ڈکیت قسط نمبر:5


اس سے باتیں کرتے کرتے میرا جسم گرم ہو چُکا تھا۔ حقیقت میں تو میں چاہ رہی تھی کے وہ اسی وقت آجائے۔ اس سے باتیں کرتے کرتے میرا جسم بہت لیکن ایسا فی الوقت ممکن نہیں تھا۔ کچن میں کام کرتے ہوئے بھی میرا دھیان اس کی باتوں میں اٹکا رہا۔ میں یہی سوچتی رہی کے کیسے موقع ملے کے میں اُس کے ساتھ کچھ پل گُذار سکوں۔ میرے شوہر دفتر چلے جاتے تھے، دیور اور نند بھی سکول اور کالج چلے جاتے تھے جبکہ سُسر بھی گھر میں کم ٹکتے تھے۔ ایک ساس تھیں جو میرے ساتھ گھر میں ہی رہتیں تھیں لیکن ان کا بھی اڑوس پڑوس جا کر دوسری عورتوں کے ساتھ اکثر بیٹھنا ہوتا تھا۔

میں کام کے دوران منصوبے بناتی رہی کے وقت کیسے نکال سکتی ہوں۔ رات بیڈ پر سوئی تب بھی یہی سوچ رہی تھی کے میری شوہر نے شائید محسوس کر لیا تھا اسی لیئے بولے کن سوچوں میں گُم ہو،

تو میں نے بھی بہانہ بنایا اور کہا کہ ہمارے گھر ڈکیتی ہوئے کتنا ٹائم ہو گیا ہے پر ابھی تک کوئی سُراغ نہیں ملا۔ پتہ نہیں ڈاکو کبھی پکڑے بھی جائیں گے کے نہیں۔

 میرے شوہر مجھے سمجھانے لگے کے سب کچھ کسی نہ کسی بہتری کی وجہ سے ہوتا ہے۔ شُکر ہے کے سب کی زندگیاں محفوظ رہیں۔ دولت کا کیا ہے۔ وہ اور آجائے گی۔ لیکن اگر کسی کی زندگی چلی جاتی تو وہ نقصان یقیناً بڑا ہوتا۔ جو ہوا اس کے بارے میں زیادہ مت سوچو جو ہونے والا ہے اس پر دھیان رکھو، یہ کہتے ہوئے انہوں نے اپنا ہاتھ میرے سینے پر رکھ دیا۔

وہ ہاتھوں کو میرے مموں پر پھیرنے لگے اور میرے جلتے بدن میں آگ کے الاؤ دہکنے لگے۔ میں چاہ رہی تھی کے وہ میرے مموں کو مَسلیں اور دانتوں سے کاٹیں وہ میرے پیٹ پر میرے گانڈ پر زور سے چُٹکیاں لیں لیکن وہ ہمیشہ کی طرح بس سہلا رہے تھے۔ میں چاہتی تھی وہ میری چوت کو چاٹ چاٹ کر مجھے ہلکان کر دیں اور اپنے لن کو میرے منہ میں ڈالیں لیکن وہ ایسا نہیں کر رہے تھے۔

وہ ہمیشہ کی طرح بس میرے ہونٹوں اور میرے گالوں کو چوم رہے تھے۔ انہوں نے اپنا ہاتھ میری چوت پر رکھا تو میں اُن کا ہاتھ اپنے ہاتھ میں لے زور زور سے چوت پر رگڑنے لگی۔ میں نے اپنے دانتوں سے اُن کے ہونٹوں کو اس وقت کاٹ لیا جب وہ میرے ہونٹ چومنے کیلئے میرے منہ پر جھُکے تھے۔ میں اپنے روّیے سے اُن میں تبدیلی لانا چاہتی تھی۔ میں نے اُنہیں اُکسانے کی بہت کوشش کی لیکن ان کو کچھ فرق نہ پڑا ،

ایک بار تو میں نے خواہش کا اظہار کر بھی دیا تھا کہ میں جارحانہ سیکس چاہتی ہوں لیکن وہ شائید سمجھے نہیں کے سیکس میں جارحیت کیا ہے۔ میں اپنے شوہر کے ساتھ سیکس کر رہی تھی لیکن لذت کیلئے اس ڈاکو کو ہی سوچ رہی تھی۔ مجھے خیالوں میں ہی اُس کے دانت اپنے پیٹ پر گڑتے محسوس ہوتے۔ میں اس کا کاٹنا اور نوچنا محسوس کرنے کی کوشش کر رہی تھی۔ مجھے اس کے لن کا رس منہ میں گھُلتا محسوس ہو رہا تھا۔

