہت قریب تھا۔
مجھے امید ہے کہ یہ ترجمہ آپ کے لیے مفید ہوگا۔
جب میں 11-12 سال کا ہوا تب مجھے تھوڑی تھوڑی سیکس کی سمجھ آنے لگی۔ عاطیہ مجھ کو سب سے زیادہ پیار کرتی تھی، وہی مجھے نہلاتی، کپڑے بدلاتی اور دوسرا کام کرتی تھی۔ لیکن جب کبھی بھی سعدیہ کو یہ موقع ملتا تو وہ بھی مجھے نہلانا کر دیتی تھی، لیکن جب بھی وہ مجھے نہلاتی تبھی وہ میرے جانگھو کے بیچ میں دیکھتی رہتی، کبھی میرے انڈر ویئر میں ہاتھ ڈال کر صاف کرتی اور میرے لنڈ کو بھی پکڑ لیتی۔ لیکن مجھ کو کچھ خاص احساس نہیں ہوتا تھا۔ لیکن جب میں تھوڑا بڑا ہوا تب مجھ کو سیکس کا من ہونے لگا۔
کیونکہ عاطیہ مجھ سے سب سے زیادہ قریب تھی تو میں اسی کو دیکھتا رہتا۔ تب میری عمر تقریباً 18 سال ہوگی اور عاطیہ کی 22 سال۔ وہ ایک اچھی سڈول بدن کی لڑکی تھی، اس کی فگر بہت اچھی تھی، خاص طور پر اس کے بوس بہت سیکسی تھے، کبھی کبھی جب وہ اپنے کپڑے اتار کر باتھ روم یا چینجنگ روم میں لٹکاتی تو میں ان کو دیکھتا اور اس کی برا اور پینٹیز کے ساتھ چھیڑخانی کرتا، اور اس کے میلے کپڑوں پر مُٹھ بھی مارتا تھا۔ اس کی برا کا سائز 34 تھا اور پینٹی کا 36۔ میں بچپن سے ہی رات میں اس کے پاس سوتا تھا۔
کبھی کبھی جب مجھے سیکس کا من ہوتا تو میں رات میں اس کو لپٹ جاتا اور اپنا لنڈ اس کے پیچھے لگا کر ہلکا پھلکا دھکا مارتا۔ کبھی کبھی اس کی بانہوں کو سہلاتا اور کمر پر ہاتھ پھیراتا۔ وہ کچھ بولتی نہیں تھی، میں سمجھتا تھا کہ وہ سو رہی ہے۔ ایسے بہت دن سے چل رہا تھا۔ ایک دن مجھ کو بہت دل کیا تو میں نے رات میں اس کے بوس پر اپنا ہاتھ رکھ دیا اور سہلانے لگا، وہ کچھ بولی نہیں لیکن مجھے لگا کہ وہ جاگ گئی ہے، تو میں نے ڈر سے اپنا ہاتھ اس کے بوس سے ہٹا لیا۔
تھوڑی دیر میں ایسے ہی لیٹا رہا۔ تب اچانک اس نے میرا ہاتھ پکڑا اور اپنے بوس پر رکھ لیا اور سیدھی لیٹ گئی۔ میں تو سرپرائز ہو گیا، میں نے اس کے بوس کو مسلنا شروع کر دیا اور اس کو بری طرح لپٹ گیا۔ پہلی بار مجھے احساس ہوا کہ لڑکی کے بوس کتنے ملائم ہوتے ہیں۔ میں بہت گرم ہو گیا تھا تو میں نے اپنا لنڈ باہر نکال لیا اور اس کے ہاتھ میں دے دیا۔ اس نے اسے پکڑ لیا مگر کچھ کیا نہیں۔ میں اٹھ کر ٹوائلٹ میں گیا اور مُٹھ مار کر آ گیا۔ اس کے بعد عاطیہ بھی ٹوائلٹ گئی اور شاید انگلی چلا کر آئی۔
