میں نے بھی کوئی مزاحمت نہ کرتے ہوئے قمیض اُتارنے میں اس کی مدد کی۔ وہ میرے فلیٹ پیٹ کے تھوڑی اوپر میری چھاتی کے گول گول ابھاروں کو للچائی نظروں سے دیکھ رہا تھا
اس کے منہ سے نکلتی رال مجھے صاف نظر آ رہی تھی ۔
اس نے جلدی جلدی میری برا کی ہُک اتاری اور پھر اتنی ہی تیزی سے اپنی قمیض اُتار کر میرے مموں پر کسی بھوکے بھیڑیئے کی طرح جھپٹ پڑا، وہ میرے پستانوں اور پیٹ پر کاٹ دانتوں سے کاٹ رہا تھا اور میں درد اور لذت کے احساس سے سسک پڑی۔
اس کا کاٹنا دھیرے دھیرے شدید ہو رہا تھا اور میری سسکیاں بلند ہو رہی تھیں۔ درد کی شدت لذت پر ہاوی ہوئی تو میں نے اسے روک دیا اور اسے بتایا کہ مجھے درد ہو رہی ہے۔ وہ بھی میری بات کو سمجھ گیا اور اس نے دانتوں سے کاٹنا آہستہ کر دیا۔
پھر مجھے کھڑا کر کے شلوار اُتارنے کو کہا تو میں نے بلا تامل شلوار اُتار کر سائیڈ میں اچھال دی۔ وہ بھی شلوار اُتار چُکا تھا اب ہم ایک دوسرے کے سامنے بالکل ننگ دھڑنگ کپڑوں کی فکر سے آزاد کھڑے تھے۔
اس کا جارحانہ پن مجھ پر حاوی تھا اور یہی جارحیت ہی تھی جس نے مجھے اس سے دوبارہ سیکس پر آمادہ کیا تھا۔ بلکہ یوں کہنا زیادہ مناسب ہوگا کہ اس کی سیکس میں جارحیت میرے اعصاب پر سوار تھی۔ آج میرے سامنے بلکل ننگ دھڑنگ کھڑا تھا اور میں ایک بار پھر اس جارحانہ سیکس کا مزہ لینے کیلئے اس کے سامنے کپڑوں سے آزاد پوری طرح تیار تھی۔
وہ تھوڑا سا میری جانب سرکا تو اس کے تنے ہوئے لن کا سر میری ران سے ٹکرا گیا۔ جس سے میرے پورے وجود میں ایک لہر سی سرایت کر گئی۔
اُس نے مجھے اپنی بانہوں کے حصار میں جکڑتے ہوئے ایسے اپنے سینے سے لگایا جیسے ماں اپنے نومولود کو سینے سے لگاتی ہے۔ میرے ممے اُس کے سینے میں پیوست ہو رہے تھے۔ جبکہ اُس کا لن میری رانوں کے درمیان
رگڑ کھا رہا تھا۔ ہم دونوں ایک دوسرے سے ایسے چپک گئے تھے جیسے ہم اپنے جسموں کے درمیان میں سے ہوا کو بھی گُذرنے سے روک لینا چاہتے ہوں۔ ہم دونوں ہی ایکدوسرے کی پُشت پر ہاتھ پھیر رہے تھے جبکہ ہم دونوں کے ہونٹ آپس میں پیوست تھے۔ وہ اپنے ہاتھوں کو میری پُشت پر پھیرتے ہوئے نیچے لے جاتا اور میری گانڈ کو زور سے دباتا اور پھر گانڈ پر ایسے تھپڑ لگاتا کہ میرا دل چاہتا وہ ایسے ہی مجھے اُلٹا لٹا کر گانڈ پر تھپڑ لگاتا رہے۔
میرے جسم میں اُٹھنے والی لہریں تیزی پکڑ چُکی تھیں یہی وجہ تھی کہ میں بھی اس کے ہونٹ چوستے ہوئے اُس کے جسم کے مقابل اپنے جسم کو اس سے رگڑ رہی تھی۔
اس کے ہلنے سے جب اس کا لن میری دائیں بائیں ران سے ٹکراتا تو میں بھی جسم کو اپنے پنجوں پر اُٹھا کر چوت کو اس کے لن سے رگڑنے کی کوشش کرتی، کچھ ہی دیر بعد اُس نے میرے جسم کو ہر طرف سے چومنا اور چاٹنا شروع کر دیا۔ میں مکمل اس کا ساتھ دے رہی تھی۔ وہ جب بھی میرے جسم کے کسی حصے کو چومتے ہوئے آہستہ سے اپنے دانتوں سے کاٹتا تو درد کی میٹھی ٹیسیں میرے ہیجان کو بڑھا دیتیں۔
