ڈکیت قسط نمبر:4


 اچانک جیسے میں خواب سے بیدار ہوئی۔ سب سے پہلے میں نے اپنے کپڑے تبدیل کیئے بیڈ شیٹ بھی تبدیل کی فرش پر گری گندگی کو صاف کیا اور بھاگ کر نیچے گئی جہاں میری ساس سُسر اور دیور ابھی تک بندھے تھے۔ میں نے اُن سب کو کھولا بعد میں میرے سُسر نے پولیس سٹیشن فون کیا اور تقریباً ڈیڑھ دو گھنٹوں کے بعد ایک پولیس وین آئی جنہوں نے موقع چیک کیا۔ ہم پولیس کے آنے سے پہلے تمام کمرے دیکھ چُکے تھے۔ ہر چیز بکھری ہوئی تھی لگتا تھا انہوں نے گھر کے ہر کونے کی تلاشی لی تھی۔ پولیس نے ہم سب کے الگ الگ بیان قلمبند کیئے۔ میں نے بھی اپنا بیان دیا لیکن میں نے سیکس والا حصہ چھُپا لیا۔ میرے بیٹے کے رونے تک جو ہوا وہ میں نے ویسے کا ویسا ہے بتایا اور میں نے اپنے بیان میں کہا کہ جب میں بیٹے کو دودھ پلا چُکی تو اس ڈاکو نے مجھے یہیں بیڈ پر میرے دوپٹّے سے باندھ دیا تھا اور خود اپنے ساتھیوں سے مل گیا تھا۔ اور میں نے یہ بھی اپنے بیان میں لکھوایا کے مجھے جب گھر میں خاموشی لگی تو تب میں نے بڑی مُشکل سے خود کو کھولا تھا اور بعد میں میں نے باقی گھر والوں کو کھولا تھا۔ پولیس اپنی ضروری کاروائی کے بعد ہمیں تسلی دلاسہ دے کر چلی گئی اور ہمیں یہ یقین دہانی کرائی کے وہ جلد ان ڈاکؤوں کو پکڑ لیں گے ۔

 میں نے اپنے شوہر کو فون کرکے واقعے کی اطلاع کر دی تھی۔ اگلے دن بہت سے لوگ ہمارے ساتھ ہوئے اس واقعے کا غم بانٹنے آئے۔ ہر کوئی تسلی دلاسے دے رہا تھا۔ میری ساس اس غم سے مری جا رہی تھی کے عمر بھر کی پونجی لُٹ گئی اور مجھے یہ غم کھائے جا رہا تھا کہ میں اس ڈاکو سے دوبارہ کبھی نہیں مل پاؤں گی۔

 پولیس اپنی تفتیش میں مجھے بھی مُلزم کی حیثیت سے دیکھ رہی تھی۔ انہیں اس بات پر شق تھا کے مجھے الگ کمرے میں کیوں لے جایا گیا اور میں آزاد کیسے ہوئی انہیں اس بات پر بھی شق تھا کے مجھے باندھا بھی گیا تھا کے نہیں۔ لیکن میرے شوہر اور میری ساس اور سُسر کے بیانات میرے حق میں تھے۔ اور سچ بھی یہی تھا۔ میں ہر گز اس ڈکیتی کی واردات میں گھر بھیدی کا کردار ادا نہیں کر رہی تھی۔ پولیس اپنے طریقے سے تفتیش کر رہی تھی اور مجھے اُن کے طریقہ کار پر کوئی اعتراض نہیں تھا۔

رفتہ رفتہ ہمارے گھر میں ہوئی واردات پر شہر میں ہونے والی اور بیسیوں وارداتوں کی دھول نے گرد ڈال دی۔ سب گھر والے بھی اس واقعے کو بُرے خواب کی طرح بھولنے کی کوشش کر رہے تھے۔ میں بھی اسے بھول جانا چاہتی تھی لیکن وہ ڈکیت ہر وقت میری نظروں کے سامنے رہتا۔ اس کے ساتھ گُذرے چند پل میرے دماغ سے نکل ہی نہیں رہے تھے۔ سب کا خیال تھا کے اس واقعے نے مجھ پر بُرا اثر ڈالا ہے جس کی وجہ سے میں اکثر کھوئی رہتی ہوں ۔لیکن میں جانتی تھی کے میں اس لذت اور سرور کے نہ ملنے کی وجہ سے کھوئی رہتی ہوں۔

 میں اپنے شوہر کے ساتھ اب بھی سیکس کرتی تھی۔ پہلے ہی کی طرح اُن کا پورا ساتھ دیتی تھی اور اُن کو ہر ممکن طریقے سے خوش کرنے کی کوشش کرتی تھی لیکن میری خود کی خوشی کہیں کھو گئی تھی۔ میرے شوہر میرے بدن سے جتنی بھی چھیڑ چھاڑ کرتے وہ مجھے عجیب بچگانہ سی حرکات لگتیں۔ جب تک اس ڈاکو نے میرے جسم کو مسلا نہیں تھا تب تک میرے شوہر میرے ساتھ جو کچھ کرتے تھے وہی میرے لیئے سیکس کی انتہا تھی لیکن اس ڈاکو نے مجھے سیکس کے نئے انداز اور نئے ذائقے متعارف کرائے تھے۔ میں وہی لذت وہی ذائقہ وہی جنون چاہتی تھی لیکن میرے شوہر سے تو ایسا سب ملنا مشکل تھا۔ ان کی شخصیت ہی جُدا تھی اور میں جانتی تھی کے انہیں ان کی شخصیت کے اس خول سے نکالنا آسان نہیں۔
 ہمارے گھر ہوئی ڈکیتی کی واردات کو ہوئے تقریباً آٹھ ماہ ہو چُکے تھے۔ پولیس واردات کا سُراغ لگانے میں بالکل ناکام ہو چُکی تھی اور ہم سب بھی قُدرت کا لکھا سمجھ کے بھول چکے تھے۔ زندگی واپس اپنے نارمل شب و روز کی طرف لوٹ آئی تھی۔ میں نے لذت کے حصول کیلئے گندگی کی طرف گرنے کے بجائے پاک صاف زندگی کو ترجیح دی۔ میں کوشش کرتی کے سیکس کے دوران میرے شوہر مجھ سے جارحانہ برتاؤ کریں۔ وہ مجھے نوچیں مجھے مَسلیں اور مجھے کاٹیں وہ میری گانڈ کو سہلانے کے بجائے تھپڑوں سے لال کر دیں اس کیلئے میں مختلف حیلوں بہانوں سے انہیں اُکسانے کی کوشش بھی کرتی لیکن وہ بھی اپنی ڈگر کے پکّے تھے۔ وہ کہتے اتنی ملائم گانڈ کو میں تھپڑ کیسے مار سکتا ہوں۔ ان گلاب کی پنکھڑی جیسے ہونٹوں کو میں کیسے کاٹ سکتا ہوں، ان خوبصورت کشمیری سیب جیسے پستانوں کو مسل کر مجھے کیا انہیں خراب کرنا ہے۔ وہ بہت پیار سے میرے ہونٹوں کو چومتے۔ اتنی نرمی سے میرے ممّوں پر ہاتھ پھیرتے کے جیسے اُن کی ذرا سی بے احتیاطی سے یہ کہیں خراب نہ ہو جائیں۔ وہ میری چوت کو اپنے ہاتھ سے بڑے آرام سے سہلاتے تھے۔ اور کبھی کبھی ہی وہ اپنی اُنگلی میری چوت میں داخل کرتے تھے۔ ان کا سیکس بس اتنا ہی ہوا کرتا تھا کے ٹانگیں اُٹھائیں لن کو سیدھا کر کے چوت میں ڈالا اور دس پندرہ منٹ کی چُدائی اور پھر باقی رات خراٹے۔

 پہلے میں اتنے کو ہی بہت سمجھا کرتی تھی لیکن اب میں جان گئی تھی کے اصل لذت اس سے آگے کی منزل ہے۔

اس دن میری ساس کی طبیعت کچھ ٹھیک نہیں تھی اسی لیئے میں انہیں ڈاکٹر کو دکھانے ہسپتال لے گئی۔ ڈاکٹر نے چیک اپ کے بعد کچھ ادویات لکھ کر دیں۔ جنہیں خریدنے کیلئے میں ایک میڈیکل سٹور میں داخل ہوئی تو کاؤنٹر پر جو شخص کھڑا تھا اسے دیکھ کر دنگ رہ گئی۔ یہ وہی شخص تھا جس نے مجھے اپنا نام جہانگیر بتایا تھا اور چند ماہ پہلے میرے گھر سے نہ صرف مال و اسباب لوٹ لایا تھا بلکہ میرا سُکھ چین بھی لوٹ لایا تھا۔

