تڑپتی بھڑکتی جوانی قسط نمبر 6


میں باہر نکلا تو سب ہی بیٹھے تھے میری نظر رافع سے ملی تو وہ منہ نیچے کر گیا ماہم بھی ہمیں دیکھ کر شرما سی گئی میں آگے گیا تو مدثرہ چہک کر بولی جناب کجھ سانوں وی ٹائم دیو باجی نوں ہی وڑے ہوئے ہو اور ہنس دی میں مدثرہ کی بات پر چونک گیا اور ٹھٹک کر سب کو دیکھا مدثرہ اپنے بھائیوں کے سامنے بھی ایسی ہی بات کر رہی تھی میں نے نوشی اور رافع کو کن اکھیوں سے غورا تو وہ اگنور کر رہے تھے میں پاس جا کر کھڑا ہوگیا تو مدثرہ مسکرا کر بولی جناب ایتھے ساڈے کول آکے بہ جاؤ کوئی سانوں وی موقع دیوں گل بات دا میں مسکرا گیا نصرت بھی آنکھیں نیچے کیے مسکرا کر سب کو چائے پکڑا رہی تھی میں نے ایک نظر مدثرہ کے بھائیوں کو دیکھا جو اپنی چائے میں مگن تھے اور میں مدثرہ کے پاس بیٹھ گیا مدثرہ کے چتڑ بھی چوڑے تھے جو میرے پٹ سے لگ کر میرے اندر کرنٹ دوڑا گئے مدثرہ کی گرمی کا ایک مجھے محسوس ہوکر میری حالت پتلی کرنے لگا مدثرہ بولی جناب کجھ سانوں وی موقع دیو ہا خدمت دا۔ میں مسکرا کر شرما گیااور اس کے بھائیوں کو دیکھا سمجھ تو وہ بھی گئے تھے کہ ان کی بہن کونسی خدمت کی بات کر رہی تھی میں نے مسکرا کر اسے دیکھا تو وہ گہری بڑی بڑی نشیلی آنکھوں سے مجھے ہی دیکھ رہی تھی میں بولا جناب تسی حکم کرو اسی تھواڈی خدمت کرساں گئے مدثرہ ہنس کر بولی جی نہیں تسی سادے گھر مہمان ہو ساڈا فرض بنڑدا اے تھواڈی خدمت دا جدو دے آئے ہو سانوں تے حسرت ہی ہو گئی تھواڈی خدمت کرن دی میں مسکرا کر بولا جناب اسی حاضر آں کرو ساڈی خدمت مدثرہ مسکرا کر بولی فر چلو اندر آج تھواڈی سیوا کریے۔ اس بات پر میں چونک گیا اور بولا اندر الی سیوا مدثرہ ہنس کر بولی ظاہر گل اے جہڑی خدمت اساں کرنی او تے لک لکا کے ہی ہوندی ہنڑ ایتھے ساریاں دے سامنے تے نہیں ہو سگدی ناں میں اس بات پر رکنسا گیا اور اس کے بھائیوں کو دیکھا جو اپنی چائے میں ایسے مگن تھے کہ انہیں کچھ خبر نہیں وہ اپنی بہن کی باتیں سن بھی رہے تھے میں نے انہیں ایک نظر دیکھا اور نصرت کو دیکھا جو مجھے دیکھ کر ہنس دی نصرت کے ناک میں چمکتا کوکا نصرت کے گورے چہرے پر حسن کی قیامت ڈھا رہا تھا میں نصرت کے چہرے کی خوبصورتی میں کھو سا گیا مجھے نصرت کو گھورتا دیکھ کر مدثرہ مجھ سے بولی افی ہلے باجی توں نہوں رجیا۔ دو تن دناں تو توں باجی نوں ہی وڑیا ہویا ایں۔ ہلے تیری باجی توں سدھر نہیں کتنی میں یہ سن کر چونک گیا مدثرہ تو سیدھے تیر چلا رہی تھی اپنے بھائیوں کی موجودگی کا بھی اسے کوئی لحاظ نا تھا ویسے بھی اس کے بھائیوں کو بھی پتا تھا کہ نصرت میرے ساتھ سیٹ ہے۔ میرے ساتھ سیکس کرتی ہے مدثرہ کی بات سے میں ہنس کر بولا مدثرہ نصرت تے مینوں بڑی پیاری اے ہنڑ تے بڑی چنگی لگدی اے۔ مدثرہ اس پر بھن سی گئی اور بولی اچھا جی اے گل اے آسیں چنگے نہیں لگدے اسدا مطلب میں بولا نہیں چنگے تے تسی وی لگدے ہو پر نصرت دا ٹیسٹ ہی الگ ہے۔ نصرت دا بڑا سواد آندا اے یہ کہ کر میں ہنس دیا مدثرہ بولی اچھا جی جناب اسی وی تے اکھ رہے آں اسی وی تے تھوانوں اپنا ٹیسٹ چکھانا چاہندے آں پر تسی باجی نصرت دے ذائقے دے عاشق ہو۔ ہو سگدا اے باجی دا ذائقہ ساڈے نالو چنگا ہووے پر سانوں ہک واری چکھ تے ویکھو۔ مدثرہ ہے لہجے میں شکوہ دیکھ میں ہنس پڑا یہ ساری باتیں اس کے بھائی نوشی اور رافع بھی سن رہے تھے۔ ذو معنی باتیں تھیں پر سمجھ انہیں بھی ساری تھی نصرت بھی اس بات پر ہنس دی اور بولی مدثرہ دا شکوہ جائز تے ہے میں ہنس کر مدثرہ کو اپنے بازو میں بھر کر اسکے بھائی نوشی اور رافع کے سامنے اپنے ساتھ دبوچ لیا جس سے میرا ہاتھ مدثرہ کی کمر میں پڑا اسکے بھائی دیکھ رہے تھے مدثرہ کا ایک موٹا مما میری بغل میں دب سا گیا جس سے مدثرہ میرے ساتھ دب کر سسک سی گئی اور اپنی گہری نشیلی آنکھیں اٹھا کر مجھے دیکھ کر سسسسیییی کرکے بولی افی نا کر مدثرہ کے چہرے پر ناراضگی کے آثار تھے اور وہ میری آنکھوں میں دیکھ رہی تھی مدثرہ کی آنکھوں میں بلا کی شہوت تھی میں نے کن اکھیوں سے اس کے بھائیوں کو دیکھا جو خاموشی سے اپنی بہن کو میری باہوں میں کسا دیکھ رہے تھے میں نے نیچے ہوکر ان کی آنکھوں کے سامنے ان کی بہن مدثرہ کے گال چوم لیے مدثرہ میری آنکھوں میں دیکھ کر سسک کر ہانپنے لگی میں نے ہونٹ آگے کیے اور مدثرہ ہے ہونٹ دبا کر چوم لیے مدثرہ کے بھائی مجھے اپنی بہن کو چومتا دیکھ رہے تھے مدثرہ نے اپنے ہونٹ کھول کر میرے ہونٹ کو دبا کر چوس لیا پچ پچ کی آواز سب کے کانوں پر بجنے لگی اس کے بھائی بھی سب نظارے دیکھ رہے تھے مدثرہ شہوت سے بے قابو ہو رہی تھی زندگی میں پہلی بار کسی مرد کے بازوؤں میں خود کو پاکر آگ سے جلنے لگی تھی مدثرہ کی آگ کا سیک میرے اندر تک مجھے محسوس ہو رہا تھا مدثرہ تو جھٹ سے میرے ہونٹ۔ دبا کر میری زبان کھینچ کر اپنے منہ میں بھر کر دبا کر چوستی ہوئی کراہنے لگی تھی مدثرہ کی آواز میرے منہ میں دبنے لگی جسے اسکے بھائی بھی سن رہے تھے مدثرہ آگے بڑھ کر میرے ہونٹ دبا کر چوستی ہوئی میری زبان کو چتھ کر مجھے بھی اپنی باہوں میں بھر کر میرے اوپر چڑھ سی گئی مدثرہ کی آگ اسے بے خود کر رہی تھی مدثرہ نے کراہ کر پلاکی ماری اور میرے اوپر چڑھ گئی جس سے مدثرہ میری جھولی میں آ بیٹھی اور مجھے اپنی جپھی میں دبوچ کر چوسنے لگی مدثرہ کے بھائی اپنی بہن کو میری جھولی میں بیٹھا مجھے چومتا دیکھ رہے تھے میرا لن تن کر مدثرہ کی پھدی سے ٹکرایا جس سے مدثرہ کراہ کر کرلا سی گئی اور جھٹکے کھاتی ہوئی بکا سی گئی مدثرہ کی بکاٹ اور جھٹکے خاموشی سے سب دیکھ رہے تھے میں مدثرہ کی کمر میں ہاتھ ڈال کر مدثرہ ہو اپنے سینے سے دبا لیا جس سے مدثرہ نے جھٹکا مارا اور کرلا کر مدثرہ نے تڑپ کر مجھے اپنے سینے میں دبوچ لیا ساتھ ہی مدثرہ کا جسم کانپنے لگا اور