میں دیوانگی کی سی کیفیت میں تھی اور اپنے چہرے کو اُس کے کشادہ سینے پر رگڑ رہی تھی۔
اس نے مموں کو چوستے ہوئے نپلز کو دانتوں میں دبایا تو میں سسک کر رہ گئی۔ اور اس کا بار بار ایسا کرنا میری سسکیوں کو بڑھا رہا تھا۔ وہ مجھ پر حاوی تھا اور میرا وجود مکمل طور پر اس کے کنٹرول میں تھا۔
میں نے خود کو اس کے سپرد کر دیا۔ وہ جیسے بھی میرے جسم سے کھیلنا چاہتا تھا اسے میری طرف سے بھرپور تعاون مل رہا تھا۔ اب اس کا ایک ہاتھ میری چوت کو ٹٹول رہا تھا اور دوسرے سے وہ میرے ممے کی نپل کو مسل رہا تھا جبکہ میرے دوسرے ممے کو اس نے منہ میں لے رکھا تھا۔ درد اور لذت میری سانسوں کو بےترتیب کر رہے تھے۔ وہ اپنی انگلیوں سے چوت کی پرتوں کو چھیڑ رہا تھا۔
اور ہر بار جب وہ چُٹکی لیتا تو درد کی لہر پورے وجود کو ہلا دیتی، لیکن اس درد میں جو مزہ ہوتا وہ ایسے کئی گُناہ درد کو برداشت کرنے کیلئے کافی ہوتا۔
میں گانڈ اُٹھا اُٹھا کر چوت کو اس کے ہاتھ سے دیوانوں کی طرح رگڑنے کی کوشش کرتی۔ ابھی تک وہ میری چوت کے اوپر ہی ہاتھ سے مساج کر رہا تھا۔ وہ ہاتھ کو چوت کے نیچے سے اوپر لاتا تو اس کی درمیانی اُنگلی میری چوت کے دونوں لبوں کے درمیان سفر کرتی۔
اچانک ایسا کرتے ہوئے اُس نے اپنی اُنگلی کو چوت کے سوراخ کے اندر داخل کر دیا۔
میں ایک جھرجھری لے کر رہ گئی۔ اور پھر وہ تیزی سے اُنگلی کو اندر باہر کرنے لگا۔ جوش سے میرا سارا وجود کانپ رہا تھا۔ میری بیتابی بہت بڑھ چُکی تھی۔ لیکن شائید وہ میرے وجود سے مزید کھیلنا چاہتا تھا۔
اس نے رُک کر مجھے ایک معمولی دھکے سے صوفے پر گرا دیا۔
اور خود میرے بالکل مقابل تن کر کھڑا ہو گیا۔ میری حالت کسی زخمی فاختہ کی سی تھی۔ سانسیں اکھڑی ہوئی میں اسے ہی دیکھ رہی تھی کہ اس نے اپنا ایک پاؤں صوفے پر رکھا اور اپنے لن کو میرے منہ کے قریب لاتے ہوئے مجھے بالوں سے پکڑ کر اس نے میرے سر کو لن کی طرف جھٹکا دیا تو میرے ہونٹ اس کے لن پر جا ٹکے۔
میں اس کے لن کا مزہ پہلے بھی چکھ چُکی تھی۔ اور آج دوبارہ اسی ذائقے کو پانے والی تھی۔ میں نے اس کے ارادوں کو جانتے ہوئے منہ کھول دیا اور اس نے بھی بلاتوقف لن منہ کے اندر ڈال دیا۔ لن منہ میں آتے ہی میں نے اسے بھرپور طریقے سے چُوسنا شروع کر دیا۔ وہ میری اس بےصبری پر مُسکرا دیا اور میں لن چوستے ہوئے نظریں اُٹھائے اس کی مسکراہٹ بخوبی دیکھ رہی تھی۔ وہ ایک فاتح کی طرح کھڑا تھا اور میں اس کی مفتوح داسی بنی ہوئی تھی۔ لن کے سر پر اپنی زبان پھیرتے ہوئے میں نے ہونٹوں کو گولائی میں سکیڑا اور اُس کے لن کو اپنے ہونٹوں کے حصار میں لے لیا۔
