میں وہاں سے سیدھا گلشیر کے پاس گیا اور اس سے بات کی تو گلشیر تیار ہوگیا اس نے بتایا کہ وہ نصرت کو لے تو آئے گا لیکن وہ نصرت کو مطمئن نہیں کر پائے گا میں بولا اس کا بھی حل ہے میں اسے وہیں سے ایک حکیم کے پاس لے گیا اس نے اسے دوا دی اور بتایا کہ اگر خوراک اچھی کر لے تو ٹھیک ہو سکتا ہے میں دوا لے کر باہر آیا اور گلشیر کو وہیں کھڑا کر کے حکیم کے پاس گیا اور اس سے پوچھا کہ ایسی دوا دینی تھی کہ اسکے جراثیم مر جاتے وہ ہنس پڑا اور بولا فکر نا کر یہ ویسے ہی نامرد ہے اس کے اندر پانی نہیں ہے صرف اس کا لن اکڑے گا تھوڑا بہت پانی چھوڑے گا لیکن بچہ نہیں پیدا کرے گا حکیم مسکرا کر بولا بے فکر رہو بچہ تمہارا ہی پیدا ہو گا میں ہنس دیا حکیم نے مجھے دوا دی اور بولا کہ اسے استعمال کرو مزید تگڑے ہو جاؤ گے میں وہاں سے آگیا اور گلشیر ہو لے کر گھر پہنچا جہاں اس کی نصرت سے صلح کروائی لیکن نصرت نے شرط رکھ دی کہ وہ اب یہیں رہے گی گلشیر مان گیا میں نے نصرت سے پوچھا تو وہ ہنس کر کہنے لگی کہ تمہارے ساتھ بھی تو مزے کرنے ہیں نا گھر چلی گئی تو تم نے وہاں کوئی آنا ہے مدثرہ اور ماہم میں ہی مصروف رہنا ہے میں ہنس دیا میں وہاں سے آگیا اگلے دن میں نوشی کو لے کر اسلام آباد آگیا جہاں اس کے ویزے پر کام کرنا تھا وہاں دو دن رکنا پڑا دو دن بعد ہم سیدھے نصرت کے گھر پہنچے ہم گھر پہنچے تو عصر سے کچھ پہلے کا وقت تھا نصرت اپنی ماں کے پاس بیٹھی تھی اس کے ساتھ اس کی بیٹیاں بھی بیٹھی تھیں دونوں کپڑے بنا رہی تھیں نصرت ان کو بتا رہی تھی مدثرہ اور ماہم چھت پر بچوں کو پڑھا رہی تھیں مجھے دیکھ کر نصرت ہنس دی میں نصرت کو دیکھ کر مسکرا دیا نصرت تو آج چمک رہی تھی مجھے دیکھ کر نصرت کھڑی ہو گئی ہم جا کر نصرت اور آنٹی کے پاس پہنچ کر سلام دعا کی نصرت نے جواب دیا میں آنٹی والی چارپائی پر بیٹھ گیا تو نصرت کی دونوں بیٹیاں مجھے دیکھ کر مسکرانے لگی تھی میری نظر وجیہ پر پڑی تو وہ مجھے غور کر مسکرا رہی تھی وجیہ نصرت کی بچپن کی تصویر تھی وہی پتلی سی نازک سی نصرت جو وجیہ کے روپ میں بیٹھی تھی میں تو وجیہ کو دیکھتا ہی رہ گیا تھا وجیہ بھی مجھے گہری نظروں سے دیکھتی ہوئی مسکرا رہی تھی نصرت کی جوانی تو خود بے قابو کر دیتی تھی یہ تو پھر اسکی بیٹیاں تھیں میں دو دن سے نصرت سے دور تھا۔ لیے نصرت کی یاد بھی بڑی ا رہی تھی میرا لن سر اٹھانے لگا تو نصرت بولی کی بنیا میرے بھرا دا میں نصرت کی آواز سے چونکا اور نصرت کو دیکھا تو نصرت مجھے گہری آنکھوں سے غور رہی تھی میں نصرت کو دیکھ کر مسکرا دیا نصرت بھی ہلکا سا مسکرا دی نصرت نے مجھے اپنی بیٹی وجیہ کو تاڑتا دیکھ لیا تھا جس سے نصرت میری توجہ اس سے ہٹانے لگی تھی میں نصرت ہو دیکھ کر مسکرا کر بولا نصرت ہنڑ شروع ہو گئے ہاں تے تیرے بھرا نوں باہر گھل کے ہی رہساں نصرت مسکرا دی وجیہ اور زرناب دونوں مجھے ہی غور رہی تھیں میں بھی انہیں ہی دیکھ رہا آنٹی بولی نصرت اوہناں نوں پانی تے پیوا آؤندیاں