صبح جب ہم دونوں اٹھے تو مجھ کو بہت گلٹی فیل ہو رہا تھا لیکن عاطیہ مجھے دیکھ کر مسکرا رہی تھی۔ اس نے مجھ کو بتایا کہ رات میں جب بھی میں اسے لپٹ کر دھکا مارتا ہوں تو اسے بہت اچھا لگتا ہے۔ ایسے ہی تقریباً دو تین مہینے چلتا رہا، رات میں میں اس کو خوب رگڑتا اور چومتا تھا۔ کبھی کبھی اس کی شلوار میں بھی ہاتھ ڈال دیتا تھا، اور اس کی چوت میں انگلی چلاتا تھا۔
وہ ہلکی پھلکی آواز کرتی اور پھر بعد میں اس کی چوت گیلی ہو جاتی تو وہ مجھ سے الگ ہو جاتی تھی۔ پھر میں جا کر ٹوائلٹ میں مُٹھ مارتا تھا۔ پر میں کبھی اس کو چھوڑ نہیں پاتا تھا، کیونکہ سبھی لوگ آس پاس سوتے رہتے تھے اور موقع نہیں ملتا تھا۔ پھر ایک دن اس نے مجھ کو بولا کہ ہم دونوں ٹیرس پر سوئیں گے، گرمی کے دن تھے۔ میں مان گیا اور ہم دونوں اپنا بستر لے کر اوپر سونے چلے گئے۔ پھر رات میں وہی سب کچھ شروع ہو گیا، آج میرے پاس پورا موقع تھا اسے چھوڑنے کا۔
میں نے اس کی شلوار میں ہاتھ ڈال دیا اور اس کی چوت کو سہلانے لگا۔ وہ طرح طرح کی آوازیں کرنے لگی۔ میں نے اسے چپ رہنے کو کہا اور اس سے کہا کہ میں اس کے کپڑے اتارنا چاہتا ہوں۔ وہ تھوڑا شرمائی لیکن مان گئی۔ پہلے میں نے اس کی قمیض اتاری وہ اندر کچھ نہیں پہنے تھی، اس کے بوس بہت ہی بڑے بڑے تھے شاید پچھلے دو مہینے میں میں نے ہی سہلا سہلا کر بڑے کیے تھے میں اس کے بوس چوسنے لگا۔
پھر میں نے اس کی شلوار اتار دی۔ اب وہ بالکل ننگی ہو گئی تھی۔ رات کے تقریباً 2 بج رہے تھے۔ اس کے بوس چوسنے کی وجہ سے میں بہت گرم ہو گیا تھا، مجھ سے رہا نہیں گیا۔ میں نے اپنا پاجامہ کھول کر اپنا لنڈ اس کو دکھایا اس نے بولا کہ تمہارا تو کافی بڑا ہے۔ میں نے اس کو بولا کہ میرا لنڈ چوس لے لیکن وہ نہیں مانی۔ پھر میں نے اس کو کہا کہ میں اس کو چھوڑنا چاہتا ہوں، وہ کچھ نہیں بولی پر تھوڑا مسکرائی۔ میں نے پھر اپنا لنڈ سیدھا اس کی چوت پر رکھ دیا۔ وہ اور میں دونوں کانپ رہے تھے۔
دونوں کو زبردست پسینہ آ رہا تھا۔ میں نے کوشش کی لیکن میرا لنڈ اس کی چوت سے پھسل جاتا تھا۔ میں نے اس کو بولا کہ مجھ کو مدد کرے تو اس نے میرا لنڈ پکڑ کر اپنی چوت پر رکھ لیا۔ پھر میں نے ایک زور کے جھٹکے سے اس کو آدھا اندر ڈال دیا۔ مجھ کو ایسا لگا کہ میرا لنڈ مانو آگ میں چلا گیا ہو، میں بدحواس ہو گیا۔ وہ رونے لگی۔ جب میں 14 سال کا رہا ہوں گا اور وہ 23 سال کی۔ میں نے اس کا منہ دبا لیا اور اپنا پورا لنڈ اس کے اندر گھسا دیا۔ تب میرا لنڈ 5.5 انچ کے آس پاس ہوگا۔
تھوڑی دیر تک وہ کہتی رہی کہ محمود مجھے چھوڑ دے مجھے بہت درد ہو رہا ہے، لیکن میں پاگل ہو گیا تھا۔ میں نے اس کی ایک نہیں سنی۔ تھوڑی دیر بعد وہ اپنی کمر سے اوپر کو جھٹکا مارنے لگی اور کہنے لگی کہ محمود مجھے بہت مزا آ رہا ہے۔ پھر میں شروع ہو گیا اور اسے زور زور سے دھکے مارنے لگا۔ تھوڑی دیر بعد وہ جھڑ گئی لیکن میں شروع رہا، پھر تھوڑی دیر میں میں بھی جھڑ گیا اور میں نے سارا پانی اس کی چوت میں ہی ڈال دیا۔ اس کو لگا کہ جیسے کسی نے اس کی چوت میں آگ ڈال دی ہو۔
اس رات میں نے اسے دو بار چھوڑا۔ اب تو روز ہی رات میں ہم ٹیرس پر سوتے اور میں اسے چھوڑتا۔ پہلے میں اس کو باجی بولتا تھا، مگر اب اس کو عاطیہ کہہ کر بلاتا، کبھی کبھی میں اس کو بولتا کہ میرے لیے رنڈی بنے گی کیا تو وہ غصہ ہو جاتی لیکن مجھے بہت اچھا لگتا۔ اب ہم کافی فرینک ہو گئے تھے، میں اس کو بولتا کہ مجھ کو سعدیہ بہت اچھی لگتی ہے تو اس نے مجھے بتایا کہ اس نے سعدیہ کو اپنی چوت میں گاجر چلاتے ہوئے دیکھا ہے۔ عاطیہ کو لگاتار چھوڑنے کے باوجود میرا من سعدیہ کو چھوڑنے کا کرتا تھا، وہ بہت سیکسی تھی۔
اس کا فگر 32-28-35 تھا۔ کبھی کبھی اس کے برا اور پینٹیز مجھے مل جاتے تو میں انہیں چوستا تھا اور اس میں مُٹھ مار دیتا تھا۔ وہ جب بھی اپنی پینٹی گندی دیکھتی تو چپ ہی رہتی۔ بٹ جب میں اس کی پینٹیز زیادہ ہی گندی کرنے لگا تو ایک دن اس نے ماں کو بول دیا، ماں کو لگا کہ اس گھر میں دو ہی مرد ہیں ایک میں اور ایک پاپا۔ اس نے مجھ کو بلایا اور پوچھا تو میں نے منع کر دیا۔ خیر بات رفع دفع ہو گئی۔
عاطیہ کی چدائی میں ہم سے ایک گڑبڑ ہو گئی، پتہ نہ ہونے کی وجہ سے میں نے کبھی بھی ڈسچارج ہوتے ہوئے اپنا لنڈ عاطیہ کی چوت سے باہر نہیں نکالتا، ہمیشہ اس کی چوت میں ہی ڈسچارج ہو جاتا تھا۔ تین چار مہینے بعد وہ پریگنٹ ہو گئی۔ اس کو اُلٹیاں آنے لگیں۔ ہم دونوں بہت ڈر گئے، کہیں تو کس سے کہیں اور کریں تو کیا کریں۔ کیونکہ سعدیہ سے عاطیہ کافی فرینک تھی تو ہمت کر کے اس نے یہ بات سعدیہ کو بتا دی۔ تب تک میری تین بڑی بہنوں کی شادی ہو چکی تھی (سعدیہ کو ملا کر)۔ نَیّر اور عاطیہ کی نہیں ہوئی تھی۔