وہ بھی ایکدم سے گھبرا گیا۔ اس کا رنگ زرد پڑ گیا لیکن پھر اُس نے خود کو سنبھالا اور بولا " جی میم کیا خدمت کروں آپ کی؟

میں یک ٹُک اس پر نظریں جمائے کھڑی تھی۔ اس نے پھر پوچھا تو میں نے بنا بولے دوائیوں کی پرچی اس کی طرف بڑھا دی۔ وہ میرے لیئے دوائیاں نکال رہا تھا جبکہ میں اسی کی طرف نظریں جمائے کھڑی رہی۔ وہ بھی چوری چوری نظریں بچا کر میری طرف دیکھ رہا تھا۔ اس نے دوائیاں بیگ میں ڈالیں اور حساب کر کے مجھے پیسوں کا بتایا، وہ سر جھکائے تھا اور مجھ سے نظر نہیں ملا رہا تھا۔ میں نے اسے پیسے ادا کیئے تو اس نے دوائیوں کا بیگ مجھے تھماتے ہوئے ایک کاغذ پر کچھ لکھ کر وہ بھی میرے ہاتھ میں پکڑا دیا۔
 اس کا ڈرا سہما اور شرمسار چہرہ مجھے کچھ کہنے یا کرنے سے روک رہا تھا یا پھر میرے اندر کی قوت تھی جو مجھے کوئی بھی قدم اٹھانے سے روک رہی تھی۔ بہرحال جو کچھ بھی تھا میں خاموش رہی اور ادویات کا بیگ اُٹھا کر سٹور سے باہر نکل آئی۔

 راستے میں میں نے اُس کی دی ہوئی پرچی کو کھول کے پڑھا جس پر بس اتنا لکھا تھا۔ " آپ کا مُجرم ہوں جو سزا تجویز کریں گی قبول ہے لیکن ایک دفعہ مجھ سے بات کر لیں، نیچے اُس کا فون نمبر تھا۔ میں کشمکش میں تھی کے کیا کروں اس کی اطلاع پولیس کو دوں یا خود اس سے پہلے بات کروں۔ میری اس کے لیئے جو خواہش تھی وہ بھی اسے دیکھتے ہی بیدار ہو گئی تھی۔ میں عجب الجھن میں تھی ایک طرف گھر سے لُوٹی دولت اور دوسری طرف میرا کھویا ہوا سکون۔ میں سوچ رہی تھی کہ کس چیز کو ترجیح دوں میرے لیئے زیادہ اہم کیا ہے دولت یا پھر میرے وجود کی تسکین؟

 پھر اس خیال نے مجھے آخری فیصلہ کرنے میں مدد کی کے مال و دولت کیلئے تو سب نے قسمت کا لکھا سمجھ کر خود کو مطمئن کر لیا ہے پر میں اس دن کے بعد آج تک جنسی تسکین نہیں پا سکی اور میرا وجود آج تک مطمئن نہیں ہو پایا۔ یہی سوچ کر میں نے اسے فون کرنے کا فیصلہ کیا تاکہ اس کی طرف کی کہانی بھی جان سکوں کے وہ کیا سوچ رہا ہے اور مجھ سے کس برتاؤ کی امید رکھتا ہے۔ ﻣﯿﮟ ﻧﮯ ﮔﮭﺮ ﭘﮩﻨﭻ ﮐﺮ ﺗﻤﺎﻡ ﺿﺮﻭﺭﯼ ﮐﺎﻡ ﻧﺒﭩﺎﺋﮯ ﻏﺴﻞ ﮐﯿﺎ ﺍﻭﺭ ﺍﺏ ﻣﯿﺮﮮ ﭘﺎﺱ ﻓﺎﺭﻍ ﻭﻗﺖ ﺗﮭﺎ۔ ﻣﯿﮟ ﺍﺑﮭﯽ ﺑﮭﯽ ﮐﺸﻤﮑﺶ ﻣﯿﮟ ﺗﮭﯽ ﮐﮯ ﮐﯿﺎ ﮐﺮﻭﮞ۔

ﺁﺧﺮ ﻣﯿﮟ ﻧﮯ ﻓﯿﺼﻠﮧ ﮐُﻦ ﺍﻧﺪﺍﺯ ﻣﯿﮟ ﻣﻮﺑﺎﺋﻞ ﺍُﭨﮭﺎﯾﺎ ﺍﻭﺭ ﺍﺱ ﮐﺎ ﻧﻤﺒﺮ ﮈﺍﺋﻞ ﮐﺮ ﺩﯾﺎ۔ ﺍﮔﺮﭼﮧ ﻣﯿﮟ ﻧﮯ ﻧﻤﺒﺮ ﮈﺍﺋﻞ ﮐﺮ ﺩﯾﺎ ﺗﮭﺎ ﻟﯿﮑﻦ ﻣﯿﮟ ﮐﺎﻓﯽ ﻧﺮﻭﺱ ﺗﮭﯽ ۔ ﻣﺠﮭﮯ ﻧﮩﯿﮟ ﭘﺘﮧ ﺗﮭﺎ ﮐﮯ ﺑﺎﺕ ﮐﯿﺎ ﮐﺮﻧﯽ ﮨﮯ۔ ﮐﺎﻓﯽ ﺩﯾﺮ ﺑﯿﻞ ﺑﺠﻨﮯ ﮐﮯ ﺑﻌﺪ ﺍُﺩﮬﺮ ﺳﮯ ﻓﻮﻥ ﺍُﭨﮭﺎﯾﺎ ﮔﯿﺎ۔ " ﮨﯿﻠﻮ ... ﺟﯽ ﮐﻮﻥ؟ ﺍﺱ ﮐﯽ ﺁﻭﺍﺯ ﻣﯿﺮﮮ ﮐﺎﻧﻮﮞ ﺳﮯ ﭨﮑﺮﺍﺗﮯ ﮨﯽ ﻣﺠﮭﮯ ﻟﮕﺎ ﻣﯿﺮﺍ ﮔﻼ ﺧﺸﮏ ﮨﻮ ﮔﯿﺎ ﮨﮯ ﺍﻭﺭ ﺁﻭﺍﺯ ﺟﯿﺴﮯ ﺑﻨﺪ ﮨﻮ ﮔﺌﯽ ﺍﻟﻔﺎﻅ ﻣﯿﺮﮮ ﻣﻨﮧ ﻣﯿﮟ ﮨﯽ ﺍﭨﮏ ﮔﺌﮯ، ﺍُﺱ ﺭﻭﺯ ﮐﮯ ﭘﻮﺭﮮ ﻭﺍﻗﻌﮯ ﮐﯽ ﺟﯿﺴﮯ ﻭﮈﯾﻮ ﻣﯿﺮﮮ ﺩﻣﺎﻍ ﻣﯿﮟ ﭼﻠﻨﮯ ﻟﮕﯽ۔ ﻣﯿﮟ ﺳﻮﭺ ﺭﮨﯽ ﺗﮭﯽ ﮐﮯ ﺍﺱ ﺍﻧﺴﺎﻥ ﺳﮯ ﻧﻔﺮﺕ ﮐﺮﻭﮞ ﮐﮯ ﻣﺤﺒﺖ، ﺍﺱ ﮐﻮ ﺳﺰﺍ ﺩﻭﮞ ﮐﮯ ﺟﺰﺍ۔