اُس کا لن میرے ہونٹوں کی گرفت میں تھا جبکہ میری زبان اُس کے لن کے سر پر تیزی سے گھوم رہی تھی۔ میں نے زبان کی نوک سے اس کے لن کے سوراخ کو چھیڑا تو وہ مزے سے کراہے بنا نہ رہ سکا۔
اُس کے مُنہ سے گرم سانسوں کے ساتھ نکلنے والی ایک لمبی آآآآآہہہہہہہ مجھے مسحور کر گئی۔
میں دیوانگی کے عالم میں تھی اور پورے جوش سے اس کے لن کو چوسے جا رہی تھی۔ پہلے تو وہ کھڑا تھا لیکن پھر جیسے اُس نے میرے مُنہ میں چودنا شروع کر دیا وہ اب میرے مُنہ میں اپنے لن کو اندر باہر دھکیل رہا تھا۔ میں نے بھی اپنے ہونٹوں کی گرفت کو اس کے لن پر کمزور نہیں پڑنے دیا۔ وہ لن کو مُنہ کے اندر دھکیلتا تو اس کے لن کا سر مجھے اپنے حلق سے نیچے اترتے ہوئے محسوس ہوتا۔ جس سے میری سانس رک جاتی۔ غررر غرررر کی آوازیں میرے حلق سے خارج ہوتیں۔
میرے گال ٹھوڑی اور گردن میرے مُنہ سے نکلنے والے تھوک سے لتھڑے ہوئے تھے۔ اُس کا لن مجھے اتنا مزا دے رہا تھا کہ مجھے ذرہ بھر بھی کراہت نہیں ہو رہی تھی۔ بلکہ مجھے افسوس ہوتا کہ لن کے چوسنے کے اس مزے سے میں نا آشنا رہتی اگر اس ……ڈکیت سے واسطہ نہ پڑتا تو
اس کا لن میرے مُنہ میں تیزی سے اندر باہر ہو رہا تھا اور میں پوری طرح اس سے لُطف اندوز ہو رہی تھی۔ وہ کسی مشین کی طرح تیزی سے اپنے لن کو میرے مُنہ کے اندر باہر کر رہا تھا۔
اگرچہ میں چُوت میں چدوانے کیلئے بیقرار ہوئی جا رہی تھی لیکن یہ لن چوسنے کا مزا بھی کچھ کم نہیں تھا۔ میرے ہونٹوں اور زبان پر اس کے لن کا رگڑ کھاتے ہوئے میرے حلق تک جانا اور پھر ویسے ہی واپس آنا میرے ہیجان اور دیوانگی کو آسمان کی بلندیوں تک لے آیا تھا۔ میں ان احساسات کو لفظوں میں بیان نہیں کر سکتی، شائید ان احساسات کو بیان کرنے کیلئے ایسے لفظ ہماری لغت میں موجود ہی نہیں۔ میں مزے اور سرور سے سرشار ہوئی جا رہی تھی۔ میری چوت اندر سے گیلی ہو کر اب قطرہ قطرہ آنسو بہاتی جا رہی تھی اور کچھ دیر میں ہونے والی چدائی کا تصور کر کے باقاعدہ جھرجھریاں لے رہی تھی۔ میں نے اس ڈکیت کا لن اپنے منہ میں لے رکھا تھا اور وہ میرے بال پکڑ کر اس طرح لن اندر باہر کر رہا تھا جیسے منہ نہیں میری چوت ہو۔
چوت کی آگ جب ناقابل برداشت ہو گیئ تو میں نے اس کا لن منہ سے نکالا اور چاہا کہ وہ میری چوت میں اپنا لن ڈال کر میری چوت کو بےرحمی سے چود چود کر میری چوت کی دھجیاں اڑا دے مگر اس کا دل نہیں بھرا تھا۔ اس نے ایک زوردار تھپڑ میرے گال پر مارا اور گرج کر بولا
“چل کتیا اچھی طرح چوس اسے اور”