مدثرہ میرے منہ میں بکا کر ایک لمبی دھار مار کر چھوٹنے لگی مدثرہ ہو کرلا کر چھوٹتے ہوئے اس کے بھائی خاموشی سے دیکھ رہے تھے مدثرہ ہانپتی ہوئی پانی چھوڑتی میرے اوپر گر کر کانپنے لگی مدثرہ کی آگ میرا لنڈ نا برداشت کر سکی اور مدثرہ کی پھدی سے بہ گئی تھی مدثرہ ہو بھی سکون آگیا تھا مدثرہ کا جسم تھر تھر کانپتی ہوا تڑپ رہا تھا جسے میں نے دبوچ کر مسل کر دبا لیا مدثرہ کراہتی ہوئی میرے کاندھے سے لگ گئی دو چار منٹ بعد مدثرہ ہوش میں آگئی اور پیچھے ہوکر بولی مزہ آیا کہ نہیں میں نے آس پاس دیکھا تو نصرت ہمیں دیکھ کر مسکرا رہی تھی اس کے بھائی خاموشی سے سب دیکھ رہے تھے میں شرما سا گیا کہ مدثرہ کے بھائیوں کے سامنے ہی مدثرہ میری جھولی میں بیٹھ کر مزے لے رہی اے نصرت بولی افی مزہ آیا کہ نہیں میں نے اسے دیکھا اور مسکرا کر بولا فی الحال تے سارے مزے مدثرہ ہی کئے گئی ہے مدثرہ پیچھے ہوکر بولی میری جان میں تے اکھ رہی آں تسی وی لئو مزے میں بولا مدثرہ تو ہلے تک کسے کول نہوں ستی مدثرہ ہنس کر بولی ہلے تک تیرے جہیا ملیا کوئی نہیں میں مسکرا کر پوچھا توں کنواری ہیں ہلے تک۔ مدثرہ ہنس کر بولی فل کنواری تے ایک پیک۔ ہلے تک زیرو میٹر آں میں ہنس دیا نصرت مسکرا کر بولی افی مدثرہ فل کنواری اے تے تینوں پتا اے کنواری دی سیل پٹن دا کتنا سواد آندا مدثرہ یہ سن کر بولی وت کی ارادہ اے میں کواری دی سیل پٹ دے اج مدثرہ اور نصرت کو اپنے بھائیوں کے سامنے ہی مجھے مدثرہ کی سیل کھولنے کی آفر سے میں دنگ سا رہ گیا کہ دونوں کتنی کھل چکی ہیں بھائیوں کا بھی کوئی لحاظ نہیں میں نے افی اور رافع کو دیکھا تو وہ خاموش بیٹھے اپنی بہنوں کی باتیں سن رہے تھے میں نصرت سے بولا نصرت آج تے توں میرے نال نہیں آنا نصرت ہنس کر بولی میں آگے وی تے تیرے کول آوندی رہی آں میں کل دی رات تیرے کول سین لیساں توں اج مدثرہ دی سیل پٹ بڑی اوکھی ودی ہئی میں ہنس دیا مدثرہ میری جھولی میں بیٹھی تھی مدثرہ بولی کی خیال اے میں ہنس دیا اور بولا جیویں تسی اکھو وہ بولی آج دی رات میرے کول رہ پیو میں ہنس کر بولا جو حکم جناب مدثرہ ہنس کر مجھے چومنے لگی میں مدثرہ کو اٹھا کر اندر چل پڑا جیسے ہی اندر داخل ہوا تو سامنے ماہم بیٹھی تھی مجھے مدثرہ ہو باہوں میں اٹھائے دیکھ کر چونک کر کھڑی ہوگئی ماہم کا منہ لال ہوگیا مدثرہ اسے دیکھ کر ہنس دی ماہم منہ نیچے کیے جلدی سے نکل گئی میں مدثرہ کو بیڈ پر بیٹھا کر اپنے کپڑے اتار دئیے مدثرہ نے بھی اپنا قمیض کھینچ دیا مدثرہ کے فل تنے ممے قیامت ڈھا رہے تھے میں مدثرہ کے سامنے کھڑا تھا مدثرہ میرا کہنی جتنا لن دیکھ کر مچل کر بولی افففف اماں میں مر گئی افففیییی ایڈا لما لن اور آگے ہتھ کرکے میرا لن پکڑ لیا مدثرہ ہے نرم ہاتھ میرے لن کی جان نکال گئے میں سسک کر کراہ گیا مدثرہ ہانپتی ہوئی کراہ کر بولی افففف افی کدی خوب اچ وی ناہ سوچیا کہ کدی میں وی ایڈا لما لن لیساں اور میرے لن کو اپنے ہاتھ میں مسلنے لگی مدثرہ کا نرم ہاتھ میری جان نکالنے لگا مدثرہ کے سفید ہاتھوں میں میرا کالا لن چمک رہا تھا میں سسکتا ہوا مدثرہ کو ہانپتا دیکھ رہا تھا مدثرہ میرے لن کو مسل کر آگے ہوئی اور میرا لن چوم لیا میں مدثرہ کے ہونٹ لن پر محسوس کرکے مچل سا گیا مدثرہ نے سسک کر زبان نکالی اور میرے لن کو چاٹ لیا مدثرہ کی گرم زبان میرے لن پر قیامت ڈھا گئی میں سسک کر کرلا گیا مدثرہ بھی مزے سے کراہ کر ایک بار کس کر میرے لن پر زبان پھیر کر چاٹ گئی اور منہ کھول کر میرے لن کا ٹوپہ منہ میں بھر کر دبا کر چاٹ کر چوس لیا جس سے میری کراہ نکل کر گونج گئی اور میں کراہ گیا اتنے میں نصرت دروازہ کھول کر اندر آگئی اور سامنے میرا لن اپنی بہن ہے منہ میں دیکھ کر مچل گئی نصرت چلتی ہوئی پاس آئی اور وہ بھی میرے لن کے سامنے بیٹھ گئی میرے لن کے ٹوپہ مدثرہ ہے منہ میں تھا جسے مدثرہ چوس رہی تھی نصرت اسے دیکھ کر آگے ہوئی اور میرے لن کے پیچھے والے حصے پر ہونٹ رکھ کر چوم لیا میں کراہ گیا نصرت نے ہونٹ کھول کر میرے لن کو اپنے ہونٹوں میں بھر کر مسلنے لگی مدثرہ میرے لن کا ٹوپہ چوس رہی تھی جبکہ نصرت میرے لن کا باقی حصہ ہونٹوں میں بھر کر دبا رہی تھی دونوں بہنیں سے لن چسوا کر میں بے قابو ہورہا تھا میرا لن مزے سے مراد جا رہا تھا مدثرہ نے ہانپ کر پچ کی آواز سے ٹوپہ چھوڑا تو نصرت نے ہونٹ لن پر دبا کر پھیرتے ہوئے میرے لن کا ٹوپہ دبا کر چوس لیا میں سسک کر کراہ گیا نصرت کو ٹوپہ چوستے دیکھ کر مدثرہ نے نصرت کا سر اپنی طرف کھینچ لیا جس سے پچ کی آواز سے میرا لن نصرت کے منہ سے نکل گیا مدثرہ نے اپنا منہ نصرت کے منہ کے نیچے کر دیا نصرت نے اوپر سے بڑی سی تھوک مدثرہ کے منہ میں پھینکی جسے مدثرہ پی گئی میں دونوں بہنوں کے انداز پر مر رہا تھا مدثرہ نے آگے ہوکر نصرت کے ہونٹوں کو دبا کر چوستے ہوئے چوم لیا مدثرہ نصرت کو چوم کر چھوڑ کر میرے لن کو چوم کر بولی باجی کتنا مزیدار لن اے نصرت سسک کر بولی مدثرہ سود تے اودو دیندا جدو پھدی اچ جاندا مدثرہ بولی اففف باجی اے میری پھدی اچ منڈ دے اور آگے ہوکر میرے لن کے ٹوپے کو کس کر چوس لیا میں سسک کر کراہ گیا نصرت آگے ہوئی اور میرے لن کی سائڈ پر ہونٹ رکھ کر چومتی ہوئی چاٹنے لگی میں کراہ سا گیا نصرت نے آگے ہوکر مدثرہ کے ہونٹوں سے ہونٹ ملا کر دونوں بہنیں مل کر میرے لن کا ٹوپہ چوسنے لگی جس سے میں سسک کر کرا گیا میرا ٹوپہ ایک وقت میں دونوں نصرت اور مدثرہ کے منہ میں تھوک جسے وہ دبا کر چوس رہی تھی دونوں مزے سے ہانپتی ہوئی دبا کر میرا لن چوس رہی تھیں دونوں بہنیں پن ہو چوستی ہوئی میری دونوں سائیڈوں پر ہوکر اپنے ہونٹوں میں میرا لن سائیڈوں سے دبا دیا جس سے میں کرا گیا نصرت اور مدثرہ دونوں میرے لن کو سائیڈوں سے اپنے اپنے ہونٹوں میں