نال ہی شروع ہو گئی ہیں میں ہنس دیا نصرت زرناب سے بولی جا پانی لئے آ زرناب آٹھ کر کیچن میں چلی گئی پانی لینے نصرت وجیہ سے بولی وجیہ بس کر کپڑے اندر رکھ جا کے وجیہ آٹھ کر اندر چلی گئی نصرت میری آنکھوں میں غورنے لگی میں مسکرا کر اسے دیکھنے لگا نصرت کی آنکھوں میں شہوت اتر آئی تھی وہ مجھے مستی سے غور رہی تھی آنٹی بولی افی اتنے سفر تو تسی تھک تے گئے ہوسو میں مسکرا کر بولا آنٹی ظاہری گل اے تھکاوٹ تے ہوجاندی آنٹی مسکرا نصرت سے بولی نصرت وت دی آج تھکاوٹ چنگی طرح لاہ مجھ سے بولی افی آج اپنی ساری تھکاوٹ توں نصرت تے کڈھ دے نصرت اپنی ماں کی بات سن کر چونک سی گئی اور شرما کر اپنے بھائی نوشی کو دیکھا جو پاس ہی بیٹھا تھا نوشی بھی اپنی ماں کی بات سن کر شرمندہ سا ہوگیا دونوں بہن بھائیوں کی آپس میں نظر ٹکرا کر گھوم گئی دونوں شرمندہ سے ہوگئے میں بھی آنٹی کے یوں نوشی ہے سامنے کہنے پر شرمندہ سا ہوگیا تھا نوشی خود ہی اٹھ کر واشروم چلا گیا نصرت اپنی ماں سے ناراض ہوتے ہوئے بولی امی بھائی دے سامنے تے اے گل نا کریں ہا آنٹی بولی بس کر نصرت کجھ نہیں ہویا بھائی نوں وی پتا ہے افی اس واسطے ہی ایڈا اوکھا ہوندا ودا جے اس دی بھین افی دی تھکاوٹ لاہ چھڈے تے کجھ نہیں ہوندا نصرت شرما سی گئی اور اپنی ماں کو دیکھ کر بولی امی توں وی ناں۔ کی آنکھوں تینوں اور ہنس کر مجھے دیکھ کر بولی افی ہنڑ توں آپ ہی دس بھلا میں ایتھے ساریاں دے سامنے تیرے ہیٹھ پئی چنگی لگساں میں ہنس کر بولا کوئی گل نہیں آنٹی بولی کوئی گل کیوں نہیں افی نوشی واسطے ہی اے کر رہی اے تے نال بچہ پیدا کرنے واسطے تے کجھ نہیں ہوندا توں اج دی رات افی کول وگ جا میں آنٹی کی اس بات پر چونک گیا اور نصرت کو دیکھا نصرت شرما سی گئی اور آنکھیں اٹھا کر مجھے دیکھا میں نصرت کو دیکھ رہا تھا آنٹی کی بات مجھے بھی اچھی لگی تھی اگر آج نصرت میرے ساتھ سجائے تو مزہ آ جائے آج ساری رات نصرت کو سونے ہی نا دوں نصرت میری آنکھوں میں دیکھ کر بولی امی افی نال کیویں جاساں گھر دے کی آکھسن آنٹی بولی نصرت کجھ نہیں ہوندا گھر اچ وی ساریاں نوں ہی پتا اے وگ جا افی نال اج دی رات افی کول رہ ا کجھ نہیں ہوندا نصرت اس بات پر منہ نیچے سی کر گئی اتنے میں زرناب پانی لائی اور مجھے پکڑا دیا نوشی بھی آگیا تھا میں پانی پینے لگا نصرت منہ نیچے کیے کچھ سوچ رہی تھی نوشی پاس آکر پانی پینے لگا نصرت نے زرناب کو بھی اندر بھیج دیا آنٹی نصرت سے بولی نصرت وت کی خیال اے نصرت نے آنکھ اٹھا کر نوشی کو دیکھا اور خاموش ہو کر منہ نیچے کر لیا نصرت کا منہ لال سرخ ہو کر چمک رہا تھا نصرت کے ناک میں کوکا قیامت ڈھا رہا تھا میں نصرت کو دیکھ رہا تھا آنٹی نوشی سے بولی نوشی ہک گل کرنی ہا نوشی بولا جی امی نصرت کا منہ جھک گیا آنٹی بولی نوشی کے نصرت آج دی رات افی کول وگ جاوے تینوں اعتراض تے کوئی نہیں نوشی اس بات پر چونک گیا نصرت اپنے بھائی کے سامنے میرے ساتھ جانے کی بات پر شرم سے لال ہو رہی تھی