سعدیہ بہت غصہ ہو گئی، اس نے مجھے ایک زور کا تھپڑ مارا اور عاطیہ کو بھی۔ پھر وہ بولی کہ میری پینٹیز میں بھی تو ہی گندگی کرتا ہے۔ میں کچھ نہیں بول پایا۔ لیکن ہمارے سمجھانے پر اس نے عاطیہ کو لے جا کر اس کا ابورشن کروا دیا۔ اب ہمارے بیچ کچھ نہیں ہوتا تھا۔ عاطیہ اب مجھ سے الگ سوتی تھی۔ میں کافی ڈر گیا تھا، اس لیے کچھ کرنے کی ہمت نہیں ہوتی تھی۔ لیکن اس انسیڈنٹ سے ایک فائدہ مجھے یہ ہوا کہ میری سب سے سیکسی بہن سعدیہ جس کی عمر تبھی تقریباً 35 سال کی ہوگی، اس کو پتہ لگ گیا تھا کہ میرا بھائی اب جوان ہو گیا ہے۔
وہ کبھی کبھی مجھے بڑی گہری نظروں سے دیکھتی۔ میرا کبھی کبھی جی کرتا کہ سعدیہ پر ہاتھ رکھ دوں لیکن ہمت نہیں ہوتی۔ عاطیہ کو چھوڑنے کا تو کوئی چانس نہیں بن پا رہا تھا۔ سعدیہ کے ساتھ کچھ کرنے کی ہمت نہیں ہوتی تھی کیونکہ اس کو سب کچھ پتہ تھا۔ کبھی کبھی تو میں جب بہت گرم ہو جاتا تو دل کرتا کہ نَیّر کو یا پھر اپنی ماں کو ہی چھوڑ ڈالوں۔ میں چھپ چھپ کر سعدیہ، نَیّر اور ماں کو کپڑے بدلتے ہوئے دیکھتا تھا۔ ہمارے یہاں باتھ روم کی دیوار میں ایک چھوٹا ہول ہے، اگر دیکھا جائے تو اس میں سے باتھ روم کے اندر کا سب کچھ دکھتا تھا۔
جب بھی سعدیہ، نَیّر یا میری ماں نہانے جاتی تبھی میں ان کو چھپ چھپ کر دیکھتا۔ کبھی کبھی ایسا ہوتا کہ نہاتے وقت سعدیہ اور نَیّر اپنی چوت میں انگلی چلانے لگتیں، تو مجھے بڑا مزا آتا۔ مجھ کو بڑا مزا تب آیا جب ایک دن میں نے ماں کو اپنی چوت میں انگلی چلاتے دیکھا۔ میری ماں کافی ایج ہوتے ہوئے بھی بوڑھی نہیں لگتی تھی، اس کے بوس بہت سڈول تھے اور جب وہ ننگی ہوتی تو بہت سیکسی لگتی۔ وہ تھوڑی موٹی ہو گئی تھی، اس کا برا سائز 40 تھا۔
ایک دن جب میں دوپہر 2:00 بجے سکول سے آیا تو گھر میں کوئی نہیں تھا۔ ماں سو رہی تھی، اور سعدیہ گھر میں تھی۔ وہ مجھ کو گہری نظروں سے دیکھ رہی تھی۔ مجھ سے برداشت نہیں ہوا۔
میں نے پوچھا، "کیا دیکھ رہی ہو؟"
سعدیہ: "دیکھ رہی ہوں کیسے تُو نے اپنی ہی بہن کو چھوڑ ڈالا، تجھ کو شرم نہیں آئی۔"
میں چپ رہا۔
سعدیہ پھر بولی، "میں سوچ رہی ہوں کہ سب کچھ ماں کو بتا دوں۔"
میں ڈر گیا، میں نے کہا، "نہیں ایسا مت کرنا، اب تو بات ختم ہو گئی ہے۔"
وہ بولی، "اچھا نہیں کروں گی، لیکن میری ایک شرط ہے۔"