میرا شوہر میری چوت مار رہا تھا لیکن میرے دماغ پر اُس ڈکیت کا قبضہ تھا۔ جو لذت مجھے اپنے شوہر سے ملتی تھی آج وہ بھی نہیں مل رہی تھی۔

 

اگلے دن بھی میں ابھی کام کاج سے فارغ ہوئی ہی تھی کے اُس کی کال آگئی۔ میں اپنے کمرے میں ہی تھی اسی لیئے پہلی ہی بیل پر فون ریسیو کر لیا۔ میرے بولنے سے پہلے ہی وہ بول پڑا

" بڑی بیچینی ہے۔ "

کیا مطلب " میں نے بھی کچھ نہ سمجھتے ہوئے جواب دیا۔

"کچھ نہیں جی، میرا مطلب ہے آپ کو میری کال کا انتظار تھا شائید،" وہ کھسیانی ہنسی ہنستے ہوئے بولا۔

"ایسی بات نہیں، فون میرے ہاتھ میں تھا اسی لیئے میں نے جلدی ریسیو کر لیا۔" میں نے بھی جذبات سے عاری لہجے میں جواب دیتے ہوئے کہا۔

" میرے روکھے پن کو اُس نے بھی شائید بھانپ لیا تھا، اسی لیئے وہ ادھر اُدھر کی باتیں کرنے لگا وہ باتوں کے درمیان چُٹکلوں کا سہارا بھی لے رہا تھا۔ جن پر پہلے تو میں صرف مُسکرا رہی تھی لیکن پھر آہستہ آہستہ میری ہنسی بلند ہونے لگی ۔ کچھ دیر بعد جب اُس نے میرے بدلے ہوئے انداز کو محسوس کیا تو وہ ایکدم سے سیدھی بات پر آگیا،

" کب تک ملو گی؟ " اس اچانک سوال کی توقع نہیں تھی اسی لیئے میں نے الٹا سوال کر دیا،

مطلب...؟

 مطلب یہ کے ہم کب مل رہے ہیں ؟

 اس نے بھی بلا توقف اپنے سوال کا انداز بدلا..

کل بتاؤں گی, میں شائید کسی سحر کے زیرِ اثر تھی، بنا سوچے اُسے کہہ دیا تھا۔

اچھا ہے، تو فون تُم کرو گی یا میں..؟

وہ کسی آقا کی مانند بات کر رہا تھا اور میں زر خرید غلام..

"تُم فون نہیں کرنا میں خود مناسب وقت دیکھ کر رابطہ کر لوں گی"

 کہنے کو تو میں نے کہہ دیا تھا لیکن آنے والے وقت کیلئے میری کوئی منصوبہ بندی نہیں تھی۔ فون بند کر کے میں سوچنے لگی کے کیا کروں۔ اندر سے تو میں بھی اُس کی خواہش کر رہی تھی لیکن مجبوری یہ تھی کے وقت کیسے نکلے۔

رات کھانے کی ٹیبل پر بیٹھے تو میری ساس نے بتایا کے وہ دو دن بعد لاہور اپنی بہن کو ملنے جا رہی ہیں میری نند اور سُسر بھی ساتھ جائیں گے۔ اور ہفتہ بھر اُدھر ہی رہیں گے۔

میرے دماغ میں گھنٹیاں بجنے لگیں۔ مجھے لگا کے وہ ڈکیت میرے جسم کو گُدگدا رہا ہے۔ میں اُس کے تصور میں کھو گئی وہ تصور ہی تصور میں میرے مموں کو مسل رہا تھا اور میری چوت کو سہلا رہا تھا۔ میں تصور میں اُس کے ہاتھ کا لمس اپنے بدن پر محسوس کر رہی تھی۔ وہ کسی جادوگر کی طرح میرے اعصاب پر سوار تھا۔