بھر کر اپنے ہونٹ اپنے سے ملا کر دبا کر میرے لن کو سائیڈوں سے چوستی ہوئیں میرا لن اپنے ہونٹوں میں دبا کر مسلنے لگی دونوں کے ہونٹ میرا لن جکڑ کر اپنی میں مل رہے تھے نصرت اور مدثرہ دونوں بہنوں کا ناک آپس میں ملا ہوا تھا دونوں ایک دوسرے کو مستی سے دیکھتی ہوئی میرا لن کو دبا کر ہونٹوں میں مسل کر چوس رہی تھیں دونوں اپنے ہونٹوں کو دبا کر میرا لن اپنے ہونٹوں میں آگے پیچھے کرتی اپنی زبان میرے لن پر مسلنے لگی جس سے میں کراہ گیا میرا لن دونوں ہے ہونٹ میں دبا ہو کانپ رہا تھا میں مزے سے نڈھال ہوکر مچلاور کراہ کر کرلا کر بے اختیار کانپتا ہوا منہ اوپر کر کے کراہ بھری تو دروازہ کھلا تھا اور سامنے نصرت اور مدثرہ کے بھائی رافع اور نوشی بڑے انہماک سے اپنی بہنوں کو میرا لن اپنے ہونٹوں میں بھر کر دبا کر چوس رہے تھے دونوں اپنی بہنوں کو دیکھنے میں اتنے مگن تھے کہ ان کا دھیان میری طرف نہیں تھا میں مچل کر کانپ گیا اور نصرت مدثرہ کا سر دبا کر دونوں کے ہونٹ اپنے لن پر دبا کر جھٹکے مار کر اپنا لن نصرت اور مدثرہ کے ہونٹوں کے درمیان پھیرنے لگا دونوں بھائی مجھے اپنی بہنوں کا منہ چودتے دیکھ رہے تھے میں دو تین دھکوں پر ہی سسک کر بکا کر کراہ گیا نصرت اور مدثرہ کے نرم ہونٹوں نے میرے لن سے جان کھینچ لی اور میں کرلا کر بکا کر تڑپ گیا مجھے لگا کہ میری ٹانگوں کی جان میرے لن کی طرف دوڑ رہی ہے جس سے میں تڑپ کر کرلا گیا میری ٹانگیں کانپتی ہوئی تڑپنے لگی اور میں مزے سے دوہرا ہونے لگا نصرت اور مدثرہ سمجھ گئیں کہ میں فارغ ہونے والا ہوں ان کے بھائی بھی سمجھ گئے کہ میں ان کی بہنوں کے سامنے ہمت ہار رہا ہوں نصرت اور مدثرہ نے ہونٹ دبا کر میرے لن کو چوستے ہوئے ٹوپے کہ طرف جا کر میرے لن کا ٹوپہ دونوں بہنوں نے اپنے منہ میں بھر کر داب کر چوستے ہوئے میرے لن پر زبان پھیری جس سے میرا بند ٹوٹ گیا اور میں نے تڑپ کر بکاٹ ماری اور ایک لمبی منی کی دھار نصرت اور مدثرہ کے گلے میں ماری جسے دونوں تڑپ کر کرلا کر پی گئیں مدثرہ اور نصرت کے بھائی نوشی اور رافع میرے لن کے جھٹکے سے نکلی منی کی دھار اپنی بہنوں ہے گلے میں جاتا اور انہیں پیتا دیکھ رہے تھے میں مچل کر کراہ کر جھٹکے مارتا نصرت اور مدثرہ کے منہ میں فارغ ہونے لگا نصرت اور مدثرہ میرا لن نچوڑ کر میری منی پی گئیں میں کرلا کر کراہتا ہوا آہیں بھرتا رہ گیا میرا لن جھٹکے مارتا اپنی بہنوں کے منہ میں منی چھوڑتا دونوں بھائی دیکھ رہے تھے میں کراہتا ہوا پیچھے گر کر بیڈ پر لیٹ گیا نصرت اور مدثرہ نے لن چوس کر کچھ منی اپنے منہ میں رکھ لی دونوں نے لن چوس کر چھوڑ دیا اور ایک دوسرے کو چومنے لگیں میں ہانپتا ہوا لیٹ کر انہیں دیکھنے لگا نصرت نے آگے ہوکر مدثرہ کا منہ کھولا اور اپنے بھائیوں کے سامنے اپنی منی مدثرہ کے منہ میں انڈیل دی اپنی بہن نصرت کے منہ سے مدثرہ کے منہ میں