میں نے پوچھا، کیا۔
وہ بولی، "مجھ کو یہ بتا کہ تُو میری برا اور پینٹی کے ساتھ کیا کرتا ہے؟"
میں چپ رہا۔
پھر وہ بولی، "میں نے تو اب برا اور پینٹی پہننا ہی بند کر دیا ہے۔"
میں سرپرائز ہو گیا، کہ کیوں یہ مجھے یہ سب کچھ بتا رہی ہے۔
میں نے پوچھا، "کیوں بند کر دیا ہے؟"
وہ بولی، "گرمی برداشت نہیں ہوتی ہے۔"
میں نے پوچھا، "کیسی گرمی؟"
وہ بولی، "تجھ کو نہیں پتہ کیسی گرمی۔"
میں چپ رہا، تو وہ بولی، "وہی گرمی جو تُو نے عاطیہ کی ٹھنڈی کی تھی۔"
میں پھر بھی چپ رہا۔
وہ آگے بولی، "میں تجھ کو کیسی لگتی ہوں؟"
میں چپ رہا، لیکن تھوڑا مسکرایا۔
وہ بولی، "نہیں بتائے گا۔"
میں نے کہا، "اچھی لگتی ہیں۔"
وہ بولی، "کتنی اچھی؟"
میں نے کہا، "بہت اچھی، عاطیہ سے بھی زیادہ۔"
اس نے بولا، "سچ بول رہا ہے یا ایسے ہی مجھ کو خوش کرنے کے لیے کہہ رہا ہے۔"
میں نے کہا، "سچ بول رہا ہوں، اللہ کی قسم۔ جب تم ہنستی ہو اور تمہارے گال پہ گڑھے پڑتے ہیں تو بہت اچھے لگتے ہیں۔"
وہ بولی، "تجھ کو نہیں پتہ کیسے کیسے میں جیتی ہوں۔"
میں نے پوچھا، "میں سمجھا نہیں۔"
وہ بولی، "زیادہ بھولا مت بن، تُو میری برا اور پینٹی کے ساتھ کیا کرتا ہے؟"
میں بولا، "آپ کو معلوم ہے تو کیوں پوچھ رہی ہیں؟"
وہ بولی، "میرے ساتھ بھی وہی کرے گا؟"
میں سرپرائز ہو گیا، یہی تو میں چاہتا تھا۔ میں نے اسے فوراً ہاں کر دی۔
رات میں میں نے اور سعدیہ نے کہا کہ ہم ٹیرس پر سوئیں گے، یہ سن کر عاطیہ مسکرائی اور مجھ کو بولی، کیا ہوا سعدیہ باجی کو بھی پٹا لیا ہے کیا؟ میں بھی مسکرا دیا۔
پھر رات میں ہم دونوں ٹیرس پر سونے گئے۔ وہ رات میری زندگی کی سب سے حسین رات تھی۔ میں نے رات کے تقریباً 11:00 بجے سعدیہ کے ساتھ چومنا شروع کیا اور تین بجے تک میں نے سعدیہ کو جو مجھ سے تقریباً 20 سال بڑی تھی چھوڑا۔ مجھ کو لگا کہ اتنی سیکسی عورت تو ہو ہی نہیں سکتی۔ میری ٹانگوں کی جان نکل گئی۔ سعدیہ نے مجھے بتایا کہ پچھلے 9 سال سے وہ لنڈ کے لیے ترس رہی تھی۔ پھر تو میں اسے روز چھوڑتا تھا۔ اب تو مجھے پوری چھوٹ مل گئی تھی۔
کبھی کبھی موقع ملنے پر میں عاطیہ کو بھی چھوڑ دیتا تھا۔ سعدیہ تو میری پوری رکھیل بن گئی تھی۔ وہ مجھ سے بہت خوش تھی اور میں اس سے۔ ہلکے ہلکے ہم دونوں میں بے شرمی بڑھتی گئی اب تو ہم کبھی کبھی دن میں بھی شروع ہو جاتے تھے۔ ایک دن دوپہر کے کھانے کے بعد میں اور سعدیہ ایک ہی کمرے میں سو رہے تھے، مجھ کو جوش چڑھا اور میں اس کو لپٹ کر لیٹ گیا اور چومنے لگا۔ تھوڑی دیر میں وہ بھی آواز نکالنے لگی۔