ﺩﻭﺳﺮﯼ ﺑﺎﺭ ﮨﯿﻠﻮ ﮐﯽ ﺁﻭﺍﺯ ﺁﺋﯽ ﺗﻮ ﻣﯿﮟ ﻧﮯ ﻓﻮﻥ ﮐﺎﭦ ﺩﯾﺎ۔ ﻣﯿﮟ ﺍﺑﮭﯽ ﺗﮏ ﺗﺬﺑﺬﺏ ﻣﯿﮟ ﺗﮭﯽ۔ ﻋﺠﯿﺐ ﮐﯿﻔﯿﺖ ﺗﮭﯽ ﻣﯿﮟ ﺧﻮﺩ ﮐﻮ ﺳﻨﺒﮭﺎﻟﺘﯽ ﺍﻭﺭ ﺳﻤﺠﮭﺎﺗﯽ ﮐﮯ ﻭﮦ ﺍﯾﮏ ﻣُﺠﺮﻡ ﮨﮯ ﺍﻭﺭ ﺍُﺳﮯ ﺍُﺱ ﮐﮯ ﮐﯿﺌﮯ ﮐﯽ ﺳﺰﺍ ﻣﻠﻨﯽ ﭼﺎﮨﯿﺌﮯ ﺍﻭﺭ ﭘﮭﺮ ﻣﯿﺮﮮ ﺍﻧﺪﺭ ﮐﺎ ﺷﯿﻄﺎﻥ ﻣﺠﮭﮯ ﺑﮭﭩﮑﺎﻧﮯ ﻟﮕﺘﺎ ﮐﮯ ﻣﯿﮟ ﺟﻮ ﺯﻧﺪﮔﯽ ﺟﯽ ﺭﮨﯽ ﮨﻮﮞ ﻭﮦ ﺑﮩﺖ ﺑﮯﻣﻌﻨﯽ ﮨﮯ۔ ﺯﻧﺪﮔﯽ ﺟﯿﻨﮯ ﮐﺎ ﺗﻮ ﻟُﻄﻒ ﺗﺐ ﮨﯽ ﮨﮯ ﺟﺐ ﺍﺱ ﮐﯽ ﺍﺻﻞ ﺭﻧﮕﯿﻨﯿﻮﮞ ﺳﮯ ﻟُﻄﻒ ﺍﻧﺪﻭﺯ ﮨﻮﺍ ﺟﺎﺋﮯ۔ ﺍﻭﺭ ﻣﯿﺮﮮ ﮐﻢ ﻋﻘﻞ ﺩﻣﺎﻍ ﻣﯿﮟ ﺍُﺱ ﻭﻗﺖ ﺯﻧﺪﮔﯽ ﮐﻮ ﭘُﺮﻟُﻄﻒ ﺑﻨﺎﻧﮯ ﮐﯿﻠﺌﮯ ﺑﺲ ﯾﮩﯽ ﺗﮭﺎ ﮐﮯ ﺳﯿﮑﺲ ﻣﯿﮟ ﻟﺬﺕ ﻭ ﺳﺮﻭﺭ ﮨﯽ ﺯﻧﺪﮔﯽ ﮐﻮ ﭘُﺮﻣﺴﺮﺕ ﺑﻨﺎﺗﺎ ﮨﮯ۔ﺍﺻﻞ ﻣﯿﮟ ﯾﮧ ﻣﯿﺮﯼ ﺍﭘﻨﯽ ﺧﻮﺩﻏﺮﺿﯽ ﺍﻭﺭ ﮨﻮﺱ ﺗﮭﯽ ﮐﮯ ﺍﯾﺴﯽ ﺳﻮﭺ ﻣﯿﺮﮮ ﺩﻣﺎﻍ ﻣﯿﮟ ﺟﻨﻢ ﻟﮯ ﭼُﮑﯽ ﺗﮭﯽ۔ ﻭﺭﻧﮧ ﺗﻮ ﻣﯿﺮﯼ ﺯﻧﺪﮔﯽ ﺍُﺱ ﺩﻥ ﮐﮯ ﻭﺍﻗﻌﮯ ﺳﮯ ﭘﮩﻠﮯ ﺑﮩﺖ ﺍﭼﮭﯽ ﺍﻭﺭ ﺑﮩﺖ ﺧﻮﺷﮕﻮﺍﺭ ﭼﻞ ﺭﮨﯽ ﺗﮭﯽ۔ ﺟﺲ ﭼﯿﺰ ﮐﯽ ﮐﻤﯽ ﻣﺠﮭﮯ ﺍُﺱ ﺩﻥ ﮐﮯ ﺑﻌﺪ ﺳﮯ ﮨﻮ ﺭﮨﯽ ﺗﮭﯽ ﭘﮩﻠﮯ ﺗﻮ ﺍﯾﺴﺎ ﻧﮧ ﺗﮭﺎ۔ ﺑﮩﺮﺣﺎﻝ ﻣﯿﮟ ﮨﻮﺱ ﻣﯿﮟ ﺑﮩﮧ ﻧﮑﻠﯽ ﺍﻭﺭ ﯾﮧ ﺳﻮﭺ ﮐﺮ ﮐﮯ ﻣﺠﮭﮯ ﺍﯾﮏ ﺑﺎﺭ ﭘﮭﺮ ﺍﺳﯽ ﻟﺬﺕ ﺍﻭﺭ ﺳﺮﻭﺭ ﮐﻮ ﭘﺎﻧﺎ ﮨﮯ۔ ﻣﯿﮟ ﻧﮯ ﺩﻭﺑﺎﺭﮦ ﺍُﺱ ﮐﺎ ﻧﻤﺒﺮ ﮈﺍﺋﻞ ﮐﺮ ﺩﯾﺎ۔

ﺍﺏ ﮐﯽ ﺑﺎﺭ ﻓﻮﻥ ﺍُﭨﮭﺎﻧﮯ ﻣﯿﮟ ﺯﯾﺎﺩﮦ ﺩﯾﺮ ﻧﮩﯿﮟ ﮨﻮﺋﯽ ﺩﻭﺳﺮﯼ ﮨﯽ ﮔﮭﻨﭩﯽ ﭘﺮﮨﯿﻠﻮ ﮐﯽ ﺁﻭﺍﺯ ﮐﮯ ﺳﺎﺗﮫ ﻓﻮﻥ ﺭﯾﺴﯿﻮ ﮐﺮ ﻟﯿﺎ ﮔﯿﺎ۔ " ﮐﻮﻥ ﺑﻮﻝ ﺭﮨﺎ ﮨﮯ " ﻣﯿﮟ ﻧﮯ ﮨﯿﻠﻮ ﮨﺎﺋﮯ ﮐﮩﻨﮯ ﮐﯽ ﺑﺠﺎﺋﮯ ﺳﯿﺪﮬﺎ ﺳﻮﺍﻝ ﮐﺮ ﺩﯾﺎ۔ " ﺟﯽ ﺟﮩﺎﻧﮕﯿﺮ ﺑﺎﺕ ﮐﺮ ﺭﮨﺎ ﮨﻮﮞ ... ﺁﭖ ﮐﻮﻥ " ﺍﺱ ﻧﮯ ﺍﭘﻨﺎ ﻧﺎﻡ ﺑﺘﺎﺗﮯ ﮨﻮﺋﮯ ﭘﮭﺮ ﻣﯿﺮﮮ ﻣﺘﻌﻠﻖ ﭘﻮﭼﮫ ﻟﯿﺎ۔ " ﻣﯿﺮﮮ ﺧﯿﺎﻝ ﻣﯿﮟ ﺗﻮ ﺗﻢ ﺟﺎﻥ ﭼُﮑﮯ ﮨﻮ ﮔﮯ ﮐﮯ ﻣﯿﮟ ﮐﻮﻥ ﮨﻮﮞ ﺍﻭﺭ ﻣﺠﮭﮯ ﯾﮧ ﺑﮭﯽ ﯾﻘﯿﻦ ﮨﮯ ﮐﮯ ﺍُﺱ ﺩﻥ ﮐﺎ ﺳﺎﺭﺍ ﻭﺍﻗﻌﮧ ﺑﮭﯽ ﺗُﻢ ﮐﻮ ﯾﺎﺩ ﮨﻮ ﮔﺎ۔ "

 " ﺟﯽ .... ﻣﯿﮟ ... ﻭﮦ ،، ﺍُﺱ ﮐﯽ ﺁﻭﺍﺯ ﺍﭨﮏ ﺭﮨﯽ ﺗﮭﯽ ﯾﺎ ﭘﮭﺮ ﻭﮦ ﺑﻼ ﮐﯽ ﺍﯾﮑﭩﻨﮓ ﮐﺮ ﺭﮨﺎ ﺗﮭﺎ۔

" ﮐﯿﻮﮞ ﮐﯿﺎ ﺍﯾﺴﺎ ... ؟ "

ﻣﯿﺮﮮ ﺳﻮﺍﻝ ﮐﺎ ﺟﻮﺍﺏ ﻭﮦ ﮐﯿﺎ ﺩﯾﺘﺎ ﺍﺱ ﮐﮯ ﭘﺎﺱ ﮐﻮﺋﯽ ﺩﻟﯿﻞ ﯾﺎ ﻭﺟﮧ ﻧﮩﯿﮟ ﺗﮭﯽ ﺷﺎﺋﯿﺪ ﺍﺳﯽ ﻟﯿﺌﮯ ﻭﮦ ﺧﺎﻣﻮﺵ ﮨﻮ ﮔﯿﺎ ﺍﻭﺭ ﭘﮭﺮ ﺗﮭﻮﮌﯼ ﺩﯾﺮ ﮐﮯ ﺑﻌﺪ ﺍُﺱ ﻧﮯ ﺧﺎﻣﻮﺷﯽ ﮐﻮ ﺗﻮﮌﺍ ﺍﻭﺭ ﺍﺱ ﮐﯽ ﺁﻭﺍﺯ ﻣﯿﺮﮮ ﮐﺎﻧﻮﮞ ﺳﮯ ﭨﮑﺮﺍﺋﯽ

