کمسن حسینہ


 میرا نام عامر ہےیہ واقعہ اسوقت کا ہے جب میری عمر 25 سال تھی اور میں ماسٹرز کر رہا تھا، میرے گھر میں میرے والد اور والدہ رہتے تھے ایک بڑی بہن تھی جسکی شادی ہوچکی تھی۔ اور وہ امریکہ سیٹل ہوچکی تھی۔میری

امی نے ایک ماسی رکھی جو اچھی خاصی عمر کی تھی مگر وہ اپنے ساتھ ایک اپنی نواسی کو لاتی تھی جسکی عمر تو پندرہ سال تھی مگر اسکا جسم کسی اٹھارہ سال کی سیکی لڑکی کی طرح تھا ۔ اس ماسی کی بیٹی فوت ہوچکی تھی جسکے بعد اس نواسی کی پرورش کی ذمہ داری اس پر آپڑی تھی۔

خیر کچھ ہی مہینوں میں وہ ماسی اور اسکی نواسی ہمارے گھر میں ایڈجسٹ ہوگئے، اور ہم نے ان دونوں پر اور ان دونوں نے ہم پر بھروسہ کرنا شروع کردیا۔

میں ویسے تو خاصہ شریف لڑکا تھا مگر سیکس کا ایسا بھوکا کہ جو بھی مل جائے چھوڑتا نہیں تھا۔ میرے گھر اور دوستوں میں کسی کو میری ان حرکتوں کا علم نہ تھا۔

میرے والد ایک بزنس مین تھے اور انکا بزنس پورے پاکستان میں پھیلا ہوا تھا جسکی وجہ سے وہ اکثر کسی نہ کسی شہر میں جاتے رہتے تھے۔ میری امی کا میکہ بھی دوسرے شہر میں تھا۔

ایک بار ایسا ہوا کہ ابا کو اپنے بزنس کے لیے دوسرے شہر جانا تھا اسی شہر میں امی کا میکہ بھی تھا ابا امی کو بھی ساتھ لے گئے تاکہ وہ اپنے والدین اور بھائیوں سے ملاقات کر لیں۔ امی ابو کا یہ دورہ تقریباً ایک ہفتہ کا تھا مجھ سے بھی پوچھا گیا مگر اگلے دن میرا یونیورسٹی میں ٹیسٹ تھا تو میں نے کہا آپ لوگ جائیں میں آپ لوگوں کے پیچھے آجاتا ہوں۔

میری بات سن کر امی اور ابا راضی ہوگئے۔امی ابا تو اسی دن روانہ ہوگئے اور میں گھر میں اکیلا رہ گیا۔

ابھی صبح کا وقت تھا میں ناشتہ کر کے اپنے ٹیسٹ کی تیاری ہی کر رہا تھا کہ ماسی اور اسکی نواسی کام کرنے آگئے۔ میں نے ماسی سے کہا امی اور ابا گئے ہیں دوسرے شہر تم کو پتہ ہے جو جو کام کرنا ہے وہ سب کرلو کوئی بتائے گا نہیں تمہیں۔

 اس نے کہا آپ بے فکر رہو عامر بیٹا میں سب کر لونگی۔

 یہ کہہ کر وہ دونوں سب سے پہلے کچن میں برتن دھونے میں مصروف ہوگئیں۔ ذرا دیر بعد ماسی کی نواسی جسکا نام زرینہ تھا وہ کام چھوڑ کر بیٹھ گئی، میں تھوڑی دیر دیکھتا رہا پھر ماسی سے پوچھا

""زرینہ کو کیا ہوا ماسی؟

"اسکو بخار ہے صبح سے۔" ماسی نے جواب دیا۔

 

"تو تم اسکو کام پر نہ لاتی نا یہ اور بیمار ہوجائے گی"

میں نے ہمدردی سے جواب دیا۔ جسکو سن کر زرینہ نے تشکر آمیز نظروں سے میری جانب دیکھا۔

 

"میں اکیلے کیسے اتنا سارا کام کرتی، ابھی اور بھی تو گھروں میں جا کر کام کرنا ہے"

ماسی نے جواب دیا۔

 

"تم نے اسکو دوا دلائی؟"

میں نے ماسی سے سوال کیا

 

"نہیں ابھی گھر جا کر دے دونگی دوا"