نوشی نے ایک نظر نصرت کو دیکھا اور بولا امی مینوں کی اعتراض ہونا باجی نوں تے افی نوں پتا اگر باجی جانا چاہندی تے میں کیوں روکنا آنٹی مسکرا کر بولی لئے نصرت تیرے بھرا نوں تے کوئی اعتراض نہیں ہنڑ ہور کس تو پچھنا اے میں تے آکھدی آں وگ جا آج دی رات افی چنگی طرح لائی تے وت کسر نہیں رہندی بچہ وی جلدی بن جاسی نوشی اپنی بہن کا ناجائز بچے والی بات سن کر باجی کو دیکھ رہا تھا نصرت بولی امی مینوں نہیں پتا اور اٹھ کر بولی میں چاہ بنا لواں آنٹی اسے جاتا دیکھنے لگی میں نصرت کی موٹی باہر کو نکلی گانڈ کو غور رہا تھا نوشی مجھے اپنی بہن کی گانڈ دیکھتا دیکھ رہا تھا آنٹی بولی افی توں آپ ہی منا اس نوں توں اس نوں پورا ٹائم دے توں اس دے اندر بچہ بنسی نوشی خاموشی سے سن رہا تھا میں بولا آنٹی اگر او نہیں جانا چاہندی تے کوئی زبردستی نہیں نا پریشان کر اس نوں میں کچھ دیر بیٹھا رہا پھر آنٹی بولی توں آپ ہی جا کے اس نوں منا لئے میں یہ سن کر مسکرا دیا اور آٹھ کر کیچن میں چلا آیا نصرت سنک پر کھڑی ہوکر چائے بنا رہی تھی میں اندر گیا تو نصرت مجھے دیکھ کر مسکرا کر منہ نیچے کر گئی میں بولا سوہنیے لفٹ ہی نہیں کروا رہے نصرت نے مسکرا کر مجھے دیکھا تو نصرت کی گہری کاجل سے بھری آنکھوں میں شہوت بھری تھی ہونٹوں پر لال سرخی اور کسے پھولوں والے قمیض میں تن کر کھڑے ممے قیامت ڈھا رہے تھے پیچھے پڑی لمبی گت جو باہر ہو نکلی گانڈ پر پڑی نصرت پر سج رہی تھی نصرت کی کمان کی طرح تنی کمر نصرت کے حسن پر قیامت ڈھا رہی تھی نصرت مسکرا مجھے دیکھ رہی تھی میں اندر جاتے ہیں نصرت کو سائیڈ سے اپنی بازو میں بھرا اور سینے سے دبا کر نصرت کے ہونٹوں کو چوم لیا نصرت نے اپنے ہونٹ کھولے اور میرے ہونٹ اپنے ہونٹوں میں بھر کر دبا کر چوس لیے میں سسک کر نصرت کی کمر میں ہاتھ ڈال کر نصرت کی کمر مسلتا ہوا نصرت کو چوسنے لگا میرا ہاتھ پھسلتا ہوا نیچے نصرت کی کمر پر گیا تو نصرت کی بھری ہوئی نرم گانڈ کو دبا کر مزا آگیا میرا لن تن کر کھڑا تھا میں نصرت کے چتڑوں پر ہاتھ پھیرتا ہوا سسکنے لگا میں نے قمیض اٹھا کر نصرت کی شلوار میں ہاتھ ڈال کر نصرت کی ننگی گانڈ کو مسلنے لگا نصرت سسک کر کراہ سی گئی اور ہانپنے لگی نصرت میرے ہونٹ فل زور سے دبا کر چوستی ہوئی سسک رہی تھی میں نصرت کے ہونٹوں کو چھوڑ کر بولا نصرت تیری چت تے بڑی نرم ہے کدی مروائی ہئی نصرت نے میری آنکھوں میں دیکھا اور ناں میں سر ہلایا میں مسکرا کر بولا چلو کوئی شئے تے تیری وی سیل پیک اے ساڈے واسطے ویسے کیوں نہوں مروائی بڑا سواد آندا نصرت نے مجھے غور کر دیکھا اور بولی گلشیر مسیں پھدی ماردا ہے چت فر کس نال مارنی ہاس اور مسکرا کر مجھے دیکھنے لگی میں مسکرا کر نصرت کی نرم گانڈ سے کھلنے لگا جس سے مجھے مزا آنے لگا میں سسک کر نصرت کی گانڈ دبا کر بولا افففف نصرتتتت کیا چت ہے تیری آج کدی میرے کول آجاویں نا تے تیری چت نوں پاڑ کے رکھ دیواں ویسے آج مینوں تیرے تے بڑی گرمی چڑھی ہوئی اے