شاہد کا رشتہ دور کے گاؤں میں ہوا تھا۔ یہ ان دنوں کی بات ہے جب مشینی سواریاں عام نہ تھیں۔ کچے پکے راستوں پر لوگ پیدل یا بیل گاڑی میں سفر کرتے تھے ۔
تو شادی کے سال بعد جب اس کی بیوی زرینہ کے بچہ دینے کا وقت نزدیک آیا تو میکے والوں نے حسب روایت شاہد کی ایک سالی کو بچے کے سامان اور دودھ دینے والی بکری کے ہمراہ بھیجا کہ اتنے دن زرینہ کی دیکھ بھال اور مدد ہو سکے۔
شاہد کی یہ سالی جس کا نام حسینہ تھا، سب بھائی بہنوں میں سب سے بڑی تھی اور شاہد سے بھی بڑی تھی۔
عمومی بات ہے دیہات میں جہاں خوراک خالص ہے، بے فکری ہے وہاں جوانی کا دور برسوں چلتا ہے سو یہ حسینہ بھی اپنے حلقے میں توپ چیز تھی اور جب اس کا ذمہ لگا تو وہ اپنے بھائی کے ساتھ شاہد کے گھر آ گئی۔ چھوٹا بھائی اگلے روز واپس لوٹ گیا اور وہ زرینہ کے ساتھ رہنے لگی۔
قصے بہت سنے تھے اس نے کہ جب کوئی عورت اس موقع پر بہنوئی کے گھر جاتی ہے تو آدھی گھر والی بن جاتی ہے۔ لیکن ایسا کچھ بھی نہ ہوا۔
شاہد اس کو ہمیشہ باجی بلاتا اور نگاہ ملانے تک سے گھبراتا۔
وہ سوچ کر آئی تھی کہ ایسی کسی صورتحال میں تاخیر نہیں کرنی اور سونپ دینا سب کچھ ۔
لیکن یہاں تو ماجرا ہی انوکھا تھا
سارے جتن کر ڈالے۔ صبح کے ناشتے سے لے کر رات کے بستر چادر تک ہر چیز کا خیال کیا پھر پوچھا اور کسی چیز کی ضرورت تو نہیں لیکن شاہد نے سگنل پکڑ کر نہ دیا
اس نے بناؤ سنگھار بھی کر دیکھا
اب جب کھانے والا ہی نہ کھائے تو پھل کیا کرے
خیر
سب کچھ خیریت سے ہو گیا۔ بچے کی پیدائش کے تین ہفتوں بعد زرینہ کی لائف نارمل ہو چکی تھی۔
حسینہ کا واپس اپنے گاؤں جانا طے پایا اور اگلے روز صبح سویرے شاہد کے ساتھ پیدل نکل پڑی۔
راستہ نصف سے کچھ کم طے پایا تھا کہ ایک مقام پر پگڈنڈی مڑے تو سامنے راستے کے بیچوں بیچ ایک کتا اپنی مادہ کو راضی کرنے کے لیے اس کا پچھواڑہ چاٹ رہا تھا۔
شاہد نے ہاتھ میں پکڑی لاٹھی سے ہانکا تو وہ کھیتوں میں گھس گئے اور یہ دونوں پھر سے آگے بڑھ گئے اب تک حسینہ ہی کچھ نہ کچھ بولتی چلی آرہی تھی اور شاہد ایک تابعدار ملازم کی طرح سر پر سوٹ کیس رکھے ہاتھ میں بکری کی رسی تھام کر آگے چل رہا تھا۔
کتے والا منظر چند سیکنڈ کا تھا لیکن دونوں کے ذہن میں گندے خیالات کا آغاز کر گیا تھا ۔
اب دونوں کی سوچوں کی نوعیت یکسر مختلف تھی ۔ شاہد حساب جوڑ رہا تھا کہ میں کتنے دن بعد بیوی کے ساتھ کر سکوں گا جب کہ حسینہ کی نیت اپنے بہنوئی پر خراب ہو چکی تھی۔