'' ﻣﯿﮟ ﺁﭖ ﮐﺎ ﻣُﺠﺮﻡ ﮨﻮﮞ، ﺍﺱ ﮐﯿﻠﺌﮯ ﺑﮩﺖ ﺷﺮﻣﻨﺪﮦ ﺑﮭﯽ ﮨﻮﮞ۔ ﺁﭖ ﺟﻮ ﭼﺎﮨﯿﮟ ﻣﺠﮭﮯ ﺳﺰﺍ ﺩﯾﮟ ﺁﭖ ﮐﻮ ﺍﺱ ﮐﺎ ﭘﻮﺭﺍ ﺣﻖ ﮨﮯ۔ ﻟﯿﮑﻦ ﯾﮧ ﺟﺎﻥ ﻟﯿﮟ ﮐﮯ ﺟﻮ ﮐُﭽﮫ ﺑﮭﯽ ﮨﻮﺍ ﺍﺱ ﮐﯿﻠﺌﮯ ﻣﯿﮟ ﺑﮩﺖ ﻣﺠﺒﻮﺭ ﺗﮭﺎ۔ ﻭﮦ ﺑﻮﻟﻨﮯ ﻟﮕﺎ ﺍﻭﺭ ﭘﮭﺮ ﺑﻮﻟﺘﺎ ﮨﯽ ﭼﻼ ﮔﯿﺎ ﻭﮦ ﻇﺎﻟﻢ ﮨﻮﻧﮯ ﮐﮯ ﺑﺎﻭﺟﻮﺩ ﺧﻮﺩ ﮐﻮ ﻣﻈﻠﻮﻡ ﺑﻨﺎﻧﮯ ﮐﯽ ﺗﮓ ﻭ ﺩﻭ ﻣﯿﮟ ﺗﮭﺎ۔

 " ﻣﯿﮟ ﮐﻮﺋﯽ ﻋﺎﺩﯼ ﻣُﺠﺮﻡ ﻧﮩﯿﮟ ﮨﻮﮞ ﺍﻭﺭ ﻧﮧ ﮨﯽ ﮈﺍﮐﮧ ﺯﻧﯽ ﻣﯿﺮﺍ ﭘﯿﺸﮧ ﮨﮯ۔ ﻣﯿﺮﺍ ﺑﮭﺎﺋﯽ ﺍﯾﮑﺴﯿﮉﻧﭧ ﮐﯽ ﻭﺟﮧ ﺳﮯ ﮨﺴﭙﺘﺎﻝ ﭘﮍﺍ ﺗﮭﺎ ﺍُﺱ ﮐﮯ ﻋﻼﺝ ﮐﯿﻠﺌﮯ ﭘﯿﺴﻮﮞ ﮐﯽ ﺿﺮﻭﺭﺕ ﺗﮭﯽ ﺟﻮ ﮐﮯ ﻣﯿﺮﮮ ﭘﺎﺱ ﻧﮩﯿﮟ ﺗﮭﮯ۔ ﻣﯿﮟ ﭘﯿﺴﻮﮞ ﮐﮯ ﺣﺼﻮﻝ ﮐﮯ ﻟﯿﺌﮯ ﮨﺮ ﺩﺭﻭﺍﺯﮦ ﮐﮭﭩﮑﮭﭩﺎ ﭼُﮑﺎ ﺗﮭﺎ۔ ﮨﺮ ﺟﮕﮧ ﻣﺎﺗﮭﺎ ﺭﮔﮍ ﭼُﮑﺎ ﺗﮭﺎ ﻟﯿﮑﻦ ﻣﯿﮟ ﭘﯿﺴﻮﮞ ﮐﺎ ﮐﮩﯿﮟ ﺳﮯ ﺑﮭﯽ ﺑﻨﺪﻭﺑﺴﺖ ﻧﮩﯿﮟ ﮐﺮ ﭘﺎﯾﺎ۔ ﮨﻢ ﺩﻭ ﮨﯽ ﺑﮭﺎﺋﯽ ﮨﯿﮟ ﺑﺎﭖ ﺩُﻧﯿﺎ ﻣﯿﮟ ﻧﮩﯿﮟ ﻣﺎﮞ ﮨﮯ ﺟﻮ ﺑﯿﭩﮯ ﮐﮯ ﻏﻢ ﻣﯿﮟ ﺗﮍﭖ ﺭﮨﯽ ﺗﮭﯽ۔ ﺍﻭﺭ ﺍﺱ ﮐﺎ ﺗﮍﭘﻨﺎ ﻣﺠﮫ ﺳﮯ ﺩﯾﮑﮭﺎ ﻧﮩﯿﮟ ﮔﯿﺎ۔ ﻣﯿﮟ ﻧﮯ ﺩﻭﺳﺘﻮﮞ ﺳﮯ ﺑﺎﺕ ﮐﯽ ﺗﻮ ﺍﻧﮩﻮﮞ ﻧﮯ ﺍﺱ ﮐﺎﻡ ﮐﺎ ﻣﺸﻮﺭﮦ ﺩﯾﺎ۔ ﻣﯿﮟ ﭘﮩﻠﮯ ﻧﮩﯿﮟ ﻣﺎﻧﺎ ﻟﯿﮑﻦ ﻣﺎﮞ ﮐﺎ ﺳﻮﺍﻟﯿﮧ ﭼﮩﺮﮦ ﻣﺠﮫ ﺳﮯ ﺩﯾﮑﮭﺎ ﻧﮩﯿﮟ ﺟﺎﺗﺎ ﺗﮭﺎ۔ ﻣﺎﮞ ﮐﯽ ﺣﺎﻟﺖ ﺩﯾﮑﮫ ﮐﺮ ﻣﯿﮟ ﻧﮯ ﺑﮭﺎﺋﯽ ﮐﯽ ﺯﻧﺪﮔﯽ ﺑﭽﺎﻧﮯ ﮐﮯ ﻟﯿﺌﮯ ﺍﺱ ﮔﮭﻨﺎﺅﻧﮯ ﺟﺮﻡ ﮐﺎ ﻓﯿﺼﻠﮧ ﮐﯿﺎ۔ ﺍﻭﺭ ﺩﻭﺳﺘﻮﮞ ﺳﮯ ﻣﻞ ﮐﺮ ﺁﭖ ﮐﮯ ﮔﮭﺮ ﮈﺍﮐﮧ ﮈﺍﻻ۔ ﯾﮧ ﭘﮩﻠﮯ ﺳﮯ ﻃﮯ ﻧﮩﯿﮟ ﺗﮭﺎ ﮐﮯ ﺁﭖ ﮨﯽ ﮐﮯ ﮔﮭﺮ ﮈﺍﮐﮧ ﮈﺍﻟﻨﺎ ﮨﮯ۔ ﺍﺳﮯ ﺁﭖ ﺍﺗﻔﺎﻕ ﮐﮩﮧ ﻟﯿﮟ ﮐﮯ ﮨﻢ ﺟﺲ ﮔﮭﺮ ﮈﺍﮐﮧ ﮈﺍﻟﻨﮯ ﮐﯿﻠﺌﮯ ﺩﺍﺧﻞ ﮨﻮﺋﮯ ﻭﮦ ﮔﮭﺮ ﺁﭖ ﮐﺎ ﺗﮭﺎ۔ ﺍﻭﺭ ﯾﮧ ﻣﯿﺮﯼ ﺯﻧﺪﮔﯽ ﮐﺎ ﭘﮩﻼ ﺍﻭﺭ ﺁﺧﺮﯼ ﮈﺍﮐﮧ ﺗﮭﺎ۔ ﻣﯿﮟ ﺁﭖ ﮐﻮ ﯾﮧ ﺑﮭﯽ ﺑﺘﺎ ﺩﻭﮞ ﮐﮯ ﮨﻤﺎﺭﮮ ﭘﺎﺱ ﺟﻮ ﺑﻨﺪﻭﻗﯿﮟ ﺗﮭﯿﮟ ﻭﮦ ﺑﮭﯽ ﺍﺻﻠﯽ ﻧﮩﯿﮟ ﺗﮭﯿﮟ ﺑﻠﮑﮧ ﻋﺎﻡ ﺳﯽ ﺑﭽﻮﮞ ﮐﮯ ﮐﮭﯿﻠﻨﮯ ﻭﺍﻟﯽ ﮐﮭﻠﻮﻧﺎ ﺑﻨﺪﻭﻗﯿﮟ ﺗﮭﯿﮟ۔ ﮐﯿﻮﻧﮑﮧ ﮨﻤﺎﺭﺍ ﻣﻘﺼﺪ ﮐﺴﯽ ﮐﯽ ﺟﺎﻥ ﻟﯿﻨﺎ ﻧﮩﯿﮟ ﺗﮭﺎ۔ ﻭﮦ ﺑﻮﻟﮯ ﺟﺎ ﺭﮨﺎ ﺗﮭﺎ