اس نے پھر سے اپنا لن میرے منہ میں ٹھونس دیا اور پھر سے تابڑ توڑ حملہ شروع کردیا۔ چوت کی آگ بھی کیا کیا کرواتی ہے۔ مجھے اس کی گالی کھا کر بڑا مزہ آیا۔ مجھے آج تک میرے شوہر نے گالی تو ایک طرف کبھی کوئی برا لفظ تک نہیں کہا تھا مگر اس ڈکیت کا یہی جارحانہ انداز تو مجھے اس کی غلام بنا چکا تھا۔
میں بھی پوری رغبت سے لن چوس رہی تھی اور جب میں اس کی لن پر زبان پھیرتی تو اس کی رفتار تیز ہو جاتی۔ کچھ دیر بعد مجھے ایسے محسوس ہوا جیسے اس کے لن کی موٹائی کچھ بڑھ گیئ ہو مگر میں نے چوسنا اور اس نے میرا منہ چودنا جاری رکھا اور ایک زوردار جھٹکے کی ساتھ اس کا لن کا سر میرے حلق سے نیچے اترا ہی تھا کہ اس کی اندر سے گرم گرم گاڑھے پانی کا فوارہ نکلا اور میرے حلق کو سیراب کرنے لگا۔
اف کیا ذائقہ تھا ظالم کے پانی کا ہلکا سا نمکین جو مجھے بہت بھلا لگا اور میں نے چاہا کہ پورا پی جاؤں مگر اس کا اخراج اس قدر زیادہ تھا کہ کچھ تو میں پی گیئ اور کچھ میرے منہ سے بہہ گیا جسے میں نے انگلیوں سے اکٹھا کیا اور انگلیاں چاٹ کر صاف کر دیں۔
اس کا لن جو پہلے اکڑا ہوا تھا اب مرجھا گیا تھا۔ اس نے مجھے صوفے پر اس طرح لٹایا کہ میرا اوپری دھڑ صوفے پر تھا اور میری گانڈ صوفے کی بازو پر۔ میرا اوپری دھڑ نیچے تھا میری ٹانگیں ہوا میں تھیں اور اس نے نیچے بچھے قالین پر بیٹھ کر میری ٹانگوں کو رانوں سے پکڑ کر اپنا منہ میری چوت سے لگا دیا۔
میں مستی اور سرور کی انتہا پر تھی۔ اس قدر مزے کا میں نے کبھی تصور بھی نہیں کیا تھا۔
پہلے تو وہ اپنے ہونٹوں سے میری چوت کے پھولے ہوئے لبوں کو جکڑ کر کھینچتا اور میری چوت کی دانے پر زبان پھیرتا رہا اور پھر اس نے اپنی زبان میری چوت میں ڈال کر انتہائی تیزی سے اندر باہر کرنا شروع کر دی۔
میں نے اس کے سر کو اپنے ہاتھوں سے جکڑ لیا تھا اور مزے سے بےحال ہو کر اپنی گانڈ اٹھا کر اپنی چوت کو اس کی جانب دھکیل رہی تھی۔ کچھ دیر تو یہ سلسلہ جاری رہا مگر جب اس نے چوت چاٹنے کے ساتھ اپنی انگلیوں سے میری چوت کی دانے کو مسلنا شروع کیا تو میری برداشت سے باہر ہو گیا اور میرے جسم کو جھٹکے لگنا شروع ہو گئے۔ مجھے یوں لگ رہا تھا جیسے سارے بدن سے مزے کی لہریں اٹھ اٹھ کر میری چوت کی جانب سفر کرنے لگی ہیں اور میرے پھڑپھڑاتے جسم تیز سانسوں اور بے ربط آوازوں سے اسے بھی شاید مزا آنے لگا اور اس نے اپنی زبان اور تیز رفتاری سے چلانی شروع کردی اور اچانک ہی میری چوت نے ہار مان لی اور ایک زوردار چیخ کے ساتھ پانی کا فوارہ خارج کردیا جس نے ڈکیت کے چہرے میری رانوں اور صوفے کو بھگو دیا۔ اس سے پہلے میرے ساتھ کبھی ایسا نہیں ہوا تھا اور نہ کبھی اتنے پریشر سے انزال ہوا تھا۔
میرے جسم میں سے جیسے جان ہی نکل گیئ تھی۔ میں بےدم پڑی تھی اور وہ لپالپ میری چوت سے نکلتا رس پی رہا تھا۔