 ماسی نے جواب دیا۔

 

" گھر تو تم شام تک جاو گی نا؟"

میں نے ماسی سے پھر سوال پوچھا۔

"جی شام تک ہی جانا ہوگا"

ماسی نے جواب دیا

 

"ایسا کرو تم اپنا کام کرو میں زرینہ کو دوا دلا کر لاتا ہوں۔"

میں نے ماسی سے کہا

"رہنے دیں عامر صاحب آپ تکلیف نہ کریں۔"

 

ماسی نے منع کرنے کے انداز میں کہا

 

"تکلیف کیسی تم لوگ اتنی خدمت کرتی ہو ہماری سارے گھر کا کام کرتی ہو یہ تو تمہارا حق بنتا ہے، بس تم اپنا کام کرو میں ابھی اسکو دوا دلا کر لاتا ہوں۔"
یہ کہہ کر میں نے زرینہ کو کہا" چلو ایسا نہ ہو کلینک بند ہو جائے۔

"

زرینہ نے ماسی کی جانب دیکھا ماسی نے اسے ہاں میں سر ہلایا اور زرینہ میرے ساتھ چلی گئی کار میں بیٹھ کر میں نے زرینہ کی گردن پر اپنا ہاتھ لگایا اور کہا

" تم کو تو کافی تیز بخار ہے تم کو آرام کرنا چاہئے تھا۔"

زرینہ نے کوئی جواب نہ دیا۔اور خاموشی سے سر جھکا لیاخیر ذرا دیر بعد ہم دوا لے کر واپس آچکے تھے۔ میں نے ماسی سے کہا

" ڈاکٹر نے اسکو مکمل آرام کرنے کو بولا ہے تم اسکو گھر چھوڑ کر پھر جانا اپنے دوسرے کام پر"

 

"صاحب گھر کیسے چھوڑ سکتی ہوں وہ تو کافی دور ہےاسکو ہمت کر کے جانا ہوگا میرے ساتھ "

ماسی نے جواب دیا۔

"

ڈاکٹر نے کہا ہے اگر آرام نہ کیا تو دوا اثر نہیں کرے گی طبیعت اور خراب ہوگی۔ بہتر یہ ہی ہے کہ اسے آرام کرنے دو۔" میں نے جواب دیا

 

ماسی سوچ میں پڑ گئی پھر بولی

"صاحب میں اسکو گھر تو نہیں چھوڑ سکتی دوسرے کام پر دیر ہو جائے گی۔ اگر آپ کو برا نہ لگے تو میں اسکو شام تک آپکے گھر چھوڑ دوں؟ میں باجی سے بات کر لونگی۔" ماسی نے درخواست کی۔

 

ایک دم میرے دماغ میں منصوبہ بننے لگا۔ میں نے تھوڑا سوچا پھر کہا

" باجی سے بات کرنے کی ضرورت نہیں ویسے بھی وہ ایک ہفتے بعد آئینگی۔ تم اسکو چھوڑ دو مگر شام میں ضرور واپس لے جانا ہوسکتا ہے میں گھر سے باہر جائوں تو یہ اکیلی کیسے رہے گی گھر میں۔"

 میں نے خوشی کو دباتے ہوئے کہا۔

 

"صاحب آپ فکر نہ کریں میں شام میں آکر اسکو لے جائوں گی۔" ماسی نے بھی خوش ہو کر کہا۔

 

ذرا دیر بعد ماسی اپنا کام ختم کر کے چلی گئی۔ میں اور میرے گھر والے زرینہ کو ایک چھوٹی بچی کی طرح ہی ٹریٹ کرتے تھے وہ ذہنی طور پر اتنی بالغ تھی بھی نہیں۔

خیر ماسی کے جانے کے بعد میں ذہن میں منصوبہ بنانے لگا کہ کس طرح جلدی اپنی خواہش پوری کروں مگر مجھے ڈر بھی تھا یہ شور مچا دے گی۔ یا بعد میں کسی کو بتا دے گی۔

 

"تم نے صبح سے کچھ کھایا ہے؟" میں نے زرینہ سے سوال کیا۔

"جی تھوڑا سا کھایا تھا۔" زرینہ نے جواب دیا۔

 