 اصل میں اُس کیلئے یہ میری اپنی خواہش تھی جو میں اُس کے متعلق یوں سوچ رہی تھی۔ اور مجھے اپنی ان سوچوں پر کوئی پشیمانی نہیں ہو رہی تھی بلکہ میں دل ہی دل میں مسرور ہو رہی تھی۔

 

اگلی صُبح تمام کام سے فارغ ہو کر میں نے اُسے فون کرکے بتایا کے جلد اُس سے ملنے کیلئے رابطہ کروں گی۔

 وہ بات کرنا چاہتا تھا لیکن میں نے مصروفیت کا بہانہ کر کے جلدی فون کاٹ دیا۔

میں نہیں چاہتی تھی کے اُسے ابھی سب کچھ بتا دوں۔ میں سوچ رہی تھی کے جب ساس سُسر اور نند لاہور کیلئے روانہ ہو جائیں گے تو تب اُس سے ملاقات کیلئے رابطہ کروں گی۔ میں نہیں چاہتی تھی کے ساس اپنے لاہور جانے کا پروگرام ملتوی کر دے اور ہمیں کوئی بدمزگی کا سامنا کرنا پڑے۔

اگلے دن جب میرے شوہر کام کیلئے چلے گئے اور ساس سُسر نے بھی لاہور کی راہ لی تو میں نے بھی جلدی جلدی کام ختم کیا اور اور ڈکیت کو فون لگا دیا۔

میں اب زیادہ انتظار نہیں کرنا چاہتی تھی۔ جو خواہش دل میں کسک بن چُکی تھی اُس کے پورا ہونے کا وقت اب دور نہیں تھا۔ میں جانتی تھی کے شام پانچ بجے تک گھر میں میرے سوا کوئی دوسرا نہیں ہے فون کی تیسری گھنٹی پر اُس نے فون اٹھایا تو میرے دل کی دھڑکنوں میں جیسے بھونچال آگیا۔

میری سانسیں بہت بے ترتیب ہو چُکی تھیں۔ میرے ہاتھ پاؤں لرز رہے تھے۔ یہ شائید اس بات کا اشارہ تھے کہ میں جو کرنے جا رہی ہوں وہ سب بہت غلط ہے لیکن دل میں جو خواہش پیدا ہو چُکی تھی اس کے سامنے دماغ کی ہر دلیل بے سود اور بیکار تھی۔

اس کی ہیلو کی آواز میں سن ہی نہی پائی۔ دوسری بار اس نے ہیلو کہہ کے مخاطب کیا تو جیسے میرا خواب ٹوٹا میں نے اس کا جواب ہیلو سے دیا

لیکن شائید میرا گلا خشک تھا اس لیئے میری آواز میرے گلے میں ہی کہیں دفن ہو گئی۔

" بات نہیں کرو گی ؟"

 وہ سوالیہ انداز میں بولا تو میں نے خود کو سنبھالتے ہوئے تھوڑا سا کھنکارتے ہوئے گلا صاف کیا۔ اس سے پہلے کہ میں کچھ بولتی اس کی آواز دوبارہ میری سماعتوں سے ٹکرائی۔

 " بات بھی کرو گی یا آج یونہی کھنکارتی رہو گی "۔

وہ بے صبری دکھا رہا تھا۔ کیونکہ وہ اندازہ کر سکتا تھا کہ میں نے اسے یونہی فون نہیں کیا۔ یقیناً اسے ملنے کا کوئی پروگرام ترتیب دینا ہو گا۔ اسی لیئے اسے کال کی ہے۔

 " ہاں ....نہیں "

الفاظ میرے منہ میں اٹک رہے تھے۔

اگرچہ میں اس سے کافی دفعہ پہلے بھی فون پر بات کر چُکی تھی لیکن آج میں پھر کافی تذبذب کا شکار تھی اور بہت نروس محسوس کر رہی تھی۔ اور یہ شائید اس لیئے تھا کہ آج میں اسے اپنی مرضی سے اپنے بستر پر بلانے والی تھی یہی وجہ تھی کہ اندر کا خوف مجھے ڈرا رہا تھا۔ اور بات کرنے میں دقّت پیش آرہی تھی۔

 " کیا ہاں نہیں.. کچھ سمجھاؤ گی بھی کے نہیں۔"

 وہ بولا تو میں اس کے جواب میں اتنا ہی کہہ پائی کہ

 " گھر میں آج کوئی نہیں ہے۔"