آج میرے نال آجا آج ساری گرمی تیرے تے کڈھساں نصرت گانڈ دبوا کر سسک رہی تھی نصرت بولی افی تیرے لن دی عادت تے مینوں وی پئے گئی اے تیرا لن سواد بڑا دیندا پر افی اپنیاں بھیناں تے دھیاں دے سامنے تیرے نال تیرے کول اونٹ جاواں تے بڑا عجیب جیا لگسی میں بولا کہڑا عجیب لگنا اوہنا نوں وی تے پتا ہے نا نصرت بولی نوشی تے رافع تو علاؤہ کسے نوں نہیں پتا میں مسکرا کر بولا تے وت لگن دے پتا اوہناں وی ہک دن میرے ہیٹھ ہی آنا نصرت نے ہنس کر مجھے دیکھا اور بولی ویسے تینوں سمجھایا ہا توں مڑ میری دھیاں تے ھ رکھی ودا ایں میں مسکرا کر بولا میری جان تیری دھیاں وی تے میرے تے اکھ رکھی ہوئی اے نصرت بولی او تے ہلے نادان ہینڑ اوہناں نوں نہیں پتا توں تے سمجھدار اے میں بولا کوئی ذری نہیں نادان اوہناں نوں سارا پتا اے لن پھدی واسطے ہی بنیا ہویا اے ویسے کی خیال اے وت وجیہ نوں میرے نال گھل چا نصرت نے مجھے غورا اور بولی پاگل ایں جیڈا توں تے تیرا لن ترکڑا تے وجیہ نیو جئی اے توں تے وجیہ دی جان کڈھ لینڑی میں سے رسک نہیں لیندی میں بولا کجھ نہیں ہوندا میں حوصلے نال استعمال کرساں گیا وہ بولی جی نہیں گلشیر نوں پتا لگا میرے نال تیری وی جان کڈھ کیسی میں بولا توں تے آکھیا ایں اس نوں دھیاں دی لوڑ نہیں وے اپنی مرضی کرنٹ دے یہ کہ کر میں نصرت کے پیچھے آچکا تھا میں نصرت کو باہوں میں بھر کر نصرت کے ممے دباتا ہوا نصرت کی گرم کو چاٹنے لگا نصرت کے ممے تن کر کھڑے تھے نصرت کے مموں کی لکیر صاف نظر آ رہی تھی میں نصرت کی گال کو دبا کر منہ میں بھر کر چوس کر نصرت کے ممے دبا کر مسلتا ہوا نصرت کو سینے سے دبا لیا نصرت فل میری باہوں میں دب کر سسکتی ہوئی کراہنے لگی میرا لن نصرت کی گانڈ میں چبھتا ہوا نصرت کے چڈوں میں گھس گیا جسے نصرت نے دبا کر کس لیا میں نصرت کے چڈوں کی گرمی سے مچل کر کرا گیا میں نصرت کے موٹے ممے کس کر دباتا ہوا نصرت کی گال کو چوس رہا تھا مجھے نیچے نصرت کے مموں کی لکیر نظر آرہی تھی مجھے شرارت سوجھی اور میں نے ایک بڑی سی تھوک سیدھی نصرت کے مموں کی لکیر کے درمیان پھنک دی نصرت میری تھوک اپنے مموں کی لکیر میں محسوس کر کے مچل کر کانپ گئی مجھے نصرت کے کانپنے پر مزہ آیا میں نے ایک اور تھوک سیدھی نصرت کے مموں کی لکیر میں پھینکی جس سے نصرت کے مموں کی لکیر گیلی نظر آنے لگی نصرت نے میرے ہونٹوں سے ہونٹ ملائے اور میرے لن کو اپنے چڈوں میں دبا کر خود ہی ہلکے ہلکے جھٹکے مارتی میرے لن کو رگڑنے لگی میں نصرت کے چڈوں میں لن رگڑتا محسوس کر مچل کر کراہنے لگا نصرت میری زبان کھینچ کر اپنے میں دبا کر چوستی ہوئی میرے لن کو دبا کر رگڑنے لگی میں ایک ہاتھ نصرت کی کمر میں ڈال کر نصرت کو جھٹکے مارتا دوسرے ہاتھ سے نصرت کے ممے کو مسل کر فل مزے سے انجوائے کر رہا تھا کہا تنے میں کیچن میں نصرت کا بھائی رافع آگیا جیسے ہی وہ اندر آیا تو سامنے اپنی بہن کو پیچھے سے مجھے چمٹا دیکھ کر وہ چونک سا گیا میرے ایک ہاتھ اپنی بہن نصرت کی