..... ﻣﯿﮟ ﺍُﺱ ﮐﯽ ﺑﺎﺕ ﮐﺎﭦ ﮐﺮ ﺑﻮﻝ ﭘﮍﯼ " ﺗﻮ ﮐﯿﺎ ﺗُﻢ ﻧﮯ ﻣﯿﺮﮮ ﺳﺎﺗﮫ ﺟﻮ ﮐﯿﺎ ﻭﮦ ﺟُﺮﻡ ﻧﮩﯿﮟ ﺗﮭﺎ، ﺗُﻢ ﺻﺮﻑ ﮈﺍﮐﮧ ﮈﺍﻟﻨﮯ ﮐﻮ ﮨﯽ ﺟُﺮﻡ ﺗﺼﻮﺭ ﮐﺮ ﺭﮨﮯ ﮨﻮ۔ ﺩﻭﻟﺖ ﻟُﻮﭨﻨﺎ ﺗﻤﮩﺎﺭﮮ ﻧﺰﺩﯾﮏ ﺟُﺮﻡ ﮨﮯ ﺍﻭﺭ ﺟﻮ ﺗُﻢ ﻧﮯ ﻣﯿﺮﯼ ﻋﺰﺕ ﺗﺎﺭ ﺗﺎﺭ ﮐﯽ ﻭﮦ ﺟُﺮﻡ ﻧﮩﯿﮟ ﺗﮭﺎ؟ "

 ﻣﯿﮟ ﺍُﺱ ﭘﺮ ﺑﺮﺱ ﭘﮍﯼ ﺗﻮ ﺍﺱ ﻧﮯ ﻓﻮﺭﺍً ﻣﯿﺮﯼ ﺑﺎﺕ ﮐﺎﭦ ﺩﯼ

" ﻣﯿﮟ ﺍﺱ ﺟُﺮﻡ ﺳﮯ ﺑﮭﯽ ﺍﻧﮑﺎﺭﯼ ﻧﮩﯿﮟ ﮨﻮﮞ، ﻣﯿﮟ ﭘﮩﻠﮯ ﮐﮩﮧ ﭼُﮑﺎ ﮨﻮﮞ ﮐﮯ ﻣﯿﮟ ﺁﭖ ﮐﺎ ﻣُﺠﺮﻡ ﮨﻮﮞ۔ ﮨﻢ ﮈﺍﮐﮧ ﮈﺍﻟﻨﮯ ﺁﭖ ﮐﮯ ﮔﮭﺮ ﺩﺍﺧﻞ ﮨﻮﺋﮯ ﺗﻮ ﺍﺱ ﻃﺮﺡ ﮐﺎ ﮐﺴﯽ ﮐﺎ ﮐﻮﺋﯽ ﺍﺭﺍﺩﮦ ﻧﮩﯿﮟ ﺗﮭﺎ ﺑﻠﮑﮧ ﻣﻨﺼﻮﺑﮧ ﯾﮧ ﺗﮭﺎ ﮐﮯ ﺟﺘﻨﯽ ﺟﻠﺪﯼ ﻣﻤﮑﻦ ﮨﻮ ﺳﮑﮯ ﺳﺎﻣﺎﻥ ﺳﻤﯿﭩﻨﺎ ﮨﮯ ﺍﻭﺭ ﻭﮨﺎﮞ ﺳﮯ ﻧﮑﻠﻨﺎ ﮨﮯ۔ ﻟﯿﮑﻦ ﺟﺐ ﻣﯿﮟ ﻧﮯ ﺁﭖ ﮐﯽ ﺧﻮﺍﺑﮕﺎﮦ ﺳﮯ ﺁﭖ ﮐﻮ ﺍُﭨﮭﺎﯾﺎ ﺗﮭﺎ ﺗﺐ ﮨﯽ ﺁﭖ ﮐﻮ ﺩﯾﮑﮫ ﮐﺮ ﻣﯿﺮﺍ ﺩﻝ ﻣﭽﻞ ﮔﯿﺎ ﺗﮭﺎ۔ ﮐﯿﻮﻧﮑﮧ ﺁﭖ ﺍﺱ ﺍﻧﺪﺍﺯ ﻣﯿﮟ ﭘﮍﯼ ﺳﻮ ﺭﮨﯽ ﺗﮭﯿﮟ ﮐﮯ ﮐﻮﺋﯽ ﺑﮭﯽ ﺩﯾﮑﮭﺘﺎ ﺗﻮ ﺑﮩﮏ ﺟﺎﺗﺎ۔ﻟﯿﮑﻦ ﻣﯿﮟ ﻧﮯ ﺧﻮﺩ ﭘﺮ ﺟﺒﺮ ﮐﯿﺎ ﺍﻭﺭ ﭘﮭﺮ ﺟﺐ ﻣﯿﮟ ﺁﭖ ﮐﻮ ﺩﻭﺳﺮﮮ ﮐﻤﺮﮮ ﻣﯿﮟ ﻟﮯ ﮐﺮ ﮔﯿﺎ ﺗﻮ ﻣﯿﮟ ﻧﮯ ﺭﻭﺷﻨﯽ ﻣﯿﮟ ﺁﭖ ﮐﺎ ﺣُﺴﻦ ﺍﻭﺭ ﺧﻮﺑﺼﻮﺭﺗﯽ ﺩﯾﮑﮭﯽ ﺗﻮ ﺩﻝ ﻣﯿﮟ ﺧﻠﺶ ﮨﻮﺋﯽ ﮐﮯ ﺁﭖ ﮐﻮ ﺑﺴﺘﺮ ﺳﮯ ﺍُﭨﮭﺎ ﮐﺮ ﯾﮩﺎﮞ ﮐﯿﻮﮞ ﻟﮯ ﺁﯾﺎ ﻭﮨﺎﮞ ﺑﺴﺘﺮ ﭘﺮ ﮨﯽ ﺁﭖ ﮐﮯ ﺳﺎﺗﮫ ﮐﯿﻮﮞ ﻧﮩﯿﮟ ﺳﻮ ﮔﯿﺎ۔ ﻟﯿﮑﻦ ﻣﯿﮟ ﻧﮯ ﭘﮭﺮ ﺑﮭﯽ ﺧﻮﺩ ﮐﻮ ﮐﻨﭩﺮﻭﻝ ﻣﯿﮟ ﺭﮐﮭﺎ ﮐﯿﻮﻧﮑﮧ ﮨﻤﺎﺭﺍ ﻣﻘﺼﺪ ﮐﭽﮫ ﺍﻭﺭ ﺗﮭﺎ۔ ﺍﮔﺮﭼﮧ ﻣﯿﮟ ﻧﮯ ﺑﮩﺖ ﺿﺒﻂ ﮐﯿﺎ ﺗﮭﺎ ﻟﯿﮑﻦ ﭘﮭﺮ ﺟﺐ ﺁﭖ ﮐﮯ ﺳﺎﺗﮫ ﺩﻭﺑﺎﺭﮦ ﺁﭘﮑﯽ ﺧﻮﺍﺑﮕﺎﮦ ﻣﯿﮟ ﺁﭖ ﮐﮯ ﺑﯿﭩﮯ ﮐﻮ ﭼُﭗ ﮐﺮﺍﻧﮯ ﮐﮯ ﻟﯿﺌﮯ ﻟﮯ ﮐﺮ ﺟﺎﻧﺎ ﭘﮍﺍ ﺗﺐ ﺑﮭﯽ ﻣﯿﮟ ﺧﻮﺩ ﮐﻮ ﮐﻨﭩﺮﻭﻝ ﮐﺮﻧﮯ ﮐﯽ ﮐﻮﺷﺶ ﮐﺮ ﺭﮨﺎ ﺗﮭﺎ ﻟﯿﮑﻦ ﺁﭖ ﮐﺎ ﻧﺮﻡ ﮔُﺪﺍﺯ ﭘﯿﭧ ﺩﯾﮑﮫ ﮐﺮ ﺍﻭﺭ ﺁﭖ ﮐﮯ ﺧﻮﺑﺼﻮﺭﺕ ﭘﺴﺘﺎﻥ ﺩﯾﮑﮫ ﮐﺮ ﻣﯿﮟ ﺿﺒﻂ ﻗﺎﺋﻢ ﻧﮧ ﺭﮐﮫ ﺳﮑﺎ ﻧﮧ ﺟﺎﻧﮯ ﻭﮦ ﮐﻮﻥ ﺳﯽ ﻗﻮﺕ ﺗﮭﯽ ﺟﻮ ﻣﺠﮭﮯ ﺍُﭨﮭﺎ ﮐﺮ ﺁﭖ ﮐﮯ ﻗﺮﯾﺐ ﻟﮯ ﮔﺌﯽ ﺍﻭﺭ ﺟﺲ ﻧﮯ ﻣﺠﮭﮯ ﻣﺠﺒﻮﺭ ﮐﯿﺎ ﮐﮯ ﻣﯿﮟ ﺁﭖ ﮐﮯ ﭘﯿﭧ ﮐﻮ ﭼﮭُﻮ ﻟﻮﮞ ﺍﻭﺭ ﭘﮭﺮ ﻣﯿﮟ ﻧﮯ ﺍﯾﺴﺎ ﮨﯽ ﮐﯿﺎ۔ ﯾﮧ ﺁﭖ ﮐﮯ ﺟﺴﻢ ﮨﯽ ﮐﯽ ﮐﻮﺋﯽ ﮐﺸﺶ ﺗﮭﯽ ﮐﮯ ﻣﯿﺮﺍ ﮨﺎﺗﮫ ﺁﭖ ﮐﮯ ﻧﻨﮕﮯ ﭘﯿﭧ ﺳﮯ ﭨﮑﺮﺍﯾﺎ ﺗﻮ ﭘﮭﺮ ﻣﯿﺮﮮ ﺍﻧﺪﺭ ﮐﮯ ﺟﺎﻧﻮﺭ ﻧﮯ ﻣﺠﮫ ﮐﻮ ﻗﺎﺑﻮ ﻣﯿﮟ ﻧﮩﯿﮟ ﺭﮨﻨﮯ ﺩﯾﺎ۔ ﻭﮦ ﺷﺎﺋﯿﺪ ﺍﻭﺭ ﺑﺎﺕ ﮐﺮﺗﺎ ﻟﯿﮑﻦ ﻣﯿﮟ ﻧﮯ ﯾﮧ ﮐﮩﮧ ﮐﺮ ﮐﮯ ﻣﯿﺮﮮ ﺷﻮﮨﺮ ﮔﮭﺮ ﺁﮔﺌﮯ ﮨﯿﮟ ﺍﺱ ﻟﯿﺌﮯ ﺑﻌﺪ ﻣﯿﮟ ﺑﺎﺕ ﮐﺮﺗﮯ ﮨﯿﮟ ﻓﻮﻥ ﮐﺎﭦ ﺩﯾﺎ۔