ہم کو پتہ ہی نہیں چلا کہ کب ماں آ گئی اور اس نے سب کچھ دیکھ لیا۔ اس دن اس نے ہم دونوں کو بہت ڈانٹ پلائی۔ لیکن ہم پر کچھ اثر نہیں ہوا۔ تین سال بیت گئے میں 20 سال کا ہو گیا تھا اور سعدیہ 40 سال کی۔ اب تو یہ حالت ہو گئی تھی کہ گھر میں پاپا کو چھوڑ کر سبھی کو پتہ تھا کہ سعدیہ محمود کی رکھیل ہے۔ اب تو میں سعدیہ کو اپنی ماں کے سامنے ہی لپٹ جاتا تھا اور چومتا تھا۔ ماں نے بھی شاید ایکسیپٹ کر لیا تھا۔ نَیّر کی شادی کی بات چل رہی تھی۔ مجھ کو نَیّر پر کبھی کبھی نیت خراب ہوتی تھی تو میں سعدیہ سے بولتا تھا کہ مجھے نَیّر کی چوت دلوا دے، لیکن وہ منع کر دیتی تھی۔
خیر نَیّر کی شادی ہو گئی اور وہ اپنے گھر چلی گئی۔ اب سعدیہ کی بیٹیاں بھی بڑی ہو گئی تھیں پہلی بیٹی 18 سال کی اور دوسری 12 سال کی۔ میرا من کبھی کبھی ان کو چھوڑنے کا بھی ہوتا۔ میں نے آخر ایک دن سعدیہ سے اپنے من کی بات کہہ دی۔ سعدیہ چپ رہی کچھ نہیں بولی۔ پھر ایک دن میں نے رات میں سعدیہ کی بڑی بیٹی سفینہ کو پکڑ لیا اور اسے چھوڑنا چاہا۔ سب کچھ صحیح چل رہا تھا، لیکن جب میں نے اپنا لنڈ اس کی چوت میں ڈالا تو وہ چیخ پڑی۔ اس کی چیخ سے سعدیہ اٹھ گئی اور اٹھ کر ہمارے پاس آ گئی۔
میرا آدھا لنڈ سفینہ کی چوت میں تھا، اور میں اس کے اوپر لیٹا ہوا تھا۔ سعدیہ آئی اور کہنے لگی کہ آخر کار تُو نے اسے جوان کر ہی دیا، چل اب اس کو اچھی طرح چھوڑ۔ اتنا کہہ کر وہ چلی گئی۔ پھر میں نے سفینہ کی چوت میں تقریباً 1 گھنٹے تک اپنا لنڈ ڈالے رکھا اور بیچ بیچ میں دھکے مارتا رہا۔ جب بات ماں کو پتہ چلی تو وہ بہت غصہ ہو گئی اور کہنے لگی کہ پاپا کو بتائے گی۔ ہم ڈر گئے۔
سعدیہ بولی، ماں کو چپ رکھنے کا ایک طریقہ ہے۔ میں نے پوچھا کیا؟ اس نے کہا کسی عورت کا منہ بند رکھنا ہو تو اس کے نیچے والے منہ میں ڈاٹ لگا دینی چاہیے۔ میں نے پوچھا میں سمجھا نہیں، تو اس نے کہا کہ ماں کو بھی چھوڑ ڈال۔ ماں تب 58-59 کی ہوگی۔ ہم نے پلان بنایا، پاپا تب 2 دن کے لیے باہر گئے تھے۔ میں رات کو ماں کے بیڈ پر جا کر اس سے لپٹ گیا، ماں بولی یہ کیا کر رہا ہے؟ میں نے کہا ماں میں تیرا خاوند بننا چاہتا ہوں۔