"تم یہاں نہ بیٹھو یا تو صوفہ پر لیٹ جائو یا پھر اندر جا کر بیڈ پر لیٹو ایسے بیٹھی رہوگی تو آرام نہیں ملے گا۔" میں نے زرینہ کو کہا۔

 

" جی اچھا" یہ کہتے ہوئے وہ اٹھی اور اٹھنے میں لڑکھڑانے لگی تو میں نے بھاگ کر اسکو پکڑا اور سہارا دیا ، سہارا دیتے وقت میں نے اسکو بازو سے پکڑا اور ساتھ ہی جان کر اسکے ایک ممے سے اپنا ہاتھ نہ صرف چھوا بلکہ رگڑا۔

 مجھے ایسا لگا جیسے اس نے کوئی برا نہیں پہنا ہوا تھا اسکے ممے زیادہ نہیں تو 32 سائز کے تو ہونگے۔

 

"تم تو کافی کمزور لگ رہی ہو، چلو میں تم کو لے جا کر بیڈ پر لٹاتا ہوں۔"

یہ کہہ کر میں اسکو پکڑ کر اپنے بیڈ روم میں لے گیا اور اسکو بیڈ پر لٹا دیا۔

پھر کچن میں جا کر اسکے لیے ایک سیب کاٹا اور دودھ گرم کر کے کمرے میں لے گیا۔

 

"چلو یہ کھائو اور پھر دوا بھی لینی ہے۔ شام تک تم کو ٹھیک ہونا ہے" یہ کہتے ہوئے میں اسکی جانب دیکھ کر مسکرایا۔

جواب میں وہ بھی مسکرائی۔وہ سیب کھانے لگی اور میں نے ٹی وی آن کر لیا ۔ میں ایک کے بعد ایک چینل تبدیل کرتا رہا آخر ایک چینل پر انگلش مووی آرہی تھی اور قسمت سے اسی وقت کسنگ کا سین اسٹارٹ ہوا۔

میں اس طرح بیٹھا ہوا تھا کہ ٹی وی اور میرے بیچ میں زرینہ تھی جو کہ ٹی وی پر نظریں جمائے ہوئے تھی۔

اسکو ہوش نہیں تھا کہ میں اسے دیکھ رہا ہوں۔وہ بغور وہ سین دیکھتی رہی اور مجھے ایسا لگا جیسے اسکا سانس تھوڑا تیز ہوا۔

خیر وہ سین ختم ہوا تو میں نے چینل تبدیل کیا تو ایک نیوز چینل تھا جس پر نیوز آرہی تھی کہ شہر کے حالات خراب ہو گئے ہنگامے شروع ہو گئے۔

میں نے زرینہ سے پوچھا کہ تمہاری نانی کس جگہ گئی ہے اب کام پر زرینہ کو اسکا اندازہ نہیں تھا وہ تو بس اپنی نانی کے ساتھ چلی جاتی تھی۔

خیر میں سوچنے لگا کہ ماسی کیسے آئے گی اور کیسے زرینہ کو لے کر جائے گی۔ابھی میں سوچ ہی رہا تھا کہ اچانک فون کی بیل بجی میں نے بھاگ کر فون اٹھایا تو دوسری طرف ماسی ہی تھی وہ کافی گھبرائی ہوئی تھی۔

میں نے پوچھا تم کہاں ہو تو اس نے جو ایریا بتایا وہ میرے گھر سے کافی دور تھا اور وہاں کے حالات خراب تھے۔

میں نے ماسی سے اسکا پروگرام پوچھا کہ وہ کس طرح آئے گی میرے گھر زرینہ کو لینے تو اس نے جواب دیا عامر بیٹا اس وقت تو گھر سے نکلنا جان کو خطرے میں ڈالنا ہے۔

میں نے ماسی سے کہا اگر میرے گھر تک آسکو تو آجائو اور تم دونوں یہیں رکو جب تک حالات ٹھیک نہیں ہوتے ۔نہیں ہوتے ٹھیک تو رات میرے گھر پر ہی رکو۔

 ماسی نے میرا بہت شکریہ ادا کیا۔ اور کہا وہ پوری کوشش کرے گی کہ زرینہ کو لینے آجائے۔