اب راستے کے ایک طرف جنگل تھا اور ایک طرف کھیت۔ دونوں چلتے چلے جا رہے تھے ۔
پھر کھیت بھی ختم ہوئے اور صرف جنگل رہ گیا۔ فصل اور آبادیاں پانی کے دم سے ہوتی ہیں ورنہ صرف بیابان ہوتے ہیں۔
جنگل کے گرد گھومتے ہوئے ان کو اپنے مطلوبہ علاقے پہنچنا تھا۔
حسینہ بولی کہ اگر ہم جنگل سے گذریں تو جلد پہنچ جائیں گے، گرمی سے بھی بچ جائیں گے ، درختوں کے سائے ہمیں دھوپ سے بچائیں گے ۔
یہ کہتے ہوئے اس نے اپنی چادر اتار کر کاندھے پر صافے کی طرح لٹکا لی۔
شاہد اس نظارے سے بےخبر آگے بڑھ رہا تھا ۔
کہنے لگا۔ اور جو شیر آ گیا تو کیا ہو گا
یہ ضروری تو نہیں کہ ہر جنگل میں شیر بستے ہوں۔
حسینہ نے ایک ادا سے سوال اٹھایا
شاہد نے کہا ضروری نہیں شیر آئے جنگلی جانور کوئی سا بھی ہو سکتا ہے کتا یا سور، اس کے لیے بکری کی صورت میں عید ہی ہو جانی ہے۔
ہاں یہ بات ٹھیک ہے ۔
ویسے یہاں کس قدر ویرانی ہے۔
دور تک بندہ نہ بندے کی ذات
سنو۔۔ آپ میرے ساتھ کچھ غلط تو نہیں کرو گے نا۔۔۔
حسینہ نے فکر مند ہونے کی اداکاری کی
میں بھلا کیا غلط کر سکتا ہوں۔
شاہد نے حیرانی سے پوچھا ۔۔۔۔
بھئی میں آپ کی سالی ہوں، کوئی سگی بہن تو نہیں ہوں نا۔ اگر آپ کی نیت خراب ہو جائے تو آپ میری زبردستی لے سکتے ہیں ۔۔۔
حسینہ نے تفصیلی وضاحت دی۔۔۔
شاہد کا دماغ ہل گیا۔۔۔ اس نے تو ایسا کچھ سوچا بھی نہیں تھا ۔
مگر ایسا کروں گا تو آپ سب کو بتا دو گی۔۔شاہد نے حیرانی سے کہا
بےعزتی اور بدنامی کے ڈر سے میں خاموش بھی تو رہ سکتی ہوں۔
شاہد کے دل کی دھڑکن تیز ہو گئی۔
کچھ دیر کی خاموشی کے بعد بولا
اگر میں ایسا کروں تو آپ شور مچا دو گی۔۔۔۔
یہاں کون ہے دور تک جو سنے گا اور تم کڑیل جوان ہو، ایک ہاتھ سے میرا منہ بھی تو دبا سکتے ہو ۔
حسینہ بولی۔۔۔۔
تم بھاگ بھی تو سکتی ہو۔۔ شاہد نے کہا۔۔۔
میری جوتی اس قابل نہیں اور ننگے پاؤں اس رستے بھاگا نہ جائے گا ۔۔۔
مگر کوئی آ بھی تو سکتا ہے ۔۔۔
شاہد کو خیال آیا
آپ مجھے اس بڑے پتھر کے پیچھے لے جا سکتے ہو ، وہ جگہ راستے سے دیکھی نہیں جا سکے گی ۔۔۔۔
حسینہ کی چالیں عروج پر تھیں
مگر آپ ماں بھی تو بن سکتی ہیں۔۔
شاہد کی آواز اس بار قدرے کمزور تھی ۔۔
آپ گاؤں پہنچ کر مجھے گولی کھانے پر مجبور بھی کر سکتے ہو۔۔۔۔۔
حسینہ نے جواب پیش کیا۔۔۔
شاہد یکایک رکا اور پیچھے گھوم گیا
حسینہ کی چادر کاندھے پر تھی جلوہ سارا کا سارا ظاہر تھا۔ ایسے تو کبھی پہلے وہ اس کے سامنے نہ آئی تھی۔
لاکھ کوشش کے باوجود لنڈ اکڑنے لگا
شیطان کے غلبے سے بچنے کی کوشش میں شرم و جھجھک نے آخری جھرجھری لی اور وہ بولا