دونوں بھائی میری منی جاتی دیکھ رہے تھی پھر مدثرہ نے اپنے منہ میں گھما کر اچھی طرح مکس کی اور پھر نصرت کے منہ میں انڈیل دی جسے نصرت نے منہ میں گھمایا اور کچھ مدثرہ ہے منہ میں پھینکی اور کچھ خود پی گئی دونوں بہنیں منی پی کر اپنی زبانی نکالیں اور اپنی زبانوں کی نوک ایک دوسرے سے ملا کر کھیلنے لگی دونوں بہنوں کا سیکسی انداز دیکھ کر میں بھی مچل رہا تھا اور ان کے بھائی بھی مچل کر رہا رہے تھے دونوں بہنیں اپنی زبان ایک دوسرے سے ہٹاتی رہیں اور پھر ایک دوسرے کو چوم کر میری طرف بڑھ گئیں نصرت میرا تن کر کھڑا لن دیکھ کر مسل کر بولی مدثرہ سنا لن تگڑا ہے کہ آگے ہک واری میری پھدی اچ فارغ ہوکے وت سادے منہ اچ فارغ ہوکے ہلے تک آدھا کھڑا ہے۔ میری تے تیری ستھری گرم جوانی دی آگ برداشت کرکے وی آکڑیا کھلا مدثرہ ہنس کر بولی باجی لن انج دا ہی ہونا چاہی دا اے میری پھدی نوں سہی ٹکرسی میری پھدی دی اکڑ اے ہی بھنڈی دونوں ہنس کر میرا لن چوسنے لگیں میں کراہ کر فل تیار تھا نصرت بولی مدثرہ آجا ہن اپنے یار دے ہیٹھ میں ہسن دیا اور آٹھ کر بیٹھ گیا مدثر بیڈ پر لیٹ گئی رافع اور نوشی بھی سمجھ گئے کہ اب ان کی بہن چدنے جا رہی ہے نصرت نے آگے ہوکر مدثرہ کی شلوار کو ہاتھ ڈالا اور کھینچ کر مدثرہ کی شلوار اتار دی شلوار اترتے ہی مدثرہ کی بند ہونٹوں والی پھدی کھل کر سامنے آگئی میں نے مدثرہ کی ٹانگیں پکڑ کر دبا کر مدثرہ کے کاندھوں سے لگا دیں مدثرہ ہانتی ہوئی کراہ گئی مدثرہ کی ٹانگیں کانپنے لگیں مدثرہ پھدی مروانے کو اتنی بے تاب تھی کہ مدثرہ کی آہیں نکل کر گونجنے لگیں مدثرہ کی پھدی کے ہونٹ آپس میں جے ہوئے تھے مدثرہ کی گلابی پھدی میرے سامنے تھی نصرت نے آگے ہوکر میرے لن کو ایک چوپا مارا اور مدثرہ کی پھدی کے دہانے پر دبا کر بولی افی ہک ہی جھٹکے اچ لن مدثرہ دی پھدی اچ جانا چاہیے دا۔ سامنے بیٹھے مدثرہ کے بھائی میرا لن اپنی بہن کی پھدی پر یکھ رہے تھے۔ میرا لن مدثرہ پھدی پر محسوس کرکے مچل کر کانپنے لگی مدثرہ کی ٹانگیں کانپنے لگیں میں مدثرہ کی ٹانگیں مدثرہ کے کانوں تک دبا کر پوری شدت سے دھکا مارا جس سے میرا لن مدثرہ کی پھدی کو چیر کر یک لخت پورا جڑ تک مدثرہ کی پھدی میں اتر گیا میرے لن نے مدثرہ کی پھدی کا پردہ پھاڑ کر مدثرہ کو چیر کر رکھ دیا جس سے مدثرہ بے اختیار اچھلی اور اچھل کر پوری شدت سے منہ کھول کر تڑپتی ہوئی زوردار بکاٹ مارا اور بکاٹ مارتی ہوئی مدثرہ اچھل کر تڑپتی ہوئی چنگھاڑ کر تڑپی اور مدثرہ کا سانس ٹوٹ گیا جس سے ایک لمحے کےلیے مدثرہ کی آواز بند ہو گئی مدثرہ درمیان سے دوہری ہوکر تڑپنے لگی ایسا لگا کہ میرے لن نے مدثرہ کہ آواز کھینچ لی ہو مدثرہ کا منہ لال سرخ ہو کر کانپنے لگا مدثرہ کی آنکھیں بند ہو گئیں جیسے مرنے لگی ہو لن اندر جاتے ہی مجھے لگا جیسے لن کسی تندور میں اتر گیا ہو میں تڑپ سا گیا اور ساتھ ہی مجھے مدثرہ کی پھدی سے گرم گرم نکلتا ہوا محسوس ہوا میں نے نیچے دیکھا تو مدثرہ کی پھدی کو میرا لن پھاڑ چکا تھا اور مدثرہ کی پھدی سے خون دھار کی شکل میں بہ رہا تھا میں یہ دیکھ کر ڈر سا گیا پیچھے سے مدثرہ کے بھائی بھی لن مدثرہ کی پھدی میں اتر کر مدثرہ کی پھدی سے نکلتا خون دیکھ رہے تھے نصرت مدثرہ ہو خاموش دیکھ کر مدثرہ کی طرف بڑھی اور مدثرہ کے سینے ہو دبا کر بولی نی مدثرہ رڑا ہو جاویں کی ہویا ہہئی ہمت ہر کجھ نہیں ہوندا مدثرہ۔۔۔ مدثرہ۔۔ برداشت کر ساتھ ہی مدثرہ کا پیٹ دبانے لگی نصرت کا بھی ایک بار رنگ اڑ گیا تھا میں یہ دیکھ کر گھبرا گیا مجھے لگا کہ میرے لن کی سٹ نے مدثرہ کو چیر پھاڑ دیا ہے جس سے مدثرہ کی جان نکل رہی ہو۔ نصرت کے سنبھالنے پر مدثرہ نے سانس کھینچا اور پوری شدت سے زور لگا کر ارڑا کر بکاتی ہوئی زور زور سے دھاڑنے لگی مدثرہ مجھے دھکیلتی ہوئی ہٹانے کی کوشش کرتی ہوئی پوری شدت سے دھاڑنے لگی مدثرہ کے زور سے میں گرنے لگا مدثرہ شور مچاتی میرے نیچے سے نکلنے لگی نصرت نے آگے ہوکر مدثرہ کے ہاتھ میرے سینے سے ہٹا کر قابو کر کے بولی افی لن مدثرہ دی پھدی اچ پھیر کے یہو میں مدثرہ کی تڑپنے سے میں رکا ہوا تھا مدثرہ کی پھدی کی گرمی مجھے نڈھال کر رہی تھی میں مچل کر کراہ رہا تھا میں نے لن کھینچا اور دھکے مارتے ہوئے لن مدثرہ کی پھڈی میں پھیرنے لگا جس سے میرا لن مدثرہ کہ تنگ پھدی میں پھر کر پھدی ہو مسلنے لگا پھدی نے میرا لن اتنا دبوچ رکھا تھا کہ میں مزے سے نڈھال ہوگیا تین چار دھکوں پر ہی میں مزے سے تڑپ گیا مدثرہ مجھے نڈھال کر چکی تھی جبکہ مدثرہ میرے لن کے دھکوں پر دوہری ہوکر چیخ مار کر چیلا کر تڑپ گئی میں ایک دو دھکے مار کر مدثرہ کی پھدی میں فارغ ہوکر کراہ کر نڈھال ہو گیا میں جھٹکے مارتا ہوا مدثرہ ہی پھدی میں فارغ ہونے لگا مدثرہ میرے نیچے پڑی تڑپتی ہوئی بکانے لگی تھی مدثرہ کا جسم تھر تھر کانپنے لگا اور مدثرہ تڑپتی ہوئی بکانے لگی میرا لن مدثرہ کی پھدی نچوڑ کر پی گئی تھی جبکہ میرے نیچے پڑی مدثرہ تڑپ تڑپ کر ہینگنے لگی تھی مدثرہ کی پھدی کو میرا لن چیر چکا تھا میں مدثرہ کی حالت دیکھ کر سمجھ گیا اور پیچھے ہٹ گیا میرا لن مدثرہ کی پھدی سے نکل آیا جس سے مدثرہ کی پھدی پچ پچ کرتی کھلتی بند ہونے لگی نصرت مدثرہ کو تڑپتا چلاتا دیکھ کر مدثرہ کو سنبھالنے لگی میں ہانپتا ہوا کراہنے لگا مدثرہ بکاٹیاں مارتی بکا رہی تھی نصرت اسے سنبھال رہی تھی مدثرہ کی پھدی پھٹ چکی تھی میرا لن مدثرہ کی پھدی کے خون سے بھرا تھا میں ہانپتا ہوا اٹھا اور باہر نکل کر واشروم چلا گیا واشروم سے واپس آیا تو مدثرہ تڑپتی ہوئی ٹانگیں سینے سے لگا کر پڑی تھی نصرت مجھے دیکھ کر ہنس دی اور بولی واہ افی آج تے مدثرہ دی پھدی پاڑ کے رکھ دتی ہئی میں ہنس دیا اور پاس جا کر نصرت کو چومنے لگا نصرت مجھے چومتی ہوئی اپنے اوپر