کمر کو دبائے اور دوسرے ہاتھ ہو اپنی بہن کے مموں پر دیکھ کر اپنی بہن نصرت کے منہ سے جڑا میرا منہ دیکھ کر رافع چونک گیا اس کی بہن نصرت میری باہوں میں جکڑی تھی اور میرے سینے سے لگی خود اپنی گانڈ ہلاتی ہوئی میرا لن اپنے چڈوں میں دبا کر مسل کر کراہ رہی تھی رافع اپنی بہن کو دیکھ کر چونک گیا تھا اسی لمحے میری بھی اس پر نظر پڑی تو میں نے نصرت کے منہ سے اپنی زبان کھینچ لی پچ کی آواز سے میری زبان اپنی بہن کے منہ سے نکلتا دیکھ کر رافع چونکا میں جلدی سے اسی کی بہن کو چھوڑ کر پیچھے سے ہٹ گیا میرا تنا ہوا لن اپنی بہن کے چڈوں سے نکلتا رافع نے بھی دیکھ لیا تھا نصرت میرے یوں چھوڑنے پر چونکی اور آنکھیں کھول کر مجھے سوالیہ انداز میں دیکھا تو میں دروازے کی طرف دیکھ رہا تھا نصرت نے مڑ کر دروازے کو دیکھا تو وہ بھی چونک کر جلدی سے سیدھی ہوگئی رافع کی نظر اپنی بہن نصرت کے تنے ہوئے مموں پر گئی جہاں نصرت کے مموں کی لکیر میری تھوک سے گیلی صاف نظر آ رہی تھی میں نصرت کے مموں کی لکیر پر رافع کی نظر دیکھ رہا تھا رافع بھی ایک نظر دیکھ کر گھونٹ بھر کر رہ گیا میں رافع کو گھونٹ بھرتا دیکھ کر سمجھ گیا نصرت بھی اپنے بھائی اپنے ممے تاڑتا دیکھ کر شرما گئی اور جلدی سے سنبھل کر چائے کی طرف دھیان دینے لگی تو رافع بھی سنبھل سا گیا اور بولا باجی پانی پیونڑ آیا ہاس نصرت نے ایک نظر اسے دیکھا جو چوری سے اپنی بہن کے ممے تاڑ رہا تھا نصرت بولی اگاں آکے پی لئے یہ سن کر اس نے نظر اٹھا کر اپنی بہن کا جلوہ دیکھا تو اس کی بہن کا سکیسی بدن اسے بھا سا گیا رافع اندر آیا اور نظر نیچے کیے اندر پانی پینے چلا گیا میں نصرت سے الگ ہوکر نصرت کے پاس ہی کھڑا تھا نصرت کا بدن رافع کو بھی پسند آیا اس دوران ہم دونوں ہی چپ رہے رافع پانی پی کر نکل گیا میں نے نصرت کو دیکھا تو وہ مجھے دیکھ کر شرما کر مسکرا گئی میں ہنس کر بولا نصرت تیرا جسم تے قیامت سے تیرے بھراواں دی وی جان کڈھ رہیا اے نصرت مسکرا کر بولی وے بکواس نا کر میں ہنس دیا اور نصرت کے پیچھے گیا نصرت کسمسا سی گئی اور بولی وے بس کر ہنڑ میں گرمی سے پہلے ہی تنگ تھا نصرت کا منع کرنا مجھے اچھا نا لگا میں تپ سا گیا اور تھوڑا سخت لہجے میں بولا نصرت ہک وار تے کرن دے نال وی نہو اؤ تے ایتھے وی مزہ نہیں دے رہی تیرا مینوں کی سکھ اے نصرت نے نظر گھما کر مجھے دیکھا اور میرے تیور دیکھ کر چپ سی ہو گئی اسے شاید اپنی غلطی کا احساس ہوگیا تھا وہ گھوم کر میری طرف ہوئی اور میرے سینے سے لگ کر میرے ہونٹ چوم کر بولی میری جان ناراض تے نا ہو میں تے انجے آکھیا ہا اصل اچ سارے ودے ہین نا تے اس توں ہکلا بندہ ہووے تے وت کوئی منع کردی آں میں نصرت کو پگھلتا دیکھ کر مچل گیا میرا دل کیا نصرت کو تھوڑا اور تنگ کیا جائے میں تھوڑا مصنوعی غصے میں بولا بس کر نصرت توں تے دو دن اچ ہی میرے توں رج گئی ایں میں تیرے واسطے کی کر رہیا آں توں تے انج میرے نال رکھی بولدی پئی ایں نصرت مجھے سچ مچ ہی ناراض