مگر میرے سر پر سوٹ کیس ہے، ایک ہاتھ میں لاٹھی اور دوسرے میں بکری کی رسی ہے۔ میں کیسے کر سکتا ہوں ایسا کچھ۔۔؟
حسینہ اس کی بےچارگی پر مسکرائی اور بولی
لو،،،،، کر کیوں نہیں سکتے
آپ لاٹھی کو زمین میں گاڑ کر بکری اس سے باندھ کر سوٹ کیس ساتھ رکھتے ہوئے مجھے چود سکتے ہو۔۔۔۔
یہ سن کر شاہد کے لنڈ نے سیکنڈوں میں طیارہ شکن توپ کے جیسی پوزیشن اختیار کی اور وہ بغیر کوئی جواب دیے راستے سے دو چار قدم کچے میں آ گیا ۔
ایک مناسب جگہ رک کر اس نے لاٹھی ہاتھ سے چھوڑ دی اور بکری کی رسی کا سرا ہاتھ سے گرا کر اس پر پاؤں رکھ دیا ۔ اب ٹوکرا زمین پر رکھا اور پتھر اٹھا کر لاٹھی زمین میں گاڑنے لگا۔۔۔
ارے ارے ارے،،،،، یہ کیا۔۔۔؟ یہ کیا کرنے لگے۔!!! مزاق کی بات کوئی سچ تو نہیں ہوتی ہے ۔
شاہد نے ایک نظر حسینہ پر ڈالی تو اس نے جھٹ چادر پھیلا کر خود کو لپیٹ لیا۔
منٹ سے بھی کم وقت میں شاہد لاٹھی گاڑ کر بکری باندھ چکا تھا۔
اس کے اندر کے حیوان کو جگانے والی شاطر حسینہ نے تشویش سے اس کے ناف پر دیکھا اور دونوں ہاتھ جوڑ دیے۔
دیکھو مجھ پر رحم کرو میں تمہاری بہن جیسی ہوں۔ ایسا نہ کرو میرے ساتھ ۔
شاہد نے آستین سے چہرے کا پسینہ پونچھا اور اس کے نزدیک آ گیا
وہ ایک قدم پیچھے ہٹی اور ساتھ ہی شاہد ایک قدم آگے بڑھا
دونوں ہاتھ اس کے کاندھوں پر رکھے اور اپنی طرف کھینچ لیا ۔
وہ شاہد کے سینے سے ٹکرائی اور فوراً دونوں ہاتھ شاہد کے سینے پر جما کر
خود کو الگ کرتے ہوئے ایک قدم پیچھے ہو گئی۔۔
اس کے ردعمل نے شاہد کو کچھ اثر نہ کیا اور اس نے حسینہ کو کلائی سے تھام کر پیچھے گھما دیا ۔
بس کرو مزاق، میں تمہاری نہیں ہوں
یوں ہی تنگ کیا تھا میں نے ۔۔۔۔۔۔۔
شاہد نے اس کو پیچھے سے بازوؤں میں جکڑ لیا اور حسینہ کے ہاتھ تھام کر انگلیوں میں انگلیاں پھنسا لیں۔
کولہوں کے بیچ میں شاہد کے لنڈ کے احساس سے حسینہ گائے کی طرح زور آزمائی کرنے لگی۔۔۔
شاہد نے ایک ہاتھ آزاد کیا اور اس کے جسمانی اعضاء کو ماپنے لگا۔۔۔
میں بھی بس مزاق ہی کر رہا ہوں آپ سے، فکر کرنے کی ضرورت نہیں ہے ۔
شاہد نے جذبات سے بوجھل آواز میں کہا
اس بات کو سن کر حسینہ کا مچلنا کچھ کم ہوا۔
بس ہو گیا اب چھوڑ دو
رستہ بہت رہتا ہے
وہ سمجھانے لگی
میرے ہوتے فکر نہ کریں
شاہد نے تسلی دی
اچھا مجھے چھوڑو تو سہی
کوئی آ جائے گا ۔۔۔۔
تو ہم اس طرف چلیں جدھر دیکھے نہ جائیں ۔۔۔
شاہد نے اس کو قابو کیے ہوئے جنگل کی سمت قدم اٹھانے پر دباؤ ڈالا ۔۔۔
مزاحمت زوروں پر تھی کہ دو قدم آگے تو ایک قدم پیچھے ہوتے تھے ۔۔۔
زور میں حسینہ کم نہ تھی لیکن ایسے پوز میں جکڑی گئی تھی کہ کچھ کر نہیں پا رہی تھی پھر بھی رستے سے کافی ہٹ گئے تھے کہ شاہد کا داؤ چل گیا اور اس نے حسینہ کے لباس میں ہاتھ گھسا کر ناڑا کھینچ ڈالا۔
حسینہ نے ایک زور کی چیخ ماری اور اول فول چیختی چلی گئی۔۔۔
چھوڑ مجھے ۔۔۔۔۔۔
کتے ذلیل کمینے۔۔۔۔۔۔
تجھے شرم نہیں آتی ۔۔۔۔
تجھ سے بڑی ہوں میں۔۔۔۔۔
صبح تک باجی بلاتا تھا مجھے۔۔۔۔
تیری بہن جیسی ہوں۔۔۔۔۔
اب شاہد نے اس کے منہ پر ہاتھ جمایا اور بولتی بند کر ڈالی
اور بولا ۔۔۔۔سگی بہن تو نہیں ہیں نا۔۔
بڑے چھوٹے سے کیا فرق پڑنا ہے
مزاق مزاق میں چلتا ہے سب۔۔۔۔۔۔
حسینہ ایک ہاتھ سے شلوار تھام کر الٹے سیدھے پاؤں مار رہی تھی لیکن قدم اکھڑے ہوئے تھے ۔ ویسے بھی کسان کے ایک ہاتھ میں ہی اتنا دم تھا کہ حسینہ کی پشت شاہد کے سینے سے اسی طرح چپکی ہوئی تھی اور اسی دھکم پیل میں راستے سے فاصلہ مزید بڑھ گیا تھا ۔
اب شاہد نے اسکے منہ سے ہاتھ اٹھا کر دوسرے ہاتھ کو بھی اپنی گرفت میں لیا اور حسینہ کی ٹانگوں پر بھی اپنی ٹانگ لپیٹ لی۔
اب حسینہ نے دوبارہ سے باآواز بلند اس کو برا بھلا کہنا شروع کر دیا
شاہد نے اسکو چھوڑ کر گھمایا اور سامنے سے گلے لگالیا
اس قدر سختی سے جکڑا کہ حسینہ کی آوازیں تو کیا سانسیں تک رکنے لگیں۔۔۔
حسینہ نے شاہد کی کمر پر زور زور سے ہاتھ مارے اور شاہد نے یکایک اس کو آزاد کرتے ہوئے شلوار نیچے کھینچ دی۔
حسینہ نے فوراً شلوار چڑھانے کی کوشش کی
وہ جیسے ہی جھکی تو شاہد نے پیچھے سے اس کی قمیض کو کمر پر الٹ دیا اور شاہد کا ہاتھ اس کی ٹانگوں کے درمیان پہنچ گیا۔۔۔
حسینہ سٹپٹا گئی کہ شلوار اٹھائے یا ہاتھ ہٹائے
وہ سیدھی کھڑی ہوئی اور قدموں میں پھنسی شلوار کے ساتھ ایک قدم آگے بڑھ کر کہنے لگی ۔
بس بہت ہوا مزاق ۔۔
اب تم قریب آئے تو میں لحاظ نہ کروں گی۔۔۔۔
شاہد نے گاؤں میں کھیلی کبڈی کا داؤ لگاتے ہوئے ایک ہاتھ حسینہ کے کاندھے پر رکھا اور دوسرے ہاتھ کو حسینہ کے گھٹنے کے پیچھے رکھتے ہوئے اس کی ایک ٹانگ اٹھا لی۔
اب حسینہ ایک ٹانگ پر کھڑی تھی اور شاہد کے ہاتھ نے کاندھے کو سہارا دے کر توازن قائم کر رکھا تھا
شاہد نے اپنے پاؤں کی مدد سے حسینہ کی ہوا میں بلند ٹانگ سے شلوار الگ کر ڈالی
شاہد نے پورا زور لگا کر لمحہ بھر کے لیے حسینہ کے بدن کو زمین سے اٹھایا اور واپس رکھا لیکن رکھنے سے قبل وہ حسینہ کی آزاد ٹانگ کو ہلکی سی ٹھوکر لگا چکا تھا اور اس بار حسینہ واپس زمین پر آئ تو اپنے پیروں پر نہ تھی بلکہ گھاس پر پاؤں پسارے بیٹھی تھی ۔