وہ مجھے مارنے لگی لیکن میں نے اسے نہیں چھوڑا۔ سعدیہ بھی میرے ساتھ تھی۔ اس نے ماں کے ہاتھ پکڑ لیے اور میں نے ماں کے کپڑے اتار دیے۔ اور اپنا لنڈ ماں کی چوت میں ڈال دیا۔ پہلے پہلے تو ماں منع کرتی رہی لیکن بعد میں اس کو بھی مزا آنے لگا۔ سعدیہ نے ماں کے ہاتھ چھوڑ دیے اور ہنستی ہوئی باہر چلی گئی۔ اس رات میں نے ماں کو 3 بار چھوڑا۔ پھر 2 راتوں تک میں ماں کے پاس ہی سویا جب تک پاپا نہیں آ گئے۔ سعدیہ اب مجھے کبھی بہن چھوڑ اور کبھی ماں چھوڑ کہہ کر بلاتی تھی۔ مجھ کو بڑا اچھا لگتا تھا۔
سب سے زیادہ مزا تو تب آتا تھا جب سعدیہ ماں کو چھیڑتی تھی، کہتی کہ تم کو کیا کہوں ماں یا سَوتن۔ ماں بھی کافی مذاق کرتی۔ ابھی ماں ایک دم چپ تھی، پاپا آئے تو ماں نے پاپا کو کچھ نہیں بتایا۔ بلکہ اب ماں کا بیہیویئر ہی میرے ساتھ بدل گیا۔ اب وہ میرا کچھ زیادہ ہی خیال رکھتی تھی۔ کبھی کبھی مجھ کو جب دل کرتا تو اپنا دودھ پلاتی اور پھر چُدواتی تھی۔ مجھے ماں کو چھوڑنے میں سب سے زیادہ مزا آتا تھا۔
اب میرا من پڑھائی لکھائی میں بالکل نہیں لگتا تھا۔ پاپا کے آفس جاتے ہی میں گھر آ جاتا اور کسی نہ کسی کو پکڑ لیتا اور چھوڑتا۔ اب گھر پر میری چار رکھیل تھیں، سعدیہ، عاطیہ، سفینہ اور میری ماں۔ ماں زیادہ تو نہیں لیکن کبھی کبھی مہینے میں ایک بار میرے ساتھ سو جاتی تھی، زیادہ تر دن میں ایسا ہوتا تھا۔ سعدیہ تو روز رات میں اٹھ کر میرے پاس آ جاتی اور میرا بستر گرم کرتی تھی۔ پھر جب میں 21 سال کا ہوا تو عاطیہ کی بھی شادی ہو گئی۔ اب میں سعدیہ اور سفینہ پر ہی ہاتھ صاف کرتا تھا۔ یہ بات سعدیہ کی چھوٹی بیٹی مریم کو بھی پتہ تھی۔
وہ میرے پاپا کے بہت زیادہ قریب تھی، اس نے ہم سے کچھ کہے بنا ایک دن پاپا کو بتا دیا۔ اب تو مانو غضب ہی آ گیا، پاپا کا بی پی بڑھ گیا، گھر میں بہت ہنگامہ ہوا اور انجام یہ ہوا کہ پاپا کا ہارٹ فیل ہو گیا۔ 10-15 دن تک میں بہت گلٹی فیل کرتا رہا، لیکن آخر میرا سیکس کرنے کا پھر سے من کرنے لگا۔ میں نے سعدیہ سے بولا تو اس نے کہا کہ یہ سب تیری وجہ سے نہیں ہوا ہے بلکہ مریم کی وجہ سے ہوا ہے، وہ بولی کہ مریم کسی اور کو بھی بتا سکتی ہے، اس لیے اس کے نیچے والے منہ میں بھی ڈاٹ لگا دے۔ میں بہت خوش ہوا۔ تب مریم 15 سال کی ہوئی ہوگی۔