 ﻣﯿﺮﮮ ﺷﻮﮨﺮ ﻭﺍﻗﻌﯽ ﮐﺎﻡ ﺳﮯ ﻭﺍﭘﺲ ﺁﮔﺌﮯ ﺗﮭﮯ۔ ﻣﯿﮟ ﻧﮯ ﺍُﺱ ﮈﮐﯿﺖ ﮐﮯ ﻣﺘﻌﻠﻖ ﺳﺎﺱ ﮐﻮ ﻧﮩﯿﮟ ﺑﺘﺎﯾﺎ ﺗﮭﺎ ﺍﻭﺭ ﺍﺏ ﺍﭘﻨﮯ ﺷﻮﮨﺮ ﺳﮯ ﺑﮭﯽ ﭼﮭﭙﺎﻧﺎ ﭼﺎﮨﺘﯽ ﺗﮭﯽ ﺍﺳﯽ ﻟﯿﺌﮯ ﺟﯿﺴﮯ ﮨﯽ ﻣﺠﮭﮯ ﺑﺎﮨﺮ ﺍُﻥ ﮐﯽ ﮔﺎﮌﯼ ﮐﯽ ﺁﻭﺍﺯ ﺁﺋﯽ ﻣﯿﮟ ﻧﮯ ﺍُﺳﮯ ﺑﻌﺪ ﻣﯿﮟ ﺑﺎﺕ ﮐﺮﻧﮯ ﮐﺎ ﮐﮩﮧ ﮐﺮ ﻓﻮﻥ ﮐﺎﭦ ﺩﯾﺎ۔ ﺍُﺱ ﮈﮐﯿﺖ ﺳﮯ ﺑﺎﺕ ﮐﺮﻧﮯ ﮐﮯ ﺑﻌﺪ ﺳﮯ ﻟﮯ ﮐﺮ ﺑﺴﺘﺮ ﭘﺮ ﺟﺎﻧﮯ ﺗﮏ ﺍُﺳﮯ ﮨﯽ ﺳﻮﭼﺘﯽ ﺭﮨﯽ، ﻣﯿﺮﯼ ﻋﻘﻞ ﮐﮩﺘﯽ ﮐﮯ ﻭﮦ ﺍﯾﺴﮯ ﮨﯽ ﺟﮭﻮﭨﯽ ﮐﮩﺎﻧﯽ ﺳُﻨﺎ ﺭﮨﺎ ﮨﮯ ﺟﺒﮑﮧ ﺩﻝ ﺍُﺱ ﮐﯽ ﺑﺎﺕ ﮐﻮ ﻣﻦ ﻭ ﻋﻦ ﺳﭻ ﻣﺎﻥ ﺭﮨﺎ ﺗﮭﺎ۔ ﺍﺻﻞ ﻣﯿﮟ ﺩﻝ ﺧﻮﺩﻏﺮﺽ ﺗﮭﺎ۔ ﺻُﺒﺢ ﻧﺎﺷﺘﮧ ﻭﻏﯿﺮﮦ ﮐﺮﻧﮯ ﮐﮯ ﺑﻌﺪ ﺳﺐ ﺍﭘﻨﮯ ﺍﭘﻨﮯ ﮐﺎﻡ ﭘﺮ ﭼﻠﮯ ﮔﺌﮯ ﺗﻮ ﻣﯿﮟ ﺍﺑﮭﯽ ﮐﺎﻡ ﺳﮯ ﻓﺎﺭﻍ ﮨﻮ ﮐﺮ ﺑﯿﭩﮭﯽ ﮨﯽ ﺗﮭﯽ ﮐﮯ ﻣﻮﺑﺎﺋﻞ ﮐﯽ ﺑﯿﻞ ﭘﺮ ﻣﯿﮟ ﭼﻮﻧﮏ ﮔﺌﯽ ﺩﯾﮑﮭﺎ ﺗﻮ ﺍُﺳﯽ ﮐﯽ ﮐﺎﻝ ﺗﮭﯽ۔ ﻣﯿﮟ ﺍﭘﻨﮯ ﮐﻤﺮﮮ ﻣﯿﮟ ﭼﻠﯽ ﺁﺋﯽ ﺍﻭﺭ ﻓﻮﻥ ﺭﯾﺴﯿﻮ ﮐﯿﺎ ﺗﻮ ﻣﯿﺮﮮ ﺑﻮﻟﻨﮯ ﺳﮯ ﭘﮩﻠﮯ ﮨﯽ ﻭﮦ ﺑﻮﻝ ﭘﮍﺍ ,

 " ﻣﯿﮟ ﮨﻮﮞ ﺟﯽ ﺁﭖ ﮐﺎ ﻣُﺠﺮﻡ " ﮐﻞ ﺑﺎﺕ ﻣﮑﻤﻞ ﻧﮩﯿﮟ ﮨﻮ ﺳﮑﯽ ﺗﮭﯽ ﺍﺱ ﻟﯿﺌﮯ ﺁﺝ ﭘﮭﺮ ﺁﭖ ﮐﻮ ﺯﺣﻤﺖ ﺩﮮ ﺭﮨﺎ ﮨﻮﮞ , ﻣﯿﮟ ﺟﺎﻧﻨﺎ ﭼﺎﮨﺘﺎ ﮨﻮﮞ ﮐﮯ ﺁﭖ ﻧﮯ ﻣﯿﺮﮮ ﻟﯿﺌﮯ ﮐﯿﺎ ﺳﺰﺍ ﺗﺠﻮﯾﺰ ﮐﯽ ﮨﮯ۔ "