پھر وہ پیچھے ہوا اور کھڑے ہو کر اس نے میری دائیں ٹانگ کو پکڑ کر اوپر کیا اور میری ٹانگوں کے درمیان آ کر اس نے اپنا لوہے کی طرح سخت لن میری چوت کے لبوں میں پھنسا کر پوری قوت سے ایک جھٹکا لگایا اور اپنا لن جڑ تک میری چوت میں گھسا دیا۔
اس اچانک حملے سے میرے لبوں سے ایک چیخ نکل گیئ مگر اس پر کوئی اثر نہ ہوا اور اس نے پوری شدت سے مجھے چودنا شروع کردیا۔ وہ انتہائی برق رفتاری سے اپنا لن میرے اندر باہر کر رہا تھا۔ اور ہر بار جب پورا اندر جاتا تو ایک تھپ کی آواز آتی اور میری کراہ نکل جاتی۔
مگر اسے رحم نہیں آتا تھا اور وہ اور شدت سے دھکے لگاتا۔ کمرے میں تھپ تھپ اور پچ پچ کی آوازیں گونج رہی تھیں اور میری سانسیں بے ربط ہو چلی تھیں اور مزے کےمارے میری سسکیاں اور چیخیں نکل رہی تھیں جو اس کے جوش میں اضافہ کر جاتیں۔
کچھ ہی دیر میں جب مجھے محسوس ہوا کہ میرا پانی پھر سے خارج ہونے والا ہے تو میں نے بھی اپنے بدن کو اس کے دھکوں کے ساتھ ساتھ ہلاانا شروع کر دیا مگر جب کنارہ ایک ہاتھ رہ گیا تو اس نے اپنا لن باہر نکال لیا۔
میں بالکل فارغ ہونے ہی والی تھی اور میں نے بے اختیار اپنی انگلیاں اپنی چوت میں ڈالنی چاہیں مگر اس نے میرا ہاتھ پکڑ کر پیچھے کیا اور بولا
ایسے نہیں۔
میں اس کی منتیں کرنے لگی کہ وہ ایک بار پھر سے لن میری چوت کے اندر ڈال دے اور مجھے بھرپور انداز سے چود ڈالے مگر وہ مان کے نہیں دے رہا تھا۔
میرے بہت زیادہ اصرار پر اس نے صوفے پر بیٹھ کر مجھے کھینچ کر اپنی گود میں الٹا لٹا لیا اور میرے بھاری کولہوں پر تھپڑ لگانے لگا۔ اس کے ہر تھپڑ پر مجھے شدید جلن ہوتی اور میری آنکھوں سے پانی بہنے لگا اور میں اس کی منتیں کرنے لگی کہ
پلیز بس کر دو
مگر اس نے تب تک بس نہیں کی جب تک طمانچے مار مار کر میری ہپ کو لال سرخ نہ کر دیا۔
کچھ دیر کے بعد اس نے مجھے فرش پر بچھے نرم قالین پر کتیا بننے کو کہا۔
جب میں سمجھی نہیں تو اس نے مجھے الٹا لٹا کر اپنے ہاتھوں سے مجھے کتیا بنا دیا اور میرے پیچھے آ کر اپنا لن میری چوت میں گھسیڑ کر دھکے لگانے لگا۔
اس انداز میں چوت کافی تنگ محسوس ہوتی ہے اور جب اس کا لن میری چوت کی دیواروں سے رگڑ کھاتا ہوا پھنس پھنس کر اندر باہر ہونے لگا تو میرے مزے کی انتہا نہ رہی۔
پھر اس نے مجھے چودنے کے ساتھ ساتھ میرے کولہوں پر زور سے تھپڑ لگانے شروع کر دیئے۔
اب میرے کولہے تقریباً سن ہو چکے تھے اور درد کا احساس نہ ہونے کے برابر تھا اور ایک ناقابلِ بیان مزا تھا جو میرے بدن میں دوڑ رہا تھا۔
اور میں اس کے دھکوں کے ساتھ اپنے کولہے ہلا ہلا کر چدوانے لگی۔ کچھ ہی دیر میں مجھے لگا کہ میرا پانی خارج ہونے والا ہے اور اچانک ہی میرے منہ سے ایک چیخ نکلی اور میری چوت میں سیلاب آ گیا۔