سمجھ کر نادم سی ہوکر گھبرا گئی نصرت کا منہ لال ہوگیا اور نصرت کے منہ سے لالی غائب ہونے لگی نصرت میرے قریب ہوکر بولی میری جان سوری میرا ایو جہیا مطلب بالکل نہیں میں تے ایویں آکھ رہی ہاس میں تھوڑا لال ہوکر ماتھے پر تیور ڈال کر بولا چھڈ نصرت تیرے توں اے امید ناہ نصرت سچ مچ ہی میرے رویے سے گھبرا گئی اور میرے چہرے کو اپنے ہاتھوں میں بھر کر بولی میری جان انج نا کر میں آکھ رہی آں ناں ایسی گل نہیں پلیز نا ناراض ہو میں نصرت کے ہاتھ ہٹا کر بولا توں رہن دے اور نصرت کو ہٹا کر نکلنے لگا تو نصرت نے بھاگ کر مجھے پکڑ لیا اور بولی وے افی کی ہویا نا جا نا ویکھ لئے میں تیرے آگے ہتھ پئی جوڑدی آں مینوں معاف کردے اگاں تینوں ایو جہیا گل نا کرساں اور یہ کہ ہر میرے سامنے ہاتھ جوڑ دیے میں بولا نصرت ہنڑ مسکے نا لا مینوں جاونڑ دے میں آگے بڑھنے لگا تو نصرت جھٹ سے میرے پاؤں پڑ گئی اور میرے پاؤں پکڑ کر بولی وے ظالما مینوں نا چھڈ کے جا میں تیرے پیری پوندی آں مینوں معاف کردے نصرت کا منہ لال ہوکر رونے جیسا ہوگیا تھا میں نصرت کو دیکھ کر ہنس دیا مجھے نصرت کی حالت دیکھ کر نصرت پر ترس سا آگیا میں ہنس کر نیچے ہوا اور نصرت کو کاندھوں سے پکڑ کر اٹھا لیا اور مسکرا کر نصرت کے ہونٹوں کو چوم کر بولا نصرت تینوں بھلا میں چھڈ سگدا آں نصرت مجھے مسکراتا دیکھ کر ہنس دی نصرت کی جان میں جان آئی اور نصرت کا لال چہرہ کھل سا گیا نصرت مسکرا کر میرے سینے سے لگ کر بولی افی توں بہوں ڈھاڈھا ہیں میں تینوں بھلا انج ناراض کر سگدی ان ہنڑ توں میری جان ایں میں ہنڑ تیرے توں بغیر نہیں رہ سگدی افی ہنڑ مینوں تیرے نال پیار ہو گیا اے پلیز مینوں معاف کردے مینوں نا چھوڑیں میں نصرت کی بات پر ہنس کر بولا نصرت تیرے جئی آگ دی بھری جوانی نوں ہوں چھڈدا جیڈا سواد تیری پھدی دیندی کوئی ہور نہیں دیندی میں تے ایوں شگل لایا تیرے نال نصرت میری بات سن کر پیچھے ہوئی اور میرے سینے پر تھپڑ مار کر بولی بہوں گندہ ایں میرے امتحان لیندا ایں میں نصرت کی بات پر ہنس دیا نصرت مڑ کر چائے بنانے لگی میں نصرت کو باہوں میں بھر کر چومتا ہوا نصرت کے ممے دبا کر بولا نصرت توں تے میری جان ایں میرا لن ہنڑ تینوں ہی منگدا اے نصرت مسکرا کر میرے ہونٹ اپنے ہونٹوں میں بھر کر چوس کر بولی میری جان میری پھدی نوں وی تیرے لن دا نشہ چڑھ گیا سے ہنڑ نہیں رہندی تیرے لن توں بغیر میں بولا وت کی خیال اے ہک واری پھدی اچ لن مروا نہوں کی دی نصرت مسکرا کر بولی نیکی اور پوچھ پوچھ میں ہنس کر نصرت کو چومنے لگا نصرت بھی میرا ساتھ دیتی ہوئی مجھے چومنے لگی میں نصرت کے ممے دبا کر نصرت کی گال کو چوس کر نصرت کو کس کر دبوچ کر چوس رہا تھا نصرت میرا ساتھ دیتی سسک رہی تھی میں نصرت کا قمیض اٹھا کر نصرت کے ممے ننگے کرکے مسلنے لگا نصرت سسک کر کراہنے لگی نصرت کے نپلز تن کر اکڑ رہے تھے نصرت سسک کر اپنی شلوار خود ہی نیچے کرکے میرے کان میں بولی افی مار میری پھدی ہنڑ یہ کہ کر نصرت میرا