شاہد نے فوراً ہی دوسری ٹانگ سے شلوار کھینچ نکال، دور پھینک دی اور اٹھ کھڑے ہونے کی کوشش کرتی حسینہ کو ہلکا دھکا دے کر پھر سے گرا دیا۔
شلوار سے محروم ہونے پر حسینہ کی بدحواسی دیکھنے لائق تھی۔
شاہد نے اپنی قمیض کے دونوں پلو سائڈ میں گرہ لگا کر اپنا ناڑا کھینچ دیا۔
حسینہ پھر سے کھڑی ہونے کو تھی کہ شاہد نے دوبارہ سے ہلہ بول دیا اور بازوؤں میں لاک کر لیا۔
اس بار اس نے بازو حسینہ کے پیٹ پر باندھے اور حسینہ کو زمین سے بلند کر کے تیزی سے لٹو کی طرح گھومنے لگا ۔
کوئی دس بارہ چکر لگا کر حسینہ کو ایک دم سے اتارا اور کشتی لڑنے والے پہلوانوں کی طرح اڑنگا لگا کر چت کر دیا۔ حسینہ کی آنکھیں بند تھیں ۔
وہ دونوں ہاتھوں میں سر تھامے شاہد کو برا بھلا کہنے لگی۔
شاہد نے شلوار اپنے جسم سے الگ کی اور حسینہ کی دونوں لاتیں تھام کر کھڑا ہوگیا۔
حسینہ کہنیوں کے بل پر اٹھنے کی کوشش کرتی اور وہ ٹانگوں کو اوپر اٹھا کر اس کی کوشش ناکام کر دیتا۔
کروٹ لینا چاہتی تو ٹانگیں الٹی سمت گھما دیتا۔
تین چار طرح کوشش ناکام ہونے پر حسینہ نے تھوڑا دم لیا۔ سر ٹکا کر آسمان تکنے لگی۔
چند لمحے توقف کے بعد پھر بولی ۔
مان جاؤ بابو جی۔۔۔
یہ جگہ ٹھیک نہیں ۔۔۔
گھر چلو۔۔۔۔
رات کو آرام سے کر لینا۔۔۔۔
شاہد نے اس کے پسینے میں شرابور جسم پر ایک نظر ڈالی اور گریبان سے نکلتی چھاتیوں کی جھلک دیکھ خود کو بےقابو پایا تو کہنے لگا۔
چل ٹھیک ہے بس تھوڑی دعا سلام لینے دے۔ ایک باری رکھ کر ہٹا لوں گا۔
حسینہ کی ٹانگیں موڑتا ہوا گھٹنوں کے بل بیٹھا اور لنڈ کا سرا موری پہ رکھا تو اس کو لگا جیسے حسینہ کی چوت نے اس کے ٹوپے کو نرمی سے چوم لیا ہے۔
جیسے کسی نومولود بچے کو احتیاط سے پیار کرتے ہیں ۔
تین سے چار بار اس احساس کا لطف لینے کے بعد اس نے لمبائی میں اوپر کی جانب رگڑا دیا اور حسینہ کی
اداکاری یکدم پنکچر ہو گئی۔
اس نے ہاتھ بڑھا کر شاہد کے گال پر ایک کرارا چماٹ لگایا اور گریبان سے پکڑ کر خود پر گرا لیا۔
ڈال دے نا کتے۔۔۔۔
ڈالتا کیوں نہیں اندر۔۔۔۔
شاہد کو بانہوں میں بھر کر نچلے دھڑ کو اٹھانے لگی۔
شاہد نے صحیح نشانہ جمتے ہی دباؤ دیا اور آدھا اندر چلا گیا۔
دوسری بار میں جڑ تک گھسا اور کچھ دیر دونوں ساکت رہے۔۔
پھر جو گھمسان کی جنگ ہوئی ۔پہلے حسینہ کی پشت ساکت ہوئی اور پھر شاہد بھی فارغ ہو گیا۔
حسینہ نے لباس بدلا اور دونوں گاؤں روانہ ہو گئے ۔