 میں نے کہا تم زرینہ کی فکر نہ کرو وہ آرام سے ہے اور پھر میں نے اسکی زرینہ سے بھی بات کروا دی۔ وہ خاصی مطمئن ہوگئی۔

زرینہ بھی پہلے سے کچھ بہتر محسوس کر رہی تھی۔ ذرا دیر بعد میں نے زرینہ کو دوا دے دی۔

اور کہا تم اب سو جائو تمہاری نانی آئے گی تو میں تم کو جگا لونگا۔ اور یہ کہہ کر میں روم سے باہر نکل گیا۔ مجھے کل یونیورسٹی جانا بھی مشکل لگ رہا تھا۔ ابھی میں اپنے دماغ میں پلان کر ہی رہا تھا کہ دوست کا فون آیا اور اس نے بتایا کہ کل یونیورسٹی بند ہے شہر کے خراب حالات کی وجہ سے۔

میں دل ہی دل میں بہت خوش ہوا اور دعا کرنے لگا کہ ماسی نہ آسکے تو میں زرینہ کے ساتھ اپنی رات رنگین کر لوں۔

میں نے ٹی وی لائونج والا ٹی وی آن کیا تو پتہ لگا شہر کے حالات مزید خراب ہو گئے ہیں اور شہر میں کرفیو لگ گیا ہے۔میں بہت خوش تھا کہ اب تو زرینہ کو یہاں ہی رکنا پڑے گا۔خیر میں تھوڑی دیر ادھر ہی گھومتا رہا گھر میں پھر بھوک لگنے لگی تو میں نے کچن میں جاکر کھانا گرم کیا اور جا کر زرینہ کو دیکھا تو وہ جاگ چکی تھی۔

میں اسکے قریب گیا اور پوچھا کیسی طبیعت ہے اب اور ساتھ ہی اسکی گردن کو ایک بار پھر اپنے ہاتھ سے چھوا اس طرح کے میری انگلیاں اسکی قمیض کے گلے کے اندر تھیں اور اسکے ممے کے اوپری حصے کو چھو رہی تھیں۔

اسکی جلد کافی چکنی تھی زرینہ کا بخار اتر چکا تھا۔میں نے مسکرا کر اسکو دیکھا جواب میں وہ بھی مسکرائی۔

میں نے اس سے کہا چلو میں نے کھانا گرم کر لیا ہے چل کر کھا لو۔

اس نے کہا میں پوری پسینے میں بھیگی ہوئی ہوں میں شاور لینا چاہتی ہوں میں نے کہا ہاں جائو اندر باتھ میں گرم پانی سے شاور لینا۔

اس نے اثبات میں سر ہلایا اور باتھ میں چلی گئی۔

ذرا دیر بعد اسکی آواز آئی عامر بھائی تولیہ نہیں ہے اندر میں نے جلدی سے تولیہ لیا اور اس سے کہا لے لو تولیہ اور دروازہ سے ذرا دور ایک سائیڈ پر کھڑا ہو گیا۔اس نے ذرا سا دروازہ کھولا جب میں نظر نہ آیا تو مزید کھولا بس میں اسی لمحے کے انتظار میں تھا میں ایک دم اسکے سامنے تولیہ ہاتھ میں لیے آگیا۔

وہ پوری ننگی میرے سامنے تھی اسکا پورا بدن بھیگا ہوا سیکسی لگ رہا تھا۔

وہ ایک دم ہڑبڑا گئی اور میں نے بھی ہڑبڑانے کی ایکٹنگ کی اور ساتھ ہی جلدی سے تولیہ اسکی جانب بڑھایا اور ایک سائیڈ پر ہوگیا اور پھر روم سے باہر نکل گیا۔

ذرا دیر بعد وہ شرماتی ہوئی کھانے کی میز تک آئی۔ اور خاموشی سے چپ چاپ بیٹھ کر کھانا کھانے لگی۔

میں نے پوچھا اب کچھ بہتر لگ رہی ہو تم ۔ وہ کہنے لگی جی اب کافی بہتر ہوں۔

میں نے اسے بتایا کہ شہر کے حالات خراب ہیں اور کرفیو لگ گیا ہے نجانے تمہاری نانی کس طرح آئے گی تم کو لینے جس جگہ پر وہ ہے ابھی وہاں تو بہت ہی حالات خراب ہیں ورنہ میں تم کو خود چھوڑ آتا نانی کے پاس اگر وہ نہ آسکی تو تم کو رات یہیں رکنا ہوگا۔