لن خود ہی نکال کر اپنی پھدی سے لگا کر ہلکا سا پش کرکے میرا ٹوپہ اپنی پھدی میں دبا لیا جس سے نصرت کراہ کر کرلا سی گئی میں نصرت کے ہونٹ دبا کر چوستا ہوا نصرت کی گانڈ کو دبا کر دھکا مارا اور اپنا لن جڑ تک نصرت کی پھدی کے پار کردیا جس سے نصرت تڑپ کر کرلا سی گئی میرا لن نصرت کی پھدی میں جاتے ہی میں مچل کر کراہ سا گیا نصرت کی پھڈی میرے لن کو دبوچ کر نچوڑ رہی تھی میں نے مچل کر نصرت کی گال کو دبا کر چوستے ہوئے لن کھینچ کر دھکے مارتا ہوا لن تیزی سے نصرت کی پھدی کے آرپار کرتا نصرت کی پھدی کو چودنے لگا جس سے نصرت کراہ کر تڑپنے لگی میرا لن تیزی سے نصرت کی پھدی کو گھیلتا ہوا اندر باہر ہوتا پھدی کو مسلنے لگا جس سے میری کراہیں نکلنے لگی میں مزے سے نصرت کی گال کو چوس رہا تھا نصرت کی نرم گال مجھے مزے سے نڈھال کر رہی تھی نصرت کی گال کی تھوک میرے اندر آگ رہا تھی میں مچل کر کر کراہتا ہوا بے اختیار تیز تیز دھکے مارتا نصرت کو کس کر چود رہا تھا نصرت بھی تڑپتی ہو سنک پر جھک کر کراہتی ہوئی آہیں بھرنے لگی میں مزے سے بے قابو ہوکر نصرت کی گال کو دانتوں میں بھر کر دبا کر کاٹ لیا جس سے میرے اندر آگ سی لگ گئی اور میں نصرت کی گال دانتوں میں دبا کر کس کر چوستا ہوا دانتوں میں دبا کر کس کر دھکے مارتا تیزی سے لن نصرت کی پھدی میں پھیرتا نصرت کو پوری شدت سے چیرنے لگا جس سے نصرت بھی تڑپ کر بکانے لگی میں پوری شدت سے نصرت کی گال کو چک مارتا نصرت کو چود رہا تھا اسی لمحے نوشی بھی کیچن میں آگیا سامنے مجھے نصرت کی گال کو چک مارتا تیزی سے گھسے مارتا لن نصرت کی پھدی میں پھیرتا ہوا چودتا دیکھ کر رک گیا جس سے نوشی اپنی بہن کو تڑپ کر کرلاتا دیکھ رہا تھا نصرت کی گانڈ نوشی کے سامنے ننگی تھی اور میرا لن تیزی سے نصرت کی پھدی میں اندر باہر ہوتا نوشی دیکھ کر ہٹ گیا میں پوری شدت سے دبا کر نصرت کو چود کر نصرت کی بکاٹیاں نکال دیں نصرت کی کرلاٹیں سے کیچن گونج گئی دو منٹ میں نصرت نے میرا کام تمام کر دیا میں دھکے مارتا کرلا کر کراہتا ہوا لن نصرت کی پھدی میں اتار کر نصرت کی پھدی میں فارغ ہوگیا جس سے نصرت بھی تڑپ کر کراہتی ہوئی میرے ساتھ فارغ ہوگئی میں کراہ کر فارغ ہوتا دانت نصرت کی گال میں دبا دیے جس سے میرے دانت نصرت کی گال میں چبھ گئے میں اور نصرت تڑپ کر فارغ ہوتے ہوئے کانپنے لگے اسی لمحے نصرت کی بہن ماہم کیچن میں داخل ہوئی اور سامنے کا منظر دیکھ چونک کر چیخ ماری اور منہ پر ہاتھ رکھ کر وہیں رک گئی سامنے اپنی بہن نصرت کے ممے اور ننگی گانڈ دیکھ کر سمجھ گئی کہ میں نصرت کو چود رہا تھا ہمیں کانپتا ہوا کراہیں بھرتا دیکھ کر وہ بھی سمجھ گئی کہ میرا لن اس کی بہن کی پھدی میں اترا ہوا فارغ ہورہا تھا نصرت بھی کانپتی ہوئی کرلاتی فارغ ہو رہی تھی ماہم حیرانی سے منہ پر ہاتھ رکھے اپنی بہن نصرت کو نیم ننگی حالت میں میری باہوں میں دیکھ رہی تھی میں نصرت کی گال کو دبا کر چوستا ہوا نصرت کے اندر فارغ ہو رہا تھا نصرت