کہنے کو تو میں نے کہہ دیا تھا لیکن میری حالت دیدنی ہو رہی تھی ۔ میری ٹانگیں لرز رہی تھیں اور کوئی انجانہ خوف مجھے ڈرا رہا تھا ۔ لیکن دل کی خواہش اور امنگ میرے تمام ڈر اور خوف کے سامنے دیوار بن کے کھڑی ہو جاتیں۔

وہ شائید میرے انہیں الفاظ کے انتظار میں تھا۔ اس کی خوشی کا میں اندازہ نہیں کرسکتی کیونکہ وہ مجھ سے اوجھل تھا لیکن اس کا اچھلنا اور چہک کر بولنا اس کی خوشی کا پتہ دے رہا تھا۔

" اچھا......تم واقعی گھر میں اکیلی ہو؟ تو کیا میں آجاؤں تمہارے گھر؟"

میں زیادہ تو کچھ نہ بولی بس اتنا کہہ پائی کہ

" میں تُمہارا انتظار کر رہی ہوں "

 شائید وہ جمپ لے کر کھڑا ہوا تھا ۔

 " میں ابھی پہنچتا ہوں آدھے پونے گھنٹے میں وہ شائید کچھ اور بھی بات کرتا لیکن اس کی اتنی بات سُن کر میں نے فون کاٹ دیا۔

 میں ابھی تک خوف اور مسرت کے ملے جلے جذبات کا شکار تھی۔ دماغ کی سُنتی تو وہ بے وفا گُناہگار خودغرض کی صدائیں لگا رہا تھا اور دل تھا کہ مجھے لذت اور سرور کی وادیوں میں لے جانے کو بیتاب تھا۔

انہیں تانوں بانوں میں الجھی میں نے تولیہ اٹھایا اور فریش ہونے کے لیئے غسل خانے میں آگئی۔ میں کپڑے اُتار کے ننگی کھڑی تھی اور اس ڈکیت کے لمس کو اپنے بدن پر محسوس کرنے لگی۔ میں اپنے سراپے کا بغور جائزہ لے رہی تھی اگرچہ میری شادی کو کئی برس بیت گئے تھے اور میں ایک بچے کی ماں بھی تھی لیکن پھر بھی میرے حُسن اور خوبصورتی میں کمی نہیں آئی تھی۔ میں آج بھی ہزاروں کنواری دوشیزاؤں سے بہتر وجود کی مالک تھی۔

میں خود کو دیکھتی جا رہی تھی اور خود ہی اپنے حُسن کو سراہا رہی تھی۔ وقت گُذرنے کا اندازہ ہی نہیں ہوا۔

اچانک گیٹ کی گھنٹی نے مجھے تصورات کے دنیا سے کھینچ کر باہر نکالا تو مجھے خیال آیا اور میں جلدی جلدی کپڑے پہن کر غسل خانے سے باہر نکلی تولیے کو میں نے جوڑے کی شکل میں بالوں سے لپیٹ لیا۔ بالوں سے ٹپکنے والے پانی نے میری قمیض کو بھگو دیا تھا۔ جس سے میری گوری رنگت کی جھلک قمیض سے باہر بھی دادِ نظارہ دے رہی تھی۔

میں نے گیٹ کے قریب پہنچ کر اندر

سے ہی آہستہ سے پوچھا

 کون ہے؟

""حضور اور کون ہوگا ۔ آپ کا خادم ہوں "جسے آپ نے ابھی فون کر کے بلایا ہے۔"

 وہ حقیقت میں چہک رہا تھا۔ میں نے لرزتے ہاتھ سے دروازہ کھولا تو وہ ایکدم سے اندر گھس آیا۔

میں نے اسے ایک نظر دیکھا اور پھر بنا کچھ کہے آگے آگے چلتے اسے گھر کے اندر لے آئی۔ میں تھوڑی جھجھک رہی تھی۔ اسے صوفے پر بیٹھنے کا اشارہ کیا تو وہ بیٹھا نہیں میرے قریب ہو کر بولا

" محترمہ گھبرائیں نہیں آج تو ہم آپ کی دعوت پر آئے ہیں۔"