اس رات میں مریم کے پاس جا کر لیٹ گیا۔ مریم میری ماں کے پاس لیٹی تھی۔ میں نے ماں سے کہا کہ آج میں مریم کو چھوڑوں گا۔ میں نے ماں کو بتایا کہ جیسے مریم نے پاپا کو بتایا تھا ایسے ہی یہ کسی اور کو بھی بتا سکتی ہے تو اس نے کچھ نہیں بولا۔ سردی کے دن تھے، میں رات میں مریم کی رضائی میں گھس گیا اور اسے چومنے لگا، وہ جاگ گئی اور اس نے ماں کو جگا دیا، اور بولی یہ ماما میرے ساتھ غلط کر رہا ہے۔ ماں چپ رہی اور اس نے دوسری طرف منہ کر لیا۔
میں نے مریم کو سمجھایا کہ کچھ نہیں ہوگا اور اس کی قمیض اتارنے لگا، وہ تھوڑا چٹپٹائی، لیکن میں نے اس کی قمیض اتار کر پھینک دی۔ پھر اس کے بوس، جو بہت چھوٹے تھے ان کو مسلنے لگا، تھوڑی ہی دیر میں وہ طرح طرح کی آواز کرنے لگی۔ پھر میں نے اس کی شلوار اتار دی اور اپنا 6 انچ کا لنڈ اس کی چوت پر رکھ دیا۔ میں نے مریم کو بولا تھوڑا درد ہوگا، اور ایک جھٹکے میں لنڈ اندر گھسا دیا۔
وہ چلّائی اور کہنے لگی، ماما مجھے مت چھوڑو بہت درد ہو رہا ہے۔ اتنے میں ماں اٹھی اور اس نے مریم کا منہ پکڑ لیا اور مجھ سے کہا کہ اب چھوڑو۔ مجھے اور مریم کو چدائی کرتے ہوئے دیکھ کر ماں گرم ہو گئی۔ مریم کو چھوڑنے کے بعد میں ماں کی رضائی میں گھس گیا اور ماں کو اس دن پورا ننگا کر دیا اور 2 بار چدائی کی۔ اگلے دو تین دن تک میں مریم کو چھوڑتا رہا۔ اب سب کچھ ٹھیک ہو گیا تھا،
مریم خود آ کر میرے پاس چدائی کرواتی تھی، اس کو اب کوئی دقت نہیں تھی۔ اس بیچ ایک دن پتہ چلا کہ سعدیہ پریگنٹ ہو گئی ہے۔ میں نے سعدیہ سے کہا کہ ابورشن کروا لے تو اس نے منع کر دیا۔ پھر دنیا کی نظروں سے بچنے کے لیے ہم لوگوں نے اپنا یوپی والا گھر چھوڑنے کا من بنایا اور، مہاراشٹر آ گئے۔ اب 4 سال گزر گئے ہیں۔ سعدیہ میرے 2 بچوں کی ماں بن گئی ہے لیکن ابھی بھی اتنی ہی سیکسی ہے، اس کی عمر 46 ہے۔ سفینہ کے بھی دو بچے ہیں اس کی عمر 22 سال ہے۔ مریم 19 سال کی ہے اور 6 مہینے سے پریگنٹ ہے۔
مزہ تو تب آیا جب ایک دن معلوم چلا کہ ماں بھی پریگنٹ ہے، ماں تو اپنے بیٹے کے بچے کی ماں بننا چاہتی تھی لیکن میں نے کہہ کر ابورشن کرا دیا۔ اب بھی مہینے میں ایک آدھ بار اس کی چدائی ہو جاتی ہے۔ کبھی کبھی میں سوچتا ہوں کہ دنیا میں سبھی لڑکے اپنی ماں بہنوں کو کھلم کھلا چھوڑ پاتے تو کتنا اچھا ہوتا۔