یہ سن کر وہ تھوڑی پریشان ہو گئی۔ ابھی ہم کھانے سے فارغ ہی ہوئے تھے کہ ماسی کا دوبارہ فون آیا۔

میں نے اس سے پوچھا کہ وہ کہاں ہے تو اس نے بتایا کہ وہ اسی گھر میں ہے اور اب نکل نہیں سکتی اور نہ وہ گھر والے اسے جانے دے رہے ہیں کیونکہ شہر میں کرفیو لگا ہے۔

 میں نے پوچھا تو میں تمہارے پاس لے آئوں زرینہ کو وہ اب کافی بہتر ہے۔

تو اس نے پھر درخواست کی کہ میں اسے کہیں نہ جانے دوں اور رات رکنے کی اجازت دے دوں میں نے کہا مجھے اعتراض نہیں مگر تمہاری نواسی پریشان ہے اسکو تسلی دو یہ کہہ کر میں نے زرینہ کو فون دیا.

 ماسی نے فون پر زرینہ سے نجانے کیا کہا ۔ کہ وہ کافی مطمئن ہوگئی۔

میں دل ہی دل میں بہت خوش تھا اور یہ موقع گنوانا نہیں چاہتا تھا۔

 خیر زرینہ نے ہمت کر کے سارے برتن دھوئے۔کچن کی صفائی میں زرینہ کی مدد کرتا رہا۔ اور بار بار اسکے جسم کو بہانے بہانے سے چھوتا رہا۔ اور اسکی خوبصورتی کی تعریف کرتا رہا وہ کبھی خوش ہوتی کبھی شرماتی کیونکہ اسکو ٹھیک سے اندازہ نہیں تھا کہ وہ کیا بلا ہے۔

خیر وہ کام سے فارغ ہوئی تو میں نے اسکو کہا اب تم کو رات تو یہیں گذارنی ہے تو اسکو اپنا ہی گھر سمجھو۔ کسی بات میں شرمانے کی ضرورت نہیں ہے کچھ کھانے کا دل کر رہا ہے تو کھائو کوئی منع نہیں کرے گا۔

زرینہ کے چہرے سے خوشی ظاہر ہو رہی تھی۔

میں نے زرینہ سے کہا تمہاری دوا کا بھی وقت ہو گیا ہے تم دوا کھائو پھر ہم دونوں بیٹھ کر فلم دیکھتے ہیں۔

میں نے اسے بتایا کہ کونسی دوا کھانی ہے اس نے دوا کھائی پھر ہم دونوں میرے روم میں آگئے۔میں اس سے ادھر ادھر کی باتیں کرتا رہا اسکو سیکس کے بارے میں زیادہ معلومات نہیں تھیں۔ پھر میں نے پوچھا کہ فلم دیکھتی ہو تو اس نے جواب دیا کبھی کبھی دیکھتی ہے۔ تو میں نے پوچھا کیا اچھا لگتا ہے فلم میں تو اس نے جواب دیا گانے اور ڈانس۔

 بس اب میں نے اپنا لیپ ٹاپ آن کیا اور ایک ویب سائٹ پر جا کر ایک سیکسی مجرا لگا دیا۔ پھر اس سے پوچھا ایسے ڈانس اچھے لگتے ہیں کیا۔ اس نے کہا ایسا تو کبھی نہیں دیکھا۔

 

میں نے کہا چلوآج دیکھو۔اس مجرے میں وہ ڈانسر اپنے ممے ہلا ہلا کر دکھا رہی تھی اور کافی دفعہ اس نے اپنی شرٹ اوپر کر کے اپنے ممے بھی دیکھا دیے میں بغور زرینہ کے چہرے کا جائزہ لے رہا تھا کہ وہ کیا محسوس کر رہی ہے۔بالآخر وہ وقت آیا جب اسکی سانس تیز ہوئی اور وہ بار بار اپنے بیٹھنے کی پوزیشن تبدیل کرنے لگی۔ تو میں نے پوچھا کیا ہوا اچھا نہیں لگا کیا ڈانس؟

ایک تبصرہ شائع کریں (0)
جدید تر اس سے پرانی

Featured Post