 ﻣﯿﮟ ﺧﺎﻣﻮﺵ ﺗﮭﯽ ﺍﻭﺭ ﺍﺑﮭﯽ ﻓﯿﺼﻠﮧ ﮐﺮ ﺭﮨﯽ ﺗﮭﯽ ﮐﮯ ﮐﯿﺎ ﮐﮩﻮﮞ ﮐﮧ ﺍﭼﺎﻧﮏ ﻣﺠﮭﮯ ﻟﮕﺎ ﮐﮯ ﻭﮦ ﺭﻭﻧﮯ ﻟﮕﺎ ﮨﮯ۔ ﻭﮦ ﺍﻟﺘﺠﺎﺋﯿﮟ ﮐﺮﻧﮯ ﻟﮕﺎ ﮐﮯ ﻭﮦ ﻣﺠﺒﻮﺭ ﺗﮭﺎ ﺍﺱ ﻟﯿﺌﮯ ﺍُﺱ ﺳﮯ ﺟُﺮﻡ ﺳﺮﺯﺩ ﮨﻮﺍ ﺍﻭﺭ ﺳﺎﺗﮫ ﮨﯽ ﻭﮦ ﻣﯿﺮﯼ ﺧﻮﺑﺼﻮﺭﺗﯽ ﺍﻭﺭ ﺣُﺴﻦ ﮐﯽ ﺗﻌﺮﯾﻔﯿﮟ ﮐﺮﺗﮯ ﮨﻮﺋﮯ ﮐﮩﮧ ﺭﮨﺎ ﺗﮭﺎ ﻣﺠﮫ ﺟﯿﺴﯽ ﻟﮍﮐﯽ ﮐﻮ ﺩﯾﮑﮫ ﮐﺮ ﻓﺮﺷﺘﮯ ﺑﮩﮏ ﺟﺎﺋﯿﮟ ﻭﮦ ﺗﻮ ﭘﮭﺮ ﺑﮭﯽ ﺍﻧﺴﺎﻥ ﮨﮯ۔ ﺍﺱ ﻟﯿﺌﮯ ﻭﮦ ﭼﺎﮦ ﺭﮨﺎ ﺗﮭﺎ ﮐﮧ ﺍُﺱ ﮐﮯ ﮔُﻨﺎﮦ ﮐﻮ ﻣﻌﺎﻑ ﮐﺮ ﺩﻭﮞ۔ ﺍﺳﮯ ﺳﺰﺍ ﺩﯾﻨﯽ ﮨﻮﺗﯽ ﺗﻮ ﺍُﺳﯽ ﻭﻗﺖ ﭘﻮﻟﯿﺲ ﮐﻮ ﺑﺘﺎ ﮐﺮ ﭘﮑﮍﻭﺍ ﻧﺎ ﺩﯾﺘﯽ۔ ﻣﯿﺮﮮ ﺩﻝ ﻣﯿﮟ ﺗﻮ ﺧﻮﺩ ﺍُﺱ ﮐﯿﻠﺌﮯ ﭼﻮﺭ ﭘﮍﺍ ﺗﮭﺎ۔ ﻣﯿﺮﯼ ﮨﻮﺱ ﺍُﺱ ﮐﯿﻠﺌﮯ ﺑﮯ ﻗﺎﺑﻮ ﮨﻮﺋﯽ ﺟﺎ ﺭﮨﯽ ﺗﮭﯽ۔ ﺍﺳﯽ ﻟﯿﺌﮯ ﺗﻮ ﺩﻝ ﻣﺨﺘﻠﻒ ﺣﯿﻠﮯ ﺑﮩﺎﻧﮯ ﺳﮯ ﻣﺠﮭﮯ ﻣﻄﻤﺌﻦ ﮐﺮ ﺭﮨﺎ ﺗﮭﺎ۔ ﮐﮧ ﻭﮦ ﻣﺠﺒﻮﺭ ﺗﮭﺎ ﺍﺱ ﻟﯿﺌﮯ ﺍُﺱ ﻧﮯ ﺍﯾﺴﺎ ﮐﯿﺎ ﮨﮯ۔ ﻣﯿﺮﯼ ﺍﻧﺪﺭ ﮐﯽ ﮨﻮﺱ ﻧﮯ ﺩﻣﺎﻍ ﮐﮯ ﮔﺮﺩ ﭘﭩﯽ ﺑﺎﻧﺪﮪ ﺩﯼ ﺗﮭﯽ ﺍﻭﺭ ﻣﯿﮟ ﮨﻮﺱ ﮐﮯ ﺗﺎﺑﻊ ﺩﻝ ﮐﯽ ﺑﺎﺕ ﻣﺎﻥ ﺭﮨﯽ ﺗﮭﯽ۔

" ﺟﺎﺅ ﻣﯿﮟ ﻧﮯ ﺗُﻢ ﮐﻮ ﻣﻌﺎﻑ ﮐﯿﺎ "

ﻣﯿﺮﺍ ﺍﺗﻨﺎ ﮐﮩﻨﺎ ﺗﮭﺎ ﮐﮯ ﻭﮦ ﮔﻮﯾﺎ ﺍُﭼﮭﻞ ﭘﮍﺍ ، ﻣﯿﮟ ﺍُﺳﮯ ﺩﯾﮑﮫ ﺗﻮ ﻧﮩﯿﮟ ﺳﮑﺘﯽ ﺗﮭﯽ ﻟﯿﮑﻦ ﺍُﺱ ﮐﯽ ﺁﻭﺍﺯ ﺳﮯ ﺍﻧﺪﺍﺯﮦ ﮐﺮ ﺳﮑﺘﯽ ﺗﮭﯽ ﮐﮯ ﻭﮦ ﺟﯿﺴﮯ ﮐﻮﺋﯽ ﺟﻨﮓ ﺟﯿﺖ ﮔﯿﺎ ﮨﻮ۔ ﻣﺠﮭﮯ ﯾﻘﯿﻦ ﺗﮭﺎ ﮐﮧ ﺁﭖ ﻣﯿﺮﮮ ﺣﺎﻻﺕ ﮐﻮ ﺳﻤﺠﮭﺘﮯ ﮨﻮﺋﮯ ﻣﺠﮭﮯ ﺿﺮﻭﺭ ﻣﻌﺎﻑ ﮐﺮﯾﮟ ﮔﯽ۔

 ﺍُﺱ ﮐﯽ ﭼﮩﮑﺘﯽ ﺁﻭﺍﺯ ﺁﺋﯽ ﺗﻮ ﻣﯿﮟ ﻧﮯ ﺍُﺱ ﺳﮯ ﭘﻮﭼﮫ ﻟﯿﺎ ﮐﮧ ﻭﮦ ﺍﺗﻨﮯ ﯾﻘﯿﻦ ﺳﮯ ﮐﯿﺴﮯ ﮐﮩﮧ ﺳﮑﺘﺎ ﮨﮯ ﺗﻮ ﺍُﺱ ﮐﺎ ﺟﻮﺍﺏ ﻣﺠﮭﮯ ﺧﻮﺩ ﭘﺴﻨﺪﯼ ﮐﯽ ﺍﻧﺘﮩﺎ ﺗﮏ ﻟﮯ ﮔﯿﺎ، ﺗﻌﺮﯾﻒ ﻭﯾﺴﮯ ﺗﻮ ﮨﺮ ﺍﻧﺴﺎﻥ ﮨﯽ ﮐﯽ ﮐﻤﺰﻭﺭﯼ ﮨﻮﺗﯽ ﮨﮯ ﻟﯿﮑﻦ ﺍﺱ ﻣﻌﺎﻣﻠﮯ ﻣﯿﮟ ﻋﻮﺭﺗﯿﮟ ﮐﭽﮫ ﺯﯾﺎﺩﮦ ﮨﯽ ﮐﻤﺰﻭﺭ ﮨﯿﮟ۔ ﮐﺴﯽ ﺑﮭﯽ ﺳﺨﺖ ﺳﮯ ﺳﺨﺖ ﻋﻮﺭﺕ ﮐﯿﻠﺌﮯ ﺗﻌﺮﯾﻒ ﻣﯿﮟ ﮐﮩﮯ ﮔﺌﮯ ﭼﻨﺪ ﺍﻟﻔﺎﻅ ﺍُﺳﮯ ﺭﯾﺖ ﮐﯽ ﺩﯾﻮﺍﺭ ﮐﯽ ﻃﺮﺡ ﮈﮬﯿﺮ ﮐﺮﻧﮯ ﮐﯿﻠﺌﮯ ﮐﺎﻓﯽ ﮨﻮﺗﮯ ﮨﯿﮟ۔ ﻣﯿﮟ ﺗﻮ ﻭﯾﺴﮯ ﺑﮭﯽ ﺍُﺱ ﮈﮐﯿﺖ ﮐﯿﻠﺌﮯ ﺩﻣﺎﻍ ﺳﮯ ﺗﻮ ﺳﻮﭺ ﮨﯽ ﻧﮩﯿﮟ ﺭﮨﯽ ﺗﮭﯽ ﺑﻠﮑﮧ ﺍُﺱ ﺳﮯ ﺩﻝ ﺍﻭﺭ ﮨﻮﺱ ﮐﺎ ﺭﺷﺘﮧ ﺍﺳﺘﻮﺍﺭ ﮐﺮﻧﮯ ﻣﯿﮟ ﻟﮕﯽ ﺗﮭﯽ۔ ﮨﻮﺱ ﮨﺮ ﺑُﺮﺍﺋﯽ ﭘﺮ ﭘﺮﺩﮮ ﮈﺍﻟﮯ ﮨﻮﺋﮯ ﺗﮭﮯ۔ ﺍُﺱ ﻧﮯ ﮐﮩﺎ ﮐﮯ ﺍُﺳﮯ ﺍﺱ ﻟﯿﺌﮯ ﯾﻘﯿﻦ ﺗﮭﺎ ﮐﮯ ﻣﯿﺮﺍ ﭘﻮﺭﺍ ﺟﺴﻢ ﺍﺗﻨﺎ ﻧﺮﻡ ﺍﻭﺭ ﻣﻼﺋﻢ ﮨﮯ ﮐﮯ ﺍﺱ ﺟﺴﻢ ﮐﮯ ﺍﻧﺪﺭ ﺑﺴﻨﮯ ﻭﺍﻻ ﺩﻝ ﺳﺨﺖ ﮨﻮ ﮨﯽ ﻧﮩﯿﮟ ﺳﮑﺘﺎ ﺍﺱ ﻟﯿﺌﮯ ﺍُﺳﮯ ﯾﻘﯿﻦ ﺗﮭﺎ ﮐﮯ ﻣﯿﮟ ﺍُﺱ ﮐﯽ ﻣﺠﺒﻮﺭﯼ ﮐﻮ ﺳﻤﺠﮭﺘﮯ ﮨﻮﺋﮯ ﺍُﺳﮯ ﺿﺮﻭﺭ ﻣﻌﺎﻑ ﮐﺮ ﺩﻭﮞ ﮔﯽ۔ وہ میری تعریفیں کر رہا تھا اور میں دل سے چاہ رہی تھی کے وہ ان تعریفوں کا سلسلہ طویل سے طویل تر کر دے۔ اور وہ ایسے ہی کر رہا تھا۔ میں اس کے کہے لفظوں کے سحر میں ڈوبتی ہی گئی۔ وہ بار بار میری رحمدلی کے ترانے گا رہا تھا ساتھ ہی ساتھ وہ میری خوبصورتی کا ذکر بھی کر رہا تھا۔