کی پھدی میرا لن دبا کر نچوڑ رہی تھی ماہم کچھ لمحے دیکھتی رہی پھر چلی گئی تب کر نصرت کی پھدی میرا لن نچوڑ کر چوس چکی تھی میں آہیں بھرتا نصرت کے اوپر گر سا گیا نصرت بھی ہانپتی ہوئی نیچے ہو گئی میں نصرت کے اندر فارغ ہوکر ہلکا سا محسوس کرنے لگا تھا نصرت ہانپتی ہوئی کراہ رہی تھی میرے دانت نصرت کی گال میں چبھ گئے تھے جس سے نصرت کی گال پر میرے دانتوں کے نشان بن گئے اور نصرت کی گال لال ہو گئی تھی میں دیکھ کر مچل سا گیا نصرت ہانپتی ہوئی تڑپ رہی تھی میں نصرت کی گال پر اپنے دانتوں کی نشان پر زبان پھیرتا سرگوشی میں بولا سوری میری جان نصرت ہانپتی بولی کوئی گل نہیں میری جان اے تیری محبت دی مہر لگی اے میں مسکرا کر نصرت کو چومنے لگا میں دو منٹ تک نصرت کو چومتا آہستہ آہستہ ہم سنبھل کر ہوش میں آگئے میں نصرت سے بولا نصرت تیری بھین ماہم ویکھ لیا ہے تینوں یہیندیاں ہویاں نصرت ہنس کر بولی چنگی گل اے ویکھ کیا ہیس تے اس وی تیرے کولو ہی یہونا اے میں مسکرا دیا اور نصرت کو چومنے لگا نصرت چائے بنانے لگی میں پیچھے ہوکر لن نکالنے لگا تو نصرت نے جلدی سے ہاتھ پیچھے کرکے میری کمر پکڑ کر مجھے روک لیا میں نے نصرت کو دیکھا تو نصرت بولی ہک واری اندر ہی رہن دے میری پھدی نوں اپنے لن نوں چنگی طرح چوسنے تے دے میں ہنس دیا اور نصرت کو باہوں میں بھر کر دبوچ کر نصرت کی گال چوسنے لگا نصرت چائے بنانے لگی نصرت کی پھدی میرا لن دبوچ کر چوس رہی تھی میں نصرت کی گانڈ اپنے ساتھ دبا کر چوستا ہوا نصرت کے ممے مسلنے لگا نصرت بھی میرا ساتھ دیتی کام کرتی ہوئی مجھے چوس رہی تھی میرا لن نصرت کی پھدی میں جڑ تک اترا ہوا تھا میں نصرت کے ممے مسل کر دبا کر چوسنے لگا اسی لمحے آنٹی بھی اندر آگئی اور اپنی بیٹی کی ننگی گانڈ میرے ساتھ لگا دیکھ کر سمجھ گئی کہ میں اسے چود رہا تھا آنٹی بولی نصرت نوں اج اپنے نال لئے جا آج ساری رات اپنی گرمی لاہ لئو دوویں جینے میں ہنس کر بولا آنٹی میں تے تیار ہاں نصرت نے میرے ساتھ لگ کر مجھے دیکھا اور مسکرا کر بولا اچ گلشیر آیا ہا میں بولا وت کی آدھا نصرت مسکرا کر بولی او اپنی سدھر لاہ گیا میں تے حیران ہاں اسدا لن تے سہی کھڑا ناہ وندا آج تے بڑا کھڑا ہویا پر میرے تو پہلے ہی فارغ ہوگیا آنٹی بولی نصرت چھڈ توں اسدا نام ہی بنانا ہے بچہ تے افی دس ہونا اے نصرت بولی امی میں ویسے افی نوں دس رہی ہاں کہ ہنڑ کوئی ڈر نہیں اور میری آنکھوں میں دیکھ کر بولی میں تے اے آکھ رہی آں کہ ہم جلد تو جلد مینوں حاملہ کر دے میں ہنس دیا اور بولا میری جان ہن توں حاملہ ہو جاسیں نصرت ہنس کر میرے ہونٹ چومنے لگی میں بھی نصرت کو چومنے لگا اتنے میں چائے پک گئی جسے نصرت نے کپ میں ڈال دیا میں اتنے میں پیچھے ہوا اور لن نصرت کی پھدی سے کھینچ کر نکال لیا نصرت کراہ کر مچل گئی اور نصرت بولی اففف افی تیرا لن تے پھدی چھل کے رکھ دیندا اے میں مسکرا دیا نصرت نے اپنے کپڑے اوپر کیے اور چائے اٹھا کر چلی گئی میں بھی باہر نکل آیا