کھینچ لیا میں نے نصرت کا قمیض کھینچ کر اتار دیا نصرت کے تنے ہوئے ممے دبا کر مسلتا ہوا چوسنے لگا نصرت سسک کر میرا ساتھ دینے لگی میں نصرت کے نپلز کس کر دبا کر چوستا ہوا اوپر ہوا اور نصرت کی شلوار کھینچ کر اتار دی جس سے نصرت نے خود ہی اپنی ٹانگیں اٹھا کر میرے کاندھوں سے ملا کر میرا لن اپنی پھدی پر سیٹ کر لیا میں نے پیچھے ہوکر پوری شدت سے دھکا مارا اور اپنا کہنی جتنا لن پورا نصرت کی پھدی میں جڑ تک اتار دیا جس سے نصرت کی بکاٹ نکل کر گونج گئی میں نصرت کی ٹانگیں نصرت کے کاندھوں سے ملا کر پوری شدت سے کھینچ کھینچ کر دھکے مارتا نصرت کو دبا کر چودنے لگا میرا لن تیزی سے نصرت کی پھدی میں آرپار ہوتا نصرت کی پھڈی کو چیرنے لگا جس سے میں مزے سے نڈھال ہونے لگا میں لن کھینچ کھینچ کر نصرت کی پھڈی میں مارتا پوری شدت سے نصرت کو چودنے لگا میرا لن تیزی سے نصرت کی پھڈی کے آر پار ہوتا نصرت کی پھدی مسل کر چیرنے لگا جس سے نصرت دوہری ہوکر کانپتی ہوئی بکانے لگی نصرت کی کاندھوں سے لگی ٹانگیں میرے دھکوں پر ہل جاتیں اور نصرت تڑپ کر بکانے لگتی میں تیزی سے دھکے مارتا ہوا نصرت کی پھدی کو دبا کر چود رہا تھا دو تین منٹ کی چدائی میں نصرت کی پھدی نے میرا لن مسل کر میری جان کھینچ لی میری کرلاتا ہوا بکا کر نصرت کے اوپر ڈھیر ہوگیا میرا لن جڑ تک نصرت کی پھدی میں اتر کر جھٹکے مارتا فارغ ہونے لگا میں کرلاتا ہوا کراہنے لگا اتنے میں نوشی اندر آگیا سامنے مجھے انی بہن کی ٹانگیں کاندھوں سے لگاکر اپنی بہن کی پھدی میں جڑ تک اترے لن کو جھٹکے مارتا فارغ ہوتا دیکھ رہا تھا اس کی آنکھوں کے سامنے اس کی بہن نصرت میرے نیچے دوہری پڑی کانپ رہی تھی اپنی بہن کی کاندھوں سے لگی کانپتی ٹانگیں وہ بھی دیکھ رہا تھا میرے ٹٹے ہوا میں اچھل کر اسکی آنکھوں کے سامنے منہ اس کی بہن کی پھدی میں پھینک رہے تھے مجھے اپنی بہن ہے ہونٹوں سے ہونٹ جوڑے چوستا دیکھنے لگا کمرہ میری اور اسکی بہن نصرت کی کراہوں سے گونج رہا تھا وہ ہماری کراہیں سن رہا تھا اپنی بہن کی پھدی میں جڑ تک اترا میرا لن اپنی بہن کی پھدی کو دبوچ کر نچوڑتا دیکھ رہا تھا دو منٹ میں ہم ہانپتے ہوئے کراہ رہے تھے نصرت میرے نیچے پڑی کانپتی ہوئی میرے ہونٹ چوس رہی تھی نوشی آگے بڑھا اور بولا افی بھائی چابی فیو میں گڈی نوں محفوظ جگہ تے کھڑا کر دیواں وہ بالکل ہمارے اوپر آ کھڑا ہوا۔ میں چونک کر پیچھے دیکھا تو نصرت ہانپتی ہوئی میرے نیچے پڑی اپنے بھائی کو دیکھنے لگی نوشی بھی بڑے انہماک سے ہمیں دیکھ رہا تھا میں سسک کر اسے دیکھا اور بولا جیب ابو کڈھ لئے اور واپس نصرت کو چومنے لگا نصرت بھی اپنے بھائی کے سامنے میرا لن اپنی پھدی میں دبوچتے ہوئے مجھے چومنے لگی نوشی چابی لے کر نکل گیا میں نصرت کو کسنگ کرتا چوسنے لگا۔
جاری ہے
ایک تبصرہ شائع کریں (0)
جدید تر اس سے پرانی

Featured Post