 یہ کہتے ہوئے اس نے میرے گرد ایک چکر لگایا اور چکر مکمل کر چُکنے کے بعد میرے بالوں سے تولیہ کھولتے ہوئے بولا

" قسم سے آج تو آپ اور بھی قیامت ڈھا رہی ہیں۔"

 میرے اندر تو پہلے سے ہی خوف موجود تھا اس کے یوں آتے ہی بے تکلفانہ ہونے کے انداز نے مجھے اور مرعوب کر دیا۔ میں جھجھک تو رہی تھی اب تھوڑی سہمی ہوئی بھی لگ رہی تھی۔ میری ٹانگیں ہلکی سی کپکپاہٹ لیئے ہوئے تھیں ۔

جبکہ میری سانسوں کی رفتار تیز ہو رہی تھی ۔ جس سے میری چھاتیاں عجیب انداز میں اوپر نیچے ہو رہی تھیں۔ میں سوچ رہی تھی کہ وہ آئے گا تو پہلے بیٹھیں گے چائے وغیرہ کے ساتھ بات چیت کریں گے۔ اور پھر اگلے مرحلے تک پہنچیں گے لیکن وہ شائید تحمل کا قائل ہی نہیں تھا۔ جارحیت اس کی فطرت میں تھی۔ اور اس کا یہی جارحانہ پن ہی تو تھا جس نے مجھے اس کی لونڈی بننے پر مجبور کر دیا تھا۔

تولیہ ایک طرف صوفے پر اچھال کر اس نے دوبارہ میری طرف دیکھتے ہوئے کہا

 " کیا بات ہے حضور آپ ڈر رہی ہو ؟

" نن نہیں تو "

میرے گھٹے ہوئے الفاظ میرے خوف کا پتہ دے رہے تھے۔

"اچھی بات ہے ڈر کس بات کا ہم کون سا ایک دوسرے کو جانتے نہیں"

یہ کہتے ہوئے اُس نے میری کلائی پکڑ کر صوفے پر بیٹھتے ہوئے مجھے بھی اپنی گود میں کھینچ لیا۔

کتنا عجیب تھا وہ میرے گھر میں مجھے یوں پکڑ کر اپنی گود میں بٹھا رہا تھا جیسے یہ گھر اسکا ہے اور میں اس کی داسی ہوں ۔

ایک لحاظ سے تو ایسا ہی تھا کیونکہ میں نے اسے سب کچھ سونپ جو دیا تھا۔

"میرا خیال تھا کہ اگر پہلے چائے وغیرہ پی لیتے تو....."

آخر میں نے ہمت کرکے بات کرنے کا حوصلہ جمع کر ہی لیا تھا۔

"چھوڑیئے جناب چائے کیا پینی ہے، ہم تو ان ہونٹوں سے شہد پیئیں گے شہد "

یہ کہتے ہوئے اُس نے میری چوٹی کے بالوں کو ایک ہلکا سا جھٹکا دیا جس سے میری گردن مُڑ کر میرا منہ اس کے منہ کے بالکل قریب ہو گیا۔ پھر اس نے اپنی گردن تھوڑی سی نیچے جھکائی تو اس کے ہونٹ میرے ہونٹوں سے ملتے چلے گئے۔

وہ میرے ہونٹوں کو چوم رہا تھا اور میرے جسم میں جیسے لہریں رینگنے لگیں۔ واہ کتنے میٹھے ہیں ۔ وہ اب مزے لے لے کر چوسنے لگا تھا۔

میں بُت بنی تھی مجھے اس کی دیدہ دلیری پر حیرت ہو رہی تھی۔ کہ اس نے کوئی رسمی سی بھی گفتگو نہیں کی تھی۔ اور آتے ہی یوں سٹارٹ لیا تھا۔ میں اس انداز کی توقع بھی نہیں کر رہی تھی۔

میں کیا میری جگہ کوئی بھی ہوتا ایسا انداز اسے بھی یقیناً حیرت میں ڈال دیتا۔ "محترمہ اگر لُطف و سرور کی وادی میں اترنا ہے تو میرا ساتھ دیجیئے۔ ایسے اکیلے سب کچھ کرتے کیا خاک مزہ آئے گا۔"