ابھی میں مزے کی انتہا پر تھی کہ ایک دم مجھے ایک انتہائی تیز درد کی لہر نے جھنجھوڑ دیا پر میں درد کے مارے چیخنے لگی اور اسے کہنے لگی
پلیز باہر نکالو اسے۔
دراصل اس ڈکیت نے میرے انزال کے دوران ہی اپنا لن میری چوت سے نکال کر میری کنواری گانڈ میں ڈال دیا تھا
جو مجھے یوں لگ رہا تھا جیسے کسی نے لوہے کی سلاخ ڈال دی ہو۔ مجھے مرچیں لگ رہی تھیں اور میں روتے ہوئے اس کی منت سماجت کر تھی مگر وہ انتہائی وحشیانہ پن سے میری گانڈ بجا رہا تھا اور اس کے دل میں زرہ بھر بھی رحم نہیں تھا۔ درد سے میری جان نکلی جا رہی تھی۔ میری آنکھوں سے آنسو بہہ رہے تھے اور میرے منہ سے اس کے لئے گالیاں نکل رہی تھیں مگر اس پر کی اثر نہیں تھا بلکہ میری چیخیں اور گالیاں جلتی پر تیل کا کم کرتے اسے مزید تیزی سے چدائی پر اکسا رہی تھیں اور وہ وحشیانہ انداز سے غراتا ہوا مجھے چودنے لگا۔
کچھ دیر بعد مجھے درد کم ہوتا محسوس ہوا اور آہستہ آہستہ درد کی جگہ ایک انوکھے سے مزے کا احساس ہوا۔ اب درد تو تھا مگر مزا بھی آ رہا تھا۔ میری گانڈ کی گرمی اور تنگی نے زیادہ دیر ڈکیت کے لن کو چودنے نہیں دیا اور تین چار منٹ میں مجھے اس کا لن اپنی گانڈ میں پھولتا ہوا محسوس ہوا اور اس کے منہ سے اونہہ کی آواز نکلی اور اس کے لن نے ہار مان لی اور اپنے گرم پانی کا چھڑکاؤ کر کے میری گانڈ کو سیراب کر دیا۔ اس کا لن مجھے واضح طور پر سکڑتا محسوس ہوا اور جب اس نے باہر نکالا تو میری بنڈ سے اس کا پانی باہر بہنے لگا جس میں میرے خون کی سرخی بھی تھی۔
میری گانڈ پھٹ کر سوج چکی تھی مگر مجھے اس ڈکیت پر پیار آ رہا تھا۔ اس کی جارحیت اور وحشی چدائی مجھے اپنی لونڈی بنا گیئی تھی۔
میں نے اٹھنا چاہا تو بنڈ میں ایک درد کی ٹیس اٹھی اور اس نے مجھے اٹھا کر اپنی بانہوں میں بھرا اور واش روم میں لے جا کر نیم گرم پانی سے میری بنڈ دھو کر مجھے پین کلر گولیاں کھلا دیں۔
درد اب بھی تھا مگر قابلِ برداشت تھا۔ میں نے چائے بنائی اور چائے پی کر وہ رخصت ہو گیا مگر جانے سے پہلے اس نے مجھ سے پوچھا
پھر کب ملو گی
تو میں نے کہا کہ جب موقع ملا۔
اس کے بعد گاہے بگاہے ہم ملتے رہے اور وہ میری پیاس بجھاتا رہا۔
کوئی تین سال تک یہ سلسلہ چلا
اور پھر اچانک ہی اس نے ایک دن بتایا کہ اسے سعودی عرب میں جاب مل گیئی ہے اور وہ ایک ہفتے بعد جا رہا ہے۔
جانے سے پہلے وہ مجھے ملنا چاہتا تھا مگر مجھے اس کا موقع نہ مل سکا اور اب اس ڈکیت کے ساتھ گزرے وقت کی یادیں ہی رہ گئی ہیں۔
میرے شوہر میرا بڑا خیال رکھتے ہیں مگر مجھے رہ رہ کر اس ڈکیت کی چدائی یاد آتی ہے۔ کبھی کبھی سوچتی ہوں کہ کیا پیار ایک ہی وقت میں دو جگہ بھی ہو سکتا ہے؟