میری طرف سے کوئی خاص ردّعمل نہیں تھا میں خود سے اُسے کوئی ایسا اشارہ نہیں دینا چاہتی تھی جس سے وہ سمجھے کہ میں بھی اُس کے ساتھ دوبارہ سیکس کیلئے مری جا رہی ہوں۔

بلکہ میں سوچ رہی تھی کے اُس نے اگر دوبارہ سیکس کی آفر کی تو میں اُسے قبول کرنے سے پہلے ظاہر کروں گی کی میری ایسی کوئی خواہش نہیں۔ لیکن مجھے پتہ ہی نہیں چلا کے اُس نے کب میری خوبصورتی کی تعریفیں کرتے ہوئے مجھ سے پوچھ لیا کے اُس کے ساتھ سیکس کرتے ہوئے مجھے مزہ آیا تھا تو میں نے بھی جواب میں غیر ارادی طور پر کہہ دیا کے بہت مزہ آیا تھا۔ میری خواہش میرے منہ سے نکل چُکی تھی۔ وہ میری کیفیت جان چُکا تھا۔

اسی لیئے اب وہ میرے ممّوں اور چوت کا نام لے لے کر ان کی تعریفیں کر رہا تھا وہ میرے بدن کی نرمی اور گانڈ کی گولائیوں کا ذکر کر رہا تھا۔ اور میرا بدن سنسنانے لگا۔

 میرے دماغ میں ایک بار پھر وہ سارا واقعہ گھومنے لگا۔ اُس دن مجھے حاصل ہونے والی لذت میرے جسم میں بس گئی تھی۔ اور اُسی لذت کا احساس وہ مجھے اپنی باتوں سے دلا رہا تھا۔ میں اس کی باتوں کے جال میں اُلجھ گئی اور وہ اس کا بھرپور فائدہ اُٹھانا چاہتا تھا اور اب تک وہ اس میں کامیاب بھی تھا۔ وہ میری چوت میری گانڈ اور میرے ممّوں کا نام مزے لے کر لے رہا تھا۔ اور میرا جسم سُلگ رہا تھا۔ میں بھی اُسے روک نہیں رہی تھی

 یہی وجہ تھی کے اُس نے ہمت کر کے مجھ سے پوچھ لیا کے میں دوبارہ اُس سے ملنا چاہوں گی کے نہیں۔

 یہ میرے لیئے خلافِ توقع نہیں تھا مجھے اندازہ تھا کے وہ ایسا سوال کرنے ہی والا ہے۔ میں نے اس کا کوئی جواب نہیں دیا، تو اُس نے دوبارہ اسے دُہرایا اور پوچھا کے میں کب اُس سے مل سکتی ہوں۔ میں اُسے کہنا چاہتی تھی کے یہ مُناسب نہیں پر الفاظ نے میرا ساتھ نہیں دیا۔

اور میرے منہ سے نکل گیا دیکھتے ہیں کب موقع ملتا ہے۔

میں خُود حیران تھی کے اُس کیلئے جس نے میرے گھر کی دولت اور عزت کو لُوٹا میرا رویہ انتہائی محبت بھرا اور رحمدلانہ کیوں تھا۔ حالانکہ اُس نے مجھ پر کوئی رحم نہیں کیا تھا جب میں اُس سے رحم کی التجائیں کر رہی تھی۔ اُس نے میرے گڑگڑانے میرے بندھے ہاتھوں اور میرے رونے کی بھی پرواہ نہیں کی تھی ۔ لیکن اُس کیلئے میری بھوک اور میری ہوس نے مجھے ایک بار پھر تھپکی دی کہ اچھا ہی کیا کہ اُس نے میری بات نہیں مانی ورنہ میں ساری زندگی اس حاصل ہونے والی لذت سے محروم رہتی۔

میں آج سوچتی ہوں کے ایسی کتنی خواتین یا مرد ہوں گے جو اپنی پوری زندگی میں صرف ایک ہی لن سے یا چوت سے گُذارا کرتے ہیں۔ شائید بہت ہی کم ہوں گے یا شائید کوئی ہو ہی نہ، اگر کوئی ہونگے بھی تو میری طرح وہ بھی یہی سوچتے ہونگے کے جو سیکس وہ کر رہے ہیں اور جو لذت وہ پاتے ہیں وہی سیکس کی انتہا ہے لیکن چونکہ انہوں نے کسی دوسری جگہ سے لذت نہیں پائی تو اسی لیئے وہ اپنے ہی خیال میں پکّے ہونگے۔ ہمارے ہاں عام خیال یہ ہے کے سب ہی لوڑے یا چوتیں ایک جیسی ہی ہوتی ہیں تو ظاہر ہے مزہ اور لذت بھی ایک سی ہی ہو گی۔

لیکن میرے تجربہ میں آیا تھا کہ تقریباً ایک ہی سائز کے دو مختلف مردوں کے لوڑوں سے مجھے حاصل ہونے والی لذت مختلف تھی۔ کیونکہ دونوں کا انداز اپنا تھا۔ ایک طرف آرام اور سکون جبکہ دوسری طرف سنگدلانہ جنون تھا۔

اور دونوں کا مزہ اپنا تھا۔ انسانی فطرت ہے کے جو چیز دسترس میں ہوتی ہے اُس کی نسبت اُس چیز کیلئے انسان زیادہ پاگل ہوتا ہے جو دسترس سے ذرا باہر ہو۔ اور اُسے پا لینے کی خواہش انسان کو ہمیشہ بیقرار رکھتی ہے۔ سکون تب ہی آتا ہے جب انسان اُسے پا لیتا ہے۔ لیکن شرط یہ ہے کے انسان کو اُس چیز کی قدر اور ویلیو کا پتہ ہو۔ میری بیقراری بھی فطری تھی اسی لیئے میرے الفاظ میری عام سوچ سے متصادم تھے۔
مجھے جو کرنا چاہیئے تھا میں اُس کے بالکل برعکس کہہ اور کر رہی تھی۔ میرے خیالات اور سوچ کا سلسلہ اُس وقت ٹوٹا جب اُسے کہتے سُنا کے کب تک ہم مل سکتے ہیں۔ وہ بار بار پوچھ رہا تھا۔

اور میں کچھ کہہ نہیں پا رہی تھی۔ اس کا بڑھتا اصرار دیکھ کر میں نے کہا کہ میں ایک شادی شُدہ عورت ہوں اور میرا ایک بچہ بھی ہے میرے لیئے آسان نہیں کے میں ابھی تمہارے پاس آجاؤں۔ میں کہہ چُکی ہوں کے جب بھی موقع ملے گا مل لیں گے۔

 وہ مجھ سے زیادہ بیقرار تھا۔ لیکن بات اس کی سمجھ میں آگئی تو اس نے ادھر اُدھر کی باتیں کرنی چاہیں تو میں نے معذرت کر لی کے ہماری بات پہلے ہی کافی لمبی ہو گئی ہے اس لیئے بعد میں بات کرنے کا کہہ کر فون کاٹ دیا۔

وہ سمجھا شائید میں نے ناراض ہو کر فون کاٹا ہے اسی لیئے اُس نے فوراً دوبارہ کال ملا دی۔ میں نے اُسے بتایا کے ناراض نہیں ہوں پر مجھے گھر کے کام بھی کرنے ہیں اس لیئے بات ختم کی ہے۔ اس نے کل دوبارہ بات کرنے کا وعدہ لیا اور فون کاٹ دیا۔


ایک تبصرہ شائع کریں (0)
جدید تر اس سے پرانی

Featured Post