 اُس نے میری جھجھک اور ڈر کو شائید محسوس کیا تھا۔ جو کہ یقیناً اب تک مجھے روکے ہوئے تھا۔ اس کا بائیاں بازو میری گردن کے نیچے جبکہ دائیاں ہاتھ میرے پیٹ پر قمیض کے اوپر سے ہی میری ناف کو ٹٹول رہا تھا۔

اس کا ہاتھ میرے جسم کے جس جس حصے کو چھُو رہا تھا اُس اس حصے میں بجلی کے کرنٹ سے محسوس ہو رہے تھے۔

 اس نے گردن کو پھر جھکایا اور میرے ہونٹوں کو چوسنے لگا لیکن اس بار اس کا دائیاں ہاتھ میری چھاتی تک آیا اور میرے مموں پر دباؤ ڈالنے لگا۔

میرے مموں کو ہاتھ لگتے ہی مجھے جیسے جھٹکا لگا ہو۔ اس نے اپنی زبان میرے منہ میں ڈال کر گھمانا شروع کی تو بے اختیار میری زبان نے اس کی زبان کا پیچھا کرنا شروع کر دیا۔ اس طرح کا رسپانس دیکھ کر اس نے اپنا ہاتھ میری قمیض کے اندر ڈال کر میرے مموں سے چھیڑ چھاڑ شروع کردی۔

ننگے مموں پر اس کے ہاتھ کے لمس نے وہ لذت اور تحریک دی کہ میں نے اپنے دونوں بازو اس کی گردن کے گرد حمائل کرتے ہوئے اسے اپنی چھاتی کے ساتھ شدت سے بھینچ لیا۔ وہ شائید میرے کسی ایسے ہی ردعمل کی توقع کر رہا تھا۔ اسی لیئے اس نے مجھے اُٹھا کر اس طرح گود میں بٹھایا کہ ہم دونوں کے منہ ایک دوسرے کی جانب تھا جبکہ میں اس کی گود میں ایسے بیٹھی تھی کہ میری دونوں ٹانگوں نے اس کی کمر کے گرد گھیرا بنا لیا تھا۔

ہم ایک دوسرے سے بدستور اپنی زبانیں لڑا رہے تھے۔ اور اپنی بانہیں ایک دوسرے کے گرد کس کے ڈالے ہوئے تھے۔مجھے پتہ ہی نہ چلا کب اور کیسے میرا خوف اور جھجھک محو ہوگئے۔

میں اس کے ہونٹ اور زبان کی شیرینی چُوس رہی تھی اور اس کا سینہ بار بار اپنی چھاتی سے بھینچ رہی تھی۔ ساتھ ہی ساتھ میں اپنی گانڈ بھی اُس کی رانوں پر رگڑ رہی تھی۔ وہ بھی میری کمر کو دباتا کبھی میرے مموں پے ہاتھ رکھتا اور کبھی میری گانڈ کو دونوں ہاتھوں میں بھر لیتا۔ عجیب ہیجانی سی کیفیت تھی۔ اسی ہیجان میں ہم دونوں ایک دوسرے کی گردن پر اور کندھوں پر کاٹ بھی رہے تھے۔ وہ عجب جادوگر تھا۔

 جب بھی اور جہاں بھی مجھے اپنے دانتوں سے کاٹتا ایک عجیب سے سحر میں لے لیتا۔ کافی دیر ایسے ہی چونچ لڑانے کے بعد اس نے مجھے کھڑا کر کے میرے کپڑے اُتارنے چاہے تو میں نے اس کے ہاتھ پکڑ لیئے۔

اس نے حیرانی سے میری طرف دیکھتے ہوئے کہا۔

"کیوں ؟ اب روک کیوں رہی ہو؟ "

"میں روک نہیں رہی ہوں۔"

 اس سے پہلے کے میری بات مکمل ہوتی وہ بیچ میں ہی سوالیہ انداز میں بولا،

"تو......؟"

 "میرے خیال میں یہاں مناسب نہیں، بیڈ روم میں چلتے ہیں"

میری بات سمجھتے ہوئے بولا،

 " بیڈ روم میں تو روز ہی کرتی ہو آج یہاں ڈرائنگ روم میں مزہ لے لو۔"

 یہ کہتے ہوئے اس نے میری قمیض کو کھینچ لیا۔


ایک تبصرہ شائع کریں (0)
جدید تر اس سے پرانی

Featured Post